• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اسلام میں خادموں کے حقوق اور نبی ﷺ کا ان سے برتاؤ

مقبول احمد سلفی

سینئر رکن
شمولیت
نومبر 30، 2013
پیغامات
1,391
ری ایکشن اسکور
453
پوائنٹ
209
اسلام میں خادموں کے حقوق اور نبی ﷺ کا ان سے برتاؤ

تحریر: مقبول احمد سلفی /جدہ دعوہ سنٹر، حی السلامہ -سعودی عرب


اللہ رب العزت نے محمد ﷺ کی ذات گرامی کو ساری انسانیت کےلئے رحمت بناکر بھیجا ہے ، آپ ﷺ کی مکمل زندگی رحمت و شفقت سے عبارت ہے ۔ آپ ﷺ بات چیت ، لین دین، کام و کاج ، اور جملہ قسم کے معاملات میں حسن تعامل سے پیش آتے تھے ، آپ کی زندگی میں اللہ نے بہترین اسوہ رکھا ہے اس اسوہ کا عکس و پرتو ہمیں مکی و مدنی دونوں دور میں بدرجہ اتم وبانتہائے کمال نظر آتا ہے ۔
اس تحریر میں نبی کریم ﷺ کی ذات گرامی کے اس پہلو کو جانیں گے کہ اپنے خادموں کے ساتھ آپ کا برباؤ کیسا تھا؟ اس موضوع سے متعلق کتاب وسنت میں تین قسم کے لوگوں کا تذکرہ ہے جن میں کئی قسم کے فرق ہیں تاہم ان تینوں کا تعلق کام و خدمت سے ہے اس لئے میں تینوں قسم کے نصوص کو منجملہ اس مضمون میں درج کروں گا تاکہ خدمت گاروں کے ساتھ حسن تعامل کا عنصر آپ کے سامنے آسکے ۔
ایک ہے غلام ولونڈی جو جنگوں میں مال غنیمت کے طور پرمسلمانوں کے ہاتھ آتے ہیں ، یہ آزاد نہیں ہوتے بلکہ اپنے مالک کے غلام ہوتے ہیں ۔ دوسرا ہے خادم جواجرت پر یا بطور احسان بغیر غلامی کے کسی کی خدمت پر مامور ہو ۔ تیسرا ہے مزدور جو محدود وقت کے لئے اجرت پر کسی کا کوئی کام یا کوئی خدمت انجام دیتا ہے۔
ان تینوں کا سماج کے خدمت گاروں میں شمار ہوتا ہے اور اس وقت غلامی کا دور نہیں ہے جبکہ دو قسم کے خدمت گار (خادم و مزدور)تو ہمیشہ رہیں گے ۔ان کے تعلق سے پہلے آپ کے سامنے تعلیمات محمدیہ کی روشنی میں سے خادموں کے حقوق پیش کرتا ہوں پھر آپ ﷺ کا عملی نمونہ پیش کروں گا۔
(1) جو خادم اجرت پر مامور ہو اس کی طے شدہ اجرت کی ادائیگی میں تاخیر نہ کی جائے بلکہ وقت پر ادا کردی جائے۔ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
أعطوا الأجيرَ أجرَهُ قبلَ أن يجفَّ عرقُهُ(صحيح ابن ماجه:1995)ترجمہ:مزدور کو اس کا پسینہ سوکھنے سے پہلے اس کی مزدوری دے دو۔
(2) خادموں کی طے شدہ اجر ت نہ دینا یا اس میں کمی کرنا قیامت میں اللہ کی ناراضگی کا سبب ہے ، ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے روایت کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بتلایا:
قالَ اللَّهُ تَعالَى: ثَلاثَةٌ أنا خَصْمُهُمْ يَومَ القِيامَةِ، رَجُلٌ أعْطَى بي ثُمَّ غَدَرَ، ورَجُلٌ باعَ حُرًّا فأكَلَ ثَمَنَهُ، ورَجُلٌ اسْتَأْجَرَ أجِيرًا فاسْتَوْفَى منه ولَمْ يُعْطِهِ أجْرَهُ.(صحيح البخاري:2270)
ترجمہ: اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ تین قسم کے لوگ ایسے ہیں کہ جن کا قیامت میں میں خود مدعی بنوں گا۔ ایک تو وہ شخص جس نے میرے نام پہ عہد کیا اور پھر وعدہ خلافی کی۔ دوسرا وہ جس نے کسی آزاد آدمی کو بیچ کر اس کی قیمت کھائی اور تیسرا وہ شخص جس نے کسی کو مزدور کیا پھر کام تو اس سے پورا لیالیکن اس کی مزدوری نہ دی۔
(3)بعض خدمت گاروں کا کام متعین ہوتا ہے جبکہ بعض کا کام متعین نہیں ہوتا ہے تاہم اسلام ہمیں حکم دیتا ہے کہ خادموں کو ان کی طاقت سے زیادہ بوجھ والا کام نہ دو ، اگر بوجھل کام اپنے نوکروں کے ذمہ دیتے ہیں تو ہمیں ان کی مدد کرنا چاہئے ۔ ابوذر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
إخوانُكم جعلَهمُ اللَّهُ فتيةً تحتَ أيديكم فمن كانَ أخوهُ تحتَ يدِهِ فليطعمْهُ من طعامِهِ وليلبسْهُ من لباسِهِ ولاَ يُكلِّفْهُ ما يغلبُهُ فإن كلَّفَهُ ما يغلبُهُ فليعنْهُ(صحيح الترمذي:1945)
ترجمہ:تمہارے خادم تمہارے بھائی ہیں، اللہ تعالیٰ نے ان کو تمہارے زیر دست کر دیا ہے، لہٰذا جس کے تحت میں اس کا بھائی (خادم) ہو، وہ اسے اپنے کھانے میں سے کھلائے، اپنے کپڑوں میں سے پہنائے اور اسے کسی ایسے کام کا مکلف نہ بنائے جو اسے عاجز کر دے، اور اگر اسے کسی ایسے کام کا مکلف بناتا ہے، جو اسے عاجز کر دے تو اس کی مدد کرے۔
(4)مذکورہ بالا حدیث سے ایک اہم بات یہ معلوم ہوتی ہے کہ خادم ونوکرہمارے بھائی ہیں ان کے ساتھ ہمیں بھائی چارگی کا معاملہ کرنا چاہئے اور ایسے برتاؤ وسلوک سے بچنا چاہئے جو ماتحتوں کو ناگوار گزرے ۔
(5)ہمیں اپنے خادموں کے ساتھ حسن تعامل سے پیش آنا چاہئےیعنی ان کے ساتھ معاملہ کرتے وقت اخلاق وکردار اعلی رکھنا چاہئے حتی کہ خادم وغلام کا سلوک برا ہو تب بھی ہمیں اپنا اخلاق بلند رکھنا چاہئےاور عفوودرگزر سے کام لینا چاہئے ۔ نبی ﷺ کافرمان ہے :إنْ أحسَنوا فاقبَلوا ، وإنْ أساؤوا فاعفُوا ، وإنْ غلَبوكُم فَبيعوا(صحيح الترغيب:2283)
ترجمہ: اگر غلام تمہارے ساتھ اچھا سلوک کرے تو قبول کرو اور برا سلوک کرے تو معاف کردو اور وہ تم پر غالب آجائے تو بیچ دو۔
(6) جب غلام و خادم سے کسی کام میں غلطی سررز ہوجائے تو اس کو معاف کردینا چاہئے ، معاف کرنے کے لئے ہمارا دل اس قدر کشادہ ہو کہ دن میں ستر ستر مرتبہ بھی معاف کرسکیں ۔ عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں:
جاءَ رجلٌ إلى النَّبيِّ صلى الله عليه وسلم فقالَ: يا رسولَ اللَّهِ كم أعفو عنِ الخادمِ فصمتَ عنه رسولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ثمَّ قالَ يا رسولَ اللَّهِ كم أعفو عنِ الخادمِ فقالَ: كلَّ يومٍ سبعينَ مرَّةً( صحيح الترمذي:1948)
ترجمہ: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک آدمی نے آ کر پوچھا: اللہ کے رسول! میں اپنے خادم کی غلطیوں کو کتنی بار معاف کروں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس شخص کے اس سوال پر خاموش رہے، اس نے پھر پوچھا: اللہ کے رسول! میں اپنے خادم کی غلطیوں کو کتنی بار معاف کروں؟ آپ نے فرمایا: ”ہر دن ۷۰ (ستر) بار معاف کرو۔
غلام وخادم کو مارنے اور ستانے سے بھی رسول اللہ ﷺ نے منع فرمایا ہے، ابوذر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
من لاءَمَكم مِن مملوكيكم فأطْعِموه مما تأكلون، واكسُوه مما تَلْبَسون ، ومَن لم يلائَمْكم منهم فبِيعوه ولا تعذِّبوا خلقَ اللهِ(صحيح أبي داود:5161)
ترجمہ:تمہارے غلاموں اور لونڈیوں میں سے جو تمہارے موافق ہوں تو انہیں وہی کھلاؤ جو تم کھاتے ہو اور وہی پہناؤ جو تم پہنتے ہو، اور جو تمہارے موافق نہ ہوں، انہیں بیچ دو، اللہ کی مخلوق کو ستاؤ نہیں۔
اسی طرح صحیح مسلم (1659) میں ہے کہ حضرت ابو مسعود بدری رضی اللہ عنہ نے اپنے غلام کو مارا تو آپ ﷺ نے انہیں تنبیہ کیا اور فرمایا: أنَّ اللَّهَ أَقْدَرُ عَلَيْكَ مِنْكَ علَى هذا الغُلَامِ، قالَ: فَقُلتُ: لا أَضْرِبُ مَمْلُوكًا بَعْدَهُ أَبَدً۔( اس غلام پر تمہیں جتنا اختیار ہے اس کی نسبت اللہ تم پر زیادہ اختیار رکھتا ہے) اس کے بعد ابومسعود نے کبھی غلام کو نہیں مارا۔بلکہ ایک دوسری روایت میں آپ ﷺ نے یہاں تک فرمایا:
اگر تم اس غلام کو آزادنہ کرتے تو آگ تمہیں لپٹ جاتی یا آگ تمہیں چھو لیتی۔( صحيح أبي داود:5159) یہاں یہ بھی یاد رہے کہ غلام کو مارنے کا کفارہ اس کو آزاد کرنا ہے۔
اگر جائز موقع پر خادم کو مارنے کی نوبت آجائے تو چہرے کو چھوڑ کر ماراجائے ، نبی ﷺ فرماتے ہیں : إذا ضرب أحدُكم خادمَه ، فلْجَتَنِبِ الوجْه( صحيح الأدب المفرد:130)
ترجمہ: اگر کسی کو اپنے خادم کو مارنے کی نوبت آجائے تو چہرے پر نہ مارے ۔
(7)خادموں کے ساتھ حسن معاملہ تو کرنا ہی ہے، اس سے بڑھ کر ان کو پکارنے میں بھی حقارت والے الفاظ سے بچنے کی اسلام تعلیم دیتا ہے ، ماقبل اسلام غلام اپنے مالک کو میرارب اور مالک اپنے غلام کو میرا بندہ کہتا تھا جس سے اسلام نے منع کردیا، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
لا يَقُولَنَّ أحَدُكُمْ: عَبْدِي، فَكُلُّكُمْ عَبِيدُ اللهِ، ولَكِنْ لِيَقُلْ: فَتايَ، ولا يَقُلِ العَبْدُ: رَبِّي، ولَكِنْ لِيَقُلْ: سَيِّدِي.(صحيح مسلم:2249)
ترجمہ:تم میں سے کوئی شخص (کسی غلام کو) میرا بندہ نہ کہے، پس تم سب اللہ کے بندےہو، البتہ یہ کہہ سکتا ہے۔ میرا جوان اور نہ غلام یہ کہے: میرارب (پالنے والا) البتہ میرا سید (آقا) کہہ سکتا ہے۔
(8)اس سے بڑھ کر اسلام کا حسن کیا ہوگا کہ وہ ہمیں اپنے خادموں کے ساتھ بیٹھ کر کھانے کی تعلیم دیتا ہے ، حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
إذا صَنَعَ لأَحَدِكُمْ خادِمُهُ طَعامَهُ، ثُمَّ جاءَهُ به، وقدْ ولِيَ حَرَّهُ ودُخانَهُ، فَلْيُقْعِدْهُ معهُ، فَلْيَأْكُلْ، فإنْ كانَ الطَّعامُ مَشْفُوهًا قَلِيلًا، فَلْيَضَعْ في يَدِهِ منه أُكْلَةً، أوْ أُكْلَتَيْنِ.(صحيح مسلم:1663)
ترجمہ:جب تم میں سے کسی کا خادم اس کے لیے کھانا تیار کرے، پھر وہ اس کے سامنے پیش کرے اور وہ اس کے پکانے اور تیار کرنے میں، اس کی گرمی اور دھواں برداشت کر چکا ہے، تو آقا کو چاہیے اسے اپنے ساتھ بٹھائے، تاکہ وہ بھی ساتھ کھا سکے، اگر (کبھی) وہ کھانا کم ہو اور دونوں کے لیے کافی نہ ہو سکے، تو وہ اس کے ہاتھ میں اس سے ایک دو نوالے دے دے۔
خادموں کے ساتھ کھانا متواضع ہونے کی علامت ہے چنانچہ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
ما اسْتَكْبَرَ مَنْ أكلَ مَعَهُ خَادِمُهُ ، و رَكِبَ الحِمارَ بِالأَسْوَاقِ ، و اعْتَقَلَ الشَّاةَ فَاحْتَلَبَها(السلسلة الصحيحة:2218)
ترجمہ: وہ شخص متکبر نہیں ہے، جس کے ساتھ اس کے خادم نے کھانا کھایا اور وہ بازاروں میں گدھے پر سوار ہوا اور بکری کی ٹانگوں کو باندھ کر اس کو دوہا۔
(9)نوکروخادم پر الزام لگانا بہت آسان ہوتا ہے کیونکہ وہ سماج کا کمزور طبقہ اور مالک کے زیر نگرانی ہوتا ہے مگر اسلام نے غلام وخادم کےتحفظ عصمت کے تحت اس پرالزام تراشی کے تعلق سے سخت حکم دیا ہے ۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں نے ابوالقاسم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ نے فرمایا: مَن قَذَفَ مَمْلُوكَهُ، وَهو بَرِيءٌ ممَّا قالَ، جُلِدَ يَومَ القِيَامَةِ، إِلَّا أَنْ يَكونَ كما قالَ(صحيح البخاري:6858)
ترجمہ: جس نے اپنے غلام پر تہمت لگائی حالانکہ غلام اس تہمت سے بَری تھا تو قیامت کے دن اسے کوڑے لگائے جائیں گے، سوا اس کے کہ اس کی بات صحیح ہو۔
(10)خادموں کے حقوق میں سے ایک حق یہ بھی ہے کہ آپ ان پر صدقہ کریں ، ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں:
أمرَ النَّبيُّ صلَّى اللَّهُ علَيهِ وسلَّمَ بالصَّدقةِ ، فقالَ رجلٌ : يا رسولَ اللَّهِ ، عِندي دينارٌ ، فقالَ : تصدَّق بِهِ على نفسِكَ ، قالَ : عِندي آخرُ ، قالَ : تصدَّق بِهِ على ولدِكَ ، قالَ : عندي آخرُ ، قالَ : تصدَّق بِهِ على زوجتِكَ أو قالَ : زوجِكَ ، قالَ : عندي آخرُ ، قالَ : تصدَّق بِهِ على خادمِكَ ، قالَ : عندي آخرُ ، قالَ : أنتَ أبصَرُ(صحيح أبي داود:1691)
ترجمہ:نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے صدقہ کا حکم دیا تو ایک شخص نے کہا: اللہ کے رسول! میرے پاس ایک دینار ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اسے اپنے کام میں لے آؤ، تو اس نے کہا: میرے پاس ایک اور ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اسے اپنے بیٹے کو دے دو، اس نے کہا: میرے پاس ایک اور ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اسے اپنی بیوی کو دے دو، اس نے کہا: میرے پاس ایک اور ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اسے اپنے خادم کو دے دو، اس نے کہا میرے پاس ایک اور ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اب تم زیادہ بہتر جانتے ہو (کہ کسے دیا جائے)۔
ایک دوسری حدیث میں ہے مقدام بن معدیکرب زبیدی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
ما كسبَ الرَّجلُ كَسبًا أطيبُ من عملِ يدِه وما أنفقَ الرَّجلُ على نفسِه وأهلِه وولدِه وخادِمِه فهو صدَقةٌ(صحيح ابن ماجه:1752)
ترجمہ:آدمی کی کوئی کمائی اس کمائی سے بہتر نہیں جسے اس نے اپنی محنت سے کمایا ہو، اور آدمی اپنی ذات، اپنی بیوی، اپنے بچوں اور اپنے خادم پر جو خرچ کرے وہ صدقہ ہے۔
(11)جس طرح ہمارے گھر کے اپنے بچے ہیں ان کو بددعا نہیں دینا چاہئے اسی طرح خادموں کو بھی بددعا نہیں دینا چاہئے ، جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
لا تَدعوا علَى أنفسِكُم ولا تَدعوا علَى أولادِكُم ولا تَدعوا علَى خدَمِكم ولا تَدعوا علَى أموالِكُم لا تُوافقوا منَ اللَّهِ تبارَك وتعالى ساعةَ نَيلٍ فيها عَطاءٌ فيَستجيبَ لَكُم(صحيح أبي داود:1532)
ترجمہ:تم لوگ نہ اپنے لیے بد دعا کرو اور نہ اپنی اولاد کے لیے، نہ اپنے خادموں کے لیے اور نہ ہی اپنے اموال کے لیے، کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ گھڑی ایسی ہو جس میں دعا قبول ہوتی ہو اور اللہ تمہاری بد دعا قبول کر لے۔
ایک مرتبہ کا واقعہ ہے کہ جب عبدالملک بن مروان نے خادم سے معمولی دیر ہونے پر اسے لعن و طعن کیا تو یہ سن کر ام درداء رضی اللہ عنہا نے کہا کہ میں نے حضرت ابودرداء رضی اللہ عنہ کو یہ کہتے ہوئے سنا تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:لَا يَكُونُ اللَّعَّانُونَ شُفَعَاءَ وَلَا شُهَدَاءَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ(صحیح مسلم :2598)
ترجمہ:زیادہ لعنت کرنے والے قیامت کے دن نہ شفاعت کرنے والے ہوں گے، نہ گواہ بنیں گے۔
(12)نبی ﷺ جب دنیا سے رخصت ہورہے تھے تو آپ نے آخری وصیت کے طور پر غلام کے ساتھ حسن تعامل سے پیش آنے کا حکم دیا تھا جس سے غلام وخادم کا اسلام میں مقام ومرتبہ واضح ہوتا ہے ۔
علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: كَانَ آخِرُ كَلَامِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الصَّلَاةَ الصَّلَاةَ اتَّقُوا اللَّهَ فِيمَا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ.( صحيح أبي داود:5156)
ترجمہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی آخری بات (انتقال کے موقع پر) یہ تھی کہ نماز کا خیال رکھنا، نماز کا خیال رکھنا، اور جو تمہاری ملکیت میں (غلام اور لونڈی) ہیں ان کے معاملات میں اللہ سے ڈرتے رہنا۔
خادموں کے تعلق سے یہ چند اہم حقوق بیان کئے گئے، اور یہ سارے بیان کردہ حقوق محمدﷺ کے فرمودات میں سے ہیں گویا خادموں کے ان سنہرے اور پاکیزہ حقوق سے معلوم ہوتا ہے کہ ہمارے رسول حضرت محمد ﷺ اپنے خدام کے ساتھ ایسے ہی برتاؤ بھی کرتے تھے کیونکہ آپ کی زندگی میں ہمارے لئے بہترین نمونہ ہے ، آپ جو فرماتے تھے اس پر خود عمل کرکے دکھاتے تھے ۔ اب باقاعدہ آپ کی زندگی سے خادموں کے ساتھ حسن سلوک اور بہترین برتاؤں کے عملی نمونے بھی پیش کرتا ہوں تاکہ موضوع کی اچھی طرح وضاحت ہوسکے ۔
قبل اس کےکہ میں خادموں کے ساتھ نبی ﷺ کا برتاؤ لکھوں شیخ الاسلام امام ابن القیم رحمہ اللہ کی کتاب زاد المعاد سے رسول اللہ ﷺ کے خادم کے نام پیش کرنا مناسب سمجھتا ہوں نیز غلام وکنیز کا ذکر نہیں کررہاہوں کیونکہ اصل موضوع خادم سے متعلق ہے۔آپ ﷺ کےخادموں میں انس بن مالک ، عبداللہ بن مسعود، عقبی بن عامرجہنی، اسلع بن شریک ، ابوذر غفاری، ایمن بن عبید، ام ایمن ، بلال بن رباح اورسعدتھے ۔دیگر سیرت نگاروں نے اور بھی نام بتائےہیں ، ان میں سے ایک اہم نام جن سے متعلق آگے حدیث بھی آئے گی وہ ربیعہ بن کعب اسلمی ہیں ۔

اب ہم رسول اللہ ﷺ کا اپنے خادموں کے ساتھ سلوک و برتاؤ دیکھتے ہیں ۔
(1)آپ اپنے خادموں کا اس قدر خیال کرتے تھے کہ خدمت کرنے والا آپ کو چھوڑکر جانا پسند نہیں کرتا، اس سلسلے میں ایک واقعہ ملاحظہ فرمائیں ، زید بن حارثہ رضی الله عنہ کے بھائی جبلہ بن حارثہ رضی الله عنہ کا بیان ہے :قَدِمْتُ على رسولِ اللَّهِ صلَّى اللَّهُ علَيهِ وسلَّمَ فقُلتُ: يا رسولَ اللَّهِ ابعَث معي أخي زيدًا قالَ: هوَ ذا، فإن انطلقَ معَكَ لم أمنَعهُ. قالَ زيدٌ: يا رسولَ اللَّهِ، واللَّهِ لا أختارُ عليكَ أحدًا، قالَ: فرأيتُ رأيَ أخي أفضلَ مِن رأيي(صحيح الترمذي:3815)
ترجمہ: میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! میرے بھائی زید کو میرے ساتھ بھیج دیجئیے، آپ نے فرمایا: وہ موجود ہیں اگر تمہارے ساتھ جانا چاہ رہے ہیں تو میں انہیں نہیں روکوں گا۔یہ سن کر زید نے کہا: اللہ کے رسول! قسم اللہ کی! میں آپ کے مقابلہ میں کسی اور کو اختیار نہیں کر سکتا، جبلہ کہتے ہیں: تو میں نے دیکھا کہ میرے بھائی کی رائے میری رائے سے افضل تھی۔
(2) آپ جو کھاتے پیتے اس میں سے اپنے خادم کو بھی دیتے ، صحیح مسلم میں ہے کہ آپ ﷺ کے لئے جو نبیذ بنائی جاتی آپ اس میں سے اپنے خادم کو بھی پلاتے (صحیح مسلم:2004)
(3)آپ نے اپنے خادم کو کبھی نہ ڈانٹ ڈپٹ کی اور نہ انہیں کبھی مارا۔ ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں:ما ضربَ رسولُ اللهِ صلى الله عليه وسلم، خادمًا، ولا امرأةً قطُّ.(صحيح أبي داود:4786)
ترجمہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہ کبھی کسی خادم کو مارا، اور نہ کبھی کسی عورت کو۔
(4)آپ ﷺ اپنے خادموں کو دعا دیتے تھے ، انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے :
قَالَتْ أُمِّي: يا رَسولَ اللَّهِ، خَادِمُكَ أنَسٌ، ادْعُ اللَّهَ له، قَالَ: اللَّهُمَّ أكْثِرْ مَالَهُ، ووَلَدَهُ، وبَارِكْ له فِيما أعْطَيْتَهُ(صحیح البخاری:6344)
ترجمہ: میری والدہ (ام سلیم رضی اللہ عنہ) نے کہا: یا رسول اللہ! انس رضی اللہ عنہ آپ کا خادم ہے اس کے لیے دعا فرما دیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا کی کہ اے اللہ! اس کے مال و اولاد کو زیادہ کر اور جو کچھ تو نے اسے دیا ہے اس میں برکت عطا فرما۔
(5)آپ خادموں کی ضروریات کا خیال کرتے اور ان کے بارے میں پوچھا کرتے تھے ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے خادم یا خادمہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں:
كان ممَّا يقولُ للخادمِ : ألكَ حاجةٌ ؟ قال : حتى كان ذاتَ يومٍ فقال : يا رسولَ اللهِ ! حاجتي ، قال : و ما حاجتك ؟ قال : حاجَتي أن تشفعَ لي يومَ القيامةِ قال : و من دلَّكَ على هذا ؟ قال : ربِّي ، قال : أما لا ، فأعنِّي بكثرةِ السجودِ(السلسلة الصحيحة:2102)
ترجمہ:آپ صلی اللہ علیہ وسلم خادم کو جو کچھ کہا کرتے تھے، اس میں سے ایک بات یہ تھی: (‏‏‏‏آپ پوچھتے): کیا تیری کوئی ضرورت ہے؟ بالآخر ایک دن خادم نے کہا: اے اللہ کے رسول! میری ایک حاجت ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ‏‏‏‏تیری کیا حاجت ہے؟ اس نے کہا: میری حاجت یہ ہے کہ آپ روز قیامت میری شفاعت فرمائیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ‏‏‏‏اس (‏‏‏‏مطالبے پر) تیری رہنمائی کس نے کی؟ اس نے کہا: میرے پروردگار نے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیوں نہیں! تو پھر تو سجدوں کی کثرت سے میری مدد کر۔
پہلے کے خادم بھی کتنے اچھے ہوتے کہ دنیا کی فکر نہ کرتے بلکہ آخرت کے لئے سوچتے ، پھر آپ ﷺ کی رفاقت بھی تو نصیب ہوئی تھی ۔ اس معنی کی ایک حدیث یوں آئی ہے ۔حضرت ربیعہ بن کعب (بن مالک) اسلمی رضی اللہ عنہ نے کہا:
كُنْتُ أبِيتُ مع رَسولِ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عليه وسلَّمَ فأتَيْتُهُ بوَضُوئِهِ وحَاجَتِهِ فَقالَ لِي: سَلْ فَقُلتُ: أسْأَلُكَ مُرَافَقَتَكَ في الجَنَّةِ. قالَ: أوْ غيرَ ذلكَ قُلتُ: هو ذَاكَ. قالَ: فأعِنِّي علَى نَفْسِكَ بكَثْرَةِ السُّجُودِ.(صحيح مسلم:489)
ترجمہ:میں (خدمت کے لیے) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ (صفہ میں آپ کے قریب) رات گزارا کرتا تھا، (جب آپ تہجد کے لیے اٹھتے تو) میں وضو کا پانی اور دوسری ضروریات لے کر آپ کی خدمت میں حاضر ہوتا۔ (ایک مرتبہ) آپ نے مجھے فرمایا: (کچھ) مانگو۔ تو میں نے عرض کی: میں آپ سے یہ چاہتا ہوں کہ جنت میں بھی آپ کی رفاقت نصیب ہو۔ آپ نے فرمایا: یا اس کے سوا کچھ اور؟ میں نے عرض کی: بس یہی۔ تو آپ نے فرمایا: تم اپنے معاملے میں سجدوں کی کثرت سے میری مدد کرو۔
ربیعہ کس طرح آپ ﷺ کی خدمت کرتے ذرا اس کی تفصیل دوسری حدیث سے جان لیں تاکہ ہمارے اندر بھی محبت رسول کا جذبہ بیدار ہو۔ربیعہ بیان کرتے ہیں :
كُنتُ أخدُمُ رَسولَ اللهِ صلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ وأقومُ له في حَوائِجِه نَهاري أجمَعَ، حتى يُصلِّيَ رَسولُ اللهِ صلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ العِشاءَ الآخِرةَ، فأجلِسَ ببابِه إذا دَخَلَ بَيتَه، أقولُ: لَعَلَّها أنْ تَحدُثَ لِرسولِ اللهِ صلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ حاجةٌ؛ فما أزالُ أسمَعُه يَقولُ رَسول اللهِ صلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ: سُبحانَ اللهِ، سُبحانَ اللهِ، سُبحانَ اللهِ وبَحمْدِه، حتى أمَلَّ فأرجِعَ، أو تَغلِبَني عَينيَّ، فأرقُدَ( إرواء الغليل :2/208 وقال البانی اسنادہ حسن)
ترجمہ:میں نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت کیا کرتا تھا اور سارا سارا دن آپ کی ضروریات پوری کیا کرتا تھا، یہاں تک کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم عشاء کی نمازادا فرما لیتے، نماز عشاء کے بعد آپ اپنے گھر تشریف لے جاتے تو میں آپ کے دروازے پر بیٹھ رہتا۔ میں سوچتا کہ ہو سکتا ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو کوئی ضرورت پیش آجائے، میں کافی دیر تک آپ کی آواز سنتا رہتا کہ آپ سُبْحَانَ اللّٰہِ، سُبْحَانَ اللّٰہِ، سُبْحَانَ اللّٰہِ وَبِحَمْدِہِ کے الفاظ ادا کرتے رہتے، یہاں تک کہ میں ہی تھک کر واپس آجاتا، یا مجھ پر آنکھیں غلبہ پالیتیں اور میں سو جاتا۔
(6)حضرت انس رضی اللہ عنہ نے دس سال آپ کی خدمت کی اور آپ نے دس سالہ خدمت کا تجربہ بتایا کہ محمدﷺ نے ہمیں کبھی یہ نہ کہا کہ یہ کام ایسے کیوں کیا یا یہ کام کیوں نہیں کیا؟ خادم رسول انس رضی اللہ عنہ کا بیان خود ان کی زبانی سنیں ، آپ بیان کرتے ہیں:
قَدِمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمَدِينَةَ لَيْسَ لَهُ خَادِمٌ، فَأَخَذَ أَبُو طَلْحَةَ بِيَدِي، فَانْطَلَقَ بِي إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ أَنَسًا غُلَامٌ كَيِّسٌ فَلْيَخْدُمْكَ، قَالَ: فَخَدَمْتُهُ فِي السَّفَرِ وَالْحَضَرِ، مَا قَالَ لِي لِشَيْءٍ صَنَعْتُهُ لِمَ صَنَعْتَ هَذَا هَكَذَا، وَلَا لِشَيْءٍ لَمْ أَصْنَعْهُ لِمَ، لَمْ تَصْنَعْ هَذَا هَكَذَا(صحیح البخاری:2768)
ترجمہ:رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ تشریف لائے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کوئی خادم نہیں تھا۔ اس لیے ابوطلحہ (جو میرے سوتیلے باپ تھے) میرا ہاتھ پکڑ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں لے گئے اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ! انس سمجھ دار بچہ ہے۔ یہ آپ کی خدمت کیا کرے گا۔ انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سفر اور حضر میں خدمت کی ‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے کبھی کسی کام کے بارے میں جسے میں نے کر دیا ہو ‘ یہ نہیں فرمایا کہ یہ کام تم نے اس طرح کیوں کیا ‘ اسی طرح کسی ایسے کام کے متعلق جسے میں نہ کر سکا ہوں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ نہیں فرمایا کہ تو نے یہ کام اس طرح کیوں نہیں کیا۔
اسوہ رسول سے سیدنا انس رضی اللہ عنہ کے بارے میں ایک واقعہ سے بھی اندازہ لگائیے کہ آپ اپنے خادم سے کام لینے میں کس قدرحسین وجمیل اخلاق والا مہربان ، نرم دل اور شفیق تھے ،حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:
كانَ رَسولُ اللهِ صلَّى اللَّهُ عليه وسلَّمَ مِن أَحْسَنِ النَّاسِ خُلُقًا، فأرْسَلَنِي يَوْمًا لِحَاجَةٍ، فَقُلتُ: وَاللَّهِ لا أَذْهَبُ، وفي نَفْسِي أَنْ أَذْهَبَ لِما أَمَرَنِي به نَبِيُّ اللهِ صلَّى اللَّهُ عليه وسلَّمَ، فَخَرَجْتُ حتَّى أَمُرَّ علَى صِبْيَانٍ وَهُمْ يَلْعَبُونَ في السُّوقِ، فَإِذَا رَسولُ اللهِ صلَّى اللَّهُ عليه وسلَّمَ قدْ قَبَضَ بقَفَايَ مِن وَرَائِي، قالَ: فَنَظَرْتُ إلَيْهِ وَهو يَضْحَكُ، فَقالَ: يا أُنَيْسُ، أَذَهَبْتَ حَيْثُ أَمَرْتُكَ؟ قالَ: قُلتُ: نَعَمْ، أَنَا أَذْهَبُ يا رَسولَ اللَّهِ.( صحيح مسلم:2310)
ترجمہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تمام انسانوں میں اخلا ق کے سب سے اچھے تھے، آپ نے ایک دن مجھے کسی کام سے بھیجا، میں نے کہا: اللہ کی قسم! میں نہیں جا ؤں گا۔حالانکہ میرے دل میں یہ تھا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے جس کام کا حکم دیا ہے میں اس کے لیے ضرورجا ؤں گا۔تومیں چلا گیا حتیٰ کہ میں چند لڑکوں کے پاس سے گزرا، وہ بازار میں کھیل رہے تھے، پھر اچانک (میں نے دیکھا) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پیچھے سے میری گدی سے مجھے پکڑ لیا، میں نے آپ کی طرف دیکھا تو آپ ہنس رہے تھے۔آپ نے فرمایا: اے چھوٹے انس! کیا تم وہاں گئے تھے جہاں (جانے کو) میں نے کہا تھا؟"میں نے کہا جی! ہاں، اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! میں جا رہا ہوں۔
(7)کبھی آپ اپنے خادم کے گھربھی جاتے ، اگر کوئی خادم بیمار پڑجاتا تو اس کی عیادت بھی کرتے ، انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے بیان کیا:
كانَ غُلَامٌ يَهُودِيٌّ يَخْدُمُ النبيَّ صَلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ، فَمَرِضَ، فأتَاهُ النبيُّ صَلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ يَعُودُهُ، فَقَعَدَ عِنْدَ رَأْسِهِ، فَقالَ له: أسْلِمْ، فَنَظَرَ إلى أبِيهِ وهو عِنْدَهُ فَقالَ له: أطِعْ أبَا القَاسِمِ صَلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ، فأسْلَمَ، فَخَرَجَ النبيُّ صَلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ وهو يقولُ: الحَمْدُ لِلَّهِ الذي أنْقَذَهُ مِنَ النَّارِ.(صحيح البخاري:1356)
ترجمہ:ایک یہودی لڑکا (عبدالقدوس) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت کیا کرتا تھا، ایک دن وہ بیمار ہو گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کا مزاج معلوم کرنے کے لیے تشریف لائے اور اس کے سرہانے بیٹھ گئے اور فرمایا کہ مسلمان ہو جا۔ اس نے اپنے باپ کی طرف دیکھا، باپ وہیں موجود تھا۔ اس نے کہا کہ (کیا مضائقہ ہے) ابوالقاسم صلی اللہ علیہ وسلم جو کچھ کہتے ہیں مان لے۔ چنانچہ وہ بچہ اسلام لے آیا۔ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم باہر نکلے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ شکر ہے اللہ پاک کا جس نے اس بچے کو جہنم سے بچا لیا۔
(8)آپ خادم کے ساتھ عدل و مروت سے پیش آتے ، ایک مرتبہ کا واقعہ نبی ﷺ عائشہ رضی اللہ عنہا کے گھر تھے اس دوران خادم نے زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا کے گھر سے ایک پیالے میں کوئی چیز لایا، سیدہ عائشہ نے غصہ میں خادم کے ہاتھ پر مارا جس سے پیالہ ٹوٹ گیا ، نبی ﷺ نےخود سے کٹورے کا ٹکڑااور جو کھانا گرگیا تھا جمع کیا پھرجس گھرمیں کٹورہ ٹوٹا اس گھر سے نیا کٹورہ منگوایا اور اس گھر کو بھیجوادیا جہاں سے آیا تھا اور ٹوٹا ہوا اسی گھر میں رہنے دیا۔ (بخاری:5225)
(9)نوکر چاکر بھی سماج کا ایک حصہ ہے، آپﷺ ان کو بھی عزت وحترام سے دیکھتے اور قدر کیا کرتے تھے ، اپنے خادموں کے علاوہ مدینہ کے خدام بھی اسی قدر آپ کی نظر میں قابل احترام تھے اور سبھی کے ساتھ حسن سلوک اور اچھا برتاؤ کرتے ، حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے کہا:
كانَ رَسولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عليه وسلَّمَ إذَا صَلَّى الغَدَاةَ جَاءَ خَدَمُ المَدِينَةِ بآنِيَتِهِمْ فِيهَا المَاءُ، فَما يُؤْتَى بإنَاءٍ إلَّا غَمَسَ يَدَهُ فِيهَا، فَرُبَّما جَاؤُوهُ في الغَدَاةِ البَارِدَةِ، فَيَغْمِسُ يَدَهُ فِيهَا.(صحيح مسلم:2324)
ترجمہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب صبح کی نماز سے فارغ ہوتے تو مدینہ کے خادم (غلام) اپنے برتن لے آتے جن میں پانی ہوتا، جو بھی برتن آپ کے سامنے لایاجاتا آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنا دست مبارک اس میں ڈبو تے، بسا اوقات سخت ٹھنڈی صبح میں برتن لائے جاتے تو آپ (پھر بھی) ان میں اپنا ہاتھ ڈبودیتے۔
اسی طرح ایک دوسری حدیث میں ہے انس بن مالک بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق فاضلہ کا یہ حال تھا :
إنْ كَانَتِ الأمَةُ مِن إمَاءِ أهْلِ المَدِينَةِ، لَتَأْخُذُ بيَدِ رَسولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ فَتَنْطَلِقُ به حَيْثُ شَاءَتْ.(صحيح البخاري:6072)
ترجمہ: ایک لونڈی مدینہ کی لونڈیوں میں سے آپ کا ہاتھ پکڑ لیتی اور اپنے کسی بھی کام کے لیے جہاں چاہتی آپ کو لے جاتی تھی۔
گزشتہ کلام کا لب لباس یہ ہے کہ خادم بھی سماج کا ایک حصہ ہے اس کو بھی وہی مقام ملنا چاہئے جو دوسرے طبقوں کو حاصل ہے یہی وجہ ہے کہ اسلام نے خادموں کو بھی اعلی مقام دیا ہے، ان کے حقوق متعین کئے ہیں اور آ پ ﷺ نے خادموں کے ساتھ اچھا برتاؤ کرکے دنیا والوں کے لئے ایک بہترین مثال پیش کی ہے ۔ انسان کی خوبی کا اس وقت پتہ چلتا ہے جب وہ کمزوروں اور اپنے ماتحتوں کے ساتھ حسن سلوک کرے اور ماتحتی والےجب اپنے مالک کی خوبی بیان کریں تو یہ اور بھی بڑی بات ہوتی ہے ۔ نبی ﷺ بلنداخلاق کے معیار پر فائز تھے اور آپ تو اخلاقی قدروں کی تکمیل کے لئے آئے تھے بنایں سبب جہاں آپ ﷺنے اپنے گھروالوں اور اپنے صحابہ کے ساتھ حسن سلوک کیا وہیں آپ نے اپنے خادموں کے ساتھ بھی بہتر سے بہتر سلوک پیش کیا ۔ اس جگہ ٹھہر کر ہمیں بھی یہ سوچنا ہے کہ ہم اپنے ماتحتوں کے ساتھ کیسا سلوک کرتے ہیں ؟ نبی ﷺ کے اسوہ حسنہ سے ہمارا کردار کس قدر میل کھاتا ہے ؟ اگر ہمارے کردار میں کھوٹ ہے اور یقینا ہوگا تو اپنی اصلاح کریں اور اسوہ رسول کو اپنائیں ، خادم وغلام کے ساتھ گھر کے تمام افراد ، جملہ رشتہ دار، دوست واحباب ،اہل سماج ومحلہ ، صاحب علم و فن ، بیمار ومحتاج ، فقیر ومسکین سب کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آئیں حتی کہ غیرمسلموں کے ساتھ بھی ہمارا رویہ انسانیت نوازی کا ہو تاکہ ہمارےحسن اخلاق ا وربلندکردار سے ان کے دلوں میں اسلام کا جوت جگ سکے ۔

آخر میں خادموں سے متعلق عوام میں پھیلے کچھ ضعیف احادیث کا ذکر کیا جارہا ہے تاکہ ہم ان ضعیف احادیث کے بیان کرنے سے بچیں ۔
(1)ابو سعید خدری رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
إذا ضربَ أحدُكُم خادمَهُ فذَكَرَ اللَّهَ فارفَعوا أيديَكُم(ضعيف الترمذي:1950)ترجمہ:جب تم میں سے کوئی اپنے خادم کو مارے اور وہ (خادم) اللہ کا نام لے لے تو تم اپنے ہاتھوں کو روک لو۔
(2)نهَى عن استئجارِ الأجيرِ حتَّى يبيِّنَ لهُ أجرُهُ(ضعيف الجامع:6030)ترجمہ:مزدورں سے اس کی مزدوری کے تعین سے قبل کام لینے سےمنع فرمایا۔
(3)لا تضرِبوا إماءَكم علَى كسرِ إِنَّائكم ، فإِنَّ لِها آجالًا كآجالِ الناسِ(ضعيف الجامع:6240)ترجمہ:برتنوں کے ٹوٹنے پر ملازموں و خادموں کو مت مارو! کیونکہ لوگوں کی طرح برتنوں کا بھی ایک وقت مقرر ہے۔
البانی نے اسے موضوع کہا ہے۔
(4)حضرت عمرو بن حریث بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ما خفَّفتَ عن خادمِك من عملهِ ؛ فهو أجرٌ لك في موازينِك يومَ القيامةِ( السلسلة الضعيفة:4437)
ترجمہ: تم اپنے خادم کی ذمہ داریوں میں جتنی تخفیف کرو گے، اُس کے بدلہ میں اتنا ہی تمہارے نامہ اعمال کے پلڑے میں اُس کا اجر ہو گا۔
(5)نبی ﷺ فرماتے ہیں:حسن الملكة يمن، وسوء الخلق شؤم( ضعيف أبي داود:5163)ترجمہ:غلام و لونڈی کے ساتھ اچھا برتاؤ کرنا برکت اور بدخلقی نحوست ہے۔
(6)ابوبکر رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
لَا يَدْخُلُ الْجَنَّةَ سَيِّئُ الْمَلَكَةِ (ضعيف الترمذي: 1946)ترجمہ:وہ شخص جنت میں داخل نہیں ہو گا جو خادموں کے ساتھ برا سلوک کرتا ہے۔
(7)الأكلُ مع الخادمِ من التواضُعِ(ضعيف الجامع:2291) قال البانی :موضوع ترجمہ: خادم کے ساتھ کھانا تواضع میں سے ہے۔
(8)الخادمُ في أمانِ اللهِ عزَّ وجلَّ ، ما دامَ الخادمُ في خدمةِ المؤمنِ(لسان الميزان:4/191) قال ابن حجر العسقلانی :موضوع
ترجمہ: جب تک خادم مومن کی خدمت میں ہوتا ہے وہ اللہ کے امان میں ہوتا ہے۔
(9)الأكلُ مع الخادِمِ من التواضعِ، فمن أكل معه اشتاقت إليه الجنةُ(السلسلة الضعيفة:612) قال البانی : موضوع
ترجمہ: خادم کے ساتھ کھانا تواضع میں سے ہے پس جس نے اس کے ساتھ کھایا توجنت اس کا مشتاق ہوجاتی ہے۔
(10)إذا ابتاعَ أحدُكُم الخادِمَ ، فليكُن أوَّلُ شيءٍ يُطعِمُهُ الحلوَى ، فإنَّهُ أطيَبُ لنفسِهِ( ضعيف الجامع:272)
ترجمہ: جب تم میں سے کوئی نوکر (غلام)خریدے تو اس کو سب سے پہلے میٹھی چیز کھلائے کیونکہ یہ نفس کے لئے پاکیزہ ہے۔
ایک دوسری ضعیف روایت میں ہے ۔
إذا اشْتَرَى أحدُكُمْ الجارِيةَ ، فلْيكُنْ أوَّلَ مايُطعِمُها الحُلْوُ ، أطْيبُ لنفْسِها(ضعيف الجامع:369)ترجمہ: تم میں جو لونڈی خریدے تو پہلے پہل اس کو میٹھی چیز کھلائے کیونکہ نفس کے لئے پسندیدہ ہے۔
 
Top