• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اسلام میں داخل ہونے کے لئے مشرکین سے نفرت و دشمنی ضروری ہے

شمولیت
اپریل 27، 2020
پیغامات
594
ری ایکشن اسکور
188
پوائنٹ
77
اسلام میں داخل ہونے کے لئے مشرکین سے نفرت و دشمنی ضروری ہے

بسم اللہ الرحمن الرحیم

شیخ محمد بن عبدالوہاب رحمہ اﷲ فرماتے ہیں:

اگر کوئی شخص جس پر اﷲ نے یہ احسان کیا ہے کہ اسے اسلام لانے کی توفیق دی ہے وہ یہ کہے کہ اﷲ کے علاوہ کوئی معبود نہیں یہی حق ہے اس کے سوا جو کچھ ہے وہ میں نے چھوڑ دیا ہے مگر میں مشرکوں کی مخالفت میں کچھ نہیں کہوں گا ان پر کوئی اعتراض نہیں کروں گا تو ایسے شخص کو یہ خیال نہیں کرنا چاہیے کہ وہ اسلام میں داخل ہوچکا ہے بلکہ اسلام میں داخل ہونے کے لئے ضروری ہے کہ ان مشرکین سے نفرت کرے مشرکین سے محبت رکھنے والوں سے بھی نفرت کرے ان سے دشمنی رکھے ان کی مذمت کرتا رہے جیسا کہ ابراہیم علیہ السلام اور ان کے ساتھیوں نے کہا تھا۔

قَدْ كَانَتْ لَكُمْ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ فِي إِبْرَاهِيمَ وَالَّذِينَ مَعَهُ إِذْ قَالُوا لِقَوْمِهِمْ إِنَّا بُرَآءُ مِنْكُمْ وَمِمَّا تَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ كَفَرْنَا بِكُمْ وَبَدَا بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمُ الْعَدَاوَةُ وَالْبَغْضَاءُ أَبَدًا حَتَّى تُؤْمِنُوا بِاللَّهِ وَحْدَهُ (الممتحنۃ:۴)

’’ہم تم اور تمہارے ان معبودوں سے بیزار و متنفر ہیں جن کی تم اﷲ کے علاوہ عبادت کرتے ہو ہم تمہارے اس عمل کا انکار کرتے ہیں ہمارے اور تمہارے درمیان ہمیشہ کے لیے دشمنی اور نفرت ظاہر ہوگئی ہے جب تک کہ تم ایک اﷲ پر ایمان نہ لے آؤ‘‘۔

شیخ رحمہ اﷲ نے اس شخص کو مسلمان شمار نہیں کیا ہے جو مشرکین کی مخالفت نہیں کرتا جب کہ ہمارے ہاں توحید سے انحراف شروع ہوچکا ہے۔ مسلمان نوجوان ان تعلیمی اداروں میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں جن کا نظامِ تعلیم اور نصابِ تعلیم مکمل طور پر گمراہ کن ہے وہ طواغیت کی مدح اور تعریف پر مبنی ہے مسلمان نوجوان ان ممالک میں تعلیم حاصل کرنے جاتے ہیں جو شرک کے مراکز اور توحید سے نابلد ہیں ایسے میں مشرکین سے نفرت و عداوت آج کے مسلمان نوجوان کیسے کر سکتے ہیں ان کے اساتذہ کافر لادین و زندیق ہیں ان کے سامنے یہ مسلمان طلبہ بیٹھتے ہیں ان سے خوش گپیاں کرتے ہیں ان سے نفرت کیسے کر سکتے ہیں اور یہ سب کچھ دنیاوی مفادات کے حصول کے لیے ہے جب کہ اﷲ تعالیٰ نے ملتِ ابراہیم سے روگردانی کرنے والے کو بے وقوفی قرار دیا ہے اور ابراہیم علیہ السلام کا مسلک ہے ’’کَفَرْنَا بِکُمْ‘‘ کہ ہم تمہارے ان اعمال کا انکار کرتے ہیں۔

اﷲ تعالیٰ کا ارشاد ہے :

فَمَنْ يَكْفُرْ بِالطَّاغُوتِ وَيُؤْمِنْ بِاللَّهِ فَقَدِ اسْتَمْسَكَ بِالْعُرْوَةِ الْوُثْقَى (البقرہ:۲۵۶)
’’جس نے طاغوت کا انکار کیا اور اﷲ پر ایمان لے آیا اس نے مضبوط کڑا تھام لیا ‘‘۔

وَلَقَدْ بعَثْنَا فِیْ کُلِّ اُمَّةٍرَّسُوْلًا اَنِ اعْبُدُوا اﷲَ وَاجْتَنِبُوا الطَّاغُوْتَ(النحل:۳۶)
’’ہم نے ہر امت میں ایک رسول بھیجا (وہ ان سے کہتا تھا) اﷲ کی عبادت کرو اور طاغوت سے اجتناب کرو ‘‘۔

اگر کوئی شخص یہ کہے کہ میں نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کی اتباع کرتا ہوں اور انہیں حق سمجھتا ہوں مگر لات وعزی یا ابوجہل وغیرہ پر کوئی اعتراض نہیں کرتا مجھ پر ان کی مذمت کی ذمہ داری نہیں ہے ۔ تو ایسے شخص کا اسلام صحیح نہیں ہے (اب بھی اگر کوئی کہے کہ مجھ پر اس زمانے کے طاغوتوں کی مذمت لازم نہیں ہے تو اس کے اسلام کے بارے میں کیا کہا جائے گا؟)۔

(الدررالسنیۃ: ۲/۱۰۹)

شیخ عبدالرحمن بن حسن رحمہ اﷲ کہتے ہیں:

کہ صحابہ رضی اﷲ عنہم ، تابعین رحمہم اﷲ، ائمہ دین تمام اہل سنت اور گذشتہ و موجودہ علماء سب کا اس بات پر اجماع ہے کہ کوئی شخص صرف اس صورت میں مسلمان ہو سکتا ہے جب وہ شرک اکبر سے پاک ہو اس سے بیزار ہو شرک اکبر کے مرتکب سے بھی برأت ونفرت اور دشمنی رکھتا ہو اپنی استطاعت وطاقت کے مطابق عمل صرف اﷲ کے لیے خالص کر کرتا ہوں۔

(الدررالسنیۃ: ۱۱/۵۴۵)

شیخ محمد بن عبدالوہاب رحمہ اﷲ کے بیٹے حسین اور عبداﷲ رحمہما اﷲ فرماتے ہیں :

گیارہواں مسئلہ:سوال یہ ہے کہ ایک شخص دین اسلام میں داخل ہوتا ہے اور اس کو پسند بھی کرتا ہے مگر مشرکوں سے دشمنی نہیں کرتا یا ان سے دشمنی تو رکھتا ہے مگر ان کو کافر نہیں سمجھتا یا کہتا ہے کہ میں مسلمان ہوں مگر میں ان لوگوں کو کافر نہیں کہہ سکتا جو لا الٰہ الا الله کہتے ہیں مگر اس کے معنی سے واقف نہیں ہیں۔ دوسرا شخص ہے وہ بھی اسلام میں داخل ہوتا ہے اس کو پسند کرتا ہے لیکن کہتا ہے کہ میں مزارات کی مذمت نہیں کرتا اگرچہ جانتا ہوں کہ یہ نفع نقصان نہیں دے سکتے مگر میں انہیں کچھ نہیں کہتا ؟

جواب: کوئی شخص اس وقت تک مسلمان نہیں ہو سکتا جب تک کہ وہ توحید کو اچھی طرح نہ سمجھ لے اس کے تقاضوں پر عمل نہ کرلے نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کی تمام باتوں کی تصدیق نہ کر لے آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کے اوامر و نواہی پر عمل نہ کر لے آپ صلی اﷲ علیہ وسلم پر اور آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کی لائی ہوئی شریعت پر ایمان نہ لائے اب جو شخص کہتا ہے کہ میں مشرکین سے دشمنی نہیں کر سکتا یا ان سے دشمنی رکھتا ہے مگر انہیں کافر نہیں سمجھتا یا کہتا ہے کہ میں ان لوگوں کی مذمت نہیں کرتا جو لا الٰہ الا اللّٰہ کہتے ہیں اگرچہ وہ کفر کرتے ہیں شرک کرتے ہیں اﷲ کے دین سے دشمنی کرتے ہیں یا کہتا ہے کہ میں قبوں اور مزاروں کو بھی کچھ (برا) نہیں کہتا تو یہ شخص مسلمان نہیں ہے بلکہ یہ ان لوگوں میں سے ہے جن کے بارے میں اﷲ کا ارشاد ہے :

وَيَقُولُونَ نُؤْمِنُ بِبَعْضٍ وَنَكْفُرُ بِبَعْضٍ وَيُرِيدُونَ أَنْ يَتَّخِذُوا بَيْنَ ذَلِكَ سَبِيلا أُولَٰئِكَ هُمُ الْكَافِرُونَ حَقًّا (النساء:۱۵۰)
’’کہتے ہیں کہ ہم کتاب کے کچھ حصے پر ایمان لاتے ہیں اور کچھ حصے کا انکار کرتے ہیں یہ چاہتے ہیں کہ درمیان کا کوئی راستہ اختیار کر لیں ۔ یہی لوگ حقیقی کافر ہیں‘‘۔

اﷲ تعالیٰ نے مشرکین سے دشمنی اور ترک تعلق انہیں کافر سمجھنا واجب قرار دیا ہے :

لا تَجِدُ قَوْمًا يُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الآخِرِ يُوَادُّونَ مَنْ حَادَّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ (المجادلۃ: ۲۲)
’’آپ نہیں پائیں گے ایسی قوم جو اﷲ اور یوم آخرت پر ایمان لاتی ہو اور وہ اﷲ و رسول (صلی اﷲ علیہ وسلم) کے دشمنوں سے دوستی کرے‘‘۔

دوسرے مقام پر ارشاد ہے :

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لا تَتَّخِذُوا عَدُوِّي وَعَدُوَّكُمْ أَوْلِيَاءَ تُلْقُونَ إِلَيْهِمْ بِالْمَوَدَّةِ وَقَدْ كَفَرُوا بِمَا جَاءَكُمْ مِنَ الْحَقِّ يُخْرِجُونَ الرَّسُولَ وَإِيَّاكُمْ (الممتحنۃ:۱)

’’ایمان والو! میرے اور اپنے دشمن کو دوست مت بناؤ کہ ان سے محبت سے پیش آؤ ان لوگوں نے کفر کیا ہے اس حق کا جو تمہارے پاس آیا ہے یہ رسول (صلی اﷲ علیہ وسلم) اور تم کو نکالتے ہیں‘‘۔

(مجموعۃ الرسائل المسائل النجدیۃ: ۱/۳۹،۳۸)

شیخ عبدالرحمن بن حسن رحمہ اﷲ کہتے ہیں:

اﷲ تعالیٰ کا فرمان ہے :

تَرَى كَثِيرًا مِنْهُمْ يَتَوَلَّوْنَ الَّذِينَ كَفَرُوا لَبِئْسَ مَا قَدَّمَتْ لَهُمْ أَنْفُسُهُمْ أَنْ سَخِطَ اللَّهُ عَلَيْهِمْ وَفِي الْعَذَابِ هُمْ خَالِدُونَ،وَلَوْ كَانُوا يُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَالنَّبِيِّ وَمَا أُنْزِلَ إِلَيْهِ مَا اتَّخَذُوهُمْ أَوْلِيَاءَ وَلَكِنَّ كَثِيرًا مِنْهُمْ فَاسِقُونَ (المائدہ: ۸۱،۸۰)

’’تم دیکھو گے بہت سے ان میں کہ دوستی کرتے ہیں کافروں سے بہت برا ہے جو یہ لوگ اپنے نفسوں کے لئے آگے بھیجتے ہیں اﷲ کی ناراضگی ہے ان پر عذاب میں یہ ہمیشہ رہیں گے اگر ان کا ایمان اﷲ پر نبی پر اور اس پر نازل ہونے والی شریعت پر ہوتا تو یہ ان (کافروں کو) کبھی دوست نہ بناتے مگر ان میں سے اکثر فاسق ہیں‘‘۔

اﷲ تعالیٰ کا فرمان ہے :

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لا تَتَّخِذُوا الْيَهُودَ وَالنَّصَارَى أَوْلِيَاءَ بَعْضُهُمْ أَوْلِيَاءُ بَعْضٍ وَمَنْ يَتَوَلَّهُمْ مِنْكُمْ فَإِنَّهُ مِنْهُمْ إِنَّ اللَّهَ لا يَهْدِي الْقَوْمَ الظَّالِمِينَ (٥١) يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا مَنْ يَرْتَدَّ مِنْكُمْ عَنْ دِينِهِ فَسَوْفَ يَأْتِي اللَّهُ بِقَوْمٍ يُحِبُّهُمْ وَيُحِبُّونَهُ أَذِلَّةٍ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ أَعِزَّةٍ عَلَى الْكَافِرِينَ يُجَاهِدُونَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَلا يَخَافُونَ لَوْمَةَ لائِمٍ ذَلِكَ فَضْلُ اللَّهِ يُؤْتِيهِ مَنْ يَشَاءُ وَاللَّهُ وَاسِعٌ عَلِيمٌ (٥٤) (المائدہ: ۵۱ اور ۵۴)

’’ایمان والو! یہود ونصاریٰ کو دوست مت بناؤ یہ آپس میں ایک دوسرے کے دوست ہیں تم میں سے جس نے ان کے ساتھ دوستی کی تو اﷲ ظالم قوم کو ہدایت نہیں دیتا۔ ایمان والو! تم میں سے جو بھی اپنے دین سے مرتد ہوا تو اﷲ ایسی قوم لے آئے گا جو اس سے محبت کرنے والی ہوگی اور اﷲ ان سے محبت کرے گا ایمان والوں پر نرم اور کافروں کے لئے سخت ہوگی۔ اﷲ کی راہ میں جہاد کرنے والی کسی کی ملامت کی پرواہ نہ کرنے والی ‘‘

اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے :

بَشِّرِ الْمُنَافِقِينَ بِأَنَّ لَهُمْ عَذَابًا أَلِيمًا،الَّذِينَ يَتَّخِذُونَ الْكَافِرِينَ أَوْلِيَاءَ مِنْ دُونِ الْمُؤْمِنِينَ (النساء: ۱۳۹،۱۳۸)

’’منافقوں کو خبر دے دو کہ ان کے لئے دردناک عذاب ہے جو مؤمنوں کو چھوڑ کر کافروں کو دوست بناتے ہیں‘‘۔

ایک اور مقام پر ارشاد باری تعالیٰ ہے :

مَنْ كَفَرَ بِاللَّهِ مِنْ بَعْدِ إِيمَانِهِ إِلا مَنْ أُكْرِهَ وَقَلْبُهُ مُطْمَئِنٌّ بِالإيمَانِ وَلَكِنْ مَنْ شَرَحَ بِالْكُفْرِ صَدْرًا فَعَلَيْهِمْ غَضَبٌ مِنَ اللَّهِ وَلَهُمْ عَذَابٌ عَظِيمٌ ، ذَلِكَ بِأَنَّهُمُ اسْتَحَبُّوا الْحَيَاةَ الدُّنْيَا عَلَى الآخِرَةِ وَأَنَّ اللَّهَ لا يَهْدِي الْقَوْمَ الْكَافِرِينَ (النحل:۱۰۷،۱۰۶)

’’جس نے ایمان لانے کے بعد کفر کیا سوائے اس کے کہ جسے مجبور کیا گیا ہو۔ جبکہ اس کا دل ایمان پر مطمئن تھا۔ البتہ جس نے شرح صدر کے ساتھ کفر کیا تو ان پر اﷲ کا غضب ہے اور ان کے لئے بہت بڑا عذاب ہے اس لیے کہ انہوں نے دنیاوی زندگی کو آخرت کے بدلے میں پسند کرلیا اور اﷲ کافر قوم کو ہدایت نہیں کرتا ‘‘۔

یہ ہے اﷲ کا حکم اس طرح کے لوگوں کے بارے میں اپنی کتاب میں متعدد بار انہیں مرتد قرار دیا ہے۔

(الدررالسنیۃ: ۸/۲۸۹،۲۸۸)

شیخ عبدالرحمن بن حسن رحمہ اﷲ کہتے ہیں:

(دین حنیف پر قائم) حنفاء وہ اہل توحید ہیں جو ان مشرکین سے علیحدہ رہتے ہیں اس لیے کہ اﷲ نے اہل توحید پر مشرکین سے دور رہنا اور انہیں کافر سمجھنا ان سے برأت کا اعلا ن کرنا لازم قرار دیا ہے۔

جیسا کہ ابراہیم علیہ السلام کا قول اﷲ تعالیٰ نے قرآن میں ذکر کیا ہے اس نے کہا تھا :

وَأَعْتَزِلُكُمْ وَمَا تَدْعُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ وَأَدْعُو رَبِّي عَسَى أَلا أَكُونَ بِدُعَاءِ رَبِّي شَقِيًّا ،فَلَمَّا اعْتَزَلَهُمْ وَمَا يَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ ِ (مریم:۴۹،۴۸)

’’میں تم سے اور اﷲ کے علاوہ جنہیں تم پکارتے ہو ان سے علیحدہ ہوتا ہوں اور اپنے رب کو پکارتا ہوں مجھے امید ہے کہ میں اپنے رب کو پکارنے سے بدقسمت نہیں بنوں گا۔ جب وہ ان سے اور ان کے معبودوں سے علیحدہ ہوگئے‘‘۔

ابراہیم علیہ السلام نے اپنی قوم سے یہ بھی کہا تھا :

إِنَّا بُرَآءُ مِنْكُمْ وَمِمَّا تَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ كَفَرْنَا بِكُمْ وَبَدَا بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمُ الْعَدَاوَةُ وَالْبَغْضَاءُ أَبَدًا حَتَّى تُؤْمِنُوا بِاللَّهِ وَحْدَهُ (الممتحنۃ:۴)

’’ہم بیزار ہیں تم سے اور اﷲ کے علاوہ تمہارے دیگر معبودوں سے ہمارے اور تمہارے درمیان دشمنی اور نفرت ظاہر ہوگئی ہے ہمیشہ کے لئے جب تک کہ تم ایک اﷲ پر ایمان نہ لے آؤ‘‘۔

اصحاب کہف کا قول اس طرح مذکور ہے (آپس میں ایک دوسرے سے انہوں نے کہا)

وَإِذِ اعْتَزَلْتُمُوهُمْ وَمَا يَعْبُدُونَ إِلا اللَّهَ فَأْوُوا إِلَى الْكَهْفِ (الکہف: ۱۶)
’’جب تم ان (مشرکین) سے الگ ہوجاؤ تو غار میں پناہ لے لو‘‘۔

ان سب دلائل سے معلوم ہوتا ہے کہ اہل توحید کی توحید صرف اس وقت مکمل ہوتی ہے جب وہ مشرکوں سے علیحدہ رہیں، ان سے دشمنی رکھیں انہیں کافر سمجھیں جس طرح کہ ابراہیم علیہ السلام نے کیا تھا۔

(الدررالسنیۃ: ۱۱،۴۳۴)

علمائے نجد رحمہم اﷲ میں سے بعض علماء نے تین امور ذکر کئے ہیں کہ کسی شخص میں اگر یہ پائے جائیں تو اس کا مال و خون جائز ہے اس کے خلاف جہاد کیا جا سکتا ہے اس لیے کہ یہ تینوں امور نواقض اسلام ہیں ان میں سے۔

۱۔مشرکین کو کافر نہ سمجھنا ۔
۲۔یا ان کے کفر میں شک کرنا۔

جس شخص میں یہ دو صفتیں پائی جائیں گی اسے کافر سمجھا جائے گا اس کا مال اور خون حلال ہے اس کا قتل واجب ہے جب تک کہ وہ مشرکین کو کافر نہ سمجھے۔ جو شخص مشرکین کو کافر نہیں سمجھتا تو وہ قرآن کی تصدیق کرنے والا نہیں ہے اس لیے کہ قرآن نے مشرکین کو کافر کہا ہے اور ان کو کافر سمجھنے کا حکم دیا ہے ان سے دشمنی کرنے ان سے قتال کا حکم دیا ہے۔

(الدررالسنیۃ: ۹/۲۹۱)

کلمۂ توحید کے اقرار کے باوجود اس کی مخالفت کرنے والوں کے بارے میں شیخ محمد بن عبدالوہاب رحمہ اﷲ فرماتے ہیں :

کچھ لوگ ایسے ہیں کہ جو ایک اﷲ کی عبادت کرتے ہیں مگر شرک پر اعتراض نہیں کرتے اسے برا نہیں سمجھتے مشرکین سے دشمنی نہیں رکھتے کچھ ایسے ہیں کہ توحید پر عمل کرتے ہیں مگر اس کی قدر نہیں جانتے۔ توحید کو چھوڑنے والوں سے نفرت نہیں کرتے نہ انہیں کافر سمجھتے ہیں کچھ ایسے بھی ہیں جو مشرکین سے دشمنی رکھتے ہیں مگر انہیں کافر نہیں سمجھتے ان میں سے کچھ ایسے ہیں ان سب میں زیادہ خطرناک ان لوگوں کا طرز عمل ہے جو توحید پر عمل تو کرتے ہیں مگر توحید کی قدر نہیں جانتے توحید کے تارک سے نفرت نہیں کرتے نہ ہی انہیں کافر سمجھتے ہیں کچھ ایسے بھی ہیں جنہوں نے شرک کو چھوڑ دیا اس سے نفرت کی مگر اس کی حقیقت نہیں جانی اہل شرک سے دشمنی نہیں کی انہیں کافر نہیں سمجھا یہ لوگ انبیاء کی لائی ہوئی شریعتوں کی مخالفت کرنے والے ہیں۔

(الدرر السنیۃ: ۲/۲۲)

امام ابن عقیل رحمہ اﷲ کہتے ہیں:

اگر تم اس دور کے مسلمانوں کو پہچاننا چاہتے ہو تو مساجد کے دروازوں کی بھیڑ مت دیکھو نہ ہی لبیک لبیک کی پکار کو دیکھو بلکہ یہ دیکھو کہ یہ اسلام دشمنوں کے مقابلے پر کتنے متحد ہیں؟

(الدررالسنیۃ: ۸/۳۰۰،۲۹۹)
 
Top