• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اسلام میں زوجین کے حقوق

مقبول احمد سلفی

سینئر رکن
شمولیت
نومبر 30، 2013
پیغامات
1,391
ری ایکشن اسکور
452
پوائنٹ
209
اسلام میں زوجین کے حقوق

تحریر: مقبول احمد سلفی
جدہ دعوہ سنٹر، حی السلامہ ، سعودی عرب

نکاح شوہروبیوی کے درمیان ایک مضبوط رشتے کا نام ہےجو آپسی محبت و ہمدردی پہ قائم ایک دوسرے کو سکون پہنچانے کا باعث ہے ۔اللہ تعالی کا فرمان ہے:
وَمِنْ آيَاتِهِ أَنْ خَلَقَ لَكُم مِّنْ أَنفُسِكُمْ أَزْوَاجًا لِّتَسْكُنُوا إِلَيْهَا وَجَعَلَ بَيْنَكُم مَّوَدَّةً وَرَحْمَةً ۚ إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَآيَاتٍ لِّقَوْمٍ يَتَفَكَّرُونَ (الروم:21)
ترجمہ:اور اس کی نشانیوں میں سے ہے کہ تمہاری ہی جنس سے بیویاں پیدا کیں تاکہ تم آرام پاؤ اس نے تمہارے درمیان محبت اور ہمدردی قائم کردی یقیناً غورو فکر کرنے والوں کے لئے اس میں بہت نشانیاں ہیں۔
زندگی میں سب کچھ ہو مگر سکون میسر نہ ہو تو زندگی کسی کام کی نہیں، اللہ اپنے بندوں پر رحم فرماتے ہوئے ان کو سکون پہنچانے کے باعث اسی کے جنس سے اس کے لئے بیوی پیدا کی جس سے شادی کرکے انسان زندگی کو خوشگوار اور پرسکون بناتا ہےمگر آج کل میاں بیوی کے درمیان الفت و ہمدردی کا ماحول نظر نہیں آتا ہے ۔ اکثر گھروں میں بے سکونی ، جھگڑے اور نفرت وعداوت کا ماحول ہے ، یہی وجہ ہے کہ مسلم معاشرے میں کثرت سے طلاق دی جاتی ہے اور میاں بیوی کا گھر اجڑتا ہے ۔ سوال پیداہوتا ہے کہ نکاح تو الفت و سکون اور گھر بسانے کے لئے کیا جاتا ہے پھر آج ایسے برے مناظر دیکھنے کو کیوں ملتے ہیں ؟
اسی سوال نے مجھے یہ تحریر لکھنے پر مجبورکیا ،شایدکس کا گھر بس جائے، کسی کی نفرت آپسی محبت میں تبدیل ہوجائے اور سکون وقرار سے دوبارہ زندگی گزارنے لگے ۔
اللہ کا فرمان ہے : وَذَكِّرْ فَإِنَّ الذِّكْرَىٰ تَنفَعُ الْمُؤْمِنِينَ (الذاریات:55)
ترجمہ:اور نصیحت کرتے رہیں یقیناً یہ نصیحت ایمانداروں کو نفع دے گی۔
جولوگ نکاح کو معمولی بات سمجھتے ہیں اور اس کے تقاضے سے بے خبرہیں وہی اکثر بے خبری میں بڑی آسانی سے اس رشتے کو توڑ دیتے ہیں۔ اس کے علاوہ بھی دیگر اسباب پائے جاتے ہیں مثلا غلط فہمی، غصہ، انانیت، تعصب، ظلم اورمجبوری وغیرہ تاہم حقوق زوجین سے ناواقفیت اور اللہ سے بے خوفی ازدواجی زندگی کی بربادی کا اہم سبب ہے۔

زوجین کے حقوق بیان کرنےسے پہلے پانچ اہم ترین باتوں کو جان لینا بیحد مفید ہوگا۔

پہلی بات یہ ہے
کہ عقد نکاح کرنے سے پہلے ہی بلکہ لڑکی کا رشتہ تلاشتے وقت ہی اپنی نیت کی اصلاح کرلینی چاہئے اور یہ نیت بنالینی چاہئے کہ میں عفت و عصمت کی حفاظت ، زندگی میں سکون ، نیک اولاد کے حصول اور دینی کام پر تعاون حاصل کرنے کے لئے شادی کررہاہوں ۔ جب نیت اچھی ہوگی تو اللہ اچھے رشتے کی توفیق دے گا اور نکاح کے بعد رشتے میں پائیداری ہوگی اور نکاح کے پاکیزہ مقاصد بھی حاصل ہوں گے ۔ امام بخاری رحمہ اللہ صحیح بخاری میں سب سے پہلے نیت والی حدیث درج کرتے ہیں جس میں بتایا گیا ہے کہ تمام کاموں کا دارومدار نیت پر ہے ، شادی بھی ایک اہم کام ہے، اس کے لئے اچھی نیت کرتے ہیں توزندگی پر اچھا اثرہوگا اور بری نیت کرتے ہیں تو زندگی پربرااثر ہوگا۔
آپ ﷺ فرماتے ہیں: إنَّما الأعْمالُ بالنِّيّاتِ، وإنَّما لِكُلِّ امْرِئٍ ما نَوَى، فمَن كانَتْ هِجْرَتُهُ إلى دُنْيا يُصِيبُها، أوْ إلى امْرَأَةٍ يَنْكِحُها، فَهِجْرَتُهُ إلى ما هاجَرَ إلَيْهِ(صحيح البخاري:1)
ترجمہ:تمام اعمال کا دارومدار نیت پر ہے اور ہر عمل کا نتیجہ ہر انسان کو اس کی نیت کے مطابق ہی ملے گا۔ پس جس کی ہجرت (ترک وطن) دولت دنیا حاصل کرنے کے لیے ہو یا کسی عورت سے شادی کی غرض ہو۔ پس اس کی ہجرت ان ہی چیزوں کے لیے ہو گی جن کے حاصل کرنے کی نیت سے اس نے ہجرت کی ہے۔

دوسری بات یہ ہے کہ بنیادی طور پر مردوں کو یہ سمجھنا ہے کہ جن عورتوں کو ہم بیاہ کرگھر لاتے ہیں ان سے ہمارے مضبوط عہدوپیمان ہوتے ہیں ، اللہ کا فرمان ہے : وَأَخَذْنَ مِنكُم مِّيثَاقًا غَلِيظًا(النساء:21)
ترجمہ:اور ان عورتوں نے تم سے مضبوط عہد و پیمان لے رکھا ہے۔
یہاں مضبوط عہد و پیمان سے مراد یہ ہے کہ مرد اچھے طریقے سے بیوی کو ساتھ رکھنے کا اس سے مضبوط عہد کرتا ہے۔

تیسری بات یہ ہے کہ نکاح سے ہمارا گھر آباد ہوتا ہے اور ایک نئی زندگی کا آغاز ہوتا ہے ، یہ آغاز جس قدر بہتر ہوگا اس کا گہرااثرآئندہ کی زندگی پر پڑتا ہے ، بایں سبب رسول اللہ ﷺ نے نیک عورت سے شادی کرنے اور کامیاب ہونے کا حکم دیا ہے ۔ نبی ﷺ کا فرمان ہے:
تُنْكَحُ الْمَرْأَةُ لِأَرْبَعٍ: لِمَالِهَا، وَلِحَسَبِهَا، وَجَمَالِهَا، وَلِدِينِهَا، فَاظْفَرْ بِذَاتِ الدِّينِ تَرِبَتْ يَدَاكَ(صحيح البخاري:5090)
ترجمہ:عورت سے نکاح چار چیزوں کی بنیاد پر کیا جاتا ہے اس کے مال کی وجہ سے اور اس کے خاندانی شرف کی وجہ سے اور اس کی خوبصورتی کی وجہ سے اور اس کے دین کی وجہ سے اور تو دیندار عورت سے نکاح کر کے کامیابی حاصل کر، اگر ایسا نہ کرے تو تیرے ہاتھوں کو مٹی لگے گی (یعنی اخیر میں تجھ کو ندامت ہو گی)۔
آپ ﷺ نے دنیادار لوگوں کا حال بتایا کہ وہ لوگ مال ومنال ، حسب ونسب اور حسن وجمال کی وجہ سے شادی کرتے ہیں تم ایمان والے دین کی بنیاد پر دیندار لڑکی سے شادی کرو، اگر تم دیندار لڑکی سے شادی کروگے تو کامیاب رہوگے اور اگر تم نے اس کی مخالفت تو افسوس کرنا پڑے گا۔آج ہماری بربادی کی بڑی وجہ نکاح میں دین کو معیار نہ بنانا ہے۔یہ حدیث اس بات کی دلیل ہے، اس سے بھی واضح ذکرایک دوسری حدیث میں ملتا ہے، نبی ﷺ کا فرمان ہے :إذا خطبَ إليكم مَن ترضَونَ دينَه وخلقَه ، فزوِّجوهُ إلَّا تفعلوا تَكن فتنةٌ في الأرضِ وفسادٌ عريضٌ(صحيح الترمذي:1084)
ترجمہ:اگر تمہارے ہاں کوئی ایسا آدمی نکاح کا پیغام بھیجے جس کے دین اور اخلاق سے تم مطمئن ہو تو اس کے ساتھ (اپنی ولیہ) کی شادی کر دو اور اگر تم نے ایسا نہ کیا تو زمین میں بہت بڑا فتنہ اور فساد پھیلے گا۔
اس لئے میرے بھائیو! اگر اپنے گھروں کو بچانا ہو، زندگی میں سکون لانا ہواور اپنا رشتہ مضبوطی سے قائم رکھنا ہو تو نکاح میں دین کو معیاربنائیں ۔ دیندار اور نیک بیوی دنیا کی عظیم دولت ہے، نبی ﷺ کا فرمان ہے:الدنيا متاع، وخير متاع الدنيا: المراة الصالحة(صحیح مسلم:3649)
ترجمہ:دنیا «متاع» ہے (چند روزہ سامان ہے) اور دنیا کا بہترین «متاع» (فائدہ بخش سامان) نیک عورت ہے۔
نیک بیوی دنیا کی عظیم دولت اس لئے ہے کہ وہ شوہر کی قدر کرتی ہے، اس کے حقوق ادا کرتی ہے، گھر کا ماحول دینی بناکررکھتی ہے، اولاد کی دینی تربیت کرتی ہے اور شوہر کو بھی دین وایمان پر مدد کرتی ہے ۔
ثوبان رضی الله عنہ کہتے ہیں ایک سفر میں تھے، آپ کے بعض صحابہ نے نبی سے کہا کہ اگر ہم جانتے کہ کون سا مال بہتر ہے تو اسی کو اپناتے تو آپ نے فرمایا: أَفْضَلُهُ لِسَانٌ ذَاكِرٌ، وَقَلْبٌ شَاكِرٌ، وَزَوْجَةٌ مُؤْمِنَةٌ تُعِينُهُ عَلَى إِيمَانِهِ(صحيح الترمذي:3094)
ترجمہ: بہترین مال یہ ہے کہ آدمی کے پاس اللہ کو یاد کرنے والی زبان ہو، شکر گزار دل ہو، اور اس کی بیوی ایسی مومنہ عورت ہو جو اس کے ایمان کو پختہ تر بنانے میں مددگار ہو۔

چوتھی بات یہ ہے کہ اللہ تعالی نے مرد کو عورت کا حاکم بنایا ہے ، وہ گھرچلاتا، سنبھالتا اوربیوی بچوں کی کفالت کرتا ہے اس وجہ ہے مرد کو اللہ نے بیوی پر فضیلت دی ہے لیکن حقوق دونوں کے لئے متعین فرمائے ہیں اللہ تعالی فرماتا ہے : وَلَهُنَّ مِثْلُ الَّذِي عَلَيْهِنَّ بِالْمَعْرُوفِ ۚ وَلِلرِّجَالِ عَلَيْهِنَّ دَرَجَةٌ ۗ وَاللَّهُ عَزِيزٌ حَكِيمٌ (البقرۃ:228)
ترجمہ:اور عورتوں کو بھی ویسے ہی حق ہیں جیسے ان پر مردوں کے ہیں اچھائی کے ساتھ،ہاں مردوں کو عورتوں پر فضیلت ہے اللہ تعالیٰ غالب ہے حکمت والا ہے۔
اس لئے شوہر یہ نہ سمجھے کہ اسلام نے بیوی کو کوئی مقام نہیں دیا، اس کے لئے کوئی حق نہیں ہے ، اس کو جیسے چاہورکھو، بلاوجہ زدوکوب کرو، گھر میں رکھو یا نکال دو ،استعمال کرواور طلاق دیدو کوئی فرق نہیں پڑتا۔ ہرگز نہیں ۔ بیوی کے بھی ویسے ہی حقوق ہیں جیسے شوہر کے حقوق ہیں۔

پانچویں بات یہ ہے کہ بندوں کے حقوق کا معاملہ بہت ہی اہم ہے ، جو بھی مسلمان مرد یا عورت کسی کی حق تلفی کرےاور اس حال میں مرجائے تو اللہ کے یہاں اس کی سخت پوچھ ہوگی اورمظلوم کو پوراپوراانصاف دیا جائے گا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:مفلس میری امت میں قیامت کے دن وہ ہو گا جو نماز لائے گا، روزہ اور زکوٰۃ لیکن اس نے دنیا میں ایک کو گالی دی ہو گی، دوسرے کو بدکاری کی تہمت لگائی ہو گی، تیسرے کا مال کھا لیا ہو گا، چوتھے کا خون کیا ہو گا، پانچویں کو مارا ہو گا، پھر ان لوگوں کو (یعنی جن کو اس نے دنیا میں ستایا) اس کی نیکیا ں مل جائیں گی اور جو اس کی نیکیاں اس کے گناہ ادا ہونے سے پہلےختم ہو جائیں گی تو ان لوگوں کی برائیاں اس پر ڈالی جائیں گی آخر وہ جہنم میں ڈال دیا جائے گا۔(صحیح مسلم:6579)
اس لئے میاں بیوی میں سے ہرایک کو اپنا اپنا حق ادا کرنا چاہئے اور حق تلفی کرنے سے اللہ کا خوف کھانا چاہئے ۔
اب آپ کے سامنے میاں بیوی کے حقوق بیان کریں گے ۔ یہاں تین قسم کے حقوق ہیں ، کچھ حقوق زوجین کے درمیان مشترکہ ہیں یعنی دونوں کو ایک دوسرے کے لئے ادا کرنا ہے ، کچھ مخصوص حقوق شوہر کے ہیں اور کچھ مخصوص حقوق بیوی کے ہیں ۔طوالت کے خوف سے ان تینوں قسم کے حقوق میں سے اہم حقوق کو بیان کرنے پر اکتفا کروں گا۔

میاں بیوی کے درمیان مشترکہ حقوق

(1)اطاعت الہی کے لئے ایک دوسرے کا تعاون: نکاح کی بنیاد ہی کفو یعنی دینداری پر قائم ہے اس دین کی حفاظت اور دین پر عمل کرنے کے لئے میاں بیوی ایک دوسرے کا تعاون کرے ۔اللہ تعالی کا فرمان ہے:
وَتَعَاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوَىٰ ۖ وَلَا تَعَاوَنُوا عَلَى الْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ ۚ وَاتَّقُوا اللَّهَ ۖ إِنَّ اللَّهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ (المائدہ:2)
ترجمہ:نیکی اور پرہیزگاری میں ایک دوسرے کی امداد کرتے رہو اور گناہ ظلم زیادتی میں مدد نہ کرواور اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہو، بیشک اللہ تعالیٰ سخت سزا دینے والا ہے۔
اللہ کا یہ حکم عام ہے کہ ہرکوئی ایک دوسرے کو نیکی کے کام پر مدد کرے اور برائی کے کام پر کوئی کسی کی مدد نہ کرے ۔ جب یہ عام لوگوں کےلئے حکم ہے تو میاں بیوی کے لئے بدرجہ اولی حکم ہوگا کیونکہ ان ہی دونوں سے پہلے گھر بنتا ہے اورپھرمتعدد گھروں سے سماج ومعاشرہ تشکیل پاتا ہے ۔اس معاملے میں ایک اہم حدیث ملاحظہ فرمائیں ، ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
رحم الله رجلا قام من الليل فصلى وايقظ امراته، فإن ابت نضح في وجهها الماء، رحم الله امراة قامت من الليل فصلت وايقظت زوجها، فإن ابى نضحت في وجهه الماء(صحيح أبي داود:1308)
ترجمہ:اللہ تعالیٰ اس شخص پر رحم فرمائے جو رات کو اٹھے اور نماز پڑھے اور اپنی بیوی کو بھی بیدار کرے، اگر وہ نہ اٹھے تو اس کے چہرے پر پانی کے چھینٹے مارے، اللہ تعالیٰ اس عورت پر رحم فرمائے جو رات کو اٹھ کر نماز پڑھے اور اپنے شوہر کو بھی جگائے، اگر وہ نہ اٹھے تو اس کے چہرے پر پانی کے چھینٹے مارے۔
اس حدیث میں دین کے کام پرمیاں بیوی میں سے ہر ایک کودوسرے کا تعاون کرنے کی ترغیب دی گئی ہے ۔ شوہر کوئی دینی کام کرے تو اس کی طرف بیوی کو بلائے اور بیوی کوئی نیکی کا کام کرے تو اس میں شوہر کو بھی شریک کرے ۔
بعض لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ بیوی کو نیکی کا حکم دینا صرف شوہر کا کام ہے، بیوی کا کام نہیں ہے ۔ یہ لوگوں کی غلط فہمی ہے ۔ یاد رکھیں جتنا شوہر بیوی کے لئے ذمہ دار ہے اتنا بیوی بھی شوہر کا ذمہ دار ہے ۔ شوہربے دین، بے نمازی ، شرابی ، جواری ، بے حیااور کفر ومعصیت کرنے والا ہو تو بیوی کا دینی فریضہ کہ اپنے شوہر کی دینی اصلاح کرے، اگر شوہر اپنی اصلاح کرلیتا ہے اور دین پر آجاتا ہے تو ٹھیک ہے ورنہ بیوی ایسے شوہر سے الگ ہوسکتی ہے ۔یہی ذمہ داری مرد کی بھی بے دین بیوی کے تعلق کے سے ۔

(2)حسن معاشرت کے ساتھ زندگی گزارنا: میاں بیوی میں سے دونوں کا فریضہ ہے کہ ایک دوسرے سے محبت کرے، ایک دوسرے کا ساتھ دے، ایک دوسرے سے حسن سلوک سے پیش آئے، نرمی اور ہمدردی کا معاملہ کرے ، ایک دوسرے کی بشری غلطیوں کو نظر انداز کرے (دینی معاملہ میں غلطی کی اصلاح کی جائے گی)اور عفو ودرگزر سے کام لے ، سکھ دکھ میں ایک دوسرے کا غمگسار بنےاور گھر میں خوشگوارماحول اور پرسکون فضا قائم کرنے میں ایک دوسرے کا ہرطرح سے ساتھ دے ۔
اللہ تعالی نے حکم دیا ہے ۔ وَعَاشِرُوهُنَّ بِالْمَعْرُوفِ(النساء:19)
ترجمہ: تم ان کے ساتھ اچھے سے بود وباش رکھو۔
یہ حکم تو اصل مردوں کو ہے کیونکہ وہی شادی کرکے بیوی کو گھر لایا ہے تاہم بیوی بھی اسی قدر حسن معاشرت سے شوہر کے ساتھ زندگی گزارنے کا پابند ہے۔
مرد عورت کا حاکم اور گھر کا نگران و منتظم ہے اس لحاظ ہے اس کی بڑی ذمہ داری ہے کہ اپنے اہل خانہ کے ساتھ اچھے طریقے سے رہن سہن کرے، شوہر بہتر طریقے سے رہے گا تو یقینابیوی پر اس کا اچھا اثر پڑے گا اور بیوی بھی اچھائی کا معاملہ کرے گی۔ نبی ﷺ کا فرمان ہے: خَيْرُكُمْ خَيْرُكُمْ لِأَهْلِهِ، وَأَنَا خَيْرُكُمْ لِأَهْلِي( صحيح الترمذي:3895)
ترجمہ: تم میں سے بہتر وہ ہے جو اپنے گھر والوں کے لیے بہتر ہو اور میں اپنے گھر والوں کے لیے سب سے بہتر ہوں۔
نبی ﷺ نے جابر رضی اللہ عنہ سے فرمایا: فَهَلَّا جَارِيَةً تُلَاعِبُهَا وَتُلَاعِبُكَ وَتُضَاحِكُهَا وَتُضَاحِكُكَ؟(صحیح البخاری:5367)
ترجمہ:تم نے کسی کنواری لڑکی سے شادی کیوں نہ کی، تم اس کے ساتھ کھیلتے اور وہ تمہارے ساتھ کھیلتی، تم اس کے ساتھ ہنسی مذاق کرتے اور وہ تمہارے ساتھ ہنسی کرتی۔
حسن معاشرت کے لئے دونوں طرف سے یکساں محبت، تعاون ، حسن سلوک اور شفقت و ہمدردی ہونی چاہئے جیساکہ مذکورہ بالا حدیث میں طرفین کے لئے فطری محبت کی ترغیب ملتی ہے۔ایک دوسری حدیث سے نبی ﷺ کا اپنی بیوی سے حسن معاشرت کا ایک نمونہ دیکھیں ۔ ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک سفر میں تھیں، کہتی ہیں کہ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے دوڑ کا مقابلہ کیا تو میں جیت گئی، پھر جب میرا بدن بھاری ہو گیا تو میں نے آپ سے (دوبارہ) مقابلہ کیا تو آپ جیت گئے، اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ جیت اس جیت کے بدلے ہے۔(صحیح ابوداؤد:2578)
دوڑایک طرح کا کھیل ہے، میاں بیوی کے درمیان اس طرح کا معاملہ آپسی محبت و ہمدردی اور خوشگوار زندگی کی دلیل ہے ۔

آپ بھی اپنے گھر کو خوشگوار، پرسکون اور زندگی کو بہترین بنانا چاہتے ہیں تو تین بنیادی باتوں کو عمل میں لانا ضروری ہے ان تین باتوں سے نکاح کے رشتے میں پائیداری ہوگی۔
٭نکاح کے بعد رشتہ قائم و مضبوط رہے اور گھر کا ماحول پرسکون ہو اس کے لئے ضروری ہے کہ باہمی اتحاد ہو یعنی دونوں مل جل کررہیں، اختلاف سے بچیں ۔
٭دوسری بات یہ ہے کہ ہاہمی اتحاد کے لئے باہمی الفت ومحبت ضروری ہے ، ایک دوسرے سے بے لوث محبت ہو۔
٭تیسری بات یہ ہے کہ باہمی کے محبت کے لئے ایک دوسرے کے لئے نرمی ، ہمدردی ، خیرخواہی اورشفقت چاہئے تاکہ آپ ایک دوسرے کی لغزشوں سے درگزرکریں اور صرف مفید و مثبت پہلو کو مدنظررکھیں یہ بنیادی تین باتیں رشتے کی پائیداری اور گھر کے اچھے ماحول اور حشن معاشرت کے لئے ضروری ہیں ، ان تین باتوں کا ذکر سورہ روم کی اکیسویں آیت میں ہوا ہے جس میں لتسکنوا(سکون)،مودۃ(محبت)اور رحمۃ(ہمدردی ) کے الفاظ وارد ہیں ۔

(3) پاکدامنی: نبی ﷺ نےطاقتور نوجوانوں کو نکاح کا حکم ہوئے ارشاد فرمایا: يَا مَعْشَرَ الشَّبَابِ مَنْ اسْتَطَاعَ منكُم الْبَاءَةَ فَلْيَتَزَوَّجْ ، فَإِنَّهُ أَغَضُّ لِلْبَصَرِ ، وَأَحْصَنُ لِلْفَرْجِ ، وَمَنْ لَمْ يَسْتَطِعْ فَعَلَيْهِ بِالصَّوْمِ فَإِنَّهُ لَهُ وِجَاءٌ(صحیح البخاري:5066و صحیح مسلم :1400)
ترجمہ :اے نوجوانوں کی جماعت! تم میں سے جو کوئی استطاعت رکھتا ہو وہ ضرور شادی کرے کیونکہ یہ (شادی) نگاہوں کو بہت جھکانے والی اور شرمگاہ کی خوب حفاظت کرنے والی ہے اور جو شادی کی طاقت نہیں رکھتا وہ روزہ رکھے ، پس یہ اس کے لئے ڈھال ہوگا۔
اس میں نکاح کا مقصد نگاہوں اور شرمگاہوں کی حفاظت بتا یا گیا ہے۔اس لئے نکاح کے بعد میاں بیوی میں سے ہرایک اپنی نظروں اور شرمگاہوں کی حفاظت کرے اور جائز طریقے اپنی شہوت پوری کرے ۔ بیوی سے کسی بھی طرح استمتاع کرسکتے ہیں وہ مردوں کے لئے کھیتیاں ہیں سوائے ان بعض کاموں کے جن سے اسلام نے منع کیا ہے مثلا پیچھے کے راستے میں اور حیض ونفاس میں وطی کرنا ۔میاں بیوی میں ہرایک دوسرے کی شہوت کا خیال کرے اور جب جس کو ضرورت محسوس ہو دوسرا اس کی مدد کرے ۔ نبی ﷺ کا فرمان ہے :إذا الرَّجلُ دعا زوجتَهُ لحاجتِهِ فلتأتِهِ ، وإن كانت علَى التَّنُّورِ(صحيح الترمذي:1160)
ترجمہ: جب خاوند اپنی بیوی کواپنی حاجت پوری کرنے کے لیے بلائے تواسے آنا چاہیے ، اگرچہ وہ تنور پرہی کیوں نہ ہو ۔
نبی ﷺ کا فرمان ہے : إذا دعا الرجلُ امرأتَهُ إلى فراشِهِ فأَبَتْ ، فبات غضبانَ عليها ، لعنتها الملائكةُ حتى تُصبحَ(صحيح البخاري:3237)
ترجمہ:جب کوئي شخص اپنی بیوی کواپنے بستر پر بلائے اوربیوی آنے سے انکار کردے اورخاوند اس پر ناراضگی کی حالت میں ہی رات بسر کردے تو اس عورت پر صبح ہونے تک فرشتے لعنت کرتے رہتے ہیں۔
ان احادیث کا یہ مطلب نہیں ہے کہ بیوی شوہر کی خواہش پوری نہ کرے تو اسی پر لعنت ہے، شوہرکی بھی ذمہ داری ہے کہ اس کی خواہش کا پورا خیال کرے اورجوبھی اس معاملے میں کوتاہی کرے گا وہ حق تلقی بابت مسئول ہوگا۔اسلام میں کس قدر بھلائی ہے کہ جائز طریقے سے شہوت پوری کرنے پر ثواب دیا جاتا ہے ۔ نبی ﷺ فرماتے ہیں:
وَفِي بُضْعِ أَحَدِكُمْ صَدَقَةٌ، قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ أَيَأتِي أَحَدُنَا شَهْوَتَهُ، وَيَكُونُ لَهُ فِيهَا أَجْرٌ؟، قَالَ: أَرَأَيْتُمْ لَوْ وَضَعَهَا فِي حَرَامٍ أَكَانَ عَلَيْهِ فِيهَا وِزْرٌ، فَكَذَلِكَ إِذَا وَضَعَهَا فِي الْحَلَالِ كَانَ لَهُ أَجْرٌ(صحیح مسلم:2329)
ترجمہ:اور ہر شخص کے بدن کے ٹکڑے میں صدقہ ہے۔لوگوں نے عرض کی کہ یا رسول اللہ! ہم میں سے کوئی شخص اپنے بدن سے اپنی شہوت نکالتا ہے (یعنی اپنی بی بی سے صحبت کرتا ہے) تو کیا اس میں ثواب ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:کیوں نہیں دیکھو تو اگر اسے حرام میں صرف کر لے تو وبال ہوا کہ نہیں؟ اسی طرح جب حلال میں صرف کرتا ہے تو ثواب ہوتا ہے۔
اس لئے زوجین کو فطری اور جائز طریقے سے شہوت پوری کرنا چاہئے ،اس سے ثواب بھی ملے گا اور عفت و عصمت کی حفاظت بھی ہوگی اور تکمیل شہوت کے غیرفطری اور مغربی طریقوں سے میاں بیوی کو بچنا چاہئے ۔ جماع کے آداب واحکام جاننے کے لئے میرے بلاگ پر "جماع کا طریقہ اور اس کے چندآداب و مسائل" کا مطالعہ فرمائیں ۔

(4) ازدواجی اسرار کی حفاظت:اللہ تعالی فرماتا ہے: هُنَّ لِبَاسٌ لَّكُمْ وَأَنتُمْ لِبَاسٌ لَّهُنَّ(البقرۃ:187)
ترجمہ:وہ تمہارا لباس ہیں اور تم ان کے لباس ہو ۔
اللہ نے میاں بیوی میں سے ہرایک کو دوسرے کا لباس قرار دیا ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ جیسے لباس اور جسم کے درمیان کوئی چیز حائل نہیں ہوتی ویسے میاں بیوی کے تعلقات ہوتے ہیں، ان دونوں کے درمیان کسی قسم کا کوئی پردہ نہیں ہوتا ہے ، یہ ایک دوسرے کے رازداں اور پردہ پوش ہوتے ہیں ۔ لہذا میاں بیوی میں سے کوئی اپنی مخصوص باتیں خواہ جماع سے متعلق ہوں ، بشری غلطی یا فطری کمزور ی سے متعلق ہوں حتی کہ آپس کے رازونیاز کی باتیں ہوں کسی سے بیان نہیں کرنا چاہئے ، نہ سسرال میں کسی سے ، نہ میکے میں کسی سے۔میاں بیوی کی آپسی لطف اندوزی کی بات سے خصوصیت کے ساتھ منع کیا گیا ہے، نبی ﷺ فرماتے ہیں:
إِنَّ مِنْ أَشَرِّ النَّاسِ، عَنْدَ اللَّهِ مَنْزِلَةً يَوْمَ الْقِيَامَةِ الرَّجُلَ يُفْضِي إِلَى امْرَأَتِهِ وَتُفْضِي إِلَيْهِ، ثُمَّ يَنْشُرُ سِرَّهَا(صحیح مسلم:3542)
‏‏‏‏ترجمہ:سب سے زیادہ برا لوگوں میں اللہ تعالیٰ کے نزدیک قیامت کے دن وہ شخص ہے جو اپنی عورت کے پاس جائے اور عورت اس کے پاس آئے (یعنی صحبت کرے) اور پھر اس کا بھید ظاہر کر دے۔
صحیح مسلم میں اس حدیث پر اس طرح باب قائم کیا گیا ہے:((باب تَحْرِيمِ إِفْشَاءِ سِرِّ الْمَرْأَةِ))یعنی باب: عورت کا بھید کھولنا حرام ہے۔
آج کل تو شوہر، مردوں میں اور بیوی، عورتوں میں نہ صرف آپسی باتیں شیئر کرتے ہیں بلکہ ایک دوسرے سے بوس وکنار اور لطف کے مناظر فوٹو اور ویڈیو کی شکل میں شیئر کرتے ہیں ۔ مغربی تہذیب میں عشق کرنے والےلڑکے اور لڑکی کو کپل (Couple )یعنی جوڑا کا نام دیا جاتاہے جبکہ ہم مسلمان صرف شرعی طورپرنکاح کے ذریعہ ایک ہونے والے لڑکا اورلڑکی کو جوڑا کہیں گے ۔
بہرکیف!مغربی حرام جوڑوں کی فحش چیزوں کے کثرت اشاعت کی وجہ سے مسلم جوڑے متاثر ہوتے ہیں اور وہ بھی فحش مناظر شیئرکرتے ہیں ایسے لوگوں کو اللہ سے ڈرنا چاہئے ۔ ایک حدیث پاک سے عبرت حاصل کرتے چلیں ۔
ایک جگہ مرد و خواتین جمع تھے تو آپ پہلے مردوں کی جانب متوجہ ہوئے اورفرمایا:کیا تم میں کوئی ایسا ہے جو اپنی بیوی کے پاس آ کر، دروازہ بند کر لیتا ہے اور پردہ ڈال لیتا ہے اور اللہ کے پردے میں چھپ جاتا ہے؟، لوگوں نے جواب دیا: ہاں، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:اس کے بعد وہ لوگوں میں بیٹھتا ہے اور کہتا ہے: میں نے ایسا کیا میں نے ایسا کیا، یہ سن کر لوگ خاموش رہے، مردوں کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم عورتوں کی جانب متوجہ ہوئے اور ان سے بھی پوچھا کہ: کیا کوئی تم میں ایسی ہے، جو ایسی باتیں کرتی ہے؟، تو وہ بھی خاموش رہیں، لیکن ایک نوجوان عورت اپنے ایک گھٹنے کے بل کھڑی ہو کر اونچی ہو گئی تاکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسے دیکھ سکیں اور اس کی باتیں سن سکیں، اس نے کہا: اللہ کے رسول! اس قسم کی گفتگو مرد بھی کرتے ہیں اور عورتیں بھی کرتی ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جانتے ہو ایسے شخص کی مثال کیسی ہے؟، پھر خود ہی فرمایا: اس کی مثال اس شیطان عورت کی سی ہے جو گلی میں کسی شیطان مرد سے ملے، اور اس سے اپنی خواہش پوری کرے، اور لوگ اسے دیکھ رہے ہوں۔(صحيح الجامع:7037, ارواء الغليل:2011)

بیوی کے حقوق (شوہر کے ذمہ)

(1) مہر کی ادائیگی :بیوی کے حقوق میں سے سب سے اہم شوہر کے ذمہ طے شدہ مہر کی ادائیگی ہے ، اللہ تعالی کا فرمان ہے: وَآتُوا النِّسَاءَ صَدُقَاتِهِنَّ نِحْلَةً(النساء؛4)
ترجمہ: اور عورتوں کو ان کے مہر راضی خوشی دے دو۔
ان کے لئے سخت وعید ہے جو بیوی سے فائد ہ اٹھاکر چھوڑ دیتے ہیں اور مہرکھالیتے ہیں ، عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مرفوعاً مروی ہے:
إِنَّ أَعْظَمَ الذُّنوبِ عندَ اللهِ رجلٌ تَزَوَّجَ امرأةً فلمَّا قَضَى حاجَتَهُ مِنْها طَلَّقَها و ذهب بِمَهْرِها( السلسلة الصحيحة:999)
ترجمہ:اللہ کے نزدیک سب سے عظیم جرم والا وہ شخص ہے جس نے کسی عورت سے شادی کی،پھر جب اس سے اپنی حاجت پوری کر لی تو اسے طلاق دے کر اس کا مہر ہتھیا لیا
بیویوں کا مہرکھانے کی ایک قسم نکاح شغار ہے ،نکاح شغار(سٹہ وٹہ کی شادی)یہ ہے کہ کوئی آدمی اپنی بیٹی، بہن یا ولیہ کی شادی اس شرط پر کسی سے کرے کہ وہ اس کے ساتھ اپنی کسی عزیزہ کی شادی کرے اور دونوں نکاح میں مہر ختم کردیا جائے۔ یہ حرام نکاح ہے اور اگر اس قسم کے شرطیہ نکاح میں مہر طے بھی کردیا جائے تب بھی سٹہ وٹہ کی شادی باطل ہے۔ ہاں دو خاندان کے درمیان آپس میں دو الگ الگ نکاح اتفاقا اور بغیر شرطیہ شادی کے ہو تو اس شادی میں کوئی حرج نہیں ہے۔
بہرکیف! نکاح میں مہر شادی کے وقت ہی دے دینا بہتر ہے لیکن اگر شادی کے وقت نہ دے سکے تو شادی کے بعد جس قدر جلدی ہو بیوی کو اس کا مہر دیدینا چاہئے تاکہ مرد کے ذمہ سے یہ حق ساقط ہوجائے ورنہ قیامت میں وہ جواب دہ ہوگا۔
مہرکتنا ہوناچاہئے؟ نبی ﷺ اپنی ازواج کو پانچ سودرہم مہردیا کرتے تھے۔
ایک درہم(2.975) گرام چاندی ہوتی ہے جس کو پانچ سو سے ضرب دیتے ہیں تو (500*2.975=1487.5) یعنی تقریبا ڈیرھ کلو چاندی بنتی ہے۔ عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ نے اپنی بیوی کو مہر میں کھجور کی کٹھلی کے برابر سونے کی ڈلی دی تھی جس وزن پانچ درہم کے برابر تھا جو تقریبا (5*2.975=14.875) ڈیڑھ تولہ سونا بنتا ہے۔ایک صحابی نے خیبر کی زمین مہر میں دی تھی ، ثابت بن قیس رضی اللہ عنہ نے بیوی کو مہر میں ایک باغ دیا تھا،ایک صحابی کو مہر کے طور پر کچھ دینے کو نہیں تھا تو انہوں نے بیوی کو قرآن سکھایا جو بطور مہر تھا۔ سعید بن مسیب کبار تابعین میں سے ہیں ، انہوں نے اپنی بیٹی کا رشتہ اپنے ایک شاگرد سے کیا تھا اور مہر میں دو درہم متعین کیا تھا۔ خلاصہ یہ ہے کہ مہر کی کوئی خاص چیز اور مقدار متعین نہیں ہے ۔ لڑکا اپنی خوشی اور حیثیت سے بیوی کو جو چیز دینا چاہے جس سے بیوی بھی خوش ہوجائے مہر میں دے سکتا ہےخواہ وہ زمین ہو یا مکان ہو یا زیور ہو یا نقدی روپئے۔

(2)نفقہ: شوہر کے ذمہ بیوی کے بنیادی تمام قسم کے اخراجات ہیں جن میں کھانےکا خرچ، رہائش یا اس کا خرچ ، کپڑا یا اس کا خرچ اور بیماری و علاج کا خرچ ۔ صحیح مسلم (2950) میں مذکور ہے کہ نبی ﷺ نے حجۃ الوداع کے موقع سے دین کے بہت سارے احکام بتائے ان میں عورتوں کے بارے میں بھی کئی وصیتیں فرمائی ، پہلے تقوی کی وصیت کی "فَاتَّقُوا اللَّهَ فِي النِّسَاءِ" عورتوں کے معاملہ میں اللہ سے ڈرتے رہو ۔ظاہر سی بات ہے کہ بغیر تقوی کے ایک مرد بیوی کے معاملہ میں امانتدار نہیں ہوسکتا ہے ، آگے آپ یہ بھی ارشاد فرماتے ہیں :"وَلَهُنَّ عَلَيْكُمْ رِزْقُهُنَّ وَكِسْوَتُهُنَّ بِالْمَعْرُوفِ"اور ان کا حق تمہارے اوپر یہ حق ہے کہ دستور کے مطابق ان کو کھانا کھلاؤ اور کپڑے پہناؤ۔
یہ بات اللہ نے بھی قرآن میں ذکر فرمائی ہے، ارشادربانی ہے:وَعَلَى الْمَوْلُودِ لَهُ رِزْقُهُنَّ وَكِسْوَتُهُنَّ بِالْمَعْرُوفِ(البقرة:233)
ترجمہ:اور جن کے بچے ہیں ان(والد) کے ذمہ ان کا روٹی کپڑا ہے جو مطابق دستور کے ہو ۔
شوہر بیوی اور بچوں کا کفیل ہے اس لئے اسے چاہئے کہ نکاح کے بعد محنت مزدوری کرکے حلال رزق کمائے اور اپنے بیوی بچوں کی حلال روزی سے کفالت کرے ، کمانے میں سستی یا کھلانے میں بخالت کرنا جائز نہیں ہے۔رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے:كَفَى بِالْمَرْءِ إِثْمًا أَنْ يَحْبِسَ عَمَّنْ يَمْلِكُ قُوتَهُ(صحیح مسلم:2312)
ترجمہ:انسان کے لیے اتنا گناہ ہی کافی ہے کہ وہ جن کی خوراک کا مالک ہے ان کا خرچ روک دے۔
ایک طرف شوہر کماکرکھلانے میں سستی وغفلت نہ برتے ، دوسری طرف جو کچھ وہ کماکرلاتا ہے اس میں سے بیوی کو ضرورت بھرخرچ دے، اس کا خرچ نہ روکے اور نہ ہی خرچ دینے میں بخیلی کرے ورنہ بیوی اپنا حق بغیربتائے شوہرکے مال سے لے سکتی ہے ۔ سیدہ عائشہ ؓسےروایت ہے کہ سیدنا ہند بنت عتبہ ؓنےعرض کی،اللہ کے رسول!
إنَّ أبا سفيانَ رجلٌ شحِيحٌ ، وليسَ يُعْطيني ما يَكفيني وولدي إلا ما أخذتُ منهُ ، وهو لا يعلمُ ، فقالَ :خُذي ما يكفيكِ وولدَكِ بالمعروفِ(صحيح البخاري:5364)
ترجمہ: بلاشبہ ابو سفیان ؓ بخیل آدمی ہیں اور مجھے اتنا مال نہیں دیتے جو مجھے اور میری اولاد کو کافی ہوالایہ کہ میں کچھ مال لاعلمی میں لے لوں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: د ستور کے مطابق اتنا مال لے سکتی ہو جو تمہیں اور تمہاری اولاد کو کافی ہو۔
خوش نصیب ہیں وہ لوگ جو حلال روزی کماتے ہیں اور اپنے اہل وعیال پر خوش دلی سےخرچ کرتے ہیں، ایسے لوگوں کے لئے بہت سارے فوائد ہیں ان میں سے ایک فائدہ یہ ہے کہ اللہ کی رضا اور اجر کی نیت سے اہل وعیال پر خرچ کرنے سے صدقہ کا ثواب ملتا ہے ، نبی ﷺ فرماتے ہیں :إِذَا أَنْفَقَ الرَّجُلُ عَلَى أَهْلِهِ يَحْتَسِبُهَا فَهُوَ لَهُ صَدَقَةٌ(صحیح البخاری:55)
ترجمہ:جب آدمی ثواب کی نیت سے اپنے اہل و عیال پر خرچ کرے پس وہ بھی اس کے لیے صدقہ ہے۔
جو آدمی اللہ کی رضا کے لئے گھر والوں پر مال خرچ کرے گاوہ نہ کبھی غلط طریقے سے مال کمائےگا اور نہ کبھی گھر والوں پر مال کی تنگی کرے گا۔ یہاں بیوی کو بھی چاہئے کہ شوہر سے ناجائز مطالبات نہ کرے، دوسروں عورتوں سے مقابلہ بازی اوراسراف و فضول خرچی سے پرہیزکرے۔

(3) کپڑا: شوہر کے ذمہ بیوی کی خوراک کے ساتھ اس کی پوشاک بھی ہے وہ بھی اپنی حیثیت کے مطابق یعنی جیسے وہ پہنتا ہے اپنی بیوی کے لئے کپڑے کی ضرورت پوری کرے گا۔ اس کی دلیل نفقہ کے ساتھ مذکور ہے ۔
(4) رہائش : مرد پر واجب ہے کہ بیوی کے لئے کشادہ مکان یا کفایت کرنے والی رہائش کا انتظام کرے ۔ اللہ تعالی کا فرمان ہے : أَسْكِنُوهُنَّ مِنْ حَيْثُ سَكَنتُم مِّن وُجْدِكُمْ(الطلاق:6)
ترجمہ:تم اپنی طاقت کے مطابق جہاں تم رہتے ہو وہاں ان عورتوں کو رکھو ۔
اس آیت میں مطلقہ رجعیہ کے بارے بتایا گیا ہے کہ اس کے لئےاپنی حیثیت کےمطابق رہائش کا انتظام کرو۔ جب مطلقہ کے لئے سکنی کی ذمہ داری شوہرپر واجب ہے تو بیوی کے لئے بدرجہ اولی رہائش ضروری ہے ۔

مشترکہ فیملی میں بیوی کی رہائش کا مسئلہ :
یہاں ایک مسئلہ یہ واضح رہے کہ عموما برصغیر میں مشترکہ فیملی سسٹم چلتا ہے جہاں شوہر بیوی کو اپنے باپ کے بنائے ہوئے گھر میں رکھتا ہے اور وہاں مختلف لوگوں کے ایک ساتھ رہنے کی وجہ سے بیوی کو طرح طرح کی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے ، معمولی معمولی بات پر گھرکے دوسرے لوگ اس گھر سے بھی بھگاتے رہتے ہیں ، یہ عورت کی توہین ہے ۔ ایسے میں اگر بیوی الگ رہائش کا مطالبہ کرے تو شوہر پر واجب ہے کہ وہ حسب استطاعت اس کے لئے رہائش مہیا کرے ۔رہائش کی ذمہ داری سسر پر نہیں شوہر پر ہے ، اس لئے بیوی مشترکہ فیملی میں دشواری ہونے پر الگ رہائش جو شوہر کی طرف سے ہو مطالبہ کرسکتی ہے چاہے اسی جگہ رہائش کیوں نہ ہو مگر وہ رہائش شوہر کی طرف سے ہو تاکہ دوسرا کوئی اس جگہ سے نہ بھگائے ۔بسا اوقات بیوی ذاتی مکان کا مطالبہ کرنے لگتی ہے تو ایسے میں شوہر کی استطاعت ورغبت کو دیکھ کربیوی مطالبہ کرے ۔ بطور حق بیوی صرف رہائش کا مطالبہ کرسکتی ہےمکان کا نہیں ۔

بیوی کو چھوڑکرخارجی ملک میں رہنا:
بسا اوقات شوہر روزگار یا کوئی دوسرے کام کی غرض سے بیوی سے الگ دوسرے ملک میں رہتا ہے ، ایسے میں ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا بیوی کو چھوڑ کر شوہر باہری ملک میں رہ سکتا ہے جبکہ شادی کا مقصد میاں بیوی کا یکجا ہونا ہے ؟
اس کا جواب یہ ہے کہ اگر بیوی راضی ہو اور دونوں صبر بھی کرسکتے ہوں یعنی صبر کرتے ہوئے عصمت کی حفاظت کرنا تو شوہر بیوی سے دور کسی دوسرے ملک میں رہ سکتا ہے ۔اس کی مدت متعین نہیں ہے کہ کب تک وطن واپس آئے ؟جب ضرورت ہو سال دوسال بعدآئے اس میں شرعا حرج نہیں ہےلیکن اجازت نہ دے ، تو باہر نہیں جاسکتا ہے ایسے میں شوہر بیوی کے ساتھ رہے یا اپنے ساتھ باہر لے جائے ۔اسی طرح ایک دوسرے سے دور رہتے ہوئے گناہ میں واقع ہونے کا خطرہ محسوس ہورہا ہوتو پھر شوہر بیوی کے پاس رہے چاہے بیوی اجازت ہی کیوں نہ دے کیونکہ نکاح کا اصل مقصد نگاہوں اور شرمگاہوں کی حفاظت ہے ۔

(5) بیوی کے لئے شوہر کی غیرت: شوہر اپنی بیوی کے لئے غیرت مند بنے، وہ اس کی عزت وآبرو کی حفاظت کرے جیسے اس کے ذمہ جسم وجان کی حفاظت ہے ۔شوہر کی واجبی ذمہ داری ہے کہ بیوی کے گھر میں اجنبی مردوں کوداخل نہ ہونے دے حتی کہ ایسی عورتوں اور لوگوں کو بھی روکے جو میاں بیوی میں پھوٹ اور گھر بگاڑنے کا کام کرنے والے ہوں ۔
‏‏‏‏ سیدنا عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: إِيَّاكُمْ وَالدُّخُولَ عَلَى النِّسَاءِ، فَقَالَ رَجُلٌ مِنْ الْأَنْصَارِ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَفَرَأَيْتَ الْحَمْوَ، قَالَ: الْحَمْوُ الْمَوْتُ(صحیح مسلم:5674)
ترجمہ:بچو تم عورتوں کے پاس جانے سے۔ ایک شخص انصاری بولا: یا رسول اللہ! اگر دیور جائے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:دیور تو موت ہے۔
‏‏‏‏ ابن وہب نے کہا: سنا میں نے لیث بن سعد رضی اللہ عنہ سے، کہتے تھے: حدیث میں جو آیا ہے کہ «حمو» موت ہے تو «حمو» سے مراد خاوند کے عزیز اور اقربا ہیں جیسے خاوند کا بھائی یا اس کے چچا کا بیٹا (خاوند کے جن عزیزوں سے عورت کا نکاح کرنا درست ہے تو وہ سب «حمو» میں داخل ہیں ان سے پردہ کرنا چاہیے سوائے خاوند کے باپ یا دادا یا اس کے بیٹے کے کہ وہ محرم ہیں ان سے پردہ ضروری نہیں ہے)۔(مسلم:5676)
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ شوہر بیوی کو اس طرح اور ایسی جگہ رکھے کہ اس کے کمرے میں عورت کے محارم کے علاوہ کوئی داخل نہ ہو۔ مشترکہ فیملی میں بطور خاص دیور بھابھی کے گھر کثرت سے آتا جاتا ہے بلکہ ہنسی مذاق کرتا ہے اور بھابھی دیور سے پردہ نہیں کرتی جبکہ یہ سب حرام امور میں ہیں ۔ کوئی اجنبی مرد عورت کے ساتھ خلوت(تنہائی) نہ کرے (خواہ دیور ہی کیوں نہ ہو)اور بھابھی کادیور سے ہنسی مذاق کرنا حرام ہے، اس سے پردہ کرے، گھر میں اس سے اکیلے ہرگز بات نہ کرےبلکہ اس کو گھر میں بھی داخل نہ ہونےدے اور اللہ کا خوف کھائے ۔ ظاہر سی بات ہے کہ ان باتوں پر عمل کرنے کے لئے شوہر کی ضرورت ہے ، شوہر بیوی کے لئے غیرتم مند بنے اور اپنے گھر میں بے حیائی کو داخل نہ ہونے دے ۔
ذرا سعد رضی اللہ عنہ کی غیرت دیکھیں، مغیرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ نے کہا :
لَوْ رَأَيْتُ رَجُلًا مَعَ امْرَأَتِي لَضَرَبْتُهُ بِالسَّيْفِ غَيْرَ مُصْفَحٍ، فَبَلَغَ ذَلِكَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: أَتَعْجَبُونَ مِنْ غَيْرَةِ سَعْدٍ، لَأَنَا أَغْيَرُ مِنْهُ، وَاللَّهُ أَغْيَرُ مِنِّي(صحیح البخاری:6846)
ترجمہ: اگر میں اپنی بیوی کے ساتھ کسی غیر مرد کو دیکھ لوں تو سیدھی تلوار کی دھار سے اسے مار ڈالوں۔ یہ بات نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کیا تمہیں سعد کی غیرت پر حیرت ہے۔ میں ان سے بھی بڑھ کر غیرت مند ہوں اور اللہ مجھ سے بھی زیادہ غیرت مند ہے۔
یہی غیرت مرد میں اپنی بیوی کے لئے ہونی چاہئے کیونکہ بے غیرتی دیوثیت ہے جو بدترین صفت ہے اور جہنم میں لے جانے والی ہے۔
عبداللہ بن عمر سے روایت ہے کہ نبی ﷺ فرماتے ہیں :ثلاثةٌ قد حرَّم اللهُ عليهم الجنةَ : مُدمنُ الخمرِ ، و العاقُّ ، و الدَّيُّوثُ الذي يُقِرُّ في أهلِه الخُبْثَ(صحيح الجامع:3052)
ترجمہ: تین قسم کے آدمی پر اللہ نے جنت کو حرام کردی ہے ، ایک شراب پینے والا ، دوسرا والدین کی نافرمانی کرنے والا اور تیسرا دیوث(بے غیرت) جو اپنے گھروالوں(اہل وعیال) میں میں بے حیائی اور خباثت کو برداشت کرے ۔
اہل وعیال میں بے غیرتی کو برداشت کرنے کا مطلب یہ ہے کہ گھر کی عورتیں بے حیائی کا کام کرے، عریاں لباس لگاکر گھومے، اجنبی مردوں سے روابط رکھے ، ان سے ہنسی مذاق کرے ، غیرمردوں کے ساتھ گھومے اور لوگوں کے سامنے ناچ گانے کرے وغیرہ ، مرد ان بے حیائی کو دیکھ کر کچھ نہ بولے ۔ ایسا مرد دیوث ہے۔
اس لئے مومن مرد اور مومن عورت دونوں کو غیرت مند ہونا ہے اور اپنے اندر اور اپنے گھر میں بے غیرتی کو برداشت نہیں کرنا ہے بلکہ جن اسباب سے گھر میں بے حیائی پیدا ہوتی ہے ان سے بھی دور رہنا ہے جیسے عورت کے گھر میں اجنبی مردوں کا داخل ہونااور زیب و زینت کرکے یا عریاں لباس لگاکر عورتوں کا بازار جانا وغیرہ ۔ عورت خود بھی گھر میں کسی اجنبی مرد کو داخل نہ ہونے دے، کوئی زبردستی گھسے تو شوہر کو اس کی اطلاع دے اور گھر سے باہر نکلتے وقت شرعی پردہ کرے اور فتنہ کی جگہوں سے دور رہے۔
بلاشبہ مرد کو غیرت مند ہونا ہے مگر بیوی پر بلاوجہ شک بھی نہیں کرنا ہے ، اسی طرح عورت کو بھی بلاوجہ اپنے شوہر پر شک نہیں کرنا ہے حتی کہ ایک دوسرے کے بارے میں کسی سے بے حیائی کی بات سنے تو اس وقت تک اس پر یقین نہ کرے جب تک اس بات کی تحقیق نہ کرلے اور اس کا ٹھوس ثبوت نہ مل جائے ۔

(6)ایک سے زائد بیویوں کے درمیان عدل ومساوات قائم کرنا: اسلام نے مردوں کو ایک سے زائد شادی کرنے کی اجازت دی ہے مگر وہ اجازت عدل وانصاف سے مشروط ہے ۔ اللہ تعالی کا فرمان ہے :
فَانكِحُوا مَا طَابَ لَكُم مِّنَ النِّسَاءِ مَثْنَىٰ وَثُلَاثَ وَرُبَاعَ ۖ فَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا تَعْدِلُوا فَوَاحِدَةً(النساء؛4)
ترجمہ: عورتوں میں سے جو بھی تمہیں اچھی لگیں تم ان سے نکاح کرلو، دو دو، تین تین، چار چار سے، لیکن اگر تمہیں عدل نہ کرسکنے کا خوف ہو تو ایک ہی کافی ہے۔
ایک سے زیادہ شادی کرنے کی تین شرطیں ہیں ۔ ایک شرط تو عدل ہے یعنی شوہر تمام بیویوں کے درمیان برابری اور عدل کرسکے ۔دوسری شرط یہ ہے کہ سب کو نان ونفقہ، سکنی ، کپڑا اور ضروریات پورا کرنے کی طاقت رکھتا ہو، اور تیسری شرط یہ ہے کہ اس کے پاس سب بیوی سے جماع کرنے کی طاقت ہو۔ گویا اپنی بیویوں کے حقوق، ضروریات، محبت ، جماع، تحفہ ، سہولت اور آرام وسکون دینے میں عدل وانصاف کرنےاور نان ونفقہ مع جماع کی طاقت رکھتا ہو تب ہی وہ دوسری شادی کرےگا ورنہ دوسری شادی نہیں کرے گا۔ اس لئے انانیت کو تسکین پہنچانے یا شوق پورا کرنے یا دکھاواکرنے کے لئے دوسری شادی نہ کرے بلکہ ضرورت کے تحت اور عدل کرنے کی طاقت رکھنے پر دوسری شادی کرے ۔ جو لوگ اپنی بیویوں میں عدل نہیں کرتے ان کو اللہ کی پکڑ سے ڈرنا چاہئے اور یہ حدیث یاد رکھنی چاہئے ۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مَن كانت لَهُ امرأتانِ فمالَ إلى إحداهما، جاءَ يومَ القيامةِ وشقُّهُ مائلٌ(صحيح أبي داود:2133)
ترجمہ:جس کے پاس دو بیویاں ہوں اور اس کا میلان ایک کی جانب ہو تو وہ بروز قیامت اس حال میں آئے گا، کہ اس کا ایک دھڑا جھکا ہوا ہو گا۔
ایک سے زائد بیویوں کے حقوق و آداب میں سے ہے کہ بیویوں کو ایک کمرہ میں نہ رکھے بلکہ ان سب کے لئے الگ الگ روم یا الگ الگ رہائش کا انتظام کرے، سب کے یہاں رات بسر کرنے میں انصاف کے ساتھ باری متعین کرے، سب کو یکساں طور پر کھلائے ، پہنائے ، ہدیہ تحفہ دے اور علاج و معالجہ کا خیال کرے، ایک بیوی کے سامنے دوسری بیوی کو نہ ڈانٹے ، نہ مارے ، ان سب کی اولاد میں کوئی تفریق نہ کرے ، سب کے ساتھ ایک جیسی محبت کرے اور سب کے ساتھ نرمی وہمدردی کے ساتھ پیش آئے ۔ شوہر بیویوں میں عدل کرے تو بیویاں آپس میں ضرور مل کررہیں گی ۔

(7) عذر کے سبب خلع طلب کرنے پر خلع دے: بسا اوقات میاں بیوی میں ایک دوسرے کی نہیں بنتی ہے اور ایک ساتھ رہنا مشکل ہوجاتا ہے تو شوہر کوطلاق دینے کا اختیار ہے وہ جب بیوی کو الگ کرنا چاہے تو طلاق دے کر الگ کرسکتا ہے لیکن بیوی کا معاملہ مختلف ہے ، اسے شوہر سے الگ ہونا ہو تو شوہر سے خلع طلب کرے گی ، شوہر خلع دے گا تو الگ ہوگی ، یاپھر ناگزیرحالات میں قاضی نکاح فسخ کردیتا ہے ۔ یہاں خلع کے ذکر کا مقصد یہ ہے کہ اگر بیوی شوہر سے خلع طلب کرے تو شوہر بیوی کے معاملہ میں غور کرے، اگر اس کے پاس عذر ہےاور الگ ہونا چاہتی ہے تو خلع دیدے ۔
ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ ثابت بن قیس بن شماس رضی اللہ عنہ کی بیوی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں اور عرض کیا:
يَا رَسُولَ اللَّهِ، مَا أَنْقِمُ عَلَى ثَابِتٍ فِي دِينٍ وَلَا خُلُقٍ إِلَّا أَنِّي أَخَافُ الْكُفْرَ(صحیح البخاری:5276)
ترجمہ:یا رسول اللہ! ثابت کے دین اور ان کے اخلاق سے مجھے کوئی شکایت نہیں لیکن مجھے خطرہ ہے (کہ میں ثابت رضی اللہ عنہ کی ناشکری میں نہ پھنس جاؤں)۔ اس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے دریافت فرمایا کہ کیا تم ان کا باغ (جو انہوں نے مہر میں دیا تھا) واپس کر سکتی ہو؟ انہوں نے عرض کیا جی ہاں۔ چنانچہ انہوں نے وہ باغ واپس کر دیا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے ثابت رضی اللہ عنہ نے انہیں اپنے سے جدا کر دیا۔
بہت سارے مرد ایسے ہیں جو شادی کرکے نہ بیوی کا حق دیتے ہیں ، نہ اس کو طلاق دیتے ہیں اور نہ خلع طلب کرنے پر خلع دیتے ہیں ایسے مردوں کو بھی حق تلفی کی وجہ سے اللہ کا خوف کھانا چاہئے اور ان بہنوں کو بھی اللہ سے ڈرنا چاہئے جو بغیرعذر کے شوہر سے جدائی طلب کرے ۔
ثوبان رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: أَيُّمَا امْرَأَةٍ سَأَلَتْ زَوْجَهَا طَلَاقًا مِنْ غَيْرِ بَأْسٍ فَحَرَامٌ عَلَيْهَا رَائِحَةُ الْجَنَّةِ(صحیح الترمذی:1187)
ترجمہ:جس عورت نے بغیر کسی بات کے اپنے شوہر سے طلاق طلب کی تو اس پر جنت کی خوشبو حرام ہے۔

(8) نکاح کے شرائط پورے کرنا: عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
أَحَقُّ الشُّرُوطِ أَنْ تُوفُوا بِهِ مَا اسْتَحْلَلْتُمْ بِهِ الْفُرُوجَ(صحيح البخاري:2721)
ترجمہ:وہ شرطیں جن کے ذریعہ تم نے عورتوں کی شرمگاہوں کو حلال کیا ہے، پوری کی جانے کی سب سے زیادہ مستحق ہیں۔
نکاح خود ایک معاہدہ ہے جو میاں بیوی کے درمیان ہوتا ہے اور اس کی وجہ سے دونوں کے ذمہ کچھ علاحدہ اور کچھ مشترکہ حقوق واجب ہوتے ہیں جن کا پورا کرنا دونوں پر واجب ہے۔ ساتھ ہی اس حدیث سے معلوم ہوتا ہےکہ نکاح کے وقت شرائط طے کرنا جائز ہے اور جو شرائط طے کئے جائیں وہ نکاح کے بعد پورا کرنا پڑے گا۔نکاح کے شرائط میں سے ایک تو مہر ہے جس کے ذریعہ شرمگاہ حلال کی جاتی ہے اس کا ادا کرنا مرد پر لازم ہے ، مہر کے علاوہ بھی اگر لڑکی کوئی شرط لگاتی ہے مثلا مجھے الگ مکان چاہئے یا میری زندگی میں لڑکا دوسری شادی نہیں کرے یا لڑکا نماز وروزہ کی پابندی کرے گا ۔ یا لڑکا خود کہے لڑکی سے کہے مجھ سے شادی کروگی تو ایک مکان دوں گا یا دس تولہ سونا دوں گا وغیرہ تو نکاح کے بعد طے کی گئی لڑکا کو پورا کرنا واجب ہے ۔
یہاں اس بات کا خیال رہے کہ ناجائز مطالبہ نہ لڑکی کی طرف سے قابل قبول ہے اور نہ لڑکا کی طرف سے قابل قبول ہے مثلا لڑکی شرط لگائے پہلی بیوی کو طلاق دینا پڑے گا یا لڑکا شرط لگائے تم کو گھر والوں سے پردہ نہیں کرنا ہے ، ایسی شرط نہیں مانی جائے گی ۔اعتدال میں رہتے ہوئے لڑکا اور لڑکی کے درمیان عقد نکاح کے وقت جو جائز شرط طے پائے ، شادی کے بعد اس کا پورا کرنا ضروری ہے ۔

شوہر کے حقوق(بیوی کے ذمہ)

(1) بھلائی کے کام میں شوہر کی اطاعت:
یہاں ایک قاعدہ اچھی طرح سمجھ لیں ، نبی ﷺ کا فرمان ہے : الطَّاعَةُ فِي الْمَعْرُوفِ.(صحیح البخاری:4340)
ترجمہ: اطاعت کا حکم صرف نیک کاموں کے لیے ہے۔
اس حدیث کو سامنے رکھتے ہوئے یہ بات اچھی طرح سمجھ لیں کہ بیوی شوہر کا وہی حکم مانے کی جو جائز ہو اور بھلائی سے متعلق ہو لیکن شوہر کا جو حکم ناجائز ہو اس کو نہیں مانے گی خواہ کھانے پینے کے معاملہ میں ہو، لباس کے معاملہ میں ہو ،جماع کے معاملہ میں ہو، معاملات کے سلسلے میں ہو یا عبادت واحکام سے سلسلے میں ۔ بیوی کے ذمہ شوہر کے حقوق کی ادائیگی کے ساتھ اچھی باتوں کا حکم ماننا ہے اور جو بری بات ہو اس سے انکار کرے ۔
شوہر بستر پہ بلائے فورا لبیک کہے اور اس کی حاجت پوری کرے ، نبی ﷺ کا فرمان ہے :إذا الرَّجلُ دعا زوجتَهُ لحاجتِهِ فلتأتِهِ ، وإن كانت علَى التَّنُّورِ(صحيح الترمذي:1160)
ترجمہ: جب خاوند اپنی بیوی کواپنی حاجت پوری کرنے کے لیے بلائے تواسے آنا چاہیے ، اگرچہ وہ تنور پرہی کیوں نہ ہو ۔
نبی ﷺ کا فرمان ہے : إذا دعا الرجلُ امرأتَهُ إلى فراشِهِ فأَبَتْ ، فبات غضبانَ عليها ، لعنتها الملائكةُ حتى تُصبحَ(صحيح البخاري:3237)
ترجمہ:جب کوئي شخص اپنی بیوی کواپنے بستر پر بلائے اوربیوی آنے سے انکار کردے اورخاوند اس پر ناراضگی کی حالت میں ہی رات بسر کردے تو اس عورت پر صبح ہونے تک فرشتے لعنت کرتے رہتے ہیں۔
شوہر گھر پہ موجود ہو اور نفلی روزہ سے منع کرے تو رک جائے، گھر سے باہر بلااجازت جانے سے منع کرے تو رک جائے، بے پردگی سے منع کرے تو حکم کی اطاعت کرے، غیرمحارم سے بات کرنے سے منع کر ے تو بات مانے ، اس طرح کے جو بھی احکام شوہر کی طرف سے ہوں بیوی ان میں شوہر کی بات مانے۔اس جگہ عورتوں کے لئے ایک اہم اور مشہور حدیث بیان کرنا چاہتا ہوں جس کو یاد کرلیں اور عمل زندگی میں اتار لیں ، ان شاء اللہ دنیا وی زندگی بھی بہتر گزرے گی اور اخروی زندگی بھی بہتر رہے گی ۔
سیدنا انس بن مالک ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا:
إذا صلَّتِ المرأةُ خَمْسَها ، و صامَت شهرَها ، و حَفِظَت فرْجَها ، وأطاعَت زَوجَها ، دخَلتِ الجنَّةَ(صحيح الجامع:661)
ترجمہ:جب عورت پانچ نمازیں پڑھتی ہو، ماہ رمضان کے روزے رکھتی ہو، اپنی شرمگاہ کی حفاظت کرتی ہو اور اپنے خاوند کی اطاعت کرتی ہو، تو اس سے کہا جائے گا کہ جنت میں جس دروازے سے چاہتی ہے، داخل ہو جا۔
اس حدیث میں بیان کی گئی چار باتوں کو ہربیوی لازم پکڑلے ۔

بیوی کی نافرمانی کا مسئلہ :
بیوی کی کبھی کبھار کی نافرمانی کو شوہر نظر انداز کرے لیکن اگر وہ مسلسل نافرمانی کرے، نافرمانی پر مصر ہوجائے تو عموما شوہر جذبات میں آکر فورا طلاق دے دیتاہے یہ بالکل غلط طریقہ ہے ۔ اسلام نے ہمیں اصلاح کی غرض سے ایک لمبا پراسیس دیا ہے پہلے اس پر عمل کرنا ہے، جب اصلاح کی گنجائش نہ تب جدائی کا راستہ اختیار کرنا ہے ۔ میاں بیوی میں اصلاح کا پراسیس کیا ہے ، اللہ فرماتا ہے :
وَاللَّاتِي تَخَافُونَ نُشُوزَهُنَّ فَعِظُوهُنَّ وَاهْجُرُوهُنَّ فِي الْمَضَاجِعِ وَاضْرِبُوهُنَّ ۖ فَإِنْ أَطَعْنَكُمْ فَلَا تَبْغُوا عَلَيْهِنَّ سَبِيلًا ۗ إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلِيًّا كَبِيرًا وَإِنْ خِفْتُمْ شِقَاقَ بَيْنِهِمَا فَابْعَثُوا حَكَمًا مِّنْ أَهْلِهِ وَحَكَمًا مِّنْ أَهْلِهَا إِن يُرِيدَا إِصْلَاحًا يُوَفِّقِ اللَّهُ بَيْنَهُمَا ۗ إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلِيمًا خَبِيرًا (النساء:34، 35)
ترجمہ:اور جن عورتوں کی نافرمانی اور بد دماغی کا تمہیں خوف ہو انہیں نصیحت کرو اور انہیں الگ بستروں پر چھوڑ دو اور انہیں مار کی سزا دو پھر اگر وہ تابعداری کریں تو ان پر راستہ تلاش نہ کرو، بیشک اللہ تعالیٰ بڑی بلندی اور بڑائی والا ہے۔اگر تمہیں میاں بیوی کے درمیان آپس کی ان بن کا خوف ہو تو ایک منصف مرد والوں میں اور ایک عورت کے گھر والوں میں سے مقرر کرو، اگر یہ دونوں صلح کرنا چاہیں گے تو اللہ دونوں میں ملاپ کرا دے گا یقیناً پورے علم والا اور پوری خبر والا ہے۔
سورہ نساء کی ان دو آیات میں اللہ تعالی شوہر کو حکم دیتاہے اگر بیوی بددماغی اور نافرمانی کرے تو سب سے پہلے نصیحت کرو۔ یہ پہلا درجہ ہے ۔ نصیحت غصہ میں نہیں کی جاتی اور نہ ڈانٹ پھٹکار کو نصیحت کہتے ہیں ۔ اللہ اور اس کے رسول کے احکام بیان کرنے اور پیار ومحبت سے نرم لہجے میں بیوی کو اطاعت و فرمانبرداری کی دعوت دینے کو نصیحت کہتے ہیں ۔اللہ فرماتا ہے ، نصیحت کرو ، مومنوں کو نصیحت فائدہ پہنچاتی ہے ۔
اصلاح کا دوسرامرحلہ : ایک مناسب وقت تک شوہر بیوی کو وعظ ونصیحت کرتا رہے، منانے اور خوش کرنے کی کوشش کرتا رہے ۔پھر بھی نافرمانی پر مصر رہے تو دوسرے مرحلہ میں بیوی کا بستر الگ کرکے معمولی ناراضگی کا اظہارکرے، یہ ناراضگی بیوی کو اذیت پہنچانے یا گھر سے نکالنے کی غرض سے نہ ہو بلکہ اصلاح کی غرض سے ہو۔
تیسرا مرحلہ: بستر الگ کرکے، ناراض ہوکراور بات چیت بند کرکے بھی بیوی کی اصلاح نہ ہوسکے تو اب ہلکی مار کے ذریعہ اس کو سدھارنے کی کوشش کریں گے ۔ ہلکی مار سے مراد جس سےجسم میں زخم نہ لگے، خون نہ نکلے ، ہڈی نہ ٹوٹے یا کوئی حصہ متاثر نہ ہو۔
یہ تین مرحلے گھریلو اصلاح کے تھے جن کے ذریعہ بیوی کی نافرمانی کو دور کرنا ہے لیکن ان تین گھریلو نسخوں سے بھی اصلاح نہ ہوسکے تب ایک چوتھااصلاحی نسخہ یہ استعمال کرنا ہے کہ شوہر اور بیوی دونوں کی طرف سے گھر کے دوسرے افراد کوبطور حکم(مخلص فیصل) جمع کرکے دونوں کے مابین اصلاح کی ہرممکن کوشش کی جائے گی ۔آیت بتاتی ہے کہ حکم اخلاص کے ساتھ دونوں میں اصلاح کی کوشش کریں تو اللہ اصلاح کی راہ ہموار کردے گا۔ کوشش اور سعی تمام کے باجود میاں بیوی کے درمیان اصلاح نہ ہوسکے تو یہ لوگ میاں بیوی کی منظوری لے کر دونوں میں جدائی کرسکتے ہیں ۔
بہرکیف! میاں بیوی کا معاملہ حقوق العباد سے متعلق ہے، جہاں بیوی کو شوہر کی نافرمانی سے بچنا ہے وہیں شوہر کو بھی بیوی کے معاملہ میں زیادتی اور ظلم سے بچنا ہے ۔‏‏‏‏ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: لَتُؤَدُّنَّ الْحُقُوقَ إِلَى أَهْلِهَا يَوْمَ الْقِيَامَةِ حَتَّى يُقَادَ لِلشَّاةِ الْجَلْحَاءِ مِنَ الشَّاةِ الْقَرْنَاءِ(صحیح مسلم:6580)
‏‏‏‏ترجمہ:تم حقداروں کے حق ادا کرو گے قیامت کے دن یہاں تک کہ بے سینگ والی بکری کا بدلہ سینگ والی بکری سے لیا جائے گا۔

(2) شوہر کے گھر رہائش اختیار کرنا:
شادی کے بعد لڑکی کا اپنا گھر شوہر کا گھر ہوتا ہے ، اب اسی گھر میں سکونت اختیار کرناہے اور شوہر کی اجازت کے بغیر اس گھر سے باہر قدم نہیں نکالنا ہے ۔
اللہ تعالی نے حکم دیا ہے: وَقَرْنَ فِي بُيُوتِكُنَّ وَلَا تَبَرَّجْنَ تَبَرُّجَ الْجَاهِلِيَّةِ الْأُولَىٰ (الاحزاب:33)
ترجمہ:اور اپنے گھروں میں قرار سے رہو اور قدیم جاہلیت کے زمانے کی طرح اپنے بناؤ کا اظہار نہ کرو۔
عورت گھر کی مالکن ہے، اسے گھر میں رہنا ہےاورامورخانہ داری نبھانا ہے، باہری کام جیسے روزی تلاش کرنا، گھر کے لئے ضروری اشیاء مہیا کرنا اور گھرکاانتظام سنبھالنا یہ مردوں کا کام ہے اس لئے مرد کو عورت کا حاکم کہا گیا ہے۔ گویا عورت کی اصل یہی ہے کہ گھر میں رہے اور گھریلو ذمہ داری نبھائے تاہم بوقت ضرورت شوہر کی اجازت سے گھر سے باہر نکل سکتی ہے اور ایک مسلم عورت جب گھر سے باہر نکلے تو شرعی احکام کے ساتھ مکمل پردہ کرتے ہوئے نکلے ۔ یہاں پر نبی ﷺ کا یہ فرمان ملاحظہ فرمائیں ،
عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: الْمَرْأَةُ عَوْرَةٌ فَإِذَا خَرَجَتِ اسْتَشْرَفَهَا الشَّيْطَانُ(صحیح الترمذی:1173)
ترجمہ:عورت (سراپا) پردہ ہے، جب وہ باہر نکلتی ہے تو شیطان اس کو تاکتا ہے۔
گویا عورت کے گھر سے باہر نکلنے میں شیطانی فتنہ ہے اس لئے جس قدر وہ گھر میں رہے اس کے لئے اتنا ہی اچھا ہے ۔ مردوں کے اوپر بھی لازم ہے کہ گھر کی ضروری اشیاء عورت کے لئے مہیا کیا کرے تاکہ اسے باہر نکلنے کی نوبت نہ آئے ۔ امام ذہبی نے لکھا ہے کہ فاطمہ بنت عطار البغدادیہ زندگی میں صرف تین بار اپنے گھر سے نکلتی ہیں ، ایک اس وقت جب ان کی شادی ہوئی ، دوسرا اس وقت جب حج کے لئے گئیں اور تیسرا اس وقت جب ان کی وفات ہوئی۔(تاريخ الاسلام للذهبي)

(3) شوہر کے لئے زینت اختیار کرنا: شوہر کے لئے زینت اختیار کرنا بیوی کی اہم ذمہ داریوں میں سے ہے ۔ اللہ نے عورت میں کشش کے ساتھ ایسا ملکہ رکھا ہے کہ وہ سچ دھج کر، اپنے نازوادا اور شیریں گفتارسے شوہر کی نفرت بھی محبت میں تبدیل کرسکتی ہے ۔جو عورت شوہر کے لئے سجا کرے، اسی کے لئے زینت اختیارکرےاور اس کے سامنے ہمیشہ زیب وزینت کے ساتھ ہنستی مسکراتی آیا کرے، کبھی ایسی بیوی سے شوہر نفرت نہیں کرے گا۔ آج کل عورتیں بازار جانے، گھومنے اور دوسروں کے واسطے تو ضرور سجا کرتی ہیں مگر اپنے شوہر کے سامنے وہی پھٹاپرانا لباس، مایوسی اور گندی سی صورت لے کر آتی ہے ، جب معاملہ اس طرح کا ہوتا ہے تو دھیرے دھیرے شوہر کی رغبت بیوی میں ختم ہونے لگتی ہے ۔عورت شوہر کے لئے فائدہ اٹھانے کی چیز ہے پھر اس کو اسی طرح ہمیشہ رہنا چاہئے تاکہ شوہر سکون پائے اور فائدہ اٹھاتا رہے ۔ ابو ہریرہ‌رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
خيرُ النِّساءِ التي تَسُرُّهُ إذا نَظَرَ ، و تُطِيعُهُ إذا أمَرَ ، لا تُخالِفُهُ في نَفسِها و لا مالِها بِما يَكرَهُ(صحيح الجامع:3298)
ترجمہ: وہ عورت کہ جب اس کا شوہر اس کی طرف دکھے تو اس خوش کردے۔ جب اسے کوئی حکم دے تو فرمانبرداری کرے، خاوند کو جو با ت نا پسند ہے اپنے نفس اور اپنے مال کے بارے میں اس کی مخالفت نہ کرے۔
جو بیوی ناک بھوں چڑھاکراور کندی شکل بناکر رہتی ہو اس کی طرف شوہر دیکھے تو کیسے خوش ہوگا؟ اس لئے بیوی کو شوہر کے لئے خوبصورت بن کر اور سچ دھج کر رہنا ہے۔
نبی ﷺ جب ایک جہاد سے واپس آرہے تھے تو مدینہ شہر میں داخل ہوتے وقت فرمایا:أَمْهِلُوا حَتَّى تَدْخُلُوا لَيْلًا أَيْ عِشَاءً لِكَيْ تَمْتَشِطَ الشَّعِثَةُ وَتَسْتَحِدَّ الْمُغِيبَةُ(صحیح البخاری:5079)
ترجمہ: تھوڑی دیر ٹھہر جاؤ اور رات ہو جائے تب داخل ہو تاکہ پریشان بالوں والی کنگھا کر لیوے اور جن کے شوہر موجود نہیں تھے وہ اپنے بال صاف کر لیں۔
بیوی کو شوہر کے لئے زینت تو اختیار کرنا ہی ہے شوہر بھی بیوی کے لئے زینت اختیارکرے، عمدہ لباس پہنے، خوشبولگائے، بدن یا منہ سے بو آتی ہو تو اس کے ازالہ کے لئے خوشبودار چیز استعمال کرے، تیل لگائے، مانگ سنوارے ۔گویا شوہر کو بھی بیوی کے لئے عمدہ اور صاف ستھرا رہنا چاہئے ، بہت ساری عورتیں شوہر کے گندہ رہنے کی شکایت کرتی ہیں حتی کہ کتنی بیویاں ایسے مردوں سے الگ بھی ہوجاتی ہیں اس لئے شوہر بھی زیب وزینت کا خیال کرے۔

(4) شوہر کی شکرگزاری کرنا:
شوہر بیوی کے لئے ایک عظیم محسن ہے ، وہ بیوی ی تمام ضروریات کی تکمیل کرتا اور اس کے سکھ دکھ کا بہترین ساتھی ہے اس لئے بیوی کو اپنے شوہر کا ہمیشہ شکرگزار رہنا چاہئے۔
طبرانی کی معجم صغیر میں کتاب الادب کے تحت یہ حدیث موجود ہے ۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:عائشہ! جب قیامت کے روز اللہ تعالیٰ مخلوقات کو جمع کرے گا تو اپنے بندوں میں سے ایک ایسے بندے سے فرمائے گا جس کے ساتھ کسی نے نیکی کی ہوگی کہ کیا تو نے اپنے محسن کا شکریہ ادا کیا ہے؟ وہ کہے گا: اے میرے رب! میں نے یہ سمجھ کر کہ یہ تیری طرف سے ہے، میں نے تیرا شکریہ ادا کر دیا تھا۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا:تو نے میرا شکریہ ادا نہیں کیا جب کہ تو نے اس شخص کا شکریہ بھی ادا نہیں کیا جس کے ہاتھوں پر میں نے تجھ پر اپنا احسان جاری کیا۔
ایک دوسری حدیث میں ہے ،ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
لا يَشْكُرُ اللهَ مَن لا يَشْكُرُ الناسَ(صحيح أبي داود:4811)
ترجمہ:جو لوگوں کا شکر ادا نہیں کرتا اللہ کا (بھی) شکر ادا نہیں کرتا۔
بیوی پر شوہر کے بہت سارے احسانات ہوتے ہیں اس لئے بیوی شوہر کا شکر گزار بنے مگر اکثر عورتیں شوہر کی ناشکری کرتی ہیں جو دنیا میں بھی بسا اوقات ذلت کا سبب بن سکتی ہے اور اخروی انجام تو بہت برا ہے، اس سلسلے میں چند احادیث ملاحظہ فرمائیں اور اپنی اصلاح کریں ۔
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم عیدالاضحی یا عید الفطر کے لئے عید گاہ کی طرف نکلے اور عورتوں کے پاس گزرے تو فرمانے لگے :
يا معشر النساء تصدقن، فإني رأيتكن أكثر أهل النار . فقُلْن : وبم ذلك يا رسولَ اللهِ ؟ قال تكثرن اللعن، وتكفرن العشير(صحيح البخاري:1462)
ترجمہ:اے عورتوں کی جماعت! صدقہ و خیرات کیا کرو بیشک مجھے دکھایا گیا ہے کہ جہنم میں تمہاری اکثریت ہے تو وہ کہنے لگیں اے اللہ کے رسول وہ کیوں ؟ تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم گالی گلوچ بہت زیادہ کرتی ہو اور خاوند کی نافرمانی کرتی ہو ۔
حضرت اسماء بنت یزید بیان کرتی ہیں کہ نبی ﷺ نے فرمایا:
إياكنَّ و كفرانَ المُنعَّمِينَ لعلَّ إحداكنَّ تطولُ أيمتُها من أبويها ، ثم يرزقُها اللهُ زوجَها و يرزقُها منه ولدًا ، فتغضبُ الغضبةَ فتكفرُ ، فتقول : ما رأيتُ منك خيرًا قطُّ( صحيح الأدب المفرد:800)
ترجمہ: تم اچھا سلوک کرنے والے شوہروں کی ناشکر گزاری سے بچو پھر فرمایا تم عورتوں میں سے کسی کا حال یہ ہوتا ہے کہ اپنے والدین کے گھر لمبے عرصے تک کنواری بیٹھی رہتی ہو پھر اللہ تعالیٰ اسے شوہر دیتا ہے اور اس سے اولاد ہوتی ہے پھر کسی بات پر غصہ ہوجاتی ہو اور کفر کرتی ہو اور شوہر سے کہتی ہو کہ تم نے میرے ساتھ کوئی احسان نہیں کیا۔

(5) شوہر کی خدمت کرنا:
بیوی کے ذمہ شوہر کی خدمت کرنا واجب ہے یا نہیں اس بارے میں صحیح بات یہ ہے کہ معروف طریقے سے شوہر کی خدمت کرنا بیوی پر واجب ہے ۔ شوہر کی خدمت میں اس کے لئے کھانا پکانا،کھلانا پلانا کپڑے دھلنا، بسترلگانا، گھروبرتن کی صفائی کرنا اورشوہر کے بچوں کی دیکھ بھال اور اس کی اچھی پرورش کرنا وغیرہ شامل ہے۔
عہدرسول میں گھریلو کاج کی جونوعیت تھی اس کو بیوی انجام دیتی تھی، جیسے فاطمہ رضی اللہ عنہا چکی چلاتیں ، روٹی پکاتیں اور گھر کا کام کرتیں ۔ ازواج مطہرات کھانا پکانے کا کام خود ہی کرتیں اور خود سے رسول اللہ ﷺ کو کھلاتیں۔واقعہ افک میں مذکور ہے کہ جب سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا پر الزام لگاتو آپ ﷺ نے بریرہ رضی اللہ عنہاسے عائشہ کے بارے میں پوچھا توانہوں نے جواب دیا :
مَا رَأَيْتُ أَمْرًا أَكْثَرَ مِنْ أَنَّهَا جَارِيَةٌ حَدِيثَةُ السِّنِّ تَنَامُ عَنْ عَجِينِ أَهْلِهَا، فَتَأْتِي الدَّاجِنُ، فَتَأْكُلُهُ(صحيح البخاري:7369)
ترجمہ:ہ میں نے اس کے سوا اور کچھ نہیں دیکھا کہ وہ کم عمر لڑکی ہیں، آٹا گوندھ کر بھی سو جاتی ہیں اور پڑوس کی بکری آ کر اسے کھا جاتی ہے۔
اسی طرح صحیح مسلم (668) میں ہے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کپڑے سے منی چھیل ڈالتی (یعنی کھرچ ڈالتی اس لئے کہ وہ گاڑھی ہوتی) پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کپڑے کو پہن کر نماز پڑھتے۔
ان دونوں حدیث سے معلوم ہوا کہ سیدہ عائشہ گھر کا کھانا بھی پکاتیں اور کپڑے بھی صاف کرتیں ۔
اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہا اپنے شوہر زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ کے گھر کا سارا کام کرتی تھیں ، صحیح بخاری (5234) کی یہ حدیث ملاحظہ فرمائیں :
اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ زبیر رضی اللہ عنہ نے مجھ سے شادی کی تو ان کے پاس ایک اونٹ اور ان کے گھوڑے کے سوا روئے زمین پر کوئی مال، کوئی غلام، کوئی چیز نہیں تھی۔ میں ہی ان کا گھوڑا چراتی، پانی پلاتی، ان کا ڈول سیتی اور آٹا گوندھتی۔ میں اچھی طرح روٹی نہیں پکا سکتی تھی۔ انصار کی کچھ لڑکیاں میری روٹی پکا جاتی تھیں۔ یہ بڑی سچی اور باوفا عورتیں تھیں۔ زبیر رضی اللہ عنہ کی وہ زمین جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں دی تھی، اس سے میں اپنے سر پر کھجور کی گٹھلیاں گھر لایا کرتی تھی۔ یہ زمین میرے گھر سے دو میل(چارکلومیٹر تقریبا) دور تھی۔
یہ چند نمونے اس بات کا ثبوت ہیں کہ عہد رسول میں گھر کا جو کام ہوا کرتا تھا اس کو عورتیں انجام دیتی تھیں اسی طرح آج بھی عورتوں کو اپنے شوہر اور اس کے گھر کی خدمت انجام دینا چاہئے ۔شوہر گھرپر رہتا ہو اورگھر کے کام کاج میں ہاتھ بٹا سکتا ہو تو اسے چاہئے کہ گھریلو کاموں میں بیوی کی مدد کرے ، نبی ﷺ بھی گھریلو کاموں میں بیویوں کی مدد کیا کرتے تھے ۔ اور شوہر گھر پر نہیں رہتا ہو، یا کام کی وجہ سے دیر رات گھر لوٹتا ہو تو اس کے لئے گھریلو کام میں مدد کرنا ممکن نہیں ہے ۔ہاں بیوی کمزور یا بیمار ہو اور گھر کے کاموں کے لئے لازما کسی کی مدد چاہئے تو حسب استطاعت خادم کا انتظام کردے یا خود مدد کرے۔

مشترکہ فیملی سسٹم اور ساس وبہو کی خدمت:
ہمارے لئے مشترکہ فیملی میں بڑے مسائل ہیں، ان میں سے ایک مسئلہ یہ ہے کہ عموما مشترکہ فیملی میں بہو کو خادمہ سمجھا جاتا ہے ،اس کو پکانے، کھلانے، صفائی ستھرائی سے لے کر گھر کے ہرفردکی خدمت کرنا اور ان سب کو خوش رکھنا بہو کی ذمہ داری سمجھی جاتی ہے ۔ ایک عورت صحیح سے اپنے شوہر کی خدمت نہیں کرسکتی ، گھر کے سارے افرادبشمول ساس وسسر، دیور، جیٹھ ، نندوغیرہ کی اکیلے کیسے خدمت کرسکتی ہے پھر سب کو خوش بھی رکھنا ہے۔ اس وجہ ہے مشترکہ فیملی سسٹم میں بہو پر اکثر ظلم ہوتا ہے ، بہو کے ذمہ شوہر اور اپنے بچے کی خدمت ہے، گھر کے باقی فراد کی خدمت نہیں ہے مگر ساس وسسر کی خدمت جبرا کروائی جاتی ہے ۔
مشترکہ نظام سب کے تعاون سے اور محبت کے ماحول میں چل سکےتو اس میں حرج نہیں ہے، بہو اس نظام میں احسان وسلوک کے تحت ساس وسسر کی خدمت کرے گی لیکن جب وہاں محبت کی فضا قائم نہ ہو، ظلم ہوتا ہو، حق مارا جاتا ہو، بے پردگی اور بے نظمی ہو تو پھر مرد کو اپنی بیوی کے ساتھ الگ رہنا چاہئے تاکہ بیوی شوہر کی اچھی طرح خدمت کرسکے اور اپنے بچوں کی اچھی پرورش اور اچھی تعلیم وتربیت کا انتظام کرسکے ۔ بسا اوقات بیوی شوہر کی خدمت سے انکار کرتی ہے یا مشترکہ فیملی میں وہی من مانی کرتی ہے اور دوسروں پر مظالم ڈھاتی ہے ایسی بہو کو اللہ کا خوف کھانا چاہئے اور امانتداری سے اپنی ذمہ داری ادا کرنا چاہئے۔

(6) شوہر کے مال کی حفاظت کرنا:
بیوی کے ذاتی مال جو نقدی یا زیورات کی شکل میں ہواسی مال پر بیوی کا مالکانہ حق ہے اس میں جیسے چاہے تصرف کرے لیکن شوہر جو کماتا ہے وہ مال شوہر کا ہے اس مال کی حفاظت کرنا بیوی کی ذمہ داری ہے اور اس مال میں بغیر شوہر کی اجازت کے کچھ بھی تصرف کرنا جائز نہیں ہے ۔
ابوامامہ باہلی رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے حجۃ الوداع کے سال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے خطبہ میں فرماتے سنا:
لا تنفقُ امرأةٌ شيئًا من بيتِ زوجِها إلَّا بإذنِ زوجِها قيلَ يا رسولَ اللَّهِ ولا الطَّعامُ قالَ ذاكَ أفضلُ أموالِنا(صحيح الترمذي:670)
ترجمہ: عورت اپنے گھر میں سے اپنے شوہر کی اجازت کے بغیر کچھ خرچ نہ کرے۔ لوگوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! کھانا بھی کسی کو نہ دے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں، کھانا بھی نہ دے، یہ تو ہمارے مالوں میں سب سے بہتر مال ہے۔
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ عورت شوہر کے سامان میں سے معمولی چیز بھی بغیر اس کی اجازت کے کسی کو نہیں دے سکتی ہے ، ہاں اگر شوہر نے کھانے پینے کی چیزیں اور معمولی صدقہ وخیرات کے لئے اجازت دے رکھی ہو تو ہرہرچیز کے لئے اجازت لینے کی ضرورت نہیں ہے اور جو اہم اور بڑی چیز ہو یا زیادہ مال خرچ کرنے کی بات ہو تو شوہر سے اجازت لے کر اس کے مال میں تصرف کرے ۔
شوہربنیادی خرچ میں بخیلی کرے توبیوی بغیر اجازت اور بغیرعلم کے بھی شوہر کے مال سے ضرورت بھر لے سکتی ہے ۔

(7) بیوی کی زندگی میں شوہر کی وفات ہوجائے توچار ماہ دس دن سوگ منائے:
اللہ تعالی نے شوہر کو بلند مقام دیا ہے ، نیک بیوی اس کی عظمت کا خیال کرتی ہے اور ہمیشہ ادب واحترام کا معاملہ کرتی ہے ۔ بیوی پر شوہر کے حقوق میں سے ایک حق یہ ہےکہ اگر اس کی زندگی میں شوہر کا انتقال ہوجائے تو اس کے لئے چار ماہ دس دن(ایک سوتیس دن) شوہر کے ہی گھرمیں عدت گزارے اور شوہر کےلئے سوگ کرے ۔ یہ اللہ کا حکم ہے، اس کی مخالفت کرنے والی عورت کو گناہ ملے گا۔
اللہ کا فرمان ہے :
وَالَّذِينَ يُتَوَفَّوْنَ مِنكُمْ وَيَذَرُونَ أَزْوَاجًا يَتَرَبَّصْنَ بِأَنفُسِهِنَّ أَرْبَعَةَ أَشْهُرٍ وَعَشْرًا(البقرة: 234)
ترجمہ: اور تم میں سے جو لوگ فوت ہوجائیں اور بیویاں چھوڑ جائیں وہ عورتیں اپنے آپ کو چار مہینے اور دس دن عدت میں رکھیں ۔
اور نبی ﷺکا فرمان ہے : لا يحلُّ لامرأةٍ تؤمنُ باللهِ واليومِ الآخرِ أنْ تحدَّ على ميِّتٍ فوقَ ثلاثِ ليالٍ ، إلَّا على زوجٍ أربعةَ أشهُرٍ وعشرًا (صحيح البخاري:5334)
ترجمہ: کسی عورت کے لیے جو اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتی ہو یہ جائز نہیں کہ کسی میت پر تین دن سے زیادہ سوگ منائے ، صرف شوہر کے لیے چار مہینے دس دن کا سوگ ہے ۔
سوگ منانے کا مطلب زینت کی چیزوں کو ترک کردینا اور نکاح سے متعلق باتوں سے بچنا ہے ۔ عدت شوہر کے گھر گزارنا ہے اور اس دوران بلاضرورت گھر سے باہر نہیں جانا ہے اور دوران سوگ زینت کی چیزیں مثلا بھڑکیلے کپڑے، زیب وزینت کے سامان بالی، چوڑی، انگوٹھی ، پازیب وغیرہ استعمال نہیں کرنا ہے۔
سماج میں ایک غلط فہمی پائی جاتی ہے کہ شوہر کی وفات سے نکاح ٹوٹ جاتا ہے اس لئے بیوی شوہر کا چہرہ نہیں دیکھ سکتی ہے ، یہ غلط بات ہے، اس کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ شوہر کی وفات پہ بیوی اس کا چہرہ دیکھ سکتی ہے، چاہے تو اس کو غسل دے سکتی ہے ، شوہر کے میراث سے اسے حصہ ملے گا اور آخرت میں میاں بیوی دونوں جنت میں گئے تو ایک ساتھ رہیں گے ۔ بیوی کے تفصیلی احکام جاننے کے لئے محرر کے بلاگ پر" بیوہ خاتون کے احکام ومسائل " کا مطالعہ کریں ۔
 
Top