• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اسلام میں منگنی کا تصور

مقبول احمد سلفی

سینئر رکن
شمولیت
نومبر 30، 2013
پیغامات
1,400
ری ایکشن اسکور
461
پوائنٹ
209
نکاح کے امور میں سے ایک امر منگنی بھی ہے ۔ یہ ہندی لفظ ہے اسے عربی میں خطبہ کہتے ہیں اور اردو میں شادی کا پیغام دینا کہتے ہیں جو عقد نکاح سے پہلے ہوتا ہے ۔ ویسےعقد نکاح شرعی طریقے پہ انجام دینے سے پورا ہوجاتا ہے یعنی لڑکی کے ولی کی طرف سے ایجاب اور لڑکا کی طرف سے قبول ہو اور یہ ایجاب و قبول دو عادل گواہوں کی موجودگی میں ہو۔
اسلام میں منگنی کا ثبوت ملتا ہے اس کے کئی دلائل ہیں ، چند ایک ملاحظہ فرمائیں :
(1) اللہ تعالی فرمان ہے :ولا جناح عليكم فيما عرضتم به من خطبة النساء (البقرة :235)
ترجمہ: اور تم پر کوئی گناہ نہیں کہ تم عورتوں کو اشارے کنائے میں نکاح کا پیغام دو ۔

(2) نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے کہ انہوں نے عائشہ رضي اللہ تعالی عنہا کو شادی کا پیغام دیا تھا اور ان سے منگنی کی تھی ۔(بخاری :4793 )

(3)نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حفصہ رضي اللہ تعالی عنہا سے منگنی کی تھی۔( صحیح بخاری :4830 ) ۔

شرعی حکم :
مذکورہ دلائل کی روشنی میں منگنی مشروع ہے، لہذا منگنی ہونے کے بعد بغیر کسی عیب کے قول و قرار سے مکرنا جائز نہیں ہے۔ہاں اگر فریقین میں سے کسی پہ کوئی معقول عیب ظاہر ہوجائے تو منگنی ختم کرسکتا ہے ۔

منگنی کی حکمت اور فوائد:
روزمرہ کی زندگی میں ہم دیکھتے ہیں کہ جب بھی دو فریق یا دو ادارہ یا دو محکمہ میں معاہدہ ہوتا ہے تو آپس میں ملاقات کرتے ہیں ، منگنی کی رسم بھی صدیوں سے ہے شکل مختلف رہی ہوگی ۔ اس کی حکمت ایک دوسرے کو قاعدے سے جان لینا ہے۔ اس کا بڑا فائدہ یہ ہوتا ہے جانبین کو قریب سے دیکھ کر شادی کا معاملہ طے کرنے یا انکار کرنے میں آسانی پیدا ہوجاتی ہے ۔

منگنی کے مباح امور:
٭ کسی سے منگنی کا ارادہ ہو تو استخارہ کرے جیساکہ فرمان نبوی ہے "جب تم میں سے كوئی شخص كسی (مباح) كام كا ارادہ كرے تو دو ركعات نفل نماز پڑھے اس كے بعد دعا كرے"۔(بخاری : 6382)
٭دیندار لڑکی کو پیغام دے :عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ : ( تُنْكَحُ الْمَرْأَةُ لِأَرْبَعٍ : لِمَالِهَا ، وَلِحَسَبِهَا ، وَلِجَمَالِهَا ، وَلِدِينِهَا ، فَاظْفَرْ بِذَاتِ الدِّينِ تَرِبَتْ يَدَاكَ ۔ (متفق علیہ)
ترجمہ : ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے بیان کی کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (عورت سے شادی چار اشیاء کی وجہ سے کی جاتی ہے، اس کے مال، حسب نسب، حسن، اور دین کیوجہ سے، دین دار کو پا لو تمہارے ہاتھ خاک آلود کر دے گی)۔
٭باکرہ سے شادی: آپ ﷺ حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے فرماتے ہیں :فهلا بكراً تلا عبها وترعبك (متفق عليه)
ترجمہ: کیوں تم نے کنواری سے شادی نہیں کی، وہ تم سے کھیلتی اور تم اس سے کھیلتے۔
(اس حدیث کو امام بخاری، مسلم اور اصحابِ سنن نے روایت کیا ہے۔)
٭زیادہ بچہ جننے والی عورت سے شادی:اللہ کے رسول صلى الله عليه وسلم نے فرمایا:
تَزَوَّجُوا الوَدُودَ الوَلُودَ ، فَاِنِّی مُکَاثِر بِکُمُ الأُمَمَ۔( أبوداوؤد )
ترجمہ: تم زیادہ محبت کرنے والی اور زیادہ بچے جنم دینے والی عورتوں سے شادی کرو ، کیونکہ دیگر امتوںکے مقابلے میں مجھے اپنی امت کی کثرتِ تعداد پر فخر ہوگا۔
٭ منگیتر کو دیکھنا:شادی سے پہلے لڑکی (منگیتر) کو دیکھنادیکھنا مسنو ن ہے چنانچہمغیرہ بن شعبہ رضي اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ میں ایک عورت کو نکاح کا پیغام بھیجنے والا ہوں، آپ نے فرمایا: جاؤ اسے جاکر دیکھ لو،کیونکہ ایسا کرنا تم دونوں کے مابین زيادہ استقرار (محبت اور رشتے کی مضبوطی) کا باعث بنے گا ۔( صحیح ابن ماجہ : 1524)

منگنی کے غیر شرعی امور:
(1) منگنی پہ منگنی:نبی اکرم صلى الله عليه وسلم کا ارشاد ہے:لا یخطب الرجل علی خطبة اخیہ حتی ینکحہ او یترک (رواہ البخاری)
ترجمہ: آدمی اپنے بھائی کے پیغام نکاح پر پیغام نکاح نہ دے یہاں تک وہ اس سے شادی کرلے یا چھوڑ دے“ (صحیح بخاری)

(2) انگوٹھی کی رسم: منگنی میں لڑکا اور لڑکی انگوٹگیوں کا تبادلہ کرتے ہیں جسے ڈبلہ کا نام دیا جاتا ہے۔ اس اعتقاد کے ساتھ کے اس کے اس کے پہننے سے فائدہ ہوگا۔ یہ جاہلی تصور ہے بلکہ ضفیف الاعتقادی ہے اور یہ غیروں کی نقالی بھی ہے ۔ سونے کی انگوٹھی مردوں پہ حرام ہے ۔

(3) منگنی پہ آڈر کی دعوت: اگر مہمانی کے طور پر دعوت کھلادی جائے تو کوئی حرج نہیں مگر آڈر کرکے جبری دعوت کھانا جائز نہیں ہے ، اسی طرح مٹھائیاں تقسیم کرنے کی رسم بھی درست نہیں ہے ۔

(4) پھول مالا پیش کرنا: بعض علاقوں میں رسم کے طور پہ پھول مالا پیش کئے جاتے ہیں یہ بھی غیر شرعی ہے ۔

(5) شراب و کباب کی محفل: منگنی کے نام ستارے ہوٹلوں میں شراب و کباب اور رقص و سرود کی محفل قائم کی جاتی ہے جو سراسر حرام ہے ۔

(6) اختلاط : منگنی کی رسم میں بے پردہ خواتین اجبنی مردوں کے ساتھ اکٹھی ہوتی ہیں یہ بھی اسلام میں حرام ہے ۔

(7) مہنگے تحائف: اس موقع سے ایک دوسرے کو مہنگے تحائف پیش کئے جاتے ہیں ، یہاں تک کہ پیسے نہ ہوں تو اس رسم کی ادائیگی کے لئے قرض لیا جاتا ہے ۔ یہ غیرشرعی رسم کے ساتھ ساتھ فضول خرچی میں بھی شامل ہے ۔

(8) منگیتر سے متعلق غیر شرعی امور:
٭ اسلامی اعتبار سے منگیتر کا ہتھیلی اور اس کا چہرہ دیکھنا جائز ہے مگر یہاں بدن کا حصہ تک کھول کر دیکھا جاتا ہے ، یہ کام کہیں لڑکا انجام دیتا ہے تو کہیں منگنی میں آنے والی خواتین انجام دیتی ہیں۔
٭لڑکا کو خلوت کی چھوٹ دی جاتی ہے تاکہ ایک دوسرے کو اچھی طرح جان لے، یہ حرام کام ہے ۔
٭ منگنی کے بعد لڑکی سے رابطہ ، فون پہ بات چیت اور اس کے ساتھ ادھر ادھر گھوم گھام شروع ہوجاتا ہے ۔
٭ بسا اوقات کھلی جھوٹ سے شادی پہ برا اثر پڑتا ہے اور شادی سے پہلے لڑکا اور لڑکی جسمانی تعلق تک قائم کر لیتے ہیں ۔ یہ زنا کاری جسے اسلام نے حرام ٹھہرایا ہے ۔

لمحہ فکریہ:
کچھ لوگوں نے منگنی کے نام پہ لڑکیوں کو دیکھنا، دعوت کھانا، تحائف حاصل کرنا دھندا بنالیاہے ، شادی کا پیغام محض ایک بہانہ ہوتا ہے ۔
غریب گھر کی بیٹی یا خوبصورتی سے محروم لڑکی کی شادی اس وقت ایک چیلنج بن گیاہے ، ہزاروں گھر سے لڑکے والے دیکھنے آتے ہیں، اورجہاں ایک طرف کھاپی کے مزید کنگال بناتے ہیں وہیں طرح طرح کے عیب نکال کر سماج میں بدنام بھی کرتے ہیں ۔ اگر منگنی کا یہی مطلب ہے تو اسلام ایسی منگنی کی اجازت نہیں دیتا۔
 
شمولیت
اگست 13، 2011
پیغامات
117
ری ایکشن اسکور
172
پوائنٹ
82
دیندار لڑکی کو پیغام دے :عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ : ( تُنْكَحُ الْمَرْأَةُ لِأَرْبَعٍ : لِمَالِهَا ، وَلِحَسَبِهَا ، وَلِجَمَالِهَا ، وَلِدِينِهَا ، فَاظْفَرْ بِذَاتِ الدِّينِ تَرِبَتْ يَدَاكَ ۔ (متفق علیہ)
ترجمہ : ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے بیان کی کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (عورت سے شادی چار اشیاء کی وجہ سے کی جاتی ہے، اس کے مال، حسب نسب، حسن، اور دین کیوجہ سے، دین دار کو پا لو تمہارے ہاتھ خاک آلود کر دے گی)۔
السلام علیکم
محولہ بالا ترجمہ حدیث میں عربی الفاظ " تربت یداک " کا ترجمہ درست نہیں ہے۔ درست ترجمہ درج ذیل ہے
" تمہارےدونوں ہاتھ خاک آلودہوں"
واللہ اعلم بالصواب
 

مقبول احمد سلفی

سینئر رکن
شمولیت
نومبر 30، 2013
پیغامات
1,400
ری ایکشن اسکور
461
پوائنٹ
209
34170: (عورت سے شادی چار اشیاء کی وجہ سے کی جاتی ہے۔۔۔)حدیث کی شرح
مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان(عورت سے شادی چار اشیاء کی وجہ سے کی جاتی ہے، مال، حسن، خاندان اور دین ) کی سمجھ نہیں آئی، تو کیا اسکا مطلب یہ ہے کہ جب عورت مالدار، خوبصورت، حسب نسب والی اور دین دار ہو تب ہی اس سے شادی کی جاسکتی ہے؟ دینداری کی بات تو سمجھ میں آتی ہے لیکن باقی میری سمجھ سے باہر ہیں انہیں کیوں لازمی قرار دیا گیا ہے؟

الحمد للہ:



یہ حدیث بخاری (4802) اورمسلم (1466) نے ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے بیان کی کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (عورت سے شادی چار اشیاء کی وجہ سے کی جاتی ہے، اس کے مال، حسب نسب، حسن، اور دین کیوجہ سے، دین دار کو پا لو تمہارے ہاتھ خاک آلود کر دے گی)

اس حدیث میں کسی بھی حسین ، یا حسب نسب والی یا مالدار خاتون سے نکاح کی ترغیب نہیں ہے۔

بلکہ اس حدیث کا معنی ہےکہ لوگ شادی کیلئے ان چار مقاصد کو سامنے رکھتے ہیں، کچھ تو حُسن تلاش کرتے ہیں، اور کچھ اچھا خاندان، اور کچھ مال کے بھوکے ہوتے ہیں، اور کچھ لوگ دینداری کی وجہ سےشادی کرتےہیں، اسی آخری کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ترغیب دلائی ہےاور فرمایا: (دین دار کو پا لو تمہارے ہاتھ خاک آلود کر دے گی)

نووی رحمہ اللہ نے شرح مسلم میں کہا:

"اس حدیث کا صحیح معنی یہی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کے متعلق بتلایا ہے کہ وہ شادی کرتے وقت کیا کرتے ہیں، تو عام طور انہی چار چیزوں کو مدّ نظر رکھا جاتا ہے، چنانچہ لوگوں کے ہاں آخری چیز دینداری ہے، راہنمائی کے طالب! تم دیندار کو ہی پسند کرنا، کہ تمہیں اسی کا حکم دیا جا رہا ہے۔۔۔ یہ حدیث ہر چیز میں دیندار لوگوں کی صحبت پر زور دے رہی ہے، کہ انسان انکی صحبت میں رہ کر انکے اخلاق، حسن معاملہ سے مستفید ہوتا ہےاور اُسے اِن کی طرف سے کسی نقصان کا ڈر نہیں ہوتا" انتہی مختصراً

مبارکپوری رحمہ اللہ تحفۃ الاحوذی میں فرماتے ہیں:

"قاضی رحمہ اللہ نے کہا: لوگوں کی عادت ہے کہ وہ خواتین کی مذہبی اور معاشرتی مناسبت سے انکی خاص صفات کو مدّ نظر رکھتے ہیں، جبکہ دین کو بنیادی حثییت ہونی چاہے کہ اسی کی بنیاد پر اپنایا جائے اور چھوڑا جائے، خصوصی طور پر وہ خصال جو دیر پا ہوں، اور اثرات زیادہ ہوں" انتہی

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان: (تمہارے ہاتھ خاک آلود کر دیگی) کے معنی میں بہت زیادہ آراء پائی جاتی ہیں، چنانچہ نووی نے شرح مسلم میں فرمایا:

"محققین کے ہاں سب سے قوی اور صحیح ترین قول یہ ہے کہ اس کا معنی اصل میں ہاتھوں کے خالی ہونے کے مترادف ہے، لیکن عرب کے ہاں کچھ کلمات استعمال کئے جاتے ہیں لیکن ان کا اصل معنی مراد نہیں ہوتا، جیسے "تربت یداک" تیرے ہاتھ خاک آلود ہوں، "قاتلہ اللہ"اللہ اسے برباد کرے، "ما اشجعہ"بڑا بہادر ہے، "لا أم له"اسکی ماں مرے، "لا أب لك"تیرا باپ نہ رہے، "َثَكِلَتْهُ أُمّه"تیری ماں تجھے گم پائے، "َوَيْل أُمّه" اسکی ماں ہلاک ہو، وغیرہ ، یہ الفاظ کسی چیز کے انکار ، ڈانٹ ڈپٹ ، مذمت، تعظیم، ترغیب، اور پسندیدگی کے اظہار کیلئے استعمال کئے جاتے ہیں۔ واللہ اعلم" انتہی .

اسلام سوال و جواب
 
Top