سوال نمبر - 6
ایک سے زیادہ بیویوں کی اجازت کس لیئے؟
(Polygamy)
ایک سے زیادہ بیویوں کی اجازت کس لیئے؟
(Polygamy)
" اسلام میں ایک آدمی کو ایک سے زیادہ بیویاں رکھنے کی اجازت کیوں دی گئی ہے؟ یا اسلام میں مرد کو متعدد شادیوں کی کیوں اجازت ہے؟ "
کثیر ازواجی یا تعددِ ازواج سے مراد شادی کا ایسا نظام ہے جس میں ایک شخص ایک سے زیادہ زندگی رکھ سکتا ہے۔ کثیر ازواجی دو قسم کی ہے۔
(1) کثیر ازواجی زنانہ:
جس میں ایک مرد ایک سے زیادہ عورتوں سے شادی کرسکتا ہے۔
(2) کثیر ازواجی مردانہ:
جس میں ایک عورت ایک سے زیادہ شوہر رکھ سکتی ہیں ۔
اسلام میں ایک محدود حد تک زیادہ بیویاں رکھنے کی اجازت ہے جبکہ عورت کو ایک سے زیادہ شوہر رکھنے کی اجازت نہیں ہے۔
کثیر ازواجی مختلف مذاہب میں :
اب اصل سوال کی طرف آتے ہیں کہ اسلام ایک آدمی کو ایک سےز یادہ بیویوں کی اجازت کیوں دیتا ہے؟
قرآن دنیا میں وہ واحد مذہبی کتاب ہے جس میں تحریر ہے :
" صرف ایک سے شادی کرو۔ "
وَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا تُقْسِطُوا فِي الْيَتَامَىٰ فَانكِحُوا مَا طَابَ لَكُم مِّنَ النِّسَاءِ مَثْنَىٰ وَثُلَاثَ وَرُبَاعَ ۖ فَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا تَعْدِلُوا فَوَاحِدَةً أَوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ ۚ ذَٰلِكَ أَدْنَىٰ أَلَّا تَعُولُوا ﴿٣﴾
اگر تمہیں ڈر ہو کہ یتیم لڑکیوں سے نکاح کر کے تم انصاف نہ رکھ سکو گے تو اور عورتوں میں سے جو بھی تمہیں اچھی لگیں تم ان سے نکاح کر لو، دو دو، تین تین، چار چار سے، لیکن اگر تمہیں برابری نہ کر سکنے کا خوف ہو تو ایک ہی کافی ہے یا تمہاری ملکیت کی لونڈی (١) یہ زیادہ قریب ہے (کہ ایسا کرنے سے نا انصافی اور) ایک طرف جھکنے سے بچ جاؤ (٢)۔
النساء : 3/4
کسی دوسری مذہبی کتاب میں یہ ہدایت نہیں کی گئی کہ صرف ایک بیوی رکھ رکھو ۔ چاہے ہندوؤں کے وید، رامائن، مہا بھارت کا گیتا ہوں، یا یہودیوں کی تالمود یا عیسائیوں کی بائبل ہو، ان کتابوں کےمطابق ایک آدمی جنتی شایداں چاہے کرسکتا ہے، یہ تو بہت بعد کی بات ہے کہ ہندو پنڈتوں اور عیسائی کلیسا نے بیویوں کی تعداد ایک تک محدود کردی۔
بہت سی ہندو مذہبی شخصیات جن کا ان کی کتابوں میں ذکر ملتا ہے، ایک سے زیادہ بیویاں رکھتے تھے، رام کے باپ راجہ دسرتھ کی ایک سے زیادہ بیویاں تھیں، اسی طرح کرشن کی بہت سی بیویاں تھیں۔
شروع میں عیسائی مردوں کو بھی اجازت تھی کہ وہ جتنی چاہیں بیویاں رکھ سکتے ہیں کیونکہ بائبل میں بیویوں کی تعداد کے بارے میں کوئی پابندی نہیں ، یہ تو محض چند صدیوں پہلے ہوا کہ چرچ نے بیویوں کی تعداد محدود کرکے ایک کردی۔
یہودیت میں بھی ایک سے زیادہ بیویاں رکھنے کی اجازت ہے :
یہودیوں کے تالمودی قانون کے مطابق حضرت ابراہیم (علیہ السلام ) کی تین بیویاں تھیں اور حضرت سلیمان ( علیہ السلام ) کی سینکڑوں ۔
( حاشیہ: بائبل کی اس تصدیق درج ذیل حدیث سے بھی ہوتی ہے۔)
حدثنا علي بن عبد الله، حدثنا سفيان، عن هشام بن حجير، عن طاوس، سمع أبا هريرة، قال قال سليمان لأطوفن الليلة على تسعين امرأة، كل تلد غلاما يقاتل في سبيل الله. فقال له صاحبه ـ قال سفيان يعني الملك ـ قل إن شاء الله. فنسي، فطاف بهن، فلم تأت امرأة منهن بولد، إلا واحدة بشق غلام. فقال أبو هريرة يرويه قال " لو قال إن شاء الله، لم يحنث وكان دركا في حاجته ". وقال مرة قال رسول الله صلى الله عليه وسلم " لو استثنى ". وحدثنا أبو الزناد عن الأعرج مثل حديث أبي هريرة.
ہم سے علی بن عبداللہ مدینی نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا، ان سے ہشام بن حجیر نے، ان سے طاؤس نے، انہوں نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ سلیمان علیہ السلام نے کہا تھا کہ آج رات میں اپنی نوے بیویوں کے پاس جاؤں گا اور ہر بیوی ایک بچہ جنے گی جو اللہ کے راستے میں جہاد کریں گے۔ ان کے ساتھی سفیان یعنی فرشتے نے ان سے کہا۔ اجی انشاءاللہ تو کہو لیکن آپ بھول گئے اور پھر تمام بیویوں کے پاس گئے لیکن ایک بیوی کے سوا جس کے یہاں ناتمام بچہ ہوا تھا کسی بیوی کے یہاں بھی بچہ نہیں ہوا۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہوئے کہتے تھے کہ اگر انہوں نے انشاءاللہ کہہ دیا ہوتا تو ان کی قسم بے کار نہ جاتی اور اپنی ضرورت کو پالیتے اور ایک مرتبہ انہوں نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا کہ اگر انہوں نے استثناء کر دیا ہوتا۔ اور ہم سے ابوالزناد نے اعرج سے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث کی طرح بیان کیا۔
(صحیح البخاری، الأیمان و النذور، باب کیف کانت یمین النبی (ﷺ) حدیث 6639))
کثیر ازواجی اس وقت تک جاری رہی جب ربی گرشوم بن یہودا ( 960ء تا 1030ء) نے ایک فرمان کے ذریعے سے زیادہ شادیوں پر پابندی لگا دی مگر مسلم ممالک میں رہنے والے سیفارڈی یہودیوں نے 1950ء تک اس پر عمل درآمد جاری رکھا حتی کہ۔
اسرائیل کے دفتر پیشوائے اعلیٰ
(Chief Rabbinate) نے ایک سے زیادہ شادیوں پر پابندی کا دائرہ بڑھا دیا۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ 1975ء کی بھارتی مردم شماری میں یہ بات سامنے آئی کہ ہندوؤں نے مسلمانوں کی نسبت زیادہ شادیاں کی ہیں۔
" کیمٹی برائے اسلام میں عورت کا مقام " کی رپورٹ جو 1975ء میں شائع ہوئی اس کے صفحات 66-67 میں بتایا گیا کہ 1961ء سے ا1991ء تک کے دوران میں ایک سے زیادہ شادیوں کے لیے ہندوؤں کا تناسب 5.06% جبکہ مسلمانوں کا 4.31% تھا۔ بھارت کے قانوں کے مطابق صرف مسلمانوں کو ایک سے زیادہ شادیوں کی اجازت ہے۔ وہاں کسی غیر مسلم کے لیے ایک سے زیادہ بیویاں رکھنا غیر قانونی ہے ۔ اس کے باوجود کہ یہ غیر قانونی ہے، مسلمانوں کی نسبت ہندو زیادہ بیویاں رکھتے ہیں۔ پہلے بھارت میں بیویوں کی زیادہ تعداد کے بارے میں پابندی نہ تھی، 1954ء میں جب بھارت میں شادت کا قانون ( میرج ایکٹ ) پاس کیا گیا تو ہندوؤں کے لیے ایک سے زیادہ بیویاں رکھان غیر قانونی قرار پایا ( یہ بات قانون میں ہے لیکن ہندو مذہب کی کسی کتاب میں نہیں )۔
اب ہم جائزہ لیتے ہیں کہ اسلام ایک سے زیادہ بیویوں کی اجازت کیوں دیتا ہے؟
قرآن محدود تعداد میں عورتوں سے شادی کی اجازت دیتا ہے ۔
جیسا کہ میں نے پہلے کہا کہ قرآن کرۂ ارض پر واحد کتان ہے جو یہ کہتی ہے کہ
" صرف ایک سے شادی کرو۔" قرآن عظیم کی سورۃ النساء میں اس بات کو اس پیرائے میں بیان کیا گیا ہے:
فَانْكِحُوا مَا طَابَ لَكُمْ مِنَ النِّسَاءِ مَثْنَى وَثُلاثَ وَرُبَاعَ فَإِنْ خِفْتُمْ أَلا تَعْدِلُوا فَوَاحِدَةً
"چنانچہ تم ان عورتوں سے شادی کرو جو تمہیں اچھی لگیں دو دو ، تین تین یا چار چار (عورتوں ) سے ، لیکن اگر تم کو اس کا خوف ہو کہ تم ( ان کے ساتھ ) انصاف نہ کرسکو گے تو صرف ایک سے ( نکاح کرو )۔
(سورۃ النساء 4 آیت 3)
نزول قرآن سے پہلے شادیوں کی تعداد محدود نہ تھی اور کئ مرد بیسیوں بیویاں رکھتے تھے، اور بعض کی تو سینکڑوں بیویاں تھیں، لیکن اسلام نے بیویوں کی تعداد 4 تک محدود رکھی ہے، اسلام مرد کو دو، تین یا چار عورتوں سے نکاح کی اجازت دیتا ہے ، بشرطیکہ وہ ان میں انصاف کرسکے۔
اسی سورت ، یعنی سورۃ النساء کی آیت 129 کہتی ہے۔
وَلَنْ تَسْتَطِيعُوا أَنْ تَعْدِلُوا بَيْنَ النِّسَاءِ ()
" تم عورتوں کے درمیاں انصاف نہ کرسکو گے ۔
(سورۃ النساء 4 آیت 129)
اس لیئے زیادہ شادیاں کرنا کوئی قانون نہیں بلکہ استثناء ہے۔ بہت سے لوگ یہ غلط نظریہ رکھتے ہیں کہ یہ ضروری ہے کہ ایک مسلمان ایک سے زیادہ بیویاں رکھے۔
حلت و حرمت کے اعتبار سے اسلامی احکام کی پانچ اقسام ہیں:
فرض:
یہ لازمی ہے اور اس کا نہ کرنا باعث سزا و عذاب ہے۔
مستحب:
اس کا حضکم دیا گیا ہے اور اس پر عمل کی ترغیب دی گئی ہے۔
مباح:
یہ جائز ہے ، یعنی اس کی اجازت دی گئی ہے ۔ اس کا کرنا یا نہ کرنا برابر ہ۔
مروہ:
یہ اچھا کام نہیں، اس پر عمل کرنے کی حوصلہ شکنی کی گئی ہے۔
حرام:
اس سے منع کیا گیا ہے، یونی اس پر عمل کرنا حرام ہے اور اس کا چھوڑان باعثِ ثواب ہے۔
ایک سے زیادہ شادیاں کرنا مذکورہ احکام کے درمیانے درجے میں ہے۔ اس کی اجازت ہے لیکن یہ نہیں کہا جاسکتا کہ ایک مسلمان جسن کی دو، تین یا چار بیویاں ہیں، اس سے بہتر ہے جس کی صرف ایک بیوی ہے۔
عورتوں کی اوسط عمر :
قدرتی طور پر لڑکے اور لڑکیاں تقریباً برابر پیدا ہوتے ہیں۔ لیکن ایک بچی میں ایک بچے کی نسبت قوت مدافعت زیادہ ہوتی ہے۔ ایک بچی بیماریوں کا ایک بچے کی نسبت بہتر مقابلہ کرسکتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ابتدائی عمر میں لڑکوں کی شرح اموات لڑکیوں ک نسبت زیادہ ہے۔
اسی طرح جنگوں میں عورتوں کی نسبت مرد زیادہ ہلاک ہوتے ہیں۔ حادثات اور امراض کے باعث بھی عورتوں کی نسبت مرد زیادہ ہوتے ہیں۔ عورتوں کی اوسط عمر بھی مردوں کی نسبت زیادہ ہے۔ اور دنیا میں رنڈوے مردوں کی نسبت بیوہ عورتیں زیادہ ہوتی ہیں۔
بھارت میں نسوانی جنین اور لڑکیوں کا قتل :
بھارت اور اس کئے ہمسایہ ممالک ان چند ممالک میں شامل ہیں جہاں عورتوں کی آبادی مردوں سے کم ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ بھارت میں بچپن میں ہی لرکیوں کو ہلاک کرنے کی شرح بہت زیادہ ہے۔ حیقیت یہ ہے کہ وہاں لاکھوں عورتیں حمل کے طبی معاینے میں لڑکی کا علم ہونے پر اسقاط کروا دیتی ہیں۔ اس طرح ہر سال 10 لاکھ سے زیادہ بچیاں قبل از ولادت ہی موت کے گھاٹ اُتار دی جاتی ہیں۔ اگر اس سفاکی کو روک دیا جائ ےتو بھارت میں عورتوں کی تعداد مردوں کی نسبت زیادہ ہوگی۔
عالمی سطح پر عورتوں کی آبادی مردوں کی نسبت زیادہ ہے :
امریکہ میں عورتوں کی تعداد مردوں کی نسبت تقریباً 78 لاکھ زیادہ ہے۔ صرف نیویارک میں عورتیں مردوں سے 10 لاکھ زیادہ ہیں۔ نیز مردوں کی ایک تہائی تعداد ہم جنس پرست ہے۔ مجموعی طور پر امریکہ میں ہم جسن پرستوں کی تعداد اڑھائی کروڑ ہے۔ اس کا واضح مطلب یہ ہے کہ ان لوگوں کو عورتوں سے شادی کی خواہش نہیں ، اسی طرح برطانیہ میں عورتوں کی تعداد مردوں سے 40 لاکھ زیادہ ہے۔ جرمنی میں مردوں کی نسبت عورتیں 50 لاکھ زیادہ ہیں۔ اسی طرح روس میں بھی مردوں کے مقابلے میں عورتیں 90 لاکھ زیادہ ہیں۔ فی الجملہ اللہ تعالی ہی بہتر جانتا ہے کہ دنیا میں مجموعی طور پر خواتین کی تعداد مردوں کی نسبت کتنی زیادہ ہے۔
ہر مرد کو صرف ایک شادی تک محدود رکھنا ناقابل عمل ہے :
اگر ایک مرد ایک عورت سے شادی کرے تب بھی امریکہ میں تین کروڑ عورتیں بے شوہر رہیں گی۔
( یہ بات پیشِ نظر رہے کہ اڑھائی کروڑ امریکی مرد ہم جنس پرست ہیں ) اسی طرح 40 لاکھ برطانیہ میں ، 50 لاکھ جرمنی میں اور 90 لاکھ روس میں ایسی عورتیں ہوں گی جنہں خاوند نہیں مل سکے گا۔
فرض کریں کہ میری بہن امریکہ میں رہنے والی غیرشادی شدہ خواتین میں سے ہے۔ یا فرض کریں آپ کی بہن وہاں اس حالت میں رہ رہی ہے۔ اس مسئلے کے صرف دو حل ہیں کہ یا تو وہ کسی شادی شدہ مرد سے شادی کرے یا پھر
" پبلک پراپرٹی" ( اجتماعی ملکیت ) بنے، اس کے علاوہ اور کوئی راستہ نہیں۔ جو عورتیں نیک ہیں وہ یقیناً پہلی صورت کو ترجیح دیں گی۔ بہت سی خواتین دوسری عورتوں کے ساتھ اپنے شوہر کی شراکت پسند نہیں کرتیں۔ لیکن اسلامی معاشرے میں جب گھمبیر اور پیچیدہ ہو تو ایک صاحبِ ایمان عورت اپنا معلومی ذاتی نقصان برداشت کرسکتی ہے مگر اس بڑے نقصان کو برداشت نہیں کرسکتی کہ اس کی دوسری مسلمان بہنیں " پبلک پراپرٹی " یعنی اجتماعی ملکیت بن کر رہیں۔
شادی شدہ مرد سے شادی اجتماعی ملکیت بننے سے بہتر ہے۔ مغربی معاشرے میں عام طور پر ایک شادہ شدہ مرد اپن بیوی کے علاوہ دوسری عورتوں سے بھی جنسی تعلقات رکھتاہے۔ ایسی صورت میں عورت ہتک آمیز زندگی بسر کرتی اور عدم تحفظ کا شکار رہتی ہے۔ دوسری طرف یہی معاشرہ ایسے مرد کو جس کی ایک سے زیادہ بیویاں ہوتی ہیں قبول نہیں کرتا۔ حالانکہ اس تعددِ ازواج کی صورت میں عورت پوری عزت اور حفاظت کے ساتھ نہایت باوقات زندگی بسر کرسکتی ہے۔
اس طرح عورت کے سامنے دو راستے رہ جاتے ہیں: یا تو وہ شادی شدہ مرد سے شادی کرے یا
" اجتماعی ملکیت " بن جائے، اسلام پہلی صورت کو ترجیح دیتے ہوئے اسے باعزت مقام دلاتا ہے۔ اور دوسری صورت کی قطعاً اجازت نہیں دیتا۔ اس کے علاوہ اور بھی کئی اسباب ہیں جن کے پیش نظر اسلام مرد کو ایک سے زیادہ شادیوں کی اجازت دیتا ہے۔ ان اسباب میں اصل اہمیت کی چیز عورت کی عزت و ناموس ہے جس کی حفاظت اسلام کے نزدیک فرض اور لازم ہے۔
جاری ہے --------