سوال نمبر - 25
کیا قرآن، بائبل کی نقل ہے؟
کیا قرآن، بائبل کی نقل ہے؟
" کیا یہ درست نہیں کہ محمد () نے قرآن، بائبل کی نقل کیا ہے؟ "
بہت سے ناقدین یہ الزام لگاتے ہیں کہ محمد (ﷺ) نے یہ قرآن خود تصنیف کیا بلکہ انہوں نے اسے دوسرے انسانی ذرائع یا سابقہ الہامی کتب سے اخذ کیا ہے۔ ان کے اعترافات اس نوع کے ہیں:
رومی لوہار کی حقیقت
بعض مشرکین نے نبی کریم
(ﷺ) پر یہ الزام لگایا کہ انہوں نے قرآن کریم مکہ کے نواح میں مقیم ایک رومی لوہار سے سیکھا جو مذہباً عیسائی تھا۔ نبئ کریم
(ﷺ) اکثر اسے کام کرتے ہوئے دیکھنے جایا کرتے تھے۔ ایک وحئ قرآن ہی اس الزام کو مسترد کردینے کیلئے کافی تھی۔ سورۃ نحل میں فرمایا گیا۔
وَلَقَدْ نَعْلَمُ أَنَّهُمْ يَقُولُونَ إِنَّمَا يُعَلِّمُهُ بَشَرٌ لِسَانُ الَّذِي يُلْحِدُونَ إِلَيْهِ أَعْجَمِيٌّ وَهَذَا لِسَانٌ عَرَبِيٌّ مُبِينٌ (١٠٣)
" اور ہمیں بخوبی علم ہے کہ وہ کہتے ہیں ( یقیناً) اس نبی کو ایک آمدی سکھاتا ہے۔ اس کی زبان جس کی طرف یہ غلط نسبت کرتے ہیں، عجمی ہے جبکہ یہ ( قرآن ) تو فصیح عربی زبان ہے۔ "
( سورۃ النحل 16 آیت 103)
ایک ایسا شخص جس کی مادری زبان غیر ملکی تھی اور جو عربی کے ٹوٹے پھوٹے الفاظ میں بمشکل عربی میں بات کرسکتا تھا۔ قرآن مجید کا ماخذ کیسے بن سکتا تھا جو خالص، فصیح و بلیغ اور شستہ عربی زبان ہے؟ یہ سمجھنا کہ کسی لوہار نے ( نعوذ باللہ ) نبئ اکرم (ﷺ) کو قرآن سکھایا، ایسے ہی ہے جیسے کوئی یہ سمجھ بیٹھے کہ چین سے انگلستان نقل مکانی کرنے والے ایک شخص نے جو مناسب انگریزی بھی نہیں جانتا تھا، شیکسپیئر کو پڑھایا لکھایا۔
ورقہ بن نوفل کا کردار :
محمد
(ﷺ) نے خدیجہ (رضی اللہ تعالی عنہا ) کے رشتے دار ورقہ بن نوفل سے پڑھا، حالانکہ محمد
(ﷺ) کے یہودی اور عیسائی علماء سے روابط بہت محدود تھے۔ آپ
(ﷺ) جس نمایاں ترین عیسائی سے واقفیت رکھتے تھے وہ ورقہ بن نوفل نامی نابینا شخص تھے جو نبئ کریم
(ﷺ) کی پہلی زوجہ محترمہ حضرت خدیجہ (رضی اللہ تعالی عنہا) کے ایک رشتے دار تھے، وہ اگرچہ عربی النسل تھے لیکن انہنوں نے عیسائی مذہب اپنا لیا تھا اور وہ عہد نامہ جدید سے اچھے خاصے واقف تھے۔ نبی کریم
(ﷺ) کی صرف دوبار ان سے ملاقات ہوئی، پہلی مرتبہ اس وقت جب ووقہ ( اعلان نبوت سے قبل ) کعبۃ اللہ میں عبادت کررہے تھے اور انھوں نے نبئ کریم
(ﷺ) کی پیشانی پر وفور محبت سے بوسہ دیا، دوسری ملاقات اس وقت ہوئی جب نبئ کریم
(ﷺ) پہلی وحی کے نزول کے بعد ورقہ بن نوفل سے ملنے گئے۔ اس واقعے کے تین سال بعد ورقہ کا انتقال ہوگیا۔ جبکہ نزول کا سلسلہ تقریباً 23 برس جاری رہا۔ یہ مفروضہ کہ قرآن مجید کی وحی کا ذریعہ ورقہ بن نوفل تھے، قطعی مضحکہ خیز مفروضہ ہے۔
اہل کتاب سے مذہبی بحثیں :
یہ بات درست ہے کہ نبئ کریم (ﷺ) کی یہودیوں اور عیسائیوں سے بحثیں ہوئیں لیکن یہ بحثیں نزول وحی کے 13 برس سے زیادہ عرصے کے بعد مدینہ منورہ میں وقوع پذیر ہوئیں۔ یہ الزام کہ یہودی اور عیسائی قرآن کا ماخذ تھے، ایک بیہودہ الزام ہے کیونکہ محمد رسول اللہ () تو ان بحثوں میں ایک معلم اور مبلغ کا کردار ادا کررہے تھے اور انہیں قبول اسلام کی دعوت دیتے ہوئے یہ نشاندہی کررہے تھے کہ وہ توحید کے بارے میں اپنے دین کی حقیقی تعلیمات سے منحرف ہوگئے ہیں۔ ان میں سے متعدد یہودیوں اور عیسائیوں نے بعد میں اسلام قبول کرلیا۔
پیغمبر (ﷺ) کا عجمیوں سے قرآن مجید سیکھنا۔
تمام دستیاب تاریخی شواہد سے یہ ثابت ہے کہ محمد (ﷺ) نے نبوت سے قبل مکہ سے باہر کے صرف تین سفر کیے:
1) 9 برس کی عمر میں آپ اپنی والدہ ماجدہ کے ہمراہ یثرب (مدینہ) تشریف لے گئے۔
2) 9 برس اور 12 برس کی عمر کے درمیان آپ اپنے چچا ابو طالب کے ہمراہ تجارتی سفر پر شام گئے۔
3) 25 برس کی عمر میں آپ حضرت خدیجہ (رضی اللہ تعالی عنہا ) کا تجارتی قافلہ لے کر شام تشریف لے گئے۔
یہ فرض کرلینا کہ مذکورہ تین سفروں کے دوران میں عیسائیوں اور یہودیوں سے عمومی گفتگوؤں اور ملاقاتوں کے نتیجے میں قرآن وجود میں آگیا، ایک بے بنیاد اور خیالی بات ہے۔
ماخذِ قرآن :
نبئ مکرم
(ﷺ) نے قرآن کریم کو یہودیوں اور عیسائیوں سے ہرگز نہیں سیکھا، نبئ کریم
(ﷺ) کی روز مرہ کی زندگی ایک کھلی کتاب کی مانند تھی۔ حقیقت تو یہ ہے کہ ایک وحی کے ذریعے سے لوگوں کو حکم دیا گیا کہ وہ نبی
(ﷺ) کو اپنے گھر میں علیحدگی ( پرائیویسی ) کا موقع دیں۔ ارشادباری تعالٰی ہے:
إِنَّ الَّذِينَ يُنَادُونَكَ مِنْ وَرَاءِ الْحُجُرَاتِ أَكْثَرُهُمْ لا يَعْقِلُونَ (٤)وَلَوْ أَنَّهُمْ صَبَرُوا حَتَّى تَخْرُجَ إِلَيْهِمْ لَكَانَ خَيْرًا لَهُمْ وَاللَّهُ غَفُورٌ رَحِيمٌ (٥)
" بے شک جو لوگ آپ کو حجروں کے باہر سے پکارتے ہیں، ان میں سے اکثر بے عقل ہیں اور اگر بے شک وہ صبر کرتے حتی کہ آپ خود ہی ان کی طرف نکلتے تو ان کے لیئے بہتر ہتوا، اور اللہ بہت بخشنے والا نہایت رحم کرنے والا ہے۔
( سورۃ الحجرات 49 آیات 4 تا 5 )
اگر نبئ کریم
(ﷺ) ایسے لوگوں سے مل رہے ہوتے جو کفار کے دعوے کے مطابق انہیں وہ کلمات بتاتے تھے جنہیں وحی کے طور پر پیش کیا گیا تو یہ بات زیادہ دیر تک چھپی نہ رہتی۔
قریش کے انتہائی ممتاز سردار جنہوں نے رسول اللہ
(ﷺ) کی پیروی کی اور اسلام قبول کیا، اتنے ذہین اور دانشمند تھے کہ جس ذریعے سے پیغمبر ان کے پاس وحی لے کر آتے تھے اس کے متعلق اگر وہ کوئی بات مشکوک پاتے تو بآسانی بھانپ سکتے تھے، پھر یہ کوئی مختصر وقت کی بات نہیں تھی، نبی
(ﷺ) کی دعوت اور تحریک 23 برس تک جاری رہی ، اس دوران میں کبھی کسی کو اس طرح کا شک نہ گذرا۔
رسول کریم
(ﷺ) کے دشمن اپنا یہ دعوٰی ثابت کرنے کے لیے مسلسل ٹوہ میں لگے رہتے تھے۔ کہ نبئ کریم
ﷺ (نعوذ باللہ ) جھوٹے ہیں لیکن وہ اس بات کے حق میں ایک بھی مثال پیش نہ کرسکے کہ کبھی آپ نے مخصوص یہودیوں اور عیسائیوں سے کوئی خفیہ ملاقات کی ہو۔
یہ بات بھی ناقابل تصور ہے کہ کوئی شخس ایسی صورت حال قبول کرسکتا ہے کہ وہ قرآن وضع کرے لیکن اس کا کوئی کریڈٹ بھی نہ لے، لہذا تاریخی اور منطقی طور پر یہ دعوٰئ ثابت نہیں کیا جاسکتا کہ قرآن کا کوئی انسانی ماخذ تھا۔
( حاشیہ: سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر آپ نے یہودیوں اور عیسائیوں سے قرآن سیکھا تھا تو پھر انہیں قبول قرآن میں تامل نہیں کرنا چاہیئے تھا جبکہ تایخ شاہد ہے کہ یہودیوں اور عیسائیوں نے ہی آپ کی مخالفت کی جو آج تک جاری ہے۔ ( عثمان منیب )
محمد (ﷺ) پڑھنا لکھنا نہیں جانتے تھے :
یہ دعوٰی کہ محمد
(ﷺ) نے خود قران تصنیف کیا یا اسے دوسرے ذرائع سے نقل کیا، محض اس ایک تاریخی حقیقت سے غلط ثابت ہوجاتا ہے کہ آپ (ﷺ) پڑھنا لکھنا نہیں جانتے تھے۔ اللہ تعالی خود قرآن میں اس بات کی تصدیق فرماتا ہے۔ سورۃ عنکبوت میں ارشاد ہوا:
وَمَا كُنْتَ تَتْلُو مِنْ قَبْلِهِ مِنْ كِتَابٍ وَلا تَخُطُّهُ بِيَمِينِكَ إِذًا لارْتَابَ الْمُبْطِلُونَ (٤٨)
" اور ( اے نبی!) آپ اس (قرآن ) سے پہلے کوئی کتاب نہیں پڑھتے تھے اور نہ اپنے دائیں ہاتھ سے لکھتے تھے، ( اگر ایسا ہوتا ) تو باطل پرست یقیناً شک کرسکتے تھے۔۔
( سورۃ العنکبوت 29 آیت 48)
اللہ تعالی کو یہ علم تھا کہ بہت سے لوگ قرآن کے مستند ہونے پر شک کریں گے اور اسے محمد (ﷺ) کی ذات سے منسوب کریں گے۔ لہذا اللہ عالی نے اپنی ابدی حکمت سے ایک "اُمی " کو اپنا آخری نبی بنا کر بھیجا تاکہ باط پرستوں کے پاس نبی (ﷺ) پر شک کرنے کا کوئی معمولی سا جواز بھی باقی نہ رہنے دیا جائے۔ آپ () کے دشمنوں کا یہ الزام کہ آپ نے دوسرے ذرائع سے قرآن اخذ کیا اور پھر اسے خوبصورت عربی زبان میں ڈھال لیا ، شاید کسی وزن کا حامل ہوسکتا تھا لیکن اس کمزور عذر کو بھی کافروں اور شک کرنے والوں پر الٹ دیا گیا۔ اللہ تعالی نے سورۃ الاعراف میں اس کی دوبارہ توثیق کرتے ہوئے فرماتا ہے:
الَّذِينَ يَتَّبِعُونَ الرَّسُولَ النَّبِيَّ الأمِّيَّ الَّذِي يَجِدُونَهُ مَكْتُوبًا عِنْدَهُمْ فِي التَّوْرَاةِ وَالإنْجِيلِ (١٥٧)
" ( متقی اور مومن ) وہ لوگ ہیں جو اس رسول امی نبی ( محمد (ﷺ) کی پیروی کرتے ہیں، جس کا ذکر وہ اپنے ہاں تورات اور انجیل میں لکھا پاتے ہیں۔ "
( سورۃ الاعراف 7 آیت 157 )
اُمی نبی (ﷺ) کی آمد کی پیش گوئی بائبل میں :
اُمی نبی (ﷺ) کی آمد کی پیش گوئی بائبل کی کتاب یسعیاہ باب :29 فقرہ 12 میں بھی موجود ہے:
" پھر وہ کتاب اسے دین جو لکھنا پڑھنا نہیں جانتا اور کہیں، اسے پڑھ اور وہ کہے میں تو پڑھنا نہیں جانتا۔ ( کتاب مقدس ، یسعیاۃ: 29/12)
قرآن کریم کم از کم چار مقامات پر اس بات کی تصدیق کرتا ہے کہ نبئ کریم (ﷺ) لکھنا پڑھنا نہیں جانتے تھے۔ اس امر کا ذکر سورۃ الاعراف کی آیت: 158 اور سورۃ جمعہ کی آیت:2 میں بھی کیا گیا ہے۔
بائبل کا عربی مسودہ :
نبئ کریم (ﷺ) کے دور مبارک میں بائبل کا عربی زبان میں کوئی مسودہ موجود نہیں تھا۔ عہد نامہ عتیق
(Old Testament) کا سب سے پہلا عربی نسخہ وہ ہے جو پادری سعاد یاس گین
(R. Saadias Gaon) نے 900 عیسوی میں تیار کیا، یعنی ہمارے پیارے نبی (ﷺ) کی رحلت کے تقریباً 250 برس بعد۔ عہد نامہ جدید
(New Testament) کا سب سے قدیم عربی نسخہ ارپینئس
(Erpenius) نے ہمارے نبی (ﷺ) کی وفات کے تقریباً ایک ہزار سال بعد 1616 عیسوی میں شائع کیا۔
قرآن اور بائبل کی یکسانیت :
قرآن اور بائبل میں پائی جانے والی یکساں باتوں سے لازمی طور پر یہ مطلب نہیں لیا جاسکتا کہ اول الذکر مؤخر الذکر سے نقل کیا گیا ہے۔ فی الحقیقت یہ اس بات کی شہادت ہے کہ یہ دونوں کسی تیسرے مشترک ذریعے پر مبنی ہیں۔ تمام صحائف ربانی کا منبع ایک ہی ذات ، یعنی رب کائنات ہے، یہود و نصارٰی کی کتب اور ان سے بھی قدیم آسمانی صحیفوں میں انسانی ہاتھوں سے کی جانے والی تحریفات کے باوجود، ان کے بعض حصے تحریف سے محفوظ رہے ہیں اور اسی لیے کہ وہ کئی مذاہب میں مشترک ہیں۔
یہ بات بھی درست ہے کہ قرآن اور بائبل میں بعض یکساں چیزیں موجود ہیں لیکن اس کی بنا پر محمد (ﷺ) پر یہ الزام لگانے کا کوئی جواز نہیں کہ انہوں نے بائبل سے کوئی چیز نقل کی یا اس سے اخذ کرکے قران مرتب کیا۔ اگر یہ منطق درست ہےتو یہ مسیحیت اور یہودیت پر بھی لاگو ہوگی اور غلط طور پر یہ دعوٰی بھی کیا جاسکے گا کہ یسوع مسیح (علیہ السلام ) نعوذ باللہ ) سچے نبی نہیں تھے اور انہوں نے محض عہد نامہ عتیق کی نقل کرنے پر اکتفا کیا۔
قرآن اور بائبل کے درمیان یکساں باتیں در حقیقت اس امر کی نشاندہی کرتی ہیں کہ ان کا منبع مشترک، یعنی ذات حق تعالٰی ہے۔ یہ توحید کے بنیادی پیغام کا تسلسل ہے اور یہ مفروضہ غلط ہے کہ بعد میں آنے والے انبیاء نے گزشتہ انبیاء کی باتیں ان سے مستعار لے لی ہیں۔
اگر کوئی امتحان میں نقل کررہا ہوں تو وہ یقیناً اپنے پرچے میں یہ نہیں لکھے گا کہ میں نے انے پاس بیٹھے طالب علم زید بن بکر سے نقل کی ہے۔ جبکہ محمد رسول اللہ (ﷺ) گزشتہ انبیائے کرام کا احترام کرتے اور ان کی عظمت بیان کرتے اور قرآن کریم میں یہ بھی فرمایا گیا ہے کہ مختلف انبیاء و رسل پر اللہ قادر مطلق کی طرف سے صحیفے نازل کئے گئے تھے۔
تمام آسمانی کتابوں پر ایمان :
اللہ تعالی کی چار کتابوں کا قرآن میں نام لے کر ذکر کیا گیا ہے۔ اور مسلمان ان سب پر ایمان رکھتے ہیں۔ یہ ہیں: تورات، زبور، انجیل اور قرآن
٭ تورات حضرت موسیٰ علیہ السلام (Moses) پر بصورت الواح ( تختیاں ) نازل کی گئی۔
٭ زبور حضرت داؤد علیہ السلام (David) پر اتری
٭ انجیل حضرت عیسیٰ علیہ السلام (Jesus) پر نازل ہوئی۔
٭ قرآن مجید وہ آخری کتاب ہے جس کا نزول اللہ کے آخری نبی اور خاتم النیین حضرت محمد (ﷺ) پر ہوا۔
تمام نبیوں اور تمام الہامی کتابوں پر ایمان لانا ہر مسلمان کے ایمان کا حصہ ہے، تاہم موجودہ بائبل کے عہد نامہ عتیق کی پہلی پانچ کتابیں حضرت موسیٰ علیہ السلام سے منسوب ہیں، اور مزامیر (Psalms) حضرت داؤد علیہ السلام کی طرف منسوب کیئے جاتے ہیں، مزید برآں عہد نامہ عتیق کی یہ کتابیں اور عہد نامہ جدید یا اس کی چار انجیلیں وہ تورات، زبور یا انجیل نہیں ہیں جن کا ذکر قرآن مجید میں کیا گیا ہے۔ موجودہ بائبل میں جزوی طور پر کلامِ خداوندی موجود ہوسکتا ہے لیکن یہ کتابیں یقیناً اپنی اصل حالت میں نہیں ہیں۔ نہ وہ پوری طرح صحیح ہیں اور نہ ان میں پیغمبروں پر نازل شدہ مکمل کلامِ وحی موجود ہے۔ ( حاشیہ : چار انجیلوں (Gospels) یعنی انجیل متی، انجیل لوقا، انجیل یوحنا، انجیل مرقس کی موجودگی سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ یہ انسانوں کی تصنیف کی ہوئی ہیں اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر نازل شدہ انجیل کا اب اپنی اصل صورت میں کوئی وجود نہیں۔ یاد رہے متی (St. Mathew)، لوقا (St. Luke) یوحنا (St. John) اور مرقس (St. Mark) حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے حواری تھے۔ ( محسن فارانی ))
قرآن مجید تمام انبیاء ورُسل کو ایک ہی سلسلے سے متعلق قرار دیتا ہے اور ہمیں بتاتا ہے کہ ان س کی نبوت کا یک ہی نسب العین تھا اور ان کا بنیادی پیغام بھی ایک ہی تھا۔ اسی بنا پر قرآن کریم وضاحت کرتا ہے کہ بڑے برے مذاہب کی بنیادی تعلیمات باہم متضاد نہیں ہوسکتیں، باوجود اس کے کہ مختلف نبوتوں کے مابین قابل ذکر بُعدِ زمانی موجود ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان سب نبوتوں کا منبع صرف ایک تھا، یعنی اللہ جو قادر مطلق ہے، یہی وجہ ہے کہ قرآن کریم یہ کہتا ہے کہ مختلف ادیان کے درمیان جو اختلاف پائے جاتے ہیں ان کی ذمہ داری انبیاء پر نہیں بلکہ ان کے پیروکاروں پر عائد ہوتی ہے۔ جو سکھائے ہوئے علم کا ایک حصہ بھول گئے، مزید برآں انہوں نے الہامی کتابوں کی غلط تعبیر کی اور ان میں تحریف بھی کر ڈالی، لہذا قرآن کریم کو ایک ایسی کتاب تصور نہیں کیا جاسکتا، جو موسیٰ ، عیسیٰ اور دیگر انبیاء کی تعلیمات کے مقابلے میں اتاری گئی ہے۔ اس کے برعکس یہ کتاب گزشتہ انبیاء کی طرف سے ان کی امتوں کی طرف لائے گئے پیغامات کی توثیق و تصدیق اور ان کی تکمیل کرتی اور انہیں نقطہء کام تک پہنچاتی ہے۔
قرآن کا ایک نام فرقان بھی ہے ہے جس کا مطلب حق و باطل میں امتیاز کرنے کی کسوٹی یا معیات ہے اور قرآن ہی کی بنیاد پر ہم یہ دریافت کرسکتے ہیں کہ سابقہ الہامی کتابوں کے کون سے حسے کو کلامِ الہی تصور کیا جاسکتا ہے۔
قرآن اور بائبل کے درمیان سائنسی بنیاد پر تقابل :
قرآن مجید اور بائبل کے سرسری مطالعے میں آپ کو متعدد ایسے نکات نظر آئیں گے جو دنوں میں قطعی یکساں معلوم ہوتے ہیں لیکن جب آپ بغور ان کا جائزہ لیں گے تو معلوم ہوگا کہ ان میں سراسر اختلاف پایا جاتا ہے۔ صرف تاریخی تفصیلات کی بنیاد پر کسی ایسے شخص کے لے جو مسیحیت یا اسلام میں سے اکیس کی تعلیمات پر عبور نہ رکھتا ہوں، یپہ فیصلہ کرنا سخت مشکل ہوگا کہ دونوں الہامی کتب میں سے صحیح کون سی ہے؟ تاہم اگر آپ دونوں کتابوں کے متعلقہ اقتباسات کو سائنسی علوم کے معیار پر پرکھنے کی کوشش کریں گے تو آپ کو معلوم ہوجائے گا کہ سچ کیا ہے۔ ذیل میں دی گئی چند مثالوں سے آپ حقیقت حال سے آگاہ ہوسکتے ہیں۔
٭ بائبل اور کائنات کیی تخلیق: بائبل کی پہلی کتاب پیدائش (Genesis) کے باب اول میں لکھا ہے کہ کائنات چھ دنوں میں پیدا کی گئی اور ہر دن سے مراد 24 گھنٹے کا دورانیہ ہے۔ اگرچہ قرآن مجید میں بھی یہ ذکر کیا گیا ہے کہ یہ کائنات چھ "ایام" میں پیدا کی گئی لیکن قرآن کے مطابق یہ " ایام " سالہا سال طویل ہیں۔ اس لفظ " یوم " کے دو معنی ہیں ، اول یہ کہ دن سے مراد معمول کے 24 گھنٹے کا دن ہے اور دوم اس سے مراد ایک مرحلہ، یا ایک دور یا ایک ایسا عہد جو بہت طویل زمانے پر مشتمل ہو۔
جب قرآن مجید یہ کہتا ہے کہ کائنات چھ دنوں میں پیدا کی گئی تو اس سے مراد یہ ہوتا ہے کہ آسمانوں اور زمین کو چھ طویل ادوار یا زمانوں میں پیدا کیا گیا۔ سائنسدانوں کو اس بیان پر کوئی اعتراض نہیں، کائنات کی تخلیق میں اربوں سال صرف ہوئے اور یہ بات بائبل کے اس تصور کے منافی ہے جس میں کہا گیا ہے کائنات صرف چھ دنوں میں پیدا کی گئی جبکہ ہر دن چوبیس گھنٹے کا تھا۔
بائبل اور سورج کی تخلیق:
بائبل کی کتاب " پیدائش" میں کہا گیا ہے کہ روشنی ، دن اور رات کو اللہ نے کائنات کی تخلیق کے پہلے روز پیدا کیا، چنانچہ اس میں لکھا ہے:
" اللہ نے ابتداء میں زمین اور آسمان کو پیدا کیا، اور زمین ویران اور سنسان تھی اور گہراؤ کے اوپر اندھیا تھا اور خدا کی روح پانی کی سطح پر جنبش کرتی تھی۔ اور خدا نے کہا کہ روشنی ہوجا اور روشنی ہوگئی۔ اور خدا نے دکھا کہ روشنی اچھی ہے اور خدا نے روشنی کو تاریکی سے جدا کیا۔ اور خدا نے روشنی کو تو دن کہا اور تاریکی کو رات، اور شام ہوئی اور صبح ہوئی، سو پہلا دن ہوا۔"
(کتاب مقدس، پیدائش: 1 /3-5)
جدید سائنس کے مطابق کائنات میں گردش کرتی ہوئی روشنہ درحقیقت ستاروں میں ایک پیچیدہ عمل کا نتیجہ ہے جبکہ بائبل کے مطابق سورج، چاند اور ستارے چوتھے روز پیدا کیے گئے، کتاب " پیدائش " میں لکھا ہے:
" سو اللہ نے دو بڑے نیر بنائے، ایک نیرا اکبر کہ دن پر حکم کرے اور ایک نیر اصغر کہ رات پر حکم کرے اور اس نے ستاروں کو بھی بنایا۔ اور کدا نے ان کو فلک پر رکھا کہ زمین پر روشنی ڈالیں، دن اور رات پر حکم کریں اور اجالے کو اندھیرے سے جدا کریں، اور خدا نے دیکھا کہ اچھا ہے، اور شام ہوئی اور صبح ہوئی، سوچو تھا دن ہوا۔ "
(کتاب مقدس، پیدائش: 1/16-19)
یہ بات خلاف منطق ہے کہ روشنی کا منبع نیرا اکبر ( سورج ) تو تین دن بعد پیدا کیا گیا لیکن سلسلہء روز و شب جو سورج کی روشنی کا نتیجہ ہے پہلے دن ہی پیدا کردیا گیا۔ مزید براں ایک دن کے عناصر، یعنی صبح و شام کے وجود کا ادراک تو سورج کے سامنے زمین کی گردش محوری کے بعد ہی ہوسکتا ہے مگر بائبل کے مطابق صبح اور شام کی تخلیق سورج کی تخلیق سے تین دن پہلے ہی عمل میں آگئی۔
اس کے برعکس قرآن مجید میں اس موضوع پر تخلیق کائنات کی کوئی غیر سائنسی ترتیب زمانی نہیں دی گئی، لہذا یہ کہنا سراسر غلط اور مضحکہ خیز ہے کہ حضرت محمد (ﷺ) نے تخلیق کائنات کے موضوع پر بائبل کے اقتباسات تو نقل کرلیئے مگر بائبل کے خلاف منطق اور عجیب و غیرب باتیں چھوڑ دیں۔
سورج روشنی خارج کرتا ہے چاند نہیں:
بائبل کے مطابق سورج اور چاند دونوں روشنی خارج کرتے ہیں۔ جیسا کہ کتاب پیدائش میں انہیں بالترتیب " نیرا اکبر" اور نیرا اصغر " قرار دیا گیا ہے لیکن جدید سائنس کے مطابق چاند کی اپنی کوئی روشنی نہیں اور وہ محض شمسی روشنی کو منعکس کرتا ہے۔ اس سے قرآن مجید کے اس نطریئے کی تائید ہوتی ہے کہ چاند " منیر " یعنی روشنی کو منعکس کرنے والا ہے اور اس سے آنے والی روشنی منعکس شدہ ہے، اب یہ سوچنا دُور ازکار بات ہے کہ نبی (ﷺ) نے بائبل کی ان سائنسی غلطیوں کی اصلاح کی اور پھر ایسی اصلاح شدہ عبارات قرآن میں شامل کرلیں۔
تخلیق نباتات اور سورج:
بائبل کی کتاب " پیدائش " باب اول، فقرہ: 11 تا 13 کے مطابق نباتات ، گھاس، بیج دار پودوں اور پھل دار درختوں کو تیسرے روز پیدا کیا گیا جبکہ اسی باب کے فقرہ: 14 تا 19 کے مطابق سورج کی تخلیق چوتھے روز عمل میں آئی، سائنسی اعتبار سے یہ کیسے ممکن ہے کہ نباتات سورج کی حرارت کے بغیر ہی وجود میں آجائیں؟ جیسا کہ بائبل میں بیان کیا گیا ہے۔
اگر غیر مسلم معترضین کے بقول نبی کریم (ﷺ) نعوذ باللہ )) فی الواقع قرآن کے مصنف تھے اور انہوں نے بائبل کے مواد سے کچھ نقل کیا تو آخر یہ کیسے ممکن ہوا کہ انہوں نے بائبل میں شامل وہ بیانات چھوڑ دیئے جو سائنسی حقائق سے مطابقت نہیں رکھتے اور قرآن میں ایسا کوئی بیان نہیں ملتا جو سائنسی حقائق کے خلاف ہو؟
تخلیقِ آدم اور بائبل:
بائبل میں حضرت عیسیٰ (علیہ السلام ) سے حضرت ابراہیم ( علیہ السلام ) اور کرہ ارض پر پہلے انسان ، یعنی حضرت آدم ( علیہ السلام ) تک بیان کردہ سلسلہ نسب کے مطابق حضرت آدام ( علیہ السلام ) کے درمیان تقریباً 1948 برس کا بُعد ہے اور ابراہیم ( علیہ السلام ) اور حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام ) کے درمیان تقریباً 1800 برس کا فاصلہ ہے جبکہ حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام ) سے آج تک 2000 برس گزر چکے ہیں۔ رائج الوقت یہودی کیلنڈر بھی تقریباً 5800 سال پرانا ہے جو کہ تخلیق کائنات سے شروع ہوتا ہے۔
آثار قدیمہ اور بشریات () کے مآخذ سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ زمین پر قدم رکھنے والا پہلا انسان آج سے دسیوں ہزار سال پہلے پیدا ہوا تھا۔ قرآن نے بھی آدم ( علیہ السلام ) کا ذکر زمین سے پہلے انسان کے طور پر کیا ہے لیکن بائبل کے برعکس اس نے نہ تو ان کی کوئی تاریخ بیان کی ہے اور نہ یہ بتایا کہ وہ زمین پر کتنا عرصہ رہے، ادھر بائبل نے اس کے بارے میں جو کچھ بیان کیا ہے وہ سائنسی حقائق کے بالکل برعکس ہے۔
طوفانِ نوح اور بائبل:
بائبل کی کتاب پیدائش کے ابواب: 6،7 اور 8 سے ظاہر ہوتا ہے کہ طوفان نوح عالم گیر طوفان تھا جس نے روئے زمین پر ہر زندہ چیز کو تباہ کردیا سوائے ان کے جو نوح ( علیہ السلام ) کے ہمراہ کشتی میں سوار تھے۔
"کیا انسان، کیا حیوان، کیا رینگنے والا جاندار، کیا ہوا کیا پرندہ یہ سب کے سب زمین پر مرمٹے، فقط ایک نوح باقی بچا یا وہ جو اس کے ساتھ کشتی میں تھے۔ "
( کتاب پیدائش: 7/23)
بائبل کے بیان سے یہ اشارہ بھی ملتا ہے کہ یہ واقعہ آدم ( علیہ السلام ) کی پیدائش کے 1656 سال بعد یا ابراہیم ( علیہ السلام ) کی پیدائش سے 292 برس قبل اس وقت پیش آیا جب نوح ( علیہ السلام ) کی عمر 600 برس ہوچکی تھی، گویا یہ طوفان 21 ویں یا 22 ویں صدی قبل مسیح میں آیا ہوگا۔
بائبل میں طوفان کی جو کہانی بیان کی گئی ہے۔ وہ آثار قدیمہ کے مآخذ سے ملنے والی سائنسی شہادتوں سے متضاد ہے جو یہ ظاہر کرتے ہیں کہ مذکورہ صدیوں میں مصر کے گیارھویں حکمران خاندان اور بابل کے تیسرے خانوادے کی سلطنتیں کسی تہذیبی بحران کے بگیر مسلسل قائم تھیں اور کسی بڑے طوفان سے متاءثر نہیں ہوئی تھیں جو اکیسویں بائیسویں صدی قبل مسیح میں آیا ہو۔ یہ بات بائبل کے اس قصے کی تردید کرتی ہے کہ طوفان کے پانیوں میں ساری دنیا ڈوب گئی تھی اس کے برعکس قرآن مجید میں نوح ( علیہ السلام ) کے بارے میں جو قصہ بیان کیا گیا ہے وہ کسی سائنسی شہادت یا آثار قدیمہ کے کوائف سے متصادم نہیں۔ اول تو قرآن اس واقعے کی کسی متعین تاریخ یا سال کی نشاندہی ہی نہیں کرتا۔ دوم ، قرآن کے مطابق بظاہر یہ سیلاب ایک عالمگیر واقعہ نہیں تھا جس سے زمیں پر موجود زندگی کو مکمل طور پر تباہ کردیا ہو۔
لہذا یہ فرض کرنا غیر منطقی بات ہے کہ نبی کریم (ﷺ) نے طوفان نوح کا قصہ بائبل سے مستعار لیا اور اس کا ذکر قرآن میں کرنے سے پہلے غلطیوں کی تصحیح کردی۔
موسی ( علیہ السلام ) اور فرعون:
قرآن کریم اوربائبل میں حضرت موسیٰ ( علیہ السلام ) اور فرعون ( جس کے دور میں یہود کا مصر سے خروج عمل میں آیا ) کے جو قصے بیان کیے گئے ہیں ، وہ ایک دوسرے سے بہت ملتے جلتے ہیں۔ دونوں الہامی کتب کا اس امر پر اتفاق ہے کہ فرعون نے جب موسیٰ ( علیہ السلام ) کا تعاقب کرنے کی کوشش کی تو وہ اس کھاڑی کو عبور کرنے کی کوشش کرتے ہوئے ڈوب گیا جسے موسی ( علیہ السلام ) اسرائیلیوں کے ہمراہ پار کرگئے تھے۔ قرآن کریم کی سورۃ یونس میں ایک مزید خبر دی گئی ہے:
فَالْيَوْمَ نُنَجِّيكَ بِبَدَنِكَ لِتَكُونَ لِمَنْ خَلْفَكَ آيَةً وَإِنَّ كَثِيرًا مِنَ النَّاسِ عَنْ آيَاتِنَا لَغَافِلُونَ (٩٢)
" آج ہم تیرا جسم بچا کر ( سمندر سے ) باہر نکال پھینکیں گے تاکہ وہ اپنے بعد والوں کے لیے نشان ( عبرت) ہو، اور بے شک بہت لوگ ہماری نشانیوں سے غافل ہیں۔ "
( سورۃ یونس 10 آیت 92)
ڈاکٹر موریس بکائے نے مکمل تحقیقات کے بعد یہ ثابت کیا ہے کہ اگرچہ فرعون رعمسیس ثانی اس بات کے لیئے معروف ہے کہ اس نے بائبل کے بیان کے مطابق اسرائیلیوں پر ظلم ڈھائے لیکن فی الحقیقت وہ اس وقت ہلاک ہوگیا تھا جب موسیٰ ( علیہ السلام ) مدین میں پناہ لیئے ہوئے تھے۔ رعمسیس ثانی کا بیٹا منفتاح اس کا جانشین ہوا اور وہی یہود کے مصر سے خروج کے دوران میں بحیرہ قلزم کی کھاڑی میں ڈوب کر مرگیا۔ 1898ء میں مصر کی وادئ ملوک میں منفتاح کی مومیائی ہوئی لاشیں پائی گئی۔ 1975ء میں ڈاکٹر موریس بکائے نے دوسرے فضلاء کے ساتھ مل کر منفتاح کی مومیا کا معاینہ کرنے کی اجازت حاصل کی۔ اس کے معاینے سے انہوں نے جو نتائج اخذ کیے۔ ان سے ثابت ہوتا ہے کہ منفتاح غالباً ڈوبنے سے یا اس شدید صدمے کی وجہ جو ڈوبنے سے عین پہلے اسے پیش آیا، ہلاک ہوا، لہذا قرآنی آیت کی صداقت کہ " ہم اس کی لاش کو عبرت کے طور پر محفوظ رکھیں گے۔ " فرعون کی لاش ملنے سے ظاہر ہوگئی جو اب مصری عجائب گھر ( متحف مصری ) واقع قاہرہ میں پڑی ہے۔
اس آیت قرآنی نے ڈاکٹر موریس بکائے کو، جو اس وقت تک عیسائی تھا، مطالعہ قرآن پر مجبور کردیا۔ بعد میں اس نے " بائبل، قرآن اور سائنس " کے عنوان سے کتاب لکھی اور اس بات کا اعتراض کیا کہ قرآن کا مصنف اللہ کے سوا کوئی اور نہیں ہوسکتا، ڈاکٹر بکائے نے آخر کار اسلام قبول کرلیا۔
قرآن اللہ کی کتاب ہے :
یہ شواہد اس بات کو ثابت کرنے کے لیے کافی ہیں کہ قرآن مجید، بائبل سے نقل نہیں کیا گیا بلکہ قرآن تو فرقان ہے، یعنی وہ کسوٹی جس کے ذریعے سے حق اور باطل میں امتیاز کیا جاسکتا ہے اور اس سے استفادہ کرکے یہ معلوم کیا جاسکتا ہے کہ بائبل کا کون سا حصہ کلامِ الہی تصور کیا جاسکتا ہے۔ قرآن مجید خود اس کی شہادت دیتا ہے۔ سورۃ السجدہ میں ارشاد باری تعالی ہے:
الم (١)تَنْزِيلُ الْكِتَابِ لا رَيْبَ فِيهِ مِنْ رَبِّ الْعَالَمِينَ (٢)أَمْ يَقُولُونَ افْتَرَاهُ بَلْ هُوَ الْحَقُّ مِنْ رَبِّكَ لِتُنْذِرَ قَوْمًا مَا أَتَاهُمْ مِنْ نَذِيرٍ مِنْ قَبْلِكَ لَعَلَّهُمْ يَهْتَدُونَ (٣)
"الم ۔ بے شک اس کتاب کا نزول رب العالمین کی طرف سے ہے۔ کیا وہ کہتے ہیں کہ نبی نے اسے خود گھڑ لیا ہے؟ ( نہیں !) بلکہ یہ آپ کے رب کی طرف سے حق ہے تاکہ آپ لوگوں کو ڈرائیں جن کے پاس آپ سے پہلے کوئی ڈرانے والا نہیں آیا، شاید کہ وہ ہدایت پائیں۔
(سورۃ السجدہ 32 آیات 1 تا 3 )