• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اسلام پسند اتاترک۔۔ڈاکٹر فرقان حمید

ماریہ انعام

مشہور رکن
شمولیت
نومبر 12، 2013
پیغامات
498
ری ایکشن اسکور
377
پوائنٹ
164
اسلام پسند اتاترک...یارِمن ترکی...ڈاکٹر فرقان حمید،ترکی
گزشتہ ہفتے میں نے اتاترک کی زندگی کے اُس پہلو پر روشنی ڈالنے کی کوشش کی تھی جس کے بارے میں پاکستانی کچھ زیادہ معلومات نہیں رکھتے یا پھر اتاترک کی زندگی کا یہ پہلو اُن کی نظروں سے اوجھل تھا۔ اتاترک کی زندگی کے اِس پہلو کو جان بوجھ کر اندھیرے میں رکھا گیا۔ اس کی ایک وجہ پاکستانی قارئین کی طرف سے زیادہ تر انگریز مصنفین کی کتابیں یا ان کتابوں کا ترجمہ پڑھنا ہے اور بات عیاں ہے انگریز جنہوں نے زندگی میں پہلی بار اتاترک کے ہاتہوں شکست کھائی تھی انہوں نے اپنی ان کتابوں میں اتاترک کی شخصیت کو جان بوجھ کر داغدار کرنے کی کوشش کی اور اتاترک کے مذہبی پہلو کو جان بوجھ کر غلط انداز میں پیش کیا تھا مقصد ہندوستان کے مسلمانوں کو جو اتاترک کو اپنا رہبر و رہنما سمجھتے تھے انگریزوں کے خلاف علمِ بغاوت بلند کرنے سے روکنا تھا۔ دوسری اہم وجہ ہمارے تمام مصنفین کا جنہوں نے اتاترک سے متعلق کتابیں تحریر کیں، ترکی زبان سے نابلد ہونا تھا جس کی وجہ سے انہوں نے ترکی زبان کے مواد سے استفادہ کرنے کے بجائے فرنگیوں کے مواد پر بھروسہ کیا۔ ترک جو ہندوستان کے مسلمانوں کے سچے دوست تھے زبان کے فرق کی بنا پر آپس میں براہ راست رابطہ قائم کرنے سے قاصر رہے اور غیر ملکی زبان کے ذریعے ایک دوسرے سے رابطہ قائم کئے رہے حالانکہ اس دور کے مسلمانوں نے جس طرح جذبات میں بہہ کر اتاترک کی شان میں نظمیں تحریر کرتے ہوئے اور پھر انہیں سُروں کے ساتھ گنگناتے ہوئے ترکوں کے لئے چندہ جمع کیا تھا (اس امداد کو ترک باشندے آج بھی فراموش نہیں کرسکے ہیں) اس کی دنیا میں کوئی نظیرنہیں ملتی ہے۔
پاکستان کے قیام کے طویل عرصے بعد تک لوگوں کے دلوں میں اتاترک سے محبت میں ذرہ بھر بھی کوئی کمی نہیں آئی تھی لیکن ضیاء الحق کے دور میں جس طرح ملک میں فرقہ واریت کو ہوا دی گئی اور انتہا پسندوں کو پنپنے کا موقع دیا گیا اس کے نتیجے میں اتاترک کے سیکولر نظریات کو کافرانہ نظریات قرار دے دیا گیا ۔اتاترک اور قائد اعظم دونوں ہی سیکولرازم کو مسلمانوں کیلئے سب سے مناسب نظام تصور کرتے تھے اور اتاترک نے مسلمانوں ہی کی بہتری کے لئے اپنے ملک میں سیکولرازم کو متعارف کرایا تھا اور قائد اعظم اتاترک کے متعارف کردہ اس نظام سے بڑے متاثر ہوئے تھے لیکن ہمارے مذہبی حلقوں نے سیکولرازم کو کافرانہ نظام قرار دیتے ہوئے اس کی مخالفت شروع کردی حالانکہ سیکولرازم کافرانہ نظام نہیں ہے بلکہ مذہبی حلقے جان بوجھ کر سیکولرازم کا ترجمہ لادین (جس کا کوئی دین نہ ہو) کرتے رہے ہیں جبکہ سیکولرازم کی صحیح تعریف کچھ یوں ہے۔''تمام مذاہب کے ساتھ رواداری ، غیر جانبداری اور ملکی نظم و نسق ،سماجی، تعلیمی اور سیاسی معاملات میں تمام مذاہب کے ایک ہی فاصلے پر کھڑا ہونے اور کسی بھی مذہب اور فرقے کو کسی دیگر فرقے اور مذہب پر برتری نہ دینے ، تمام مذاہب کے اور فرقوں کو مملکت کی نظر میں مساوی حیثیت دینے ہی کا نام سیکولرازم ہے''۔ (اس سے قبل راقم کےچوبیس اپریل 2013ء، یکم مئی 2013ء اور بائیس مئی 2013ء کو سیکولرازم کے بارے میں تحریرکردہ تین کالم جنگ آرکائیو میں موجود ہیں ان سے استفادہ کیا جاسکتا ہے)۔
اتاترک جنہوں نے سلطنتِ عثمانیہ کے زوال کے دور میں اُس وقت کے شیخ الاسلام کو انگریزوں کے ہاتھوں کٹھ پتلی بنتے اور ان کی خواہشات کے مطابق فتوے دیتے ہوئے دیکھا تو انہوں نے اُسی وقت مستقبل میں شیخ الاسلام کو ملکی معاملات سے دور رکھنے کا فیصلہ کرلیا تھا۔اتاترک نے جدید جمہوریہ ترکی کے قیام کے فوراً بعد شیخ الاسلام کو نہ صرف ان کے عہدے سے معزول کردیا بلکہ ان کے جاری کردہ تمام فتووں کو منسوخ کرتے ہوئے سیکولرازم کی بنیاد رکھ دی تھی۔ انہوں نے سیکولرازم ہی کے زیر سایہ محمد حامدی ایلمالیِلی کی قیادت میں عالمین کے وفد سےقران کریم کا ترجمہ کرایا جسے تمام فرقوں نے صدقِ دل سے قبول کرتے ہوئے آپس کے اختلافات کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے دفن کردیا۔ اتاترک نے مملکت کے اختیارات سنبھالنے کے بعد سب سے پہلے حضرت محمد ﷺ کے اقوال اور احادیث پر مبنی پوسٹ کارڈ تیار کروا کر تمام ترک باشندوں تک انہیں پہنچا کرمذہب اسلام سے اپنے لگاؤ کا اظہار کردیا تھا۔اتاترک کی مذہب ِ اسلام اور قران کریم سے محبت کا اندازہ ان کے ان الفاظ سے لگایا جاسکتا ہے۔''قران کریم کی تلاوت سن کر طبیعت ہشاش بشاش ہوجاتی ہے اور ایسے لگتا ہے جیسے جسم میں نئی روح پھونک دی گئی ہو۔''
اتاترک کوحضرت محمدﷺسے اتنی گہری محبت تھی کہ 1926ء میں اُس وقت کی سعودی حکومت نے ملک بھر کے تمام مقبروں ،مزاروں اور درگاہوں کو غیر شرعی قرار دیتے ہوئے مسمارکرنا شروع کیا تو روضہ رسولﷺ کے حوالے سے اتاترک ڈٹ گئے اور انہوں نے فوری طور پرسعودی امیر کو ٹیلیگرام روانہ کرتے ہوئے روضہ مبارک کو مسمار کرنے سے باز آنے اور ایسا نہ کرنے کی صورت میں حجاز پر چڑھ دوڑنے کی دھمکی دی جس پر اُس وقت کے امیر نے فوری طور پر روضہ رسول کو مسمار نہ کرنے کے اپنے فیصلے سے آگاہ کر دیا۔ یوں اتاترک نے تاریخ ساز اقدام اٹھا کر مسلمانوں کے دل جیت لئے۔ (اتاترک کے اس ٹیلیگرام کی نقول ترکی کی قومی اسمبلی کی دستاویزات میں موجود ہیں) حضرت محمدﷺ سے اس قدر عقیدت، احترام اور محبت کا اظہار بھلا اورکیسے کیا جاسکتا ہے؟
اتاترک نے جب ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنے کے لئے انقلابات برپا کئے تو اس وقت ایک فرانسیسی اخباری نامہ نگار نےاپنے دورہ ترکی کے دوران اتاترک سے انٹرویو لیتے ہوئے جب اتاترک سے یہ سوال کیا کہ ''آپ کے برپا کردہ انقلابات کیا مذہب کی نفی نہیں کرتے ہیں؟'' تو اتاترک نے اس سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا تھا ''نہیں ہرگز نہیں،یہ انقلابات دراصل ترک عوام کو اسلام کی صحیح اور اصلی روح کے مطابق عمل کرنے کا موقع فراہم کریں گے اور ترک باشندے پہلے سے بہتر مسلمان بن کر نکلیں گے اور اس وقت وہ جن خرافات پر عمل درآمد کر رہے ہیں ان سے کنارہ کشی اختیار کرنے اور اسلام کے کس قدر سادہ مذہب ہونے سے آگاہی حاصل ہوگی''۔اتاترک نے محکمہ مذہبی امور قائم کرتے ہوئے ملک میں فرقہ واریت کو جڑ سے ہی اکھاڑ پھینکا تھا۔یہ ادارہ آج بھی ترکی میں تمام مذہبی امور، مساجد کے اماموں کی تعیناتی اور حج کے امور ادا کرتا ہے۔
اتاترک بلاشبہ انتہاپسندی اور ریڈیکل ازم کے سخت خلاف تھے۔ اتاترک کواُس وقت اِن حالات کا سامنا کرنا پڑا تھا جن حالات سے اِس وقت پاکستان گزررہا ہے۔ اس لئے پاکستان کے موجودہ حالات کو دیکھ کر تمام لوگ اس بات کو اچھی طرح سمجھ سکتے ہیں کہ اتاترک نے ملک میں انتہا پسندی کو ختم کرنے اور پاپائیت کی گرفت کو ختم کرنےکے لئے ان سے چھٹکارا کیوںکر ضروری سمجھا تھا۔ اُس وقت بالکل پاکستان کی طرح سلطنتِ عثمانیہ پر بھی انتہا پسندوں نے اپنی گرفت قائم کر رکھی تھی اور پھر یہی انتہا پسند ہی سلطنتِ عثمانیہ کے زوال کا بھی باعث بنے تھے۔
اتاترک نے سات فروری 1923ء میں بالک ایسر کی پاشا جامع مسجد میں نمازِ جمعہ کا خطبہ دیتے ہوئے مذہب اسلام کو دنیا کا ایک مثالی مذہب قرار دیتے ہوئے مسلمانوں کو اسوہ حسنہ پر عمل کرنے کی نصیحت کی تھی۔اتاترک کا یہ خطبہ اتاترک کے مذہب کے معاملے میں کس قدر حساس ہونے کی بھی واضح عکاسی کرتا ہے۔ اتاترک نے جمعہ کی نماز کے موقع پر خطبہ دے کرتاریخ میں ہمیشہ کے لئے اپنا نام رقم کرلیا۔ کیا اس سے بہتر اسلام پسندی کی کوئی مثال دی جاسکتی ہے؟
Print Version Back
 

ماریہ انعام

مشہور رکن
شمولیت
نومبر 12، 2013
پیغامات
498
ری ایکشن اسکور
377
پوائنٹ
164
چوبیس اپریل 2013 کا کالم بھی پیشِ خدمت ہے تاکہ موصوف کے سیکولرانہ نظریات کا اندازہ لگایا جا سکے۔۔۔


ترکی ، پاکستان اور سیکولرازم...ڈاکٹرفرقان حمید ...انقرہ
پاکستان میں حالیہ عرصے سے اخبارات میں سیکولرازم کے بارے میں بہت کچھ لکھا گیا ہے اور زیادہ تر سیکولرازم کی تشریح اور معانی کو کچھ اس طریقے سے پیش کیا گیا ہے جیسے سیکولر ازم اسلام کے متضاد کسی مذہب کی حیثیت رکھتا ہے اور ملک میں تمام خرابیوں کی جڑ یہی ہے۔ہمارے بہت ہی قابلِ احترام، محقق، مخلص اور دیانتدار کالم نگار سیکولرازم کو اسلام کے متضاد قرار دیتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ میری ان تمام سے درخواست ہے کہ وہ ٹھنڈے دل سے سیکولر ازم کی تشریح اور معانی پر دوبارہ سے ایک نگاہ ڈال لیں جس سے انہیں اس بات کا واضح احساس ہوگا کہ سیکولرازم، اسلام کی ہرگز نفی نہیں کرتا اور نہ ہی اس کے متضاد ہے۔ دراصل پاکستان میں سیکولرازم کو غلط سمجھنے کی بڑی وجہ اردو لغت میں پیش کی جانے والی اس کی تشریح اور اس کو پہنائے جانے والے معنی ہیں۔ اردو لغت میں سیکولرازم کی تعریف کچھ یوں کی گئی ہے۔"سیکولرازم کا مطلب ہے"لا دین یعنی جس کا کوئی دین یا مذہب نہ ہو، بے دین، دہریہ اور ملحد۔ ظاہر ہے اگر اردو کی لغت میں اس لفظ کی تشریح کچھ اس انداز بھی کی جائے گی تو لازمی طور پر عام لوگ اسے کفر ہی قرار دیں گے۔ اردو زبان میں کی جانے والی یہ تشریح اور پہنائے جانے والے یہ معنی سراسر غلط، باطل ، فسخ اور لغو ہیں۔ آکسفورڈ ڈکشنری میں سیکولرازم کی تشریح کچھ یوں کی گئی ہے۔
"The belief that religion should not be involved with the ordinary social and political activities of a country"
( ایک نظریہ جس کے مطابق مذہب کو ملک کے عام سماجی اور سیاسی معاملات میں دخل اندازی نہیں کرنی چاہئے) ایک اور بڑی سادہ اور آسان سی تشریح کچھ یوں ہے۔ "Secularism is more than religious harmony" (سیکولرازم مذہبی ہم آہنگی سے بھی بالاتر ہے)۔ زیادہ تر انگریزی لغات میں سیکولرازم کی تشریح اسی طریقے ہی سے کی گئی ہے لیکن بدقسمتی سے اردو لغت میں عام طور پر سیکولرازم کے لئے " لا دین" کے الفاظ استعمال کئے جاتے ہیں عربی زبان میں لفظ " لا" نفی کے معنی میں استعمال کیا جاتا ہے اور دین کے ساتھ " لا" لگانے سے "لادین" یعنی بے دین، دہریہ، ملحد اور جس کا کوئی دین نہ ہو کا مطلب ہی لیا جاتا ہے، جو سراسر غلط ہے۔ اس تشریح اور معنی سے بعض نام نہاد مولویوں نے خوب دکانداری چمکائی حالانکہ اردو میں سیکولرازم کی صحیح تشریح کچھ یوں ہونی چاہئے۔ "تمام مذاہب کے ساتھ رواداری ، غیر جانبداری اور ملکی نظم و نسق ،سماجی، تعلیمی اور سیاسی معاملات میں تمام مذاہب کے ایک ہی فاصلے پر کھڑا ہونے اور کسی بھی مذہب اور فرقے کو کسی دیگر فرقے اور مذہب پر کسی بھی طرح برتری حاصل نہ ہونے، تمام مذاہب کے اور فرقوں کو مملکت کی نظر میں مساوی حیثیت حاصل ہونے ہی کا نام سیکولرازم ہے"۔
اس تشریح سے یہ بات بالکل واضح ہے ہوتی ہے کہ سیکولرازم کسی بھی صورت مذہب کی نفی نہیں کرتا بلکہ مذہبِ اسلام کی صحیح روح یعنی"دین میں کوئی جبر نہیں ہے" کے عین مطابق عمل کرنے کا درس دیتا ہے۔اب رہی بات ہمارے زیادہ تر کالم نگاروں کی جانب سے اس نظریئے کو پیش کیا جانا کہ قائد اعظم نے ایک سیکولر نہیں بلکہ ایک مذہبی ریاست قائم کی تھی حقیقت کے بالکل برعکس ہے۔ (جیسا کہ میں اوپر عرض کرچکا ہوں کہ یہ سب کالم نگار سیکولرازم کو لادین کے معانی پہناتے ہیں اور پھر اسی کو بنیاد بنا کر اپنا نظریہ پیش کرتے ہیں اور اس طرح قائد اعظم کی جانب سے تھیوکریٹک اسٹیٹ قائم کرنے کا اظہار کرتے ہیں)۔
قائد اعظم محمد علی جناح نے مسلمانوں کے لئے الگ وطن کا مطالبہ اس لئے کیا تھا کہ ان کو معلوم تھا کہ انگریزوں کے چلے جانے کے بعد ہندوستان میں جمہوریت قائم ہونے کی صورت میں مسلمان کبھی بھی ہندوؤں کی غلامی سے چھٹکارا حاصل نہیں کر سکیں گے۔ (کیا مقبوضہ کشمیر کے مسلمان اپنے علاقے میں اکثریت ہونے کے باوجود اس غلامی سے چھٹکارا حاصل کر پائے ہیں؟) اس وقت کے زیادہ تر مذہبی رہنماؤں نے جن میں مولانا ابوالکلام آزاد، مولانا حسین مدنی اور مولانا مودودی بھی شامل تھے ایک آزاد اسلامی مملکت کی مخالفت کی تھی جبکہ نوجوانوں کی اکثریت اور لبرل اور سیکولر طبقے نے پاکستان کے قیام کے لئے اپنا تن من دھن قربان کردیا تھا۔
قائد اعظم محمد علی جناح نے نئی اور آزاد مملکتِ پاکستان کو صرف مسلمانوں ہی کے لئے تشکیل نہ دیا تھا بلکہ ان تمام اقلیتوں کو بھی جو پاکستان کی حدود میں آباد تھیں اس نئی مملکت میں ان کا حصہ دینے کا وعدہ کیا تھا اور یوں ان کی بھی ہمدردیاں حاصل کی تھیں جبکہ کٹر مذہبی نظریات کے حامل مسلمانوں نے پاکستان کے قیام کی مخالفت کی تھی اور زیادہ تر نے ہندوستان ہی میں رہنے کو ترجیح دی تھا۔ قائداعظمِ اسلام کے وسیع النظر ہونے، رواداری برتنے، اعلیٰ ظرفی کا مظاہرہ کرنے والا مذہب ہونے پر پختہ یقین رکھتے تھے۔ قائداعظم نے پاکستان کے قیام سے چند روز قبل9/اگست 1947ء کو اردو کے مشہور شاعر جگن ناتھ آزاد سے اپنے ایک دوست کے توسط سے رابطہ قائم کرتے ہوئے ان سے پاکستان کا قومی ترانہ تخلیق کرنے کو کہا تھا۔ حالانکہ اس وقت بڑی تعداد میں بڑے اہم اور مشہور مسلمان شاعر موجود تھے لیکن قائد اعظم کا ایک ہندو شاعر سے قومی ترانہ تحریر کرانے کا مقصد ایک ایسا قومی ترانہ تحریر کرانا تھا جس میں پاکستان میں موجود تمام نسلوں اور مذاہب سے تعلق رکھنے والے افراد کو نمائندگی کا حق دیا جاتا ہو۔ قائد اعظم اچھی طرح جانتے تھے کہ اگر قومی ترانہ کسی مسلمان شاعر سے لکھوایا گیا تو قومی ترانے میں صرف مذہب اسلام ہی کا ذکر ہوگا اور ملک میں موجود دیگر مذاہب اور نسلوں کے احساسات کو نظر انداز کر دیا جائے گا اور اس طرح سیکولرازم کی نفی ہوگی۔ جب تک قائد اعظم زندہ رہے لاہور میں آباد جگن ناتھ آزاد ہی کے قومی ترانے کو استعمال کیا جاتا رہا لیکن ان کی رحلت کے ایک سال بعد اس کی جگہ حفیظ جالندھری سے نئے سرے سے قومی ترانے کو تحریر کرایا گیا اور اس وقت سے اب تک حفیظ جالندھری ہی کے تحریر کردہ قومی ترانے کو استعمال کیا جا رہا ہے۔ کیا کبھی ہم نے اس پر غور کیا ہے وہ قومی ترانہ جو قائداعظم نے اپنی دلی اور قومی خواہشات کے عین مطابق تحریر کرایا تھا،کہاں گیا؟ کیا اسے سیکولرازم سے بیر رکھنے والے عناصر نے جان بوجھ کر تو نہیں ہٹوا دیا تھا؟
قائد اعظم کی وفات کے بعد اسے تبدیل کرنے کی کیونکر ضرورت محسوس ہوئی؟ وہ قومی ترانہ دراصل پاکستان کے ایک سیکولر ملک ہونے، قائد اعظم کے ایک سیکولر مملکت بنانے کے نظریات کی غمازی کررہا تھا۔ اس کی بڑی وجہ اس دور میں قائد اعظم کا جدید جمہوریہ ترکی اور اس کے بانی مصطفی کمال اتاترک سے متاثر ہونا تھا۔ انہوں نے اس دور میںH.C. Armstrong کی کتاب Gray Wolf (بوزکرت) کا نہ صرف خود کئی بار مطالعہ کیا تھا اور اس کتاب کے کئی ایک اہم موضوعات اور صفحات جس میں ترکی کی غیر ملکیوں سے آزادی حاصل کرنے کی جدوجہد، ملک میں جدید نظام اور سیکولرازم کو متعارف کرانے جیسے موضوعات شامل تھے کو انڈر لائن کرتے ہوئے اس کتاب کو اپنی صاحبزادی کو پیش کرتے ہوئے کہا تھا" یہ بہت عمدہ کتاب ہے اس کو ضرور پڑھو" قائد اعظم محمد علی جناح نے 1938ء میں اتاترک کی وفات کے موقع پر بہار پٹنہ میں آل انڈیا مسلم لیگ کے 26 ویں سالانہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ"ہمیں عظیم ترک رہنما اتاترک کی وفات پر گہرا دکھ پہنچا ہے۔ وہ مشرق کی عظیم اور روشن خیال شخصیت تھی جنہوں نے ترکی کو جدید خطوط پر استوار کرتے ہوئے دیگر اسلامی ممالک کی آزادی کی شمع کو روشن کیا ہے۔" قائد اعظم اتاترک ہی کی طرز پر ملک کو جدید خطوط پر استوار کرنا چاہتے تھے( یہ الگ بات ہے کہ اتاترک کے بعد ان کے جانشینوں نے سیکولرازم کو غلط رنگ دے دیا اور اسے مذہبی حلقوں پر ظلم و ستم کرنے، مساجد کو اصطبل میں تبدیل کرنے، عربی زبان میں اذان دینے سے روکنے، سرکاری اداروں میں داڑھی رکھنے پر پابندی لگانے،ہیڈ اسکارف پہن کر یونیورسٹیوں میں داخلہ لینے جیسے ظلم ڈھائے جسے موجودہ حکومت نے ختم کرتے ہوئے سیکولرازم پر اس کی صحیح روح کے مطابق عملدرآمد کرنے کا سلسلہ شروع کیا ہے۔ جس کا آئندہ ہفتے ذکر کیا جائے گا)۔ قائد اعظم نے پاکستان کو جدید خطوط پر استوار کرنے اور سیکولرازم پر عملدرآمد کرنے کی سوچ کا مالک ہونے کی وجہ سے پاکستان میں آباد ہندوؤں کو پاکستان ہی میں آباد رہنے کی پیشکش کی تھی اور ان کو یقین دلایا تھا کہ پاکستان کی تمام اقلیتیں مسلمانوں کی طرح اپنے عقیدے پر عملدرآمد کرنے میں مکمل طور پر آزاد ہوں گی۔
 

ماریہ انعام

مشہور رکن
شمولیت
نومبر 12، 2013
پیغامات
498
ری ایکشن اسکور
377
پوائنٹ
164
یکم مئی 2013 کا کالم بھی پڑھیے


گزشتہ ہفتے شائع ہونے والے میرے کالم کے بعد نہایت ہی محترم محقق، کالم نگار اور تاریخ دان ڈاکٹر صفدر محمود (جن کا میں بہت مداح ہوں اور جن کو تاریخ پاکستان پر ایک اتھارٹی کی حیثیت حاصل ہے ) نے قائداعظم محمد علی جناح کے جگن ناتھ آزاد سے قومی ترانہ تحریر نہ کرائے جانے، ان کا ترانہ موجود نہ ہونے، 14/اگست 1947ء کی رات 12 بجے اس ترانے کو پیش نہ کئے جانے سے آگاہ کیا ہے۔ میں نے ان کے اس نظریئے کی تائید کے لئے مختلف ویب سائٹس کا سہارا لیا اور اس نتیجے پر پہنچا کہ ہوسکتا ہے قائد اعظم نے براہ راست جگن ناتھ آزاد سے کوئی ملاقات نہ کی ہو لیکن یہ بھی تو ہوسکتا ہے کہ قائداعظم نے کسی دیگر اہم شخصیت کے توسط سے ان سے رابطہ قائم کرتے ہوئے انہیں یہ ترانہ لکھنے کا کہا ہو کیونکہ زہرہ قدوائی نے اپنی ویب سایٹ "ونڈ ملز" میں اس ترانے کو ریڈیو پاکستان سے نشر کئے جانے اور اسے خود اپنے کانوں سے سنے جانے کا ذکر کیا ہے۔ علاوہ ازیں مہرین ایف علی کے 13/اگست 2006ء کو شائع ہونے والے مضمون "A Tune to Die For " میں بھی اس ترانے کے موجود ہونے کا ذکر کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ جگن ناتھ آزاد نے اپنے ایک خط میں بھی اس ترانے کے14/اگست 1947ء کو رات بارہ بجے نشر کئے جانے سے آگاہ کیا ہے اور اپنے اس خط میں اسی ترانے کو پیش بھی کیا جو قارئین کی خدمت میں پیش کررہا ہوں۔
اے سرزمینِ پاک !
ذرے تیرے ہیں آج ستاروں سے تابناک
روشن ہے کہکشاں سے کہیں آج تیری خاک
تندیِ حاسداں پہ ہے غالب تیرا سواک
دامن وہ سل گیا ہے جو تھا مدتوں سے چاک
اے سرزمین پاک!
اب اپنے عزم کو ہے نیا راستہ پسند
اپنا وطن ہے آج زمانے میں سربلند
پہنچا سکے گا اس کو نہ کوئی بھی اب گزند
اپنا عَلم ہے چاند ستاروں سے بھی بلند
اب ہم کو دیکھتے ہیں عطارد ہو یا سماک
اے سرزمینِ پاک!
اترا ہے امتحاں میں وطن آج کامیاب
اب حریت کی زلف نہیں محو پیچ و تاب
دولت ہے اپنے ملک کی بے حد و بے حساب
ہوں گے ہم اپنے ملک کی دولت سے فیضیاب
مغرب سے ہم کو خوف نہ مشرق سے ہم کو باک
اے سرزمینِ پاک!
اپنے وطن کا آج بدلنے لگا نظام
اپنے وطن میں آج نہیں ہے کوئی غلام
اپنا وطن ہے راہ ترقی پہ تیزگام
آزاد، بامراد، جواں بخت شادکام
اب عطر بیز ہیں جو ہوائیں تھیں زہرناک
اے سرزمینِ پاک!
ذرے تیرے ہیں آج ستاروں سے تابناک
روشن ہے کہکشاں سے کہیں آج تیری خاک
اے سرزمینِ پاک!
اس ترانے کے موجود ہونے سے یہ بات تو واضح ہوجاتی ہے کہ جگن ناتھ آزاد نے قومی ترانہ تحریر کیا تھا البتہ یہ ہوسکتا ہے کہ اس وقت اسے ایک ملّی ترانے ( جسے جگن ناتھ نے اپنے خط میں ملّی ترانہ ہی قرار دیا ہے ) کے طور پر پیش کیا گیا ہو جس کی وجہ سے اسے قومی سطح پر پذیرائی حاصل نہ ہوئی ہو یا پھر اس رات کے بعد پھر کبھی نہ بجایا گیا ہو۔ جہاں تک ریڈیو پاکستان لاہور اور ریڈیو پاکستان پشاور سے اسے پیش نہ کئے جانے اور ریڈیو کی لاگ بک میں اس بارے میں کوئی اندراج نہ ہونے کا ذکر کیا گیا ہے تو عرض ہے کہ بعد میں کسی دور میں جس طرح قائد اعظم محمد علی جناح کے تجویز کردہ نام " جمہوریہ پاکستان" کو تبدیل کرتے ہوئے "اسلامی جمہوریہ پاکستان" رکھ دیا گیا بالکل اسی طرح ریڈیو پاکستان کے حکامِ بالا نے بعد کے دور میں اسے لاگ بک سے مٹا دیا ہو۔ میں خود طویل عرصے تک ریڈیو پاکستان اسلام آباد میں براڈ کاسٹر کے طور پر کام کرچکا ہوں اس لئے مجھے معلوم ہے کہ وہاں پر کسی چیز کو غائب کرنا یا delete کرنا کوئی مشکل کام نہیں ہے۔ ویسے بھی ہماری تمام حکومتوں کو ہمیشہ یہ حق حاصل رہا ہے کہ وہ بغیر کسی تحقیق کے کسی بھی چیز کو اسلام کے منافی قرار دے کر اسے نکال باہر کرے۔ جیسے علامہ اقبال کی کتاب
"The Reconstruction of Religious Thought in Islam "
جوکہ ان کے لیکچرز پر مبنی تھی کو پاکستان سے ہی غائب کر دیا گیا۔ کیا ہم نے پاکستان میں اس کتاب پر اس لئے پابندی نہیں لگادی کہ اس میں علامہ محمد اقبال نے مذہب کو ایک الگ نظریئے اور سوچ سے پیش کیا تھا۔ اس قسم کے بہت سی مثالیں ہمارے پاس موجود ہے جنہیں میں کالم کی طوالت کے باعث پیش کرنے سے قاصر ہوں۔
دراصل میں نے اپنا یہ کالم ترکی اور پاکستان میں سیکولرازم کے بارے میں پائی جانے والی مختلف سوچ اور نظریئے کو اجاگر کرنے کے لئے تحریر کیا تھا اور یہ بتانا مقصود تھا کہ پاکستان میں جان بوجھ کر سیکولرازم کوغلط معنی پہنائے جاتے ہیں تاکہ عوام کو اس سیکولرازم کی وجہ سے ابھر کر سامنے آنے والی اہم آہنگی کو قائم نہ ہونے دیا جائے اور ملک میں اسلام کے نام پر اسلام کے ٹھیکیدار اپنی ٹھیکیداری چمکاتے رہیں۔
ہمارے جنگ ہی کے ایک دیگر محترم کالم نگار جناب ثروت جمال اصمعی نے اپنے گزشتہ ہفتے کے ایک کالم میں سیکولرازم کی مخالفت میں جدید جمہوریہ ترکی کے بانی مصطفی کمال اتاترک کو ہدف بنایا اورلکھا ہے کہ ترکی میں اتاترک نے پون صدی تک ترکی کے مسلمانوں کا رشتہ اسلام سے کاٹ کر سیکولرازم سے جوڑنے کیلئے جبر کا حربہ استعمال کیا۔ یہاں پر عرض کروں کہ اتاترک کو اس وقت جن حالات کا سامنا کرنا پڑ رہا تھا وہ حالات پاکستان کے موجودہ حالات سے بھی خراب تر تھے۔ مذہبی لوگوں نے اور مولویوں نے اسلام کے نام پر غیر ملکیوں کے ساتھ سازباز کرنے کا سلسلہ جاری رکھا ہوا تھا۔ غیر ملکیوں کے سازباز ہی کے نتیجے میں ملک میں فرقہ واریت کو ہوا ملی تھی جس کے نتیجے میں تین براعظموں پر پھیلی ہوئی سلطنت ِ عثمانیہ مٹ گئی اور ترک صرف اناطولیہ تک محدود ہو کر رہ گئے۔
یہ اتاترک ہی تھے جنہوں نے اناطولیہ کے باشندوں کو اپنی قیادت تلے جمع کرتے ہوئے آزادی کی جنگ شروع کی تھی اور جس کی ہندوستان اور پاکستان کے مسلمانوں نے دل کھول کر نہ صرف حمایت کی تھی بلکہ اپنا سب کچھ اتاترک اور اس کے سپاہیوں پر قربان کردیا تھا۔ اتاترک نے اس وقت ملک کے باشندوں کے درمیان اتحاد قائم کرنے اورفرقہ واریت کو ختم کرنے کیلئے سیکولرازم کا سہارا لیا جس میں وہ بڑی حد تک کامیاب رہے لیکن یہ الگ بات ہے کہ اتاترک کے بعد آنے والی حکومتوں نے اتاترک کے سیکولرازم کو اپنے مفاد کے لئے استعمال کیا اور ایسے ایسے اقدامات اٹھائے جس سے سیکولرازم کے معنی ہی تبدیل ہو کر رہ گئے۔ عصمت انونو سے لے کر موجودہ حکومت سے قبل تک ملک میں سیکولرازم کے نام پر مذہبی لوگوں پر ظلم و ستم کئے گئے، ان پر نوکریوں کے دروازے بند کردیئے گئے اور ہیڈ اسکارف پہننے والی لڑکیوں کو یونیورسٹیوں میں داخلہ دینے ہی سے روک دیا گیا جس کی وجہ سے سیکولرازم کو ظلم و ستم کی علامت سمجھا جانے لگا حالانکہ وہ سیکولرازم یکطرفہ اور نام نہاد سیکولرازم تھا۔
ترکی کی موجودہ حکومت نے سیکولرازم کے چہرے پر لگے اس دھبے کو دھونے کی کوشش کی ہے اور اس کا صحیح چہرہ ہمارے سامنے پیش کیا ہے۔ ترکی کی موجودہ حکومت سیکولرازم پر عملدرآمد کرنے کے لحاظ سے ایک عمدہ مثال ہے۔ ایردوان اور ان کی قیادت میں قائم اس حکومت کی کابینہ میں شامل زیادہ تر وزراء ایک دور میں نجم الدین ایربکان کی سیاسی جماعت کے رکن تھے لیکن انہوں نے دیکھ لیا تھا کہ نجم الدین ایربکان کی کٹر قسم کی مذہبی پالیسی انہیں کبھی بھی ملک میں تنہا اقتدار نہیں دلوا سکے گی اس لئے انہوں نے ایربکان کی کٹر قسم کی پالیسیوں سے بغاوت کرتے ہوئے ایک نئی جماعت تشکیل دی جسے جدید خطوط پر استوار کرتے ہوئے اس کے منشور میں سیکولرازم کو بھی داخل کیا۔ وزیراعظم ایردوان ہمیشہ ہی سیکولرازم پر اس کی روح کے عین مطابق عمل کرنے کا پرچار کرتے چلے آئے ہیں۔ انہوں نے اپنے دورہ مصر کے دوران مصر کے عوام میں ہم آہنگی اور اتحاد قائم رکھنے کے لئے سیکولرازم پر عمل کرنے کی خواہش کا اظہار کیا تھا ۔وہ عرب ممالک جو کہ بہار عرب کے بعد ڈکٹیٹر شپ سے آزاد ہوئے ہیں ترکی کو سیکولرازم کے معاملے میں اپنے لئے رول ماڈل سمجھتے ہیں۔ ہمارے محترم کالم نگار نے اگر ترکی کی برسراقتدار جماعت جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ کے منشور اور وزیراعظم ایردوان کے بیانات کا جائزہ لیا ہوتا تو وہ کبھی ان کی جماعت کو ایک مذہبی جماعت کہنے کے بجائے سیکولر جماعت کہنے میں کوئی عار محسوس نہ کرتے اور نہ ہی اتاترک کو ہدفِ تنقید بناتے۔
 

یوسف ثانی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
ستمبر 26، 2011
پیغامات
2,767
ری ایکشن اسکور
5,410
پوائنٹ
562
مصطفٰی کمال اتاترک سالونیکا کے متوسط الحال خاندان میں پیداہوئے۔ سات برس کے تھے کہ باپ کا سایہ سر سے اٹھ گیا۔ سالونیکا اور مناستیر کے کیڈٹ سکولوں میں تعلیم پائی اور 1905ء میں وہاں سے سٹاف کیپٹن بن کر نکلے۔ طالب علمی کے ایام میں ہی ایک منجھے ہوئے مقرر کی حیثیت سے شہرت حاصل کی۔

استنبول میں قیام کے دوران خلیفہ عبدالحمید کی حکومت کے خلاف سرگرمیوں میں حصہ لینے پر کچھ عرصہ قیدرہے۔ جیل سے رہا ہوئے تو فوجی ملازمت اختیار کی اور دمشق میں پانچویں فوج کے ہیڈکوارٹر میں متعین ہوئے۔ اس دوران میں خفیہ تنظیم جمعیت اتحاد و ترقی سے ان کا رابطہ قائم ہوا۔ اور وہ نوجوان ترک رہنماوں سے مل کر ترکی کی نشاۃ ثانیہ کے لیے کام کرنے لگے۔ 1908ء کے انقلاب ترکیہ کے بعد کچھ عرصے کے لیے سیاسیات سے علیحدگی اختیار کر لی۔ جنگ اطالیہ اور جنگ بلقان میں مختلف محاذوں پر فوجی خدمات سرانجام دیں۔ اور اپنی حاضر دماغی اور جرات کے سبب شہرت حاصل کی۔ پہلی جنگ عظیم شروع ہوئی تو صوفیہ میں ملٹری اتاشی کے عہدے پر فائز تھے۔ ان کی درخواست پر انھیں جنگی خدمات سپرد کی گئیں۔ انھوں نے 1915ء میں انگریزوں اور فرانسیسیوں کے خلاف آبنائے فاسفورس کی کامیاب مدافعت کی ۔ اس پر انھیں جنرل کے عہدے پر ترقی دے دی گئی۔ 1916ء میں روسی فوج کو شکست دے کر ترکی کا مقبوضہ علاقہ آزاد کرا لیا۔ 5جولائی 1917ء کو ساتویں فوج کے کمانڈر مقرر ہوئے۔ 30 اکتوبر 1918کو معاہدہ امن پر دستخط ہوگئے جس کے بعد ساتویں فوج توڑ دی گئی اورمصطفے کمال پاشا واپس استنبول بلا لیے گئے۔

اس وقت خلیفہ وحید الدین سریر آرائے سلطنت تھے، ملک میں طوائف الملوکی پھیلی ہوئی تھی۔ خلیفہ وحید الدین کو ان کے عزائم کا علم نہ تھا۔ انہوں نے اتاترک کو نویں فوج کا انسپکٹر جنرل مقرر کر دیا۔ جس کا کام باقی ماندہ فوج سے ہتھیار واپس لینا تھا۔ لیکن انھوں نے اس کے برعکس تحریک مقاومت کی تنظیم شروع کر دی۔ انھوں نے اس تحریک کے دوسرے رہنماوں سے رابطہ قائم کیا اور مادر وطن کے تحفظ کے لیے سرگرم عمل ہوگئے۔ اسی دوران ان کی قیادت میں متوازی عارضی حکومت قائم ہوگئی۔

1920ء میں اتاترک انگورہ میں ترکی کی پہلی اسمبلی کے صدر منتخب ہوئے۔ اور پھر 1921ء میں ان کی قیادت میں ترکوں نے یونانیوں کے خلاف جنگ چھیڑ دی ۔ جنھوں نے ایشیائے کوچک کے بہت بڑے حصہ پر قبضہ کر رکھا تھا۔ ایک سال کے اندر اندر یونانی فوج ترکی کی سرحدوں سے باہر نکال دی گئی۔ ترکوں اور انگریزوں کے درمیان براہ راست جنگ چھڑ جانےکا خطرہ پیدا ہوگیا۔ لیکن کمال اتاترک نے اپنی فراست سے یہ خطرہ ختم کر دیا۔

اکتوبر 1923 میں ترکی میں خلافت ختم کرنے اور ملک کو جمہوریہ قرار دینے کا اعلان ہوا اور کمال اتاترک اس کے پہلے صدر منتخب ہوئے۔ انھوں نے زمام اقتدار سنبھالتے ہی اصلاحات نافذ کیں۔ لیکن مذہبی حلقوں میں عموماً ان اصلاحات کو اچھا نہیں سمجھا گیا، اور فی الواقع ترکی ان اصلاحات کے نتیجہ میں اپنے قدیم تہذیبی ورثہ سے محروم ہوتا چلا گیا۔ عالم اسلام کے مسلمانوں میں بھی غم و غصہ کی لہر چل پڑی، اور ترکی عالم اسلام سے کٹ کر رہ گیا۔
مآخذ
 

یوسف ثانی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
ستمبر 26، 2011
پیغامات
2,767
ری ایکشن اسکور
5,410
پوائنٹ
562
قائد اعظم اور کمال اتاترک​
کمال اتاترک نے مذہب سے اور اپنے ماضی سے کھلی بغاوت کی اور سیکولر ازم کا راستہ اختیار کر کے اہل مغرب کی پیروی کی انہوں نے محاذ پر یورپی اقوام کو شکست دی لیکن تہذیبی محاذ پر ان سے شکست کھائی۔ اپنی ہر روایت' قدر اور تہذیبی شناخت کو ترک کیا اور مغربی تہذیب کو جبراً اس طرح اپنی قوم کے سرپر منڈھا جیسے ٹوپی بنانے والے اسے قالب پر چڑھاتے ہیں۔ انہوں نے رومن رسم الخط اختیار کر کے ترکوں کا رشتہ ماضی سے بالکل کاٹ دیا اور فارسی و عربی کا خاتمہ ' کر کے انہیں مسلم دنیا سے منقطع کر دیا۔ اس کے برعکس قائداعظم نے کبھی مشتعل ہو کر علماءپر لعنت ملامت نہیں کی نہ اپنے ماضی کو مطعون کیا۔ انہوں نے غیر معمولی صبر وتحمل اور حزم و احتیاط سے کام لیا۔ مذہب سے بغاوت نہیں کی بلکہ اسی کو پاکستانی قومیت کی اساس قرار دیا۔ اپنے بیانات ' پیغامات اور انٹرویو میں قرآن و سنت کو ملک کے دستور کی بنیاد ٹھہرایا۔ مغربی تہذیب سے کبھی مرعوب نہیں ہوئے زندگی بھر سوٹ پہنتے رہے لیکن آزادی کے فوراً بعد اسے اتار پھینکا اور قومی لباس اختیار کیا۔ پھر جیتے جی کبھی سوٹ زیب تن نہ کیا۔ (یہ اور بات ہے کہ ہمارے حکمرانوں کو قائداعظم کا دور غلامی ہی کا لباس پسند ہے اور وہ قومی اسمبلی سے لے کر دفاتر تک میں سوٹ والی تصویر آویزاں کرتے ہیں) قائداعظم نے اس زبان کو قومی زبان قرار دیا جسے وہ خود بول سکتے تھے نہ لکھ اور پڑھ سکتے تھے مگر جو قرآنی رسم الخط رکھتی تھی اور مسلمانوں کے درمیان رابطہ اور دینی لٹریچر سے ان کے تعلق و وابستگی کا واحد ذریعہ تھی انہوں نے پاکستان کو عالم اسلام سے جوڑا اور قاہرہ میں اپنے بیان کے ذریعے مسلم دنیا کی آزادی کے تحفظ اور اس کے استحکام و ترقی کے لئے پاکستان کی اہمیت واضح کی۔ یوں قائدماعظم "ترقی پسندی" نے اسلام اور عالم اسلام کو کبھی مسترد نہیں کیا اور انہوں نے علماءاور شعائر اسلام کا ہمیشہ احترام کیا' ملک کے نظام کے کے بارے میں ان کی سوچ کی عکاسی یو پی مسلم لیگ کی تشکیل کردہ اس دستور کمیٹی سے ہوتی ہے جو جید علماء پر مشتمل تھی اور جسے پاکستان کے لئے ایک دستور کا خاکہ مرتب کرنے کی ذمہ داری سونپی گئی تھی۔
قائداعظم نے جس نکتہ کو اہمیت دی اور جسے اتاترک فراموش کر بیٹھے وہ یہ تھا کہ ماضی پرستی اور شے ہے اور ماضی سے کٹ جانا بالکل دوسری شے۔ تاریخ کا سفر بہتے دریا کے پانی کی طرح آگے ہی کی طرف رہتا ہے لیکن وہ اپنے منبع سے کبھی منقطع نہیں ہوتا۔ منقطع کر دیا جائے تو بہاﺅ بھی باقی نہیں رہتا۔ دریا جوہڑ بن جاتا ہے جس طرح دریا کا پانی پہاڑوں' صحراﺅں' جنگلوں' چٹیل میدانوں اور سبزہ زاروں سے گزرتا ہوا آگے بڑھتا ہے' اسی طرح تاریخ بھی عروج و زوال' عظمت و نکبت' آزادی و غلامی اور بلندی و پستی کے مختلف مراحل سے گزرتی ہوئی آگے بڑھتی ہے حال کو ماضی سے کاٹنے کی نہیں بلکہ ماضی سے بہتر بنانے کی ضرورت ہوتی ہے۔ اسی میں روشن مستقبل کی ضمانت پنہاں ہے۔ ماضی تو ایک قوم کا حافظہ ہے' جس طرح کسی فرد کا حافظہ اس سے چھن جائے تو وہ تمام ت توانائیوں کے باوجود عضو معطل ہو کر رہ جاتا ہے اسی طرح کسی قوم کا ماضی اس حافظے سے رخصت ہو جائے تو وہ سمت و منزل کے شعور سے محروم ہو جاتی ہے اور اپنی اصل سے کٹ کر رہ جاتی ہے۔ تاریخ تو قوم کا نسب ہوتی ہے یہ درس دیتی ہے تازیانے برسا کر اعصاب کو جنجھوڑتی اور بیدار کرتی ہے اور جوش عمل ابھارتی ہے۔ اتاترک کے ذہن میں عظمت رفتہ کے مناظر محفوظ نہ ہوتے اور ان کے اعصاب پر تاریخ کے تازیانے نہ برستے تو وہ اپنا شاندار کردار کبھی ادا نہ کر پاتے۔ افسوس! انہوں نے وہ پل توڑ دیا جس پر سفر کرتے ہوئے وہ آگے بڑھے تھے خدا کا شکر ہے ترکوں نے اب اسے کسی حد تک پاٹ دیا۔ اب وہ دوبارہ عالم اسلام کا ایک حصہ بن گئے ہیں اور تاریخ سے اپنا رابطہ بحال کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں کمال اتاترک کی طرح قائداعظم نے حصول آزادی و اقتدار کے مرحلے کو تاریخ سے رشتہ توڑنے کے لئے استعمال نہیں کیا اس لئے اختلافات کے باوجود دینی حلقوں میں ان کا وقار و احترام مجروح نہیں ہوا بڑھتا گیا جب کہ سیکولر ' ملحد' اشتراکی' مغرب زدہ اور نام نہاد ترقی پسند حلقے ان سے دور ہوتے چلے گئے اور اب صرف وہی ان کا ہدف تنقید بنائے ہوئے ہیں۔
(بشکریہ روزنامہ نوائے وقت 2 جنوری 2010 ء)
 

یوسف ثانی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
ستمبر 26، 2011
پیغامات
2,767
ری ایکشن اسکور
5,410
پوائنٹ
562
لادین ،فری میسن ایجنٹ کمال اتاترک تو مر کے مٹی میں مل گیا لیکن سرزمین خلافت ترکی سے اسلام کو کوئی ختم نہ کر سکا۔

آج ترک مسلمان سیکولرِازم سے دوبارہ اسلام کی طرف لوٹ رہے ہیں اور اپنے بچوں کو مدارس میں دینی تعلیم دلوا رہے ہیں جن مدارس اور وہاں سے عربی میں اذان دینے اور حجاب پہننے پر لا دین اتاترک نے پابندی لگا دی تھی .

پوری اسلامی دنیا واپس اپنے مرکز یعنی اسلام کی طرف لوٹ رہی ہے اور پاکستان ابھی کمال اتاترک کے راستے پی چل کر ملت اور امت کے تصور کے بجائے پاکستانی قوم پرستی کے راستے پہ چل رہا ہے .
 

یوسف ثانی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
ستمبر 26، 2011
پیغامات
2,767
ری ایکشن اسکور
5,410
پوائنٹ
562
خلافتِ عثمانیہ کے خاتمے کا سازشی پس منظر
تحریر: محترم شفیق احمد (جامعہ فاروقیہ، کراچی)​

روزنامہ"جدید خبر" نئی دہلی کے 26 ستمبر کے شمارے میں ایک چونکا دینے والی خبر شائع ہوئی کہ صدیوں ترکی پر فرماں روائی کرنے والے عثمانی خلفا کے آخری جاں نشین کا استنبول کے اسی شہرمیں انتقال ہو گیا جو کبھی تین براعظموں پر پھیلی اس عظیم سلطنت کا دارالحکومت تھا۔ ارطغرل عثمانی سلطنت کے ختم نہ ہونے کی صورت میں ترکی کے عثمانی سلطان عبدالحمید دوم کے پوتے تھے ۔ ان کی عمر97 سال کی تھی اور وہ کمال اتاترک کے ہاتھوں عثمانی خلافت کے خاتمے اور ترک جمہوریہ کے قیام کے بعد سے امریکا میں مقیم تھے ۔ ارطغرل عثمان1912ء میں استنبول میں پیدا ہوئے ۔ اور 1923ء میں سلطنت کے خاتمے کے وقت وہ آسٹریا کے شہر ویانا میں ایک اسکول میں پڑھ رہے تھے ۔ انہیں ویانا میں یہ خبر ملی کہ اتاترک نے ان کے خاندان کے تمام افراد کو جلا وطن کرنے کا حکم دیا ہے ۔ ان کی بیش تر زندگی امریکا کے شہر نیویارک میں گزری ، جہاں ساٹھ برس تک وہ ایک ریستوراں کے اوپر کی منزل میں ایک چھوٹے سے فلیٹ میں رہے ۔ ارطغرل عثمان ہمیشہ یہ کہتے تھے کہ ان کے کوئی سیاسی عزائم نہیں تھے اور وہ1990ء تک ترکی واپس نہیں لوٹے۔ وہ ترکی حکومت کی دعوت پر واپس گئے تھے ، لیکن انہوں نے تب بھی کوئی وی آئی پی پروٹوکول قبول نہیں کیا۔ جب وہ اپنے خاندان کے سابق محلات دیکھنے گئے تو بھی وہ سیاحوں کے ایک گروپ میں شامل ہو کر اپنے آبا واجداد کی سابق رہائش گاہیں دیکھتے رہے۔ وہ وہی محل تھا، جہاں ان کا اپنا خاندان بھی رہتا تھا او رجہاں ان کا بچپن گزرا تھا۔

اس پس منظر میں مسلمانوں کے لیے یہ جاننا دلچسپی سے خالی نہ ہو گا کہ آخر وہ کون سی عالمی اور خاص طور پر صہیونی سازشیں تھیں، جن کے نتیجے میں عالم اسلام کو ترکی میں خلافت عثمانیہ سے محروم ہونا پڑا۔ حالات پر نظر ڈالیں تو پتا چلے گا کہ آج سے 62 سال قبل مغربی طاقتوں نے 15 مئی 1948ء کو فلسطینی عوام کے سینے میں اسرائیل نام کا ایک خنجر گھونپا تھا، جس کی کسک ابھی تک محسوس کی جارہی ہے ۔ اس سے ایک دن پہلے برطانیہ نے اس علاقے سے اپنے اقتدارِ اعلیٰ کے خاتمے کا اعلان کر دیا تھا، جس پر اس نے پہلی عالمی جنگ میں ترکی کو شکست دے کر قبضہ کر لیا تھا۔ ضروری ہے کہ ان ریشہ دوانیوں پر نظر ڈالی جائے ، جن کے ذریعے اسرائیل کے قیام سے 30 سال قبل خلافت عثمانیہ کے خلاف سازشوں کا جال بنا گیا تھا۔

پہلی عالمی جنگ کا سلسلہ 1914ء میں شروع ہوا تھا، جو 1918ء میں ترکی اور جرمنی کی شکست پر ختم ہوا۔ اس جنگ میں ایک طرف برطانیہ اور اس کے حواری تھے تو دوسری طرف قیصر جرمنی اور ترکی کے آخری خلیفہ سلطان عبدالحمید کی افواج صف آرا تھیں۔ جنگ کے خاتمے کے بعد ترکی میں اسلام پسند قوتوں کا بتدریج زوال ہوتا گیا اور مصطفی کمال پاشا کی قیادت میں دہریوں کا اثر ورسوخ بڑھتا گیا۔ اس کا نتیجہ خلافت عثمانیہ کے خاتمے کی شکل میں نکلا۔ ناقدین کی نظر میں الله کے رسول صلی الله علیہ وسلم کی وفات حسرت آیات کے بعد تاریخ اسلام کا بدترین اور درد ناک سانحہ شاید 1923ء میں خلافت عثمانیہ کے خاتمے کی صورت میں نمودار ہوا، کیوں کہ ترکی میں خلافت جیسی بھی تھی ، اس کے خاتمے نے ملت اسلامیہ کی رہی سہی مرکزیت کو ختم کرکے رکھ دیا۔ یہی وجہ تھی کہ ہندوستان کے مسلمان خلافت عثمانیہ کے خاتمے پر تڑپ اٹھے اور علی برادران محمد علی جوہر او رشوکت علی نے تحریک خلافت شروع کی، اس کا اثر کتنا پڑا، اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ جب ہندوستان کے گلی کوچوں میں یہ شعر پڑھاجاتا تھا ع​
بولی اماں محمد علی کی جان بیٹا خلافت پہ دے دو​

کہا جاتا ہے کہ سلطان عبدالحمید کے دورِ حکومت میں یہودیوں کے ایک وفد نے خلیفہ سے ملاقات کی تھی۔ یہ 19 ویں صدی کے اواخر کی بات ہے۔ اس زمانے میں خلافت عثمانیہ بے حد کمزور ہو چکی تھی۔ ترکی کی مالی حالت خستہ تھی، حکومت بھی مقروض تھی۔ اس وفد نے خلیفہ سے کہا تھا کہ:" اگر آپ بیت المقدس اور فلسطین ہمیں دے دیں تو ہم خلافت عثمانیہ کا سارا قرضہ اتار دیں گے اور مزید کئی ٹن سونا بھی دیں گے۔" اس گئے گزرے خلیفہ عبدالحمید کی دینی حمیت دیکھیے کہ اس نے وہ جواب دیا ، جسے تاریخ کبھی فراموش نہیں کرسکتی۔ خلیفہ نے اپنے پاؤں کی انگلی سے زمین کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا:"اگر اپنی ساری دولت دے تم لوگ بیت المقدس کی ذرا سی مٹی بھی مانگو گے تو ہم نہیں دیں گے۔"

اس وفد کا سربراہ ایک ترکی یہودی قرہ صوہ آفندی تھا۔ بس پھر کیا تھا، خلافت عثمانیہ کے خلاف سازشوں کا سلسلہ شروع ہو گیا، چناں چہ چند برسوں بعد جو شخص مصطفی کمال پاشا کی طرف سے خلافت عثمانیہ کے خاتمے کا پروانہ لے کر خلیفہ عبدالحمید کے پاس گیا تھا، وہ کوئی اور نہیں ، بلکہ یہی ترک یہودی قرہ صوہ آفندی ہی تھا۔ خود مصطفی کمال پاشا بھی یہودی النسل تھا۔ اس کی ماں یہودن تھی اور باپ ترک قبائلی مسلمان تھا۔ پھر ساری دنیا نے دیکھا کہ خلافت عثمانیہ کے خاتمے کے بعد ترکی میں نوجوان ترکوں کا غلبہ شروع ہو گیا۔ یہیں سے Youngs Turks کی اصطلاح نکلی، جنہوں نے مصطفی کمال پاشا کی قیادت میں اسلام پسندوں پر مظالم ڈھائے، علما کا قتل عام کیا، نماز کی ادائیگی اور تمام اسلامی رسومات پر پابندی لگا دی۔ عربی زبان میں خطبہ، اذان اور نماز بند کر دی گئی ۔ مساجد کے اماموں کو پابند کیا گیا کہ وہ "ترک" زبان میں اذان دیں ، نماز ادا کریں اور خطبہ پڑھیں۔ اسلامی لباس اترواکر عوام کو یورپی کپڑے پہننے پر مجبور کیا گیا۔ مصطفی کمال پاشا اور اس کے ساتھی نوجوان ترکوں نے ترکی میں اسلام کو کچلنے کے لیے جتنی گرم جوشی کا مظاہرہ کیا اور مسلمانوں کو جتنا نقصان پہنچایا، اس کی مثال روس اور دیگر کمیونسٹ ملکوں کے علاوہ شاید کہیں نہ ملے۔

خلافت عثمانیہ کے اندرون ملک یہودیوں نے جو سازشی جال پھیلایا تھا، اس کی ایک جھلک دکھلانے کے لیے خلیفہ عبدالحمید کا ایک تاریخی خط پیش کیا جاتا ہے ، جو انہوں نے اپنے شیخ ابو الشامات محمود آفندی کو اس وقت لکھا تھا ، جب انہیں خلافت سے معزول کرکے سلانیکی میں جلا وطنی اور قید تنہائی پر مجبو کر دیا گیا تھا۔ اس خط کے مندرجات سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ امت مسلمہ کے نظام خلافت کی بیخ کنی کے لیے صہیونی طاقتوں نے کیسی سازشیں کی تھیں او ران سازشوں میں کون شریک تھا؟ خلیفہ عبدالحمید کے خط کا اردو ترجمہ پیش ہے :
" میں انتہائی نیاز مندی کے ساتھ طریقہشاذلیہ کے اس عظیم المرتبت شیخ ابوا لشامات آفندی کی خدمت میں بعد تقدیم احترام عرض گزار ہوں کہ مجھے آپ کا 22 مئی 1913ء کا لکھا ہوا گرامی نامہ موصول ہوا۔
جناب والا! میں یہ بات صاف صاف بتانا چاہتا ہوں کہ میں امت مسلمہ کی خلافت کی ذمے داریوں سے از خود دست بردار نہیں ہوا، بلکہ مجھے ایسا کرنے پر مجبور کیا گیا۔ یونینسٹ پارٹی (Unionist Party) نے میرے راستے میں بے شمار رکاوٹیں پیدا کر دی تھیں۔ مجھ پر بہت زیادہ اور ہر طرح کا دباؤ ڈالا گیا۔ صرف اتنا ہی نہیں ، مجھے دھمکیاں بھی دی گئیں اور سازشوں کے ذریعے مجھے خلافت چھوڑنے پر مجبور کیا گیا۔ یونینسٹ پارٹی، جونوجوانانِ ترک (Young Turks) کے نام سے بھی مشہور ہے ، نے پہلے تو مجھ پر اس بات کے لیے دباؤ ڈالا کہ میں مقدس سر زمین فلسطین میں یہودیوں کی قومی حکومت کے قیام سے اتفاق کر لوں۔ مجھے اس پر مجبو رکرنے کی کوششیں بھی کی گئیں ، لیکن تمام دباؤ کے باوجود میں نے اس مطالبے کو ماننے سے صاف انکار کر دیا۔ میرے اس ا نکار کے بعد ان لوگوں نے مجھے ایک سو پچاس ملین اسٹرلنگ پاؤنڈ سونا دینے کی پیش کش کی۔ میں نے اس پیش کش کو بھی یہ کہہ کر رد کر دیا کہ یہ ایک سو پچاس ملین اسٹرلنگ پاؤنڈ سونا تو ایک طرف، اگر تم یہ کرہٴ ارض سونے سے بھر کر پیش کرو تو بھی میں اس گھناؤنی تجویز کو نہیں مان سکتا۔30 سال سے زیادہ عرصے تک امت محمدیہ کی خدمت کرتا رہا ہوں۔ اس تمام عرصے میں ، میں نے کبھی اس امت کی تاریخ کو داغ دار نہیں کیا۔ میرے آباواجداد اور خلافت عثمانیہ کے حکمرانوں نے بھی ملت اسلامیہ کی خدمت کی ہے ، لہٰذا میں کسی بھی حالت اور کسی بھی صورت میں اس تجویز کو نہیں مان سکتا۔ میرے اس طرح سے صاف انکار کرنے کے بعد مجھے خلافت سے ہٹانے کا فیصلہ کیا گیا۔ اس فیصلے سے مجھے مطلع کر دیا گیا اور بتایا گیا کہ مجھے سلانیکی میں جلا وطن کیا جارہا ہے۔ مجھے اس فیصلے کو قبول کرنا پڑا، کیوں میں خلافت عثمانیہ او رملت اسلامیہ کے چہرے کو داغ دار نہیں کرسکتا تھا۔ خلافت کے دور میں فلسطین میں یہودیوں کی قومی حکومت کا قیام ملت اسلامیہ کے لیے انتہائی شرم ناکحرکت ہوتی اور دائمی رسوائی کا سبببنتی۔
خلافت ختم ہونے کے بعد جو کچھ ہونا تھا ہو گیا۔ میں تو الله تعالیٰ کی بارگاہ میں سربسجود ہوں اور ہمیشہ اس کا شکر بجالاتا ہوں کہ اس رسوائی کا داغ میرے ہاتھوں نہیں لگا۔ بس اس عرض کے ساتھ اپنی تحریر ختم کرتا ہوں ۔" (والسلام)
22/ایلول1329 ( عثمانی کلینڈر کے مطابق) ستمبر1913ء
ملت اسلامیہ کا خادم: عبدالحمید بن عبدالمجید

خلیفہ عبدالحمید کے اس خط کا بغور مطالعہ کرنےسے بہت سے حقائق سامنے آتے ہیں: سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ انہیں الله تعالیٰ کی ذات پر غیر متزلزل یقین تھا۔ انہوں نے یہودیوں کی اتنی بڑی مادی پیش کش کو ٹھکرا دیا۔ ملت اسلامیہ کی تاریخ کو اپنے عہد میں داغ دار ہونے سے بچائے رکھا۔ اہل الله اور اہل علم سے انہیں گہرا قلبی تعلق تھا۔ تزکیہٴ قلب اور روح کے لیے باقاعدہ سلسلہٴ شاذلیہ سے وابستہ تھے۔ یہود اور مغرب کی سامراجی طاقتوں کے سامنے عزم اور استقامت کے ساتھ ڈٹے رہے۔ اپنے دورِ خلافت میں یہودیوں کو سر زمین فلسطین میں قطعہ زمین کسی بھی قیمت پر خریدنے کی اجازت نہیں دی۔

یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ جب تک ترکی میں خلافت عثمانیہ قائم رہی ، اس وقت تک استعماری قوتوں کا فلسطین میں یہودی مملکت کے قیام کا خواب شرمندہٴ تعبیر نہ ہو سکا۔

مسلمانوں اور یہودیوں کی کشمکش یوں تو بہت پرانی ہے ، لیکن نئے انداز میں اس کا آغاز1897ء میں ہوا، جب یہودی اکابرین نے خفیہ طور پر جمع ہو کر طے کیا کہ خلافت عثمانیہ پر کاری ضرب لگائی جائے، کیوں کہ ان کے عزائم کی تکمیل میں سب سے بڑی رکاوٹ عالم اسلام کی مرکزیت تھی، چناں چہ طے شدہ پروگرام کے مطابق خلیفہ سلطان عبدالحمید کی خدمت میں ایک عیارانہ درخواست پیش کی گئی کہ " ہمیں فلسطین میں ایک خطہ زمین دیا جائے۔ ہم اس کی بڑی سے بڑی قیمت دینے کے لیے تیار ہیں ۔" زیرک سلطان نے یہودیوں کے عزائم کو بھانپ کر ان کی درخواست رد کر دی۔ بس پھرکیا تھا، سلطان کے خلاف ملک کے اندر او رباہر زہریلے پروپیگنڈے کی مہم شروع کر دی گئی ۔ عیسائی حکومتیں پہلے ہی خلافت عثمانیہ سے خارکھا ئے بیٹھی تھیں۔ ان کی فوجی طاقت اور یہودیوں کی خفیہ سازشوں کے ذریعے مسلمانوں کی مرکزیت ہمیشہ کے لیے ختم کر دی گئی اور ترکی کے اندر مصطفی کمال پاشا کی قیادت میں ایک تنظیم یونینسٹ پارٹی کی داغ بیل ڈالی گئی۔ اس میں زیادہ تر بھولے ترک جوان شامل تھے۔ اس انجمن کے اجتماعات کے لیے " فری میسن" لاج تھے۔ فری میسن تحریک دراصل یہودیوں کے دماغ کی اختراع ہے ، جس میں خاص طور پر ایسے لوگوں کو شامل کیا جاتا ہے ، جن کا تعلق تو کسی نہ کسی مذہب سے ہونا ضروری ہے، لیکن حقیقت میں وہ مذہب سے بے زار ہوتے ہیں ، چناں چہ وہ بڑے بڑے لوگ جن کے بارے میں متعین طور پر معلوم ہے کہ وہ فری میسن تحریک کے سرگرم کارکن تھے، ان میں مصطفی کمال پاشا بھی شامل ہیں ۔ اس تنظیم کے ہاتھوں خلافت عثمانیہ کا شیرازہ بکھیرا گیا اوراستعمال کیا گیا مصطفی کمال پاشا کو ۔ پھر عالم اسلام ایک ایسے انتشار کا شکارہو گیا کہ آج تک بلادِ اسلامیہ کے اتحاد کی تمام تحریکیں بے اثر ثابت ہوئی ہیں۔

بہرحال1923ء میں ترکی سے خلافت عثمانیہ کا خاتمہ ہو گیا۔ یونینسٹ پارٹی برسر اقتدار آگئی۔ آخری خلیفہ سلطان عبدالحمید کو اقتدار سے بے دخل کرکے جلا وطنی کی زندگی گزارنے پر مجبو رکر دیا گیا۔ ترکی میں دہریوں کا راج ہو گیا۔ مذہب بے زار فوج کا بول بالا ہو گیا۔ اور ٹھیک 25 سال بعد 15 مئی1948ء کو فلسطین میں یہودی مملکت اسرائیل کا قیام عمل میں آگیا۔ حالات کی ستم ظریفی دیکھیے جس " خلیفہ " نے ہر طرح کی لالچ اور دھمکیوں کے باوجود یہودیوں کو فلسطین کی رتی بھر زمین دینے سے انکار کر دیا تھا، اسی فلسطین میں اسرائیل کو تسلیم کرکے اس کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کرنے والا پہلا مسلم ملک کوئی اور نہیں، بلکہ اتاترک کا ترکی تھا۔

اسلام کا پھر بول بالا: یہ بات پہلے بھی بتائی جاچکی ہے کہ کمال اتاترک نے اسلام کو کچلنے کے لیے جتنی گرم جوشی کا مظاہرہ کیا اور ترکی میں اسلام او رمسلمانوں کو جتنا نقصان ان کی ذات سے پہنچا ، اتنا تو شاید روس میں کمیونسٹوں نے بھی نہ کیا ہو گا، لیکن 86 سال تک کچلے رہنے کے بعد آج ترکی کے کونے کونے سے پھر ایک بار "الله اکبر" کی گونج سنائی دینے لگی ہے ۔ سارے ترکی میں چھوٹی بڑی مساجد کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے ۔ اس سے ملک میں اسلام کی بڑھتی ہوئی مقبولیت کا اندازہ ہوتا ہے ، جس کی ترقی میں اتاترک کے برسراقتدار آنے کے بعد کمی آگئی تھی ، لیکن آ ج صورت حال بالکل مختلف ہے ۔ ترکی میں اسلام پسندی کی سمت پہلی جرأ ت مرحوم وزیراعظم عدنان مندریس اور اس وقت کے صدر جلال بایار نے کی تھی او راس وقت بدقسمتی سے فوج انتہائی طاقت ور تھی۔ جسے چاہتی گدی پر بٹھا دیتی، چناں چہ فوج نے حکومت کا تختہ پلٹ دیا۔ عدنان مندریس کو جیل بھیج دیا اور بد عنوانی کا الزام لگا کر، جھوٹا مقدمہ چلا کر پھانسی پر لٹکا دیا۔ جلال بایار کو ضعیف العمری کی بنا پر کچھ عرصے تک نظر بند رکھ کر رہا کر دیا گیا۔ اب یہ الگ بات ہے کہ وزیراعظم طیب اردگان کی طاقت ور موجودہ حکومت نے عدنان مندریس کو بدعنوانی کے تمام الزامات سے بری کرکے ان کے قومی وقار کو بحال کر دیا ہے ، لیکن اس عمل سے ایک بے گناہ اسلام پسند وزیراعظم کی جان تو واپس نہیں آسکی۔ اس کے بعد پھر 90 کی دہائی میں وزیراعظم نجم الدین اربکان کی قیادت میں اسلام پسند ویلفیئر پارٹی برسراقتدار آئی۔ اس نے مسلمانوں کو نماز کی ادائیگی او رمسجدوں کی تعمیر کی اجازت دے دی، چناں چہ محکمہ مذہبی امور کے مطابق 1990ء میں پورے ترکی میں مساجد کی تعداد 65794 ہو گئی ۔ ملک کی تمام مساجد میں پنج گانہ نماز باقاعدہ ادا کی جانے لگی اور نتیجہ یہ نکلا کہ نمازِ جمعہ میں مساجد میں جگہ ملنا دشوار ہو گیا۔

اس وقت ترکی میں 54600 امام اور560 دینی تعلیم کے مدارس ہیں۔ فوج90 کی دہائی میں بھی طاقت ور تھی ، اس لیے وزیراعظم اربکان کو اقتدار سے سبک دوش ہونے پر مجبور کر دیا گیا۔ اس کے بعد ایک عرصے تک فوج کی حمایتی حکومتیں ایک کے بعد ایک اقتدار میں آتی او رجاتی رہیں ، چناں چہ پچھلے پانچ عشروں میں ترکی میں چار منتخب شدہ حکومتوں کو فوجی انقلاب کے ذریعے ہٹایا جا چکا ہے، البتہ ایک عظیم سیاسی اور جمہوری انقلاب کے ذریعے پچھلے عام انتخابات میں ترکی کے اسلام پسند عوام نے پارلیمنٹ کی 550 نشستوں میں 341 نشستیں جسٹس اینڈ ڈیولپمنٹ پارٹی کو دلوا کر وزیراعظم طیب اردگان اور صدر عبدالله گل کو اقتدار کی باگ ڈور سونپ دی ہے، تاکہ وہ ترکی میں اسلامی نظام نافذ کر سکیں۔ صدر کی بیگم اسکارف پہنتی ہیں۔

سازشوں کا سلسلہ جاری: ترکی میں اسلام کے احیا اور اس کے ساتھ ساتھ مغرب میں اسلام کی مقبولیت سے ظاہر ہے کہ صہیونیت کی زیر اثر طاقتوں کے ہوش اڑ گئے اوران کی راتوں کی نیند حرام ہو گئی ہے ، اس لیے اس طرح کا پروپیگنڈا شروع ہو گیا ہے کہ برسراقتدار پارٹی اپنے پروگراموں کی تشہیر اور اپنی سرگرمیوں کے لیے ترکی میں مساجد کو استعمال کر رہی ہے۔ اسلام دشمن حلقوں کاالزام ہے کہ ترکی کے اوسط طبقے سے تعلق رکھنے والوں کی مذہب میں دلچسپی میں اضافے سے بنیاد پرستی کو شہ مل رہی ہے۔

چناں چہ مبینہ طور پر انقلاب لانے اور طیب ارزدگان کی حکومت کا تختہ پلٹنے کی کوشش میں ملوث ہونے کے الزام میں ایک قوم پرست تنظیم "ارگنکون" سے تعلق رکھنے والے 88 افراد کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔ اس تنظیم کاکہنا ہے کہ اردگان کی حکومت ترکی کے سیکولر تشخص کو ختم کرکے اسلامی اقدار کو بڑھاوا دینا چاہتی ہے۔ دوسری طرف اس قسم کے بھی مسلسل الزامات لگائے جارہے ہیں کہ فوج بھی حکومت کا تختہ پلٹنے کی منصوبہ بندی کر رہی ہے، لیکن فوج کے سربراہ نے ان الزامات سے انکار کیا ہے او رکہا ہے کہ فوج خود اس معاملے کی تفتیش کرے گی۔ اس پس منظر میں وزیراعظم طیب اردگان نے سرکاری وکیلوں سے کہا ہے کہ وہ مسلح افواج کے خلاف تحقیقات کریں ۔ انہوں نے متنبہ کیا ہے کہ ضروری ہوا تو اس سازش میں ملوث افراد کے خلاف عدالتی چارہ جوئی کی جائے گی، کیوں کہ حکومت خاموش تماشائی نہیں بن سکتی۔ وزیراعظم نے کہا ہے کہ برسراقتدار پارٹی کے خلاف غیر قانونی سرگرمیوں کے سد باب کے لیے ہر ممکن قدم اٹھایا جائے گا۔

اب دیکھنا یہ ہے کہ اندرونِ ملک دہریوں، عدلیہ وفوج اور بیرونِ ملک صہیونی او رمغربی طاقتوں کی سازشوں کے خلاف طیب اردگان کی اسلام پسند حکومت کتنی کامیاب رہتی ہے؟ بظاہر تو ایسا لگتا ہے کہ ترکی میں اسلام کے احیا کا جو سلسلہ شروع ہوا ہے ، وہ جاری رہے گا اور اسلام دشمن طاقتوں کو ناکامی کا منھ دیکھنا پڑے گا۔ (ان شاء الله)
 

یوسف ثانی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
ستمبر 26، 2011
پیغامات
2,767
ری ایکشن اسکور
5,410
پوائنٹ
562
کمال اتاترک کے اسلام دشمن اقدامات کا کچا چٹھا اوپر کے مضامین میں بیان کردیا گیا ہے۔ اگر کوئی جلد از جلد ان حقائق پر مبنی ایک چھوٹا سا مضمون لکھ دے تو اسے ڈاکٹر فرقان حمید اور اس کے اخبار کو بھیجا جاسکتا ہے۔ میرے پاس وقت کم ہے اور ”مقابلہ“ سخت ہے (ابتسامہ)
 

یوسف ثانی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
ستمبر 26، 2011
پیغامات
2,767
ری ایکشن اسکور
5,410
پوائنٹ
562
(ایک ہندو کا پسندیدہ کمال اتاترک)​
راہبر ہو تو ایسا
کرشن دیو سیٹھی​
جدید ترکی کے عظیم بانی کانام مصطفیٰ کمال اتاترک ہے۔آج ترکی دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں شامل ہونے کے لئے پرتول رہاہے۔ ترکی عظیم تاریخ وثقافت کاملک ہے۔ یورپ اور ایشیاء کوملانے والا یہ ملک قدیم باز لطینی سلطنت کی بنیادوںپر کھڑا ہے ۔ اس کے بانی مصطفیٰ کمال کی جائے پیدائش ترکی کامشہور قصبہ سالونیکاہے۔ مصطفیٰ کمال نے 1881میں سالونیکا کے ایک مسلمان گھرانے میںآنکھ کھولی۔ آپ کی والدہ ایک پابند صوم صلوٰۃ خاتون تھیں۔ انہوں نے آپ کو ایک اسلامی مدرسے میںداخل کرایالیکن آپ کے والد نے جومغربی خیالات کے دلدادہ تھے، آپ کو اسلامی مدرسے سے اُٹھا کر جدید نصاب والے سکول میںداخل کرادیا۔ چند برسو ں بعد مصطفیٰ کمال کے والدکا انتقال ہوگیا۔ جس کی وجہ سے مصطفیٰ کمال کوسکول چھوڑناپڑا۔ آپ کے ایک ہمسایہ دار فوج میں میجر کے عہدے پر فائز تھے۔ انہوں نے کوشش کرکے مصطفیٰ کمال کو بار ہ سال کی عمرمیں فوجی سکول میں دا خل کرادیا۔ آپ ریاضی میں بہت لائق تھے۔ جس کی وجہ سے آپ کو استاد کی خصوصی شفقت اوررہنمائی میسرآگئی۔ ترکی میںایک دستور رائج تھا کہ استاد ہونہار بچوں کے نام کے ساتھ اپنی طرف سے اضافہ کردیا کرتے تھے۔​

مصطفیٰ کمال کے استاد نے آپ کے نام کے ساتھ کمال کااضافہ کردیا۔ یوں آپ مصطفیٰ کمال بن گئے۔ آپ فوجی سکول میں اپنے استاد کے معاون کے طورپر بھی کام کرتے رہے۔ مصطفیٰ کمال اپنے دور طالب علمی میںکلاس کے سارجنٹ یعنی مانیٹرتھے۔ چودہ سال کی عمر میں آپ نے مناسترکی فوجی تربیت گاہ میںداخلہ لے لیااور تعلیم مکمل کرنے کے بعد فوج میںشامل ہوگئے۔ جن دنوں کمال اتاترک فوج میںگئے ترکی کو ان دنوں شکستوں کاسامنا کرناپڑاتھا۔ ملک میں مایوسی اوربے چینی کی فضاء تھی۔ نوجوانوں کی اکثریت ملک میں جمہوری حکومت کی حامی تھی۔ اس کے لئے بہت سی تنظیمیں وجود میںآچکی تھی۔ مصطفیٰ کمال نے ملازمت کے دوران 1906میں ایک جماعت انجمن وطن حریت کے نام سے قائم کی لیکن پھر اس کو ترکی کی ایک بڑی تنظیم انجمن ،جمعیت اتحاد و ترقی میں شامل کردیا۔​

جمعیت اتحاد ترقی نے 1908 میں انقلاب برپا کردیا۔ جس کو نوجوان ترک انقلاب کانام دیاگیا۔ اس انقلاب میںعثمانی خلیفہ سلطان عبدالحمید کومعزول کرکے پارلیمانی حکومت قائم کردی گئی لیکن انقلاب کامیاب نہ ہوسکا۔ اس کے برعکس ترک عثمانی سلطنت کے بہت سے علاقوںمیں آزادی اور خود مختاری کااعلان کردیا۔ ترکی بہت تیزی سے زوال پذیر تھا۔ مصطفیٰ کمال اس صورت حال سے بہت رنجیدہ تھے۔ وہ ترکی کو پھر سے طاقتور اورتوانا بنانے کے شدید خواہش مند تھے۔ ان کے خیال میں ترکی کو جدید مملکت بناکر ہی ترقی کی جاسکتی تھی۔وقت کے سیاسی نظام کاخاتمہ ضروری تھا۔ ایک قوم پرست کی حیثیت سے وہ ترکی کے لئے بہت جذباتی تھے۔ انہوںنے جنگ طرابلس اور بلقان کے معرکوں میںبہادری کے جوہر دکھائے۔ ان کی ان خدمات کے صلے میں ان کو میجر کے عہدے پرترقی دے دی گئی۔ 1914 میںجنگ عظیم اول شروع ہوگئی۔ بلقان کی جنگوں میں لہو لہان ترکی نے بدلہ لینے کے لئے جوا کھیلا اور جرمنی کی طرف سے اس جنگ میں شامل ہوگیا۔​

برصغیر کے مسلمان نہیں چاہتے تھے کہ ترکی اس جنگ میں شرکت کرےکیونکہ ترکی جنگ لڑنے کی حالت میںنہیںتھا۔ جب جنگ شروع ہوئی تو مصطفیٰ کمال بلغاریہ کے دارا الحکومت صوفیہ میں ترکی کے فوجی اتاشی تھے۔ عہد ے کے لحاظ سے وہ ایک ڈویژن فوج کی کمان کے حقدار تھے۔ لیکن حکومت مصطفیٰ کمال کے نظریات سے آگاہ تھی اور خائف بھی ۔وہ ان کوہرصورت میں ملک سے دور رکھنا چاہتی تھی۔ جنگی صورت حال ابتر ہوتی جارہی تھی۔ مشہور زمانہ انگریز جاسوس ''لارنس آف عربیہ''نے کمال ذہانت سے عربوں کوترکوں کے خلاف کردیا۔ شریف مکہ نے انتہائی اہم وقت پر ترکوں کے خلاف بغاوت کردی۔ شریف مکہ اور اس کے بیٹوں نے حجاز ریلوے لائن کوڈانٹا میٹ سے اُڑا کر ترک فوجوں کی سپلائی لائن توڑدی۔سامراجی ایجنٹ عربوں کی غداری اور نسلی عصبیت نے نہ صرف ترکی کو پہلی جنگ عظیم میںشکست سے دوچارکیا۔ بلکہ عالم اسلام اور خلافت کو بھی ناقابل تلافی نقصان پہنچایا۔ اس نفرت انگیز نسلی عصبیت نے ترکوں کوبرا انگیختہ کردیا۔​

ترک نوجوان اسلام سے بھی بیزار ہوگئے اور ترک قوم پرستی نے طوفانی رُخ اختیار کیا۔جب چاروں طرف سے بُری خبریں بھی آنی شروع ہوئیں تومصطفیٰ کمال کو صوفیہ سے طلب کرکے انیسویں ڈویژن کاکمانڈر مقررکردیاگیا۔ مصطفیٰ کمال نے اپنی فوجوں کو زبردست انداز میں منظم کیااور پیش قدمی کرتی ہوئی اتحادی فوجوں کے خلاف جوابی حملہ شروع کردیا۔ مصطفیٰ کمال نے کیلی پولی کے محاذ کی کمان سنبھال لی۔ انہوں نے اپنے جانی نقصان کی پرواہ کئے بغیر اتحادی فوجوں پر زبردست حملے کئے اور ان کا بحری بیڑہ تباہ کردیا۔ اس جنگ میںلگ بھگ اڑھائی لاکھ ترکوں نے جام شہادت نوش کیا۔ اس بے مثال قربانی کے عوض میںانہوں نے انگریز فوج کو اس محاذ پر شکست فاش دیا۔ کیلی پولی کی فتح نے ترکوں میں نئی روح پھونک دی۔ کیلی پولی کے معرکوں نے مصطفیٰ کمال کو قومی ہیرو بنادیا۔ حکومت نے میجر مصطفیٰ کمال کو کرنل کے عہدے پرترقی دیدی۔ مصطفیٰ کمال کی قیادت میں ترکوں نے بہت مدت بعد ہی کسی پوروی فوج کواتنی واضح شکست دی تھی۔ ترک قوم کو مصطفیٰ کمال کی شکل میں ایک غیر متنازعہ اور مقبول عام قومی رہنما مل گیا۔ حکومت انگریزوں کی ساز باز سے مصطفیٰ کمال کورو کے ہوئے تھی۔ اپریل 1916میں مصطفیٰ کمال کوجنرل کا عہدہ دیدیاگیا۔ جنگ عظیم اوّل کے خاتمے پر ترکی کو اپنی فوج کومنتشر کرنے اور غیر مسلح کرنا پڑا ،یہ صلح کی شرائط میںسے ایک تھی۔ اسی وقت مصطفیٰ کمال کے زیرکمان دو فوجیںتھیں۔ مصطفیٰ کمال نے ان فوجوں کی کمان اپنے ساتھی علی فواد کے حوالے کر کے چوری چھپے اسلحہ کی فراہمی شروع کردی اور انا طولیہ کوا پنا مرکز بنالیا۔ انگریزمصطفیٰ کمال کوپسند نہیں کرتے تھے۔ انگریزوں کے کہنے پر سلطان ترکی نے آپ کومعزول کردیا۔ نئے سلطان ترکی وحید الدین نے توقیق پاشا کو وزیراعظم مقرر کردیا۔ توفیق پاشا نے وزراء کی جوٹیم منتخب کی ۔ ان میں مصطفیٰ کمال کانام سرفہرست تھا۔ سلطان انگریز وںکا کٹھ پتلی تھا اوراس پارلیمان کو توڑنا چاہتاتھا۔ جس میں مصطفیٰ کمال شامل تھا۔ دوسری طرف مصطفیٰ کمال کے ذہن میں تھاکہ ملک کی بقاء اس میں ہے کہ خلافت کوختم کرکے جمہوری ترکی کی بنیاد رکھی جائے۔ اس وقت وہ سلطان وحید الدین کو معزول کرناچاہتے تھے۔ سلطان نے مصطفیٰ کمال کو دُوررکھنے کے لئے انہیں فوج کاانسپکٹر جنرل بناکر مشرقی اناطولیہ کے دُور دَراز علاقے میں بھیج دیا۔ حالانکہ یہ حکم فضول تھا کیونکہ عملاً فوج نہیں تھی ،جس کی انسپکشن کی جاتی۔ ان کا کام ترک فوجوں کو تنہاء کر کے اتحادیوں کے حوالے کرناتھا۔ مصطفیٰ کمال فوراً مشرقی اناطولیہ کے لئے روانہ ہوگئے۔ چند گھنٹوں بعد سلطان کو اپنی غلطی کا احساس ہوا۔ چنانچہ سلطان نے انگریزوں کو مصطفیٰ کمال کو روکنے کے لئے کہا لیکن اس وقت دیر ہوچکی تھی۔ مصطفیٰ کمال نے مٹھی بھر وطن پرستوں کے ساتھ اناطولیہ میںقومی مزاحمت منظم طریقے سے شروع کی ۔ انہوں نے خاموشی سے وہاں کے زیادہ سے زیادہ فوجی افسران کواپنے ساتھ ملالیا۔ مشرقی صوبے کے لوگ نہ صرف مصطفیٰ کمال کا ساتھ دینے پرآمادہ ہوئےبلکہ آخردم تک آپ کے ساتھ ڈٹے رہے۔
1919میں انگریزاور فرانسیسی افواج نے اپنے بحری جنگی اور تجارتی جہازوں کے ذریعہ یونانی فوجوں کو سمرنا میں اُتاردیا۔ یونانیوں نے ترکوں کا بے دریغ قتل عام شروع کردیا۔ ترکوں میںاس کاشدید رد عمل ہوا۔وطن پرستی کی تحریک جس کے سربراہ رہنما مصطفیٰ کمال تھے۔ اس تحریک نے ترکی میںبہت زیادہ زور پکڑلیا اور ترک فوجی افسران کی بڑی تعداد میں اس میںشامل ہوگئی۔ سلطان نے مصطفیٰ کمال کی گرفتاری کاحکم جاری کردیا۔ ستمبر1919 میںمنتخب نمائندوں کااجلاس اناطولیہ میں سیوا س کے مقام پر منعقد ہوا۔ اس میںمجلس عاملہ تشکیل د ی گئی اور مصطفیٰ کمال کو اس کاصدر مقرر کیاگیا۔ اس اجلاس میں قومی اعلامیہ جاری کیاگیا۔ سلطان نے پارلیمنٹ توڑ کر نئے انتخابات کااعلان کردیا۔ نئی اسمبلی میں بھی سیواس اجلاس کے لوگ ہی کامیاب ہوئے اور ا ن میں مصطفیٰ کمال شامل تھے لیکن آپ نے اجلاس میں شرکت نہ کی۔ انہی دنوں قسطنطنیہ کا نام بد ل کر استنبول رکھ دیاگیا۔​
جنوری1920 میں نئی پارلیمنٹ کے اجلاس میں سیواس اجلاس کے اعلامیے والی تمام باتیں منظور کرلی گئیں۔ انگریزوں کویہ قبول نہیں تھا اس لئے انہوں نے مارشل لاء نافذ کردیا۔ بہت سے ارکان اسمبلی بھاگ کر مصطفیٰ کمال کے پاس انقرا پہنچ گئے۔ وہاں پر گرنیڈ اسمبلی نے اپنا کام شروع کردیا۔ اسمبلی نے اپنے آپ کو ترک حکومت اور انقراہ کو ترکی کا دارالحکومت قراردے دیا۔ یہ بھی فیصلہ کیاگیا کہ ترکی کی حکومت اور سلطان اس دن سے معزول ہیں۔جس دن سے برطانیہ نے استنبول کا چارج سنبھالا ہے۔ جواباً سلطان نے مصطفیٰ کمال اور اس کے ساتھیوں کو باغی قراردے کر یک طرفہ طورپر سزائے موت کاحکم سنایا۔ یونانیوں نے انتہائی توہین آمیز روّیہ اختیار کرتے ہوئے انقرہ پر قبضے کے لئے پیش قدمی شروع کردی۔ شہر پر فتح کاجھنڈا لہراتی ہوئی یونانی فوجوں کو ترکوں نے مصطفیٰ کمال کی سربراہی میں طوفانی حملہ کیااور یونانیوں کو شکست دے دی۔ پسپا ہوکر راہِ فرار اختیارکرتے ہوئے یونانی فوجوں نے راستے میں آنے والے ہر شئے کو تباہ وبرباد کردیااور ترکوں کی بلا تفریق نسل کشی کی اور ترکی کا دوسومیل کاعلاقہ ویران کردیا۔​

ترکوں نے مصطفیٰ کمال کی زیر قیادت اگست 1922میں یونانیوں پرفیصلہ کن حملہ کیا۔ یونانی فوجیں سمندرکے راستے سمرنا سے فرار ہوگئیں لیکن جاتے وقت انہوں نے شہر کا بڑا حصہ نذر آتش کردیا۔ مصطفیٰ کمال نے استنبول کی طرف پیش قدمی کی۔ استنبول کے پاس انگریزوں نے مصطفیٰ کمال کے تمام مطالبات تسلیم کرلئے اور جنگ بندی کے معاہدے پردستخط ہوئے۔ انگریزوں نے ترکی کی حاکمیت اعلیٰ کوتسلیم کرلیا اور اس سے پہلے کاذلت آمیز معاہدہ منسوخ ٹھہرا ۔ 1923میں ترکی کوجمہوریہ قراردے کر خلافت کا خاتمہ کردیاگیااور انقرہ کو دارالحکومت قراردیاگیا۔ مصطفیٰ کمال کواتاترک یعنی ترکوں کا باپ کے لقب سے نوازا گیا۔ جدید تر کی بنیادیں مساوات برابری اورانصاف کے اصولوں پر رکھی گئیں۔ عورتوں کو مساوی حقوق عطاکئے گئے۔ اتاترک نے یوروپ کے مرد بیمار کوایک بار پھر قومو ں کی باعزت صف میں کھڑا کردیا۔ تاریخ کا رُخ موڑنے والی اس عظیم وتاریخ ساز شخصیت کا انتقال 10 نومبر 1938کوہوا۔lll
krishandevsethi@gmail.com
 
Top