• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اسلام کا تصور تفریح

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
عہد رسالت کے حوالے سے متعدد اقسام کے کھیل کود اور مختلف تفریحات کا پتا چلتا ہے اور ان کا ذکر بہت زیادہ روایات میں ملتا ہے ان میں سے چند معروف کا ذکر سطور ذیل میں کیا جائے گا ان میں سے کچھ حربی کھیل ہیں جو صرف مرد حضرات کھیلتے تھے بچوں کے لیے الگ مردانہ قسم کے کھیل کود تھے بعض روایات میں لڑکوں اور لڑکیوں کے مشترکہ کھیلوں کا بھی ذکر ملتا ہے اسی طرح معصوم بچیوں اور لڑکیوں کے خاص نسوانی کھیلوں کا ذکر بہت دلچسپ انداز میں ملتا ہے اسی طرح خواتین اور عورتوں کے بعض تفریحی مشاغل کا پتہ چلتا ہے ان میں سے معروف کا ذکر درج ذیل ہے:
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
فوجی کھیل: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مختلف اوقات میں مختلف طبقات و افراد کو تیر اندازی ،شہسواری ، تلوار بازی ، نیزہ بازی، حربہ انگیزی او ر دوسرے فوجی کھیلوں کی ہمت افزائی کی اور صحابہ کرام رضوان اللہ علہیم اجمعین کو ان کے حصول اور کمال پر ترغیب بھی دلائی۔ بالعموم یہ تفاصیل کتاب الجہادوالسیر کے ابواب میں ملتی ہیں جیسا کہ صحیح بخاری کا باب التحریض علی القتال، باب السبق من الخیل، باب التحریض علی الرمی وغیرہ بلکہ عید الاضحی کے موقع پر سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی آڑ میں حبشی حضرات کے حربی کمالات دیکھنا ۔ اس واقعہ سے اور اس کی شروح سے واضھ ہوتا ہے کہ وہ مستقل قسم کے کھیل تھے صرف اسی موقع پر نہیں پیش کیے بلکہ ہر عید پر ان کا اہتمام کیا جاتا تھا حافظ ابن الحجر رحمہ اللہ نے فتح الباری میں اس پر مفصل بحث کی ہے۔ اور اصل بات یہ ہے کہ کھیلنے والوں کے لیے اجازت نبوی بلکہ منشائے نبوی بھی حاصل تھا۔یعنی یہ کھیلنا جائز اور مباح بلکہ ان کا دیکھنا اور دکھانا بھی جائز اور مباح ہے اس قسم کے کھیلوں کی عصری مثالیں 6 ستمبر میں یوم فضائیہ پر فضائی مظاہرے اور فوجی کمالات کا تعلق اسی نوعیت سے ہے جنہیں دیکھا جا سکتا ہے ۔
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
نشانہ بازی: نشانہ بازی خواہ تیر کے ذریعہ ہو یا نیزہ، بندوق اور پستول یا کسی اور ہتھیار کے ذریعہ ہو۔ اس کے سیکھنے کو باعثِ اجر وثواب قرار دیاگیا ہے ۔یوں بھی یہ کھیل انسان کے ذاتی دفاع کے لیے بہت ضروری ہے۔ یہ اگر جسم کی پھرتی، اعصاب کی مضبوطی اور نظر کی تیزی کا ذریعہ ہے۔ وہیں یہ خاص حالات میں دشمنوں سے مقابلہ آرائی کے کام آتا ہے۔ قرآن کریم میں باضابطہ مسلمانوں کو حکم دیاگیاہے: وَاَعِدُّو لَہُمْ مَا اسْتَطَعْتُمْ مِنْ قُوَّةٍ (الانفال) کہ اے مسلمانو! تمہارے بس میں جتنی قوت ہو، اسے کافروں کے لیے تیار کرکے رکھو۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس ”قوة“ کی تفسیر رمی (تیراندازی) سے کی ہے۔ آپ نے تین مرتبہ فرمایا: ألاَ أَنَّ الْقُوَّةَ الرَّمْيُ ۔ یعنی خبردار ”قوة“ پھینکنا ہے۔ (مسلم، مشکوٰة ۳۳۶) اس پھینکنے میں جس طرح تیر کا پھینکنا داخل ہے، اسی طرح اس میں کسی بھی ہتھیار کے ذریعہ مطلوبہ چیز کو نشانہ بنانا، راکٹ، میزائل وغیرہ کوٹھیک نشانہ تک پہنچانا بھی داخل ہے اور ان میں سے ہر ایک کی مشق جہاں جسمانی لحاظ سے بہترین ورزش ہے، وہیں باعث اجر وثواب بھی ہے۔ (بذل المجہود:۱۱/۴۲۸) ایک حدیث میں آں حضرت نے ارشاد فرمایا: بے شک ایک تیر کے ذریعہ اللہ تعالیٰ تین افراد کو جنت میں داخل کردیتا ہے۔ ایک تیر بنانے والا؛ جبکہ وہ تیر بنانے میں ثواب کی نیت رکھے۔ دوسرا تیر پھینکنے والا اور تیسرا پکڑنے والا، پس اے لوگو! تیر اندازی سیکھو (سنن دارمی، مشکوٰة ۳۳۷)۔
بلکہ تیر اندازی تو ایک ایسا فن تھا جس کی خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے بچپن میں اس کی مشق کی تھی اور یہ عرب میں بطور مشغلہ بھی تھا لیکن اس میں ایک بات بہت اہم ہے کہ تیر اندازی جائز اور مباح ہے لیکن پرندوں اور جانورں پر مشق کرنا اس سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قطعی طور پر منع کیا تھا۔ اس میں ایک دلچسپ واقع جو کہ صحیح بخاری میں مذکور ہے سید نا سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا گذر قبیلہ بنو اسلم کے کچھ افراد پر ہوا تو ان کو تیر اندازی کرتے ہوئے پایاآپ نے ان کو بنو اسماعیل قرار دے کر فرمایا کہ تمہارے جد امجد بھی تیر انداز لہذا تم تیر اندازی کرتے رہو اور میں بھی بنو فلاں کے ساتھ ہوں دوسرے فریق نے تیر چلانے سے ہاتھ روک لیے تو آپ سلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم کو کیا ہو گیا ہے تم تیر کیوں نہیں چلاتے انہوں نے عرض کیا کہ ہم تیر کیسے چلائیں کہ آپ تو ان کے ساتھ ہیں تو آپ نے فرمایا کہ تم بھی تیر چلاو اور میں تم سب کے ساتھ ہوں (صحیح بخاری ۔ 2899)
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ تیر اندازی کو عرب بطور ایک تفریحی مشغلہ اور کھیل کے طور پر بھی اختیار کیا کرتے تھے بلکہ بعد میں یہی تفریحی کھیل ان کی فوجی تربیت میں بدل جاتا تھا کہ سابقہ زمانے کی جنگوں میں تیر اندازی ایک بہت اہم ہتھیار تھا لہذا اس جنگی مہارت کا حاصل کرنا عمومی طور پر ایک فن حرب کی حیثیت سے معروف تھا۔
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
سواری : اس سے جسم کی پوری ورزش کے ساتھ انسان میں مہارت، ہمت وجرات اور بلند حوصلہ جیسی اعلیٰ صفات پیدا ہوتی ہیں اور سفریا جہاد میں خوب کام آتا ہے۔ گو کہ قرآن وحدیث میں عام طور پر گھوڑے کاذکر آیا ہے مگر اس سے ہر وہ سواری مراد ہے جواس مقصد کو پورا کر سکے مثلاً ہوائی جہاز،ہیلی کاپٹر، بس، موٹر سائیکل، سائیکل وغیرہ۔ ان سب سواریوں کے چلانے کی مشق اور ٹریننگ اسلامی نقطئہ نظر سے پسندیدہ ہے۔ اس شرط کے ساتھ کہ جائز اور نیک مقاصد کے لیے انھیں سیکھا جائے اور استعمال کیا جائے۔
عربوں کی زندگی میں جن چند عناصر کو مرکزیت حاصل تھی ان میں ایک گھڑسواری تھا مردوں کی مردانگی کا تو یہ ایک معیار تھا ہی خواتین بھی اس میں مہارت حاصل کرتی تھی قرن اول کی بے شمار جنگوں میں خواتین کی شہسواری ضرب المثل کی حیثیت اختیار کر چکی تھی۔ بلکہ کسی شخص کے لیے یہ امر باعث ندامت و شرمندگی ہوتا تھا کہ وہ گھوڑے کی پیٹھ پر بیٹھنا نا جانتا ہو بلکہ اسے بزدل کہا جاتا تھا اور بعض احادیث میں یہ دلچسپ درخواست بھی بعض صحابہ کرام رضوان اللہ علہیم اجمعین کی طرف سے خدمت رسالت میں پیش کی گئی کہ وہ گھوڑے کی پیٹھ پر جم کر نہیں بیٹھ سکتے لہذا ان کی یہ کمزوری دور ہو تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے لیے یہ دعا کی اور کئی کمزور پشت حضرات کو صلابت حاصل ہوئی ،۔ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شہسواری معروف تھی اور اس مقصد کے لیے آپ کے پاس کئی اونٹ اور گھوڑے تھے بلکہ حالت امن میں آپ نے کئی مرتبہ صحابہ کرام کے ساتھ شہسواری کے مقابلوں میں پہلا درجہ حاصل کیا (فتح الباری)جیسا کہ مختلف سیرت نگاروں اور مورخین نے ان کا ذکر کیا ہے جیسا کہ بلاذری نے بہت تفصیل سے ایسے مقابلوں کا ذکر کیا ہے
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
دوڑ: صحت اور توانائی کے مطابق ہلکی یا تیز دوڑ بہترین جسمانی ورزش ہے۔ اس کی افادیت پر سارے علماءکرام اور ڈاکٹر متفق ہیں۔
دوڑنے کی اسی افادیت کی وجہ سے صحابہ کرام عام طور پر دوڑ لگایا کرتے تھے اور ان میں آپس میں پیدل دوڑ کا مقابلہ بھی ہوا کرتا تھا۔ بلالؓ بن سعد کہتے ہیں کہ میں نے صحابہ کرام کو دیکھا ہے کہ وہ نشانوں کے درمیان دوڑتے تھے اور بعض ،بعض سے دل لگی کرتے تھے، ہنستے تھے، ہاں! جب رات آتی، تو عبادت میں مشغول ہوجاتے تھے۔ (مشکوٰة: ۴۰۷)
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
بیوی کے ساتھ بے تکلّفانہ کھیل: مرد کا اپنی بیوی کے ساتھ مختلف بے تکلفی کا کھیل بھی اسلام کی نظر میں مستحسن ہے۔ ممکن ہے بعض کو گراں گزرے کہ اس سے عورت سر پہ چڑھ جائے گی مگرعائشہ صدیقہ رضی ﷲ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ میں ایک سفر میں رسول اللہ کے ساتھ تھی۔ میں نے آپ سے دوڑ لگائی اور آگے نکل گئی۔ کچھ عرصہ بعد پھر ایک سفر میں، میں نے رسول اللہ سے دوڑلگائی اب میرے جسم پر گوشت چڑھ گیا تھا تو آپ مجھ سے آگے نکل گئے اور آپ نے فرمایا یہ اس کے بدلہ میں ہے (سنن ابی داؤد) مذکورہ حدیث نبوی سے بیوی کے ساتھ تفریح کرنے اور دوڑ لگانے دونوں کی افادیت سمجھ میں آتی ہے؛ لیکن واضح رہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ دونوں واقعہ اس وقت کا ہے؛ جب کہ قافلہ آپ کے حکم سے آگے جاچکا تھا اور وہاں آں حضور اور حضرت عائشہ کے علاوہ کوئی نہ تھا، وہ تنہا تھے۔ کسی اور کی موجودگی میں ایسا نہیں کیا جاسکتا؛ کیوں کہ یہ حیا کے خلاف ہے۔
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
بچوں کے کھیل: بچوں میں چونکہ کھیل کی طرف رغبت فطری طور پر پائی جاتی ہے لہذا عہد رسالت کے بچے بھی اس سے محروم نہ تھے خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے بچپن اور لڑکپن میں ان جائز اور پسندیدہ کھیلوں میں حصہ لیا بالخصوص قبیلہ بنو سعد میں گزارا ہوا وقت اس امر پر شاہد ہے اور بعض روایات بھی اس پر شاہد ہیں جیسا کہ صحیح مسلم کی حدیث ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بچوں کے ساتھ کھیل رہے تھے کہ سید نا جبریل علیہ السلام آئے اور آپ کا سینہ چاک کیا الخ (کتاب الایمان، باب الاسرا برسول اللہ ) اسی طرح جب آپ اپنی والدہ کے ساتھ مدینہ منورہ تشریف لے گئے تھے وہاں بنو عدی بن نجار کے تالاب میں پہلی مرتبہ تیرنا سیکھا وغیرہ (ابن سعد ، جلد 1 صفحہ 73) انہی کھیلوں میں ایک کھیل کشتی کا بھی تھا جو کہ آپ نے اپنے لڑکپن میں سیکھا تھا ۔ اسی طرح صحابہ کرام اور ابناء الصحابہ کے بچپن کے کھیلوں کے واقعات کثرت سے روایات میں مذکور ہیں ۔لیکن ان تمام کھیلوں میں جسمانی تربیت و نشوونما کا پہلو بطور خاص ہمیں نظر آتا ہے ۔ بلکہ یہاں یہ بات بھی اہمیت کی حامل ہے کہ کچھ کھیل تو لڑکوں اور لڑکیوں کے مابین مشترکہ ہوا کرتے تھے لیکن کچھ کھیل صرف لڑکیاں آپس میں اپنی ہم جولیوں کے ساتھ کھیلا کرتی تھی اور یہ کھیل عمومی طور پر گڑیوں اور دوسرے کھیلونوں کے ساتھ ہوا کرتا تھا یہ نسوانی جبلت کے عین مطابق ہو تا ہے جیسا کہ سید ہ عائشہ رضی اللہ عنہا کا گڑیوں کے ساتھ کھلینے کا ذکر بعض صحیح احادیث میں بھی بیان کیا گیا ہے اور ان میں سے بعض کھیلوں میں تو خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تو بنفس نفیس دلچسپی لیا کرتے تھےجیسا کہ یہ روایات صحیح بخاری، سنن ابو داود وغیرہ میں مذکور ہیں ۔ قاضی عیاض اسی سے ایک فائدہ اخذ کرتے ہیں کہ اس طرح کے کھیلوں سے بچیوں میں خانگی تربیت کا موقع ملتا ہے ۔ اسی طرح جھولا جھولنا بھی سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے حوالے سے مذکور ہے جیسا کہ صحیح مسلم کی روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ قبل از نکاح انہیں جب بلایا گیا تھا تو اس وقت وہ جھولا جھول رہی تھی (مسلم ، کتاب النکاح)
لڑکیوں کے ان کھیلوں سے متعدد سماجی روایات کا علم ہوتا ہے کہ زیادہ تر کھیل اندرون خانہ ہوا کرتے تھے، یہ گڑیائیں ان کی والدہ بنا کر دیتی تھی جو کہ تربیت کا ایک پہلو ہے، ان کھیلونوں کی صورتیں اور تصویریں بھی ہوا کرتی تھی جیسا کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس دو پر والا گھوڑا تھا ۔
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
تیراکی: تیرنے کی مشق ایک بہترین اور مکمل جسمانی ورزش ہے، جس میں جسم کے تمام اعضا وجوارح کی بھرپور ورزش ہوتی ہے، یہاں تک کہ سانس کی بھی ورزش ہوتی ہے۔ سیلاب آنے کی صورت میں ایک ماہر تیراک انسانیت کی بہترین خدمت کرسکتا ہے۔ نشیبی علاقوں میں عام طور پر قریب میں ندی نالے تالاب وغیرہ ہوتے ہیں اور ان میں ڈوبنے کے واقعات بھی عام طور پر پیش آتے رہتے ہیں۔ ایسے حادثاتی مواقع پر ماہر تیراک لوگوں کی جان بچانے کی کامیاب کوشش کرسکتا ہے۔ لہٰذا تیراکی جہاں تفریحِ طبع اور جسمانی ورزش کا عمدہ ذریعہ ہے، وہیں بہت سے دیگر سماجی فوائد کا حامل بھی ہے۔
کشتی اورکبڈی: اس کھیل میں ورزش کا بھرپور سامان ہے۔ اگر ستر کی رعایت اور انہماک کے بغیر کھیلا جائے تو جائز ہوگا بلکہ نیک مقصد کے لیے مستحسن ہے۔ عرب کا ایک مشہور پہلوان رکانہ نے رسول اللہ سے کشتی ٹھیرائی، تو آپ نے اس کو کشتی میں بچھاڑ دیا۔ (ابوداؤد فی المراسیل)۔کبڈی کا حکم بھی کشتی کی طرح ہے۔
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
مخصوص مواقع پر بھی کھیلوں کا ثبوت ملتا ہے جیسا کہ درج ذیل کچھ مواقع درج کیے جا رہے ہیں:
خیر مقدمی کھیل:
بسااوقات مہمانوں اور اقارب کی آمد کے استقبال میں کچھ کھیلوں کا جس میں کچھ جسمانی کرتب یا فضائی مظاہرے منعقد کیا جاتے ہیں اس میں کوئی حرج نہیں بشرط یہ کہ بنیادی آداب کو مدنظر رکھا جائے۔ جیسا سنن ابی داود کی ایک حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مدینہ ہجرت کے بعد آمد کے موقع پر جہاں بچیوں سے کچھ اشعار منسوب ملتے ہیں وہاں ماہر فنون حبشیوں نے اپنے کرتب اور کھیل بھی دکھائے تھے (سنن ابو داود، کتاب الادب، باب فی الغنا حدیث 4923) اور صحیح ابن حبان کی روایت میں ہے کہ جب حبشہ کا وفد آیا تو حبشی مسجد میں اپنے کھیل دکھانے لگے ۔
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
عید کے کھیل کود:
جیسا کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ عید یعنی خوشی کی مناسبت سے مدینہ میں کچھ حبشیوں نے فوجی کرتب دکھائے بلکہ اس پر قیاس کرتے ہوئے موجودہ معاشرت میں بھی عید کی مناسبت سے اگر کچھ کھیلوں کا انعقاد کر لیا جائے تو کوئی مضائقہ نہیں لیکن بنیادی آداب کی مخالفت نہ ہو۔صحیح بخاری اور صحیح مسلم کی ان احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ عہد رسالت میں ایام عید بطور قومی تقریبات کے طور پر منائی جاتی تھی ان میں شرعی حدود وقیود کی پابندی کرتے ہوئے کھیل کھیلے جاتے تھے۔
 
Top