سواری : اس سے جسم کی پوری ورزش کے ساتھ انسان میں مہارت، ہمت وجرات اور بلند حوصلہ جیسی اعلیٰ صفات پیدا ہوتی ہیں اور سفریا جہاد میں خوب کام آتا ہے۔ گو کہ قرآن وحدیث میں عام طور پر گھوڑے کاذکر آیا ہے مگر اس سے ہر وہ سواری مراد ہے جواس مقصد کو پورا کر سکے مثلاً ہوائی جہاز،ہیلی کاپٹر، بس، موٹر سائیکل، سائیکل وغیرہ۔ ان سب سواریوں کے چلانے کی مشق اور ٹریننگ اسلامی نقطئہ نظر سے پسندیدہ ہے۔ اس شرط کے ساتھ کہ جائز اور نیک مقاصد کے لیے انھیں سیکھا جائے اور استعمال کیا جائے۔
عربوں کی زندگی میں جن چند عناصر کو مرکزیت حاصل تھی ان میں ایک گھڑسواری تھا مردوں کی مردانگی کا تو یہ ایک معیار تھا ہی خواتین بھی اس میں مہارت حاصل کرتی تھی قرن اول کی بے شمار جنگوں میں خواتین کی شہسواری ضرب المثل کی حیثیت اختیار کر چکی تھی۔ بلکہ کسی شخص کے لیے یہ امر باعث ندامت و شرمندگی ہوتا تھا کہ وہ گھوڑے کی پیٹھ پر بیٹھنا نا جانتا ہو بلکہ اسے بزدل کہا جاتا تھا اور بعض احادیث میں یہ دلچسپ درخواست بھی بعض صحابہ کرام رضوان اللہ علہیم اجمعین کی طرف سے خدمت رسالت میں پیش کی گئی کہ وہ گھوڑے کی پیٹھ پر جم کر نہیں بیٹھ سکتے لہذا ان کی یہ کمزوری دور ہو تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے لیے یہ دعا کی اور کئی کمزور پشت حضرات کو صلابت حاصل ہوئی ،۔ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شہسواری معروف تھی اور اس مقصد کے لیے آپ کے پاس کئی اونٹ اور گھوڑے تھے بلکہ حالت امن میں آپ نے کئی مرتبہ صحابہ کرام کے ساتھ شہسواری کے مقابلوں میں پہلا درجہ حاصل کیا (فتح الباری)جیسا کہ مختلف سیرت نگاروں اور مورخین نے ان کا ذکر کیا ہے جیسا کہ بلاذری نے بہت تفصیل سے ایسے مقابلوں کا ذکر کیا ہے