• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اسلام کیا ہے؟

شمولیت
اگست 16، 2017
پیغامات
112
ری ایکشن اسکور
13
پوائنٹ
55
بسم الله الرحمٰن الرحيم

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: الْإِسْلَامُ أَنْ تَعْبُدَ اللَّهَ وَلَا تُشْرِكَ بِهِ شَيْئًا ”اسلام یہ ہے کہ تم اللہ کی عبادت کرو، کسی کو اس کا شریک نہ ٹھہراؤ“ [صحیح البخاری، كتاب تفسير القرآن، حدیث: ٤٧٧٧]

امام محمد بن عبد الوہاب رحمہ اللہ کا فرمان ہے: الإستسلام لله بالتوحيد والانقياد له بالطاعة والبراءة من الشرك وأهله ”اللہ تعلی کی توحید کے اقرار اور اس کی اطاعت کرتے ہوئے اپنے آپ کو اللہ تعالی کے سپرد کر دینے اور شرک اور مشرکین سے براءت (بیزاری کا اعلان کرنے) کا نام اسلام ہے۔“ [ﺍﻟﺪﺭﺭ ﺍﻟﺴﻨﻴﺔ ﻓﻲ ﺍﻷﺟﻮﺑﺔ ﺍﻟﻨﺠﺪﻳﺔ، ١/ ١٢٩]

ﻋَﺒْﺪُ ﺍﻟﻤُﺬِﻝّ حفظہ اللہ کا فرمان ہے: ”توحید کو دل و جان سے اپناتے ہوئے اپنے آپ کو اللہ تعالی کے مطیع (فرمانبردار) و سپرد (حوالے) کر دینے، اس کے احکام کی اطاعت کرتے ہوئے اس کے طابع فرمان (یعنی اس کے حکم کا فرمانبردار) رہنے اور اس کے ساتھ دوسروں کو ہرگز شریک نہ ٹهرانے اور شرک اور اہل الشرک (مشرکین) سے بیزاری کا اعلان کرنے کا نام "دین اسلام" ہے۔“

اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: قَدْ كَانَتْ لَكُمْ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ فِي إِبْرَاهِيمَ وَالَّذِينَ مَعَهُ إِذْ قَالُوا لِقَوْمِهِمْ إِنَّا بُرَآءُ مِنْكُمْ وَمِمَّا تَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ كَفَرْنَا بِكُمْ وَبَدَا بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمُ الْعَدَاوَةُ وَالْبَغْضَاءُ أَبَدًا حَتَّى تُؤْمِنُوا بِاللَّهِ وَحْدَهُ ”تمہارے لئے ابراہیم میں اور جو لوگ اُس کے ساتھ تھے اُن میں یقیناً اچھا نمونہ ہے، جب اُنہوں نے اپنی قوم سے کہا کہ بلاشبہ ہم تم سے اور اُن سے لاتعلقی کا اظہار کرتے ہیں جن کی ﷲ تعالیٰ کے سوا تم عبادت کرتے ہو، ہم تمہارے ساتھ کفر کرتے ہیں اور ہمارے اور تمہارے درمیان ہمیشہ کے لیے دشمنی اور بغض ظاہر ہوگیا، یہاں تک کہ تم اکیلے اللہ تعالیٰ پر ایمان لے آؤ“ [سورۃ الممتحنة، آیت: ٤]

ﻋَﺒْﺪُ ﺍﻟﻤُﺬِﻝّ حفظہ اللہ فرماتے ہیں: یہاں ایک احم مسئلے کی وضاحت ضروری ہے، اور وہ یہ ہے کہ کفار کے لئے (دل میں) وجود العداوة رکهنے میں اور اظہار العداوة کرنے کے درمیان فرق ہے۔

شیخ عبد اللطیف بن عبد الرحمٰن آل الشیخ رحمہ اللہ نے فرمایا: ومسألة إظهار العداوة غير مسألة وجود العداوة، فالأول: يعربه مع العجز والخوف، لقوله تعالى: (إلا أن تتقوا منهم تقاة)، والثاني: لا بد منه، لأنه يدخل في الكفر بالطاغوت، وبينه وبين حب الله ورسوله تلازم كلي، لا ينفك عنه المؤمن

”اظہار العداوة (دشمنی کا ظاہر کرنے) کا مسئلہ وجود العداوة (دل میں دشمنی رکهنے) سے مختلف (الگ) ہے۔ پہلا جو ہے اس میں کمزوری اور خوف کی وجہ سے عذر ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: "سوائے اس کے کہ تم ان (کے ظلم) سے بچنے کے لئے بچاو کا کوئی طریقہ اختیار کرو" (سورة آل عمران، آیت:٣) دوسرا: یہ لازماً ہے (یعنی اس میں کوئی عذر نہیں، یہ واجب ہے) کیوں کہ یہ کفر بالطاغوت میں داخل ہوتا ہے، اس کے اور اللہ اور اس کے رسول کی محبت کے درمیان (ایک دم بنا کسی خلل کے) سیدها رابطہ ہے جس سے ایک مٶمن کبهی اپنے آپ کو اس سے الگ نہیں کر سکتا۔“ [ﺍﻟﺪﺭﺭ ﺍﻟﺴﻨﻴﺔ ﻓﻲ ﺍﻷﺟﻮﺑﺔ ﺍﻟﻨﺠﺪﻳﺔ، ٨/ ٢٥٩]

ﻋَﺒْﺪُ ﺍﻟﻤُﺬِﻝّ حفظہ اللہ کا فرمان ہے: ”جو بهی اسلام میں داخل ہوا اسے مسلمان کہا جائے گا، اسلئے کہ اس نے ہر چیز کو اللہ تعالی اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے مطیع اور حوالے کر دیا اور جو احکام اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے آئے ہیں ان پر عمل کیا، اسی بنا پر اسے مسلمان کہا جاتا ہے۔“

مشرکین سے جدا اور الگ رہنے کا بیان: أَخْبَرَنِي مُحَمَّدُ بْنُ قُدَامَةَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا جَرِيرٌ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ مَنْصُورٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي وَائِلٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي نُخَيْلَةَ الْبَجَلِيِّ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ جَرِيرٌ:‏‏‏‏ أَتَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ يُبَايِعُ، ‏‏‏‏‏‏فَقُلْتُ:‏‏‏‏ يَا رَسُولَ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏ابْسُطْ يَدَكَ حَتَّى أُبَايِعَكَ وَاشْتَرِطْ عَلَيَّ فَأَنْتَ أَعْلَمُ. قَالَ:‏‏‏‏ أُبَايِعُكَ عَلَى أَنْ تَعْبُدَ اللَّهَ وَتُقِيمَ الصَّلَاةَ، ‏‏‏‏‏‏وَتُؤْتِيَ الزَّكَاةَ، ‏‏‏‏‏‏وَتُنَاصِحَ الْمُسْلِمِينَ، ‏‏‏‏‏‏وَتُفَارِقَ الْمُشْرِكِينَ

حضرت جریر رضی اللہ تعالٰی عنہ سے منقول ہے، وہ بیان کرتے ہیں ک میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا، آپ بیعت لے رہے تھے۔ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! ہاتھ پھیلائیے تاکہ میں بیعت کروں، اور آپ شرط بتائیے کیونکہ آپ زیادہ جانتے ہیں۔ آپ نے فرمایا: ”میں تم سے اس بات پر بیعت لیتا ہوں کہ تم اللہ کی عبادت کرو گے، نماز قائم کرو گے، زکاۃ ادا کرو گے، مسلمانوں کے ساتھ خیر خواہی اور بھلائی کرو گے اور کفار و مشرکین سے الگ تھلگ رہو گے۔“ [سنن نسائی، كتاب البيعة، حدیث: ٤١٨٢]

شیخ سلیمان انور حفظہ اللہ کا فرمان ہے: ”لوگوں کو اسلام کی دعوت دینے کے وجوب کو مشرکین سے براءت کے وجوب پر جو کہ (دین کی) بنیاد ہے کبهی بهی (دعوت دینے کو) مقدم (آگے) نہیں رکها گیا ہے۔ وَأَذَانٌ مِّنَ اللَّهِ وَرَسُولِهِ إِلَى النَّاسِ يَوْمَ الْحَجِّ الْأَكْبَرِ أَنَّ اللَّهَ بَرِيءٌ مِّنَ الْمُشْرِكِينَ ۙ وَرَسُولُهُ ”اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے لوگوں کو بڑے حج کے دن صاف اطلاع ہے کہ اللہ مشرکوں سے بیزار ہے، اور اس کا رسول بھی“ [سورة التوبة، آیت: ٣]

ﻋَﺒْﺪُ ﺍﻟﻤُﺬِﻝّ حفظہ اللہ اس کی وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ”یعنی مشرکین سے براءت کرتے ہوئے دین کی دعوت دی جائے گی۔ براءت پہلے ہے اسلئے کہ براءت ایک بنیادی فریضہ ہے جو کہ پہلے ہے اس کے بعد اسلام کی دعوت دی جائے گی۔“

کلمہ توحید کے اقرار سے کیا ہوگا؟ : وحَدَّثَنَا سُوَيْدُ بْنُ سَعِيدٍ، وَابْنُ أَبِي عُمَرَ، قَالَا: حَدَّثَنَا مَرْوَانُ يَعْنِيَانِ الْفَزَارِيَّ، عَنْ أَبِي مَالِكٍ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ مَنْ قَالَ: لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ، وَكَفَرَ بِمَا يُعْبَدُ مَنْ دُونِ اللهِ، حَرُمَ مَالُهُ، وَدَمُهُ، وَحِسَابُهُ عَلَى اللهِ مروان فزاری نے ابو مالک (سعد بن طارق اشجعی) سے حدیث سنائی، انہوں نے اپنے والد (طارق بن اشیم) سے روایت کی، انہوں نے کہا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا : ”جس نے لا اله الا الله کہا اور اللہ کے سوا جن کی عبادت کی جاتی ہے، ان (سب) کا انکار کیا تو اس کا مال و جان محفوظ ہو گیا اور اس کا حساب اللہ پر ہے۔“ [صحیح مسلم، كتاب الإيمان، حدیث: ١٣٠]

وما عليّ إلا البلاغ، ولله الحمد والمنة وأعلم
 
Top