یہود کی ریشہ دوانیاں
تاریخ ہمیں یہ بتاتی ہے کہ حضرت عمر رضی اﷲعنہ کے دور خلافت تک قوم یہود کو اسلام اور ملت اسلامیہ کی طرف بُری نگاہ ڈالنے کی ہمت بھی نہیں ہوئی ،لیکن اس کے بعد حضرت عثمان غنی رضی اﷲعنہ کے عہد مبارک میں مختلف عوامل اور اسباب کی بناپر یہود کو اپنے پر پُرزے نکالنے کا موقع مل ہی گیا ۔سب سے پہلے عبداﷲبن سبانامی یہودی جو یمن کا رہنے والا تھا ،ایک سازش کے تحت بظاہر اسلام قبول کیا اور پھر مسلمانوں کے درمیان رہ کر مکر وفریب کے جال پھیلانے میں مصروف ہوگیا ،
قسمت نے اس کی یاوری کی اور نئے نئے دائرہ اسلام میں داخل ہونے والے اس وقت کے مسلمان (خصوصاً مصر اور عراق کے علاقہ میں )اس کے دام وفریب میں آگئے ۔اور ان لوگوں کی ریشہ دوانیوں کاپہلا ہدف حضرت عثمان غنی رضی اﷲعنہ کی ذات مبارکہ ہوئی ۔آپ کی شہادت کے خونچکاں واقعات ،اور پھر اس کے نتیجہ میں جنگ وجمل وصفین میں مسلمانوں اور خاص کر صحابہ کرام کی قیمتی خون کی ازرانی نے ملتِ اسلامیہ کو ہلا کر رکھ دیا تھا ۔عبداﷲبن سبا کا پورا گروہ جس کی تعداد اچھی خاصی ہوگئی تھی ۔ان دونوں جنگوں میں حضرت علی رضی اﷲ عنہ کے ساتھ تھا ۔اس زمانہ اور اس مخصوص فضا میں اس کو پورا موقع ملا کہ لشکر کے بے علم اورکم فہم عوام کو حضرت علی رضی اﷲ عنہ کی محبت کے غلو کی گمراہی میں مبتلا کردے ۔پھر جب حضرت علی رضی اﷲ عنہ نے عراق کے علاقہ ''کوفہ''کو اپنا دارالخلافہ بنالیا ۔
تو یہ علاقہ اس گروہ کی سرگرمیوں کا مرکز بن گیا ،اور چونکہ مختلف اسباب وجوہات کی بنا پر اس علاقہ کے لوگوں میں غالیانہ اور گمراہانہ افکار ونظریات قبول کرنے کی صلاحیت زیادہ تھی ۔اس لئے کوفہ میں عبداﷲبن سبا کے گروہ کو اپنے مشن میں بہت زیادہ کامیابی حاصل ہوئی ۔
ابن جریر طبری اور دیگر مورخین کا بیان ہے کہ عبداﷲبن سبانے سادہ لوح مسلم عوام کو گمراہ کرنے کے لیے سب سے آسان طریقہ یہ اختیار کیا کہ ان کی محبوب اور مقدس ترین شخصیت کے بارے میں غلو وافراط کا نظریہ عام کیا جائے گا ،اس مقصد کے لیے اس یہودی نے یہ شوشہ چھوڑا کہ ''مجھے مسلمانوں پر تعجب ہے جو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے اس دنیا میں دوبارہ آمد کا عقیدہ تو رکھتے ہیں ،مگر سید الانبیاء حضرت محمدﷺ کی اس دنیا میں دوبارہ آمد کے قائل نہیں ۔حالانکہ آپ ﷺ حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور تمام انبیاء سے افضل واعلیٰ ہیں ۔آپ ۖ بھی یقینا دوبارہ اس دنیا میں تشریف لائیں گے ''۔عبداﷲبن سبا نے یہ بات ایسے جاہل اور ناتربیت یافتہ مسلمانوں کے سامنے رکھی جن میں اس طرح کی خرافات قبول کرنے کی صلاحیت دیکھی پھر جب اس نے دیکھا کہ اس کی یہ غیر اسلامی اور قرآنی تعلیم کے سراسرخلاف بات مان لی گئی ،تو اس نے رسول اﷲۖ کے ساتھ حضرت علی رضی اﷲ عنہ کی خصوصی قرابت کی بنیاد پر آپ کے ساتھ غیر معمولی عقیدت ومحبت کا اظہار کرتے ہوئے ان کی شان میں غلو آمیز باتیں کہنا شروع کردیں ،ان کی طرف عجیب وغریب ''معجزے''منسوب کرکے حضرت علی رضی اﷲعنہ کو مافوق البشر ہستی باور کرانے کی کوشش کی اور جاہلوں اور سادہ لوحوں کاطبقہ جو اس کے قربت کا شکار ہوگیا تھا ،وہ ان کی ساری خرافات قبول کرتا رہا ،اس طرح اس نے اپنی سوچی سمجھی اسکیم کے مطابق تدریجی طور پر حضرت علی رضی اﷲ عنہ کے بارے میں ایسے خیالات رکھنے والے اپنے معتقدین کا ایک حلقہ بنالیا ۔اس یہودی نے انہیں یہ باور کرایا کہ اﷲتعالیٰ نے نبوت ورسالت کے لئے دراصل حضرت علی بن ابی طالب رضی اﷲ عنہ کو منتخب کیا تھا ،وہی اس کے مستحق اور اہل تھے ۔اور حامل وحی فرشہ جبرائیل امین کو ان کے پاس نبوت لے بھیجا تھا ،مگر انہیں اشتباہ ہوگیا اور وہ غلطی سے وحی لے کر حضرت محمدبن عبداﷲۖ کے پاس پہنچ گئے ۔
اس سے بھی آگے بڑھ کر اس نے کچھ احمق اور سادہ لوحوں کو یہ سبق پڑھایا کہ
حضرت علی رضی اﷲعنہ اس دنیا میں اﷲکا رُوپ ہیں اور ان کے قالب میں اﷲکی روح ہے ،اور اس طرح گویا وہی اﷲہیں ۔حضرت علی رضی اﷲ عنہ کے علم میں جب یہ بات آئی کہ ان کے لشکر میں کچھ لوگ ان کے بارے میں ایسی خرافات پھیلارہے ہیں تو آپ نے ان شیاطین کو قتل کردینے اور لوگوں کی عبرت کے لیے آگ میں ڈالنے کا حکم صادر فرمایا اور اس طرح حضرت علی رضی اﷲ کی الوہیت کا عقیدہ رکھنے والے یہ شیاطین ان ہی کے حکم س قتل کردئیے گئے اور آگ میں ڈالے گئے ۔ (منہاج السنة ،شیخ الاسلام ابن تیمیہ ج١ص٧)
عبداﷲبن سبا یہودی نے اسلام میں ''شیعیت ''کی صرف بنیاد ڈالی تھی یا تخم ریزی کی تھی ،اس کے بعد یہ تحریک خفیہ طور پر اور سرگوشیوں کے ذریعہ جاری رہی اور رفتہ رفتہ اسلام میں مستقل طور پر ایک ''یہودی لابی ''وجود میں آگئی ،جو حضرت رضی اﷲعنہ کی محبت کی آڑ لے کر اسلام اور مسلمانوں میں مختلف ڈھنگ سے باہم نفرت وعداوت اور بغض وکینہ پیدا کرنے میں مصروف ہوگئی ،اس یہودی تحریک یعنی'' شیعیت ''کے مختلف داعی تھے جو مختلف لوگوں سے موقع محل کے لحاظ سے الگ الگ ڈھنگ سے بات کرتے اور ان کی ذہنی استعداد وصلاحیت کے مطابق ان کے عقائد واعمال کو متغیر کرتے تھے ۔
اس طرح شیعیت کے نام پر مسلمانوں کے اندر مختلف گروہ پیدا ہوگئے جن کی الگ الگ اپنی اپنی ڈفلی تھی اوراپنا اپنا راگ !کچھ لوگ حضرت علی رضی اﷲ کی الوہیت یا ان کے اندر روحِ الٰہی کے حلول کے قائل تھے اور کچھ ایسے تھے جو اُن کو رسول اﷲۖ سے بھی افضل واعلیٰ نبوت ورسالت کا اصل مستحق سمجھتے تھے اور جبرائیل امین کی غلطی کے قائل تھے،کچھ لوگ ان میں ایسے تھے جو رسول اﷲۖ کے بعد کے لئے اﷲتعالیٰ کی طرف سے نامزد امام ،امیر اور وصی رسول مانتے تھے ،اور اس بناء پر خلفا ثلاثہ یعنی حضرت ابوبکر ،حضرت عمر اور حضرت عثمان رضی اﷲعنہم ،اور ان تمام صحابہ کرام رضی اﷲ عنہم کو جنہوں نے ان حضرات کو خلیفہ تسلیم کیا تھا اور دل سے ان کا ساتھ دیا تھا ،یہ بدباطن لوگ انہیں کافر ومنافق یا کم ازکم غاصب وظالم اور غدار کہتے تھے ۔ان کے علاوہ بھی ان میں مختلف عقائد ونظریات رکھنے والے گروہ تھے جو مختلف ناموں سے پکارے گئے ۔ان سب میں نقطۂ اشتراک حضرت علی رضی اﷲ عنہ کے بارے میں غلو تھا ،ان میں بہت سے فرقوں کا اب دنیا میں غالباً کہیں وجود بھی نہیں پایا جاتا ،تاریخ کی کتابوں کے اوراق ہی میں ان کے نام ونشان باقی رہ گئے ہیں ۔البتہ چند فرقے اس دور میں بھی مختلف ممالک میں پائے جاتے ہیں ،ان شیعوں کے ''اثنا عشریہ''فرقے کو امتیاز واہمیت حاصل ہے۔
ہم اس بات کے ثبوت میں کہ عبداﷲبن سبا یہودی ہی اسلام میں شیعیت کا موجد وبانی ہے ۔
نیز شیعیت دراصل یہودی تحریک ہے جو اسلام کے نام پر امت مسلمہ کو باہم متفرق اور ٹکڑے ٹکڑے کرکے ان کا وجود ختم کرنے کے لیے ،ایک سازش کے تحت برپاکی گئی تھی اور آج بھی یہ شیعیت یا دوسرے لفظوں میں ''یہودیت ''اپنے اصلی روپ میں نیز مسلمانوں میں موجود مختلف بدعتی فرقوں اور تصوف کے پس پردہ اپنا مشن پورا کرنے میں مصروف ہے ۔ابن سبا کے بارے میں شیعہ حضرات کی اسماء الرجال کی مستند ترین کتاب ''رجال الکشی''سے ایک اقتباس نقل کررہے ہیں۔
حالانکہ ابن جریر طبری ''تاریخ الامم والملوک ''شہرستانی کی ''الملل واالنحل ''ابن حزم اندلسی کی ''الفصل فی الملل والنحل ''اور ابن کثیر دمشقی کی ''البدایہ والنہایہ''میں بھی اس بات کی صراحت کی گئی ہے کہ شیعیت کا بانی عبداﷲبن سبا یہودی ہے ۔
مگر چونکہ بہت سے شیعہ علماء اورمصنفین عبداﷲ بن سبا سے براء ت کا اظہار کرتے ہیں ،یہاں تک کہ ماضی قریب کے بعض شیعہ مصنفین نے تو عبداﷲبن سبا کو ایک فرضی ہستی قرار دے دیا ہے گویا وہ سرے سے اس کے وجود ہی کے منکر ہیں،اس لئے شیعوں کی اسماء رجال کی مستند ترین کتاب ''رجال کشی ''کاحوالہ ہی مناسب ہے تاکہ جانب داری اور الزام کے جُرم سے ہمارا دامن ہمارا دامن داغدار نہ ہو۔
’’ ذکر بعض اہل العلم انّ عبد اﷲ بن سبا کان یھودیاً فاسلم ووالی علیاً علیہ السلام ، وکان یقول وھو علی یھود یتہ فیوشع بن نون وصي موسی بالغلو ، فقال في الاسلام بعد وفاة رسول اﷲ فعلي علیہ السلام مثل ذلک ، وکان اول من اشھر بالقول بفرض امامة علیي واظھر البراء ة من اعدائہ وکاشف مخالفیہ اکفرھم ۔‘‘
بعض اہل علم نے ذکر کیا ہے کہ عبداﷲبن سبا پہلے یہودی تھا ،پھر اسلا م قبول کیا اور حضرت علی علیہ السلام سے خاص تعلق کا اظہارکیااور اپنی یہودیت کے زمانے میں وہ حضرت موسیٰ کے وصی یوشع بن نون کے بارے میں غلو کرتا تھا ،پھر رسول اﷲۖ کی وفات کے بعد اسلام میں داخل ہوکر وہ اسی طرح کاغلو حضرت علی علیہ السلام کے بارے میں کرنے لگا ،اور وہ پہلا آدمی ہے جس نے حضرت علی کی امامت کے عقیدے کی فرضیت کا اعلان کیا ،اور ان کے دشمنوں سے براء ت ظاہر کی اور کھلم کھلا ان کی مخالفت کی اور انہیں کافر قرار دیا ۔ (رجال الکشی :ص١٧،طبع بمبئی ١٣١٧ھ ایضاً :ص٧١)
دلچسپ ترین بات یہ ہے کہ شیعوں کے اسماء الرجال کی اسی مستند ترین کتاب ''رجال کشی'' میں امام جعفر صادق سے متعدد روایتیں نقل کی گئی ہیں ،جن میں اس بات کی تصدیق کی گئی ہے کہ
شیعیت کا یہ بانی عبداﷲبن سبا اور اس کے ساتھی حضرت علی رضی اﷲ عنہ کی الوہیت کا عقیدہ رکھنے اور اس کی دعوت دینے کے جرم میں خود حضرت علی رضی اﷲ عنہ کے حکم سے آگ میں ڈلوا کر ہلاک کردئیے گئے ۔ (رجال الکشی :ص٧٠ طبع بمبئی ١٣١٧ھ ایضاً :ص٧٠)