اسلام ڈیفینڈر
رکن
- شمولیت
- اکتوبر 18، 2012
- پیغامات
- 368
- ری ایکشن اسکور
- 1,006
- پوائنٹ
- 97
اللہ نے اپنی ارسال کردہ وحی کے لئے چند جدید نام تجویز کئےہیں۔یہ نام عربی کلام کے ناموں سے اجمال و تفصیل کے اعتبار سے مختلف ہیں ۔ان القاب واسماء میں اس بات کو ملحوظ رکھاگیا ہے کہ فلاں نام کیوں رکھا گیا اور اس کا مادہ اشتقاق کیا ہے ۔ان میں سے دو لقب مشہور ہیں ،(الکتاب ،۲،القرآن)۔
۱۔الکتاب:
الکتاب کے نام سے اس جانب اشارہ کرنا مقصود ہے کہ اس کو سطور میں جمع کیا گیا ہے۔کتابت حروف کے جمع کرنے اور الفاظ کے لکھنے کو کہتے ہیں ۔القرآن کہہ کر اس کے سینہ میں محفوظ ہونے کی طرف اشارہ کیا گیا ۔،القرآن اسی طرح مصدر ہے جیسے القراءۃ قراءت سے ایک چیز یاد اور محفوظ ہوجاتی ہے ۔القرآن واضح اور روشن عربی زبان میں اترا ہے اس کی حفاظت و صیانت کا اس قدر اہتمام کیا گیا کہ یہ ہمیشہ کے لئے محفوظ ہو گیا ۔جو لوگ اس بازیچہ طفلاں بنانے کے درپے تھے اوراس میں تحریف کرنے کے خواہاں تھے وہ مایوس ہو کر رہ گئے۔اس کی وجہ یہ کہ قرآن کو نہ تو باقی کتابوں کی طرح صرف لکھ کر محفوظ کیا گیا ،اور نہ صرف حفظ کے ذریعہ اس کی حفاظت کا اہتمام ہوا ،بلکہ کتابت کے ساتھ ساتھ تواتر اسناد بھی اس کے حصہ میں آئیں ۔مزید براں اسناد متواتر کے پہلو بہ پہلو اس کی نقل وروایت میں انتہائی امانت و دیانت کو ملحوظ رکھا گیا۔
۲۔القرآن:
قرآن کریم کے یہ دونوں نام الکتاب ،القرآن ،آرامی الاصل ہیں ۔کتابت کے معنی آرامی زبان میں حروف کا لکھنا اور نقش کرنا ہے ۔قرأت آرامی زبان میں تلاوت کو کہتے ہیں ۔اس سے واضح ہوتا ہے کہ قرآن کریم کے لئے یہ دونوں نام کس لئے تجویز کئے گئے۔وحی محمدی کو جملہ مراحل وادوار میں یہ امتیاز ہمیشہ حاصل رہا کہ اس کے نصوص وتعلیم کو سینوں اورسفینوں میں جگہ دی گئی۔
مگر ان دونوں ناموں میں سے القرآن کو زیادہ شہرت حاصل ہوئی ۔اس کی حّد یہ ہے کہ کتاب ربانی کے لئے قرآن کے لفظ نے ایک شخصی حیثیت حاصل کر لی ۔لہٰذا نہایت موزوں ہے کہ وحی اور قرآن سے متعلق مباحث کو چھیڑنے سے پہلے ہم یہ دیکھیں کہ قرآن کا لفظ کس سے مشتق ہے ،کیونکہ لغات سامیہ میں چند اور الفاظ بھی اس سے ملتے جلتے ہیں نیز یہ دیکھنا بھی ضروری ہے کہ قرآن کے دیگر اہم اسماء کیا ہیں اور ان کا لغوی مفہوم و مدلول کیا ہے ۔خواہ السنہ سامیہ اور عربی زبان میں ان سے ملتے جلتے الفاظ ہوں یا نہ ہوں۔