• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اسوہ حسنہ (باب :4) ((عرب کی اخلاقی ومعاشرتی حالت ))

شمولیت
نومبر 14، 2018
پیغامات
309
ری ایکشن اسکور
48
پوائنٹ
79
فقہ السیرۃ النبویہ : سیرت طیبہ سے فکری ، دعوتی ، تنظیمی ، تربیتی اور سیاسی رہنمائی

((حافظ محمد فیاض الیاس الأثری ، ریسرچ فیلو : دارالمعارف ، لاہور ))

اسوہ حسنہ (باب :4) ((عرب کی اخلاقی ومعاشرتی حالت ))

(1) اخلاقی ومعاشرتی حالت سے مراد اجتماعی طرزِ حیات اور سماجی اقدار و روایات ہیں۔

(2) اہل عرب متعدد ایسی اعلی عادات و اطوار اورعمدہ اقدار وروایات کے حامل تھے،جن سے متمدن اقوام ا ور تہذیب یافتہ ممالک کا دامن عموماً خالی تھا۔

(3) جیسے صدق گوئی، امانتداری، وعدے کی پاسداری، مہمان نوازی، جود و سخاوت، شجاعت و بہادری، حسن جوار اور خاندانی غیرت و حمیت۔

(4) ان عادات و اقدارمیں سے بیشتر کا تعلق معاشرتی زندگی سے ہے۔ انھی عمدہ اخلاق و روایات کے باعث اہل عرب دیگر اقوام و ملل سے ممتاز اہمیت و حیثیت کے اہل تھے۔

(5) عرب معاشرے میں کئی طرح کی سماجی برائیاں بھی پائی جاتی تھیں،جس کی وجہ جہالت و بے دینی اور وہاں کا خاص طرزِ بود و باش تھا۔

(6) عرب معاشرے میں کئی طرح کی تقسیم تھی۔شہری اور بدوی طرزِ حیات میں متعدد اعتبار سے فرق تھا۔ غلام و آقا کی تقسیم تھی۔

(7) مرد وخواتین کے نام پر معاشرہ تقسیم تھا۔ کمزور و طاقتور کی حیثیت سے سماج میں فرق تھا۔ خاندان و قبیلے کی نسبت سے افراد مختلف اخلاق و برتاؤ کے اہل سمجھے جاتے تھے۔

(8) بچوں میں مذکر و مؤنث کی حیثیت سے تقسیم وتفریق تھی۔ بچے کی ولادت پر فرحت و خوشی کے شادیانے بجائے جاتے۔ بچی کی ولادت پر ذلت و رسوائی محسوس کی جاتی۔

(9) غلام لونڈی کے اس معاشرے میں کوئی حقوق نہ تھے۔ مال مویشی کی طرح ان سے سلوک کیا جاتا۔ مالک کو مکمل اختیار ہوتا، کام کاج لے یا بیچ دے۔ ایک ایک آدمی کے دسیوں سیکڑوں غلام ہوتے۔

(10) عرب میں غلام آزاد کرنے کا تصور تقریباً معدوم تھا۔ غلام اور آزادی دو متضاد چیزیں تصور کی جاتی تھیں۔ لباس خوراک میں غلاموں کی حالت ابتر تھی۔ غلاموں کو ضرب و اذیت عام معمول تھا اور اسے کسی طور معیوب بھی نہیں سمجھا جاتا تھا۔ آزاد اور غلام میں امتیاز و فرق کے لیے غلاموں کی وضع قطع اور طرزِ لباس بھی عام افراد سے علیحدہ تھی۔

(11) غلام لونڈی ہی نہیں، عرب معاشرے میں آزاد عورت کی بھی عموماً کوئی حیثیت نہ تھی۔ عورت سے جانوروں اور غلاموں کی طرح سلوک کیا جاتا۔ عورت مرد کی ملکیت تصور کی جاتی۔مرد جس طرح چاہے عورت سے سلوک و برتاؤ کرے۔ عورت کا قانونی، وراثتی اور سماجی کوئی حق نہ تھا۔

(12) بدکاری، قحبہ گری اور نکاح کے نام پر زناکاری عام تھی۔ والد کی منکوحہ سے نکاح کر لیا جاتا۔ طلاق اور تعدد ازواج کی کوئی تحدید نہ تھی۔ خاوند کی وفات پر عورت کو سال بھر کے لیے اذیت ناک ایام سوگ گزارنے پڑتے۔ عرب معاشرے میں غلام و عورت زندہ لاش تھے۔ جاہلی ادب میں عورت کا اندازِ تذکرہ شرم ناک اور باعث ننگ و عار ہے۔

(13) عرب معاشرے میں لوٹ کھسوٹ اور جنگ و جدال بھی مثل ناسور تھا۔ معمولی سی بات پر لڑائی جھگڑا اور قتل و حرب شروع ہو جاتی۔ سالوں اور نسلوں تک سلسلہ جنگ جاری رہتا۔بیشمار لوگ لقمہ اجل بنتے۔ انتقام لینا بھاری قرض سمجھا جاتا۔ معافی کا تصور نا ہونے کے برابر تھا۔

(14)جاہلی جنگ و جدال کا ایک سلسلہ حرب فجار کے نام سے مشہور ہے۔ اس کا اختتام عہد نبوی میں ہوا۔ جاہلی جنگوں کا تذکرہ ایام العرب کے نام سے کیا جاتا ہے۔

((فقہ السیرۃ النبویہ کی 21،20،19نمبر قسط ، باب:4عرب کی اخلاقی ومعاشرتی حالت کے متعلق ہے))
 
Top