اس حدیث کی تحقیق درکار ہے
قَالَ : يَا رَسُولَ اللَّهِ ، عَلِّمْنِي عَمَلا أَدْخُلُ بِهِ الْجَنَّةَ
السلام علیکم ورحمۃ اللہ
محترم بھائی !
یہ حدیث جس کے متعلق آپ نے سوال کیا ہے ،اصل میں اسے امام ابو نعیم احمد بن عبداللہ الاصبہانی(المتوفی 430ھ) نے اپنی کتاب "معرفۃ الصحابہ " میں روایت کیا ہے :
حدثنا محمد بن أحمد بن الحسن، ثنا محمد بن عثمان بن أبي شيبة، ح وحدثنا محمد بن محمد، ثنا محمد بن عبد الله الحضرمي، قال: ثنا الليث بن هارون، ثنا زيد بن الحباب، حدثني عيسى بن الأشعث البصري، حدثني الحجاج بن ميمون، عن حميد بن أبي حميد، عن عبد الرحمن بن دلهم: أن رجلا قال: يا رسول الله، علمني عملا أدخل به الجنة، قال: «لا تغضب ولك الجنة» ، قال: زدني، قال: «لا تسأل الناس ولك الجنة» ، قال: زدني، قال: «استغفر الله في اليوم سبعين مرة قبل أن تغيب الشمس، يغفر لك ذنب سبعين عاما» ، قال: يا رسول الله، ليس لي ذنب سبعين عاما، قال: «لأمك» ، قال: ليس لأمي، قال: «لأبيك» ، قال: ليس لأبي، قال: «لأهل بيتك» ، قال: ليس لأهل بيتي، قال: «فلجيرانك»
معرفة الصحابة 4673
اور اس کے راوی کے متعلق لکھا ہے :
عبد الرحمن بن دلهم مجهول، في إسناد حديثه نظر، ولا تثبت له صحبة
یعنی عبدالرحمن بن دلہم کے حالات دستیاب نہیں ، اور ان کا صحابی ہونا ثابت نہیں ،ان کی احادیث میں "نظر" ہے ۔
اوریہ روایت مجمع الزوائد میں بھی ہے اور علامہ نورالدین ہیثمی (المتوفی 807ھ) فرماتے ہیں :
رواه الطبراني، وفيه من لم أعرفه " یعنی اسے طبرانی نے روایت کیا اور اس میں ایک راوی ہیں جنہیں میں نہیں جانتا (یعنی مجہول ہیں )
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جب کہ غصہ نہ کرنے اور کسی سے سوال نہ کرنے پر جنت کی نوید صحیح احادیث میں مروی ہے :
عن أبي مسلم الخولاني، قال: حدثني الحبيب الأمين أما هو إلي فحبيب، وأما هو عندي فأمين عوف بن مالك، قال: كنا عند رسول الله صلى الله عليه وسلم سبعة، أو ثمانية، أو تسعة، فقال: «ألا تبايعون رسول الله صلى الله عليه وسلم؟» وكنا حديث عهد ببيعة، قلنا: قد بايعناك، حتى قالها ثلاثا، فبسطنا أيدينا فبايعناه، فقال قائل: يا رسول الله، إنا قد بايعناك، فعلام نبايعك؟ قال: «أن تعبدوا الله ولا تشركوا به شيئا، وتصلوا الصلوات الخمس، وتسمعوا وتطيعوا»، وأسر كلمة خفية، قال: «ولا تسألوا الناس شيئا»، قال: فلقد كان بعض أولئك النفر يسقط سوطه فما يسأل أحدا أن يناوله إياه، قال أبو داود: «حديث هشام لم يروه إلا سعيد»
ترجمہ : جناب ابومسلم خولانی سے مروی ہے کہ مجھے ایک حبیب ( پیارے ) اور امین شخص نے حدیث بیان کی ۔ وہ میرے محبوب اور میرے نزدیک امین ہیں ( یعنی ) سیدنا عوف بن مالک رضی اللہ عنہ ، وہ بیان کرتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں سات یا آٹھ یا نو افراد تھے ، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ” کیا تم اللہ کے رسول سے بیعت نہیں کر لیتے ؟ “ حالانکہ ابھی ہم تازہ تازہ بیعت کر چکے تھے ۔ ہم نے کہا : ہم بیعت کر چکے ہیں ، مگر آپ نے اپنی بات تین بار دہرائی ۔ تو ہم نے اپنے ہاتھ بڑھا دیے اور آپ سے بیعت کی ۔ ایک شخص نے کہا : اے اللہ کے رسول ! ہم ( اس سے پہلے ) آپ سے بیعت کر چکے ہیں تو اب کس بات پر بیعت کریں ؟ آپ نے فرمایا ” ( اس بات پر کہ ) اللہ ہی کی عبادت کرو گے ، اس کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہیں کرو گے ، پانچوں نمازیں ادا کرو گے اور ( احکام شریعت اور حکام کی بات ) سنو گے اور مانو گے ۔ “ اور ایک بات آہستہ سے فرمائی ”
لوگوں سے کچھ نہیں مانگو گے ۔ “ بیان کیا کہ پھر ان لوگوں کا حال یہ تھا کہ اگر کسی کی کوئی چھڑی بھی گر جاتی تو وہ کسی اور کو یہ نہ کہتا تھا کہ یہ اٹھا کر مجھے دے دو ۔
(سنن ابی داود 1642 ،اصل حدیث صحیح مسلم میں ہے )
وصححه الألباني
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
قال رجلٌ لرسولِ اللهِ صلَّى اللهُ عليه وسلَّم دُلَّني على عملٍ يُدخِلُني الجنَّةَ قال رسولُ اللهِ صلَّى اللهُ عليه وسلَّم لا تغضَبْ ولك الجنَّةُ
المصدر :
الترغيب والترهيب ،قال الامام المنذري : [روي] بإسنادين أحدهما صحيح
یعنی ایک آدمی نے رسول اکرم ﷺ سے عرض کی کہ آپ مجھے ایسا بتائیں جو مجھے جنت میں داخل کردے ،آپ ﷺ نے فرمایا : غصہ نہ کر تجھے جنت ملے گی "
علامہ عبدالعظیم المنذریؒ فرماتے ہیں :یہ حدیث دو سندوں سے مروی ہے ،ان میں ایک اسناد صحیح ہے "
اور امام احمدؒ نے مسند میں روایت کیا ہے کہ :
حدثنا عبد الرزاق، أخبرنا معمر، عن الزهري، عن حميد بن عبد الرحمن، عن رجل من أصحاب النبي صلى الله عليه وسلم قال: قال رجل: يا رسول الله، أوصني؟ قال: " لا تغضب "، قال: قال الرجل: ففكرت حين قال النبي صلى الله عليه وسلم ما قال، فإذا الغضب يجمع الشر كله "مسند احمد 23171
إسناده صحيح، رجاله ثقات رجال الشيخين
ایک صحابی نے رسول مکرم ﷺ سے عرض کی کہ مجھے کچھ وصیت کیجئے توآپ نے غصہ نہ کرنے کی وصیت کی۔ روایت کرنے والے صحابی کہتے ہیں ۔رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد سننے کے بعد جب میں نے غورکیاتوپتہ چلاکہ غصہ تمام برائیوں کا جامع ہے۔(مسند احمد بن حنبل5/373)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور استغفار کی کثرت کی ترغیب کئی احادیث صحیحہ میں موجود ہے :
عَنْ أَبِي بُرْدَةَ، عَنِ الْأَغَرِّ الْمُزَنِيِّ، وَكَانَتْ لَهُ صُحْبَةٌ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: «إِنَّهُ لَيُغَانُ عَلَى قَلْبِي، وَإِنِّي لَأَسْتَغْفِرُ اللهَ، فِي الْيَوْمِ مِائَةَ مَرَّةٍ»
صحیح مسلم ،کتاب الذکر والدعاء
سیدنا اَغرالمزنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : (بعض اوقات ) میرے دل پر بھی پردہ سا آجاتا ہے اور میں دن میں سو مرتبہ استغفار کرتا ہوں۔ (صحیح مسلم : ۲۷۰۲)
عنْ نَافِعٍ عَنْ ابْنِ عُمَرَ قَالَ إِنْ كُنَّا لَنَعُدُّ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْمَجْلِسِ الْوَاحِدِ مِائَةَ مَرَّةٍ رَبِّ اغْفِرْ لِي وَتُبْ عَلَيَّ إِنَّكَ أَنْتَ التَّوَّابُ الرَّحِيمُ
سنن ابی داود 1516 ، (سنن ابی داود: ۱۵۱۶، ابن ماجہ : ۳۸۱۴، الترمذی: ۳۴۳۴، ابن حبان : ۲۴۵۹ ، صحیح)
ترجمہ : سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ بلاشبہ ہم شمار کرتے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک ایک مجلس میں سو سو بار یہ کلمہ دہراتے تھے «رب اغفر لی وتب علی إنک أنت التواب الرحیم» ” اے میرے رب ! مجھے بخش دے اور ( رحمت کے ساتھ ) میری طرف رجوع فرما ۔ بلاشبہ تو بہت زیادہ رجوع فرمانے والا ہے اور رحم کرنے والا ہے ۔ “
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔