• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اس حدیث کی شرح درکار ہے

فیاض ثاقب

مبتدی
شمولیت
ستمبر 30، 2016
پیغامات
80
ری ایکشن اسکور
10
پوائنٹ
29
أَبْوَابُ الْعِلْمِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ

بَاب مَا جَاءَ فِيمَنْ دَعَا إِلَى هُدًى فَاتُّبِعَ أَوْ إِلَى ضَلاَلَةٍ

2675صحیححَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ أَخْبَرَنَا الْمَسْعُودِيُّ عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ عُمَيْرٍ عَنْ ابْنِ جَرِيرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ عَنْ أَبِيهِ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنْ سَنَّ سُنَّةَ خَيْرٍ فَاتُّبِعَ عَلَيْهَا فَلَهُ أَجْرُهُ وَمِثْلُ أُجُورِ مَنْ اتَّبَعَهُ غَيْرَ مَنْقُوصٍ مِنْ أُجُورِهِمْ شَيْئًا وَمَنْ سَنَّ سُنَّةَ شَرٍّ فَاتُّبِعَ عَلَيْهَا كَانَ عَلَيْهِ وِزْرُهُ وَمِثْلُ أَوْزَارِ مَنْ اتَّبَعَهُ غَيْرَ مَنْقُوصٍ مِنْ أَوْزَارِهِمْ شَيْئًا وَفِي الْبَاب عَنْ حُذَيْفَةَ قَالَ أَبُو عِيسَى هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَقَدْ رُوِيَ مِنْ غَيْرِ وَجْهٍ عَنْ جَرِيرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَحْوُ هَذَا وَقَدْ رُوِيَ هَذَا الْحَدِيثُ عَنْ الْمُنْذِرِ بْنِ جَرِيرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ عَنْ أَبِيهِ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَقَدْ رُوِيَ عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ جَرِيرٍ عَنْ أَبِيهِ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَيْضًا

کتاب: علم اور فہم دین کے بیان میں

ہدایت اور گمراہی کی طرف بلانے والوں کابیان

ترجمہ : جریر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:' جس نے کوئی اچھا طریقہ جاری کیا (کوئی اچھی سنت قائم کی) اور اس اچھے طریقہ کی پیروی کی گئی تو اسے (ایک تو ) اسے اپنے عمل کا اجر ملے گا اور (دوسرے) جو اس کی پیروی کریں گے ان کے اجروثواب میں کسی طرح کی کمی کیے گئے بغیر ان کے اجرو ثواب کے برابر بھی اسے ثواب ملے گا، اور جس نے کوئی برا طریقہ جاری کیا اور اس برے طریقے کی پیروی کی گئی تو ایک تو اس پر اپنے عمل کا بوجھ (گناہ) ہوگا اور (دوسرے) جولوگ اس کی پیروی کریں گے ان کے گناہوں کے برابر بھی اسی پرگناہ ہوگا، بغیر اس کے کہ اس کی پیروی کرنے والوں کے گناہوں میں کوئی کمی کی گئی ہو' ۱؎ ۔
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791
السلام علیکم ورحمۃ اللہ
ـــــــــــــــــــــــ
آپ نے یہ حدیث سنن الترمذی سے نقل کی ہے ، اصل اور مکمل حدیث صحیح مسلم میں ہے ،جس کو دیکھنے سے اس کا معنی آسانی سے سمجھا جاسکتا ہے ؛
امام مسلم فرماتے ہیں :
حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى الْعَنَزِيُّ، أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ عَوْنِ بْنِ أَبِي جُحَيْفَةَ، عَنِ الْمُنْذِرِ بْنِ جَرِيرٍ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: كُنَّا عِنْدَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي صَدْرِ النَّهَارِ، قَالَ : فَجَاءَهُ قَوْمٌ حُفَاةٌ عُرَاةٌ مُجْتَابِي النِّمَارِ أَوِ الْعَبَاءِ، مُتَقَلِّدِي السُّيُوفِ، عَامَّتُهُمْ مِنْ مُضَرَ، بَلْ كُلُّهُمْ مِنْ مُضَرَ فَتَمَعَّرَ وَجْهُ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِمَا رَأَى بِهِمْ مِنَ الْفَاقَةِ، فَدَخَلَ ثُمَّ خَرَجَ، فَأَمَرَ بِلَالًا فَأَذَّنَ وَأَقَامَ، فَصَلَّى ثُمَّ خَطَبَ فَقَالَ: {يَا أَيُّهَا النَّاسُ اتَّقُوا رَبَّكُمُ الَّذِي خَلَقَكُمْ مِنْ نَفْسٍ وَاحِدَةٍ} [النساء: 1] إِلَى آخِرِ الْآيَةِ، {إِنَّ اللهَ كَانَ عَلَيْكُمْ رَقِيبًا} [النساء: 1] وَالْآيَةَ الَّتِي فِي الْحَشْرِ: {اتَّقُوا اللهَ وَلْتَنْظُرْ نَفْسٌ مَا قَدَّمَتْ لِغَدٍ وَاتَّقُوا اللهَ} [الحشر: 18] «تَصَدَّقَ رَجُلٌ مِنْ دِينَارِهِ، مِنْ دِرْهَمِهِ، مِنْ ثَوْبِهِ، مِنْ صَاعِ بُرِّهِ، مِنْ صَاعِ تَمْرِهِ - حَتَّى قَالَ - وَلَوْ بِشِقِّ تَمْرَةٍ» قَالَ: فَجَاءَ رَجُلٌ مِنَ الْأَنْصَارِ بِصُرَّةٍ كَادَتْ كَفُّهُ تَعْجِزُ عَنْهَا، بَلْ قَدْ عَجَزَتْ، قَالَ: ثُمَّ تَتَابَعَ النَّاسُ، حَتَّى رَأَيْتُ كَوْمَيْنِ مِنْ طَعَامٍ وَثِيَابٍ، حَتَّى رَأَيْتُ وَجْهَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَتَهَلَّلُ، كَأَنَّهُ مُذْهَبَةٌ، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَنْ سَنَّ فِي الْإِسْلَامِ سُنَّةً حَسَنَةً، فَلَهُ أَجْرُهَا، وَأَجْرُ مَنْ عَمِلَ بِهَا بَعْدَهُ، مِنْ غَيْرِ أَنْ يَنْقُصَ مِنْ أُجُورِهِمْ شَيْءٌ، وَمَنْ سَنَّ فِي الْإِسْلَامِ سُنَّةً سَيِّئَةً، كَانَ عَلَيْهِ وِزْرُهَا وَوِزْرُ مَنْ عَمِلَ بِهَا مِنْ بَعْدِهِ، مِنْ غَيْرِ أَنْ يَنْقُصَ مِنْ أَوْزَارِهِمْ شَيْءٌ» صحيح مسلم -الزكوة(1017) )
محمد بن مثنی عنزی، محمد بن جعفر، شعبہ، عون بن ابی جحیفہ، منذر بن جریر، جناب جریر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ہم دن کے شروع میں رسول اللہ ﷺ کے پاس تھے تو ایک قوم ننگے پاؤں ننگے بدن چمڑے کی عبائیں پہنے تلوراوں کو لٹکائے ہوئے حاضر ہوئی ان میں سے اکثر بلکہ سارے کے سارے قبیلہ مضر سے تھے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ اقدس ان کے فاقہ کو دیکھ کر متغیر ہوگیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم گھر تشریف لے گئے پھر تشریف لائے تو سیدنا بلال رضی اللہ عنہ کو حکم دیا تو انہوں نے اذان اور اقامت کہی۔ پھر آپ نے خطبہ دیا فرمایا اے لوگوں اپنے رب سے ڈرو جس نے تم کو پیدا کیا ایک جان سے آیت کی تلاوت کی
(يٰا اَيّها النَّاسُ اتَّقُوْا رَبَّكُمُ الَّذِيْ خَلَقَكُمْ مِّنْ نَّفْسٍ وَّاحِدَةٍ وَّخَلَقَ مِنها زَوْجَهَا وَبَثَّ مِنْهُمَا رِجَالًا كَثِيْرًا وَّنِسَا ءً وَاتَّقُوا اللّٰهَ الَّذِيْ تَسَا ءَلُوْنَ بِه وَالْاَرْحَامَ اِنَّ اللّٰهَ كَانَ عَلَيْكُمْ رَقِيْبًا) 4 ۔ النسآء : 1) تک ( تلاوت فرمائی ؛
اور وہ آیت جو سو رۃ حشر کی ہے (يٰ اَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ وَلْتَنْظُرْ نَفْسٌ مَّا قَدَّمَتْ لِغَدٍ وَاتَّقُوا اللّٰهَ اِنَّ اللّٰهَ خَبِيْرٌ بِمَا تَعْمَلُوْنَ ) 59 ۔ الحشر : 18) کی تلاوت کی اور فرمایا کہ آدمی اپنے دینار اور درہم اور اپنے کپڑے اور گندم کے صاع سے اور کھجور کے صاع سے صدقہ کرتا ہے۔ یہاں تک کہ آپ نے فرمایا اگرچہ کھجور کا ٹکڑا ہی ہو پھر انصار میں سے ایک آدمی تھیلی اتنی بھاری لے کر آیا کہ اس کا ہاتھ اٹھا نے سے عاجز ہو رہا تھا پھر لوگوں نے اس کی پیروی کی یہاں تک کی میں نے دو ڈھیر کپڑوں اور کھانے کے دیکھے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ اقدس کندن کی طرح چمکتا ہوا نظر آ نے لگا تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جس شخص نے اسلام میں کسی اچھے طریقہ کی ابتداء کی تو اس کے لئے اس کا اجر اور اس کے بعد عمل کرنے والوں کا ثواب ہوگا بغیر اس کے کہ ان کے ثواب میں کمی کی جائے اور جس اسلام میں کسی برے عمل کی ابتداء کی تو اس کے لئے اس کا گناہ ہے اور ان کا کچھ گناہ جنہوں نے اس کے بعد عمل کیا بغیر اس کے کہ ان کے گناہ میں کچھ کمی کی جائے۔
(صحیح مسلم ،کتاب الزکوٰۃ )
ـــــــــــــــــــــــــــــــــ
اور صحیح مسلم ،کتاب العلم میں بھی اس حدیث کو نقل فرمایا :

عن جرير بن عبد الله، قال: جاء ناس من الأعراب إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم عليهم الصوف فرأى سوء حالهم قد أصابتهم حاجة، فحث الناس على الصدقة، فأبطئوا عنه حتى رئي ذلك في وجهه. قال: ثم إن رجلا من الأنصار جاء بصرة من ورق، ثم جاء آخر، ثم تتابعوا حتى عرف السرور في وجهه، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «من سن في الإسلام سنة حسنة، فعمل بها بعده، كتب له مثل أجر من عمل بها، ولا ينقص من أجورهم شيء، ومن سن في الإسلام سنة سيئة، فعمل بها بعده، كتب عليه مثل وزر من عمل بها، ولا ينقص من أوزارهم شيء»،
صحيح مسلم 1017)
سیدنا جریر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں کچھ دیہاتی آدمی اونی کپڑے پہنے ہوئے حاضر ہوئے آپ نے ان کی بدحالی دیکھ کر ان کی حاجت و ضرورت کا اندازہ لگا لیا ،تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو صدقہ کرنے کی ترغیب دی پس لوگوں نے صدقہ میں کچھ دیر کی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرہ اقدس پر کچھ ناراضگی کے آثار نمودار ہوئے پھر انصار میں سے ایک آدمی دراہم کی تھیلی لے کر حاضر ہوا پھر دوسرا آیا پھر صحابہ نے متواتر اتباع شروع کردی یہاں تک کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرہ اقدس پر خوشی کے آثار ظاہر ہونے لگے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس نے اسلام میں کوئی اچھا طریقہ رائج کیا پھر اس کے بعد اس پر عمل کیا گیا تو اس کے لئے اس عمل کرنے والے کے برابر ثواب لکھا جائے گا اور ان کے ثواب میں سے کچھ کمی نہ کی جائے گی اور جس آدمی نے اسلام میں کوئی برا طریقہ رائج کیا پھر اس پر عمل کیا گیا تو اس پر اس عمل کرنے والے کے گناہ کے برابر گناہ لکھا جائے گا اور عمل کرنے والوں کے گناہ میں کوئی کمی نہ کی جائے گی۔
ـــــــــــــــــــــــ
چونکہ اس حدیث میں " سنت " جاری کرنے کی بات ہوئی ہے ،تو مختصراً سنت کا لغوی و شرعی معنی دیکھ لینا مناسب ہوگا ۔

’سنت ‘کی لغوی تعریف
سنت کا لغوی معنی’راستہ‘یا ’طریقہ‘ہے ۔ابن منظور الافریقی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:

والسنة السیرة حسنة کانت أو قبیحة ... وفی الحدیث : ((مَنْ سَنَّ سُنَّةً حَسَنَةً فَلَہُ اَجْرُھَا وَاَجْرُ مَنْ عَمِلَ بِھَا وَمَنْ سَنَّ سُنَّةً سَیِّئَةً…)) یرید من عملھا لیقتدی بہ فیھا وکل من ابتدأ أمرا عمل بہ قوم بعدہ قیل ھو الذی سنہ (ارشاد الفحول' المقصد الثانی فی السنة۔)
''سنت سے مرادطریقہ ہے 'چاہے اچھا ہو یا برا ہو...
اور حدیث میں ہے کہ ''جس نے کوئی اچھا طریقہ جاری کیا تو اس کے لیے اس کا اجر ہے اور جس نے اس(طریقے) پر عمل کیا تو اس (جاری کرنے والے)کے لیے بھی اس کا اجر ہے۔ اور جس نے کوئی برا طریقہ جاری کیا…''مراد یہ ہے کہ جس نے اس برے طریقے پر عمل کیا تاکہ اس(طریقے) میں اس کی پیروی کی جائے' اور ہر وہ شخص جو کہ پہلی مرتبہ کوئی کام کرتا ہے اور اس کے بعد آنے والوں نے اس پر عمل کیا تو کہا گیا ہے کہ اس نے اسے جاری کیا'' ۔ (ارشادالفحول ، باب السنہ)

جیسے قرآن مجید میں ہے:
اچھے طریقے کے بارے میں:
سُنَّةَ مَن قَد أَرسَلنا قَبلَكَ مِن رُسُلِنا ۖ ...{17:77}
تم سے پہلے جو رسول ہم نے بھیجے ان کی سنت (یعنی ان کا قابل_پیروی طریقہ رہ_حق پر ثابت قدمی ہے)

برے طریقے میں استعمال:

كَذٰلِكَ نَسلُكُهُ فى قُلوبِ المُجرِمينَ {15:12} لا يُؤمِنونَ بِهِ ۖ وَقَد خَلَت سُنَّةُ الأَوَّلينَ {15:13}
اسی طرح ہم اس (تکذیب وضلال) کو گنہگاروں کے دلوں میں داخل کر دیتے ہیں. سو وہ اس پر ایمان نہیں لاتے اور پہلوں کی روش (سنّت) بھی یہی رہی ہے .
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
اب اس حدیث کو سرسری طور دیکھا جائے تو بات صاف ہے کہ :
کچھ محتاج لوگ نبی اکرم ﷺ کے پاس آئے ، آپ ﷺ نے ان کی مدد کیلئے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو صدقہ کی ترغیب دلائی ،
آپ کے ترغیب دلانے پر سب سے پہلے ایک صحابی نے درہموں سے بھری ایک تھیلی حاضر کرکے پہل کی ، اسکی پیروی میں مسلسل دیگر اصحاب محمد ﷺ نے بھی بڑھ چڑھ کر صدقہ پیش کیا ،
اب کام تو سب نے ایک جیسا کیا لیکن اس بارش کا پہلا قطرہ بننے والے نے گویا ایک سنت جاری کی جس پر دیگر نے عمل کیا ۔
کچھ بدنصیب اس حدیث سے بدعات کے دفاع کا کام لیتے ہیں ، جو سراسر جہالت ہے ،
اس حدیث میں تو " حکم نبوی پر اطاعت میں پہل کرنے والوں کی فضیلت کا بیان ہے "
یا پھر اس فضیلت میں وہ لوگ بھی شامل ہیں ، جو کسی "بھولی بسری " سنت کو از سر نو اپنے عمل سے زندہ کرتے ہیں ؛
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
 
Last edited:

arslanmasoom2

رکن
شمولیت
ستمبر 24، 2017
پیغامات
56
ری ایکشن اسکور
3
پوائنٹ
30
السلام علیکم ورحمۃ اللہ
ـــــــــــــــــــــــ
آپ نے یہ حدیث سنن الترمذی سے نقل کی ہے ، اصل اور مکمل حدیث صحیح مسلم میں ہے ،جس کو دیکھنے سے اس کا معنی آسانی سے سمجھا جاسکتا ہے ؛
امام مسلم فرماتے ہیں :
حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى الْعَنَزِيُّ، أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ عَوْنِ بْنِ أَبِي جُحَيْفَةَ، عَنِ الْمُنْذِرِ بْنِ جَرِيرٍ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: كُنَّا عِنْدَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي صَدْرِ النَّهَارِ، قَالَ : فَجَاءَهُ قَوْمٌ حُفَاةٌ عُرَاةٌ مُجْتَابِي النِّمَارِ أَوِ الْعَبَاءِ، مُتَقَلِّدِي السُّيُوفِ، عَامَّتُهُمْ مِنْ مُضَرَ، بَلْ كُلُّهُمْ مِنْ مُضَرَ فَتَمَعَّرَ وَجْهُ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِمَا رَأَى بِهِمْ مِنَ الْفَاقَةِ، فَدَخَلَ ثُمَّ خَرَجَ، فَأَمَرَ بِلَالًا فَأَذَّنَ وَأَقَامَ، فَصَلَّى ثُمَّ خَطَبَ فَقَالَ: {يَا أَيُّهَا النَّاسُ اتَّقُوا رَبَّكُمُ الَّذِي خَلَقَكُمْ مِنْ نَفْسٍ وَاحِدَةٍ} [النساء: 1] إِلَى آخِرِ الْآيَةِ، {إِنَّ اللهَ كَانَ عَلَيْكُمْ رَقِيبًا} [النساء: 1] وَالْآيَةَ الَّتِي فِي الْحَشْرِ: {اتَّقُوا اللهَ وَلْتَنْظُرْ نَفْسٌ مَا قَدَّمَتْ لِغَدٍ وَاتَّقُوا اللهَ} [الحشر: 18] «تَصَدَّقَ رَجُلٌ مِنْ دِينَارِهِ، مِنْ دِرْهَمِهِ، مِنْ ثَوْبِهِ، مِنْ صَاعِ بُرِّهِ، مِنْ صَاعِ تَمْرِهِ - حَتَّى قَالَ - وَلَوْ بِشِقِّ تَمْرَةٍ» قَالَ: فَجَاءَ رَجُلٌ مِنَ الْأَنْصَارِ بِصُرَّةٍ كَادَتْ كَفُّهُ تَعْجِزُ عَنْهَا، بَلْ قَدْ عَجَزَتْ، قَالَ: ثُمَّ تَتَابَعَ النَّاسُ، حَتَّى رَأَيْتُ كَوْمَيْنِ مِنْ طَعَامٍ وَثِيَابٍ، حَتَّى رَأَيْتُ وَجْهَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَتَهَلَّلُ، كَأَنَّهُ مُذْهَبَةٌ، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَنْ سَنَّ فِي الْإِسْلَامِ سُنَّةً حَسَنَةً، فَلَهُ أَجْرُهَا، وَأَجْرُ مَنْ عَمِلَ بِهَا بَعْدَهُ، مِنْ غَيْرِ أَنْ يَنْقُصَ مِنْ أُجُورِهِمْ شَيْءٌ، وَمَنْ سَنَّ فِي الْإِسْلَامِ سُنَّةً سَيِّئَةً، كَانَ عَلَيْهِ وِزْرُهَا وَوِزْرُ مَنْ عَمِلَ بِهَا مِنْ بَعْدِهِ، مِنْ غَيْرِ أَنْ يَنْقُصَ مِنْ أَوْزَارِهِمْ شَيْءٌ» صحيح مسلم -الزكوة(1017) )
محمد بن مثنی عنزی، محمد بن جعفر، شعبہ، عون بن ابی جحیفہ، منذر بن جریر، جناب جریر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ہم دن کے شروع میں رسول اللہ ﷺ کے پاس تھے تو ایک قوم ننگے پاؤں ننگے بدن چمڑے کی عبائیں پہنے تلوراوں کو لٹکائے ہوئے حاضر ہوئی ان میں سے اکثر بلکہ سارے کے سارے قبیلہ مضر سے تھے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ اقدس ان کے فاقہ کو دیکھ کر متغیر ہوگیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم گھر تشریف لے گئے پھر تشریف لائے تو سیدنا بلال رضی اللہ عنہ کو حکم دیا تو انہوں نے اذان اور اقامت کہی۔ پھر آپ نے خطبہ دیا فرمایا اے لوگوں اپنے رب سے ڈرو جس نے تم کو پیدا کیا ایک جان سے آیت کی تلاوت کی
(يٰا اَيّها النَّاسُ اتَّقُوْا رَبَّكُمُ الَّذِيْ خَلَقَكُمْ مِّنْ نَّفْسٍ وَّاحِدَةٍ وَّخَلَقَ مِنها زَوْجَهَا وَبَثَّ مِنْهُمَا رِجَالًا كَثِيْرًا وَّنِسَا ءً وَاتَّقُوا اللّٰهَ الَّذِيْ تَسَا ءَلُوْنَ بِه وَالْاَرْحَامَ اِنَّ اللّٰهَ كَانَ عَلَيْكُمْ رَقِيْبًا) 4 ۔ النسآء : 1) تک ( تلاوت فرمائی ؛
اور وہ آیت جو سو رۃ حشر کی ہے (يٰ اَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ وَلْتَنْظُرْ نَفْسٌ مَّا قَدَّمَتْ لِغَدٍ وَاتَّقُوا اللّٰهَ اِنَّ اللّٰهَ خَبِيْرٌ بِمَا تَعْمَلُوْنَ ) 59 ۔ الحشر : 18) کی تلاوت کی اور فرمایا کہ آدمی اپنے دینار اور درہم اور اپنے کپڑے اور گندم کے صاع سے اور کھجور کے صاع سے صدقہ کرتا ہے۔ یہاں تک کہ آپ نے فرمایا اگرچہ کھجور کا ٹکڑا ہی ہو پھر انصار میں سے ایک آدمی تھیلی اتنی بھاری لے کر آیا کہ اس کا ہاتھ اٹھا نے سے عاجز ہو رہا تھا پھر لوگوں نے اس کی پیروی کی یہاں تک کی میں نے دو ڈھیر کپڑوں اور کھانے کے دیکھے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ اقدس کندن کی طرح چمکتا ہوا نظر آ نے لگا تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جس شخص نے اسلام میں کسی اچھے طریقہ کی ابتداء کی تو اس کے لئے اس کا اجر اور اس کے بعد عمل کرنے والوں کا ثواب ہوگا بغیر اس کے کہ ان کے ثواب میں کمی کی جائے اور جس اسلام میں کسی برے عمل کی ابتداء کی تو اس کے لئے اس کا گناہ ہے اور ان کا کچھ گناہ جنہوں نے اس کے بعد عمل کیا بغیر اس کے کہ ان کے گناہ میں کچھ کمی کی جائے۔
(صحیح مسلم ،کتاب الزکوٰۃ )
ـــــــــــــــــــــــــــــــــ
اور صحیح مسلم ،کتاب العلم میں بھی اس حدیث کو نقل فرمایا :

عن جرير بن عبد الله، قال: جاء ناس من الأعراب إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم عليهم الصوف فرأى سوء حالهم قد أصابتهم حاجة، فحث الناس على الصدقة، فأبطئوا عنه حتى رئي ذلك في وجهه. قال: ثم إن رجلا من الأنصار جاء بصرة من ورق، ثم جاء آخر، ثم تتابعوا حتى عرف السرور في وجهه، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «من سن في الإسلام سنة حسنة، فعمل بها بعده، كتب له مثل أجر من عمل بها، ولا ينقص من أجورهم شيء، ومن سن في الإسلام سنة سيئة، فعمل بها بعده، كتب عليه مثل وزر من عمل بها، ولا ينقص من أوزارهم شيء»،
صحيح مسلم 1017)
سیدنا جریر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں کچھ دیہاتی آدمی اونی کپڑے پہنے ہوئے حاضر ہوئے آپ نے ان کی بدحالی دیکھ کر ان کی حاجت و ضرورت کا اندازہ لگا لیا ،تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو صدقہ کرنے کی ترغیب دی پس لوگوں نے صدقہ میں کچھ دیر کی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرہ اقدس پر کچھ ناراضگی کے آثار نمودار ہوئے پھر انصار میں سے ایک آدمی دراہم کی تھیلی لے کر حاضر ہوا پھر دوسرا آیا پھر صحابہ نے متواتر اتباع شروع کردی یہاں تک کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرہ اقدس پر خوشی کے آثار ظاہر ہونے لگے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس نے اسلام میں کوئی اچھا طریقہ رائج کیا پھر اس کے بعد اس پر عمل کیا گیا تو اس کے لئے اس عمل کرنے والے کے برابر ثواب لکھا جائے گا اور ان کے ثواب میں سے کچھ کمی نہ کی جائے گی اور جس آدمی نے اسلام میں کوئی برا طریقہ رائج کیا پھر اس پر عمل کیا گیا تو اس پر اس عمل کرنے والے کے گناہ کے برابر گناہ لکھا جائے گا اور عمل کرنے والوں کے گناہ میں کوئی کمی نہ کی جائے گی۔
ـــــــــــــــــــــــ
چونکہ اس حدیث میں " سنت " جاری کرنے کی بات ہوئی ہے ،تو مختصراً سنت کا لغوی و شرعی معنی دیکھ لینا مناسب ہوگا ۔

’سنت ‘کی لغوی تعریف
سنت کا لغوی معنی’راستہ‘یا ’طریقہ‘ہے ۔ابن منظور الافریقی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:

والسنة السیرة حسنة کانت أو قبیحة ... وفی الحدیث : ((مَنْ سَنَّ سُنَّةً حَسَنَةً فَلَہُ اَجْرُھَا وَاَجْرُ مَنْ عَمِلَ بِھَا وَمَنْ سَنَّ سُنَّةً سَیِّئَةً…)) یرید من عملھا لیقتدی بہ فیھا وکل من ابتدأ أمرا عمل بہ قوم بعدہ قیل ھو الذی سنہ (ارشاد الفحول' المقصد الثانی فی السنة۔)
''سنت سے مرادطریقہ ہے 'چاہے اچھا ہو یا برا ہو...
اور حدیث میں ہے کہ ''جس نے کوئی اچھا طریقہ جاری کیا تو اس کے لیے اس کا اجر ہے اور جس نے اس(طریقے) پر عمل کیا تو اس (جاری کرنے والے)کے لیے بھی اس کا اجر ہے۔ اور جس نے کوئی برا طریقہ جاری کیا…''مراد یہ ہے کہ جس نے اس برے طریقے پر عمل کیا تاکہ اس(طریقے) میں اس کی پیروی کی جائے' اور ہر وہ شخص جو کہ پہلی مرتبہ کوئی کام کرتا ہے اور اس کے بعد آنے والوں نے اس پر عمل کیا تو کہا گیا ہے کہ اس نے اسے جاری کیا'' ۔ (ارشادالفحول ، باب السنہ)

جیسے قرآن مجید میں ہے:
اچھے طریقے کے بارے میں:
سُنَّةَ مَن قَد أَرسَلنا قَبلَكَ مِن رُسُلِنا ۖ ...{17:77}
تم سے پہلے جو رسول ہم نے بھیجے ان کی سنت (یعنی ان کا قابل_پیروی طریقہ رہ_حق پر ثابت قدمی ہے)

برے طریقے میں استعمال:

كَذٰلِكَ نَسلُكُهُ فى قُلوبِ المُجرِمينَ {15:12} لا يُؤمِنونَ بِهِ ۖ وَقَد خَلَت سُنَّةُ الأَوَّلينَ {15:13}
اسی طرح ہم اس (تکذیب وضلال) کو گنہگاروں کے دلوں میں داخل کر دیتے ہیں. سو وہ اس پر ایمان نہیں لاتے اور پہلوں کی روش (سنّت) بھی یہی رہی ہے .
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
اب اس حدیث کو سرسری طور دیکھا جائے تو بات صاف ہے کہ :
کچھ محتاج لوگ نبی اکرم ﷺ کے پاس آئے ، آپ ﷺ نے ان کی مدد کیلئے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو صدقہ کی ترغیب دلائی ،
آپ کے ترغیب دلانے پر سب سے پہلے ایک صحابی نے درہموں سے بھری ایک تھیلی حاضر کرکے پہل کی ، اسکی پیروی میں مسلسل دیگر اصحاب محمد ﷺ نے بھی بڑھ چڑھ کر صدقہ پیش کیا ،
اب کام تو سب نے ایک جیسا کیا لیکن اس بارش کا پہلا قطرہ بننے والے نے گویا ایک سنت جاری کی جس پر دیگر نے عمل کیا ۔
کچھ بدنصیب اس حدیث سے بدعات کے دفاع کا کام لیتے ہیں ، جو سراسر جہالت ہے ،
اس حدیث میں تو " حکم نبوی پر اطاعت میں پہل کرنے والوں کی فضیلت کا بیان ہے "
یا پھر اس فضیلت میں وہ لوگ بھی شامل ہیں ، جو کسی "بھولی بسری " سنت کو از سر نو اپنے عمل سے زندہ کرتے ہیں ؛
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
جناب آپ نے اپنی ساری دمجھ بوجھ یہاں پے لوگوں کو گمراہ کرنے کے لئے پیش کی...؟؟
آج کل کے غیر مقلد حضرات بھی اچھا طریقہ رائج کرنے والوں کو صحیح تسلیم کرتے ہیں....

Sent from my GT-I9505 using Tapatalk
 

عدیل سلفی

مشہور رکن
شمولیت
اپریل 21، 2014
پیغامات
1,717
ری ایکشن اسکور
430
پوائنٹ
197
جناب آپ نے اپنی ساری دمجھ بوجھ یہاں پے لوگوں کو گمراہ کرنے کے لئے پیش کی...؟؟
آج کل کے غیر مقلد حضرات بھی اچھا طریقہ رائج کرنے والوں کو صحیح تسلیم کرتے ہیں....

Sent from my GT-I9505 using Tapatalk
پھر سے اپنی ہی عبارت میں پھر اضطراب واقعی مقلدین کے لیے یہ مثال فٹ آتی ہے (لافرق بین مقلد و بھیمۃ)
 

arslanmasoom2

رکن
شمولیت
ستمبر 24، 2017
پیغامات
56
ری ایکشن اسکور
3
پوائنٹ
30
پھر سے اپنی ہی عبارت میں پھر اضطراب واقعی مقلدین کے لیے یہ مثال فٹ آتی ہے (لافرق بین مقلد و بھیمۃ)

جناب جو تاویل اوپر اسحاق صاحب نے پیش کی وہ کیسے پیش کر دی۔۔ حدیث کو سمجھانے کا یہ طریقہ ہی ملاآپ کو۔
 
Top