• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اس نکاح کی شرعی حیثیت کیا ہے؟

شمولیت
دسمبر 21، 2015
پیغامات
137
ری ایکشن اسکور
36
پوائنٹ
46
زید، بکر اور عمرو کی سلمہ کے ساتھ ملاقات ہوتی ہے، زید اور سلمہ دونوں شرعی طور بالغ ہیں، زید نے سلمہ سے کہا ہم نکاح کریں گے، سلمہ نے کہا میں تیار ہوں، پھر زید نے خود خطبہ نکاح پڑھا، دو دوستوں بکر اور عمرو جو شرعی طور بالغ ہیں کو گواہ بنایا اور 5 ہزار مہر مقرر کر کے نکاح کیا -
اس وقت زید اور سلمہ کے والدین کو اس بات کا علم نہ تھا پھر دو دن بعد زید سلمہ کے ساتھ سلمہ کے گھر گیا اور سلمہ کے والد اور دیگر رشتہ داروں کو اس نکاح سے آگاہ کیا اور نکاح نامہ جس پر زید کے بحثیت ناکح سلمہ کے بحثیت منکوحہ اور بکر و عمرو کے دستخط بطور گواہ میں دیا، سلمہ کے والد نے نکاح پر کوئی اعتراض نہیں کیا -
اس نکاح کی شرعی حیثیت مسلک سلفی اور حنفی دونوں مسالک کے مطابق بیان کیجیے - جزاک اللہ خیرا
اسحاق سلفی بھائی
ابن داؤد بھائی

Sent from my MI 4W using Tapatalk
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,592
پوائنٹ
791
زید، بکر اور عمرو کی سلمہ کے ساتھ ملاقات ہوتی ہے، زید اور سلمہ دونوں شرعی طور بالغ ہیں، زید نے سلمہ سے کہا ہم نکاح کریں گے، سلمہ نے کہا میں تیار ہوں، پھر زید نے خود خطبہ نکاح پڑھا، دو دوستوں بکر اور عمرو جو شرعی طور بالغ ہیں کو گواہ بنایا اور 5 ہزار مہر مقرر کر کے نکاح کیا -
اس وقت زید اور سلمہ کے والدین کو اس بات کا علم نہ تھا پھر دو دن بعد زید سلمہ کے ساتھ سلمہ کے گھر گیا اور سلمہ کے والد اور دیگر رشتہ داروں کو اس نکاح سے آگاہ کیا
السلام علیکم ورحمۃ اللہ
واضح ہو کہ ولی کے بغیر نکاح منعقد ہی نہیں ہوتا ،
کیونکہ اللہ تعالی نے عورت کے نکاح میں ولی کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا ہے :
( وَأَنْكِحُوا الْأَيَامَى مِنْكُمْ ) { اوراپنے میں سے بے نکاح عورتوں اورمردوں کا نکاح کردو } سورۃ النور ۳۲
اور حدیث نبوی میں بھی واضح حکم وارد ہے ؛
عَنْ عَائِشَةَ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: : " أَيُّمَا امْرَأَةٍ نَكَحَتْ بِغَيْرِ إِذْنِ وَلِيِّهَا فَنِكَاحُهَا بَاطِلٌ فَنِكَاحُهَا بَاطِلٌ فَنِكَاحُهَا بَاطِلٌ " رواه الترمذي ، وغيره وهو حديث صحيح .
نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے :
( جس عورت نے بھی ولی کی اجازت کے بغیر نکاح کیا اس کا نکاح باطل ہے ، اس کا نکاح باطل ہے ، اس کانکاح باطل ہے ) سنن ترمذی
اس کے علاوہ اورمحدیثین نے بھی اسے روایت کیا ہے یہ حدیث صحیح ہے ۔
اور دوسری حدیث میں فرمایا :
( لا نكاح إلا بوليّ وشاهدين ) رواه الطبراني وهو في صحيح الجامع 7558
فرمان نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے :
( ولی اوردو گواہوں کے بغیر نکاح نہیں ہوتا ) رواہ الطبرانی ۔ دیکھیں صحیح الجامع حدیث نمبر ( 7558 ) ۔
اور ارشاد ہے کہ :
عن أبي هريرة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «لا تزوج المرأة المرأة، ولا تزوج المرأة نفسها، فإن الزانية هي التي تزوج نفسها»
" رواه ابن ماجة 1782 وهو في صحيح الجامع 7298
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے : ( کوئي عورت کسی عورت کی شادی نہ کرے ، اورنہ ہی کوئي عورت خود اپنی شادی خود کرے ، جوبھی اپنی شادی خود کرتی ہے وہ زانیہ ہوگی ) سنن ابن ماجہ حدیث نمبر ( 1782 ) دیکھیں صحیح الجامع حدیث نمبر ( 7298 ) ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
شمولیت
دسمبر 21، 2015
پیغامات
137
ری ایکشن اسکور
36
پوائنٹ
46
السلام علیکم ورحمۃ اللہ
واضح ہو کہ ولی کے بغیر نکاح منعقد ہی نہیں ہوتا ،
کیونکہ اللہ تعالی نے عورت کے نکاح میں ولی کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا ہے :
( وَأَنْكِحُوا الْأَيَامَى مِنْكُمْ ) { اوراپنے میں سے بے نکاح عورتوں اورمردوں کا نکاح کردو } سورۃ النور ۳۲
اور حدیث نبوی میں بھی واضح حکم وارد ہے ؛
عَنْ عَائِشَةَ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: : " أَيُّمَا امْرَأَةٍ نَكَحَتْ بِغَيْرِ إِذْنِ وَلِيِّهَا فَنِكَاحُهَا بَاطِلٌ فَنِكَاحُهَا بَاطِلٌ فَنِكَاحُهَا بَاطِلٌ " رواه الترمذي ، وغيره وهو حديث صحيح .
نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے :
( جس عورت نے بھی ولی کی اجازت کے بغیر نکاح کیا اس کا نکاح باطل ہے ، اس کا نکاح باطل ہے ، اس کانکاح باطل ہے ) سنن ترمذی
اس کے علاوہ اورمحدیثین نے بھی اسے روایت کیا ہے یہ حدیث صحیح ہے ۔
اور دوسری حدیث میں فرمایا :
( لا نكاح إلا بوليّ وشاهدين ) رواه الطبراني وهو في صحيح الجامع 7558
فرمان نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے :
( ولی اوردو گواہوں کے بغیر نکاح نہیں ہوتا ) رواہ الطبرانی ۔ دیکھیں صحیح الجامع حدیث نمبر ( 7558 ) ۔
اور ارشاد ہے کہ :
عن أبي هريرة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «لا تزوج المرأة المرأة، ولا تزوج المرأة نفسها، فإن الزانية هي التي تزوج نفسها»
" رواه ابن ماجة 1782 وهو في صحيح الجامع 7298
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے : ( کوئي عورت کسی عورت کی شادی نہ کرے ، اورنہ ہی کوئي عورت خود اپنی شادی خود کرے ، جوبھی اپنی شادی خود کرتی ہے وہ زانیہ ہوگی ) سنن ابن ماجہ حدیث نمبر ( 1782 ) دیکھیں صحیح الجامع حدیث نمبر ( 7298 ) ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ
حنفی مسلک اس مسئلہ کے بارے میں کیا رائے رکھتا ہے؟

Sent from my MI 4W using Tapatalk
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,592
پوائنٹ
791
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ
حنفی مسلک اس مسئلہ کے بارے میں کیا رائے رکھتا ہے؟
وعلیکم السلام و رحمۃ اللہ و برکاتہ
حنفی مذہب کی معتبر کتاب ھدایہ میں ائمہ احناف کا مذہب اس مسئلہ میں یوں درج ہے :
باب في الأولياء والأكفاء ( نکاح میں ولی ، اور برابر کے رشتے کے متعلق باب )
وينعقد نكاح الحرة العاقلة البالغة برضاها وإن لم يعقد عليها ولي، سواء كانت بكرا أو ثيبا عند أبي حنيفة وأبي يوسف رحمهما الله _في ظاهر الرواية، وعن أبي يوسف رَحِمَهُ اللَّهُ أنه لا ينعقد إلا بولي وعند محمد ينعقد موقوفا. وقال مالك والشافعي رحمهما الله لا ينعقد النكاح بعبارة النساء أصلا
ترجمہ : امام ابوحنیفہ اور امام ابو یوسف کے نزدیک آزاد ، عاقلہ ، بالغہ (کنواری ہو یا دوسری شادی والی ) کا نکاح اس کی مرضی سے منعقد ہوجائے گا ،اگر چہ ولی نے اس کا عقد نہ کیا ہو
اور ابویوسفؒ کا یہ قول بھی منقول ہے کہ ایسا نکاح جس میں ولی نہ ہو منعقد ہی نہیں گا ، اور امام محمد کے نزدیک ایسا نکاح موقوف منعقد ہوگا (یعنی ولی کی اجازت ہوئی تو منعقد ہوگا ورنہ نہیں )
اور امام مالک رحمہ اللہ اور امام شافعی رحمہ اللہ کے نزدیک ولی کے بغیر عورتوں کے الفاظ و عبارت سے نکاح منعقد ہی نہیں ہوتا ،
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
علامہ انور شاہ کاشمیر ی صحیح بخاری کی شرح فیض الباری میں لکھتے ہیں :
لو نكحت في غير كفء بغير إذن الولي , بطل نكاحها في رواية الحسن بن زياد عن أبي حنيفة "
’’اگر عورت نے ولی کی اجازت کے بغیر , غیر کفو سے نکاح کر لیا تو امام حسن بن زیاد نے امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کا مسلک یہ بیان کیا ہے کہ ایسا نکاح باطل ہے ۔" [فیض الباری ]
اسی طرح علامہ انور شاہ کاشمیری مزید لکھتے ہیں :
ومذهب أبي حنيفة أن رضى المُولّية مقدَّم عند تعارض الرِّضاءين، مع كونِها مأمورةً بتحصيل رِضى الولي، وكذا المُولَّى مأمورٌ بتحصيل رضائها، فلم يستبدَّ به واحدٌ منها، فإِنه أَمْرٌ خطيرٌ لا بد فيه من اجتماع الرضاءين. "
امام ابو حنیفہ کا مسلک ہے کہ دونوں (ولی اور لڑکی) کی پسند میں اختلاف کی صورت میں لڑکی کی پسند مقدم ہوگی , تاہم عورت بھی اس امر کی پابند ہے کہ وہ ولی کی رضامندی حاصل کرے , اسی طرح ولی کے لیے بھی عورت کی رضامندی حاصل کرنا ضروری ہے , ان دونوں میں سے کسی کو بھی صرف اپنی ہی رائے منوانے پر اصرار کرنے کا حق نہیں ہے , اس لیے کہ یہ معاملہ بہت اہم ہے , جس میں دونوں کی رضا مندی کا اجتماع ضروری ہے ۔" [فیض الباری جلد ۷ ص ۱۳ ]
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خلاصہ یہ کہ حنفی مذہب میں بالغ لڑکی ولی کی اجازت کے بغیر بھی نکاح کرلے تو نکاح منعقد ہوجائے گا ، لیکن اگر لڑکی غیر کفؤ میں نکاح کیا اور ولی نے اس نکاح کو تسلیم نہ کیا تو ایسا نکاح نہیں ہوگا ۔
 
شمولیت
دسمبر 21، 2015
پیغامات
137
ری ایکشن اسکور
36
پوائنٹ
46
جزاک اللہ خیرا

Sent from my MI 4W using Tapatalk
 
Top