• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اس واقعہ کی تحقیق درکار ہیں

شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,800
پوائنٹ
1,069
ﺍﯾﮏ ﺻﺎﺣﺐ ﻧﮯ ﺭﺳﻮﻝ ﺍﻟﻠﮧ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ و آلہ ﻭﺳﻠﻢ ﺳﮯ ﺍﭘﻨﮯﺑﺎﭖ ﮐﯽ ﺷﮑﺎﯾﺖ ﮐﯽﮐﮧ ﯾﺎ ﺭﺳﻮﻝ ﺍﻟﻠﮧ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ و آلہ ﻭﺳﻠﻢ !
ﻣﯿﺮﺍ ﺑﺎﭖ ﻣﺠﮫ ﺳﮯﭘﻮﭼﮭﺘﺎ نہیں ﺍﻭﺭ ﻣﯿﺮﺍ ﺳﺎﺭﺍ ﻣﺎﻝ ﺧﺮﭺ ﮐﺮ ﺩﯾﺘﺎ ﮬﮯ
ﺁﭖ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ و آلہ ﻭﺳﻠﻢ ﻧﮯ ﺍﻥ ﮐﮯ والد محترم ﮐﻮ بلوایا،
ﺟﺐ ﺍﻥ ﮐﮯ ﻭﺍﻟﺪ ﮐﻮ ﭘﺘﺎ ﭼﻼ ﮐﮧ ﻣﯿﺮﮮ ﺑﯿﭩﮯ ﻧﮯ ﺭﺳﻮﻝ ﺍﻟﻠﮧ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭ آلہ و ﺳﻠﻢ ﺳﮯ ﻣﯿﺮﯼ ﺷﮑﺎﯾﺖ ﮐﯽ ﮬﮯ ﺗﻮ ﺩﻝ ﻣﯿﮟ ﺭﻧﺠﯿﺪﮦ ﮬﻮﺋﮯ...
ﺍﻭﺭ ﺭﺳﻮﻝ ﺍﻟﻠﮧ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ و آلہ ﻭﺳﻠﻢ ﮐﯽ ﺧﺪﻣﺖ ﻣﯿﮟﺣﺎﺿﺮﯼ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﭼﻠﮯ...
ﭼﻮﻧﮑﮧ ﻋﺮﺏ ﮐﯽ ﮔﮭﭩﯽ ﻣﯿﮟ ﺷﺎﻋﺮﯼ ﺗﮭﯽ
ﺗﻮ ﺭﺍﺳﺘﮯ ﻣﯿﮟ ﮐﺠﮫ ﺍﺷﻌﺎﺭ ﺫﮨﻦ ﻣﯿﮟ کہتے ہوئے پہنچے.
ﺍﺩﮬﺮ ﺑﺎﺭﮔﺎﮦ ﺭﺳﺎﻟﺖ ﻣﯿﮟ ﭘﮩﻨﭽﻨﮯ ﺳﮯ ﭘﮩﻠﮯﺣﻀﺮﺕ ﺟﺒﺮﺍﺋﻞ ﺁﭖ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ و آلہ ﻭﺳﻠﻢ ﮐﯽ ﺧﺪﻣﺖ
ﻣﯿﮟ ﺣﺎﺿﺮ ﮬﻮﺋﮯ ﺍﻭﺭ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ
ﮐﮧﺍﻟﻠﮧ ﺳﺒﺤﺎﻧﮧ ﻭ ﺗﻌﺎﻟﮧ ﻧﮯ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ ﮬﮯ ﮐﮧ ﺍﻥ ﮐﺎ معاملہ ﺑﻌﺪ ﻣﯿﮟ ﺳﻨﺌﯿﮯ ﮔﺎ ﭘﮩﻠﮯ ﻭﮦ ﺍﺷﻌﺎﺭ ﺳﻨﯿﮟ ﺟﻮ ﻭﮦ ﺳﻮﭼﺘﮯ ﮨﻮﮮﺁ ﺭﮨﮯ ﮬﯿﮟ.
ﺟﺐ ﻭﮦ ﺣﺎﺿﺮ ﮨﻮﮮ ﺗﻮ ﺁﭖ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ و آلہ ﻭﺳﻠﻢ ﻧﮯﻓﺮﻣﺎﯾﺎ
ﮐﮧﺁﭖ ﮐﺎ ﻣﺴﺌﻠﮧ ﺑﻌﺪ ﻣﯿﻦ ﺳﻨﺎ ﺟﺎﺋﮯ ﮔﺎ ﭘﮩﻠﮯ ﻭﮦ ﺍﺷﻌﺎﺭﺳﻨﺎﺋﯿﮯ ﺟﻮ ﺁﭖ ﺳﻮﭼﺘﮯ ﮬﻮﮮ ﺁﺋﮯ ﮬﯿﮟ.
ﻭﮦ ﻣﺨﻠﺺ ﺻﺤﺎﺑﯽ ﺗﮭﮯ
ﯾﮧ ﺳﻦ ﮐﺮ ﻭﮦ ﺭﻭﻧﮯ ﻟﮕﮯ... ﮐﮧ
ﺟﻮ ﺍﺷﻌﺎﺭ ﺍﺑﮭﯽ ﻣﯿﺮﯼ ﺯﺑﺎﻥ ﺳﮯ ﺍﺩﺍ بھی ﻧﮩﯿﮟ ہوئے، ﻣﯿﺮﮮ اپنے ﮐﺎﻧﻮﮞ ﻧﮯ ابھی ﻧﮩﯿﮟ ﺳﻨﮯ...
ﺁﭖ کے ﺭﺏ ﻧﮯ ﻭﮦ ﺑﮭﯽ ﺳﻦ ﻟﺌﯿﮯ....
اور آپ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺳﻠﻢ کو بتا بهی دیا. ﺁﭖ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﻧﮯ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ ﮐﮧ ﻭﮦ ﮐﯿﺎ ﺍﺷﻌﺎﺭ ﺗﮭﮯ
ﮨﻤﯿﮟ ﺳﻨﺎﺋﯿﮟ
ﺍﻥ ﺻﺤﺎﺑﯽ ﻧﮯ ﺍﺷﻌﺎﺭ ﭘﮍﮬﻨﺎ ﺷﺮﻭﻉ ﮐﯿﮯ

( ﺁﭖ ﮐﻮ ﺍﻥ ﮐﺎ آسان ﺗﺮﺟﻤﮧ بتانے کی کوشش کرتے ہیں، کیونکہ جو اشعار تھے اور جس اعلی پائے کے تھے اور جو جذبات کی کیفیت تھی، ان کی صحیح ترجمانی اردو میں مشکل ہے بہرحال اشعار کچھ اس طرح سے تھے کہ )
ﺍﮮ ﻣﯿﺮﮮ ﺑﯿﭩﮯ !
ﺟﺲ ﺩﻥ ﺗﻮ ﭘﯿﺪﺍ ﮬﻮﺍ
ﮨﻤﺎﺭﯼ محنت ﮐﮯ ﺩﻥ ﺗﺒﮭﯽ ﺳﮯ ﺷﺮﻭﻉ ﮬﻮﮔﺌﮯ ﺗﮭﮯ.
ﺗﻮ ﺭﻭﺗﺎ ﺗﮭﺎ ، ﮨﻢ ﺳﻮ ﻧﮩﯿﮟﺳﮑﺘﮯﺗﮭﮯ.
ﺗﻮ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﮭﺎﺗﺎ ﺗﻮ ﮨﻢ ﮐﮭﺎ ﻧﮩﯿﮟ ﺳﮑﺘﮯ ﺗﮭﮯ.
ﺗﻮ ﺑﯿﻤﺎﺭ ﮬﻮ ﺟﺎﺗﺎ ﺗﻮ ﺗﺠﮭﮯ ﻟﯿﺌﮯ ﻟﯿﺌﮯ ﮐﺒﮭﯽ ﮐﺴﯽ ﻃﺒﯿﺐﮐﮯ ﭘﺎﺱ علاج معالجے کے لیے مارے مارے پھرتے تھے ﮐﮧ ﮐﮩﯿﮟ تجھے کچھ ہو نہ جائے.
ﮐﮩﯿﮟ ﻣﺮ ﻧﮧ ﺟﺎﺋﮯ
حالانکہ ﻣﻮﺕ ﺍﻟﮓ ﭼﯿﺰ ﮬﮯ ﺍﻭﺭ ﺑﯿﻤﺎﺭﯼ ﺍﻟﮓ ﭼﯿﺰ ﮬﮯ
ﭘﮭﺮ ﺗﺠﮭﮯ ﮔﺮﻣﯽ ﺳﮯ ﺑﭽﺎﻧﮯ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﻣﯿﮟ ﺩﻥ ﺭﺍﺕ ﮐﺎﻡ ﮐﺮﺗﺎﺭﮨﺎ
ﮐﮧﻣﯿﺮﮮ ﺑﯿﭩﮯ ﮐﻮ ﭨﮭﻨﮉﯼ ﭼﮭﺎؤﮞ ﻣﻞ ﺟﺎﮮ
ﭨﮭﻨﮉ ﺳﮯ ﺑﭽﺎﻧﮯ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﭘﺘﮭﺮ ﺗﻮﮌﮮ
ﺗﻐﺎﺭﯾﺎﮞ ﺍﭨﮭﺎﺋﯿﮟ ﮐﮧ ﻣﯿﺮﮮ ﺑﭽﮯ ﮐﻮ ﮔﺮمی ﻣﻞ ﺟﺎﮮ
ﺟﻮ ﮐﻤﺎﯾﺎ ﺗﯿﺮﮮ ﻟﯿﺌﮯ
ﺟﻮ ﺑﭽﺎﯾﺎ ﺗﯿﺮﮮ ﻟﯿﺌﮯ
ﺗﯿﺮﯼ ﺟﻮﺍﻧﯽ ﮐﮯ ﺧﻮﺍﺏ ﺩﯾﮑﮭﻨﮯ ﮐﮯ ﻟﯿﺌﮯ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺩﻥ ﺭﺍﺕﺍﺗﻨﯽ ﻣﺤﻨﺖ ﮐﯽ ﮐﮧ اب ﻣﯿﺮﯼ ﮨﮉﯾﺎﮞ تک کمزور ﮨﻮ گئی ہیں لیکن تو کڑیل جوان ہو گیا ہے....
ﭘﮭﺮ....
ﻣﺠﮫ ﭘﺮ ﺧﺰﺍﮞ ﻧﮯ ﮈﯾﺮﮮ ڈال ﻟﺌﮯ لیکن ﺗﺠﮫ ﭘﺮ ﺑﮩﺎﺭ ﺁﮔﺌﯽ...
ﻣﯿﮟ ﺟﮭﮏ ﮔﯿﺎ
ﺗﻮ ﺳﯿﺪﮬﺎ ﮨﻮ ﮔﯿﺎ
ﺍﺏ میری خواہش اور ﺍﻣﯿﺪ پوری ہوئی
ﮐﮧ ﺍﺏ ﺗﻮ ﮨﺮﺍ ﺑﮭﺮﺍ ﮬﻮ ﮔﯿﺎ ﮬﮯ
ﭼﻞﺍﺏ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﮐﯽ ﺁﺧﺮﯼ ﺳﺎﻧﺴﯿﮟ ﺗﯿﺮﯼ ﭼﮭﺎﻭﮞ ﻣﯿﮟ ﺑﯿﭩﮫ ﮐﺮ
ﮔﺰﺍﺭﻭﮞ ﮔﺎ
ﻣﮕﺮﯾﮧ ﮐﯿﺎ ﮐﮧ ﺟﻮﺍﻧﯽ ﺁﺗﮯ ﮬﯽ
ﺗﯿﺮﮮ ﺗﯿﻮﺭ ﺑﺪﻝ ﮔﺌﮯ....
ﺗﯿﺮﯼ ﺁﻧﮑﮭﯿﮟ ﻣﺎﺗﮭﮯ ﭘﺮ ﭼﮍﮪ ﮔﺌﯿﮟ....
ﺗﻮ ﺍﯾﺴﮯ ﺑﺎﺕ ﮐﺮﺗﺎ ہے ﮐﮧ جیسے ﻣﯿﺮﺍ ﺳﯿﻨﮧ ﭘﮭﺎﮌ ﮐﺮ ﺭﮐﮫ ﺩﯾﺘﺎ ہے
ﺗﻮ ﺍﯾﺴﮯ ﺑﺎﺕ ﮐﺮﺗﺎ ﮐﮧ ﮐوئی غلام ﺳﮯ ﺑﮭﯽ ﺍﯾﺴﮯ ﻧﮩﯿں کرتا...
ﭘﮭﺮ
ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﯽ ساری زندگی کی ﻣﺤﻨﺖ ﮐﻮ ﺟﮭﭩﻼ ﺩﯾﺎﮐﮧ
ﻣﯿﮟ ﺗﯿﺮﺍ ﺑﺎﭖ ﻧﮩﯿﮟ ﻧﻮﮐﺮ ﮬﻮﮞ....
ﻧﻮﮐﺮ ﮐﻮ ﺑﮭﯽ ﮐﻮئی ﺍﯾﮏ ﻭﻗﺖ ﮐﯽ ﺭﻭﭨﯽ ﺩﮮ ﮨﯽ ﺩﯾﺘﺎ ﮬﮯ...
ﺗﻮ ﻧﻮﮐﺮ ﺳﻤﺠﮫ ﮐﺮ ﮨﯽ ﻣﺠﮭﮯﺭﻭﭨﯽ ﺩﮮ ﺩﯾﺎ ﮐﺮ....
ﯾﮧ ﺍﺷﻌﺎﺭ ﺳﻨﺎﺗﮯ ﺳﻨﺎﺗﮯ ﺍﻥ ﮐﯽ ﻧﻈﺮ ﺍﻟﻠﮧ ﮐﮯ ﺭﺳﻮﻝ صلی اللہ علیہ والہ و سلم کے چہرہ مبارک ﭘﺮ پڑی تو دیکھا کہ
ﺁﭖ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ و آلہ ﻭﺳﻠﻢ ﺍﺗﻨﺎ ﺭﻭﺋﮯ ﮐﮧ ﺁﭖ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ و آلہ ﻭﺳﻠﻢ ﮐﯽ ﺩﺍﮌﮬﯽ ﻣﺒﺎﺭﮎ ﺗﺮ ﮨﻮ ﮔﺌﯽ
ﺁﭖ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ و آلہ ﻭﺳﻠﻢ جلال ﻣﯿﮟ ﺍﭘﻨﯽ ﺟﮕﮧ ﺳﮯ ﺍﭨﮭﮯﺍﻭﺭ
ﺑﯿﭩﮯ ﺳﮯ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ ﮐﮧ
ﺁﺋﻨﺪﮦ ﻣﯿﺮﯼ ﻧﻈﺮﻭﮞ ﮐﮯ ﺳﺎﻣﻨﮯ ﻣﺖ ﺁﻧﺎ
ﺍﻭﺭ ﺳﻦ ﻟﻮ...
ﺗﻮ ﺍﻭﺭ ﺗﯿﺮﺍ ﺳﺐ ﮐﭽﮫ ﺗﯿﺮﮮ ﺑﺎﭖ ﮐﺎ ﮨﮯ
ﺗﻮ ﺍﻭﺭ ﺗﯿﺮﺍ ﺳﺐ ﮐﭽﮫ ﺗﯿﺮﮮ ﺑﺎﭖ ﮐﺎ ﮨﮯ
ﺗﻮ ﺍﻭﺭ ﺗﯿﺮﺍ ﺳﺐ ﮐﭽﮫ ﺗﯿﺮﮮ ﺑﺎﭖ ﮐﺎ ﮨﮯ.
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ !

شیخ محترم @اسحاق سلفی بھائی
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ ؛
محترم بھائی : اس واقعہ کی سند ضعیف ہے ،،
البتہ اس واقعہ میں موجود صرف ایک جملہ صحیح ثابت ہے ،کہ ’’ تو اور تیرا مال تیرے باپ کا ہے ،، اور یہ دوسری صحیح حدیث میں منقول ہے ؛
جو یہ ہے :

عن جابر بن عبد الله، أن رجلا قال: يا رسول الله إن لي مالا وولدا، وإن أبي يريد أن يجتاح مالي، فقال: «أنت ومالك لأبيك» (سنن ابن ماجہ )
__________

[تعليق محمد فؤاد عبد الباقي]
في الزوائد إسناده صحيح ورجاله ثقات على شرط البخاري ۔۔۔و قال الشيخ الألباني: صحيح
ترجمہ :
سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ایک شخص نے کہا: اللہ کے رسول! میرے پاس مال اور اولاد دونوں ہیں، اور میرے والد میرا مال ختم کرنا چاہتے ہیں! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم اور تمہارا مال دونوں تمہارے والد کے ہیں“۔

اور دوسری حدیث میں ارشاد ہے :

عن عمرو بن شعيب، عن أبيه، عن جده، قال: جاء رجل إلى النبي صلى الله عليه وسلم، فقال: إن أبي اجتاح مالي، فقال: «أنت ومالك لأبيك» وقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «إن أولادكم من أطيب كسبكم، فكلوا من أموالهم»
(رواہ احمد و ابن ماجہ ‘‘ و صححه الألباني في "صحيح ابن ماجة" .


ترجمہ :
عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ کر کہا: میرے والد نے میری دولت ختم کر دی (اس کے بارے میں فرمائیں؟) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم اور تمہاری دولت دونوں تمہارے والد کے ہیں“ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تمہاری اولاد تمہاری بہترین کمائی ہے لہٰذا تم ان کے مال میں سے کھاؤ“
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور جہاں تک آپ کے پیسٹ کیئے گئے واقعہ کی تحقیق کا معاملہ ہے ، تو عرض ہے کہ پہلے تو اس واقعہ کا اصل متن ترجمہ کے ساتھ پیش ہے
امام طبرانی المعجم الاوسط میں روایت کرتے ہیں :

عن جابر بن عبد الله قال: جاء رجل إلى النبي صلى الله عليه وسلم، فقال: يا رسول الله، إن أبي أخذ مالي، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم للرجل: «اذهب، فائتني بأبيك، فنزل جبريل على النبي صلى الله عليه وسلم، فقال: إن الله يقرئك السلام، ويقول: إذا جاءك الشيخ، فسله عن شيء قاله في نفسه ما سمعته أذناه» ،
فلما جاء الشيخ قال له النبي صلى الله عليه وسلم: «ما زال ابنك يشكوك أنك تأخذ ماله؟» قال: سله يا رسول الله، هل أنفقه إلا على إحدى عماته أو خالاته أو على نفسي؟ فقال النبي صلى الله عليه وسلم: «إيه، دعنا من هذا، أخبرني عن شيء قلته في نفسك، ما سمعته أذناك»
قال الشيخ: والله يا رسول الله ما يزال الله يزيدنا بك يقينا، قلت في نفسي شيئا ما سمعته أذناي قال: «قل، وأنا أسمع» . قال: قلت:
[البحر الطويل]
غذوتك مولودا ومنتك يافعا ... تعل بما أجني عليك وتنهل
إذا ليلة ضافتك بالسقم لم أبت ... لسقمك إلا ساهرا أتململ
تخاف الردى نفسي عليك وإنها ... لتعلم أن الموت وقت مؤجل
كأني أنا المطروق دونك بالذي ... طرقت به دوني فعيناي تهمل
فلما بلغت السن والغاية التي ... إليها مدى ما فيك كنت أؤمل
جعلت جزائي غلظة وفظاظة ... كأنك أنت المنعم المتفضل
فليتك إذ لم ترع حق أبوتي ... كما يفعل الجار المجاور تفعل
قال: فعند ذلك أخذ النبي صلى الله عليه وسلم بتلابيب ابنه، وقال: «أنت ومالك لأبيك»
(قال الطبرانی ) لم يرو هذا الحديث بهذا اللفظ والشعر عن المنكدر بن محمد بن المنكدر إلا عبد الله بن نافع، تفرد به عبيد بن خلصة"

ترجمہ :
ایک شخص نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور شکایت کی کہ میرے والد نے میرا سب مال لے لیا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ
علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اپنے والد کو بلا کر لاؤ۔ اسی وقت جبرئیل علیہ السلام تشریف لائے اور عرض کیا اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ
وسلم جب اس لڑکے کا والد آجائے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس سے پوچھیں کہ وہ کلمات کیا ہیں جو اس نے دل میں کہے ہیں۔ اس کے کانوں نے
بھی ان کو نہیں سنا۔”
جب وہ نوجوان اپنے والد کو لے کر آیا۔ تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا آپ کا بیٹا آپ کی شکایت کرتا ہے کیا آپ
نے اس کا مال چھین لیا ہے ، والد نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آپ صلی علیہ وسلم اسی سے پوچھ لیں کہ میں اس کی پھوپھی
، خالہ یا اپنے نفس کے سوا کہیں خرچ کرتا ہوں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پس حقیقت معلوم ہو گئی۔
اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے والد سے دریافت فرمایا وہ کلمات کیا ہیں جو تم نے دل میں کہے اور تمہارے کانوں نے بھی نہیں سنا
؟اس شخص نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یعنی جو بات کانوں نے سنی اس کی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اطلاع ہو گئی پھر اس نے
کہا کہ میں نے چند اشعار دل میں پڑھے تھے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا وہ اشعار ہمیں بھی بتاو۔ اس صحابی رضی اللہ عنہ نے عرض کیا
میں نے دل میں یہ کہا تھا ::
” میں نے تجھے بچپن میں غذا دی اور جوان ہونے
کے بعد تمہاری ہر ذمہ داری اٹھائی تمہارا سب کچھ میری کمائی سے تھا۔
جب کسی رات تمہیں کوئی بیماری پیش آگئی تو میں نے رات نہ گزاری مگر
سخت بیداری اور بیقراری کے عالم میں۔ مگر ایسے جیسے کہ بیماری تمہیں
نہیں مجھے لگی ہوئی ہے جس کی وجہ سے تمام شب روتے ہوئے گزار دیتا۔
میرادل تمہاری ہلاکت سے ڈرتا رہا، اس کے باوجود کہ میں جانتا تھا کہ
موت کا ایک دن مقرر ہے۔ جب تو اس عمر کو پہنچ گیا تو پھر تم نے میرا
بدلہ سخت روئی اور سخت گوئی بنالیا، گویا کہ تم ہی مجھ پر احسان و انعام
کر رہے ہو۔ اگر تم سے میرا حق ادا نہیں ہو سکتا تو کم از کم اتنا ہی کر
لیتے جیسا ایک شریف پڑوسی کیا کرتا ہے۔ تو نے مجھے کم از کم پڑوسی کا
حق ہی دیا ہوتا۔ میرے ہی مال میں مجھ سے بخل سے کام نہ لیا ہوتا۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب یہ سنا تو بیٹے کو فرمایا ”انت و مالک لا بیک ” کہ تو اور تیرا مال سب تیرے باپ کا ہے۔

اس روایت کو ::
امام طبرانی نے المعجم الصغير ( رقم : 947 ) والأوسط (رقم الحديث 6570 )، والبيهقي نے اپنی کتاب دلائل النبوة ص 305 ) میں روایت کیا ہے ؛
وقال السخاوي في المقاصد الحسنة: والمنكدر ضعفوه من قبل حفظه وهو في الأصل صدوق لكن في السند إليه من لا يعرف.

وقال الألباني عن عبيد بن خلصة: ولم أجد من ترجمه، والمنكدر بن محمد بن المنكدر لين الحديث كما في "التقريب".(ارواء الغليل ج3 ص324 )
علامہ الالبانی فرماتے ہیں : اس کے ایک راوی عبید بن خلصہ کے حالات نہیں مل سکے ، اور دوسرا راوی محمد بن منکدر ضعیف ہے ‘‘
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

عبدالمنان

مشہور رکن
شمولیت
اپریل 04، 2015
پیغامات
735
ری ایکشن اسکور
178
پوائنٹ
123
سلسلة الأحاديث الصحيحة ( رقم: ٢٥٦٤)

عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِنَّ أَوْلَادَكُمْ هِبَةُ اللَّهِ لَكُمْ، يَهَبُ لِمَنْ يَشَاءُ إِنَاثًا، وَيَهَبُ لِمَنْ يَشَاءُ الذُّكُورَ، فَهُمْ وَأَمْوَالُهُمْ لَكُمْ إِذَا احْتَجْتُمْ إِلَيْهَا»


قال الشيخ الالباني رحمه الله: في الحديث فائدة فقهية هامة قد لا تجدها في غيره، وهي أنه يبين أن الحديث المشهور: " أنت ومالك لأبيك" (الإرواء ٨٣٨) ليس على إطلاقه، بحيث أن الأب يأخذ من مال ابنه ما يشاء، كلا، وإنما يأخذ ما هو بحاجة إليه.
 
Top