Bint e Rafique
رکن
- شمولیت
- جولائی 18، 2017
- پیغامات
- 130
- ری ایکشن اسکور
- 27
- پوائنٹ
- 40
سائنسدانوں کی ایک ٹیم نے پانچ بندروں کو ایک کمرے میں بند کیا۔ پھر اس کمرے میں انہوں نے ایک سیڑھی کے اوپر کچھ کیلے رکھ دیے۔ کیلوں کو دیکھ کر جب بھی کوئی بندر سیڑھی پر چڑھنا شروع کرتا ۔۔۔ سائنسدانوں کی ایک ٹیم نے پانچ بندروں کو ایک کمرے میں بند کیا۔ پھر اس کمرے میں انہوں نے ایک سیڑھی کے اوپر کچھ کیلے رکھ دیے۔ کیلوں کو دیکھ کر جب بھی کوئی بندر سیڑھی پر چڑھنا شروع کرتا ، سائنسدان چھت پر لگے ایک شاور کا والو کھول دیتے۔اس سے باقی بندروں کو کافی تکلیف ہوتی ، نتیجتاً اس کے بعد جب بھی کوئی بندر سیڑھی پر چڑھنے کی کوشش کرتا دوسرے بندر اسے سیڑھی چڑھنے سے روک دیتے، اپنی دانست میں وہ ایسا کر کے پانی کی بوچھاڑ کو بھی روک دیتے تھے۔تھوڑی دیر بعد پانی کا والو کمرے سے ہٹا دیا گیا،اور اگلامرحلہ طے کیا گیا۔کچھ دیر بعد اس کمرے کی صورتحال یہ تھی کہ کیلوں کے لالچ کے باوجود ، پانی کی بوچھاڑ نہ ہوتے ہوئے بھی ،کوئی بھی بندر سیڑھی پر چڑھنے کی ہمت نہیں کر پا رہا تھا۔کافی دیر اسی طرح گزری تو سائنسدانوں نی ان میں سے ایک بندر کو تبدیل کر دیا ۔ نئے بندر نے آتے ہی کیلے دیکھ کر سیڑھی پر چڑھنے کی کوشش کی لیکن دوسرے بندروں نے اسے مارنا شروع کر دیا۔
کچھ دیر پٹنے کے بعد اس بندر نے سیڑھی پر چڑھنے کی کوشش ترک کر دی یہ جانے بغیر ہی کہ آخر اس کی وجہ کیا ہے۔ پھر سائنسدان ایک ایک کر کے بندر تبدیل کرتے گئے، ہر نیا بندر کمرے میں آتے ہی کیلوں کو دیکھ کر سیڑھی چڑھنے کی کوشش کرتااور دوسرے بندروں سے مار کھاتا۔ پھر مار کھانے کے بعد وہ بھی انہی بندروں کی سوچ کو اپنا لیتا اور پرانے بندروں کے ساتھ مل کر نئے بندروں کو سیڑھی چڑھنے سے روکنے کی کوشش میں اس کی مار لگاتا۔اب کمرے میں سارے بندر ایسے تھے جنہیں شاور کے پانی سے بھیگنے کا تجربہ نہیں تھا لیکن سیڑھی کی جانب لپکے والےبندر کو وہ بھی روکنے کی کوشش کرتے اور اس کی مار لگاتے۔ اگر یہ ممکن ہوتا کہ ان بندروں سے پوچھا جا سکتا کہ تم ایسا کیوں کرتے ہو؟ تو یقیناً ان کا جواب یہی ہوتا کہ ہمیں نہیں معلوم ہم نے تو اپنے اسلاف اور بزرگوں کو ایسا ہی کرتے دیکھا ہے۔ کیا آپ کو یہ جملہ مانوس سا نہیں لگتا؟ کیا آپ کو محسوس نہیں ہوتا کہ روایات پرستوں کا ذہن ان بندروں کی طرح کبھی بھی آگے نہیں بڑھ پاتا اور وہ بعض صورتوں میں ان بندروں سے بھی پست جگہ پر جا گرتے ہیں۔ اگر ان روایات پرستوں کے سامنے حقائق، دلائل کوئی اہمیت نہیں رکھتی وہ صرف یہ روایت شدت پسندی کے ساتھ جاری رکھنا چاہتے ہیں کہ انکے سابقہ ساتھی اور آباواجداد یہی کرتے آئے ہیں"۔
کچھ دیر پٹنے کے بعد اس بندر نے سیڑھی پر چڑھنے کی کوشش ترک کر دی یہ جانے بغیر ہی کہ آخر اس کی وجہ کیا ہے۔ پھر سائنسدان ایک ایک کر کے بندر تبدیل کرتے گئے، ہر نیا بندر کمرے میں آتے ہی کیلوں کو دیکھ کر سیڑھی چڑھنے کی کوشش کرتااور دوسرے بندروں سے مار کھاتا۔ پھر مار کھانے کے بعد وہ بھی انہی بندروں کی سوچ کو اپنا لیتا اور پرانے بندروں کے ساتھ مل کر نئے بندروں کو سیڑھی چڑھنے سے روکنے کی کوشش میں اس کی مار لگاتا۔اب کمرے میں سارے بندر ایسے تھے جنہیں شاور کے پانی سے بھیگنے کا تجربہ نہیں تھا لیکن سیڑھی کی جانب لپکے والےبندر کو وہ بھی روکنے کی کوشش کرتے اور اس کی مار لگاتے۔ اگر یہ ممکن ہوتا کہ ان بندروں سے پوچھا جا سکتا کہ تم ایسا کیوں کرتے ہو؟ تو یقیناً ان کا جواب یہی ہوتا کہ ہمیں نہیں معلوم ہم نے تو اپنے اسلاف اور بزرگوں کو ایسا ہی کرتے دیکھا ہے۔ کیا آپ کو یہ جملہ مانوس سا نہیں لگتا؟ کیا آپ کو محسوس نہیں ہوتا کہ روایات پرستوں کا ذہن ان بندروں کی طرح کبھی بھی آگے نہیں بڑھ پاتا اور وہ بعض صورتوں میں ان بندروں سے بھی پست جگہ پر جا گرتے ہیں۔ اگر ان روایات پرستوں کے سامنے حقائق، دلائل کوئی اہمیت نہیں رکھتی وہ صرف یہ روایت شدت پسندی کے ساتھ جاری رکھنا چاہتے ہیں کہ انکے سابقہ ساتھی اور آباواجداد یہی کرتے آئے ہیں"۔