• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اس پوسٹ کا جواب مطلوب هے....؟

abulwafa80

رکن
شمولیت
مئی 28، 2015
پیغامات
64
ری ایکشن اسکور
6
پوائنٹ
57
بیس تراویح کے دلائل پر منکرین کے اعتراضات کا علمی جائزہ

از قلم: متکلم اسلام مولانا محمد الیاس گھمن حفظہ اللہ

راقم نے پندرہ دلائل پر مشتمل ایک پوسٹر ”بیس رکعات تراویح کے دلائل“ کے عنوان سے ترتیب دیا تھا جسے علمی اور عوامی حلقوں میں بے حد پزیرائی اور مقبولیت حاصل ہوئی۔ لیکن غیر مقلدین نے اس میں پیش کیے گئے احادیث اور آثار صحابہ رضی اللہ عنہم کے دلائل کو "گُھمنی دلائل" کہہ کر رد کردیا۔ غیرمقلدین کے مشہور محقق زبیر علی زئی کی جانب سے ان دلائل پر کیے گئے اعتراضات کے تفصیلی جوابات الحمد للہ بندہ نے تحریر کردیے ہیں اور درج ذیل لنک سے ان کو پڑھا جاسکتا ہے۔ اعتراضات کا جواب دینا ہمارے ذمہ تھا، ان جوابات کو پھیلانا آپ کے ذمہ ہے۔
شارٹ لنک:

http://goo.gl/zYkrnL

اگر یہ شارٹ لنک کام نہ کرے تو درج ذیل لنک پر جائیں

http://library.ahnafmedia.com/index.php/18-masail-aur-dalail/111-answer-to-zuber-ali-zai-on-20-taraweeh-dalail-molana-ilyas-ghuman
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,416
ری ایکشن اسکور
2,733
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
بس اس بات کا تحیہ آپ کریں آپ تھریڈ سے مفرور نہ ہونگے! بشرط زندگی!!
آپ یہ اعلان کریں ! پھر آغاز کرتے ہیں!!
 

جوش

مشہور رکن
شمولیت
جون 17، 2014
پیغامات
621
ری ایکشن اسکور
320
پوائنٹ
127
الحمدللہ جواب تو بہت دیا جا چکا ہے۔ اب ضرورت اس بات کی ہے کہ مسلمان اپنے سچے ایمان کا ثبوت دیکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت پر عمل کرے اور اگر کوئی عمدا حدیث کو نیچا دکھا کرلوگوں کے اقوال کو اوپر کررہا ہے تو وہ اسی زمرے میں آتا ہے (اتخذوااحبارھم و رھبانھم اربابا من دون اللہ)اور ایسے لوگوں کو یہ آیت یاد رکھنی چاہئے (یوم تقلب وجوھھم فی النار یقولون یلیتنا اطعنا اللہ واطعنا الرسول، قالوا انا اطعنا سادتنا و کبراءنافاضلوناالسبیلا، ربناآتھم ضعفین من العذاب والعنھم لعنا کبیرا۔
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,416
ری ایکشن اسکور
2,733
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
شیخ زبیر علی زئی رحمہ اللہ کی جانب سے مقلدین احناف کے بیس رکعات تراویح کے سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہونےکے دلائل کا نقص بیان کیا تھا۔ الیا س گھمن صاحب نے اس کا جواب دینے کی کوشش کی۔
وہ تحریر محدث فورم پر پیش کی گئی، اور جواب طلب کیا گیا۔
تو جناب جواب حاضر ہے!
بیس تراویح کے دلائل پر منکرین کے اعتراضات کا علمی جائزہ ۔ از قلم: متکلم اسلام مولانا محمد الیاس گھمن حفظہ اللہ
دلیل نمبر 1 :
قَالَ الْاِمَامُ الْحَافِظُ حَمْزَةُ بْنُ يُوْسُفَ حَدَّثَنَا أَبُو الْحَسَنِ عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ أَحْمَدَ الْقَصْرِيُّ الشَّيْخُ الصَّالِحُ رَحِمَهُ اللَّهُ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَبْدِ الْمُؤْمِنِ الْعَبْدُ الصَّالِحُ قَالَ أَخْبَرَنِي مُحَمَّدُ بْنُ حُمَيْدٍ الرَّازِيُّ حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ هَارُونَ حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ الْحنازِ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ عَتِيكٍ2 عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ خَرَجَ النبي صلى اللَّه عليه وسلم ذَاتَ لَيْلَةٍ فِي رَمَضَانَ فَصَلَّى النَّاسُّ أَرْبَعَةً وَعِشْرِينَ رَكْعَةً وَأَوْتَرَ بِثَلاثَةٍ.
(تاريخ جرجان لحافظ حمزة بن يوسف بن إبراهيم السهمي ص146)

ترجمہ: حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم رمضان شریف کی ایک رات تشریف لائے۔لوگوں کو چار رکعات فرض، بیس رکعات (تراویح)اور تین رکعات وتر پڑھائے۔
اعتراض نمبر1:
فرقہ غیر مقلدین نے اس روایت کے دو راویوں پر اعتراض کیا ہے:
1: محمد بن حمید الرازی پر محدثین نے جرح کی ہے۔
2: عمر بن ہارون البلخی بھی مجروح ہے۔
(ضرب حق: جولائی 2012ء مضمون زبیر علیزئی)
الیاس گھمن صاحب نے ان اعتراضات کو رفع کرنے کی کوشش کی ہے۔ اب ہم ان کے جوابات بھی پیش کرتے جائیں گے اور ان جوابات کی حثیت بھی بیان کرتے جائیں گے!
جواب:
پہلی بات...... اصولِ حدیث کا قاعدہ ہے کہ جس روایت کے مضمون پر اجماع ہو چکا ہو اور جمہور ائمہ کا تعامل اس کے مطابق ہو تو بعض راویوں کا ضعف چنداں مضر نہیں ہوتا (اور خیر سے یہ راوی حسن درجہ کے ہیں) بلکہ روایت صحیح شمار ہوتی ہے۔ چنانچہ علامہ ابن حزم فرماتے ہیں:
وَقَالَ فِي مَوضِع آخر وَإِذا ورد حَدِيث مُرْسل أَو فِي أحد ناقليه ضَعِيف فَوَجَدنَا ذَلِك الحَدِيث مجمعا على أَخذه وَالْقَوْل بِهِ علمنَا يَقِينا أَنه حَدِيث صَحِيح لَا شكّ فِيهِ وَأَنه مَنْقُول نقل الكافة مُسْتَغْنى عَن نقل الْآحَاد وَذَلِكَ كالحديث لَا وَصِيَّة لوَارث وَمَا أشبه ذَلِك.
(توجيه النظر إلى أصول الأثر:ج1 ص141)

کہ جب کوئی مرسل روایت آئے یا کوئی ایسی روایت ہو جس کے راویوں میں سے کسی میں کوئی ضعف ہو لیکن اس حدیث کو لینے اور اس پر عمل کرنے کے سلسلہ میں اجماع واقع ہو چکا ہو تو ہم یقینا یہ جان لیں گے کہ یہ حدیث ”صحیح“ ہے اور اس میں کوئی شک نہیں۔
چونکہ بیس رکعت تراویح پر اجماع ہے (ملاحظہ ہو راقم کی کتاب ”فضائل و مسائل رمضان“) اس لیے اگر اس حدیث کے کسی راوی میں ضعف بھی ہو تب بھی کوئی مضائقہ نہیں بلکہ ایسی حدیث صحیح شمار ہو گی۔
الیاس گھمن صاحب نے اپنی کتاب میں بیس رکعات تراویح پر جو اجماع کی جو دلیل پیش کی ہے وہ بھی نقل کر دیتے ہیں:
اجماع امت:
1: ملا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں: أَجْمَعَ الصَّحَابَةُ عَلَى أَنَّ التَّرَاوِيحَ عِشْرُونَ رَكْعَةً. (مرقاة المفاتيح: ج3 ص 346 باب قيام شهر رمضان- الفصل الثالث)
ترجمہ: تمام صحابہ رضی اللہ عنہم کا اجماع ہے کہ تراویح بیس رکعات ہے۔
2: محدث علامہ ابو زکریا یحیی بن شرف الدین نوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: اعلم أن صلاة التراويح سُنّة باتفاق العلماء، وهي عشرون ركعة، (كتاب الاذكار ص 226 باب اذكار صلاة التراويح)
ترجمہ: نماز تراویح باتفاق علماء سنت ہے اور یہ بیس رکعتیں ہیں۔
صفحہ 122 رمضان المبارک کے فضائل و مسائل – محمد الیاس گھمن – مطبوعہ دار الایمان
سب سے پہلے تو الیاس گھمن صاحب کے اس دعوی کا بطلان ثابت کرتے ہیں کہ:
چونکہ بیس رکعت تراویح پر اجماع ہے اس لیے اگر اس حدیث کے کسی راوی میں ضعف بھی ہو تب بھی کوئی مضائقہ نہیں بلکہ ایسی حدیث صحیح شمار ہو گی۔
الیاس گھمن صاحب نے بیس تراویح پر اجماع کے ثبوت میں ملا علی قاری رحمہ اللہ اور امام نووی رحمہ اللہ کی عبارات پیش کی ہیں۔ ہم پہلے امام نووی رحمہ اللہ کی عبارت کا جائزہ لیتے ہیں۔
2: محدث علامہ ابو زکریا یحیی بن شرف الدین نوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: اعلم أن صلاة التراويح سُنّة باتفاق العلماء، وهي عشرون ركعة، (كتاب الاذكار ص 226 باب اذكار صلاة التراويح)
ترجمہ: نماز تراویح باتفاق علماء سنت ہے اور یہ بیس رکعتیں ہیں۔
الیاس گھمن صاحب نے خود فریب سے کام لیا ہے، یا یہ خود فریب کا شکار ہو گئے ہیں، کچھ بھی ہو، معاملہ تو یہ ہے کہ:
امام نووی رحمہ اللہ نے بیس رکعت تراویح پر علماء کا اتفاق ذکر نہیں کیا، بلکہ تراویح کے سنت ہونے پر اجماع نقل کیا ہے، جسے الیاس گھمن صاحب نے فریب کاری سے کام لیتے ہوئے بیس رکعات ترایح پر اجماع نقل کرنے کی لا حاصل سعی کی ہے۔
ہم آپ کو امام نووی رحمہ اللہ کی تصریح پیش کرتے ہیں:
أَمَّا حُكْمُ الْمَسْأَلَةِ فَصَلَاةُ التَّرَاوِيحِ سُنَّةٌ بِإِجْمَاعِ الْعُلَمَاءِ وَمَذْهَبُنَا أَنَّهَا عِشْرُونَ رَكْعَةً بِعَشْرِ تَسْلِيمَاتٍ وَتَجُوزُ مُنْفَرِدًا وَجَمَاعَةً

ملاحظہ فرمائیں:صفحه 526 جلد 03المجموع شرح المهذب - أبو زكريا محيي الدين يحيى بن شرف النووي - مكتبة الإرشاد
ملاحظہ فرمائیں:صفحه 788المجموع شرح المهذب - أبو زكريا محيي الدين يحيى بن شرف النووي - بيت الأفكار
ملاحظہ فرمائیں:صفحه 31 جلد 04المجموع شرح المهذب - أبو زكريا محيي الدين يحيى بن شرف النووي - إدارة الطباعة المنيرية

امام نووی رحمہ اللہ کا کہ ہمارا مذہب یہ ہے کہ یہ(صلاة التراويح) بیس رکعات ہیں، اس بات کا صریح بیان ہے کہ امام نووی نے بیس رکعات تراویح پر علماء کا اتفاق بیان نہیں کیا!!
یہی نہیں ! امام نووی رحمہ اللہ علماء تراویح کی رکعات کی تعداد میں علماء کے مختلف مذاہب بیان کرکے علماء کے اختلاف کو بیان کرتے ہیں، اور اپنے مؤقف کو بیان کرکے امام مالک رحمہ اللہ سے مؤقف نقل کیا ہے کہ امام مالک وتر کے علاوہ چھتیس 36 رکعات تراویح کے قائل ہیں۔ اور اسے اہل مدینہ کا عمل بھی بتلایا۔

* (فَرْعٌ)
فِي مَذَاهِبِ الْعُلَمَاءِ فِي عَدَدِ رَكَعَاتِ التَّرَاوِيحِ
* مَذْهَبُنَا أَنَّهَا عِشْرُونَ رَكْعَةً بِعَشْرِ تَسْلِيمَاتٍ غَيْرَ الْوِتْرِ وَذَلِكَ خَمْسُ تَرْوِيحَاتٍ وَالتَّرْوِيحَةُ أَرْبَعُ رَكَعَاتٍ بِتَسْلِيمَتَيْنِ هَذَا مَذْهَبُنَا وَبِهِ قَالَ أَبُو حَنِيفَةَ وَأَصْحَابُهُ وَأَحْمَدُ وَدَاوُد وَغَيْرُهُمْ وَنَقَلَهُ الْقَاضِي عِيَاضٌ عَنْ جُمْهُورِ الْعُلَمَاءِ وَحُكِيَ أن الاسود بن مزيد كَانَ يَقُومُ بِأَرْبَعِينَ رَكْعَةً وَيُوتِرُ بِسَبْعٍ وَقَالَ مالك التراويح تسع ترويحات وهى ستة وَثَلَاثُونَ رَكْعَةً غَيْرَ الْوِتْرِ
* وَاحْتَجَّ بِأَنَّ أَهْلَ الْمَدِينَةِ يَفْعَلُونَهَا هَكَذَا وَعَنْ نَافِعٍ قَالَ أَدْرَكْتُ النَّاسَ وَهُمْ يَقُومُونَ رَمَضَانَ بِتِسْعٍ وَثَلَاثِينَ رَكْعَةً يُوتِرُونَ مِنْهَا بِثَلَاثٍ
* وَاحْتَجَّ أَصْحَابُنَا بِمَا رَوَاهُ الْبَيْهَقِيُّ وَغَيْرُهُ بِالْإِسْنَادِ الصَّحِيحِ عَنْ السَّائِبِ بْنِ يَزِيدَ الصَّحَابِيِّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ " كَانُوا يَقُومُونَ عَلَى عَهْدِ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فِي شَهْرِ رَمَضَانَ بِعِشْرِينَ ركعة وكانوا يقومون بالمائتين وكانوا يتوكؤون عَلَى عِصِيِّهِمْ فِي عَهْدِ عُثْمَانَ مِنْ شِدَّةِ الْقِيَامِ وَعَنْ يَزِيدَ بْنِ رُومَانَ قَالَ كَانَ النَّاسُ يَقُومُونَ فِي زَمَنِ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ بِثَلَاثٍ وَعِشْرِينَ رَكْعَةً رَوَاهُ مَالِكٌ فِي الْمُوَطَّأِ عَنْ يَزِيدَ بْنِ رُومَانَ وَرَوَاهُ الْبَيْهَقِيُّ لَكِنَّهُ مُرْسَلٌ فَإِنَّ يَزِيدَ بْنَ رُومَانَ لَمْ يُدْرِكْ عُمَرَ قَالَ الْبَيْهَقِيُّ يُجْمَعُ بَيْنَ الرِّوَايَتَيْنِ بِأَنَّهُمْ كَانُوا يَقُومُونَ بِعِشْرِينَ رَكْعَةً وَيُوتِرُونَ بِثَلَاثٍ وَرَوَى الْبَيْهَقِيُّ عَنْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَيْضًا قِيَامَ رَمَضَانَ بِعِشْرِينَ رَكْعَةً وَأَمَّا مَا ذَكَرُوهُ مِنْ فِعْلِ أَهْلِ الْمَدِينَةِ فَقَالَ أَصْحَابُنَا سَبَبُهُ أَنَّ أَهْلَ مَكَّةَ كَانُوا يَطُوفُونَ بَيْنَ كُلِّ تَرْوِيحَتَيْنِ طَوَافًا وَيُصَلُّونَ رَكْعَتَيْنِ وَلَا يَطُوفُونَ بَعْدَ التَّرْوِيحَةِ الْخَامِسَةِ فَأَرَادَ أَهْلُ الْمَدِينَةِ مُسَاوَاتَهُمْ فَجَعَلُوا مَكَانَ كُلِّ طَوَافٍ أَرْبَعَ رَكَعَاتٍ فَزَادُوا سِتَّ عَشْرَةَ رَكْعَةً وَأَوْتَرُوا بِثَلَاثٍ فَصَارَ الْمَجْمُوعُ تِسْعًا وَثَلَاثِينَ وَاَللَّهُ أَعْلَمُ
* (فَرْعٌ)
قَالَ صَاحِبَا الشَّامِلِ وَالْبَيَانِ وَغَيْرُهُمَا قَالَ أَصْحَابُنَا لَيْسَ لِغَيْرِ أَهْلِ الْمَدِينَةِ أَنْ يَفْعَلُوا فِي التَّرَاوِيحِ فِعْلَ أَهْلِ الْمَدِينَةِ فَيُصَلُّوهَا سِتًّا وَثَلَاثِينَ رَكْعَةً لِأَنَّ لِأَهْلِ الْمَدِينَةِ شَرَفًا بِمُهَاجَرَةِ رَسُولِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَمَدْفِنِهِ بِخِلَافِ غَيْرِهِمْ وَقَالَ الْقَاضِي أَبُو الطَّيِّبِ فِي تَعْلِيقِهِ قَالَ الشَّافِعِيُّ فَأَمَّا غَيْرُ أَهْلِ الْمَدِينَةِ فَلَا يَجُوزُ أَنْ يُمَارُوا أَهْلَ مَكَّةَ وَلَا يُنَافِسُوهُمْ


ملاحظہ فرمائیں:صفحه 527 جلد 03المجموع شرح المهذب - أبو زكريا محيي الدين يحيى بن شرف النووي - مكتبة الإرشاد
ملاحظہ فرمائیں:صفحه 789المجموع شرح المهذب - أبو زكريا محيي الدين يحيى بن شرف النووي - بيت الأفكار
ملاحظہ فرمائیں:صفحه 32 – 33 جلد 04المجموع شرح المهذب - أبو زكريا محيي الدين يحيى بن شرف النووي - إدارة الطباعة المنيرية

امام نووی رحمہ اللہ سے بیس رکعات تراویح پر اجماع نقل کرنے پر عرض ہے کہ:
دجل نا کن کہ فردا روز محشر
میان مومنان شرمندہ باشی

اب آتے ہیں بیس رکعات تراویح کے اجماع پر الیاس گھمن صاحب کی دوسری نقل پر:
1: ملا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں: أَجْمَعَ الصَّحَابَةُ عَلَى أَنَّ التَّرَاوِيحَ عِشْرُونَ رَكْعَةً. (مرقاة المفاتيح: ج3 ص 346 باب قيام شهر رمضان- الفصل الثالث)
ترجمہ: تمام صحابہ رضی اللہ عنہم کا اجماع ہے کہ تراویح بیس رکعات ہے۔
ملا علی قاری الحنفی کی عبارت اس کے سیاق کے ساتھ درج ذیل ہے۔
قَالَ ابْنُ تَيْمِيَةَ الْحَنْبَلِيُّ: اعْلَمْ أَنَّهُ لَمْ يُوَقِّتْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي التَّرَاوِيحِ عَدَدًا مُعَيَّنًا، بَلْ لَا يَزِيدُ فِي رَمَضَانَ، وَلَا فِي غَيْرِهِ عَلَى ثَلَاثَ عَشْرَةَ رَكْعَةً، لَكِنْ كَانَ يُطِيلُ الرَّكَعَاتِ، فَلَمَّا جَمَعَهُمْ عُمَرُ عَلَى أُبَيٍّ كَانَ يُصَلِّي بِهِمْ عِشْرِينَ رَكْعَةً، ثُمَّ يُوتِرُ بِثَلَاثٍ، وَكَانَ يُخَفِّفُ الْقِرَاءَةَ، بِقَدْرِ مَا زَادَ مِنَ الرَّكَعَاتِ ; لِأَنَّ ذَلِكَ أَخْفُ عَلَى الْمَأْمُومِينَ مِنْ تَطْوِيلِ الرَّكْعَةِ الْوَاحِدَةِ، ثُمَّ كَانَ طَائِفَةٌ مِنَ السَّلَفِ يَقُومُونَ بِأَرْبَعِينَ رَكْعَةً وَيُوتِرُونَ بِثَلَاثٍ، وَآخَرُونَ بِسِتٍّ وَثَلَاثِينَ وَأَوْتَرُوا بِثَلَاثٍ، وَهَذَا كُلُّهُ حَسَنٌ سَائِغٌ، وَمَنْ ظَنَّ أَنَّ قِيَامَ رَمَضَانَ فِيهِ عَدَدٌ مُعَيَّنٌ مُوَقَّتٌ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا يَزِيدُ وَلَا يَنْقُصُ، فَقَدْ أَخْطَأَ.
وَذَكَرَ السُّيُوطِيُّ فِي رِسَالَتِهِ أَنَّهُ يُسْتَحَبُّ لِأَهْلِ الْمَدِينَةِ سِتًّا وَثَلَاثِينَ رَكْعَةً تَشْبِيهًا بِأَهْلِ مَكَّةَ، حَيْثُ كَانُوا يَطُوفُونَ بَيْنَ كُلِّ تَرْوِيحَتَيْنِ طَوَافًا وَيُصَلُّونَ رَكْعَتَيْهِ، وَلَا يَطُوفُونَ بَعْدَ الْخَامِسَةِ، فَأَرَادَ أَهْلُ الْمَدِينَةِ مُسَاوَاتَهُمْ، فَجَعَلُوا مَكَانَ كُلِّ طَوَافٍ أَرْبَعَ رَكَعَاتٍ، وَلَوْ ثَبَتَ عَدَدُهَا بِالنَّصِّ لَمْ تَجُزْ الزِّيَادَةُ عَلَيْهِ، وَلَأَهْلُ الْمَدِينَةِ وَالصَّدْرُ الْأَوَّلُ كَانُوا أَوْرَعَ مِنْ ذَلِكَ.
وَقَالَ ابْنُ الْهُمَامِ: قَدَّمْنَا فِي بَابِ النَّوَافِلِ عَنْ أَبِي سَلَمَةَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، سَأَلْتُ عَائِشَةَ: كَيْفَ كَانَتْ صَلَاةُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي رَمَضَانَ؟ فَقَالَتْ: مَا كَانَ يَزِيدُ فِي رَمَضَانَ وَلَا غَيْرِهِ عَلَى إِحْدَى عَشْرَةَ رَكْعَةً الْحَدِيثَ، وَأَمَّا مَا رَوَى ابْنُ أَبِي شَيْبَةَ فِي مُصَنَّفِهِ، وَالطَّبَرَانِيُّ، وَالْبَيْهَقِيُّ مِنْ حَدِيثِ ابْنِ عَبَّاسٍ، «أَنَّهُ - عَلَيْهِ الصَّلَاةُ وَالسَّلَامُ - كَانَ يُصَلِّي فِي رَمَضَانَ عِشْرِينَ رَكْعَةً سِوَى الْوَتْرِ» ، فَضَعِيفٌ بِأَبِي شَيْبَةَ إِبْرَاهِيمَ بْنِ عُثْمَانَ جَدِّ الْإِمَامِ أَبِي بَكْرِ بْنِ أَبِي شَيْبَةَ، مُتَّفَقٌ عَلَى ضَعْفِهِ، مَعَ مُخَالَفَتِهِ لِلصَّحِيحِ، نَعَمْ ثَبَتَ الْعِشْرُونَ مِنْ زَمَنٍ عُمَرَ، فَفِي الْمُوَطَّأِ عَنْ يَزِيدَ بْنِ رُومَانَ، قَالَ: كَانَ النَّاسُ يَقُومُونَ فِي زَمَنِ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ بِثَلَاثٍ وَعِشْرِينَ رَكْعَةً، وَرَوَى الْبَيْهَقِيُّ فِي الْمَعْرِفَةِ عَنِ السَّائِبِ بْنِ يَزِيدَ قَالَ: كُنَّا نَقُومُ فِي زَمَنِ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ بِعِشْرِينَ رَكْعَةً وَالْوِتْرِ، قَالَ النَّوَوِيُّ فِي الْخُلَاصَةِ: إِسْنَادُهُ صَحِيحٌ.
وَفِي الْمُوَطَّأِ رِوَايَةٌ بِإِحْدَى عَشْرَةَ، وَجُمِعَ بَيْنَهُمَا بِأَنَّهُ وَقَعَ أَوَّلًا ثُمَّ اسْتَقَرَّ الْأَمْرُ عَلَى الْعِشْرِينَ، فَإِنَّهُ الْمُتَوَارَثُ، فَتَحْصُلُ مِنْ هَذَا كُلِّهِ أَنَّ قِيَامَ رَمَضَانَ سُنَّةً إِحْدَى عَشْرَةَ بِالْوِتْرِ فِي جَمَاعَةِ فِعْلِهِ - عَلَيْهِ الصَّلَاةُ وَالسَّلَامُ - ثُمَّ تَرَكَهُ لِعُذْرٍ أَفَادَ أَنَّهُ لَوْلَا خَشْيَةُ ذَلِكَ لَوَاظَبْتُ بِكُمْ، وَلَا شَكَّ فِي تَحَقُّقِ الْأَمْنِ مِنْ ذَلِكَ بِوَفَاتِهِ - عَلَيْهِ الصَّلَاةُ وَالسَّلَامُ - فَيَكُونُ سُنَّةً، وَكَوْنُهَا عِشْرِينَ سُنَّةُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ، وَقَوْلُهُ - عَلَيْهِ الصَّلَاةُ وَالسَّلَامُ: " «عَلَيْكُمْ بِسُنَّتِي وَسُنَّةِ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ» " نَدْبٌ إِلَى سُنَّتِهِمْ، وَلَا يَسْتَلْزِمُ كَوْنُ ذَلِكَ سُنَّتِهِ ; إِذْ سُنَّتُهُ بِمُوَاظَبَتِهِ بِنَفْسِهِ، أَوْ إِلَّا لِعُذْرٍ، وَبِتَقْدِيرِ عَدَمِ ذَلِكَ الْعُذْرِ إِنَّمَا اسْتَفَدْنَا أَنَّهُ كَانَ يُوَاظِبُ عَلَى مَا وَقَعَ مِنْهُ وَهُوَ مَا ذَكَرْنَا، فَيَكُونُ الْعِشْرُونَ مُسْتَحَبًّا، وَذَلِكَ الْقَدْرُ مِنْهَا هُوَ السُّنَّةُ كَالْأَرْبَعِ بَعْدَ الْعِشَاءِ مُسْتَحَبَّةً، وَرَكْعَتَانِ مِنْهَا هِيَ السُّنَّةُ.
وَظَاهِرُ كَلَامِ الْمَشَايِخِ أَنَّ السُّنَّةَ عِشْرُونَ، وَمُقْتَضَى الدَّلِيلِ مَا قُلْنَا، فَالْأَوْلَى حِينَئِذٍ مَا هُوَ عِبَارَةُ الْقَدُورِيِّ مِنْ قَوْلِهِ: مُسْتَحَبٌّ لَا مَا ذَكَرَهُ الْمُصَنِّفُ فِيهِ، أَيْ صَاحِبُ الْهِدَايَةِ فِي كِتَابِهِ مِنْ قَوْلِهِ: يُسَنُّ، لَكِنْ لَا يَخْفَى أَنَّ قَوْلَ الْقَدُورِيِّ أَيْضًا يُوهِمُ أَنَّ الْكُلَّ مُسْتَحَبٌّ، كَمَا أَنَّ عِبَارَةَ صَاحِبِ الْهِدَايَةِ تُوهِمُ أَنَّ الْكُلَّ مَسَنُونٌ، فَلَا بُدَّ أَنْ يُحْمَلَ كَلَامُ كُلٍّ مِنْهُمَا لِتَصْحِيحِهِمَا عَلَى التَّغْلِيبِ، وَهُوَ فِي كَلَامِ صَاحِبِ الْهِدَايَةِ أَظْهَرُ إِمَّا بِنَاءً عَلَى غَلَبَةِ الْأَكْثَرِ مَنْ عَدَدِ الرَّكَعَاتِ الْمَسْنُونَةِ عَلَى الْمُسْتَحَبَّةِ، أَوْ عَلَى الْأَفْضَلِ مِنْ فِعْلِهِ عَلَى فِعْلِ الصَّحَابَةِ، أَوْ عَلَى الْأَقْوَى مِنْ إِطْلَاقِ سُنَّتِهِ عَلَى سُنَّةِ خُلَفَائِهِ، فَقَوْلُ الْهِدَايَةِ أَوْلَى مَعَ مَا يُسْتَفَادُ مِنْهُ لِلْعَامَّةِ مِنْ زِيَادَةِ الْحَثِّ عَلَى الْوَجْهِ الْأَوْلَى وَالطَّرِيقِ الْأَعْلَى.
وَقَالَ ابْنُ حَجَرٍ: وَقَوْلُ بَعْضِ أَئِمَّتِنَا أَنَّهُ صَلَّى بِالنَّاسِ عِشْرِينَ رَكْعَةً، لَعَلَّهُ أَخَذَهُ مِمَّا فِي مُصَنَّفِ ابْنِ أَبِي شَيْبَةَ «أَنَّهُ عَلَيْهِ الصَّلَاةُ كَانَ يُصَلِّي فِي رَمَضَانَ عِشْرِينَ رَكْعَةً سِوَى الْوِتْرِ» ، وَمِمَّا رَوَاهُ الْبَيْهَقِيُّ «أَنَّهُ صَلَّى بِهِمْ عِشْرِينَ رَكْعَةً بِعَشْرِ تَسْلِيمَاتٍ لَيْلَتَيْنِ، وَلَمْ يَخْرُجْ فِي الثَّالِثَةِ» ، لَكِنِ الرِّوَايَتَانِ ضَعِيفَتَانِ، وَفِي صَحِيحَيْ ابْنِ خُزَيْمَةَ وَابْنِ حِبَّانَ أَنَّهُ صَلَّى بِهِمْ ثَمَانِ رَكَعَاتٍ وَالْوِتْرِ، لَكِنْ أَجْمَعَ الصَّحَابَةُ عَلَى أَنَّ التَّرَاوِيحَ عِشْرُونَ رَكْعَةً.

ملاحظہ فرمائیں:صفحه 344 – 346 جلد 03 مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح - علي بن (سلطان) محمد، الملا علي القاري - دار الكتب العلمية، بيروت

اس عبارت میں ملا علی قاری خود بیان کرتے ہیں:
ابن تیمیہ رحمہ اللہ سے کا مؤقف بیان کیا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے رکعات تراویح کی تعداد متعین نہیں فرمایا، بلکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم رمضان اور غیر رمضان میں تیرہ رکعات سے زیادہ نہیں پڑھتے تھے۔
اور یہ بھی بیان فرمایا کہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے بیان کیا کہ سلف الصالحین کا ایک گروہ چالیس 40 رکعات تراویح اور تین وتر پڑھتی تھی، اور ایک دوسرا گروہ چھتیس 36 رکعات تراویح اور تین وتر پڑھا کرتی تھی، یہ سب صحیح ہے۔ اور جو یہ گمان کرتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے رکعات تراویح کی خاص تعداد متعین کی ہے جسے کم یا زیادہ نہیں کیا جاسکتا، وہ خطاء پر ہیں۔
اس کے علاوہ امام سیوطی سے بھی اہل مکہ اور مدینہ کی انتیس 39 رکعات تراویح ذکر کیں!!
اب اس کے بعد بھی بیس 20 رکعات تراویح کے سنت نبوی ہونے پرصحابہ کے اجماع کا دعوی کر دینا ، چہ معنی دارد!!

(جاری ہے)
 
Last edited:

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,416
ری ایکشن اسکور
2,733
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
کچھ علمائے حنفیہ کے اقوال جو صراحتاً 20 رکعت سنت انکار کرتے ہیں چہ جائے کہ اجماع کے مدعی ہوں:

عبد الحق بن سيف الدين الدهلوي الحنفي(المتوفى: 1052هـ):

الفصل الاول في تعداد ركعاتها فعندنا هي عشرون ركعة لما روي البيهقي باسناد صحيح انهم كانو يقومون علی عهد عمر رضي الله عنه بعشرين ركعة وفي عهد عثمان رضي الله عنه مثله وروي ابن عباس انه صلّی رسول الله صلی الله عليه وسلم عشرين ركعة في رمضان ثم أوتر بثلث لكن المحدثين قالوا ان هذا الحديث ضعيف والصحيح ما روته عائشة رضي الله عنها صلّی احدي عشرة ركعة كما هوا عادتة في قيام الليل وروي انه كان بعض السلف في عهد عمر بن عبدالعزيز يصلون احدي عشرة ركعة قصدا للتشبه برسول الله صلی الله عليه وسلم والذي استقر عليه الامر واشتهر من الصحابة والتابعين ومن بعد هم هو العشرون وما روي انها ثلث وعشرون فلحساب الوتر معها وقال مالك وروي عن الشافعي ايضا انها ست وثلثون او تسع وثلثون مع الوتر فهو عمل اهل المدينة خاصة وقالوا سبب ذلك ان اهل مكة يطوفون بالبيت اسبوعا ويصلون ركعتي الطواف بين كلّ رويحتين واهل المدينة لما بعد ومن ادراك هذه الفضيلة صلوا بين ذلك اربع ركعات ويسمونها الست عشرية واستمر عادتهم علی ذلك الیٰ الان وقد يروي ذلك عن عمرو علي رضي الله عنهما لكنه غير مشهور عنهما فان صلی غيرهم ايضا لا باس ويستوي فيه الامام وغيره وينبغي ان يصلو افرادي لان التنفيل بالجماعة في غير التراويح مكروه عندنا لكن اهل المدينة يصلونها بالجماعة والتنفيل بالجماعة لا يكره عندهم قال الشيخ قاسم الحنفي من متاخرين علماء مصر التنفيل بالجماعة مكروه لانه لو كان مستحبا كابت افضل كالمكتوبات ولو كانت افضل لكان المتهجدون والقائمون بالليل يجتمعون فيصلون جماعة طلبا للفضيلة ولما لم يرو ذلك عن رسول الله صلی الله عليه وسلم وعن اصحابه رضوان الله عليهم اجمعين علم انه لا فضل في ذلك.

پہلی فصل رکعات کی گنتی میں سو ہمارے نزدیک تراویح بیس رکعت ہیں کیونکہ بیہقی نے صحیح اسناد سے روایت کیا ہے کہ وہ لوگ عمر رضی اللہ عنہ کے عہد میں بیس رکعات پڑھا کرتے تھے اور عثمان رضی اللہ عنہ کے عہد میں اتنے ہی پڑھتے تھے اور ابن عباس رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے رمضان میں بیس رکعتیں پڑھیں پھر اس کے بعد تین وتر پڑھے لیکن محدث کہتے ہیں کہ یہ حديث ضعيف ہے اور صحیح وہ ہی ہے جو عائشہ رضی اللہ عنہ روایت کرتی ہیں کہ حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے گیارہ رکعت پڑھیں جیسے کہ قیام الیل میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عادت تھی اور روایت ہے کہ بعضےبزرگ عمر بن عبدالعزیر کے عہد میں گیارہ رکعت پڑھا کرتے تھے اس غرض سے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مشابہت ہو جاوے اور گنتی جو ٹھر گئی ہے صحابی اور تابعین سے اور انکے بعد لوگوں سے مشہور چلا آتا ہے سو بیس رکعت ہیں ۔ یہ جو روایت ہے کہ تراویح تئیس 23 رکعات ہیں سو وتر کو تراویح کے ساتھ ملا لیا ہے اور مالک کہتے ہیں اور شافعی سے بھی روایت ہے کہ تراویح مع وتر چھتیس 36 یا انتالیس 39 ہیں۔ سو یہ خاص مدینہ والوں کا عمل ہے اور کہتے ہیں کہ اسکا یہ سبب ہے کہ مکہ والے کعبہ کے ساتھ طواف کرتے ہیں اور طواف کے دو رکعت ہر دو تراویحوں کے بیچ میں پڑھتے ہیں اور مدینہ والے چونکہ اس فضیلت کے حاصل کرنے سے دور ہیں تو انہوں نے انکے بیچ میں چار رکعت پڑھنی شروع کر دیں اور ان کا نام ست عشریہ کہہ دیا اور انکی عادت آج تک وہی چلی آرہی ہے۔ اور کبھی یہی روایت عمر اور علی رضی اللہ عنہما سے بھی آئی ہے ، پر ان سے مشہور نہیں ہے۔ پس اگر انکے سواء کوئی اور بھی پڑھ لے تو کیا ڈر ہے اور اسمیں امام وغیرہ سب برابر ہیں اور بہتر یہ ہے کہ الگ الگ پڑھہیں اس واسطے کہ سوائے تراویح اور نوافل جماعت سے ہمارے نزدیک مکروہ ہیں، لیکن مدینہ والے انکو جماعت سے پڑھتے ہیں اور نفلیں جماعت سے انکے نزدیک مکروہ نہیں ہیں۔ شیخ قاسم حنفی مصر کے متاخر علماء میں سے کہتا ہے کہ نفلیں جماعت سے مکروہ ہوتی ہیں اسلئے کہ اگر مستحب ہوتیں تو افضل ہوتی جیست فرائض جماعت سے افضل ہوتی ہیں اور اگر افضل ہوتیں تو تہجد گزار اور اور رات کے قائم رہنے والے جمع ہوا کرتے اور فضیلت کی طلب میں جماعت سے پڑھا کرتے اور چونکہ یہ فضیلت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور انکے اصحاب رضوان اللہ علیہم اجمعین سے مروی نہیں ہے، تو معلوم ہوا کہ اسمیں کچھ فضیلت نہیں ہے۔
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 217 - 219 ماثبت بالسُّنَّة في أيام السَّنَة مع ترجمة باللغة الأردية - عبد الحق بن سيف الدين الدهلوي - بالمطبع المجتبائي بدهلي سنة 1891
عبد الحق بن سیف الدین دہلوی نے صراحت سے امام مالک اور اہل مدینہ کا عمل بیا ن کر کے اجماع کی نفی کرد ی، اور نہ صرف یہ بلکہ مزید فرمایا کہ :
روایت ہے کہ بعضےبزرگ عمر بن عبدالعزیر کے عہد میں گیارہ رکعت پڑھا کرتے تھے اس غرض سے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مشابہت ہو جاوے
کہاں گیا بیس 20 رکعات تراویح پر صحابہ کا اجماع؟

كمال الدين محمد بن عبد الواحد السيواسي المعروف بابن الهمام (المتوفى: 861هـ):

وَأَمَّا مَا رَوَى ابْنُ أَبِي شَيْبَةَ فِي مُصَنَّفِهِ وَالطَّبَرَانِيُّ وَعِنْدَ الْبَيْهَقِيّ مِنْ حَدِيثِ ابْنِ عَبَّاسٍ «أَنَّهُ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - كَانَ يُصَلِّي فِي رَمَضَانَ عِشْرِينَ رَكْعَةً سِوَى الْوِتْرِ» فَضَعِيفٌ بِأَبِي شَيْبَةَ إبْرَاهِيمَ بْنِ عُثْمَانَ جَدِّ الْإِمَامِ أَبِي بَكْرِ بْنِ أَبِي شَيْبَةَ مُتَّفَقٌ عَلَى ضَعْفِهِ مَعَ مُخَالِفَتِهِ لِلصَّحِيحِ. نَعَمْ ثَبَتَتْ الْعِشْرُونَ مِنْ زَمَنِ عُمَرَ فِي الْمُوَطَّإِ.
عَنْ يَزِيدَ بْنِ رُومَانَ قَالَ " كَانَ النَّاسُ يَقُومُونَ فِي زَمَنِ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ بِثَلَاثٍ وَعِشْرِينَ رَكْعَةً ". وَرَوَى الْبَيْهَقِيُّ فِي الْمَعْرِفَةِ عَنْ السَّائِبِ بْنِ يَزِيدَ قَالَ: كُنَّا نَقُومُ فِي زَمَنِ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ - رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ - بِعِشْرِينَ رَكْعَةً وَالْوِتْرِ، قَالَ النَّوَوِيُّ فِي الْخُلَاصَةِ إسْنَادُهُ صَحِيحٌ.
وَفِي الْمُوَطَّإِ رِوَايَةٌ بِإِحْدَى عَشْرَةَ. وَجَمَعَ بَيْنَهُمَا بِأَنَّهُ وَقَعَ أَوَّلًا ثُمَّ اسْتَقَرَّ الْأَمْرُ عَلَى الْعِشْرِينَ فَإِنَّهُ الْمُتَوَارِثُ، فَتَحْصُلُ مِنْ هَذَا كُلِّهِ أَنَّ قِيَامَ رَمَضَانَ سُنَّةٌ إحْدَى عَشْرَةَ رَكْعَةً بِالْوِتْرِ فِي جَمَاعَةٍ فَعَلَهُ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - ثُمَّ تَرَكَهُ لِعُذْرٍ، أَفَادَ أَنَّهُ لَوْلَا خَشْيَةَ ذَلِكَ لَوَاظَبْت بِكُمْ، وَلَا شَكَّ فِي تَحَقُّقِ الْأَمْنِ مِنْ ذَلِكَ بِوَفَاتِهِ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - فَيَكُونُ سُنَّةً، وَكَوْنُهَا عِشْرِينَ سُنَّةُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ وَقَوْلُهُ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - «عَلَيْكُمْ بِسُنَّتِي وَسُنَّةِ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ» نَدْبٌ إلَى سُنَّتِهِمْ، وَلَا يَسْتَلْزِمُ كَوْنَ ذَلِكَ سُنَّتَهُ. إذْ سُنَّتُهُ بِمُوَاظَبَتِهِ بِنَفْسِهِ أَوْ إلَّا لِعُذْرٍ، وَبِتَقْدِيرِ عَدَمِ ذَلِكَ الْعُذْرِ إنَّمَا اسْتَفَدْنَا أَنَّهُ كَانَ يُوَاظِبُ عَلَى مَا وَقَعَ مِنْهُ وَهُوَ مَا ذَكَرْنَا فَتَكُونُ الْعِشْرُونَ مُسْتَحَبًّا وَذَلِكَ الْقَدْرُ مِنْهَا هُوَ السُّنَّةُ كَالْأَرْبَعِ بَعْدَ الْعِشَاءِ مُسْتَحَبَّةٌ وَرَكْعَتَانِ مِنْهَا هِيَ السُّنَّةُ.
وَظَاهِرُ كَلَامِ الْمَشَايِخِ أَنَّ السُّنَّةَ عِشْرُونَ، وَمُقْتَضَى الدَّلِيلِ مَا قُلْنَا، فَالْأَوْلَى حِينَئِذٍ مَا هُوَ عِبَارَةُ الْقُدُورِيِّ مِنْ قَوْلِهِ يُسْتَحَبُّ لَا مَا ذَكَرَهُ الْمُصَنِّفُ فِيهِ.

اور جو ابن عباس رضی اللہ عنہ سے جو ابن ابی شیبہ، طبرانی اور بیہقی رحمہم اللہ نے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رمضان میں علاوہ ورتر کے بیس 20 رکعات پڑھیں، اس کے راوی ابو بکر بن ابرھیم بن ابی شیبہ کے جد ابراھیم بن عثمان ابی شیبہ بالاتفاق ضعیف ہیں، اور اسے کے ساتھ وہ صحیح حدیث کے خلاف ہے (حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی صحیح حدیث کے مخالف ہے جس میں یہ روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم گیارہ رکعتوں سے زیادہ قیام نہیں کرتے تھے نہ رمضان میں نہ غیر رمضان میں، جیسا صحیح میں ہے۔) ہاں موطا سے عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے زمانے میں بیس 20 رکعات ثابت ہے، جیسا کہ یزید بن رومان سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا: لوگ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے زمانے میں تئیس 23 رکعات قیام کیا کرتے تھے۔ اور بیہقی رحمہ اللہ نے اپنی لتاب المعرفۃ میں سائب بن یزید رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے کہ ہم عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں بیس 20 رکعات اور وتر پڑھتے تھے ۔ امام نووی رحمہ اللہ نے خلاصہ میں اس کی سند کو صحیح کہا۔
اور موطا کی روایت میں گیارہ 11 رکعات ہیں، انہیں جمع کرنے کی تطبیق یہ ہے کہ پہلے گیارہ رکعات پڑھی جاتی تھیں، بعد میں عمل بیس 20 رکعات پر ہوا ، اور یہ جاری ہو گیا۔ یہاں تک کی پوری بحث کا حاصل یہ ہو ا کہ قیام رمضان بمع وتر گیارہ رکعات جماعت کے ساتھ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے فعل سے سنت ہے، اور امت پر فرض کا حکم نازل ہونے کو خوف سے آپ نے جماعت سے پڑھانا ترک کردیا، اور بیشک نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد یہ خوف نہ رہا، تو یہ گیارہ رکعات سنت ہوئیں۔ اور بیس رکعات 20 رکعات خلفائے راشدین کی سنت ہے، اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے قول تم میرے اور خلفائے راشدین کے طریقے کو لازم پکڑو کی بنا پر خلفائے راشدین کی سنت مندوب ہیں، اور اس سے ان کا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہونا لازم نہیں آتا۔ کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت وہ ہے جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خود مواظبت یعنی ہمیشگی کے ساتھ کی ہو، یا سوائے اس کی کہ کوئی عذر ہو، اور اگر یہ عذر نہ ہوتا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اس پر مواظبت یعنی ہمیشگی ہوتی جو انہوں نے پہلے کیا، جیسا کہ ہم نے ذکر کیا ، لہٰذا بیس 20 رکعات تراویح مستحب ہے اور ان میں سے بالقدر عمل نبی صلی اللہ علیہ وسلم (یعنی آٹھ 8) سنت ہیں۔ جیسا کہ عشاء کے بعد چار 4 رکعات مستحب ہیں اور ان میں سے دو 2 سنت ہیں۔
اور مشائخ کے کلام سے یہ ظاہر ہے کہ پوری 20 رکعتیں سنت ہیں، لیکن دلیل کا تقاضا تو وہی ہے جو میں نے بیان کیاہے، اسی صورت میں قدوری رحمہ اللہ کا یہ قول کہ وہ مستحب ہے زیادہ بہتر ہے۔
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 485 – 486 جلد 01 شرح فتح القدير على الهداية - كمال الدين السيواسي المعروف بابن الهمام - دار الكتب علميه – بيروت
ابن الھمام نے تو آپ کے اجماع کے دعوی کا بھانڈا ہی نہیں پھوڑ دیا بلکہ آپ کے بیس 20 رکعات تراویح کے سنت ہونے کے مؤقف کی بھی نفی کر دی!!

زين الدين بن إبراهيم بن محمد، المعروف بابن نجيم المصري(المتوفى: 970هـ):

جو محرر مذہب نعمانی اور ابو حنیفہ ثانی کہلائے جاتے ہیں، کو بھی دیکھ لیں کہ یہ بیس 20 رکعات تراویح کے سنت ہونے پر صحابی کے اجماع پر لگاتے ہیں یا نہیں!
لِمَا فِي الْمُوَطَّإِ عَنْ يَزِيدَ بْنِ رُومَانَ قَالَ كَانَ النَّاسُ يَقُومُونَ فِي زَمَنِ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ بِثَلَاثٍ وَعِشْرِينَ رَكْعَةً وَعَلَيْهِ عَمِلَ النَّاسُ شَرْقًا وَغَرْبًا لَكِنْ ذَكَرَ الْمُحَقِّقُ فِي فَتْحِ الْقَدِيرِ مَا حَاصِلُهُ أَنَّ الدَّلِيلَ يَقْتَضِي أَنْ تَكُونَ السُّنَّةُ مِنْ الْعِشْرِينَ مَا فَعَلَهُ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - مِنْهَا ثُمَّ تَرَكَهُ خَشْيَةَ أَنْ تُكْتَبَ عَلَيْنَا وَالْبَاقِي مُسْتَحَبٌّ وَقَدْ ثَبَتَ أَنَّ ذَلِكَ كَانَ إحْدَى عَشْرَةَ رَكْعَةً بِالْوِتْرِ كَمَا ثَبَتَ فِي الصَّحِيحَيْنِ مِنْ حَدِيثِ عَائِشَةَ فَإِنْ يَكُونُ الْمَسْنُونُ عَلَى أُصُولِ مَشَايِخِنَا ثَمَانِيَةٌ مِنْهَا وَالْمُسْتَحَبُّ اثْنَا عَشَرَ انْتَهَى.

چونکہ موطا میں یزید بن رومان سے روایت ہے کہ لوگ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے دور میں تئیس 23 رکعات تراویح پڑھا کرتے تھے، اور اس پر مشرق و مغرب میں لوگوں کا عمل ہے۔لیکن محقق ابن الھمام نے فتح القدیر میں جو بیان کیا ہے اس کا خلاصہ یہ ہے کہ دلیل کا تقاضا یہ ہے کہ تروایح کی کی بیس رکعات میں سے سنت اتنی ہی رکعات ہیں ، جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل ہے، اور اسے نبی صلی اللہ علیہ نے ہم پر فرض ہو جانے کے خوف سے ترک کردیا تھا، اور باقی رکعات مستحب ہیں۔ اور یہ صحیحین میں عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث سے ثابت ہے کہ وہ (نبی صلی اللہ علیہ کا عمل) گیارہ رکعات 11 (بشمول وتر) ہیں۔ تو ہمارے مشائخ کے اصول کے مطابق یہ آٹھ 8 رکعات سنت اور باقی بارہ 12 رکعات مستحب ہیں۔
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 117 جلد 02 البحر الرائق شرح كنز الدقائق- زين الدين بن إبراهيم ، ابن نجيم المصري - دار الكتب علميه - بيروت
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 72 جلد 02 البحر الرائق شرح كنز الدقائق- زين الدين بن إبراهيم ، ابن نجيم المصري - دار الكتب علميه - بيروت

أحمد بن محمد بن إسماعيل الطحطاوي الحنفي(المتوفى: 1231هـ):

ذكر في فتح القدير ما حاصله أن الدليل يقتضی أن تكون السنة من العشرين ما فعله صلی الله عليه وسلم منهاثم تركه خشية أن يكتب علينا والباقي مستحبا وقد ثبت أن ذلك كان إحدی عشرة ركعة بالوتر كما ثبت في الصحيحين من عائشة فاذا يكون المسنون علی أصول مشايخنا ثمانی منها والمستحب اثنتی عشرة انتهي بحر.وروي ابن أبي شيبة من حديث ابن عباس كان صلی الله عليه وسلم يصلی في رمضان عشرين ركعة والوتر وسناده ضعيف كما ذكر صاحب المواهب فعلی هذا تكون العشرون ثابتة من فعله صلی الله عليه وسلم اوعترض قوله ثم تركه خشية أن يكتب علينا بأنه كيف يخشي ذلك وهو عليه السلام قد أمن الزيادة بقوله سبحانه بعد فرض الخمس لا يبدل القول لديّ وأجيب بأن الممنوع زيادة الاوقات وبقصانها لازيادة عدد الركعات ونقصانها ألا تری أن الصلاة فرضت ركعتين فأقرت في السفر وزيدت في الحضر أبو السعود عن الشلبيّ وبأن صلاة الليل كانت واجبة عليه صلی الله عليه وسلم ويجب علی الامة الاقتداء به في أفعاله الشرعية فترك الخروج اليهم لئلا يدخل ذلك في الواجب من طريق الامر بالاقتداء به لا من طريق انشاء فرض جديد زائد علی الخمس وهذا كما يوجب المرء علی نفسه صلاة نذر فتجب عليه ولا يلزم من ذلك زيادة فرض في أصل الشرع وبأن الله تعالی قد فرض الصلاة خمسين ثم حط معظمها بشفاعة نبيه صلی الله عليه وسلم فاذا عادت الامّة فيما استوهب لها والترمت ما استعفی لهم نبيهم عليه الصلاة السلام يستنكّر أن يثبت ذلك فرضا عليهم وبأن المخوف افترض قيام الليل علی الكفاية لا علی الاعيان فلا يكون زائدا علی الخمس المفروضة علی الاعيان فتكون نظير الوتر في أنه لم يكر زائدا علی الفرائض وبأن المخوف افتراض قيام رمضان خاصة فيرتفع الاشكال لان قيام رمضان لا يتكّرّر كل يوم بل في السنة فلا يكون قدرا زائد علی الخمس وهناك أجوبة أخری تطلب من المواهب وشرحها (تنبيه) قام صلی الله عليه وسلم في شهر رمضان ليلة ثلاث وعشرين بالصلاة الی ثلث الليل الاوّل وليلة خمس وعشرين الی نصف الليل وليلة سبع وعشرين حتی ظنوا أنهم لا يدركون السحور (قولهلم واظبة الخلفاء الراشدين) أي معظمهم والا فأبوبكر لم يفعلها وهي سنة رسول الله عليه وسلم لقوله عليه الصلاة والسلام ان الله تعالی فرض عليكم صيامه وسنت لكم قيامه كافي واشار في كتاب الكراهية من البزازية الی انه لو قال التراويح سنة عمر كفر لانه استخفاف وهو كلام الروافض وفيه نظر فقد صرّح في كثير من المتداولات المعتبرة بأنها سنة عمر لانّ النبيّ عليه الصلاة والسلام لم يصلها عشرين بل ثماني ولم يوظب علی ذلك وصلاها عمر بعده عشرين ووافقه الصحابة علی ذلك ودعوی الستخفاف في حيزا المنع حمويّ.

ملاحظہ فرمائیں: صفحه 295 جلد 01 حاشية الطحطاوي على الدر المختار - أحمد بن محمد بن إسماعيل الطحطاوي الحنفي - طبعة القديمة في مصر
طحطاوی بحر الرائق سے ابن نجیم کا بیان کردہ خلاصہ بیان کرتے ہیں کہ محقق ابن الھمام نے فتح القدیر میں جو بیان کیا ہے اس کا خلاصہ یہ ہے کہ دلیل کا تقاضا یہ ہے کہ تروایح کی کی بیس رکعات میں سے سنت اتنی ہی رکعات ہیں ، جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل ہے، اور اسے نبی صلی اللہ علیہ نے ہم پر فرض ہو جانے کے خوف سے ترک کردیا تھا، اور باقی رکعات مستحب ہیں۔ اور یہ صحیحین میں عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث سے ثابت ہے کہ وہ (نبی صلی اللہ علیہ کا عمل) گیارہ رکعات 11 (بشمول وتر) ہیں۔ تو ہمارے مشائخ کے اصول کے مطابق یہ آٹھ 8 رکعات سنت اور باقی بارہ 12 رکعات مستحب ہیں۔
اور پھر صراحت کے ساتھ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بیس 20 رکعات نہیں پڑھیں بلکہ آٹھ 8 پڑھیں ہیں

محمد يوسف کاندھلوی دیوبندی(المتوفى: 1384هـ):

حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت ابی بن کعب رضی اللہ نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کی یا رسول اللہ! آج رات مجھ سے ایک کام ہو گیا اور یہ واقعہ رمضان کا ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے ابی! کیا ہوا؟ انہوں نے عرض کیا میرے گھر میں چند عورتیں تھیں ان عورتوں نے کہا ہم نے قرآن نہیں پڑھا۔، ہم آپ کے پیچھے تراویح کی نماز پڑھیں گی، چنانچہ میں نے انہیں آٹھ رکعت نماز پڑھائی اور وتر بھی پڑھائے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر کچھ نہ فرمایا اس طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی رضا مندی کی بناء پر یہ سنت ہوئی۔
ملاحظہ فرمائیں: صفحہ 165 حیاۃ الصحابہ رضی اللہ عنہ (اردو) ۔ محمد يوسف کاندھلوی ۔ مترجم احسان الحق ۔ مکتبۃ الحسن، لاہور
ملاحظہ فرمائیں: صفحہ 165 حیاۃ الصحابہ رضی اللہ عنہ (اردو) ۔ محمد يوسف کاندھلوی ۔ مترجم احسان الحق ۔ دار الاشاعت،کراچی
لو جناب! محمد یوسف کاندھلوی صاحب نے بھی الیاس گھمن صاحب کے بیس 20 رکعات تراویح پر اجماع کے دعوی کی لٹیاہی ڈ بو دی!!

اب الیاس گھمن صاحب سے کوئی پوچھے کہ ان کا بیس 20 رکعات تراویح کے سنت ہونے پر صحابہ کے اجماع کا دعوی درست ہے اور مذکورہ حنفی علماء اجماع صحابہ کے منکر ہیں؟ اور اجماع کے منکر پرجو حکم الیاس گھمن صاحب لگاتے ہیں وہ ان پر بھی لگا دیں!! اور الیاس گھمن کے بقول یہ کوئی بعد کا اجماع بھی نہیں، بلکہ صحابہ کا اجماع ہے!!!

(جاری ہے)
 
Last edited:

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,416
ری ایکشن اسکور
2,733
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
الیاس گھمن صاحب نے علم جرح و تعدیل میں بھی اپنے ''جوہر'' دکھلائیں ہیں؛ فرماتے ہیں:
الیاس گھمن فرماتے ہیں:
دوسری بات...... محمد بن حمید الرازی (ت248ھ) اور عمر بن ہارون البلخی (ت294ھ) کے حالات کا تفصیلی جائزہ لیا جائے تو یہ بات واضح ہوتی ہے کہ جہاں بعض حضرات سے جرح منقول ہے وہیں کئی جلیل القدر ائمہ محدثین نے ان کی تعدیل و توثیق اور مدح و ثناء بھی فرمائی ہے۔ دونوں کے متعلق ائمہ کی تعدیل و توثیق پیشِ خدمت ہے:
محمد بن حمید الرازی (ت248ھ)
آپ ابوداؤد ،ترمذی، ابن ماجہ کے را وی ہیں۔
( تہذیب التہذیب: ج5ص547)
یہ بات صحیح ہے کہ محمد بن حمید ابو داود ، ترمذی اور ابن ماجہ کے راوی ہیں، اور یہ بات امام سیوطی نے طباقت الحفاظ میں بھی درج کی ہے۔
الیاس گھمن صاحب فرماتے ہیں:
درج ذیل جلیل القدر ائمہ محدثین نے آ پ کی تعدیل و تو ثیق اور مدح فر ما ئی ہے مثلاً:
1: امام احمدبن حنبل :وثقہ (ثقہ قراردیا )۔
(طبقات الحفاظ للسیوطی: ج1ص40)
اور ایک بار فر ما یا ”لايزال بالري علم مادام محمد بن حميد حياً“۔(جب تک محمد بن حمید زند ہ ہیں مقام ری میں علم با قی رہے گا )
(تہذيب الكمال للمزی: ج 1 ص 40)
2: امام یحی بن معین: ثقة ،ليس به باس، رازي کيس [ثقہ ہے اس احا دیث پر کو ئی کلام نہیں، سمجھ دار ہے] (ایضاً)
3: امام جعفر بن عثمان الطیالسی: ثقۃ۔
( تہذیب الکمال: ج8ص653)
جی ، امام احمد بن حنبل اور یحی بن معین سے اس ان کی توثیق ملتی ہے۔ پہلے توہم آپ کو ان کی توثیق کا جواب دے دیتے ہیں؛
الیاس گھمن صاحب نے ایک اسی تحریر میں ایک حوالہ تهذيب التهذيب کا بھی دیا ہے، یقینا انہوں نے محمد بن حمید سے متعلق پورے کلام کو دیکھا ہو گا، تو انہیں یہ بھی معلوم ہو نا چاہئے کہ اس کا جواب تو ابن حجر العسقلانی نے خود درج کر دیا ہے۔ الیاس گھمن کو وہاں ابو علی النیساپوری اور ابن خزیمہ کا مقالمہ نظر نہیں آیا؟ جو ابن حجر العسقلانی نے سب سے آخر میں درج کیا ہے؛
وقال أبو علي النيسابوري قلت لابن خزيمة لو حدث الأستاذ عن محمد بن حميد فإن أحمد قد أحسن الثناء عليه فقال إنه لم يعرفه ولو عرفة كما عرفناه ما أثنى عليه أصلا
ابو علی نیساپوری نے کہا کہ میں نےابن خزیمہ سے کہا کہ محمد بن حمید سے روایت کیا کریں کیونکہ امام احمد بن حنبل نے اس کی تعریف کی ہے، تو ابن خزیمہ نے جواب دیا کہ وہ (احمد بن حنبل) اسے (محمد بن حمید ) کو نہیں جان سکے، اگر وہ اسے اس طرح جانتے، جیسے ہم جانتے ہیں تو اس کی تعریف بلکل نہ کرتے۔
ملاحظہ فرمائیں:صفحه 131 جلد 09 - تهذيب التهذيب - ابن حجر العسقلاني - مطبعة دائرة المعارف النظامية، الهند
ملاحظہ فرمائیں:صفحه 550 جلد 05 - تهذيب التهذيب - ابن حجر العسقلاني - وزارة الأوقاف السعودية
ملاحظہ فرمائیں:صفحه 548 جلد 03 - تهذيب التهذيب - ابن حجر العسقلاني - مؤسسة الرسالة

اور یہی جواب يحیی بن معین اور ابو جعفر الطیالسی کی توثیق کا ہے۔ علم الجراح و تعدیل کا یہی اصول ہے کہ تعدیل پر جرح مقدم ہوتی ہے، وہ اس کی وجہ ابن خزیمہ کے کلام میں دیکھی جا سکتی ہے۔

اب کچھ معروضات پیش خدمت ہیں کہ، طبقات الحفاظ للسيوطي سے امام احمد بن حنبل کی توثیق تو پیش کی، مگر انہیں امام سیوطی رحمہ اللہ نے محمد بن حميد الرازي کو کذاب قرار دیا ہے، یعنی امام السيوطي رحمہ اللہ کے نزدیک بھی امام احمد بن حنبل اور امام يحیی بن معین کی توثیق مقبول نہیں:
الحَدِيث (ابْن عدي) حَدَّثَنَا أَحْمَد بْن مُحَمَّد بْن حَرْب حَدَّثَنَا ابْن حميد عَن جرير عَن الْأَعْمَش عَن أَبِي صالِح عَن أَبِي هُرَيْرَةَ مَرْفُوعًا: الْقُرْآنُ كَلامُ اللَّهِ لَا خَالِقٌ وَلا مَخْلُوقٌ مَنْ قَالَ غَيْرَ ذَلِكَ فَهُوَ كَافِرٌ.
مَوْضُوع: آفته ابْن حَرْب وَشَيْخه أَيْضا كَذَّاب وَهُوَ مُحَمَّد بْن حميد بْن حبَان.

ملاحظہ فرمائیں:صفحه 12 جلد 01 - اللآلىء المصنوعة في الأحاديث الموضوعة - جلال الدين السيوطي - دار الكتب العلمية - بيروت
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 04 جلد 01 - اللآلىء المصنوعة في الأحاديث الموضوعة - جلال الدين السيوطي - دار المعرفة - بيروت

(الْخَطِيب) أَنْبَأنَا يَحْيَى بْن مُحَمَّد بْن الْحُسَيْن الْمُؤَدب أَنْبَأنَا مُحَمَّد بْن عَبْد الله بْن مُحَمَّد الْكُوفيّ أَنْبَأنَا مُحَمَّد بْن مُحَمَّد بْن سُلَيْمَان الباغندي حَدَّثَنَا مُحَمَّد بْن حميد عَن أَبِي إِسْحَاق عَن الْأَصْبَغ عَن عَلِيٍّ مَرْفُوعًا: مَا مِنْ أَهْلِ بَيْتٍ فِيهِمُ اسْمُ نَبِيٍّ إِلا بَعَثَ اللَّهُ تَعَالَى إِلَيْهِمْ مَلَكًا يُقَدِّسُهُمْ بِالْغَدَاةِ وَالْعَشِيِّ.
لَا يَصِحُّ، أصبغ لَا يُسَاوِي شَيْئا وَابْن حميد كَذَّاب (قلت) مَا فِي الْإِسْنَاد أَسْوَأ حَالا من أصبغ فَإِنَّهُ مُتَّفق عَلَى ضعفه وَقَالَ أَبُو بَكْر بْن عَيَّاش كَذَّاب والنضرُ بْن حميد أَبُو الْجَارُود قَالَ أَبُو حاتِم مَتْرُوك الحَدِيث، وَقَالَ الْبُخَاريّ مُنكر الحَدِيث وَإِبْرَاهِيم بْن الْمُخْتَار لَا بَأْس بِهِ، وَمُحَمَّد بْن حميد الرَّازِيّ حَافظ روى لَهُ أَبُو دَاوُد وَالتِّرْمِذِيّ وَابْن مَاجَه وضعفوه وَالله أعلم.

ملاحظہ فرمائیں:صفحه 92 جلد 01 - اللآلىء المصنوعة في الأحاديث الموضوعة - جلال الدين السيوطي - دار الكتب العلمية – بيروت
ملاحظہ فرمائیں:صفحه 100 جلد 01 - اللآلىء المصنوعة في الأحاديث الموضوعة - جلال الدين السيوطي - دار المعرفة - بيروت

(أنبانا) عَلِيّ بْن عُبَيْد الله الزَّاغُونِيّ أَنْبَأنِي أَحْمَد بْن مُحَمَّد السمسار حَدَّثَنَا عِيسَى بْن عَليّ الْوَزير حَدَّثَنَا الْبَغَوِيّ حَدَّثَنَا مُحَمَّد بْن حميد الرَّازِيّ حَدَّثَنَا عَلِيّ بْن مُجَاهِد حَدَّثَنَا مُحَمَّد بْن إِسْحَاق عَن شريك بْن عَبْد الله عَنْ أَبِي ربيعَة الْإِيَادِي عَن ابْن بُرَيْدَة عَن أَبِيهِ مَرْفُوعا: لكل نَبِي وَصِيّ وَإِن عليًّا وصيي ووارثي؛ الرَّازِيّ كذَّبَهُ أَبُو زُرْعَة وَغَيره (قلت) قَالَ الجوزقاني هَذَا حديثٌ بَاطِل وَفِي إِسْنَاده ظلمات عَلِيّ بْن مُجَاهِد كَانَ يضعُ الحَدِيث وَمُحَمَّد بْن حميد كذبه صالِح وَغَيره وَالله أعلم.
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 328 جلد 01 - اللآلىء المصنوعة في الأحاديث الموضوعة - جلال الدين السيوطي - دار الكتب العلمية - بيروت
ملاحظہ فرمائیں:صفحه 359 جلد 01 - اللآلىء المصنوعة في الأحاديث الموضوعة - جلال الدين السيوطي - دار المعرفة – بيروت
الیاس گھمن صاحب فرماتے ہیں:
4: علامہ ابن حجر :الحافظ [حافظ ہے]۔
( تہذیب التھذیب: ج5ص547)
یہ حافظ کہنا کب سے کلمہ توثیق ہو گیا؟ گھمن صاحب اگر امام ابن حجر العسقلانی کی ہی تقریب التهذيب بھی دیکھ لیتے تو معلوم ہو جاتا کہ ابن حجر العسقلانی نے محمد بن حمید الرازی کی توثیق نہیں کی، بلکہ اسے ضعیف قرار دیا ہے۔ امام ابن حجر العسقلانی نے ''حافظ ضعيف'' کہا ہے۔
اب جس شخص کو اتنا بھی معلوم نہ ہو کہ حافظ کلمہ توثیق نہیں ، اس کے باوجود ابن حجر عسقلانی سے محمد بن حمید الرازی کی توثیق کشید کرنے کی کوشش کرتا ہو، اسے کیا کہا جائے!!
محمد ابن حميد ابن حيان الرازي حافظ ضعيف وكان ابن معين حسن الرأي فيه من العاشرة مات سنة ثمان وأربعين د ت ق
ملاحظہ فرمائیں:صفحه 475 جلد 01 - تقريب التهذيب - ابن حجر العسقلاني - دار الرشيد – سوريا
ملاحظہ فرمائیں:صفحه 839 جلد 01 - تقريب التهذيب - ابن حجر العسقلاني - دار العاصمة
ملاحظہ فرمائیں:صفحه 531 جلد 01 - تقريب التهذيب - ابن حجر العسقلاني - بيت الأفكار الدولية
الیاس گھمن صاحب فرماتے ہیں:
5: علامہ ہیثمی ایک حدیث کے بارے میں لکھتے ہیں : ” وفی اسناد بزار محمد بن حمید الرازی وھو ثقۃ “[بزاز کی سند میں محمد بن حمید الرازی ہے اور وہ ثقہ ہے ]۔
(مجمع الزوائد: ج9ص475)
علامہ ہیثمی کی پوری عبارت نقل کرنے میں گھمن صاحب کو کیا چیز مانع تھی، ہم سمجھ سکتے ہیں، کہ پھر گھمن صاحب محمد بن حمید الرازی کی توثیق کشید نہیں کر سکتے تھے، اس عبارت کے پورے الفاظ یہ ہیں؛ وَفِي إِسْنَادِ الْبَزَّارِ مُحَمَّدُ بْنُ حُمَيْدٍ الرَّازِيُّ وَهُوَ ثِقَةٌ، وَفِيهِ خِلَافٌ، وَبَقِيَّةُ رِجَالِهِ وُثِّقُوا کہ اس کے ثقہ ہونے میں اختلاف ہے۔
وَعَنْ عَبْدِ اللَّهِ - يَعْنِي ابْنَ مَسْعُودٍ - قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ -: «رَضِيتُ لِأُمَّتِي مَا رَضِيَ لَهَا ابْنُ أُمِّ عَبْدٍ، وَكَرِهْتُ لِأُمَّتِي مَا كَرِهَ لَهَا ابْنُ أُمِّ عَبْدٍ».
رَوَاهُ الْبَزَّارُ، وَالطَّبَرَانِيُّ فِي الْأَوْسَطِ بِاخْتِصَارِ الْكَرَاهَةِ، وَرَوَاهُ فِي الْكَبِيرِ مُنْقَطِعَ الْإِسْنَادِ. وَفِي إِسْنَادِ الْبَزَّارِ مُحَمَّدُ بْنُ حُمَيْدٍ الرَّازِيُّ وَهُوَ ثِقَةٌ، وَفِيهِ خِلَافٌ، وَبَقِيَّةُ رِجَالِهِ وُثِّقُوا.

ملاحظہ فرمائیں:صفحه 290 جلد 09 - مجمع الزوائد ومنبع الفوائد - أبو الحسن نور الدين الهيثمي - مكتبة القدسي، القاهرة۔ دار الكتاب العربي، بيروت
ملاحظہ فرمائیں:صفحه 349 جلد 09 - مجمع الزوائد ومنبع الفوائد - أبو الحسن نور الدين الهيثمي - دار الكتب العلمية

یہی نہیں ہم یہ بھی دکھلادیتے ہیں کہ علامہ ہیثمی نے محمد بن حمید الرازی کو ضعیف قرار دیا ہے۔ رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ، وَفِيهِ مُحَمَّدُ بْنُ حُمَيْدٍ الرَّازِيُّ، وَهُوَ ضَعِيفٌ، وَقَدْ وُثِّقَ، وَبَقِيَّةُ رِجَالِهِ ثِقَاتٌ. اب بتلائیے یہاں علامہ ہیثمی فرماتے ہیں کہ محمد بن حمید الرازی ضعیف ہے، جس کو توثیق بھی منقول ہے۔
وَعَنْ عَبْدِ اللَّهِ - يَعْنِي ابْنَ مَسْعُودٍ - قَالَ: «إِنَّمَا نَهَى النَّبِيُّ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - عَنْ لُحُومِ الْحُمُرِ الْأَهْلِيَّةِ لِأَنَّهَا كَانَتْ حَمُولَةً».
رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ، وَفِيهِ مُحَمَّدُ بْنُ حُمَيْدٍ الرَّازِيُّ، وَهُوَ ضَعِيفٌ، وَقَدْ وُثِّقَ، وَبَقِيَّةُ رِجَالِهِ ثِقَاتٌ.


ملاحظہ فرمائیں:صفحه 47 جلد 05 - مجمع الزوائد ومنبع الفوائد - أبو الحسن نور الدين الهيثمي - مكتبة القدسي، القاهرة ۔ دار الكتاب العربي، بيروت
ملاحظہ فرمائیں:صفحه 45 جلد 05 - مجمع الزوائد ومنبع الفوائد - أبو الحسن نور الدين الهيثمي - دار الكتب العلمية
الیاس گھمن فرماتے ہیں:
6: امام دار قطنی: محمد بن حمید الرازی سے مروی ایک روایت کی سند کو ”اسنادہ حسن“ کہا ہے۔ (سنن الدار قطنی: تحت حدیث 75)
الیاس گھمن صاحب کے صوفی عالم محمد بن الحسين بن محمد بن موسى الأزدي السلمي النيسابوري اپنی کتاب میں فرماتے ہیں کہ جب انہوں نے محمد بن حمید الرازی کے متعلق سوال کیا تو امام دارقطنی نے اسے مختلف فيه راوی قرار دیا ہے۔
وسألتُه عن محمَّدِ بنِ حُميدٍ ؟
فقال: مُخْتلَفٌ فيه.

ملاحظہ فرمائیں:صفحه 275 جلد 01 - سؤالات السلمي للدارقطني - أبو عبد الرحمن السلمي - مكتبة ملك فهد الوطنية
الیاس گھمن صاحب فرماتے ہیں:
٭ ناصر الدین الالبانی غیر مقلد: محمد بن حمید سے مروی روایت کو ”صحیح“ قرار دیا ہے۔
(سنن ابن ماجۃ باحکام الالبانی: تحت حدیث1301)
اب گھمن صاحب کو یہ بھی نہیں معلوم کہ سنن ابن ماجہ باحکام البانی میں حکم حدیث کا تعلق کیا ہے، کہ شیخ البانی اس حدیث کی اس سند کو صحیح قرار دے رہے ہیں یا اس حدیث کے متن صحیح یا حسن قرار دیتے ہیں کو دیگر سند سے بھی وارد ہے۔
میں شیخ ناصر الدین البانی کا محمد بن حمید کے بارےمیں کلام پیش کرتا ہوں:
وهذا كله يقال لوثبت ذلك عن مالك، كيف ودون ثبوته خرط القتاد! فإنه يرويه عنه ابن حميد وهو محمد بن حميد الرازي في الراجح عند الكوثري ثم اعتمد هو على توثيق ابن معين إياه وثناء أحمد والذهلي عليه، وتغافل عن تضعيف جمهو ر الأئمة له، بل وعن تكذيب كثيرين منهم إياه، مثل أبي حاتم والنسائي وأبي زرعة وصرح هذا أنه كان يتعمد الكذب، ومثل ابن خراش فقد حلف بالله أنه كان يكذب، وقال صالح بن محمد الأسدي: كل شيء كان يحدثنا ابن حميد كنا نتهمه فيه، وقال في موضع آخر: كانت أحاديثه تزيد، وما رأيت أحدا أجرأ على الله منه، وقال أيضا: ما رأيت أحدا أحذق بالكذب من رجلين سليمان الشاذكوني ومحمد ابن حميد، كان يحفظ حديثه كله.
وقال أبو علي النيسابوري: قلت لابن خزيمة: لوحدث الأستاذ عن محمد بن حميد فإن أحمد قد أحسن الثناء عليه؟ فقال: إنه لم يعرفه، ولوعرفه كما عرفناه ما أثنى عليه أصلا.
فهذه النصوص تدل على أن الرجل كان مع حفظه كذابا، والكذب أقوى أسباب الجرح وأبينها، فكيف ساغ للشيخ تقديم التعديل على الجرح المفسر مع أنه خلاف معتقده؟ !

ملاحظہ فرمائیں:صحفه 92 – 93 - سلسلة الأحاديث الضعيفة والموضوعة وأثرها السيئ في الأمة - محمد ناصر الدين الألباني - مكتبة المعارف، الرياض
شیخ محمد ناصر الدین البانی کے کلام کا خلاصہ یہ ہے کہ زاہد الكوثری پر نقد کرتے ہیں کہ محمد بن حمید الرازی کی ابن معین کی توثیق اور امام احمد اور الذہلی کی ثناء پر اعتماد کرتے ہیں اور جمہور ائمہ نے محمد بن حمید کو جو ضعیف بلکہ کذاب تک قرار دیا ہے اس سے غافل ہیں، پھرمحمد بن حمید پر کچھ ائمہ کی جرح نقل کی ہے اور فرمایا کہ لہٰذا نصوص اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ یہ شخص (محمد بن حمید) کذاب تھا۔

(جاری ہے)
 
Last edited:

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,416
ری ایکشن اسکور
2,733
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
الیاس گھمن صاحب فرماتے ہیں:
عمر بن ہارون البلخی (ت294ھ)
آپ ترمذی اور ابن ماجہ کے راوی ہیں۔
(تہذیب التہذیب ج:4 ص 315 تا 317)
آپ کی تعدیل و توثیق ان ائمہ نے فرمائی ہے۔
1: امام قتیبہ بن سعید: قد وثقہ قتیبۃ و غیرہ کہ امام قتیبہ وغیرہ نے اسے ثقہ قرار دیا ہے۔
(مجمع الزوائد: ج1 ص142)
وَعَنْ نَوَّاسِ بْنِ سَمْعَانَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " «كَبُرَتْ خِيَانَةً أَنْ تُحَدِّثَ أَخَاكَ حَدِيثًا هُوَ لَكَ مُصَدِّقٌ وَأَنْتَ بِهِ كَاذِبٌ» ".
رَوَاهُ أَحْمَدُ عَنْ شَيْخِهِ عُمَرَ بْنِ هَارُونَ، وَقَدْ وَثَّقَهُ قُتَيْبَةُ وَغَيْرُهُ، وَضَعَّفَهُ ابْنُ مَعِينٍ وَغَيْرُهُ، وَبَقِيَّةُ رِجَالِهِ ثِقَاتٌ.

ملاحظہ فرمائیں:صفحه 142 جلد 01 - مجمع الزوائد ومنبع الفوائد - أبو الحسن نور الدين الهيثمي - دار الكتاب العربي، بيروت
ملاحظہ فرمائیں:صفحه 189 جلد 01 - مجمع الزوائد ومنبع الفوائد - أبو الحسن نور الدين الهيثمي - دار الكتب العلمية

علامہ ہیثمی نے امام قتیبہ کی توثیق ضرور بیان کی ہے، مگر ساتھ ساتھ یہ بھی بیان کیا ہے کہ اکثر ائمہ حدیث نے انہیں ضعیف قرار دیا ہے، اور خود علامہ ہیثمی نے امام قتیبہ کی توثیق کو قبول نہیں کیا، اور عمر بن هارون کو ضعیف اور متروک قرار دیا ہے۔
وَعَنْ سَالِمٍ خَادِمِ رَسُولِ اللَّهِ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - قَالَ: كَنَ أَزْوَاجُ رَسُولِ اللَّهِ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - يَجْعَلْنَ رُءُوسَهُنَّ أَرْبَعَةَ قُرُونٍ، فَإِذَا اغْتَسَلْنَ جَمَعْنَهُ عَلَى وَسَطِ رُءُوسِهِنَّ، وَلَمْ يَنْقُضْنَهُ.
رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ فِي الْأَوْسَطِ وَالْكَبِيرِ، وَفِيهِ عُمَرُ بْنُ هَارُونَ، وَقَدْ ضَعَّفَهُ أَكْثَرُ النَّاسِ، وَوَثَّقَهُ قُتَيْبَةُ وَغَيْرُهُ.

ملاحظہ فرمائیں:صفحه 273 جلد 01 - مجمع الزوائد ومنبع الفوائد - أبو الحسن نور الدين الهيثمي - دار الكتاب العربي، بيروت
ملاحظہ فرمائیں:صفحه 380 جلد 01 - مجمع الزوائد ومنبع الفوائد - أبو الحسن نور الدين الهيثمي - دار الكتب العلمية

عَنْ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ «أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - قَالَ "" مَنْ أَحْيَا لَيْلَةَ الْفِطْرِ وَلَيْلَةَ الْأَضْحَى لَمْ يَمُتْ قَلْبُهُ يَوْمَ تَمُوتُ الْقُلُوبُ» " رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ فِي الْكَبِيرِ وَالْأَوْسَطِ وَفِيهِ عُمَرُ بْنُ هَارُونَ الْبَلْخِيُّ وَالْغَالِبُ عَلَيْهِ الضَّعْفُ، وَأَثْنَى عَلَيْهِ ابْنُ مَهْدِيٍّ وَغَيْرُهُ، وَلَكِنْ ضَعَّفَهُ جَمَاعَةٌ كَثِيرَةٌ وَاللَّهُ أَعْلَمُ
ملاحظہ فرمائیں:صفحه 198 جلد 02 - مجمع الزوائد ومنبع الفوائد - أبو الحسن نور الدين الهيثمي - دار الكتاب العربي، بيروت
ملاحظہ فرمائیں:صفحه 357 جلد 02 - مجمع الزوائد ومنبع الفوائد - أبو الحسن نور الدين الهيثمي - دار الكتب العلمية

وَعَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ - رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ - قَالَ: سَمِعْتُ مِنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ حَدِيثًا عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا سَمِعْتُهُ مِنْهُ، وَكُنْتُ أَكْثَرَهُمْ لُزُومًا لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ عُمَرُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " «مَا تَلِفَ مَالٌ فِي بَرٍّ، وَلَا بَحْرٍ، إِلَّا بِحَبْسِ الزَّكَاةِ» ".
رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ فِي الْأَوْسَطِ، وَفِيهِ عُمَرُ بْنُ هَارُونَ، وَهُوَ ضَعِيفٌ.

ملاحظہ فرمائیں:صفحه 63 جلد 03 - مجمع الزوائد ومنبع الفوائد - أبو الحسن نور الدين الهيثمي - مكتبة القدسي، القاهرة - دار الكتاب العربي، بيروت
ملاحظہ فرمائیں:صفحه 150 جلد 03 - مجمع الزوائد ومنبع الفوائد - أبو الحسن نور الدين الهيثمي - دار الكتب العلمية

وَعَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ -: " «أُمِرْتُ بِالنَّعْلَيْنِ وَالْخَاتَمِ» ".
رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ فِي الصَّغِيرِ وَالْأَوْسَطِ، وَفِيهِ عُمَرُ بْنُ هَارُونَ الْبَلْخِيُّ، وَهُوَ ضَعِيفٌ.

ملاحظہ فرمائیں:صفحه 138 جلد 05 - مجمع الزوائد ومنبع الفوائد - أبو الحسن نور الدين الهيثمي - دار الكتاب العربي، بيروت
ملاحظہ فرمائیں:صفحه 174 جلد 05 - مجمع الزوائد ومنبع الفوائد - أبو الحسن نور الدين الهيثمي - دار الكتب العلمية

عَنِ النَّوَّاسِ بْنِ سَمْعَانَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ -: " «كَبُرَتْ خِيَانَةً أَنْ تُحَدِّثَ أَخَاكَ حَدِيثًا، هُوَ لَكَ مُصَدِّقٌ وَأَنْتَ بِهِ كَاذِبٌ» ".
رَوَاهُ أَحْمَدُ وَالطَّبَرَانِيُّ، وَفِيهِ عُمَرُ بْنُ هَارُونَ وَهُوَ ضَعِيفٌ.

ملاحظہ فرمائیں:صفحه 98 جلد 08 - مجمع الزوائد ومنبع الفوائد - أبو الحسن نور الدين الهيثمي - دار الكتاب العربي، بيروت
ملاحظہ فرمائیں:صفحه 123 - 124 جلد 08 - مجمع الزوائد ومنبع الفوائد - أبو الحسن نور الدين الهيثمي - دار الكتب العلمية

وَعَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: «لَمَّا جَاءَ نَعْيُ جَعْفَرِ بْنِ أَبِي طَالِبٍ، دَخَلَ النَّبِيُّ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - عَلَى أَسْمَاءَ بِنْتِ عُمَيْسٍ، فَوَضَعَ عَبْدَ اللَّهِ، وَمُحَمَّدًا ابْنَيْ جَعْفَرٍ عَلَى فَخِذِهِ، ثُمَّ قَالَ: " إِنَّ جِبْرِيلَ أَخْبَرَنِي أَنَّ اللَّهَ اسْتَشْهَدَ جَعْفَرًا، وَأَنَّ لَهُ جَنَاحَيْنِ يَطِيرُ بِهِمَا مَعَ الْمَلَائِكَةِ فِي الْجَنَّةِ ". ثُمَّ قَالَ: " اللَّهُمَّ اخْلُفْ جَعْفَرًا فِي وَلَدِهِ».
رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ، وَفِيهِ عُمَرُ بْنُ هَارُونَ، وَهُوَ ضَعِيفٌ وَقَدْ وُثِّقَ، وَبَقِيَّةُ رِجَالِهِ ثِقَاتٌ.


ملاحظہ فرمائیں:صفحه 273 جلد 09 - مجمع الزوائد ومنبع الفوائد - أبو الحسن نور الدين الهيثمي - دار الكتاب العربي، بيروت
ملاحظہ فرمائیں:صفحه 327 جلد 09 - مجمع الزوائد ومنبع الفوائد - أبو الحسن نور الدين الهيثمي - دار الكتب العلمية

وَعَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ جَعْفَرٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ -: " «إِذَا رَأَيْتُمْ مَنْ يَزْهَدُ فِي الدُّنْيَا فَادْنُوَا مِنْهُ ; فَإِنَّهُ يَلْقَى الْحِكْمَةَ» ".
رَوَاهُ أَبُو يَعْلَى، وَفِيهِ عُمَرُ بْنُ هَارُونَ الْبَلْخِيُّ، وَهُوَ مَتْرُوكٌ.

ملاحظہ فرمائیں:صفحه 286 جلد 10 - مجمع الزوائد ومنبع الفوائد - أبو الحسن نور الدين الهيثمي - دار الكتاب العربي، بيروت
ملاحظہ فرمائیں:صفحه 369 جلد 10 - مجمع الزوائد ومنبع الفوائد - أبو الحسن نور الدين الهيثمي - دار الكتب العلمية
الیاس گھمن صاحب فرماتے ہیں:
وقال ایضاً:عمر بن ہارون کان صاحب حدیث کہ عمر بن ہارون محدث تھا۔
(سنن الترمذی: تحت حدیث 2762)
زیادہ احادیث یاد کرنے سے ، یا روایت کرنے سے کسی راوی کا ثقہ ہونا لازم نہیں آتا!!
الیاس گھمن صاحب فرماتے ہیں:
2: امام عبد الرحمٰن بن مہدی: ما قلت فیہ الا خیرا کہ میں اس کے بارے میں خیر ہی کی بات کہتا ہوں۔
(تاریخ بغداد: ج11 ص189)
اور ”وکان ابن مہدی حسن الرای فیہ“ کہ امام عبد الرحمٰن بن مہدی اس کے بارے میں اچھی رائے رکھتے تھے۔
(سیر اعلام النبلاء ج:7ص148تا 152)
وذكر عَن وكيع أنه قَالَ: عُمَر بْن هارون مرّ بنا، وبات عندنا، وكان يزين بالحفظ. سمعت أبا رجاء يَقُولُ: كان عُمَر بْن هارون شديدا على المرجئة، وكان يذكر مساويهم وبلاياهم قَالَ: وإنما كانت العداوة فيما بينه وبينهم من هذا السبب. قَالَ: وكان من أعلم الناس بالقراءات، وكان القراء يقرءون عليه، ويختلفون إليه فِي حروف القرآن. وسمعت أبا رجاء يَقُولُ: سألت عَبْد الرَّحْمَن بْن مهدي فقلت إن عُمَر بْن هارون قد أكثرنا عنه، وبلغنا أنك تذكره؟ فقال: أعوذ بالله ما قلت فيه إلا خيرا قَالَ: وسمعت أبا رجاء يَقُولُ: قلت لعبد الرَّحْمَن بلغنا أنك قلت إنه روى عَن فلان ولم يسمع منه؟ فقال: يا سبحان اللَّه، ما قلت أنا ذا قط، ولو روى ما كان عندنا بمتهم.
ملاحظہ فرمائیں:صفحه 17 جلد 13 - تاريخ بغداد (تاريخ مدينة السلام) - أبو بكر الخطيب البغدادي - دار الغرب الإسلامي – بيروت
ملاحظہ فرمائیں:صفحه 189 جلد 13 - تاريخ بغداد (تاريخ مدينة السلام) - أبو بكر الخطيب البغدادي - دار الكتب العلمية – بيروت

الیاس گھمن صاحب نے تاريخ بغداد اور سير اعلام النبلاء سے عبد الرحمن بن مهدي کے یہ الفاظ تو نقل کردیئے کہ ''میں اس کے بارے میں خیر ہی کہتا ہوں، اور سير اعلام النبلاء سے امام الذ هبي کے الفاظ میں عبد الرحمن بن مهديکا یہ قول نقل کر دیا۔ مگر الیا گھمن صاحب کو اسی سير اعلام النبلاء درج عبد الرحمن بن مهدي کے ہی وہ الفاظ شاید نظر نہیں آئے، جن میں عبد الرحمن بن مهدي نےعمر بن هارون کی تضعیف کی ہے، اور بہت سخت جراح کی ہے۔ عبد الرحمن بن مهدي فرماتے ہیں کہ عمر بن هارون کی میری نزدیک کوئی قیمت یعنی وقعت و حثیت نہیں، اور پھر انہوں نے عمر بن هارون کی روایت کردہ احادیث کو ترک کردیا!!
یہ بات تهذيب الكمال في أسماء الرجال میں امام المزي نے، اور الكامل في ضعفاء الرجال میں امام ابن عدي الجرجاني نے بھی بیان کی ہے۔
وَقَالَ أَبُو طَالِبٍ: سَمِعْتُ أَحْمَدَ يَقُوْلُ: عُمَرُ بنُ هَارُوْنَ لاَ أَرْوِي عَنْهُ، وَقَدْ أَكْثَرتُ عَنْهُ، وَلَكِنْ كَانَ ابْنُ مَهْدِيٍّ يَقُوْلُ: لَمْ يَكُنْ لَهُ قِيْمَةٌ عِنْدِي، وَبَلَغَنِي أَنَّهُ قَالَ: حَدَّثَنِي بِأَحَادِيْثَ، فَلَمَّا قَدِمَ مَرَّةً أُخْرَى، حَدَّثَنِي بِهَا عَنْ إِسْمَاعِيْلَ بنِ عَيَّاشٍ، عَنْ أُوْلِئَكَ فَتَرَكْتُ حَدِيْثَهُ.
ملاحظہ فرمائیں:صفحه 272 جلد 09 - سير أعلام النبلاء - شمس الدين أبو عبد الله الذهبي - مؤسسة الرسالة – بيروت
ملاحظہ فرمائیں:صفحه 2932 - سير أعلام النبلاء - شمس الدين أبو عبد الله الذهبي - بيت الافكار الدولية

وَقَال أَبُو طالب: سمعت أحمد بْن حنبل يقول: عُمَر بْن هارون لا أروي عَنْهُ شيئا.
قال: وهو من أهل بلخ، وقد أكثرت عَنْهُ، ولكن كان عَبْد الرحمن بْن مهدي يقول: لم تكن لَهُ قيمة عندي، وبلغني أنه قال: حَدَّثَنِي بأحاديث فلما قدم مرة أخرى حدث بها عن إسماعيل بْن عياش عن أولئك، فتركت حديثه.

ملاحظہ فرمائیں:صفحه 527 جلد 21 - تهذيب الكمال في أسماء الرجال - يوسف بن عبد الرحمن المزي - مؤسسة الرسالة – بيروت

حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عِصْمَةَ، حَدَّثَنا أبو طالب سمعت أحمد بن حنبل يَقُولُ عُمَر بْن هارون لا أروي عَنْهُ شيئا قَالَ، وَهو من أهل بلخ وقد أكثرت عَنْهُ ولكن كَانَ عَبد الرَّحْمَنِ بْنَ مَهْدِيٍّ يَقُولُ لَمْ تكن لَهُ قيمة عندي وبلغني أنه، قَال: حَدَّثني بأحاديث فلما قدم مرة أخرى حدث بها عَنْ إِسْمَاعِيلَ بْنِ عَيَّاشٍ عَنْ أولئك فتركت حديثه.

ملاحظہ فرمائیں:صفحه 57 جلد 06 - الكامل في ضعفاء الرجال - أبو أحمد بن عدي الجرجاني - دار الكتب العلمية – بيروت
ملاحظہ فرمائیں:صفحه 407 – 408 جلد 07 - الكامل في ضعفاء الرجال - أبو أحمد بن عدي الجرجاني – مكتبة الرشد
ملاحظہ فرمائیں:صفحه 1688 - 1689 جلد 05 - الكامل في ضعفاء الرجال - أبو أحمد بن عدي الجرجاني - دار الفكر للطباعة والنشر والتوزيع
الیاس گھمن صاحب فرماتے ہیں:
3: امام بخاری:” حسن الرای فیہ “کہ امام بخاری عمر بن ہارون کے بارے میں اچھی رائے رکھتے تھے۔
(سنن الترمذی: تحت حدیث 2762)
4: امام ابو عاصم: عمر عندنا احسن اخذا للحدیث من ابن المبارک کہ ہمارے ہاں عمر بن ہارون حدیث کی طلب کے معاملے میں ابن المبارک سے زیادہ بہتر مہارت کے حامل تھے۔
(تذکرۃ الحفاظ للذہبی ج:1ص248، 249)
5: علامہ ذہبی: الحافظ،الامام ،المکثر، عالم خراسان ،من اوعیۃ العلم“ [علم کا خزانہ تھے ]المحدث ، وارتحل و صنف و جمع [حصول علم کے اسفار کئے، کتب تصنیف کیں اور احادیث جمع کیں]
(تذکرۃ الحفاظ للذہبی ج:1ص:248،249،سیر اعلام النبلاء ج:7ص:148تا 152)
وساق الخطيب بإسناده عن أبي عاصم أنه ذكر عمر بن هارون فقال: عمر عندنا أحسن أخذا للحديث من ابن المبارك.
ملاحظہ فرمائیں:صفحه 341 جلد 01 - تذكرة الحفاظ - شمس الدين أبو عبد الله الذهبي - دار الكتب العلمية، بيروت
ملاحظہ فرمائیں:صفحه 311 جلد 01 - تذكرة الحفاظ - شمس الدين أبو عبد الله الذهبي -دائرة المعارف العثمانية
وہی بات دوبارہ کہ احادیث کا زیادہ سماع کرنے سے کسی کی ثقہ ہونا لازم نہیں آتا!!
الیاس گھمن صاحب نے تذکرة الحاظ سے عمر بن هارون کے لئے امام الذهبي کی توثیق ثابت کرنے کے لئے جو فنکاری کی ہے، اسے اگر دجل نہ کہا جائے تو اور کیا کہا جائے؟؟
اول تو ''الحافظ'' ''الإمام'' ،''المكثر'' ''عالم خراسان'' ،''من أوعية العلم'' ؛ یہ کلمات توثیق نہیں، یہ بات امام الذهبی نے انہیں کلمات سے ظاہر ہوتی ہے ، جو کلمات امام الذهبي نے ان کے ساتھ ہی بالکل متصل لکھے ہیں اور وہ کلمات ہیں؛ على ضعف فيه.۔ مگر الیاس گھمن صاحب نے انہیں حذف کردیا۔ کیونکہ اگر الیاس گھمن صاحب ان لفاظ کو بیان کردیتے تو ان کی فنکاری کیا کرتے۔ فتدبر!!
یہی نہیں امام الذهبي نے اسی کتاب میں، اسی باب میں اگلی چند سطور میں، یہاں تک کہا ہے کہ عمر بن هارون کے ضعیف ہونے میں کوئی شک نہیں۔
عمر بن هارون الحافظ الإمام المكثر عالم خراسان أبو حفص الثقفي مولاهم البلخي: من أوعية العلم على ضعف فيه.
۔۔۔۔
۔۔۔۔
قلت: كذبه ابن معين جاء ذلك من وجهين عنه، وقال مرة: ليس بشيء. وقال أبو داود: ليس بثقة. وقال النسائي وجماعة. متروك. قلت لا ريب في ضعفه.

ملاحظہ فرمائیں:صفحه 340 - 341 جلد 01 - تذكرة الحفاظ - شمس الدين أبو عبد الله الذهبي - دار الكتب العلمية، بيروت
ملاحظہ فرمائیں:صفحه 311 – 312 جلد 01 - تذكرة الحفاظ - شمس الدين أبو عبد الله الذهبي -دائرة المعارف النظامية ، حيدرآباد، دكن

الیاس گھمن صاحب فرماتے ہیں:
6: حافظ ابن حجر العسقلانی: كان حافظا من كبار التاسعة. کہ آپ نویں طبقہ کے حافظ ہیں۔
(تقریب التہذیب: ترجمۃ 4979)
الیاس گھمن صاحب نے یہاں بھی بلکل وہی فنکاری دکھائی ہے۔
اسی کتاب میں اسی جملہ میں امام ابن حجر العسقلاني نے عمر بن هارون کو متروک قرار دیا، اور اس کے ساتھ یہ بتلایا کہ وہ نویں طبقہ کے حافظ ہیں۔ یہاں سے ایک بات مزید ثابت ہوتی ہے۔ اور ''حافظ'' کلمہ توثیق نہیں۔ اگر یہ کلمہ توثیق ہوتا تو امام ابن حجر العسقلانی، اسی جملہ میں عمر بن هارون کو متروك قرار نہ دیتے۔
عمر ابن هارون ابن يزيد الثقفي مولاهم البلخي متروك وكان حافظا من كبار التاسعة مات سنة أربع وتسعين [ومائة] ت ق

ملاحظہ فرمائیں:صفحه 417 جلد 01 - تقريب التهذيب - ابن حجر العسقلاني - دار الرشيد – سوريا
ملاحظہ فرمائیں:صفحه 728 جلد 01 - تقريب التهذيب - ابن حجر العسقلاني - دار العاصمة
ملاحظہ فرمائیں:صفحه 459 جلد 01 - تقريب التهذيب - ابن حجر العسقلاني - بيت الأفكار الدولية

الیاس گھمن صاحب فرماتے ہیں:
7: امام ابن خزیمہ: اخرج عنہ فی صحیحہ، اپنی صحیح میں ان سے تخریج کی ہے۔
(صحیح ابن خزیمہ: حدیث نمبر493)
تنبیہہ:
اعتراض کرنے والے زبیر علی زئی کے نزدیک ابن خزیمہ کا کسی روایت کو تخریج کرنا اس کی تصحیح شمار ہوتا ہے۔
(دیکھیے: القول المتین: ص26 از علیزئی غیر مقلد)
اور عمر بن ہارون البلخی سے ابن خزیمہ نے روایت لی ہے۔
(حدیث نمبر493)
لہذا زئی اصول کے تحت بھی یہ راوی قابل احتجاج ہے۔
علی زئی صاحب پر یہ شعر صادق آتا ہے:
تمہاری زلف میں پہنچی تو حسن کہلائی ٭٭٭ وہ تیرگی جو میرے نامہ سیاہ میں تھی
یہاں الیاس گھمن صاحب نے بے موقع اور بے محل شعر عرض کیا ہے! ویسے مجھے حیرت ہوئی کہ الیاس گھمن صاحب شاعر ی کا ذوق بھی رکھتے ہیں!! اللہ خیر کرے! اب شاعروں اور اشعار کی خیر نہیں!!
ابن خزیمہ کا عمر بن هارون کی حديث کو اپنی صحيح میں بطور استدلال پیش کرنا بلکل اس سے عمر بن هارون کی ابن خزيمہ کی جانب سے توثیق ہے بشرطیکہ کہ کوئی دوسرا قرینہ نہ ہو!، لیکن اس سے یہ کہاں لازم آتا ہے کہ ، حافظ زبیر علی زئی، اور تمام اہل حدیث پر بھی لازم ہے کہ وہ عمر بن هارون کو ثقہ قبول کریں۔ الیاس گھمن صاحب علم الجرح والتعديل سے بلکل نابلد معلوم ہوتے ہیں ، جو ایسی بے سروپا بات کر رہے ہیں۔ حافظ زبیر علی زئی نے یہ کہاں لکھا ہے کہ ابن خزیمة کی توثیق ہمیشہ مقبول ہو گی!!!
اگلی تحریر میں علم الجرح و لتعدیل کے حوالے سے کچھ شبہات کا ازالہ کیا جائے گا۔ ان شاء اللہ!
الیاس گھمن صاحب فرماتے ہیں:
اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ محمد بن حمید الرازی اور عمر بن ہارون البلخی پر جہاں کچھ حضرات کی جرح ملتی ہے وہاں کئی ائمہ محدثین کی تعدیل و توثیق بھی ملتی ہے،
یہ الیاس گھمن صاحب کی خام خیالی ہے! یا شاید الیاس گھمن صاحب کو گنتی میں مغالطہ لگا ہے۔ کیونکہ محمد بن حمید الرازي اور عمر بن هارون البلخي پر ایک دو ائمہ حدیث کی اگر توثیق ہے، تو اكثر ائمہ حدیث کی سخت جراح ہیں!!

لنک: اقوال ائمة الحديث في محمد بن حميد الرازي
لنک: اقوال ائمة الحديث في عمر بن هارون البلخي

(جاری ہے)
 
Last edited:

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,416
ری ایکشن اسکور
2,733
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
الیاس گھمن صاحب فرماتے ہیں:
اور اصول حدیث کا قاعدہ ہے کہ جس راوی کی ثقاہت و ضعف میں اختلاف ہو تو اس کی روایت حسن درجہ کی ہوتی ہے، چنانچہ قواعد فی علوم الحدیث میں ہے:
اذا کان روات اسناد الحدیث ثقات وفیہم من اختلف فیہ: اسنادہ حسن، او مستقیم او لا باس بہ•
(قواعد فی علوم الحدیث: ص75)
ترجمہ:جب کسی حدیث کے راوی ثقہ ہوں لیکن ایک راوی ایسا ہو جس کی تعدیل و توثیق میں اختلاف ہو تو اس حدیث کی سند حسن ، مستقیم یا لا باس بہ [مقبول] درجہ کی ہو گی۔
الیاس گھمن صاحب نے ''قواعد في علوم الحدیث'' نامی ایک کتاب کا حوالہ پیش کر کے اس کے مصنف کا نام بھی بیان نہیں کیا، جیسے کہ یہ اصول حدیث کی کوئی مشہور و معروف و متفقہ کتاب ہو!۔ لہٰذا سب سے قبل تو اس کتاب کا تعارف کروانا ضروری ہے۔
محمد بن ظہیر احسن شوق نیموی عظیم آبادی ، جو علامہ نیموی کے نام سے معروف ہیں، فرماتے ہیں :
یہ تو ظاہر ہے کہ حدیث میں پہلے بلوغ المرام یا مشکوٰۃ شریف پڑھائی جاتی ہے۔ اور ان کے مؤلف شافعی المذہب تھے۔ ان کتابوں میں زیادہ وہی حدیثیں ہیں جو مذہب امام شافعی رحمہ اللہ کی مؤید اور مذہب حنفی کے خلاف ہیں، بے چارے اکثر طلبہ یہ ابتدائی کتابیں پڑھ کر مذہب حنفی سے بد عقیدہ ہو جاتے ہی۔ پھر جب صحاح ستہ کی نوبت آتی ہے تو ان کے خیالات اور بھی بدل جاتے ہیں۔ علمائے حنفیہ نے کوئی ایسی کتاب قابل درس تألیف نہیں کی جس میں مختلف کتب احادیث کی وہ حدیثیں ہوں جن سے مذہب حنفی کی تائید ہوتی ہو۔ پھر بے چارے طلباء ابتداء میں پڑھیں تو کیا پڑھیں؟ اور ان کے عقائد درست رہیں تو کیوں کر؟ آخر بے چارے غیر مقلد نہ ہوں تو کیا ہوں؟ فقیر نے انہی خیالات سے حدیث شریف میں آثار السنن کے نام سے ایک کتاب کی بنائے تالیف ڈالی ہے۔ اور ارادہ ہے کہ کتب متداولہ کے علاوہ عرب وعجم کی نایاب کتب احادیث سے حدیثیں انتخاب کر کے جمع کروں اور حاشیہ میں اسناد لکھ دوں۔
رسالہ رد السکین 1312 ھ قومی پریس لکھنؤ؛ بحوالہ : صفحہ 26 اعلاء السنن فی المیزان از شیخ ارشاد الحق اثری
یہاں درج ذیل نکات کو ذہن نشین رکھیے کہ:
  • بلوغ المرام اور مشکوٰۃ کی زیادہ احادیث مذہب حنفی (فقہ حنفیہ) کے خلاف ہیں
  • اسی طرح صحاح ستہ (یعنی كتب ستہ) کی احادیث بھی مذہب حنفی (فقہ حنفی) کے خلاف ہیں
  • علمائے حنفیہ نے علامہ نیموی کے زمانے تک ایسی کوئی حدیث کی کتاب نہیں لکھی جو قابل درس ہو، اور جس سے مذہب حنفی (فقہ حنفی ) کی تائید ہوتی ہو
اشرف علی تھانوی صاحب نے بھی اس ''کارِ زیاں'' میں اپنا حصہ ڈالا اور '' احياء السنن'' لکھی ، مگر اس کی طباعت نہ ہو سکی ، کیونکہ طباعت سے پہلے ہی اس کا نسخہ ضائع ہو گیا! اشرف علی تھانوی صاحب کو پھر خیال آیا تو ''جامع الآثار'' کے نام سے مذہب حنفی کی روایات کو مرتب کیا لیکن ابواب الصلاة سے آگے نہ بڑھ سکے۔ اس کے بعد تھانوی صاحب نے اس کا حاشیہ لکھا جو ''تابع الآثار'' کے نام سے شائع ہوا۔ لیکن ان دو مختصر سے کتابوں سے مذہب حنفیہ کی تائید میں کوئی خاطر خواہ کارنامہ نہ تھا۔ ایک بڑا کارنامہ سرانجام دینے کے لئے اشرف علی تھانوی صاحب نے مولانا احسن سنبھلی کی معاونت سے ایک تألیف کروائی، جو کتاب الحج تک شائع ہوئی۔ مگر اسے بھی روکنا پڑا کیونکہ مولانا احسن سنبھلی نے اشرف علی تھانوی کی ہدایت کے برخلاف وہ رویہ اختیار نہ کیا کہ بے جا مذہب حنفی کی تائید کی جائے، جو اس کتاب کا اصل مقصد تھا، لہٰذا مولانا احسن سنبھلی کو نہ صرف اس کام سے علیحدہ کر دیا گیا بلکہ انہیں کافی طعن بھی برداشت کرنے پڑے۔ اشرف علی تھانوی صاحب بھی با ہمت آدمی تھے، انہوں نے اب بھی ہمت نہ ہاری، اور اس کام کا بیڑا ظفر احمد عثمانی تھانوی کے سپرد کیا۔ ظفر احمد تھانوی نے سب سے پہلے تو ''الاستدراك الحسن علی احياء السنن'' لکھ کر مولانا احسن سنبھلی کی تالیف کے اثر کو زائل کرنے کی کوشش کی، اور پھر ''اعلاء السنن'' تألیف کی۔ اس کتاب اعلاء السنن کا مقدمہ لکھا، جس کا نام ''إنهاء السكن إلى من يطالع إعلاء السنن'' رکھا۔اس مقدمہ میں ظفر احمد تھانوی نے کچھ اصول وضع کئے ہیں کہ کس طرح مذکورہ کتاب یعنی ''اعلاء السنن'' میں مذہب احناف کو درست اور مذہب مخالف کو غلط ثابت کیا جا سکتا ہے۔
مستفید از مقدمہ اعلاء السنن فی المیزان از شیخ ارشاد الحق اثری

''مقدمةاعلاء السنن'' یعنی ''إنهاء السكن إلى من يطالع إعلاء السنن'' میں ایک اصول لکھا ہے:
قلت: وكذا شيخ إمامنا الأعظم أبي حنيفة رضي الله عنه ثقات۔
میں (ظفر احمد عثمانی) کہتا ہوں: اسی طرح ہمارے امام اعظم ابو حنفیہ رضی اللہ عنہ کے تمام استاد ثقہ ہیں۔
اب اس گپ پر کوئی کیا کہے!!
اب اس ''اعلاء السنن'' کے مقدمہ یعنی ''إنهاء السكن إلى من يطالع إعلاء السنن'' کو قواعد في علوم الحديث کے نام سے طبع کرنا، اور اسے اصول حدیث کی کتاب قرار دینا، نشہ آور شراب کی بوتل پر روح افزا کا اسٹیکر لگانے کے مترادف ہے۔

یہ تو تھا اس کتاب کا تعارف، اب آتے ہیں اس مبینہ اصول کی جانب، جو الیاس گھمن صاحب نے بیان کیا ہے۔
إذا كان الحديثُ مختلَفاً فيه: صحَّحه أَو حسَّنه بعضُهم، وضعَّفه آخرون، فهو حسن، وكذا كان الراوي مختلَفاً فيه: وثَّقه بعضُهم، وضعَّفه بعضهم، فهو: حسَنُ الحديث.
جب ایک حدیث مختلف فیہ ہو، بعض نے اسے صحیح یا حسن اور بعض نے اسے ضعیف کہا ہو تو وہ حسن ہوگی۔ اور اسی طرح جب راوی مختلف فیہ، بعض نے اسے ثقہ اور بعض نے ضعیف کہا ہو تو وہ حسن الحدیث ہے
ملاحظہ فرمائیں:صفحه 72 مقدمةاعلاء السنن مسمی به إنهاء السكن إلى من يطالع إعلاء السنن (نام نہادقواعد في علوم الحديث) – ظفر احمد تهانوي – إدارة القرآن والعلوم الإسلامية، كراتشي

اس قاعدے کے مطابق جب بھی کسی حدیث میں کی صحت میں اختلاف ہو جائے، تو اس حدیث کو ضعیف کہنے والےتو بلکل غلط ہوئے، اور وہ حديث حسن درجہ کی قرار پائی!اور اسی طرح کسی راوی کو ضعیف قرار دینے والے بھی بالکل غلط قرار پائے اور وہ راوی حسن درجہ کا ٹھہرا!!
اب کوئی پوچھے کہ اگر یہی اصول رہا تو ان محدثین نے ان احادیث اور راویوں کو آخر ضعیف قرار ہی کیوں دیا؟
پھر امام حاکم کی مستدرك علی صحيحین پر امام الذهبي کا تعاقب، اور اس کی تلخيص چہ معنی دارد؟ اس اصول کے تحت تو پھر مستدرك الحاكم کی تمام احادیث کم سے کم حسن قرار پاتی ہیں، کیونکہ امام حاکم نے تو ان احاديث کوصحیح و حسن قرار دیا ہے۔ اسی طرح صحيح ابن خزيمة اور صحیح ابن حبان کی بھی تمام احادیث کم سے کم حسن قرار پاتی ہیں، کیونکہ انہوں نے بھی اپنی کتب میں درج احادیث کو صحیح و حسن قرار دیا ہے!!
اب کیا کہیں کہ اس بے سرو پا اصول کے رد کے لئے بھی قلم اٹھانا پڑتا ہے، کیونکہ اس امت میں'' بعض الناس '' علم و ہنر سے عاری اور عقل وخرد سے فارغ عجیب و غریب قسم کی باتیں کرتے ہیں، اور عوام سمجھتے ہیں کہ یہ بہت بڑے عالم ہیں۔ حالانکہ اس کے رد کے لئے اتنا ہی کافی ہے کہ مقلدین احناف علم الحدیث میں بوجہ تقلید امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ علیہ یتیم و مسکین ہیں، اور اس معاملہ میں اپنے امام کی تقلید کا حق خوب ادا کرتے ہیں!!
مذکورہ اصول کے تحت تو علم جراح و تعدیل کے اصول بھی ساقط قرار پاتے ہیں، جہاں کسی راوی تعدیل کے مقابلہ میں جرح مقدم قرار پارتی ہے اور وہ راوی ضعیف ٹھہرتا ہے، لیکن اس اصول کے تحت تو وہ راوی حسن درجہ سے نیچے گرتا ہی نہیں! خواہ اس کا کذاب ہونا بھی ثابت ہو جائے، بس کسی ایک نے اس کی توثیق کر دی ہو!! خواہ اس کی توثیق کرنے میں غلطی پر ہی کیوں نہ ہو!!
در اصل یہ اصول بھی اسی واسطے گڑھا گیا ہے، کہ ضعیف اور موضوع روایت کو پیش کر کے یہ باور کروایا جائے کہ فقہ حنفیہ کے مسائل بھی حدیث سے ثابت ہیں!!
لیکن جیسے ہی کوئی حدیث فقہ حنفیہ کے مسئلہ کو غلط ثابت کرتی ہے، تو یہ اپنے ہی گڑھے ہوئے اس اصول سے آنکھیں بند کر کرے اس حدیث کے راوی پر جمہور ائمہ حدیث کی توثیق کے مقابلہ میں بعض ائمہ حدیث کی مردود جرح کو پیش کر کے اس راوی کو مجروح و ضعیف قرار دینے پر اتر آتے ہیں۔ اس وقت انہیں یہ اصول یاد نہیں رہتا کہ بقول خود؛ مختلف فیہ راوی حسن درجہ کا ہوتا ہے ، اور اس کی حدیث حسن درجہ کی ہوتی ہے۔
ثبوت کے لئے ایک مثال پیش کرتا ہوں:
اسی تحریر میں آپ ایک نام دیکھیں گے، ابن اسحاق یعنی محمد بن إسحاق بن يسار صاحب المغازي کا، جنہیں امام المغازی بھی کہتے ہیں۔ جن عبارات سے ظفر احمد تھانوی صاحب نے یہ اصول اخذ کرنے کی کوشش کی ہے ان میں جلال الدین سیوطی کی '' تدريب الراوي'' میں امام الذہبی سے منقول ، اور امام المنذری کی ''الترغيب والترهيب'' کی انہیں عبارات میں جو ظفر احمد تھانوي صاحب نے نقل کی ہیں، موجود ہے، اور صراحتاً انہیں حسن الحدیث قرار دیا!
اب ان عبارات سے ظفر احمد تھانوی صاحب ایک اصول اخذ فرماتے ہیں، تو لازم ہے کہ وہ اگر ان عبارات کے بیان سے متفق ہیں تو محمد بن إسحاق بن يسار کو کم سے کم حسن الحدیث قبول کریں، یہ تو نری ہٹ دھرمی ہو گی کہ ان عبارات کو اپنے اصول کی دلیل میں پیش کریں مگر محمد بن إسحاق بن يسار کو حسن الحدیث تسلیم نہ کریں۔
اور یہ مقلدین حنفیہ بڑی جرأت کے ساتھ اس ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔
جس کتاب کے مقدمہ میں یہ اصول گڑھا گیا ہے، اسی کتاب میں جلد 04 کے صفحہ 115 – 116 پر رقم طراز ہیں:
وقوله صلی الله عليه وسلم ﴿فلا تفعلو إلا بأم القرآن﴾ فلم يثبت عن محمود بن الربيع عن عبادة إلا برواية ابن اسحاق عن مكحول، وابن إسحاق وإن كان ثقة ولكنه مختلف فيه لا يحتج بما تفرد به.
اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا قول ﴿ایسا نہ کیا کرو (یعنی امام کے پیچھے نہ پڑھا کرو) سوائے ام القرآن یعنی سورۃ فاتحہ کے یہ محمود بن الربیع کے وسطے سے عبادۃ رضی اللہ عنہ سے ثابت نہیں سوائے ابن اسحاق کے مکحول کے واسطے سے، اور جب ابن اسحاق ثقہ ہے لیکن مختلف فیہ ہے، اس سے دلیل نہیں لی جائے گی اگر وہ متفرد ہو!!
ملاحظہ فرمائیں:صفحه 115 - 116 جلد 04 اعلاء السنن – ظفر احمد تهانوي – إدارة القرآن والعلوم الإسلامية، كراتشي

کہاں گیا اب وہ مختلف فیہ راوی کا حسن الحدیث ہونا، اور اس کی حدیث کا حسن ہونا؟
جبکہ اسی کتاب کے مقدمہ میں یعنی کہ جسے قواعد في علوم الحدیث کا نام دیا گیا ہے، مذکورہ قاعدہ سے اگلا قاعدہ یہ بیان ہوا کہ حسن حدیث صحيح حدیث کی طرح حجت ہے، گو کہ اس کی قوت الگ ہے!
الحسن كالصحيح في الاحتجاج به وإن كان دونه في القوَّة.
ملاحظہ فرمائیں:صفحه 78 مقدمةاعلاء السنن مسمی به إنهاء السكن إلى من يطالع إعلاء السنن (نام نہادقواعد في علوم الحديث) – ظفر احمد تهانوي – إدارة القرآن والعلوم الإسلامية، كراتشي

الجھا ہے پاؤں یار کا زلف دراز میں
لو آپ اپنے دام میں صیاد


(جاری ہے)
 
Last edited:
Top