السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
الیاس گھمن صاحب فرماتے ہیں:
اور اصول حدیث کا قاعدہ ہے کہ جس راوی کی ثقاہت و ضعف میں اختلاف ہو تو اس کی روایت حسن درجہ کی ہوتی ہے، چنانچہ قواعد فی علوم الحدیث میں ہے:
اذا کان روات اسناد الحدیث ثقات وفیہم من اختلف فیہ: اسنادہ حسن، او مستقیم او لا باس بہ•
(قواعد فی علوم الحدیث: ص75)
ترجمہ:جب کسی حدیث کے راوی ثقہ ہوں لیکن ایک راوی ایسا ہو جس کی تعدیل و توثیق میں اختلاف ہو تو اس حدیث کی سند حسن ، مستقیم یا لا باس بہ [مقبول] درجہ کی ہو گی۔
الیاس گھمن صاحب نے
''قواعد في علوم الحدیث'' نامی ایک کتاب کا حوالہ پیش کر کے اس کے مصنف کا نام بھی بیان نہیں کیا، جیسے کہ یہ اصول حدیث کی کوئی مشہور و معروف و متفقہ کتاب ہو!۔ لہٰذا سب سے قبل تو اس کتاب کا تعارف کروانا ضروری ہے۔
محمد بن ظہیر احسن شوق نیموی عظیم آبادی ، جو علامہ نیموی کے نام سے معروف ہیں، فرماتے ہیں :
یہ تو ظاہر ہے کہ حدیث میں پہلے بلوغ المرام یا مشکوٰۃ شریف پڑھائی جاتی ہے۔ اور ان کے مؤلف شافعی المذہب تھے۔ ان کتابوں میں زیادہ وہی حدیثیں ہیں جو مذہب امام شافعی رحمہ اللہ کی مؤید اور مذہب حنفی کے خلاف ہیں، بے چارے اکثر طلبہ یہ ابتدائی کتابیں پڑھ کر مذہب حنفی سے بد عقیدہ ہو جاتے ہی۔ پھر جب صحاح ستہ کی نوبت آتی ہے تو ان کے خیالات اور بھی بدل جاتے ہیں۔ علمائے حنفیہ نے کوئی ایسی کتاب قابل درس تألیف نہیں کی جس میں مختلف کتب احادیث کی وہ حدیثیں ہوں جن سے مذہب حنفی کی تائید ہوتی ہو۔ پھر بے چارے طلباء ابتداء میں پڑھیں تو کیا پڑھیں؟ اور ان کے عقائد درست رہیں تو کیوں کر؟ آخر بے چارے غیر مقلد نہ ہوں تو کیا ہوں؟ فقیر نے انہی خیالات سے حدیث شریف میں آثار السنن کے نام سے ایک کتاب کی بنائے تالیف ڈالی ہے۔ اور ارادہ ہے کہ کتب متداولہ کے علاوہ عرب وعجم کی نایاب کتب احادیث سے حدیثیں انتخاب کر کے جمع کروں اور حاشیہ میں اسناد لکھ دوں۔
رسالہ رد السکین 1312 ھ قومی پریس لکھنؤ؛ بحوالہ : صفحہ 26 اعلاء السنن فی المیزان از شیخ ارشاد الحق اثری
یہاں درج ذیل نکات کو ذہن نشین رکھیے کہ:
- بلوغ المرام اور مشکوٰۃ کی زیادہ احادیث مذہب حنفی (فقہ حنفیہ) کے خلاف ہیں
- اسی طرح صحاح ستہ (یعنی كتب ستہ) کی احادیث بھی مذہب حنفی (فقہ حنفی) کے خلاف ہیں
- علمائے حنفیہ نے علامہ نیموی کے زمانے تک ایسی کوئی حدیث کی کتاب نہیں لکھی جو قابل درس ہو، اور جس سے مذہب حنفی (فقہ حنفی ) کی تائید ہوتی ہو
اشرف علی تھانوی صاحب نے بھی اس ''کارِ زیاں'' میں اپنا حصہ ڈالا اور
'' احياء السنن'' لکھی ، مگر اس کی طباعت نہ ہو سکی ، کیونکہ طباعت سے پہلے ہی اس کا نسخہ ضائع ہو گیا! اشرف علی تھانوی صاحب کو پھر خیال آیا تو
''جامع الآثار'' کے نام سے مذہب حنفی کی روایات کو مرتب کیا لیکن ابواب الصلاة سے آگے نہ بڑھ سکے۔ اس کے بعد تھانوی صاحب نے اس کا حاشیہ لکھا جو
''تابع الآثار'' کے نام سے شائع ہوا۔ لیکن ان دو مختصر سے کتابوں سے مذہب حنفیہ کی تائید میں کوئی خاطر خواہ کارنامہ نہ تھا۔ ایک بڑا کارنامہ سرانجام دینے کے لئے اشرف علی تھانوی صاحب نے مولانا احسن سنبھلی کی معاونت سے ایک تألیف کروائی، جو کتاب الحج تک شائع ہوئی۔ مگر اسے بھی روکنا پڑا کیونکہ مولانا احسن سنبھلی نے اشرف علی تھانوی کی ہدایت کے برخلاف وہ رویہ اختیار نہ کیا کہ بے جا مذہب حنفی کی تائید کی جائے، جو اس کتاب کا اصل مقصد تھا، لہٰذا مولانا احسن سنبھلی کو نہ صرف اس کام سے علیحدہ کر دیا گیا بلکہ انہیں کافی طعن بھی برداشت کرنے پڑے۔ اشرف علی تھانوی صاحب بھی با ہمت آدمی تھے، انہوں نے اب بھی ہمت نہ ہاری، اور اس کام کا بیڑا ظفر احمد عثمانی تھانوی کے سپرد کیا۔ ظفر احمد تھانوی نے سب سے پہلے تو
''الاستدراك الحسن علی احياء السنن'' لکھ کر مولانا احسن سنبھلی کی تالیف کے اثر کو زائل کرنے کی کوشش کی، اور پھر
''اعلاء السنن'' تألیف کی۔ اس کتاب اعلاء السنن کا مقدمہ لکھا، جس کا نام
''إنهاء السكن إلى من يطالع إعلاء السنن'' رکھا۔اس مقدمہ میں ظفر احمد تھانوی نے کچھ اصول وضع کئے ہیں کہ کس طرح مذکورہ کتاب یعنی
''اعلاء السنن'' میں مذہب احناف کو درست اور مذہب مخالف کو غلط ثابت کیا جا سکتا ہے۔
مستفید از مقدمہ اعلاء السنن فی المیزان از شیخ ارشاد الحق اثری
''مقدمةاعلاء السنن'' یعنی
''إنهاء السكن إلى من يطالع إعلاء السنن'' میں ایک اصول لکھا ہے:
قلت: وكذا شيخ إمامنا الأعظم أبي حنيفة رضي الله عنه ثقات۔
میں (ظفر احمد عثمانی) کہتا ہوں: اسی طرح ہمارے امام اعظم ابو حنفیہ رضی اللہ عنہ کے تمام استاد ثقہ ہیں۔
اب اس گپ پر کوئی کیا کہے!!
اب اس
''اعلاء السنن'' کے مقدمہ یعنی '
'إنهاء السكن إلى من يطالع إعلاء السنن'' کو
قواعد في علوم الحديث کے نام سے طبع کرنا، اور اسے اصول حدیث کی کتاب قرار دینا، نشہ آور شراب کی بوتل پر روح افزا کا اسٹیکر لگانے کے مترادف ہے۔
یہ تو تھا اس کتاب کا تعارف، اب آتے ہیں اس مبینہ اصول کی جانب، جو الیاس گھمن صاحب نے بیان کیا ہے۔
إذا كان الحديثُ مختلَفاً فيه: صحَّحه أَو حسَّنه بعضُهم، وضعَّفه آخرون، فهو حسن، وكذا كان الراوي مختلَفاً فيه: وثَّقه بعضُهم، وضعَّفه بعضهم، فهو: حسَنُ الحديث.
جب ایک حدیث مختلف فیہ ہو، بعض نے اسے صحیح یا حسن اور بعض نے اسے ضعیف کہا ہو تو وہ حسن ہوگی۔ اور اسی طرح جب راوی مختلف فیہ، بعض نے اسے ثقہ اور بعض نے ضعیف کہا ہو تو وہ حسن الحدیث ہے
ملاحظہ فرمائیں:صفحه 72 مقدمةاعلاء السنن مسمی به إنهاء السكن إلى من يطالع إعلاء السنن (نام نہادقواعد في علوم الحديث) – ظفر احمد تهانوي – إدارة القرآن والعلوم الإسلامية، كراتشي
اس قاعدے کے مطابق جب بھی کسی حدیث میں کی صحت میں اختلاف ہو جائے، تو اس حدیث کو ضعیف کہنے والےتو بلکل غلط ہوئے، اور وہ حديث حسن درجہ کی قرار پائی!اور اسی طرح کسی راوی کو ضعیف قرار دینے والے بھی بالکل غلط قرار پائے اور وہ راوی حسن درجہ کا ٹھہرا!!
اب کوئی پوچھے کہ اگر یہی اصول رہا تو ان محدثین نے ان احادیث اور راویوں کو آخر ضعیف قرار ہی کیوں دیا؟
پھر امام حاکم کی
مستدرك علی صحيحین پر امام الذهبي کا تعاقب، اور اس کی تلخيص چہ معنی دارد؟ اس اصول کے تحت تو پھر مستدرك الحاكم کی تمام احادیث کم سے کم حسن قرار پاتی ہیں، کیونکہ امام حاکم نے تو ان احاديث کوصحیح و حسن قرار دیا ہے۔ اسی طرح
صحيح ابن خزيمة اور
صحیح ابن حبان کی بھی تمام احادیث کم سے کم حسن قرار پاتی ہیں، کیونکہ انہوں نے بھی اپنی کتب میں درج احادیث کو صحیح و حسن قرار دیا ہے!!
اب کیا کہیں کہ اس بے سرو پا اصول کے رد کے لئے بھی قلم اٹھانا پڑتا ہے، کیونکہ اس امت میں'' بعض الناس '' علم و ہنر سے عاری اور عقل وخرد سے فارغ عجیب و غریب قسم کی باتیں کرتے ہیں، اور عوام سمجھتے ہیں کہ یہ بہت بڑے عالم ہیں۔ حالانکہ اس کے رد کے لئے اتنا ہی کافی ہے کہ مقلدین احناف علم الحدیث میں بوجہ تقلید امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ علیہ یتیم و مسکین ہیں، اور اس معاملہ میں اپنے امام کی تقلید کا حق خوب ادا کرتے ہیں!!
مذکورہ اصول کے تحت تو علم جراح و تعدیل کے اصول بھی ساقط قرار پاتے ہیں، جہاں کسی راوی تعدیل کے مقابلہ میں جرح مقدم قرار پارتی ہے اور وہ راوی ضعیف ٹھہرتا ہے، لیکن اس اصول کے تحت تو وہ راوی حسن درجہ سے نیچے گرتا ہی نہیں! خواہ اس کا کذاب ہونا بھی ثابت ہو جائے، بس کسی ایک نے اس کی توثیق کر دی ہو!! خواہ اس کی توثیق کرنے میں غلطی پر ہی کیوں نہ ہو!!
در اصل یہ اصول بھی اسی واسطے گڑھا گیا ہے، کہ ضعیف اور موضوع روایت کو پیش کر کے یہ باور کروایا جائے کہ فقہ حنفیہ کے مسائل بھی حدیث سے ثابت ہیں!!
لیکن جیسے ہی کوئی حدیث فقہ حنفیہ کے مسئلہ کو غلط ثابت کرتی ہے، تو یہ اپنے ہی گڑھے ہوئے اس اصول سے آنکھیں بند کر کرے اس حدیث کے راوی پر جمہور ائمہ حدیث کی توثیق کے مقابلہ میں بعض ائمہ حدیث کی مردود جرح کو پیش کر کے اس راوی کو مجروح و ضعیف قرار دینے پر اتر آتے ہیں۔ اس وقت انہیں یہ اصول یاد نہیں رہتا کہ بقول خود؛ مختلف فیہ راوی حسن درجہ کا ہوتا ہے ، اور اس کی حدیث حسن درجہ کی ہوتی ہے۔
ثبوت کے لئے ایک مثال پیش کرتا ہوں:
اسی تحریر میں آپ ایک نام دیکھیں گے،
ابن اسحاق یعنی
محمد بن إسحاق بن يسار صاحب المغازي کا، جنہیں امام المغازی بھی کہتے ہیں۔ جن عبارات سے ظفر احمد تھانوی صاحب نے یہ اصول اخذ کرنے کی کوشش کی ہے ان میں جلال الدین سیوطی کی
'' تدريب الراوي'' میں امام الذہبی سے منقول ، اور امام المنذری کی
''الترغيب والترهيب'' کی انہیں عبارات میں جو ظفر احمد تھانوي صاحب نے نقل کی ہیں، موجود ہے، اور صراحتاً انہیں حسن الحدیث قرار دیا!
اب ان عبارات سے ظفر احمد تھانوی صاحب ایک اصول اخذ فرماتے ہیں، تو لازم ہے کہ وہ اگر ان عبارات کے بیان سے متفق ہیں تو
محمد بن إسحاق بن يسار کو کم سے کم حسن الحدیث قبول کریں، یہ تو نری ہٹ دھرمی ہو گی کہ ان عبارات کو اپنے اصول کی دلیل میں پیش کریں مگر
محمد بن إسحاق بن يسار کو حسن الحدیث تسلیم نہ کریں۔
اور یہ مقلدین حنفیہ بڑی جرأت کے ساتھ اس ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔
جس کتاب کے مقدمہ میں یہ اصول گڑھا گیا ہے، اسی کتاب میں جلد 04 کے صفحہ 115 – 116 پر رقم طراز ہیں:
وقوله صلی الله عليه وسلم ﴿فلا تفعلو إلا بأم القرآن﴾ فلم يثبت عن محمود بن الربيع عن عبادة إلا برواية ابن اسحاق عن مكحول، وابن إسحاق وإن كان ثقة ولكنه مختلف فيه لا يحتج بما تفرد به.
اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا قول
﴿ایسا نہ کیا کرو (یعنی امام کے پیچھے نہ پڑھا کرو) سوائے ام القرآن یعنی سورۃ فاتحہ کے
﴾ یہ محمود بن الربیع کے وسطے سے عبادۃ رضی اللہ عنہ سے ثابت نہیں سوائے ابن اسحاق کے مکحول کے واسطے سے، اور جب ابن اسحاق ثقہ ہے لیکن مختلف فیہ ہے، اس سے دلیل نہیں لی جائے گی اگر وہ متفرد ہو!!
ملاحظہ فرمائیں:صفحه 115 - 116 جلد 04 اعلاء السنن – ظفر احمد تهانوي – إدارة القرآن والعلوم الإسلامية، كراتشي
کہاں گیا اب وہ مختلف فیہ راوی کا حسن الحدیث ہونا، اور اس کی حدیث کا حسن ہونا؟
جبکہ اسی کتاب کے مقدمہ میں یعنی کہ جسے قواعد في علوم الحدیث کا نام دیا گیا ہے، مذکورہ قاعدہ سے اگلا قاعدہ یہ بیان ہوا کہ حسن حدیث صحيح حدیث کی طرح حجت ہے، گو کہ اس کی قوت الگ ہے!
الحسن كالصحيح في الاحتجاج به وإن كان دونه في القوَّة.
ملاحظہ فرمائیں:صفحه 78 مقدمةاعلاء السنن مسمی به إنهاء السكن إلى من يطالع إعلاء السنن (نام نہادقواعد في علوم الحديث) – ظفر احمد تهانوي – إدارة القرآن والعلوم الإسلامية، كراتشي
الجھا ہے پاؤں یار کا زلف دراز میں
لو آپ اپنے دام میں صیاد
(جاری ہے)