السلام علیکم
اس آیت سے لوگ وسیلہ کی دلیل پیش کرتے ہیں
اور براے مہربانی اس کی تشریح و تفصیل سے جواب دیں،
جزاک اللہ
اور معذرت ۔۔۔ اردو مہارت سے نہ لکھنے کی وجہ سے تصویر شیر کی ہے،
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
جہاں تک پہلی آیت کریمہ کا تعلّق ہے تو اس میں یہ بتایا گیا ہے کہ اگر نبی کریمﷺ کی زندگی میں کسی صحابی سے اپنے آپ پر ظلم وزیادتی (گناہ وغیرہ) ہوجائے، تو وہ نبی کریمﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر خود بھی اللہ تعالیٰ سے استغفار کرے اور نبی کریمﷺ بھی اس کیلئے استغفار کریں تو اللہ تعالیٰ اس پر رحم کرتے ہوئے اس کا گناہ معاف فرما دیں گے۔
گویا
کسی نیک شخص کی زندگی میں اس سے دُعا کرانا اور اللہ تعالیٰ کو اس کا وسیلہ اور سفارش پیش کرنا جائز ہے، جیسا کہ جامع ترمذی اور سنن ابن ماجہ وغیرہ میں صحیح حدیث مبارکہ ہے کہ ایک نابینا صحابی نبی کریمﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ آپ اللہ سے دُعا کریں کہ وہ مجھے ٹھیک کردیں! نبی کریمﷺ نے فرمایا:
« إن شئت دعوتُ، وإن شئت صبرتَ؛ فهو خير لك » کہ ’’اگر تم چاہو تو میں دُعا کر دیتا ہوں، اور اگر تم چاہو تو صبر کرو، یہ تمہارے لئے زیادہ بہتر ہے۔‘‘ اس صحابی نے عرض کیا کہ نہیں! آپ میرے لئے دُعا کر دیں! تو آپﷺ نے اسے حكم ديا کہ اچھا وضو کرکے دو رکعتیں پڑھے اور یہ دُعا کرے:
تو اللہ تعالیٰ نے اس کی بینائی لوٹا دی۔ (صحیح جامع ترمذی3578، صحیح سنن ابن ماجہ1145)
لیکن یہ واضح رہے کہ اللہ تعالیٰ سے دُعا کرتے ہوئے انہیں فوت شدگان کا وسیلہ پیش کرنا جائز نہیں، اس پر صحابہ کرام کا اجماع ہے، جیسا کہ صحیح بخاری میں سیدنا انس بن مالک سے مروی ہے کہ (عہد فاروقی میں) جب قحط پڑتا تو سیدنا عمر بن خطاب نبی کریمﷺ کے چچا عباس بن عبد المطلب (جو اس وقت حیات تھے) کے وسیلے سے بارش کی دُعا کرتے ہوئے فرمایا کرتے:
اللهم إنا كنا نتوسل إليك بنبينا فتسقينا ، وإنا نتوسل إليك بعم نبينا فاسقنا کہ ’’اے اللہ! ہم آپ کو (عہدِ نبویﷺ میں قحط کی صورت میں) اپنے نبیﷺ کا وسیلہ پیش کیا کرتے تو آپ بارش برسا دیا کرتے تھے، اور اب (نبی کریمﷺ کے فوت ہونے کے بعد) ہم آپ کو آپ کے نبیﷺ کے چچا (عباس) کا وسیلہ پیش کرتے ہیں کہ آپ ہم پر بارش نازل فرما دیں۔‘‘ سیدنا انس فرماتے ہیں کہ بارش ہو جایا کرتی۔
(صحیح بخاری 3710)
اس سے معلوم ہوا کہ عہد فاروقی میں قحط کی صورت میں سیدنا عمر مدینہ نبویہ میں روضہ رسول پر جا کر یا دور ہی سے آپﷺ کا وسیلہ پیش کرنے کی بجائے سیدنا عباس کو بلا کر ان سے دُعا کراتے اور صحابہ کرام کے ساتھ خود بھی دُعا کرتے تو بارش ہوجایا کرتی تھی۔ اور کسی صحابی سے بھی اس کا انکار ثابت نہیں۔
واللہ تعالیٰ اعلم!
جہاں تک دوسری آیت کریمہ کا تعلّق ہے تو عرض یہ ہے کہ وسیلہ کا اصل مطلب ’قرب‘ ہوتا ہے، فرمانِ باری ہے:
﴿ أُولَـٰئِكَ الَّذِينَ يَدْعُونَ يَبْتَغُونَ إِلَىٰ رَبِّهِمُ الْوَسِيلَةَ أَيُّهُمْ أَقْرَبُ وَيَرْجُونَ رَحْمَتَهُ وَيَخَافُونَ عَذَابَهُ ﴾ ... سورة الإسراء کہ ’’) جنہیں یہ لوگ پکارتے ہیں خود وه
اپنے رب کے تقرب کی جستجو میں رہتے ہیں کہ ان میں سے کون زیاده نزدیک ہوجائے وه خود اس کی رحمت کی امید رکھتے اور اس کے عذاب سے خوفزده رہتے ہیں۔‘‘ اس آیت کریمہ میں وسیلہ کی وضاحت ہی قرب سے کی گئی ہے۔
تو سورۃ المائدۃ کی اس آیت کریمہ میں ایمان والوں کو وسیلہ تلاش کرنے کا حکم دیا گیا ہے یعنی نیک اعمال کرنے کا حکم دیا گیا ہے جن سے اللہ کا قرب حاصل ہو۔ اس کی دلیل یہ بھی ہے کہ
﴿ وابتغوا إليه الوسيله ﴾ سے پہلے بھی تقویٰ (نیک عمل) اور بعد میں بھی جہاد فی سبیل اللہ کا حکم دیا گیا ہے، جس سے واضح معلوم ہوتا ہے کہ یہاں وسیلہ سے مراد تقویٰ اور جہاد فی سبیل اللہ کی مثل نیک اعمال مراد ہیں جنہیں سر انجام دے کر ایمان والے اپنے رب کے قریب ہو جائیں۔
تفاسیر میں صحابہ کرام وتابعین ومفسرین کے اقوال کی روشنی میں اس آیت کریمہ کی یہی تشریح کی گئی ہے۔
واللہ تعالیٰ اعلم!