بھائی یہ ایک مکمل ترتیب ہے۔ مجتہد مطلق اصول منضبط کرتا ہے اور ان پر بعض فروع اخذ کرتا ہے۔ پھر مجتہد فی المذہب انہی اصولوں کی بنا پر فروع اخذ کرتے ہیں پھر ان کے بعد والے ان کے اقوال کو ترتیب دیتے ہیں اور مزید فروع ضرورت پڑنے پر اخذ کرتے جاتے ہیں اسی طرح چلتا رہتا ہے یہاں تک کہ وہ مفتیان کرام جو مذاہب کے اقوال میں ترتیب و ترجیح کی کم از کم صلاحیت رکھتے ہیں وہ مفتی بہ اقوال کو جمع کرتے ہیں اور ان پر فتاوی لکھتے ہیں۔ جب عامی ایک عام مفتی سے مسئلہ پوچھتا ہے تو وہ ان فتاوی سے بتا دیتا ہے۔ اور اگر ان فتاوی میں مفتی بہ مسئلہ نہ ہو یا ہو لیکن موجودہ صورت مسئلہ یا حالات کے مطابق نہ ہو تو پھر وہ اس بات پر غور کرتا ہے کہ ان اقوال میں سے کون سا قول حالات کے مطابق اور دلائل شرعیہ کے نزدیک ہے۔ اس سلسلے میں اس کی کئی سالہ محنت اس کی مدد کرتی ہے۔ اور اگر اسے تجربہ نہ ہو تو وہ تجربہ کار مفتیان کرام کی زیر نگرانی ان مسائل کی تحقیق کرتا ہے۔
یہ ایک مکمل ترتیب ہے۔
بھائی اسی مکمل ترتیب سے تو ہمارا اختلاف ہے ۔ آخر تقلید کی وجہ سے کیوں شرعی نصوص سے استفاد کا دائرہ تنگ در تنگ ہوتا جاتا ہے ۔ اس کا جو جواب عام طور پر آپ کی طرف سے دیا جاتا ہے اس جواب کے جواب میں علامہ صنعانی کی یہ عبارت بار دیگر ملاحظہ فرمائیے :
والأفهام الَّتِي فهم بهَا الصَّحَابَة الْكَلَام الإلهي وَالْخطاب النَّبَوِيّ هِيَ كأفهامنا وأحلامهم كأحلامنا إِذْ لَو كَانَت الأفهام مُتَفَاوِتَة تَفَاوتا يسْقط مَعَه فهم الْعبارَات الإلهية وَالْأَحَادِيث النَّبَوِيَّة لما كُنَّا مكلفين وَلَا مأمورين وَلَا منهيين لَا اجْتِهَادًا وَلَا تقليدا
جو سمجھ بوجھ صحابہ کو عطا ہوئی تھی کہ انہوں نے کلام الہی اور خطاب نبوی کو سمجھا اسی نعمت سے اللہ نے ہمیں بھی نوازا ہے کیونکہ ( تغیر زمان وغیرہ کے سبب ) اگر اتنا زیادہ فرق پڑ جائے کہ ہم سے قرآن وسنت کی سمجھ بوجھ کی اہلیت ہی ختم ہوجائے تو اس طرح تو ہم قرآن وسنت کے اوامر و نواہی کے مکلف ہی نہیں رہیں گے نہ اجتہاد کے ذریعے اور نہ کسی کی تقلید کرکے ۔
اگر ہم ایک عامی کو کہیں کہ وہ قرآن و حدیث کو سمجھ کر خود ہی مسائل کا استنباط کر لے تو وہ مسائل جن میں نصوص صحیحہ صریحہ غیر متعارضہ موجود ہیں جیسے نماز ادا کرنا وغیرہ انہیں تو وہ تلاش کر لے گا لیکن کیا باقی کو حاصل کر سکے گا؟ اسی طرح ایک عام عالم یا مفتی جو اتنی صلاحیت نہ رکھتا ہو (یا یوں کہہ لیں ان شرائط کو پورا نہ کر سکتا ہو) کیا وہ ان مسائل میں اجتہاد کر سکے گا؟
اس بات میں کوئی کلام نہیں کہ ہر آدمی تمام مسائل کا استنباط قرآ وسنت سے نہیں کرسکتا ۔ لہذا اسے اہل علم سے پوچھنا چاہیے بلکہ پوچھنا فرض ہے ۔ اگر اسی کا نام آپ کے ہاں تقلید ہے تو پھر تقلید تو اس عالم دین کی ہوئی جس سے مسئلہ پوچھا ہے وہ امام ابو حنیفہ کی تقلید کا کیونکر مدعی ہے ؟ گویا پھر وہ مقلد کا مقلد بلکہ یہ تو تقلید در تقلید کا لامتناہی سلسلہ ہے ۔
دوسری بات قرآن مجید کے اندر فاسئلوا اہل الذکر میں جو حکم ارشاد ہوا ہے ۔ وہ قرآن وسنت سمجھنے کے بارے میں ہے یا اقوال رجال سمجھنے کے بارے میں ۔آپ کہہ سکتے ہیں کہ عمومی طور پر یہ دونوں کو شامل ہے لیکن یہاں مطلوب اول کیا ہے ؟ فہم قرآن وسنت یا فہم اقوال رجال یا مذہب ؟
دو لفظوں کی بات ہے جو عالم دین فقہ حنفی کو سمجھنے کی استعداد رکھتا ہے وہ قرآن وسنت پر غور و فکر کیوں نہیں کرسکتا ؟ کیونکہ یہ بات بالکل واضح ہے کہ قرآن وسنت کسی بھی فقہ کے مقابلے میں بہر صورت آسان اور میسر و متوفر ہے ۔
یہاں یہ بات واضح رہے کہ جن مسائل میں نصوص صریحہ صحیحہ غیر متعارضہ موجود ہیں ان میں تقلید نہیں ہوتی۔ وہاں آپ کسی بھی امام کا قول اٹھائیں یا خود قرآن و حدیث سے دیکھیں نتیجہ ایک ہی نکلے گا۔
تقلید ان مسائل میں ہوتی جہاں نص موجود نہ ہو، یا نصوص ہوں لیکن مجمل ہوں، یا نصوص ہوں لیکن متعارض ہوں یا نصوص ہوں لیکن مشترک المعنی ہوں۔
(یہ میں اپنے استقرا پر اعتماد کرتے ہوئے چند مثالیں دے رہا ہوں۔ مطلب یہ ہے کہ ہر وہ جگہ جہاں صرف نص سے مسئلہ حاصل نہ کیا جا سکتا ہو اس کے تعارض یا خفاء یا کسی اور وجہ سے)
قرآن وسنت کی نصوص کا درست معنی و محمل سمجھنے کے لیے کسی ایک امام کو یا کسی ایک مذاہب کے آئمہ کو خاص کرنا میرے خیال سے قرین انصاف نہیں ۔کیونکہ حق کسی جماعت یا مذہب یا فرقے میں محصور ہونےکی بجائے پوری امت میں محصور ہے ۔ جہاں سےملیں وہیں سے لینا چاہیے ۔
ایک عامی کے لیے قرآن و سنت تک رسائی امام کے قول تک رسائی کے مقابلے میں زیادہ آسان ہے۔ لیکن سمجھ وہ آسانی سے تب ہی سکتا ہے جب کم از کم عربی جانتا ہو (اردو ترجمے سے جو فرق آتا ہے آپ اس سے واقف ہی ہوں گے) اور یہ مسئلہ ایسا ہو کہ نہ تو اس کے خلاف کوئی نص ہو (چاہے بظاہر ہی تعارض کیوں نہ ہو) اور نہ ہی کسی قسم کا اجمال و پوشیدگی ہو۔ اگر ایسا ہوا اور اس نے کسی عالم سے یہ پوچھا اور عالم نے وہ بتایا جو عالم کے نزدیک راجح ہے تو یہ تقلید ہی ہوگی۔
ایک ہے قرآن وسنت سمجھنےمیں علماء دین کی مدد لینا ۔ دوسرا ہے فقہ حنفی ( مثلا ) سمجھنے کے لیے علماء کی طرف رجوع کرنا ۔
آپ دوسرا کام پسند کرتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ ہم اسی کی استطاعت رکھتے ہیں ۔
جبکہ ہم پہلے کو ترجیح دیتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ جس طرح صحابہ سے یہی مطلوب تھا ہم سے بھی یہی مقصود ہے ۔
نام آپ اس کا جو مرضی رکھ لیں ۔ ولا مشاحۃ فی الاصطلاح ۔
قرآن و سنت کے سمجھنے کی تفصیل میں نے عرض کی اور کتب فقہ عموما عامی کے لیے نہیں ہوتیں بلکہ علماء کے لیے ہوتی ہیں تا کہ ان کے سامنے مسئلہ کی تخریج کے طرق آ جائیں۔
ویسے عامی کا وظیفہ آپ کے نزدیک کیا ہے ؟ قرآن وسنت بھی وہ نہیں سمجھ سکتا ۔ کتب فقہ بھی عموما اس کے لیے نہیں ہیں ۔
قول دیگر (ائمہ مذہب) کا بھی تمام مفتیان کرام کے نزدیک حجت ہوتا ہے امام کے قول کا ہمیشہ حجت ہونا ضروری نہیں ہوتا۔ الا یہ کہ کوئی عالم غلو یا ضد میں انکار کرے۔
میں نے ایسا ہی دیکھا ہے۔ کیا آپ کسی ایسے عالم کی مثال دے سکتے ہیں جو یہ کہتا ہو کہ میں تو بس ابو حنیفہ کے ہی قول کو مانوں گا اور کسی امام کی بات حجت ہو ہی نہیں سکتی؟
ایک امام کی تقلید کا دعوی کرنے کا صاف مطلب تو یہی ہے ۔ اس کی مزید وضاحت کسی بھی مقلد عالم دین کی تقلید کے جواز پر لکھی گئی کتاب کےوہ مقامات پڑھ کر دیکھ لیں جہاں ایک امام کی تقلید کے فوائد اور عدم تقلید کے اضرار و مفاسد بیان ہوئے ہیں ۔ باقی یہ کہنا کہ امام کی تقلید سے مراد مجموعی طور پر پورے مذہب کی تقلید ہے یہ تو بعد کی تشریحات و تو ضیحات ہیں۔ جو مقلدین امام کو قبول ہیں تو کسی اور کو اعتراض کرنے کی کیا ضرورت ہے ۔
بطور نام کے سر دست آپ کے حنفی بھائی امام احمد رضا خاں بریلوی کا نام لیا جاسکتا ہے جنہوں نے ایک کتاب تصنیف فرمائی ہے : ’’
أجلی الأعلام أن الفتوی مطلقا علی قول الإمام ‘‘
بہت بہتر ہے لیکن تقلید ہوتی ہی تب ہے جب آپ ہر مسئلہ میں اجتہاد کی صلاحیت نہیں رکھتے یا صلاحیت رکھتے ہیں لیکن ایک امام کے اصول و نظریات سے مطمئن ہوتے ہیں۔ (مطلب یہ کہ آپ نے جب صلاحیت کے بعد کسی مسئلہ میں مختلف ائمہ کے نظریات پڑھے تو ایک امام کے آپ کو درست لگے۔ اب اگر آپ اجتہاد بھی کریں گے تو اپنے درست مقام یعنی اسی نظریہ تک پہنچیں گے۔ یہ حقیقتا آپ کا اجتہاد ہی ہے لیکن امام کے قول کو اختیار کرنے کی وجہ سے ان کی تقلید کہلاتی ہے۔ بعض علماء صاحبین کو اسی صف میں شامل کرتے ہیں۔)
مختلف آئمہ کے نظریات کو پرکھ کر ان پر مطمئن ہونا یہ تقلید نہیں تحقیق کہلاتا ہے ۔ جبکہ یہ جرأت آپ کے ہاں صرف مجتہد مطلق یا مجتہد فی المذہب کےپاس ہوتی ہے جن کا دور صدیوں بیت گئی گزر گیا اب جو مقلدین بچے ہیں تو ان کا دائرہ کار بہت تنگ ہوگیا ہے ۔ لہذا بات وہ کریں جو نظریاتی ہونے کے ساتھ ساتھ امر واقع کے مطابق بھی ہو ۔
عرض یہ ہے کہ میں ان باتوں کو سمجھ بھی گیا ہوں اور جو اشکال مجھے محسوس ہوا میں نے صرف اس کی وضاحت کی ہے۔ اس کا خلاصہ صرف یہ ہے کہ امیر صنعانی کہتے ہیں کہ جس میں اجتہاد کی صلاحیت ہے اسے اپنی صلاحیت کے پر نہیں کاٹنے چاہئیں بلکہ جس قدر صلاحیت ہے اسی قدر آگے بڑھنا چاہیئے۔
میں سمجھتا ہوں ابن عابدین شامی ، ابن نجیم حنفی اور محمود الحسن دیوبندی جیسے اساطین علم اگر حق بات واضح ہونے کے باوجود مذہب کے پابند رہیں تو یہ ان کی عاجزی انکساری بھلے ہوگی لیکن شریعت میں یہ مطلوب نہیں ہے بلکہ یہ اللہ کے فرمان لئن شکرتم لأزیدنکم کے منافی محسوس ہوتا ہے ۔ اور بقول آپ کے یہی اپنی صلاحیتوں کے پر کاٹنا ہے ۔
’’ جسقدر صلاحیت ‘‘ والے آپ کے الفاظ بڑے معنی خیز ہیں بلکہ ایک طرح کا اشکال ہے جس کا بہترین حل علامہ صنعانی نے اوپر کردیا ہے ۔
مجتہدین کے طبقات اور کام آپ شرح عقود رسم المفتی ص 10 ط مکتبۃ البشری میں ملاحظہ فرما سکتے ہیں۔
ویسے مجتہدین کی یہ طبقاتی تقسیم کی وضاحت کبھی آپ کریں تو بہت بہتر رہے گا ۔ مجھے اس حوالے سے سرسری معلومات ہیں لیکن ’’أہل مکۃ ادری بشعابہا ‘‘ کے مطابق آپ سے اس دلچسپ تقسیم و ترتیب کا سننا سمجھنا خوب رہے گا ۔