• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اصحاب تقلید کو دعوت غور و فکر ۔۔۔ از امام محمد بن اسماعیل الصنعانی

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
کیا ادنی ، اعلی کا نعم البدل ہو سکتا ہے ؟
عام طور پر مقلدین حضرات تقلید کے لیے وجہ جواز یہ بھی تراشتے ہیں کہ جی ہم کہاں اس قابل کے قرآن وسنت کو سمجھ سکیں اس لیے ہم کسی امام کی تقلید کر لیتے ہیں ۔ تو ان سے گزارش یہی کی جاتی ہے کہ بھائی قرآن وسنت تک پہنچنا اور اس کو سمجھنا یہ امام صاحب کے قول تک رسائی حاصل کرنے کے بعد اس کو سمجھنے کی نسبت زیادہ آسان ہے ۔
اسی بات کو امام محمد بن إسماعیل الأمیر الصنعانی الیمانی رحمہ اللہ نے اپنی کتاب ارشاد النقاد (ص 162،ط السلفیہ)میں ایک مقلد کی بیان کردہ شرائط اجتہاد ( فی المذہب ) پر تنقید کرتے ہوئے بڑے خوبصورت سوالیہ پیرائے میں بیان فرمایا ہے جس کا اردو ترجمہ پیش خدمت ہے :
اس مقلد مجتہد نے امام کے کلام کو چھوڑ کر کتاب و سنت میں اجتہاد کیوں نہیں کیا ؟ ، امام کے اقوال کھنگالنے کی بجائے کتاب و سنت کی نصوص کو تلاش کیوں نہیں کیا ؟ حالانکہ دونوں طرف عبارات ہیں جو با معنی الفاظ پر مشتمل ہوتی ہیں اس نے امام کے الفاظ و معانی کو شارع کے الفاظ و معانی کا نعم البدل کیوں سمجھ لیا ؟ جب کسی جگہ واضح نص نہیں تھی تو امام کے منصوص اقوال پر قیاس کرنے کی بجائے نصوص شرعیہ میں غور و فکر کیوں نہیں کیا ؟
اللہ کی قسم ! اس نے اعلی کو چھوڑ کر ادنی کو اختیار کیا ہے کتاب و سنت کی معرفت حاصل کر نے کی بجائے اپنے شیوخ اور اصحاب کی باتوں کو سمجھنے اور ان کے مقاصد تلاش کرنے پر زور دیا ہے ۔ حالانکہ یہ بات قطعی طور پر معلوم ہے کہ اللہ اور اس کے رسول کی بات اقرب الی الأفہام اور مقاصد تک پہنچنے میں زیادہ رہنمائی کرتی ہے کیونکہ یہ بالاجماع سب سے بلیغ ہے اور زبان سے ادا کرنا یا اس کی سماعت زیادہ شیریں ہے ۔ اس بات کا انکار وہی شخص کرتا ہے جو جلمود الطبع اور افادہ و استفادہ کی اہلیت سے بالکل عاری ہے
جو سمجھ بوجھ صحابہ کو عطا ہوئی تھی کہ انہوں نے کلام الہی اور خطاب نبوی کو سمجھا اسی نعمت سے اللہ نے ہمیں بھی نوازا ہے کیونکہ ( تغیر زمان وغیرہ کے سبب ) اگر اتنا زیادہ فرق پڑ جائے کہ ہم سے قرآن وسنت کی سمجھ بوجھ کی اہلیت ہی ختم ہوجائے تو اس طرح تو ہم قرآن وسنت کے اوامر و نواہی کے مکلف ہی نہیں رہیں گے نہ اجتہاد کے ذریعے اور نہ کسی کی تقلید کرکے ۔
اجتہاد کے ذریعے اس لیے نہیں کیونکہ اس کی ہم اہلیت ہی نہیں رکھتے ۔ ( جیساکہ مقلدین کہتے ہیں )
اور تقلید کے ذریعے اس طرح نہیں کہ تقلید ہم اسی وقت کریں گے جب اس کے جواز کے دلائل سمجھتے ہوں گے اور یہ کتاب و سنت سے ہی معلوم ہوگا جس کو پہلے ہی محال قرار دے دیا گیا ہے ۔

عربی سمجھنے والے حضرات یقینا عربی عبارت پڑھنا پسند کریں گے ملاحظہ فرمائیں :

هلا جعل هَذَا الْمُقَلّد الْمُجْتَهد أَمَامه كتاب الله وَسنة نبيه صلى الله عَلَيْهِ وَسلم عوضا عَن كَلَام إِمَامه وتتبع نُصُوص الْكتاب وَالسّنة عوضا عَن تتبع نُصُوص إِمَامه والعبارات كلهَا أَلْفَاظ دَالَّة على مَعَانِيهَا فَهَلا استبدل بِأَلْفَاظ إِمَامه ومعانيها أَلْفَاظ الشَّارِع ومعانيها وَنزل الْأَحْكَام عَلَيْهَا إِذا لم يجده نصا شَرْعِيًّا عوضا عَن تنزيلها على مَذْهَب إِمَامه فِيمَا لم يجده مَنْصُوصا تالله لقد استبدل الَّذِي هُوَ أدنى بِالَّذِي هُوَ خير من معرفَة السّنة وَالْكتاب إِلَى معرفَة كَلَام الشُّيُوخ وَالْأَصْحَاب وتفهم مرامهم والتفتيش عَن كَلَامهم وَمن الْمَعْلُوم يَقِينا أَن كَلَام الله وَكَلَام رَسُوله أقرب إِلَى الأفهام وَأدنى إِلَى إِصَابَة بُلُوغ المرام فَإِنَّهُ أبلغ الْكَلَام بِالْإِجْمَاع وأعذبه فِي الأفواه والأسماع وأقربه إِلَى الْفَهم وَالِانْتِفَاع وَلَا يُنكر هَذَا إِلَّا جلمود الطباع وَمن لَا حَظّ لَهُ فِي النَّفْع وَالِانْتِفَاع والأفهام الَّتِي فهم بهَا الصَّحَابَة الْكَلَام الإلهي وَالْخطاب النَّبَوِيّ هِيَ كأفهامنا وأحلامهم كأحلامنا إِذْ لَو كَانَت الأفهام مُتَفَاوِتَة تَفَاوتا يسْقط مَعَه فهم الْعبارَات الإلهية وَالْأَحَادِيث النَّبَوِيَّة لما كُنَّا مكلفين وَلَا مأمورين وَلَا منهيين لَا اجْتِهَادًا وَلَا تقليدا أما الأول فلاستحالته وَأما الثَّانِي فلأنا لَا نقلد حَتَّى نفهم جَوَازه وأدلته وَلَا يفهم ذَلِك إِلَّا من أَدِلَّة الْكتاب وَالسّنة وَقد تعذر ذَلِك كَمَا قُلْتُمْ .
 

راجا

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 19، 2011
پیغامات
733
ری ایکشن اسکور
2,574
پوائنٹ
211
جزاک اللہ خیرا ، ،، بہت خوبصورت بات کہی ہے۔ واقعی ادنیٰ، اعلیٰ کا نعم البدل کبھی نہیں ہو سکتا۔
کتاب و سنت کی اتباع اور شخصیات کی اندھی پیروی ہرگز برابر نہیں۔ پر اس کے لئے اپنا محاسبہ کرنے کی ہمت چاہئے۔
 

Hasan

مبتدی
شمولیت
جون 02، 2012
پیغامات
103
ری ایکشن اسکور
428
پوائنٹ
0
تقلید جامد کے ماروں میں سے احناف کا مسئلہ کافی پیچیدہ ہے- مشہور مورخ اورعمرانیات کے بانی ابن خلدون فرماتے ہیں:

فقہ کی دو قسمیں ہوگئیں- فقہ اہل الرائے جن کا مرکز عراق ہے اور فقہ اہل حدیث جن کا مرکز حجاز ہے- اہل عراق می حدیث کا چرچا کم تھا اور وہ قیاس می ماہر تھے ان کے امام ابو حنیفہ ہیں(مقدمہ ابن خلدون ص ٣٨٩)
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,682
ری ایکشن اسکور
752
پوائنٹ
290
بسم اللہ ارحمان الرحیم

خضر حیات بھائی نے صنعانی رح کا جو اقتباس پیش فرمایا اس سے ممکن ہے کسی کو یہ خیال گزرے کہ صنعانی رح ہر ایک کے لیے بلا کسی شرط کے اجتہاد کے قائل ہیں اور تقلید سے مطلق انکاری ہیں۔ میں نے اس کتاب کے بعض مقامات کا مطالعہ کیا اور یہ محسوس کیا کہ بات ایسی نہیں ہے۔
صنعانی رح نے ابتداء اجتہاد کے لیے بعض شرائط لازم قرار دی ہیں۔



إن شروط الإجتهاد التي قررها الأصوليون فيها بعض الاختلاف من حيث الزيادة والنقصان ويمكن لنا أن نقسم هذه الشروط قسمين حتى يحتويا كل ما ذكر فيها بالإيجاز القسم الأول الشروط العامة شروط التكليف وهي 1 الإسلام 2 البلوغ 3 العقل
القسم الثاني الشروط التأهيلية وهي تتنوع إلى نوعين الأول الشروط الأساسية وهي 1 معرفة الكتاب 2 معرفة السنة 3 معرفة اللغة 4 معرفة أصول الفقه 5 معرفة مواضع الإجماع
الثاني الشروط التكميلية وهي 1 معرفة البراءة الأصلية 2 معرفة مقاصد الشريعة 3 معرفة القواعد الكلية 4 معرفة مواضع الخلاف 5 العلم بالعرف الجاري في البلد 6 معرفة المنطق 7 عدالة المجتهد وصلاحه 8 حسن الطريقة وسلامة المسلك 9 الورع والعفة 10 رصانة الفكر وجودة الملاحظة 11 الإفتقار إلى الله تعالى والتوجه إليه بالدعاء 12 ثقته بنفسه وشهادة الناس له بالأهلية 13 موافقة عمله مقتضى قوله
إرشاد النقاد إلى تيسير الاجتهاد 1۔8 سلفیہ

شروط اجتہاد جنہیں اصولیین نے متعین کیا ہے ان میں زیادتی اور کمی کے اعتبار سے تھوڑا اختلاف ہے۔ اور ہمارے لیے ممکن ہے کہ ان شروط کو دو قسموں میں تقسیم کریں تا کہ جتنی شرائط ذکر کی گئی ہیں سب کو شامل ہو جائیں۔
پہلی قسم عام شرائط مکلف ہونے کی شرائط ہیں اور وہ اسلام، بالغ ہونا اور عقل ہیں۔
دوسری قسم اہلیت کی شرائط ہیں اور ان کی دو قسمیں ہیں۔
پہلی بنیادی شرائط اور وہ 1 کتاب اللہ کو جاننا 2 حدیث کو جاننا 3 لغت کو جاننا 4 اصول فقہ کو جاننا اور 5 اجماع کے مواضع کو جاننا ہیں۔
دوسری تکمیل (اجتہاد) کی شرائط ہیں اور وہ 1 براءۃ اصلیہ کا جاننا 2 مقاصد شرعیہ کا جاننا 3 قواعد کلیہ کا جاننا 4 مواضع اختلاف کا جاننا 5 شہر میں جاری عرف کا جاننا 6 منطق سے واقفیت 7 مجتہد کا عادل اور صالح ہونا 8 حسن الطریقہ و سلامۃ المسلک (میں اسے نہیں سمجھ پایا) 9 پرہیزگاری اور پاکدامنی 10 مستحکم سوچ اورعمدہ مشاہدہ ہونا 11 اللہ تعالی سے مانگنا اور دعا میں اس کی جانب توجہ رکھنا 12 خود ثقہ ہونا اور لوگوں کا اس کی اہلیت کی شہادت دینا 13 اس کے عمل کا اس کے قول کے موافق ہونا ہے۔

صنعانی رح کی ذکر کی گئی ان شرائط کی رعایت رکھنے والے کے مجتہد ہونے کا دنیا میں شاید ہی کوئی انکاری ہو۔

کیا اجتہاد ہر کوئی کر سکتا ہے؟ یا یہ اللہ پاک کی بخشی ہوئی اہلیت ہے؟
امیر صنعانی فرماتے ہیں:۔


وأن علوم الاجتهاد في هذه الأعصار أقرب تناولا منها فيما سلف من أزمنة الأئمة النظار إلا أنه لايخفى أن الاجتهاد موهبة من الله يهبه لمن يشاء من العباد فما كل من أحرز الفنون أجرى من قواعدها العيون ولا كل من عرف القواعد استحضرها عند ورود الحادثة التي يفتقر إلى تطبيقها على الأدلة والشواهد
ایضا ص 130



اور یہ بات (واضح ہو گئی) کہ علوم اجتہاد ان زمانوں میں ائمہ کے گزشتہ زمانوں سے زیادہ حصول کے قریب ہیں لیکن یہ بات (بھی) مخفی نہیں ہے کہ اجتہاد اللہ کی طرف سے دی گئی صلاحیت ہوتی ہے اپنے بندوں میں سے جسے چاہے دیتا ہے۔ سو ہر وہ شخص جو فنون کو جمع کرلے ان کے قواعد سے چشمے نہیں بہا سکتا اور نہ ہر وہ شخص جو قواعد جانتا ہو ایسے حادثہ کے وقت جو ادلہ اور شواہد پر تطبیق کا محتاج ہو ان (قواعد) کا استحضار کر سکتا ہے۔

آگے فرماتے ہیں:۔
وكم قد رأينا وسمعنا من زكى عارف إمام يضيق عطن بحثه عند ورود حادثة من الأحكام فيتبع أقوال الرجال تقليدا ويعود عندها مقلدا مبلدا كأنه ما غرف من بحار الفنون ولا عرف شيئا من تلك الشئون
ایضا

اور کتنے ہی ہم نے ذہین، جاننے والے، اماموں کو دیکھا اور سنا ہے کہ واقعہ کے وقوع کے وقت احکام کے بارے میں ان کی تلاش کی وسعت تنگ پڑ گئی اور انہوں نے لوگوں (یعنی علماء) کے اقوال کی تقلید کی اور ان واقعات کے وقت مقلد اور ناقص بن گئے گویا کہ انہوں نے فنون کے سمندروں سے چلو بھی نہ بھرا ہو اور نہ ان حالات میں سے کچھ جانا ہو۔

تو صلاحیت اجتہاد کے لیے ان شرائط کی بھی ضرورت ہے اور اللہ کریم کی جانب سے ہبہ ہونے کی بھی۔
اگر کوئی شخص صرف قرآن و حدیث کا اردو ترجمہ پڑھ کر مطالب و مسائل اخذ کرنے لگ جائے تو ہم اسے اس فعل میں درست کیسے کہہ سکتے ہیں؟
اس قسم کے بعض لوگوں کے بارے میں رقم طراز ہیں:۔


وبهذا يبطل تشيع الجهال بأن من خالف الأوائل في بعض المسائل قد ادعى الترفع عليهم وقال إنه أعلم منهم وهذا خيال باطل وسوء ظن حاصل
ایضا ص 132

اور اس سے جاہلوں کی فرقہ بندی باطل ہو جاتی ہے کہ جو شخص بعض مسائل میں پہلوں کی مخالفت کرتا ہے ان پر بڑھنے کا دعوی کر دیتا ہے اور کہتا ہے کہ وہ ان سے زیادہ جانتا اور یہ باطل خیال ہے اور برا گمان ہے۔

اس کا اطلاق کن پر ہوتا ہے بہت سے احباب جانتے ہیں۔

اس کتاب کا اصل موضوع وہ شخص ہے جو صلاحیت اجتہاد تو رکھتا ہو لیکن اس کے باوجود تقلید کرے کیوں کہ اگر ہر عامی کے لیے اس کتاب کو سمجھا جائے اور اس کے دلائل کا اطلاق ہر عامی پر کیا جائے تو پھر ابتدا میں اور درمیان کتاب میں شرائط اجتہاد کا ذکر چہ معنی دارد؟
بعض جگہوں پر صاحب کتاب نے علماء امصار کے اقوال پر اعتراض کیا ہے لیکن ان میں سے بعض مواضع پر صاحب کتاب سے تسامح ہوا ہے۔

فریق ثانی جن کا موقف یہ ہے کہ ائمہ اربعہ کے بعد اجتہاد مطلق کا دروازہ بند ہو چکا ہے وه كہتے ہیں کہ جن اصولوں یا مسئلوں پر اختلاف ہوا ہے اور مختلف آراء سامنے آئی ہیں ان مختلف آراء پر اجماع ہو چکا ہے کہ ان آراء کے سوا کوئی رائے نہیں ہے اور مجتہد مطلق کا کام ہی اصول منضبط کرنا ہوتا ہے تو جب مختلف ائمہ نے اپنے اصول بنا لیے تو اب مزید اصول بنانے کی گنجائش نہیں۔
اس اجماع کے بارے میں (نہ کہ موقف کے بارے میں) علامہ شوکانی کہتے ہیں کہ جمہور کا یہی قول ہے۔ (إرشاد الفحول إلي تحقيق الحق من علم الأصول 1۔229 دار الکتاب العربی)
دوسری دلیل وہ یہ دیتے ہیں کہ اب اس قدر صلاحیت کا پایا جانا متعذر ہے جس سے انسان خود اپنے اصولوں کا استنباط کرے۔
اس لیے اجتہاد مطلق کا دروازہ بند ہو چکا ہے۔

(بندہ کی رائے پہلے موقف والی ہے یعنی اجتہاد کا دروازہ کھلا ہے البتہ شرائط لازمی ہیں اور اگر کوئی اجتہاد مطلق کا دعوی کرے تو اسے کہا جائے گا کہ اپنے اصول و فروع لے کر آؤ تا کہ علماء پر پیش کیے جا سکیں)

واللہ اعلم
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
محترم بھائی اشماریہ صاحب !
ان نظری باتوں سےنکل کر ذرا بتادیں کہ ایک عامی کے لیے امام صاحب کے قول تک رسائی حاصل کرنا زیادہ آسان ہے یا پھر قرآن وسنت تک ؟
اور رسائی کے بعد پھر قرآن وسنت کو آسانی سے سمجھ سکتا ہے یا پھر امام صاحب کے اقوال پر مشتمل کتب فقہ کو ؟
جب کسی عالم دین سے پوچھنا ہی متعین ہے تو قرآن وسنت کی بجائے امام صاحب کا قول کیوں ؟
اور پھر آپ مقلدین کے ان گروہ میں سےہیں جن کے نزدیک قول امام بھی ہر جگہ حجت نہیں بلکہ ’’ مفتی بہ قول ‘‘ کسی اور کا بھی ہوسکتا ہے ۔ لہذا یہ پھر ایک نیا مسئلہ کھڑا ہو جائیگا کہ کہاں کہاں امام صاحب کی بات حجت ہے اور کہاں کہاں کسی اور کی ۔
تو اقوال مذہب کو تختہ مشق بنانے کی بجائے یہی محنت قرآن وسنت کو سمجھنے پر کی جائے تو بہتر نہیں ۔
یہی باتیں امام صنعانی نے سمجھانے کی کوشش کی ہے ۔ جس کو لے کر آپ اجتہاد و تقلید کی نظری بحث میں الجھ گئے ہیں ۔
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,682
ری ایکشن اسکور
752
پوائنٹ
290
محترم بھائی اشماریہ صاحب !
ان نظری باتوں سےنکل کر ذرا بتادیں کہ ایک عامی کے لیے امام صاحب کے قول تک رسائی حاصل کرنا زیادہ آسان ہے یا پھر قرآن وسنت تک ؟
اور رسائی کے بعد پھر قرآن وسنت کو آسانی سے سمجھ سکتا ہے یا پھر امام صاحب کے اقوال پر مشتمل کتب فقہ کو ؟
جب کسی عالم دین سے پوچھنا ہی متعین ہے تو قرآن وسنت کی بجائے امام صاحب کا قول کیوں ؟
اور پھر آپ مقلدین کے ان گروہ میں سےہیں جن کے نزدیک قول امام بھی ہر جگہ حجت نہیں بلکہ ’’ مفتی بہ قول ‘‘ کسی اور کا بھی ہوسکتا ہے ۔ لہذا یہ پھر ایک نیا مسئلہ کھڑا ہو جائیگا کہ کہاں کہاں امام صاحب کی بات حجت ہے اور کہاں کہاں کسی اور کی ۔
تو اقوال مذہب کو تختہ مشق بنانے کی بجائے یہی محنت قرآن وسنت کو سمجھنے پر کی جائے تو بہتر نہیں ۔
یہی باتیں امام صنعانی نے سمجھانے کی کوشش کی ہے ۔ جس کو لے کر آپ اجتہاد و تقلید کی نظری بحث میں الجھ گئے ہیں ۔



بھائی یہ ایک مکمل ترتیب ہے۔ مجتہد مطلق اصول منضبط کرتا ہے اور ان پر بعض فروع اخذ کرتا ہے۔ پھر مجتہد فی المذہب انہی اصولوں کی بنا پر فروع اخذ کرتے ہیں پھر ان کے بعد والے ان کے اقوال کو ترتیب دیتے ہیں اور مزید فروع ضرورت پڑنے پر اخذ کرتے جاتے ہیں اسی طرح چلتا رہتا ہے یہاں تک کہ وہ مفتیان کرام جو مذاہب کے اقوال میں ترتیب و ترجیح کی کم از کم صلاحیت رکھتے ہیں وہ مفتی بہ اقوال کو جمع کرتے ہیں اور ان پر فتاوی لکھتے ہیں۔ جب عامی ایک عام مفتی سے مسئلہ پوچھتا ہے تو وہ ان فتاوی سے بتا دیتا ہے۔ اور اگر ان فتاوی میں مفتی بہ مسئلہ نہ ہو یا ہو لیکن موجودہ صورت مسئلہ یا حالات کے مطابق نہ ہو تو پھر وہ اس بات پر غور کرتا ہے کہ ان اقوال میں سے کون سا قول حالات کے مطابق اور دلائل شرعیہ کے نزدیک ہے۔ اس سلسلے میں اس کی کئی سالہ محنت اس کی مدد کرتی ہے۔ اور اگر اسے تجربہ نہ ہو تو وہ تجربہ کار مفتیان کرام کی زیر نگرانی ان مسائل کی تحقیق کرتا ہے۔

یہ ایک مکمل ترتیب ہے۔ اگر ہم ایک عامی کو کہیں کہ وہ قرآن و حدیث کو سمجھ کر خود ہی مسائل کا استنباط کر لے تو وہ مسائل جن میں نصوص صحیحہ صریحہ غیر متعارضہ موجود ہیں جیسے نماز ادا کرنا وغیرہ انہیں تو وہ تلاش کر لے گا لیکن کیا باقی کو حاصل کر سکے گا؟ اسی طرح ایک عام عالم یا مفتی جو اتنی صلاحیت نہ رکھتا ہو (یا یوں کہہ لیں ان شرائط کو پورا نہ کر سکتا ہو) کیا وہ ان مسائل میں اجتہاد کر سکے گا؟
یہاں یہ بات واضح رہے کہ جن مسائل میں نصوص صریحہ صحیحہ غیر متعارضہ موجود ہیں ان میں تقلید نہیں ہوتی۔ وہاں آپ کسی بھی امام کا قول اٹھائیں یا خود قرآن و حدیث سے دیکھیں نتیجہ ایک ہی نکلے گا۔
تقلید ان مسائل میں ہوتی جہاں نص موجود نہ ہو، یا نصوص ہوں لیکن مجمل ہوں، یا نصوص ہوں لیکن متعارض ہوں یا نصوص ہوں لیکن مشترک المعنی ہوں۔
(یہ میں اپنے استقرا پر اعتماد کرتے ہوئے چند مثالیں دے رہا ہوں۔ مطلب یہ ہے کہ ہر وہ جگہ جہاں صرف نص سے مسئلہ حاصل نہ کیا جا سکتا ہو اس کے تعارض یا خفاء یا کسی اور وجہ سے)

اب میں آپ کے سوالات کا ترتیب وار جواب دیتا ہوں:۔

ان نظری باتوں سےنکل کر ذرا بتادیں کہ ایک عامی کے لیے امام صاحب کے قول تک رسائی حاصل کرنا زیادہ آسان ہے یا پھر قرآن وسنت تک ؟
ایک عامی کے لیے قرآن و سنت تک رسائی امام کے قول تک رسائی کے مقابلے میں زیادہ آسان ہے۔ لیکن سمجھ وہ آسانی سے تب ہی سکتا ہے جب کم از کم عربی جانتا ہو (اردو ترجمے سے جو فرق آتا ہے آپ اس سے واقف ہی ہوں گے) اور یہ مسئلہ ایسا ہو کہ نہ تو اس کے خلاف کوئی نص ہو (چاہے بظاہر ہی تعارض کیوں نہ ہو) اور نہ ہی کسی قسم کا اجمال و پوشیدگی ہو۔ اگر ایسا ہوا اور اس نے کسی عالم سے یہ پوچھا اور عالم نے وہ بتایا جو عالم کے نزدیک راجح ہے تو یہ تقلید ہی ہوگی۔

اور رسائی کے بعد پھر قرآن وسنت کو آسانی سے سمجھ سکتا ہے یا پھر امام صاحب کے اقوال پر مشتمل کتب فقہ کو ؟
قرآن و سنت کے سمجھنے کی تفصیل میں نے عرض کی اور کتب فقہ عموما عامی کے لیے نہیں ہوتیں بلکہ علماء کے لیے ہوتی ہیں تا کہ ان کے سامنے مسئلہ کی تخریج کے طرق آ جائیں۔

جب کسی عالم دین سے پوچھنا ہی متعین ہے تو قرآن وسنت کی بجائے امام صاحب کا قول کیوں ؟
وہی بات ہے کہ عالم دین سے کیا پوچھے گا؟ اگر واضح صریح مسئلہ تو عالم جہاں سے بھی بتائے اس کا نتیجہ ایک ہی نکلنا ہے۔ مثال کے طور پر کوئی پوچھے کہ سود کا کیا حکم ہے تو عالم عموما یہی بتاتا ہے کہ حرام ہے قرآن میں آیا ہے۔ یہ نہیں کہا جاتا کہ سود حرام ہے کیوں کہ ابو حنیفہ نے ایسا کہا ہے۔ اور اگر کوئی کہہ بھی دے تب بھی نتیجہ اس کا اور شافعی رح کے قول وغیرہ کا ایک ہی نکلنا ہے کہ حرام ہے۔
اور اگر کوئی مجمل و مبہم جگہ پوچھے گا جہاں ترجیح و تطبیق کی ضرورت ہو تو پھر تقلید میں اور اس میں کیا فرق رہ جاتا ہے۔

اور پھر آپ مقلدین کے ان گروہ میں سےہیں جن کے نزدیک قول امام بھی ہر جگہ حجت نہیں بلکہ '' مفتی بہ قول '' کسی اور کا بھی ہوسکتا ہے ۔ لہذا یہ پھر ایک نیا مسئلہ کھڑا ہو جائیگا کہ کہاں کہاں امام صاحب کی بات حجت ہے اور کہاں کہاں کسی اور کی ۔
قول دیگر (ائمہ مذہب) کا بھی تمام مفتیان کرام کے نزدیک حجت ہوتا ہے امام کے قول کا ہمیشہ حجت ہونا ضروری نہیں ہوتا۔ الا یہ کہ کوئی عالم غلو یا ضد میں انکار کرے۔
میں نے ایسا ہی دیکھا ہے۔ کیا آپ کسی ایسے عالم کی مثال دے سکتے ہیں جو یہ کہتا ہو کہ میں تو بس ابو حنیفہ کے ہی قول کو مانوں گا اور کسی امام کی بات حجت ہو ہی نہیں سکتی؟

تو اقوال مذہب کو تختہ مشق بنانے کی بجائے یہی محنت قرآن وسنت کو سمجھنے پر کی جائے تو بہتر نہیں ۔
بہت بہتر ہے لیکن تقلید ہوتی ہی تب ہے جب آپ ہر مسئلہ میں اجتہاد کی صلاحیت نہیں رکھتے یا صلاحیت رکھتے ہیں لیکن ایک امام کے اصول و نظریات سے مطمئن ہوتے ہیں۔ (مطلب یہ کہ آپ نے جب صلاحیت کے بعد کسی مسئلہ میں مختلف ائمہ کے نظریات پڑھے تو ایک امام کے آپ کو درست لگے۔ اب اگر آپ اجتہاد بھی کریں گے تو اپنے درست مقام یعنی اسی نظریہ تک پہنچیں گے۔ یہ حقیقتا آپ کا اجتہاد ہی ہے لیکن امام کے قول کو اختیار کرنے کی وجہ سے ان کی تقلید کہلاتی ہے۔ بعض علماء صاحبین کو اسی صف میں شامل کرتے ہیں۔)

یہی باتیں امام صنعانی نے سمجھانے کی کوشش کی ہے ۔ جس کو لے کر آپ اجتہاد و تقلید کی نظری بحث میں الجھ گئے ہیں ۔
عرض یہ ہے کہ میں ان باتوں کو سمجھ بھی گیا ہوں اور جو اشکال مجھے محسوس ہوا میں نے صرف اس کی وضاحت کی ہے۔ اس کا خلاصہ صرف یہ ہے کہ امیر صنعانی کہتے ہیں کہ جس میں اجتہاد کی صلاحیت ہے اسے اپنی صلاحیت کے پر نہیں کاٹنے چاہئیں بلکہ جس قدر صلاحیت ہے اسی قدر آگے بڑھنا چاہیئے۔
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,682
ری ایکشن اسکور
752
پوائنٹ
290
مجتہدین کے طبقات اور کام آپ شرح عقود رسم المفتی ص 10 ط مکتبۃ البشری میں ملاحظہ فرما سکتے ہیں۔
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
بھائی یہ ایک مکمل ترتیب ہے۔ مجتہد مطلق اصول منضبط کرتا ہے اور ان پر بعض فروع اخذ کرتا ہے۔ پھر مجتہد فی المذہب انہی اصولوں کی بنا پر فروع اخذ کرتے ہیں پھر ان کے بعد والے ان کے اقوال کو ترتیب دیتے ہیں اور مزید فروع ضرورت پڑنے پر اخذ کرتے جاتے ہیں اسی طرح چلتا رہتا ہے یہاں تک کہ وہ مفتیان کرام جو مذاہب کے اقوال میں ترتیب و ترجیح کی کم از کم صلاحیت رکھتے ہیں وہ مفتی بہ اقوال کو جمع کرتے ہیں اور ان پر فتاوی لکھتے ہیں۔ جب عامی ایک عام مفتی سے مسئلہ پوچھتا ہے تو وہ ان فتاوی سے بتا دیتا ہے۔ اور اگر ان فتاوی میں مفتی بہ مسئلہ نہ ہو یا ہو لیکن موجودہ صورت مسئلہ یا حالات کے مطابق نہ ہو تو پھر وہ اس بات پر غور کرتا ہے کہ ان اقوال میں سے کون سا قول حالات کے مطابق اور دلائل شرعیہ کے نزدیک ہے۔ اس سلسلے میں اس کی کئی سالہ محنت اس کی مدد کرتی ہے۔ اور اگر اسے تجربہ نہ ہو تو وہ تجربہ کار مفتیان کرام کی زیر نگرانی ان مسائل کی تحقیق کرتا ہے۔

یہ ایک مکمل ترتیب ہے۔
بھائی اسی مکمل ترتیب سے تو ہمارا اختلاف ہے ۔ آخر تقلید کی وجہ سے کیوں شرعی نصوص سے استفاد کا دائرہ تنگ در تنگ ہوتا جاتا ہے ۔ اس کا جو جواب عام طور پر آپ کی طرف سے دیا جاتا ہے اس جواب کے جواب میں علامہ صنعانی کی یہ عبارت بار دیگر ملاحظہ فرمائیے :
والأفهام الَّتِي فهم بهَا الصَّحَابَة الْكَلَام الإلهي وَالْخطاب النَّبَوِيّ هِيَ كأفهامنا وأحلامهم كأحلامنا إِذْ لَو كَانَت الأفهام مُتَفَاوِتَة تَفَاوتا يسْقط مَعَه فهم الْعبارَات الإلهية وَالْأَحَادِيث النَّبَوِيَّة لما كُنَّا مكلفين وَلَا مأمورين وَلَا منهيين لَا اجْتِهَادًا وَلَا تقليدا
جو سمجھ بوجھ صحابہ کو عطا ہوئی تھی کہ انہوں نے کلام الہی اور خطاب نبوی کو سمجھا اسی نعمت سے اللہ نے ہمیں بھی نوازا ہے کیونکہ ( تغیر زمان وغیرہ کے سبب ) اگر اتنا زیادہ فرق پڑ جائے کہ ہم سے قرآن وسنت کی سمجھ بوجھ کی اہلیت ہی ختم ہوجائے تو اس طرح تو ہم قرآن وسنت کے اوامر و نواہی کے مکلف ہی نہیں رہیں گے نہ اجتہاد کے ذریعے اور نہ کسی کی تقلید کرکے ۔
اگر ہم ایک عامی کو کہیں کہ وہ قرآن و حدیث کو سمجھ کر خود ہی مسائل کا استنباط کر لے تو وہ مسائل جن میں نصوص صحیحہ صریحہ غیر متعارضہ موجود ہیں جیسے نماز ادا کرنا وغیرہ انہیں تو وہ تلاش کر لے گا لیکن کیا باقی کو حاصل کر سکے گا؟ اسی طرح ایک عام عالم یا مفتی جو اتنی صلاحیت نہ رکھتا ہو (یا یوں کہہ لیں ان شرائط کو پورا نہ کر سکتا ہو) کیا وہ ان مسائل میں اجتہاد کر سکے گا؟
اس بات میں کوئی کلام نہیں کہ ہر آدمی تمام مسائل کا استنباط قرآ وسنت سے نہیں کرسکتا ۔ لہذا اسے اہل علم سے پوچھنا چاہیے بلکہ پوچھنا فرض ہے ۔ اگر اسی کا نام آپ کے ہاں تقلید ہے تو پھر تقلید تو اس عالم دین کی ہوئی جس سے مسئلہ پوچھا ہے وہ امام ابو حنیفہ کی تقلید کا کیونکر مدعی ہے ؟ گویا پھر وہ مقلد کا مقلد بلکہ یہ تو تقلید در تقلید کا لامتناہی سلسلہ ہے ۔
دوسری بات قرآن مجید کے اندر فاسئلوا اہل الذکر میں جو حکم ارشاد ہوا ہے ۔ وہ قرآن وسنت سمجھنے کے بارے میں ہے یا اقوال رجال سمجھنے کے بارے میں ۔آپ کہہ سکتے ہیں کہ عمومی طور پر یہ دونوں کو شامل ہے لیکن یہاں مطلوب اول کیا ہے ؟ فہم قرآن وسنت یا فہم اقوال رجال یا مذہب ؟
دو لفظوں کی بات ہے جو عالم دین فقہ حنفی کو سمجھنے کی استعداد رکھتا ہے وہ قرآن وسنت پر غور و فکر کیوں نہیں کرسکتا ؟ کیونکہ یہ بات بالکل واضح ہے کہ قرآن وسنت کسی بھی فقہ کے مقابلے میں بہر صورت آسان اور میسر و متوفر ہے ۔
یہاں یہ بات واضح رہے کہ جن مسائل میں نصوص صریحہ صحیحہ غیر متعارضہ موجود ہیں ان میں تقلید نہیں ہوتی۔ وہاں آپ کسی بھی امام کا قول اٹھائیں یا خود قرآن و حدیث سے دیکھیں نتیجہ ایک ہی نکلے گا۔
تقلید ان مسائل میں ہوتی جہاں نص موجود نہ ہو، یا نصوص ہوں لیکن مجمل ہوں، یا نصوص ہوں لیکن متعارض ہوں یا نصوص ہوں لیکن مشترک المعنی ہوں۔
(یہ میں اپنے استقرا پر اعتماد کرتے ہوئے چند مثالیں دے رہا ہوں۔ مطلب یہ ہے کہ ہر وہ جگہ جہاں صرف نص سے مسئلہ حاصل نہ کیا جا سکتا ہو اس کے تعارض یا خفاء یا کسی اور وجہ سے)
قرآن وسنت کی نصوص کا درست معنی و محمل سمجھنے کے لیے کسی ایک امام کو یا کسی ایک مذاہب کے آئمہ کو خاص کرنا میرے خیال سے قرین انصاف نہیں ۔کیونکہ حق کسی جماعت یا مذہب یا فرقے میں محصور ہونےکی بجائے پوری امت میں محصور ہے ۔ جہاں سےملیں وہیں سے لینا چاہیے ۔
ایک عامی کے لیے قرآن و سنت تک رسائی امام کے قول تک رسائی کے مقابلے میں زیادہ آسان ہے۔ لیکن سمجھ وہ آسانی سے تب ہی سکتا ہے جب کم از کم عربی جانتا ہو (اردو ترجمے سے جو فرق آتا ہے آپ اس سے واقف ہی ہوں گے) اور یہ مسئلہ ایسا ہو کہ نہ تو اس کے خلاف کوئی نص ہو (چاہے بظاہر ہی تعارض کیوں نہ ہو) اور نہ ہی کسی قسم کا اجمال و پوشیدگی ہو۔ اگر ایسا ہوا اور اس نے کسی عالم سے یہ پوچھا اور عالم نے وہ بتایا جو عالم کے نزدیک راجح ہے تو یہ تقلید ہی ہوگی۔
ایک ہے قرآن وسنت سمجھنےمیں علماء دین کی مدد لینا ۔ دوسرا ہے فقہ حنفی ( مثلا ) سمجھنے کے لیے علماء کی طرف رجوع کرنا ۔
آپ دوسرا کام پسند کرتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ ہم اسی کی استطاعت رکھتے ہیں ۔
جبکہ ہم پہلے کو ترجیح دیتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ جس طرح صحابہ سے یہی مطلوب تھا ہم سے بھی یہی مقصود ہے ۔
نام آپ اس کا جو مرضی رکھ لیں ۔ ولا مشاحۃ فی الاصطلاح ۔
قرآن و سنت کے سمجھنے کی تفصیل میں نے عرض کی اور کتب فقہ عموما عامی کے لیے نہیں ہوتیں بلکہ علماء کے لیے ہوتی ہیں تا کہ ان کے سامنے مسئلہ کی تخریج کے طرق آ جائیں۔
ویسے عامی کا وظیفہ آپ کے نزدیک کیا ہے ؟ قرآن وسنت بھی وہ نہیں سمجھ سکتا ۔ کتب فقہ بھی عموما اس کے لیے نہیں ہیں ۔
قول دیگر (ائمہ مذہب) کا بھی تمام مفتیان کرام کے نزدیک حجت ہوتا ہے امام کے قول کا ہمیشہ حجت ہونا ضروری نہیں ہوتا۔ الا یہ کہ کوئی عالم غلو یا ضد میں انکار کرے۔
میں نے ایسا ہی دیکھا ہے۔ کیا آپ کسی ایسے عالم کی مثال دے سکتے ہیں جو یہ کہتا ہو کہ میں تو بس ابو حنیفہ کے ہی قول کو مانوں گا اور کسی امام کی بات حجت ہو ہی نہیں سکتی؟
ایک امام کی تقلید کا دعوی کرنے کا صاف مطلب تو یہی ہے ۔ اس کی مزید وضاحت کسی بھی مقلد عالم دین کی تقلید کے جواز پر لکھی گئی کتاب کےوہ مقامات پڑھ کر دیکھ لیں جہاں ایک امام کی تقلید کے فوائد اور عدم تقلید کے اضرار و مفاسد بیان ہوئے ہیں ۔ باقی یہ کہنا کہ امام کی تقلید سے مراد مجموعی طور پر پورے مذہب کی تقلید ہے یہ تو بعد کی تشریحات و تو ضیحات ہیں۔ جو مقلدین امام کو قبول ہیں تو کسی اور کو اعتراض کرنے کی کیا ضرورت ہے ۔
بطور نام کے سر دست آپ کے حنفی بھائی امام احمد رضا خاں بریلوی کا نام لیا جاسکتا ہے جنہوں نے ایک کتاب تصنیف فرمائی ہے : ’’أجلی الأعلام أن الفتوی مطلقا علی قول الإمام ‘‘
بہت بہتر ہے لیکن تقلید ہوتی ہی تب ہے جب آپ ہر مسئلہ میں اجتہاد کی صلاحیت نہیں رکھتے یا صلاحیت رکھتے ہیں لیکن ایک امام کے اصول و نظریات سے مطمئن ہوتے ہیں۔ (مطلب یہ کہ آپ نے جب صلاحیت کے بعد کسی مسئلہ میں مختلف ائمہ کے نظریات پڑھے تو ایک امام کے آپ کو درست لگے۔ اب اگر آپ اجتہاد بھی کریں گے تو اپنے درست مقام یعنی اسی نظریہ تک پہنچیں گے۔ یہ حقیقتا آپ کا اجتہاد ہی ہے لیکن امام کے قول کو اختیار کرنے کی وجہ سے ان کی تقلید کہلاتی ہے۔ بعض علماء صاحبین کو اسی صف میں شامل کرتے ہیں۔)
مختلف آئمہ کے نظریات کو پرکھ کر ان پر مطمئن ہونا یہ تقلید نہیں تحقیق کہلاتا ہے ۔ جبکہ یہ جرأت آپ کے ہاں صرف مجتہد مطلق یا مجتہد فی المذہب کےپاس ہوتی ہے جن کا دور صدیوں بیت گئی گزر گیا اب جو مقلدین بچے ہیں تو ان کا دائرہ کار بہت تنگ ہوگیا ہے ۔ لہذا بات وہ کریں جو نظریاتی ہونے کے ساتھ ساتھ امر واقع کے مطابق بھی ہو ۔
عرض یہ ہے کہ میں ان باتوں کو سمجھ بھی گیا ہوں اور جو اشکال مجھے محسوس ہوا میں نے صرف اس کی وضاحت کی ہے۔ اس کا خلاصہ صرف یہ ہے کہ امیر صنعانی کہتے ہیں کہ جس میں اجتہاد کی صلاحیت ہے اسے اپنی صلاحیت کے پر نہیں کاٹنے چاہئیں بلکہ جس قدر صلاحیت ہے اسی قدر آگے بڑھنا چاہیئے۔
میں سمجھتا ہوں ابن عابدین شامی ، ابن نجیم حنفی اور محمود الحسن دیوبندی جیسے اساطین علم اگر حق بات واضح ہونے کے باوجود مذہب کے پابند رہیں تو یہ ان کی عاجزی انکساری بھلے ہوگی لیکن شریعت میں یہ مطلوب نہیں ہے بلکہ یہ اللہ کے فرمان لئن شکرتم لأزیدنکم کے منافی محسوس ہوتا ہے ۔ اور بقول آپ کے یہی اپنی صلاحیتوں کے پر کاٹنا ہے ۔
’’ جسقدر صلاحیت ‘‘ والے آپ کے الفاظ بڑے معنی خیز ہیں بلکہ ایک طرح کا اشکال ہے جس کا بہترین حل علامہ صنعانی نے اوپر کردیا ہے ۔
مجتہدین کے طبقات اور کام آپ شرح عقود رسم المفتی ص 10 ط مکتبۃ البشری میں ملاحظہ فرما سکتے ہیں۔
ویسے مجتہدین کی یہ طبقاتی تقسیم کی وضاحت کبھی آپ کریں تو بہت بہتر رہے گا ۔ مجھے اس حوالے سے سرسری معلومات ہیں لیکن ’’أہل مکۃ ادری بشعابہا ‘‘ کے مطابق آپ سے اس دلچسپ تقسیم و ترتیب کا سننا سمجھنا خوب رہے گا ۔
 
Top