• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اصحاب تقلید کو دعوت غور و فکر ۔۔۔ از امام محمد بن اسماعیل الصنعانی

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,682
ری ایکشن اسکور
752
پوائنٹ
290
بھائی اسی مکمل ترتیب سے تو ہمارا اختلاف ہے ۔ آخر تقلید کی وجہ سے کیوں شرعی نصوص سے استفاد کا دائرہ تنگ در تنگ ہوتا جاتا ہے ۔ اس کا جو جواب عام طور پر آپ کی طرف سے دیا جاتا ہے اس جواب کے جواب میں علامہ صنعانی کی یہ عبارت بار دیگر ملاحظہ فرمائیے :
والأفهام الَّتِي فهم بهَا الصَّحَابَة الْكَلَام الإلهي وَالْخطاب النَّبَوِيّ هِيَ كأفهامنا وأحلامهم كأحلامنا إِذْ لَو كَانَت الأفهام مُتَفَاوِتَة تَفَاوتا يسْقط مَعَه فهم الْعبارَات الإلهية وَالْأَحَادِيث النَّبَوِيَّة لما كُنَّا مكلفين وَلَا مأمورين وَلَا منهيين لَا اجْتِهَادًا وَلَا تقليدا
جو سمجھ بوجھ صحابہ کو عطا ہوئی تھی کہ انہوں نے کلام الہی اور خطاب نبوی کو سمجھا اسی نعمت سے اللہ نے ہمیں بھی نوازا ہے کیونکہ ( تغیر زمان وغیرہ کے سبب ) اگر اتنا زیادہ فرق پڑ جائے کہ ہم سے قرآن وسنت کی سمجھ بوجھ کی اہلیت ہی ختم ہوجائے تو اس طرح تو ہم قرآن وسنت کے اوامر و نواہی کے مکلف ہی نہیں رہیں گے نہ اجتہاد کے ذریعے اور نہ کسی کی تقلید کرکے ۔

یار میرا خیال ہے ہم اسے پہلے متعین کر لیں کہ ہم کس کے لیے تقلید کو لازم کرنے نہ کرنے کی بحث کر رہے ہیں۔ عامی کے لیے یا عالم کے لیے؟
اور عالم کے لیے تو کس قدر علم رکھنے والے کے لیے؟ ورنہ یہ بحث ایسے ہی چلتی رہے گی۔
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,800
پوائنٹ
1,069
یار میرا خیال ہے ہم اسے پہلے متعین کر لیں کہ ہم کس کے لیے تقلید کو لازم کرنے نہ کرنے کی بحث کر رہے ہیں۔ عامی کے لیے یا عالم کے لیے؟
اور عالم کے لیے تو کس قدر علم رکھنے والے کے لیے؟ ورنہ یہ بحث ایسے ہی چلتی رہے گی۔

http://forum.mohaddis.com/threads/تمام-مقلدیں-کو-کھلا-چیلنج-ہے-کہ-کسی-صحابی-سے-تقلید-کا-حکم-اور-اس-کا-واجب-ہونا-ثابت-کر-دیں.16051/
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
یار میرا خیال ہے ہم اسے پہلے متعین کر لیں کہ ہم کس کے لیے تقلید کو لازم کرنے نہ کرنے کی بحث کر رہے ہیں۔ عامی کے لیے یا عالم کے لیے؟
اور عالم کے لیے تو کس قدر علم رکھنے والے کے لیے؟ ورنہ یہ بحث ایسے ہی چلتی رہے گی۔
یہ بحثیں فورم پر بہت دفعہ ہوچکی ہیں ۔ جس میں سے دو دھاگے بھائی نے اوپر پیش بھی کردیے ہیں ۔
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,682
ری ایکشن اسکور
752
پوائنٹ
290
یہ بحثیں فورم پر بہت دفعہ ہوچکی ہیں ۔ جس میں سے دو دھاگے بھائی نے اوپر پیش بھی کردیے ہیں ۔
نہیں بھائی میں یہ بحث نہیں کرنا چاہتا جو فورم کے مندرجہ بالا دو تھریڈز میں ہو چکی ہیں۔
آپ براہ کرم میری بات کا جواب دے دیجیے کہ کس کے لیے تقلید نہ کرنے کی بحث کی جا رہی ہے؟ عامی کے لیے یا عالم کے لئے؟ اور اگر عالم کے لیے تو کون سے عالم کے لیے؟ جو اجتہاد کی صلاحیت رکھتا ہو یا جو نہ رکھتا ہو؟
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,682
ری ایکشن اسکور
752
پوائنٹ
290
خضر حیات بھائی میں نے کافی دیر غور و فکر کیا تو یہ سمجھ میں آیا کہ آپ تقلید کی بحث نہیں کرنا چاہ رہے بلکہ آپ یہ فرمانا چاہتے ہیں کہ "جو علماء صلاحیت رکھتے ہیں وہ اپنی تمام تر صلاحیت فقہ حنفی کو سمجھنے میں لگا دیتے ہیں اور قرآن و سنت کے دلائل میں غور کرنا بھی مناسب نہیں سمجھتے۔ یہ کام درست نہیں ہے۔ انہیں قرآن و حدیث میں بھی غور کرنا چاہیے۔"
اگر آپ کی مراد یہی ہے تو میں آپ کی بات سے کافی حد تک اتفاق کرتا ہوں اور نہ صرف میں بلکہ دور حاضر کے کئی علماء بھی متفق ملیں گے۔

بعض مقلد (حنفی، شافعی، مالکی، حنبلی) علماء یہ خیال رکھتے ہیں کہ ہم مقلد ہیں اور ہمارے لیے قرآن و حدیث میں غور و فکر جائز ہی نہیں۔ یہ تو انتہائی جامد تقلید ہے جو جائز تو ہوگی شاید لیکن درست نہیں۔ کیا ہم فکری طور پر بانجھ ہو گئے؟ یا حکم قرآنی ہم سے پہلے لوگوں پر آ کر تبدیل یا ختم ہو گیاِ؟ یہ نظریہ درست نہیں۔

البتہ جو علماء بلا واسطہ قرآن و حدیث سے مسائل کے استنباط کی صلاحیت نہیں رکھتے وہ ضرور فقہ میں ہی غور و فکر کریں گے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ فقہ پکی پکائی روٹی کی طرح ہے۔ آپ کو مکمل حل شدہ مسائل سے لے کر قرآن و حدیث سے ماخوذ اصولوں تک ملیں گے۔ اب یہ عالم کی صلاحیت پر ہے کہ وہ جس جگہ تک پہنچ سکتا ہے وہاں سے اخذ کرنا شروع کر دے۔
ہاں یہ ضرور ہے کہ وہ کسی ایک امام کے متعین کردہ اصولوں کے مطابق قرآن و حدیث میں غور و فکر کرے کیوں کہ ایک ہی وقت میں تمام ائمہ کے اصولوں کو لے کر چلنا خصوصا ان مقامات پر جہاں اصول متضاد ہیں یا بعض مسائل میں ایک اصول اور بعض میں اس کے بالکل متضاد اصول لینا تو نہ عقلا درست ہے اور نہ نقلا۔ جہاں وہ حالات کے مطابق کسی دوسرے امام کے مسئلہ پر عمل کرنا مناسب سمجھے وہاں اس مسلک کے علماء سے رہنمائی حاصل کر لے۔
اصولوں کی پیروی تو عموما ہمیں کرنا ہی پڑتی ہے چاہے وہ محدثین کے اصول ہوں یا فقہاء کے۔ کوئی اس سے بھی آگے جا سکے اور اپنے اصول بنا سکے جو سب سے الگ ہوں اور پھر اس پر علماء کی معتد بہ جماعت کو مطمئن بھی کر دے تو الگ بات ہے۔ وہ اس پر اللہ کا فضل ہوگا۔

یہ باتیں جو میں کہہ رہا ہوں صرف فرضی نہیں بلکہ حقیقت میں بھی موجود ہیں۔ موجودہ دور میں معاملات (بیع و شرا وغیرہ) کے مسائل اسی طرح اخذ کیے جا رہے ہیں۔ احناف کے نزدیک التزام بیع دیانۃ تو حیثیت رکھتا ہے قضاء نہیں جب کہ مالک رح کے نزدیک قضاء بھی حیثیت رکھتا ہے اور موجودہ دور میں عالمی تجارت میں فتوی اسی پر دیا جا رہا ہے۔ اسی طرح امرأۃ مفقود کے مسئلے میں فتوی موجودہ دور میں مالکیہ کے مسلک پر ہے۔ سفاتج کے مسئلے میں (میری معلومات کے مطابق) امام احمد رح کے قول پر فتوی ہے۔
امام زفر رح کے قول پر چودہ جگہ فتوی دیا جاتا ہے اور صاحبین (محمد اور ابو یوسف رح) کے اقوال تو کثیر مسائل میں معتبر اور مفتی بہ ہیں۔
(یاد رہے کہ زفر اور صاحبین رح کے اقوال فقہ حنفی میں ہی شمار ہوتے ہیں)

تو یہ سب باتیں یہ بتاتی ہیں کہ فقہ حنفی یا کوئی بھی فقہ اس قدر جامد نہیں ہے کہ بس جو امام نے کہہ دیا وہ حرف آخر ہے بلکہ امام کے بنائے اصولوں پر مبنی فقہ کو قابل اعتماد سمجھا جاتا ہے لیکن جب ضرورت محسوس ہوتی ہے تو دیگر ائمہ کے اقوال کو بھی دیکھا جاتا ہے۔ البتہ اس کی کھلی چھوٹ نہیں ہوتی کہ ہر کوئی یہ کہے کہ میری سمجھ اور فہم کامل ہے اور جہاں اسے آسانی لگے وہاں سے مسئلہ اٹھا کر عمل کرنا اور لوگوں کو کروانا شروع کر دے۔ بلکہ مسئلہ اخذ کرنے کے بعد ضرورت مسئلہ اور مسئلہ وغیرہ سے علماء کی جماعت کو مطمئن کیا جاتا ہے۔

آپ تو ماشاء اللہ صاحب علم ہیں لیکن جو ساتھی فقہ کے مسائل سے واقفیت نہیں رکھتے ان کے لیے ان تینوں مسائل کی وضاحت عرض کر دوں۔
1: التزام بیع کا مطلب ہے کوئی شخص یہ وعدہ کرے کہ میں فلاں چیز خرید لوں گا۔ اب امام مالک رح کے نزدیک اگر وہ نہ خریدے تو دوسرا شخص عدالت میں مقدمہ کر سکتا ہے جبکہ احناف کے نزدیک اسے وعدہ خلافی کا گناہ تو ہوگا لیکن مقدمہ نہیں ہو سکتا۔ عقلا احناف کا مسلک مضبوط لگتا ہے لیکن ساری دنیا حنفی نہیں ہے اور نہ ہی ساری دنیا کو سمجھایا جا سکتا ہے کہ کسی کے صرف وعدے پر اعتبار کر کے معاملات نہ کرو۔ اس لیے مفتی تقی عثمانی حفظہ اللہ نے امام مالک رح کے مسلک کو ترجیح دیتے ہوئے فتوی کے لیے پیش کیا ہے۔
2: امرئۃ مفقود کا مسئلہ یہ ہے کہ اگر کوئی شخص غائب ہو جائے تو اس کی بیوی کتنے عرصے تک اس کے انتظار میں بیٹھی رہے گی؟ امام مالک رح کے نزدیک چار سال تک اور احناف کے نزدیک اتنی مدت جس میں اس جیسا بندہ عموما فوت ہو جاتا ہے اور اس کی کم از کم مدت نوے سال ہے۔ ماضی میں تو یہ مسئلہ آسانی سے عمل میں آ سکتا تھا لیکن جنگ عظیم کے موقع پر جب کثیر تعداد میں مسلمان مفقود ہوئے اور ان کی بیویوں نے فتاوی مانگنا شروع کیے تو ظاہر تھا کہ اتنی ساری عورتیں بغیر شادی کے کتنے دن گزار سکتی ہیں۔ اس لیے امام مدینہ رح کے قول پر فتوی دیا گیا۔ اس کی تفصیل ایک کتاب میں موجود بھی ہے لیکن مجھے اس کتاب کا نام یاد نہیں۔
3: سفاتج سفتجہ کی جمع ہے اور اس کا مطلب یہ ہے کہ ایک شخص دوسرے کو کچھ پیسے دیتا ہے قرض کے طور پر کہ فلاں جگہ پر قرض وصول کر لوں گا اور اس طرح راستے میں لٹنے کے خطرات سے محفوظ ہوجاتا ہے۔ فقہ کا اصول یہ ہے کہ ہر وہ قرض جو کسی قسم کا فائدہ پہنچائے تو وہ فائدہ ربا (سود) ہے۔ موجودہ دور میں اس کی مثال ٹریولز چیکس ہیں۔ اس مسئلے کے بارے میں سنا گیا ہے کہ امام احمد رح اسے جائز قرار دیتے ہیں اور انہی کے قول پر فتوی ہے۔ مجھے تفصیل کا علم نہیں۔


خلاصہ کلام یہ ہے کہ یہ کہنا کہ قرآن و حدیث میں غور و فکر مقلد کے لیے جائز ہی نہیں درست نہیں بلکہ ہر عالم کو اپنی استعداد کے مطابق قرآن و حدیث میں غور کرنا چاہیے اور فقہ مقارن میں بھی۔ جو نہ کرسکتا ہو تو اصول کا انطباق کرے۔ جو یہ بھی نہ کرسکتا ہو تو اقوال کے درمیان ترجیح دے کر مسئلہ اخذ کرے اور جو یہ بھی نہ کر سکے تو پہلے سے حل شدہ مسائل کی بنیاد پر فتوی دیدے۔

اب سوال یہ ہے کہ اگر کوئی صلاحیت کے باوجود پہلے سے تخریج شدہ مسائل پر فقہاء کے فہم پر اعتماد کرتے ہوئے فتوی دیتا ہے تو آپ اس کے بارے میں کیا کہتے ہیں؟؟؟
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
خضر حیات بھائی میں نے کافی دیر غور و فکر کیا تو یہ سمجھ میں آیا کہ آپ تقلید کی بحث نہیں کرنا چاہ رہے بلکہ آپ یہ فرمانا چاہتے ہیں کہ "جو علماء صلاحیت رکھتے ہیں وہ اپنی تمام تر صلاحیت فقہ حنفی کو سمجھنے میں لگا دیتے ہیں اور قرآن و سنت کے دلائل میں غور کرنا بھی مناسب نہیں سمجھتے۔ یہ کام درست نہیں ہے۔ انہیں قرآن و حدیث میں بھی غور کرنا چاہیے۔"
اگر آپ کی مراد یہی ہے تو میں آپ کی بات سے کافی حد تک اتفاق کرتا ہوں اور نہ صرف میں بلکہ دور حاضر کے کئی علماء بھی متفق ملیں گے۔
۔۔۔
تو یہ سب باتیں یہ بتاتی ہیں کہ فقہ حنفی یا کوئی بھی فقہ اس قدر جامد نہیں ہے کہ بس جو امام نے کہہ دیا وہ حرف آخر ہے بلکہ امام کے بنائے اصولوں پر مبنی فقہ کو قابل اعتماد سمجھا جاتا ہے لیکن جب ضرورت محسوس ہوتی ہے تو دیگر ائمہ کے اقوال کو بھی دیکھا جاتا ہے۔ البتہ اس کی کھلی چھوٹ نہیں ہوتی کہ ہر کوئی یہ کہے کہ میری سمجھ اور فہم کامل ہے اور جہاں اسے آسانی لگے وہاں سے مسئلہ اٹھا کر عمل کرنا اور لوگوں کو کروانا شروع کر دے۔ بلکہ مسئلہ اخذ کرنے کے بعد ضرورت مسئلہ اور مسئلہ وغیرہ سے علماء کی جماعت کو مطمئن کیا جاتا ہے۔
۔۔۔۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ یہ کہنا کہ قرآن و حدیث میں غور و فکر مقلد کے لیے جائز ہی نہیں درست نہیں بلکہ ہر عالم کو اپنی استعداد کے مطابق قرآن و حدیث میں غور کرنا چاہیے اور فقہ مقارن میں بھی۔ جو نہ کرسکتا ہو تو اصول کا انطباق کرے۔ جو یہ بھی نہ کرسکتا ہو تو اقوال کے درمیان ترجیح دے کر مسئلہ اخذ کرے ۔
آپ کی ان باتوں سے مجھے مکمل اتفاق ہے ۔
اجتہاد و تقلید کی نظریاتی بحثوں سے نکلنے کا یہی فائدہ ہے کہ عملی پہلوؤں پر غور کرکے ہم بہت سے مسائل میں اتفاق تلاش سکتے ہیں ۔
ورنہ اگر نظریاتی بنیادوں پر بحث شروع کریں تو شاید ’’ تقلید ‘‘ کی تعریف میں ہی الجھ کر رہ جائیں گے ۔
اور اللہ آپ کو جزائے خیر سے نوازے اور علوم و فنون کے دروازے آپ کے لیے کھولے ۔ آپ کی یہ عادت بہت ہی اچھی لگتی ہے کہ آپ ’’ بحث برائے بحث ‘‘ سے اجتناب کرتے ہیں ۔
باقی کچھ وضاحت طلب باتیں آئندہ عرض کرتا ہوں ۔
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
آپ براہ کرم میری بات کا جواب دے دیجیے کہ کس کے لیے تقلید نہ کرنے کی بحث کی جا رہی ہے؟ عامی کے لیے یا عالم کے لئے؟ اور اگر عالم کے لیے تو کون سے عالم کے لیے؟ جو اجتہاد کی صلاحیت رکھتا ہو یا جو نہ رکھتا ہو؟
ہمارے ہاں قرآن وسنت کی روشنی میں کسی بھی صاحب علم سے مسئلہ پوچھنا اور پھر بعد میں معلوم ہونے پر کہ اس عالم دین سے غلطی ہوگئی تھی ، اسکی بات کو چھوڑ دینا ، اس کو تقلید کہتے ہی نہیں جو کہتے ہیں وہ اس کو جائز قرار دیتے ہیں ۔
اس میں عامی بھی شامل ہے اور عالم دین بھی کیونکہ کوئی بھی عالم دین ایسا نہیں جو بغیر کسی سے پوچھے سمجھے یا اقوال علماء سے مدد لیے کسی مسئلہ کے حکم کے حوالے سےنتیجے پر پہنچ سکتا ہو ۔
دنیا میں کون سا مجتہد ہے جسے کسی سے پوچھنے کی ضرورت نہیں پڑتی ؟ ہر کوئی پوچھتا ہے لیکن ہر ایک کا اپنا اپنا دائرہ کار ہے ۔
قابل مذمت حق تک پہنچنے کے لیے ’’ سوال ‘‘ نہیں ہے بلکہ یہ ہے کہ حق واضح ہونے کے باوجود ایک عامی اپنے پسندیدہ کی بات کو چھوڑنے کے لیے تیار نہ ہو اور عالم دین طرح طرح کی تأویلات شروع کردے تاکہ امام صاحب کے قول کا دفاع کیا جاسکے ۔
علماء کے لیے تأویل اس لیے تو کی جاسکتی ہے کہ ان سے غلطی شاید اس وجہ سے ہوگئی لہذا وہ معذور ہیں ۔ لیکن تأویل اس وجہ سے کی جائے کہ ہم بھی اسی غلطی پر قائم رہیں درست محسوس نہیں ہوتا ۔
البتہ جو علماء بلا واسطہ قرآن و حدیث سے مسائل کے استنباط کی صلاحیت نہیں رکھتے وہ ضرور فقہ میں ہی غور و فکر کریں گے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ فقہ پکی پکائی روٹی کی طرح ہے۔ آپ کو مکمل حل شدہ مسائل سے لے کر قرآن و حدیث سے ماخوذ اصولوں تک ملیں گے۔ اب یہ عالم کی صلاحیت پر ہے کہ وہ جس جگہ تک پہنچ سکتا ہے وہاں سے اخذ کرنا شروع کر دے۔
ہاں یہ ضرور ہے کہ وہ کسی ایک امام کے متعین کردہ اصولوں کے مطابق قرآن و حدیث میں غور و فکر کرے کیوں کہ ایک ہی وقت میں تمام ائمہ کے اصولوں کو لے کر چلنا خصوصا ان مقامات پر جہاں اصول متضاد ہیں یا بعض مسائل میں ایک اصول اور بعض میں اس کے بالکل متضاد اصول لینا تو نہ عقلا درست ہے اور نہ نقلا۔ جہاں وہ حالات کے مطابق کسی دوسرے امام کے مسئلہ پر عمل کرنا مناسب سمجھے وہاں اس مسلک کے علماء سے رہنمائی حاصل کر لے۔
اصولوں کی پیروی تو عموما ہمیں کرنا ہی پڑتی ہے چاہے وہ محدثین کے اصول ہوں یا فقہاء کے۔ کوئی اس سے بھی آگے جا سکے اور اپنے اصول بنا سکے جو سب سے الگ ہوں اور پھر اس پر علماء کی معتد بہ جماعت کو مطمئن بھی کر دے تو الگ بات ہے۔ وہ اس پر اللہ کا فضل ہوگا۔
تمام مسائل میں تقلید کی بجائے کسی امام کے اصولوں پر چلنا ۔۔۔ یہ بات اس سے پہلے بھی کئی دفعہ سنی ہے بڑے بڑے کبار علماء سے سنی ہے ۔ لیکن میری کم فہمی و نا پختگی سمجھیے کہ مجھے اس کے جواز کی کوئی اچھی توجیہ نہیں مل سکی ۔
قرآن وسنت کو سمجھنے کے لیے کوششیں صرف کسی ایک عالم دین یا کسی ایک مذہب کے عالم دین نے تو نہیں کیں کہ ہم ان پر اکتفا کر کے بیٹھ جائیں ۔ سب علماء نے تمام مذاہب نے اس سلسلے میں کوششیں کی ہیں تمام سے مستفید ہونا چاہیے ۔ تضاد کی صورت میں دلائل کی روشنی میں ترجیح دینی چاہیے ۔ کسی فقہی فرعی مسئلہ میں اختلاف ہوتاہے تو دلائل دیکھ کر ترجیح نہیں دی جاتی ؟ بالکل اسی طرح اصولی مسائل میں عند الاختلاف دلائل کے ساتھ ترجیح ہونا چاہیے ۔
اور یہ ایسا مسئلہ نہیں ہے کہ اصولی مسائل میں دلائل وغیرہ دیکھنا غیر معروف ہے بلکہ آپ کسی بھی مذہب کی اصول پر لکھی ہوئی کتاب دیکھ لیں جو جس مذہب سے تعلق رکھتا ہے اپنے اصولی مسائل کو بادلائل دوسروں پر برتر ثابت کرنے کی کوشش کرتا ہے ۔
اب کیا یہ کوئی مشکل کام ہے کہ تمام مذاہب کے اصول کو دیکھ لیا جائے اور دلائل کی بنیاد پر جو راجح ہے اس کو لے لیا جائے ۔
مثلا ’’ اجماع ‘‘ ہے کہ نہیں ؟ ایک اصولی مسئلہ کیا دلائل کی روشنی میں راحج موقف تک نہیں پہنچا جاسکتا ؟
’’ قول صحابی ‘‘ حجت ہے کہ نہیں ؟ دلائل کی روشنی میں راحج موقف کا فیصلہ کیا جاسکتا ہے کہ نہیں ؟
’’ خبر واحد ‘‘ کی حجیت کے متعلق درست موقف تک پہنچنا دلائل کی روشنی میں ممکن ہے کہ نہیں ؟
اور میرے خیال سے جن کو ’’ اہل حدیث ‘‘ کہا جاتا ہے ان کے بارے میں لوگوں کا عام گمان تو یہ ہے کہ کسی کو خاطر میں نہیں لاتے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ وہ ہر ایک سے استفادہ کرکے جہاں سے جو بات حق ملتی ہے چاہے وہ فرعی مسئلہ ہو یا اصولی اس کو لے لیتے ہیں ۔
2: امرئۃ مفقود کا مسئلہ یہ ہے کہ اگر کوئی شخص غائب ہو جائے تو اس کی بیوی کتنے عرصے تک اس کے انتظار میں بیٹھی رہے گی؟ امام مالک رح کے نزدیک چار سال تک اور احناف کے نزدیک اتنی مدت جس میں اس جیسا بندہ عموما فوت ہو جاتا ہے اور اس کی کم از کم مدت نوے سال ہے۔ ماضی میں تو یہ مسئلہ آسانی سے عمل میں آ سکتا تھا لیکن جنگ عظیم کے موقع پر جب کثیر تعداد میں مسلمان مفقود ہوئے اور ان کی بیویوں نے فتاوی مانگنا شروع کیے تو ظاہر تھا کہ اتنی ساری عورتیں بغیر شادی کے کتنے دن گزار سکتی ہیں۔ اس لیے امام مدینہ رح کے قول پر فتوی دیا گیا۔ اس کی تفصیل ایک کتاب میں موجود بھی ہے لیکن مجھے اس کتاب کا نام یاد نہیں۔
غالبا آپ کی مراد مولانا اشرف علی تھانوی صاحب کی کتاب ’’ الحیلۃ الناجزۃ للحلیلۃ العاجزۃ ‘‘ سے ہے ۔
اب سوال یہ ہے کہ اگر کوئی صلاحیت کے باوجود پہلے سے تخریج شدہ مسائل پر فقہاء کے فہم پر اعتماد کرتے ہوئے فتوی دیتا ہے تو آپ اس کے بارے میں کیا کہتے ہیں؟؟؟
جو قرآن وسنت سے مسئلہ معلوم کرنے کی صلاحیت بھی رکھتا ہے پھر بھی ادھر ادھر سے دیکھ کر جواب دے دیتا ہے ۔۔ ظاہر ہے اس کو سستی ہی کہہ سکتے ہیں اور کیا کہیں گے ۔
خاص طور پر مفتی کا منصب یہ تقاضا کرتا ہے کہ وہ کسی بھی مسئلہ میں حکم بتانے کےلیے حتی الوسع حق جاننے کی کوشش کے بعد ہی فتوی دے ۔
حق تلاش کرنے کی کوشش کرنا ہماری ذمہ داری ہے اس کےبعد معاملہ اللہ پر چھوڑنا چاہیے ۔۔ لا یکلف اللہ نفسا إلا وسعہا
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,682
ری ایکشن اسکور
752
پوائنٹ
290
ہمارے ہاں قرآن وسنت کی روشنی میں کسی بھی صاحب علم سے مسئلہ پوچھنا اور پھر بعد میں معلوم ہونے پر کہ اس عالم دین سے غلطی ہوگئی تھی ، اسکی بات کو چھوڑ دینا ، اس کو تقلید کہتے ہی نہیں جو کہتے ہیں وہ اس کو جائز قرار دیتے ہیں ۔
اس میں عامی بھی شامل ہے اور عالم دین بھی کیونکہ کوئی بھی عالم دین ایسا نہیں جو بغیر کسی سے پوچھے سمجھے یا اقوال علماء سے مدد لیے کسی مسئلہ کے حکم کے حوالے سےنتیجے پر پہنچ سکتا ہو ۔
دنیا میں کون سا مجتہد ہے جسے کسی سے پوچھنے کی ضرورت نہیں پڑتی ؟ ہر کوئی پوچھتا ہے لیکن ہر ایک کا اپنا اپنا دائرہ کار ہے ۔
قابل مذمت حق تک پہنچنے کے لیے ’’ سوال ‘‘ نہیں ہے بلکہ یہ ہے کہ حق واضح ہونے کے باوجود ایک عامی اپنے پسندیدہ کی بات کو چھوڑنے کے لیے تیار نہ ہو اور عالم دین طرح طرح کی تأویلات شروع کردے تاکہ امام صاحب کے قول کا دفاع کیا جاسکے ۔
علماء کے لیے تأویل اس لیے تو کی جاسکتی ہے کہ ان سے غلطی شاید اس وجہ سے ہوگئی لہذا وہ معذور ہیں ۔ لیکن تأویل اس وجہ سے کی جائے کہ ہم بھی اسی غلطی پر قائم رہیں درست محسوس نہیں ہوتا ۔


صرف امام کا قول درست ثابت کرنے کے لیے تاویلات کی جائیں تو واقعی غیر مناسب فعل ہے۔
لیکن میں نے جہاں تک تصانیف کو دیکھا ہے وہ قول امام کے خلاف دلیل میں تاویل اس وجہ سے کرتے ہیں کہ امام کی وہ رائے دیگر دلائل کی بنیاد پر ان کے نزدیک درست ہوتی ہے۔ اب اگر کوئی دلیل اس کے خلاف ملے تو ظاہر ہے یا اس دلیل میں تاویل کی جائے گی یا ان ادلہ میں جن سے پہلی رائے نکالی ہے۔ بیان کرنے کا انداز عموما یہ ہوتا ہے کہ امام صاحب (کوئی بھی امام ہوں) فلاں بات فرماتے ہیں اور اس حدیث میں جو آیا ہے وہ فلاں تاویل میں ہے۔ اس بات کی بحث کہ امام صاحب فلاں بات کیوں فرماتے ہیں اگر مقام ہو تب ہی کی جاتی ہے ورنہ نہیں۔ حالانکہ یہ حقیقت ہوتی ہے کہ اس امام کی رائے مضبوط ادلہ کی بنیاد پر ہوتی ہے اور ایک دلیل سے اسے چھوڑ دینا ان ادلہ کو چھوڑ دینا ہوتا ہے۔
ایسے کئی مقامات ہیں جہاں آپ بھی تاویل کریں گے۔ جیسے اہل سنت کا مذہب ہے کہ مرتکب گناہ کبیرہ مخلد فی النار (ہمیشہ کے لیے جہنمی) نہیں ہوگا۔ اب قتل عمد کی آیت قرآنی جو انتہائی واضح ہے اس میں مختلف تاویلات کی جاتی ہیں کہ وہ حلال سمجھ کر قتل کرنے کے بارے میں ہے وغیرہ وغیرہ۔ کیا معتزلہ کی جانب سے ہم اس بات کو تسلیم کر سکتے ہیں کہ ہم مسلک کو بچانے کے لیے تاویلات کر رہے ہیں ورنہ آیت سے معتزلہ کا مسلک (مرتکب کبیرہ مخلد فی النار ہوگا) ثابت ہو رہا ہے؟
ہم جواب میں یہی کہیں گے کہ ہم اپنے مسلک کے لیے تاویل کر رہے ہیں لیکن بظاہر۔ حقیقت یہ ہے کہ ہمارا مسلک (اہل سنت کا) جن دلائل پر مبنی ہے ان کے خلاف ہونے کی وجہ سے ہم اس میں تاویل کر رہے ہیں۔
تو ہر امام کے متبع عالم کا بھی یہی معاملہ ہوتا ہے۔ اگر آپ اس مقام کو دیکھیں جہاں اس رائے پر بحث ہے جس کا وہ دفاع کر رہا ہے تو آپ کو ایسے دلائل ملیں گے جنہیں وہ راجح سمجھتا ہے۔ اسی لیے وہ تاویل کر رہا ہوتا ہے۔

قرآن وسنت کو سمجھنے کے لیے کوششیں صرف کسی ایک عالم دین یا کسی ایک مذہب کے عالم دین نے تو نہیں کیں کہ ہم ان پر اکتفا کر کے بیٹھ جائیں ۔ سب علماء نے تمام مذاہب نے اس سلسلے میں کوششیں کی ہیں تمام سے مستفید ہونا چاہیے ۔ تضاد کی صورت میں دلائل کی روشنی میں ترجیح دینی چاہیے ۔ کسی فقہی فرعی مسئلہ میں اختلاف ہوتاہے تو دلائل دیکھ کر ترجیح نہیں دی جاتی ؟ بالکل اسی طرح اصولی مسائل میں عند الاختلاف دلائل کے ساتھ ترجیح ہونا چاہیے ۔
اور یہ ایسا مسئلہ نہیں ہے کہ اصولی مسائل میں دلائل وغیرہ دیکھنا غیر معروف ہے بلکہ آپ کسی بھی مذہب کی اصول پر لکھی ہوئی کتاب دیکھ لیں جو جس مذہب سے تعلق رکھتا ہے اپنے اصولی مسائل کو بادلائل دوسروں پر برتر ثابت کرنے کی کوشش کرتا ہے ۔
اب کیا یہ کوئی مشکل کام ہے کہ تمام مذاہب کے اصول کو دیکھ لیا جائے اور دلائل کی بنیاد پر جو راجح ہے اس کو لے لیا جائے ۔


جی ہاں اس طرح ابحاث کی جاتی ہیں بلکہ یہ کہا جائے کہ پہلے سے کی جا چکی ہیں تو زیادہ مناسب ہے۔ لیکن سب کا ایک ہی نتیجے پر پہنچنا نا ممکن ہے اور اس کی وجہ سوچ کا فرق ہے جو دنیا کے ہر علم میں اثر ڈالتا ہے۔ اسی لیے بعض لوگ ایک اصول کے دلائل کو راجح مانتے ہوئے اسے قبول کر لیتے ہیں اور بعض لوگ دوسرے اصول کو۔
اس کی مثال جیسے عام غیر مخصوص عنہ البعض ہے۔ یعنی وہ لفظ جو عام ہو اور اس میں سے کسی فرد کے لیے کوئی خاص حکم نہیں لگایا گیا ہو۔ امام شافعی رح فرماتے ہیں کہ یہ ظنی ہے اور اس کی وجہ (یا علت) یہ ہے کہ اس کے کسی بھی فرد میں تخصیص ہونا ممکن ہے جو ہمیں کسی دوسری نص سے معلوم ہو سکتی ہے۔ اس لیے اس کا حکم اس کے افراد کے بارے میں ظنی ہوگا۔ یہ دلیل الفاظ کے اعتبار سے مضبوط ہے۔
احناف کہتے ہیں کہ یہ قطعی ہے کیوں کہ تخصیص ہو سکتی ہے ہوئی نہیں ہے۔ اب یہ بھی مضبوط ہے۔ جو احناف کی طرز پر سوچتے ہوں گے انہیں احناف کا موقف مضبوط لگے گا اور وہ اسے اختیار کر لیں گے اور جو شوافع کی طرز پر سوچتے ہوں گے انہیں ان کا موقف مضبوط لگے گا۔ نتیجہ تب نکلے گا جب کسی لفظ عام کے کسی فرد میں خبر واحد سے تخصیص ہوگی۔ شوافع اسے قبول کر لیں گے اور احناف قبول نہیں کریں گے۔
اب اس قسم کے معاملات میں ہم سب کو ایک طرح سے سوچنے پر مجبور کر ہی نہیں سکتے کیوں کہ یہ تو اپنی اپنی فہم کی بات ہے۔

اور میرے خیال سے جن کو '' اہل حدیث '' کہا جاتا ہے ان کے بارے میں لوگوں کا عام گمان تو یہ ہے کہ کسی کو خاطر میں نہیں لاتے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ وہ ہر ایک سے استفادہ کرکے جہاں سے جو بات حق ملتی ہے چاہے وہ فرعی مسئلہ ہو یا اصولی اس کو لے لیتے ہیں ۔
جی میں یہ جانتا ہوں۔ اس سے کچھ خرابیاں تو لازم آتی ہیں لیکن وہ زیادہ بڑی نہیں ہوتیں۔ مثال کے طور پر ایک جگہ ایک فرعی مسئلہ لیا گیا جو کسی اصول پر مبنی تھا اور دوسری جگہ کسی اور کا کوئی دوسرا فرعی مسئلہ لیا گیا جو پہلے اصول کے الٹ پر مبنی تھا۔ اب دوسرے مسئلہ پر عمل کرنے کا مطلب تو یہ ہوا کہ آپ نے پہلے اصول کو رد کر دیا حالاں کہ پہلے مسئلے میں آپ پہلے اصول پر عمل پیرا ہیں اور دوسرے کو رد کر رہے ہیں۔ ایک ہی وقت میں ایک ہی اصول صحیح یا راجح اور غلط یا مرجوح کیسے ہو سکتا ہے؟ لیکن نہ تو یہ ہمیشہ ہوتا ہے اور نہ اس سے کوئی بڑی خرابی لازم آتی ہے۔
پاک و ہند میں کثرت سے ایسے اہل حدیث موجود ہیں جو یہ بھی نہیں کرتے بلکہ قرآن و حدیث کے ترجمے سے جو مسئلہ ان کی فہم کے مطابق سمجھ میں آتا ہے اسی پر عمل پیرا ہو جاتے ہیں۔ یہ عموما وہ ہوتے ہیں جو عالم نہیں ہوتے۔ ظاہر ہے عمل چوں کہ قرآن و حدیث پر ہی ہے اس لیے غلط نہیں کہا جا سکتا لیکن اس کی بنیاد پر جب دوسروں کو مخالف حدیث کہا جاتا ہے یا مشرک کہا جاتا ہے تو اختلاف کی ابتدا ہو جاتی ہے۔ پھر دونوں جانب سے وہ کچھ ہوتا ہے کہ الامان و الحفیظ

غالبا آپ کی مراد مولانا اشرف علی تھانوی صاحب کی کتاب '' الحیلۃ الناجزۃ للحلیلۃ العاجزۃ '' سے ہے ۔
جزاک اللہ۔ ویسے میں نے اس کا مطالعہ نہیں کیا۔

جو قرآن وسنت سے مسئلہ معلوم کرنے کی صلاحیت بھی رکھتا ہے پھر بھی ادھر ادھر سے دیکھ کر جواب دے دیتا ہے ۔۔ ظاہر ہے اس کو سستی ہی کہہ سکتے ہیں اور کیا کہیں گے ۔
سستی کا مطلب شرک یا حرام یا مکروہ یا خلاف اولی؟
 
شمولیت
ستمبر 06، 2013
پیغامات
44
ری ایکشن اسکور
47
پوائنٹ
20
مثال کے طور پر ایک جگہ ایک فرعی مسئلہ لیا گیا جو کسی اصول پر مبنی تھا اور دوسری جگہ کسی اور کا کوئی دوسرا فرعی مسئلہ لیا گیا جو پہلے اصول کے الٹ پر مبنی تھا۔ اب دوسرے مسئلہ پر عمل کرنے کا مطلب تو یہ ہوا کہ آپ نے پہلے اصول کو رد کر دیا حالاں کہ پہلے مسئلے میں آپ پہلے اصول پر عمل پیرا ہیں اور دوسرے کو رد کر رہے ہیں۔ ایک ہی وقت میں ایک ہی اصول صحیح یا راجح اور غلط یا مرجوح کیسے ہو سکتا ہے؟ لیکن نہ تو یہ ہمیشہ ہوتا ہے اور نہ اس سے کوئی بڑی خرابی لازم آتی ہے۔
اگر کوئی مثال دیں تو مہربانی ہوگی-

میرے اندازے میں ہر حدیث کے اصل سمجھنے کی وجہ سے ایسا ہوا ہوگا-
 
Top