آپ براہ کرم میری بات کا جواب دے دیجیے کہ کس کے لیے تقلید نہ کرنے کی بحث کی جا رہی ہے؟ عامی کے لیے یا عالم کے لئے؟ اور اگر عالم کے لیے تو کون سے عالم کے لیے؟ جو اجتہاد کی صلاحیت رکھتا ہو یا جو نہ رکھتا ہو؟
ہمارے ہاں قرآن وسنت کی روشنی میں کسی بھی صاحب علم سے مسئلہ پوچھنا اور پھر بعد میں معلوم ہونے پر کہ اس عالم دین سے غلطی ہوگئی تھی ، اسکی بات کو چھوڑ دینا ، اس کو تقلید کہتے ہی نہیں جو کہتے ہیں وہ اس کو جائز قرار دیتے ہیں ۔
اس میں عامی بھی شامل ہے اور عالم دین بھی کیونکہ کوئی بھی عالم دین ایسا نہیں جو بغیر کسی سے پوچھے سمجھے یا اقوال علماء سے مدد لیے کسی مسئلہ کے حکم کے حوالے سےنتیجے پر پہنچ سکتا ہو ۔
دنیا میں کون سا مجتہد ہے جسے کسی سے پوچھنے کی ضرورت نہیں پڑتی ؟ ہر کوئی پوچھتا ہے لیکن ہر ایک کا اپنا اپنا دائرہ کار ہے ۔
قابل مذمت حق تک پہنچنے کے لیے ’’ سوال ‘‘ نہیں ہے بلکہ یہ ہے کہ حق واضح ہونے کے باوجود ایک عامی اپنے پسندیدہ کی بات کو چھوڑنے کے لیے تیار نہ ہو اور عالم دین طرح طرح کی تأویلات شروع کردے تاکہ امام صاحب کے قول کا دفاع کیا جاسکے ۔
علماء کے لیے تأویل اس لیے تو کی جاسکتی ہے کہ ان سے غلطی شاید اس وجہ سے ہوگئی لہذا وہ معذور ہیں ۔ لیکن تأویل اس وجہ سے کی جائے کہ ہم بھی اسی غلطی پر قائم رہیں درست محسوس نہیں ہوتا ۔
البتہ جو علماء بلا واسطہ قرآن و حدیث سے مسائل کے استنباط کی صلاحیت نہیں رکھتے وہ ضرور فقہ میں ہی غور و فکر کریں گے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ فقہ پکی پکائی روٹی کی طرح ہے۔ آپ کو مکمل حل شدہ مسائل سے لے کر قرآن و حدیث سے ماخوذ اصولوں تک ملیں گے۔ اب یہ عالم کی صلاحیت پر ہے کہ وہ جس جگہ تک پہنچ سکتا ہے وہاں سے اخذ کرنا شروع کر دے۔
ہاں یہ ضرور ہے کہ وہ کسی ایک امام کے متعین کردہ اصولوں کے مطابق قرآن و حدیث میں غور و فکر کرے کیوں کہ ایک ہی وقت میں تمام ائمہ کے اصولوں کو لے کر چلنا خصوصا ان مقامات پر جہاں اصول متضاد ہیں یا بعض مسائل میں ایک اصول اور بعض میں اس کے بالکل متضاد اصول لینا تو نہ عقلا درست ہے اور نہ نقلا۔ جہاں وہ حالات کے مطابق کسی دوسرے امام کے مسئلہ پر عمل کرنا مناسب سمجھے وہاں اس مسلک کے علماء سے رہنمائی حاصل کر لے۔
اصولوں کی پیروی تو عموما ہمیں کرنا ہی پڑتی ہے چاہے وہ محدثین کے اصول ہوں یا فقہاء کے۔ کوئی اس سے بھی آگے جا سکے اور اپنے اصول بنا سکے جو سب سے الگ ہوں اور پھر اس پر علماء کی معتد بہ جماعت کو مطمئن بھی کر دے تو الگ بات ہے۔ وہ اس پر اللہ کا فضل ہوگا۔
تمام مسائل میں تقلید کی بجائے کسی امام کے اصولوں پر چلنا ۔۔۔ یہ بات اس سے پہلے بھی کئی دفعہ سنی ہے بڑے بڑے کبار علماء سے سنی ہے ۔ لیکن میری کم فہمی و نا پختگی سمجھیے کہ مجھے اس کے جواز کی کوئی اچھی توجیہ نہیں مل سکی ۔
قرآن وسنت کو سمجھنے کے لیے کوششیں صرف کسی ایک عالم دین یا کسی ایک مذہب کے عالم دین نے تو نہیں کیں کہ ہم ان پر اکتفا کر کے بیٹھ جائیں ۔ سب علماء نے تمام مذاہب نے اس سلسلے میں کوششیں کی ہیں تمام سے مستفید ہونا چاہیے ۔ تضاد کی صورت میں دلائل کی روشنی میں ترجیح دینی چاہیے ۔ کسی فقہی فرعی مسئلہ میں اختلاف ہوتاہے تو دلائل دیکھ کر ترجیح نہیں دی جاتی ؟ بالکل اسی طرح اصولی مسائل میں عند الاختلاف دلائل کے ساتھ ترجیح ہونا چاہیے ۔
اور یہ ایسا مسئلہ نہیں ہے کہ اصولی مسائل میں دلائل وغیرہ دیکھنا غیر معروف ہے بلکہ آپ کسی بھی مذہب کی اصول پر لکھی ہوئی کتاب دیکھ لیں جو جس مذہب سے تعلق رکھتا ہے اپنے اصولی مسائل کو بادلائل دوسروں پر برتر ثابت کرنے کی کوشش کرتا ہے ۔
اب کیا یہ کوئی مشکل کام ہے کہ تمام مذاہب کے اصول کو دیکھ لیا جائے اور دلائل کی بنیاد پر جو راجح ہے اس کو لے لیا جائے ۔
مثلا ’’ اجماع ‘‘ ہے کہ نہیں ؟ ایک اصولی مسئلہ کیا دلائل کی روشنی میں راحج موقف تک نہیں پہنچا جاسکتا ؟
’’ قول صحابی ‘‘ حجت ہے کہ نہیں ؟ دلائل کی روشنی میں راحج موقف کا فیصلہ کیا جاسکتا ہے کہ نہیں ؟
’’ خبر واحد ‘‘ کی حجیت کے متعلق درست موقف تک پہنچنا دلائل کی روشنی میں ممکن ہے کہ نہیں ؟
اور میرے خیال سے جن کو ’’ اہل حدیث ‘‘ کہا جاتا ہے ان کے بارے میں لوگوں کا عام گمان تو یہ ہے کہ کسی کو خاطر میں نہیں لاتے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ وہ ہر ایک سے استفادہ کرکے جہاں سے جو بات حق ملتی ہے چاہے وہ فرعی مسئلہ ہو یا اصولی اس کو لے لیتے ہیں ۔
2: امرئۃ مفقود کا مسئلہ یہ ہے کہ اگر کوئی شخص غائب ہو جائے تو اس کی بیوی کتنے عرصے تک اس کے انتظار میں بیٹھی رہے گی؟ امام مالک رح کے نزدیک چار سال تک اور احناف کے نزدیک اتنی مدت جس میں اس جیسا بندہ عموما فوت ہو جاتا ہے اور اس کی کم از کم مدت نوے سال ہے۔ ماضی میں تو یہ مسئلہ آسانی سے عمل میں آ سکتا تھا لیکن جنگ عظیم کے موقع پر جب کثیر تعداد میں مسلمان مفقود ہوئے اور ان کی بیویوں نے فتاوی مانگنا شروع کیے تو ظاہر تھا کہ اتنی ساری عورتیں بغیر شادی کے کتنے دن گزار سکتی ہیں۔ اس لیے امام مدینہ رح کے قول پر فتوی دیا گیا۔ اس کی تفصیل ایک کتاب میں موجود بھی ہے لیکن مجھے اس کتاب کا نام یاد نہیں۔
غالبا آپ کی مراد مولانا اشرف علی تھانوی صاحب کی کتاب ’’ الحیلۃ الناجزۃ للحلیلۃ العاجزۃ ‘‘ سے ہے ۔
اب سوال یہ ہے کہ اگر کوئی صلاحیت کے باوجود پہلے سے تخریج شدہ مسائل پر فقہاء کے فہم پر اعتماد کرتے ہوئے فتوی دیتا ہے تو آپ اس کے بارے میں کیا کہتے ہیں؟؟؟
جو قرآن وسنت سے مسئلہ معلوم کرنے کی صلاحیت بھی رکھتا ہے پھر بھی ادھر ادھر سے دیکھ کر جواب دے دیتا ہے ۔۔ ظاہر ہے اس کو سستی ہی کہہ سکتے ہیں اور کیا کہیں گے ۔
خاص طور پر مفتی کا منصب یہ تقاضا کرتا ہے کہ وہ کسی بھی مسئلہ میں حکم بتانے کےلیے حتی الوسع حق جاننے کی کوشش کے بعد ہی فتوی دے ۔
حق تلاش کرنے کی کوشش کرنا ہماری ذمہ داری ہے اس کےبعد معاملہ اللہ پر چھوڑنا چاہیے ۔۔ لا یکلف اللہ نفسا إلا وسعہا