• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اصحاب رسول اور محبت رسول ﷺ

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,562
پوائنٹ
791
اصحاب رسول اور محبت رسول ﷺ

تحریر : عبد السلام جمالی
مجلہ اسوہ حسنہ (دسمبر 2017 )

اصحاب رسول اور محبت رسول ﷺ
عَنْ أَنَسٍ، قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لاَ يُؤْمِنُ أَحَدُكُمْ، حَتَّى أَكُونَ أَحَبَّ إِلَيْهِ مِنْ وَالِدِهِ وَوَلَدِهِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ (صحیح البخاری : 15)
ایک اور جگہ نبیﷺ کا ارشاد گرامی ہے۔
’’لَا يُؤْمِنُ أَحَدُكُمْ حَتَّى أَكُونَ أَحَبَّ إِلَيْهِ مِنْ مَالِهِ، وَأَهْلِهِ، وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ (سنن النسائی : 5014)
قارئین کرام !ہم آپ حضرات کے سامنے رسول اکرم ﷺ کی مذکورہ دو احادیث مبارکہ کی تشریح میںیہ پیش کریں گے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اللہ کے پیارے محبوب ﷺ پر اپنا مال ،بیوی ،بچے ،والدین اور دنیا کی ہرچیز کیسے قربان کی تھی۔

1مال ومتاع اور محبت رسول ﷺ
صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے محبت رسول پر اپنا مال ومتاع قربان کررکھا تھا جس کی متعدد امثال کتب احادیث میں
موجود ہیں جیسا کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ:
أَمَرَنَا رَسُولُ اللہِ -صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ- أَنْ نَتَصَدَّقَ، وَوَافَقَ ذَلِكَ مَالًا عِنْدِي، فَقُلْتُ: الْيَوْمَ أَسْبِقُ أَبَا بَكْرٍ, إِنْ سَبَقْتُهُ يَوْمًا, فَجِئْتُ بِنِصْفِ مَالِي، فَقَالَ لِي رَسُولُ اللہِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "مَا أَبْقَيْتَ لِأَهْلِكَ؟ " قُلْتُ: مِثْلَهُ. وَأَتَى أَبُو بَكْرٍ بِكُلِّ مَا عِنْدَهُ، فَقَالَ لَهُ: "يَا أَبَا بَكْرٍ، مَا أَبْقَيْتَ لِأَهْلِكَ؟! " قَالَ: أَبْقَيْتُ لَهُمُ اللہَ وَرَسُولَهُ. فَقُلْتُ: لَا أُسَابِقُكَ إلى شيء أبدا.
رسول اللہ ﷺ نے ہمیں غزوہ تبوک کے موقع پر صدقہ کا حکم دیا اس وقت میرے پاس مال بھی بہت تھا میں نے سوچا آج اگر میں ابو بکر سے آگے نکل گیا تو سمجھو کہ میں آگے نکل گیا پس میں اپنا آدھا مال لے آیا رسول اللہ ﷺ نے مجھ سے دریافت فرمایا اپنے اہل وعیال کے لیے کیارکھا ہے میں نے عرض کی اتناہی مال اہل وعیال کے لیے رکھا ہے (جتنا لے آیا ہوں ) پھر سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ سامان لائے جو کچھ ان کے پاس تھا رسو ل اللہ ﷺ نے دریافت فرمایا ابو بکر ! اپنے اہل وعیال کےلیے کیا بچایاہے سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے عرض کی اللہ اور اس کے رسول ﷺ (یعنی ان کی محبت) ان کے لیے چھوڑ آیا ہوں تب میں نے سوچاکہ ابو بکر سے کبھی آگے نہیں بڑھ سکتا۔ (سنن الترمذی:3675)

سیدنا صہیب رومی رضی اللہ عنہ ہجرت کےلیے نکلے تو انہیں قریش مکہ نے روک لیا سیدنا صہیب رومی مالدار آدمی تھے انہوں نے پیش کش کی کہ اگر میں اپنا سارا مال یہاں چھوڑ دوں تومجھے جانے دوگے ؟قریش مکہ مان گئے سیدنا صہیب رومی رضی اللہ عنہ نے بلاجھجک سار امال ان کےحوالے کردیا اور خود مدینہ کی راہ لی رسول اللہ ﷺ نے فرمایا صہیب نے نفع کا سودا کیا ۔(فضائل صحابہ کرام از محمد اقبال کیلانی ، صفحہ: 18)
مذکورہ بالا دو روایتوں اور دیگر کئی روایات سے ایسے بیسوں مثالیں ملتی ہیں جن سے واضح ہوتا ہے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اپنا مال ومتاع رسو ل اکرم ﷺ کی ذات پر قربان کر دیتے تھے۔

2محبت رسولﷺ اور بیوی کی قربانی:
بیوی زندگی کا ایک حصہ ہوتی ہے جوخاوند کے لیے ہر موڑ پر مدد گار رہتی ہے عقل مند خاوند اپنی بیوی سے انتہائی زیادہ محبت کرتا ہےاور انکے تمام تر حقوق اداکرتا ہے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اپنی بیویوں سے محبت اور ان کے حقوق ادا کرنے میں بے مثال تھے لیکن انہوں نے محبت رسول اور ذات رسول پر اپنی بیویاں قربان کیں ہیں جن کی کئی مثالیں حیات صحابہ سے مل سکتی ہیں ۔
سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک نابینا تھا اس کی ایک ام ولد (ایسی لونڈی جس سے اس کی اولاد تھی )وہ نبی اکرم ﷺ کو گالیاں دیتی اور برا بھلا کہتی تھی وہ اسے منع کرتا تھا مگر وہ نہیں مانتی وہ اسے ڈانٹتا مگر وہ نہ سمجھتی ایک رات وہ نبی ﷺ کی بد گوئی کرنے اورگالیاں دینے لگی تو اس نابینے نے ایک برچھا لیا اسے اس لونڈی کے پیٹ پر رکھ کر اس پر اپنا سارا بوجھ ڈال دیا اس طرح اسے قتل کردیا اس لونڈی کے پاؤں میں چھوٹا بچہ آگیا اوراس نے اس جگہ کو خون سے لت پت کردیا جب صبح ہوئی تو نبی اکرم ﷺ کو اس قتل سے آگاہ کیا گیا اور لوگ اکھٹے ہوگئے تو آپ ﷺ نے فرمایا
أَنْشُدُ اللہِ رَجُلًا لِي عَلَيْهِ حَقٌّ، فَعَلَ مَا فَعَلَ إِلَّا قَامَ فَأَقْبَلَ الْأَعْمَى يَتَدَلْدَلُ فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَنَا صَاحِبُهَا كَانَتْ أُمَّ وَلَدِي، وَكَانَتْ بِي لَطِيفَةً رَفِيقَةً، وَلِي مِنْهَا ابْنَانِ مِثْلُ اللُّؤْلُؤَتَيْنِ، وَلَكِنَّهَا كَانَتْ تُكْثِرُ الْوَقِيعَةَ فِيكَ وَتَشْتُمُكَ، فَأَنْهَاهَا فَلَا تَنْتَهِي، وَأَزْجُرُهَا فَلَا تَنْزَجِرُ، فَلَمَّا كَانَتِ الْبَارِحَةُ ذَكَرَتْكَ فَوَقَعَتْ فِيكَ، فَقُمْتُ إِلَى الْمِغْوَلِ فَوَضَعْتُهُ فِي بَطْنِهَا، فَاتَّكَأْتُ عَلَيْهَا حَتَّى قَتَلْتُهَا، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَلَا اشْهَدُوا أَنَّ دَمَهَا هَدَرٌ (سنن النسائی4070)
’’میں اس آدمی کو اللہ کی قسم دیتا ہوںجس نے یہ کاروائی کی ہے اور میر احق ہے کہ اس پر کھڑاہوجائے تو نابینا صحابی کھڑا ہوگیا اور لوگوں کی گردنیں پھلانگتا ہوا آیا اس کے قدم لرز رہے تھے حتی کہ نبی اکرم ﷺ کے سامنے آبیٹھا او ر بولا اے اللہ کے رسول ﷺ ! میں اس کا قاتل ہوں یہ آپ کو گالیاں بکتی او ربرا بھلا کہتی تھی میں اس کو منع کرتا مگر باز نہ آتی میں اسے ڈانٹتا مگر وہ نہ سمجھتی اس سےمیرے دو بچے بھی ہیں اور وہ میرا بڑا ساتھ دینے والی تھی گزشتہ رات جب وہ آپ کو گالیاں دینے لگی اور برابھلا کہنےلگی تو میں نےچھر الیا اور اسے اس کے پیٹ پر رکھا اور اس پر اپنا بوجھ ڈال دیا حتی کہ اسے قتل کر ڈالا ۔‘‘تو نبی اکرمﷺ نے فرمایا:کہ خبر دار ! گواہ ہوجاؤ ! اس لونڈی کا خون ضائع ہے ‘‘۔یعنی اس پر دیت نہیں ہے یہ بالکل جائز ہے ۔
سیدنا حمزہ بن عبداللہ بن عمر اپنے والد سے بیان کرتے ہیں کہ انہوں نےکہا
كَانَتْ تَحْتِي امْرَأَةٌ وَكُنْتُ أُحِبُّهَا وَكَانَ عُمَرُ يَكْرَهُهَا فَقَالَ: لِي طَلِّقْهَا فَأَبَيْتُ فَأَتَى عُمَرُ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَذَكَرَ ذَلِكَ لَهُ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:طَلِّقْهَا (سنن ابی داؤد5138)
میری ایک بیوی تھی جس سے میں بہت محبت کرتا تھا جبکہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ اسے پسند نہیں کرتے تھےتو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا اسے طلاق دے دو ،میں نے انکار کردیا ،انہوں نے نبی اکرمﷺ سے اس بات کاتذکرہ کیا تو آپ ﷺ نے فرمایا :اپنے والد کی اطاعت کرو اوراسے طلاق دے دو ۔
حکم رسول ﷺ پر سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نے اپنی اس بیوی کو طلاق دے دی تھی جس سے انتہائی محبت کیا کرتےتھے ۔

3محبت رسول ﷺ اور باپ کی قربانی:
صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین والدین کی فرمانبرداری میںانتہائی بے مثال تھے لیکن باپ کی ذات پر محبت رسول ﷺ کو ترجیح دیتے تھے حتی کہ محبت رسول ﷺ میں اپنے والدین کو قربان کرنے میں کوئی حرج محسوس نہیں کرتے تھے بلکہ وہ اپنے لیے فخر سمجھتے کہ ہمارے ہاتھوں سے گستاخ رسول ﷺکا قتل ہوچاہے سگا باپ ہی کیوں نہ ہو ۔غزوہ بدر میں سیدنا ابو عبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہ بے خوف و خطر دشمنوں کی صفوں کو چیرتے ہوئے آگےبڑھتے جارہے تھے آپ کی حالت کو دیکھ کر دشمن کی صفوں میں بھگدڑ مچ گئی جونہی آپ کسی شہسوار کے سامنے آتے وہ گھبرا کر طرح دے جاتا لیکن ان میں سے ایک شخص ایسا تھا جو آپ کے سامنے اکڑ کر کھڑ اہوگیا اور تلوار کا وار کرنے کی کوشش کی لیکن آپ نے پہلو تہی اختیار کی وہ شخص آپ کے مقابلےکےلیے بار با ر سامنے آتارہا لیکن آپ مسلسل طرح کردیتےرہے لڑائی کے دوران ایک مرحلہ ایسا آیا کہ اس شخص نےآپ کو گھیرے میں لے لیا جب سیدنا ابو عبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہ کےلیے تمام راستے بند ہوگئے تو آپ نے مجبور ہو کر اس کے سر پر تلوار کا ایسا زور دار وار کیا جس سےاسکے سر کے دو حصے ہوگئے اور آپ کے قدموںمیں ڈھیر ہوگیا یہ دیکھ کر دنیا آنگشت بدنداں رہ گئی کہ سیدنا ابو عبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہ کے ہاتھوں سے ٹکڑے ٹکڑے ہونے والا شخص انکا باپ تھا ۔آپ کا یہ کار نامہ اللہ تعالی کو اتنا پسند آیا کہ آپ کی شان میں قرآن نازل فرمایا کہ
لَا تَجِدُ قَوْمًا يُّؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِ وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِ يُوَاۗدُّوْنَ مَنْ حَاۗدَّ اللّٰهَ وَرَسُوْلَهٗ وَلَوْ كَانُوْٓا اٰبَاۗءَهُمْ اَوْ اَبْنَاۗءَهُمْ اَوْ اِخْوَانَهُمْ اَوْ عَشِيْرَتَهُمْ اُولٰۗىِٕكَ كَتَبَ فِيْ قُلُوْبِهِمُ الْاِيْمَانَ وَاَيَّدَهُمْ بِرُوْحٍ مِّنْهُ وَيُدْخِلُهُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِيْ مِنْ تَحْتِهَا الْاَنْهٰرُ خٰلِدِيْنَ فِيْهَا رَضِيَ اللّٰهُ عَنْهُمْ وَرَضُوْا عَنْهُ اُولٰۗىِٕكَ حِزْبُ اللّٰهِ اَلَآ اِنَّ حِزْبَ اللّٰهِ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ (المجادلۃ : 22)
جو لوگ اللہ اور آخرت کے دن پر یقین رکھتے ہیں ۔ آپ کبھی انہیں ایسا نہ پائیں گے کہ وہ ایسے لوگوں سے دوستی لگائیں جو اللہ اور اس کے رسول کی مخالفت کرتے ہوں، خواہ وہ ان کے باپ ہوں یا بیٹے ،بھائی ہوں یا کنبہ والے یہی لوگ ہیں جن کے دلوں میں اللہ نے ایمان ثبت کردیا ہے اور اپنی طرف سے ایک روح کے ذریعہ انہیں قوت بخشی ہے۔ اللہ انہیں ایسے باغوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں بہ رہی ہوں گی۔ وہ ان میں ہمیشہ رہیں گے۔ اللہ ان سے راضی ہوگیا اور وہ اس سے راضی ہوئے یہی اللہ کی پارٹی ہے۔ سن لو! اللہ کی پارٹی کے لوگ ہی فلاح پانے والے ہیں ۔ (الطبرانی فی الکبیر 360 الاصابہ ص476ج 4)

اور اسی طرح سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ہم غزوہ بنوالمصطلق میں تھے ایک مہاجر نےایک انصاری کو تھپڑ مار امہاجر نے دیگر مہاجر کو مدد کے لیے پکارا اے مہاجرو مدد کرو اور انصاری نے انصار کی مدد کے لیے پکارا نبی اکرم ﷺ نے چیخ و پکار سنی تو فرمایا یہ زمانہ جاہلیت کی طرح ،کیسی چیخ وپکار ہے لوگوںنے بتایا کہ ایک مہاجر نے ایک انصاری کو تھپڑ ماردیاتھا تو نبی اکرم ﷺ نے فرمایا چھوڑو یہ بہت برافعل ہے عبداللہ بن ابی نے یہ واقعہ سنا تو انہوں نے کہا کیا واقعی مہاجر نے ایسا کیا ہے اب اگر مدینہ پہنچے تو وہاں سے عزت والا ذلت والے کو نکال دے گا ۔اللہ تعالی نے قرآن مجید میں اس کا تذکرہ کچھ یوں فرمایا ہے کہ
يَقُوْلُوْنَ لَىِٕنْ رَّجَعْنَآ اِلَى الْمَدِيْنَةِ لَيُخْرِجَنَّ الْاَعَزُّ مِنْهَا الْاَذَلَّ وَلِلّٰهِ الْعِزَّةُ وَلِرَسُوْلِهٖ وَلِلْمُؤْمِنِيْنَ وَلٰكِنَّ الْمُنٰفِقِيْنَ لَا يَعْلَمُوْنَ
یہ کہتے ہیں کہ اگر ہم اب لوٹ کر مدینے جائیں گے تو عزت والا وہاں سے ذلت والے کو نکال دے گا سنو! عزت تو صرف اللہ اور اس کے رسول اور ایمانداروں کے لئے ہے لیکن یہ منافق جانتے نہیں ۔
جب سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نےایسی بات سنی تو اجازت چاہی اور کہا اے اللہ کےرسول ﷺ !مجھے اجازت دیجیے میں اس منافق کی گردن اڑادوں گا نبی اکرم ﷺ نے فرمایا اسے چھوڑ دو لو گ کہیںگے کہ محمد ﷺ اپنے ساتھیوں کو ہی قتل کرتا ہے ۔
ایک دوسری روایت میں ہے عبدا للہ بن ابی کے بیٹے عبد اللہ رضی اللہ عنہ جو سچے اور کامل مومن تھے جب خبر ملی تو رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا اے اللہ کے رسول ﷺ مجھے خبر ملی ہے۔نیز فرمایا اے اللہ کے رسول ﷺ آپ جانتے ہیں سارے مدینے میں ،میں واحد انسان ہوں جو اپنےباپ کا احترام سب سے زیادہ کرتاہوں یہ بھی کہ میں اپنے باپ کے رعب و دبدے کو برداشت کرتاہوں اس قدر کہ میں کبھی باپ کی نظروں سے نظریں نہیں ملائی لیکن پھر بھی میری عقیدت و محبت کا امتحان آیا ہے تو دیکھیں :
’’رہا آپ کا معاملہ تو آپ مجھے حکم کریں میں اپنے باپ کی گردن کاٹ کر آپ کے سامنے رکھ دوں۔
اور سیرت ابن ہشام کی روایت میں ہے :
عبداللہ رضی اللہ عنہ نبی اکرم ﷺکے پاس آئے کہ مجھے خبر ملی ہے کہ آپ کا ارادہ میرے باپ کو قتل کرنے کا ہے(کیونکہ انہوں نےآپ کی گستاخی کی ہے )اگر آپ کا خیال ایسا ہے تو پھر مجھے حکم دیجیےمیں اپنے باپ کا سر قلم کر کے آپ کے قدموں میں لادوں گا اور مجھے خدشہ ہے کہ آپ کسی اور کو میرے باپ کےقتل کاحکم دے دیں(جس سےمیری حمیت جاگ جائے گی )نبی کریم ﷺ نے فرمایا : ’’عبد اللہ اپنے باپ کو قتل نہیں کر نا ‘‘ لیکن عقیدت اور محبت کےاس سپوت کا غصہ ٹھنڈا نہ ہو ا اور کافلے کا راستہ کاٹتے ہوئے مدینہ کے باہراس راستے پرجا کھڑا ہوا ،جہاںسے ہر ایک کا گزر ہو نا تھا ۔لوگ گزرنےلگے جب اس کا باپ عبداللہ بن ابی آیا ،تو اس نے تلوار کو میان سے نکال لیا اور کہنے لگے:
واللہ لا تدخل المدینۃ حتی یأذن لک رسول اللہ
’’تم اس وقت تک مدینہ میں داخل نہیں ہو سکتے ،جب تک رسول اللہ ﷺ اجازت نہ دیں‘‘۔
اور تم اس بات کا اقرار کر لو کہ رسول اللہ ﷺ عزت والے ہیں اور تو ذلت والا ہے پھر رسول اللہ ﷺ تشریف لے آئے توآپ ﷺ نے فرمایا :’’اے عبداللہ !اپنے باپ کو معاف کردے اور اسے جانے دے‘‘۔(صحیح بخاری کتاب التفسیر باب تفسیر سورۃ المنافقین:جلد نمبر 6/191 ،مسلم 2525)
4محبت رسول ﷺ اور بیٹے کی قربانی :
بیٹا اللہ رب العزت کی طرف سے ایک انتہائی بڑی نعمت ہو تی ہے اور انسان فطری طور پر بیٹے سے انتہائی محبت کرتا ہے لیکن صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے محبت رسولﷺ پر بیٹے کی محبت قربان کر دی تھی حب رسول ﷺ پر اپنے کتنے ہی ننےمنے پیارے سے بیٹوں کی قربانیا ں دی ہیں جنگ احد میں ہند بنت عمرو بن حزام (یہ سیدنا جابر رضی اللہ عنہ کی پھوپھی ہیں) کے بھائی عبداللہ بن عمرو ،خاوند عمرو بن جموح اور بیٹے خالد بن عمرو شامل تھے ،جب جنگ احد کےحالات ناسازگار کی خبر مدینہ پہنچی اور یہ افواہ اڑگئی کہ محمد ﷺ شہید کر دئے گئے ہیں ،تو یہ عورت دیوانہ وار آتی ہے او ر میدان احد میں رسول اللہ ﷺ کو تلاش کرتی ہے کسی نے اسے کہا:کہ تمہارا بچہ شہید ہو گیا ،تو وہ کہتی ہے کہ بچے کی بات چھوڑو ، رسول اللہ ﷺ کی بات کرو ،آگےبڑھتی ہے پھر اسے کوئی کہتا ہے کہ تمہار اخاوند اور بھائی بھی شہید ہوگئے ہیں ،لیکن وہ کسی چیز کی طرف متوجہ نہیں ہوتی اور نہ ہی توجہ دیتی ہیں پس محبت رسول ﷺ میں ہر چیز ،رشتہ نظر انداز کردیتی ہے پھر جب رسول اللہﷺ کو دیکھا تو کہنےلگی :
کل مصیبۃ بعدک جلل (البدایہ والنہایۃ :جلد نمبر 4 ص 47)
آپ کے بعد ہر مصیبت ہلکی ہے ۔
سیدناابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کا بیٹا ان سے کہتا ہے کہ ابو جی میدان کارزار میں آپ بار بارمیری تلوار کے نیچے آرہے تھے، لیکن میں نے باپ سمجھ کر چھوڑ دیا تھا ،تو ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ بیٹا ! اگر تم میری تلوار کےنیچے آجاتے تو میں آپ کو دشمن رسول ْﷺ سمجھ کر تیری زندگی کا خاتمہ کردیتا،کیونکہ نبی اکرم ﷺ کی محبت کے سامنے دنیا کی کوئی محبت آڑے نہیں آسکتی۔ (مستدرک حاکم :3/475)
اللہ اکبر! ہند بنت عمرو رضی اللہ عنہا کا یہ عالم کہ بیٹے کو حب رسول ﷺ پر قربان کردیا اور پتہ چلنے پر کہتی ہیں کہ بیٹے کو چھوڑو رسول اللہ ﷺ کی خبر دو اور یہاں صدیق اکبر کا کہنا ہے کہ بیٹا! اگر آپ دوران جنگ میری تلوار کے نیچے آئے تو میں آپکی گردن دشمن نبو یﷺ سمجھ کر اڑادیتا ۔
5محبت رسول ﷺ اور دنیا کی ہر چیز:
تمہیدی کلمات پر لکھی گئی دونوں احادیث رسول ﷺ کے آخر میں تکمیل ایمان کے لیے یہ شرط بیان کی گئی ہے کہ محبت رسولﷺ پر دنیا کی ہر چیز قربان کی جائےیقینا ً صحابہ کرام رضوا ن اللہ علیہم اجمعین نے دنیا کی ہر چیز سے زیادہ رسول اللہ ﷺ سے محبت کی ہے اور دنیا کی ہر چیز رسول اللہ ﷺ پر قربان کردی تھی ۔صحابہ کرام کے اس کامل ایمان کی گواہی لا ریب کتاب قرآن حکیم نے یوں دی ہے کہ
لَا تَجِدُ قَوْمًا يُّؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِ وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِ يُوَاۗدُّوْنَ مَنْ حَاۗدَّ اللّٰهَ وَرَسُوْلَهٗ وَلَوْ كَانُوْٓا اٰبَاۗءَهُمْ اَوْ اَبْنَاۗءَهُمْ اَوْ اِخْوَانَهُمْ اَوْ عَشِيْرَتَهُمْ اُولٰۗىِٕكَ كَتَبَ فِيْ قُلُوْبِهِمُ الْاِيْمَانَ وَاَيَّدَهُمْ بِرُوْحٍ مِّنْهُ وَيُدْخِلُهُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِيْ مِنْ تَحْتِهَا الْاَنْهٰرُ خٰلِدِيْنَ فِيْهَا رَضِيَ اللّٰهُ عَنْهُمْ وَرَضُوْا عَنْهُ اُولٰۗىِٕكَ حِزْبُ اللّٰهِ اَلَآ اِنَّ حِزْبَ اللّٰهِ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ (المجادلۃ : 22)
جو لوگ اللہ اور آخرت کے دن پر یقین رکھتے ہیں ۔ آپ کبھی انہیں ایسا نہ پائیں گے کہ وہ ایسے لوگوں سے دوستی لگائیں جو اللہ اور اس کے رسول کی مخالفت کرتے ہوں، خواہ وہ ان کے باپ ہوں یا بیٹے ،بھائی ہوں یا کنبہ والے یہی لوگ ہیں جن کے دلوں میں اللہ نے ایمان ثبت کردیا ہے اور اپنی طرف سے ایک روح کے ذریعہ انہیں قوت بخشی ہے۔ اللہ انہیں ایسے باغوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں بہ رہی ہوں گی۔ وہ ان میں ہمیشہ رہیں گے۔ اللہ ان سے راضی ہوگیا اور وہ اس سے راضی ہوئے یہی اللہ کی پارٹی ہے۔ سن لو! اللہ کی پارٹی کے لوگ ہی فلاح پانے والے ہیں ۔

صحابہ کرام ساری کائنات سے بڑھ کر رسول کریم ﷺ سے محبت رکھتے تھے اور محبت رسول ﷺ پر دنیا کے ہر شخص کو قربان کر رکھتے اس کی ان گنت مثالیں ہیں جیسا کہ جنگ احدمیں سیدہ ہند کا واقعہ ملاحظہ فرما چکے ہیں اور اسی طرح بدر کے قیدیوں کے متعلق سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے اپنی محبت رسول اللہ ﷺ کا اظہار کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ اے اللہ کے رسولﷺ ان قیدیوں کو ہراس مسلمان کے حوالے کیا جائے جو اس کا عزیز ہے اور وہ اپنے ہاتھ سے اس کو قتل کر دے تاکہ دنیا کو اس کی خبر ہوکہ محبت رسول میں محمد ﷺ کے چاہنے والے ہر چیز کو قربان کر دیتے ہیں ۔
آخر میں اللہ تعالیٰ سے دعا گو ہوں کہ اللہ تعالیٰ ہمیں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی طرح رسول اللہ ﷺ سے دنیا کی ہر چیز سے زیادہ محبت کرنے کی توفیق بخشے۔ آمین
 
شمولیت
اگست 04، 2020
پیغامات
19
ری ایکشن اسکور
1
پوائنٹ
31
کیا یے آیت سارے صحابہ پے ایک ہی اسکیل کےساتھ نوازی گئی تھی ؟ ؟ اور کیا سورۃ المجادلہ کی یے آیات مدینہ میں سن پانچ ھجری میں نازل نہیں ہوئی تھی ؟ میں اس فورم پے جب بھی کچھ سوال پوچھتا ہوں تو کمال ہوشیاری کے ساتھ مجھے بلاک کیا جاتا ہے ، دل بے ایمان تے حجتاں ڈھیر ! جب اللہ ﷻ اور اس کے رسول اللہ ﷺ نے ایک اسکیل نہیں رکھا تو آپ یا میں کون ہوتے ہیں سب کو ایک ہی ترازو میں تولنے والے ؟ اسی لیئے تو لوگ ہمیں ناصبی کہتے ہیں

۵۸:۲۲


لَا تَجِدُ قَوْمًا يُّؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِ وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِ يُوَاۗدُّوْنَ مَنْ حَاۗدَّ اللّٰهَ وَرَسُوْلَهٗ وَلَوْ كَانُوْٓا اٰبَاۗءَهُمْ اَوْ اَبْنَاۗءَهُمْ اَوْ اِخْوَانَهُمْ اَوْ عَشِيْرَتَهُمْ ۭ اُولٰۗىِٕكَ كَتَبَ فِيْ قُلُوْبِهِمُ الْاِيْمَانَ وَاَيَّدَهُمْ بِرُوْحٍ مِّنْهُ ۭ وَيُدْخِلُهُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِيْ مِنْ تَحْتِهَا الْاَنْهٰرُ خٰلِدِيْنَ فِيْهَا ۭ رَضِيَ اللّٰهُ عَنْهُمْ وَرَضُوْا عَنْهُ ۭ اُولٰۗىِٕكَ حِزْبُ اللّٰهِ ۭ اَلَآ اِنَّ حِزْبَ اللّٰهِ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ

تم کبھی یہ نہ پائو گے کہ جو لوگ اللہ اور آخرت پر ایمان رکھنے والے ہیںوہ اُن لوگوں سے محبت کرتے ہوں جنہوں نے اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی مخالفت کی ہے ، خواہ وہ ان کے باپ ہوں ، یا اُن کے بیٹے ، یا اُن کے بھائی یا ان کے اہلِ خاندان ۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کے دلوں میں اللہ نے ایمان ثبت کر دیا ہے اور اپنی طرف سے ایک رُوح عطا کر کے اُن کو قوت بخشی ہے۔ وہ اُن کو ایسی جنّتوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی۔ اِن میں وہ ہمیشہ رہیں گے۔ اللہ اُن سے راضی ہوا ، اور وہ اللہ سے راضی ہوئے۔ وہ اللہ کی پارٹی کے لوگ ہیں۔ خبردار ر ہو اللہ کی پارٹی والے ہی فلاح پانے والے ہیں۔


اس آیت میں دو باتیں ارشاد ہوئی ہیں۔ ایک بات اصولی ہے، اور دوسری امر واقعی کا بیان۔ اصولی بات یہ فرمائی گئی ہے کہ دین حق پر ایمان اور اعدائے دین کی محبت، دو بالکل متضاد چیزیں ہیں جن کا ایک جگہ اجتماع کسی طرح قابل تصور نہیں ہے۔ یہ بات قطعی ناممکن ہے کہ ایمان اور دشمنان خدا و رسول کی محبت ایک دل میں جمع ہو جائیں، بالکل اسی طرح جیسے ایک آدمی کے دل میں اپنی ذات کی محبت اور اپنے دشمن کی محبت بیک وقت جمع نہیں ہو سکتی۔ لہٰذا اگر تم کسی شخص کو دیکھو کہ وہ ایمان کا دعویٰ بھی کرتا ہے اور ساتھ ساتھ اس نے ایسے لوگوں سے محبت کا رشتہ بھی جوڑ رکھا ہے جو اسلام کے مخالف ہیں تو یہ غلط فہمی تمہیں ہر گز لاحق نہ ہونی چاہیے کہ شاید وہ اپنی اس روش کے باوجود ایمان کے دعوے میں سچا ہو۔ اسی طرح جن لوگوں نے اسلام اور مخالفین اسلام سے بیک وقت رشتہ جوڑ رکھا ہے وہ خود بھی اپنی پوزیشن پر اچھی طرح غور کر لیں کہ وہ جر الواقع کیا ہیں، مومن ہیں یا منافق؟ اور جی الواقع کیا ہونا چاہتے ہیں، مومن بن کر رہنا چاہتے ہیں یا منافق؟ اگر ان کے اندر کچھ بھی راستبازی موجود ہے، اور وہ کچھ بھی یہ احساس اپنے اندر رکھتے ہیں کہ اخلاقی حیثیت سے منافقت انسان کے لیے ذلیل ترین رویہ ہے، تو انہیں بیک وقت دو کشتیوں میں سوار ہونے کی کوشش چھوڑ دینی چاہیے۔ ایمان تو ان سے دو ٹوک فیصلہ چاہتا ہے۔ مومن رہنا چاہتے ہیں تو ہر اس رشتے اور تعلق کو قربان کر دیں جو اسلام کے ساتھ ان کے تعلق سے متصادم ہوتا ہو۔ اسلام کے رشتے سے کسی اور رشتے کو عزیز تر رکھتے ہیں تو بہتر ہے کہ ایمان کا جھوٹا دعویٰ چھوڑ دیں۔
یہ تو ہے اصولی بات۔ مگر اللہ تعالیٰ نے یہاں صرف اصول بیان کرنے پر اکتفا نہیں فرمایا ہے بلکہ اس امر واقعی کو بھی مدعیان ایمان کے سامنے نمونے کے طور پر پیش فرما دیا ہے کہ جو لوگ سچے مومن تھے انہوں نے فی الواقع سب کی آنکھوں کے سامنے تمام ان رشتوں کو کاٹ پھینکا جو اللہ کے دین کے ساتھ ان کے تعلق میں حائل ہوئے۔ یہ ایک ایسا واقعہ تھا جو بدر و احد کے معرکوں میں سارا عرب دیکھ چکا تھا۔ مکہ سے جو صحابہ کرام ہجرت کر کے آئے تھے وہ صرف خدا اور اس کے دین کی خاطر خود اپنے قبیلے اور اپنے قریب ترین رشتہ داروں سے لڑ گئے تھے۔ حضرت ابو عبیدہ نے اپنے باپ عبداللہ بن جراح کو قتل کیا۔ حضرت مصعب بن عمیر نے اپنے بھائی عبید بن عمیر کو قتل کیا۔ حضرت عمرؓ نے اپنے ماموں عاص بن ہشام بن مغیرہ کو قتل کیا۔ حضرت ابو بکر اپنے بیٹے عبدالرحمان سے لڑنے کے لیے تیار ہو گئے۔حضرت علی، حضرت حمزہ اور حضرت عبیدہ بن الحارث نے تربہ، شیبہ اور ولید بن عتبہ کو قتل کیا جو ان کے قریبی رشتہ دار تھے۔ حضرت عمرؓ نے اسیران جنگ بدر کے معاملہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے عرض کیا کہ ان سب کو قتل کر دیا جائے اور ہم میں سے ہر ایک اپنے رشتہ دار کو قتل کرے۔ اسی جنگ بدر میں حضرت مصعب بن عمیر کے سگے بھائی ابو عزیز بن عمیر کو ایک انصاری پکڑ کر باندھ رہا تھا۔ حضرت مصعب نے دیکھا تو پکار کر کہا ’’ ذرا مضبوط باندھنا، اس کی ماں بڑی مالدار ہے، اس کی رہائی کے لیے وہ تمہیں بہت سا فدیہ دے گی’‘۔ ابوعزیز نے کہا ’’ تم بھائی ہو کر یہ بات کہہ رہے ہو؟ ’’ حضرت مصعب نے جواب دیا ’’ اس وقت تم میرے بھائی نہیں ہو بلکہ یہ انصاری میرا بھائی ہے جو تمہیں گرفتار کر رہا ہے ‘‘۔ اسی جنگ بدر میں خود نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے داماد ابو العاص گرفتار ہو کر آئے اور ان کے ساتھ رسول کی دامادی کی بنا پر قطعاً کوئی امتیازی سلوک نہ کیا گیا جو دوسرے قیدیوں سے کچھ بھی مختلف ہوتا۔ اس طرح عالم واقعہ میں دنیا کو یہ دکھا یا جا چکا تھا کہ مخلص مسلمان کیسے ہوتے ہیں اور اللہ اور اس کے دین کے ساتھ ان کا تعلق کیس ہوا کرتا ہے۔

دیلَمی نے حضرت معاذ کی روایت سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی یہ دعا نقل کی ہے کہ : اللحم لا تجعل لفا جر (وفی روایۃٍ لفاسق)عَلَیَّ یداً ولا نعمۃ فیودہٗ قلبی فانی وجدت فیما اوحیت اِلیّ لا تَجِدُ قَوْماً یُّؤْ مِنُوْنَ بِاللہِ وَلْیَوْمِالْاٰخِرِ یُوَآدُّ وْ نَ مَنْ حَآ دَّ اللہَ وَرَسُوْلَہٗ۔ ’’ خدایا،کسی فاجر(اور ایک روایت میں فاسق) کا میرے اوپر کوئی احسان نہ ہونے دے کہ میرے دل میں اس کے لیے کوئی محبت پیدا ہو۔ کیونکہ تیری نازل کردہ وحی میں یہ بات بھی میں نے پائی ہے کہ اللہ اور یوم آخر پر ایمان رکھنے والوں کو تم اللہ اور رسول کے مخالفوں سے محبت کرتے نہ پاؤ گے۔‘‘


الحدید ، آیہ ۱۰

وَمَا لَكُمْ اَلَّا تُنْفِقُوْا فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ وَلِلّٰهِ مِيْرَاثُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ۭ لَا يَسْتَوِيْ مِنْكُمْ مَّنْ اَنْفَقَ مِنْ قَبْلِ الْفَتْحِ وَقٰتَلَ ۭ اُولٰۗىِٕكَ اَعْظَمُ دَرَجَةً مِّنَ الَّذِيْنَ اَنْفَقُوْا مِنْۢ بَعْدُ وَقٰتَلُوْا ۭ وَكُلًّا وَّعَدَ اللّٰهُ الْحُسْنٰى ۭ وَاللّٰهُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِيْرٌ


آخر کیا وجہ ہے کہ تم اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے حالانکہ زمین اور آسمانوں کی میراث اللہ ہی کے لیے ہے۔تم میں سے جو لوگ فتح کے بعد خرچ اور جہاد کریں گے وہ کبھی اُن لوگوں کے برابر نہیں ہو سکتے جنہوں نے فتح سے پہلے خرچ اور جہاد کیا ہے۔اُن کا درجہ بعد میں خرچ اور جہاد کرنے والوں سے بڑھ کر رہے اگرچہ اللہ نے دونوں ہی سے اچھے وعدے فرمائے ہیں۔اور جو کچھ تم کرتے ہو اللہ اس سے باخبر ہے۔


یعنی اجر کے مستحق تو دونوں ہی ہیں ، لیکن ایک گروہ کا رتبہ دوسرے گروہ سے لازماً بلند تر ہے ، کیونکہ اس نے زیادہ سخت حالات میں اللہ تعالیٰ کی خاطر وہ خطرات مول لیے جو دوسرے گروہ کو در پیش نہ تھے ۔ اس نے ایسی حالت میں مال خرچ کیا جب دور دور کہیں یہ امکان نظر نہ آتا تھا کہ کبھی فتوحات سے اس خرچ کی تلافی ہو جائے گی، اور اس نے ایسے نازک دور میں کفار سے جنگ کی جب ہر وقت یہ اندیشہ تھا کہ دشمن غالب آ کر اسلام کا نام لینے والوں کو پیس ڈالیں گے ۔ مفسرین میں سے مجاہد، قَتَادہ اور زید بن اسلم کہتے ہیں کہ اس آیت میں جس چیز کے لیے لفظ ’’ فتح‘‘ استعمال کیا گیا ہے اس کا اطلاق فتح مکہ پر ہوتا ہے ، اور عامر شعبی کہتے ہیں کہ اس سے مراد صلح حدیبیہ ہے ۔ پہلے قول کو اکثر مفسرین نے اختیار کیا ہے ، اور دوسرے قول کی تائید میں حضرت ابو سعید خدری کی یہ روایت پیش کی جاتی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ہم سے صلح حدیبیہ کے زمانہ میں فرمایا، عنقریب ایسے لوگ آنے والے ہیں جن کے اعمال کو دیکھ کر تم لوگ اپنے اعمال کو حقیر سمجھو گے ، مگر لو کان لا حد ھم جبل من ذھب فانفقہ ما ادرک مد احد کم ولا نصیفہ۔ ’’ ان میں سے کسی کے پاس پہاڑ برابر بھی سونا ہو اور وہ سارا کا سارا خدا کی راہ میں خرچ کر دے تو وہ تمہارے دور طل بلکہ ایک رطل خرچ کرنے کے برابر بھی نہ پہنچ سکے گا‘‘ (ان جریر، ابن ابی حاتم، ابن مردویہ، ابو تعیم اصفہانی)۔ نیز اس کی تائید اس حدیث سے بھی ہوتی ہے جو امام احمدؒ نے حضرت انسؓ سے نقل کی ہے ۔ وہ فرمانے ہیں کہ ایک مرتبہ حضرت خالدؓ بن ولید اور حضرت عبد الرحمٰنؓ بن عوف کے درمیان جھگڑا ہو گیا۔ دوسران نزاع میں حضرت خالد نے حضرت عبد الرحمٰنؓ سے کہا ’’ تم لوگ اپنی پچھلی خدامت کی بنا پر ہم سے دوں کی لیتے ہو‘‘۔ یہ بات جب نبی صلی اللہ علیہ و سلم تک پہنچی تو آپؐ نے فرمایا ’’ اس خدا کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ، اگر تم لوگ احد کے برابر، یا پہاڑوں کے برابر سونا بھی خرچ کرو تو ان لوگوں کے اعمال کو نہ پہنچ سکو گے ’‘۔ اس سے استدلال کیا جاتا ہے کہ اس آیت میں فتح سے مراد صلح حدیبیہ ہے ، کیونکہ حضرت خالدؓ اسی صلح کے بعد ایمان لائے تھا اور فتح مکہ میں شریک تھے ۔ لیکن اس خاص موقع پر فتح سے مراد خواہ صلح حدیبیہ لی جائے یا فتح مکہ، بہر حال اس آیت کا مطلب یہ نہیں ہے کہ درجات کا یہ فرق بس اسی ایک فتح پر ختم ہو گیا ہے ۔ بلکہ اصولاً اس سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ جب کبھی اسلام پر ایسا کوئی وقت آ جائے جس میں کفر اور کفار کا پلڑا بہت بھاری ہو اور بظاہر اسلام کے غلبہ کے آثار دور دور کہیں نظر نہ آتے ہوں ، اس وقت جو لوگ اسلام کی حمایت میں جانیں لڑائیں اور مال خرچ کریں ان کے مرتبے کو وہ لوگ نہیں پہنچ سکتے جو کفر و اسلام کی کشمکش کا فیصلہ اسلام کے حق میں ہو جانے کے بعد قربانیاں دیں ۔

حدیث "میرے صحابہ کو برا مت کہو "

حدیث "میرے صحابہ کو برا مت کہو " کو بھی آپ ساروں ایک ہی اسکیل پے کیوں رکھتے ہیں ؟ جب کہ ہم سب ک پتہ ہے کہ یے نبیﷺ نے حضرت خالدبن ولید ؓ کو جھڑک کےبولا تھا ،جب انہوں نے حضرت عبدالرحمٰن بن عوف ؓ کے ساتھ گالم گلوچ کی تھی رسول اللہ ﷺ ا بتائے ہوئے اسکیل کے مطابق تو بعد کے کروڑوں بھی حضرتعبدالرحمٰن بن عوف ؓ کے برابر نہیں ،کیونکہ کہاں ایک مُد گندم کا صدقہ اور کہاں ساڑھے چار کلو میٹر کے رقبے پے پھیلے ہوئے احد پہاڑ کےبرابر سونا !!!اب کریں کیلکیولیٹ


‏‏‏‏ سیدنا ابوسعید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ سیدنا خالد بن ولید اور سیدنا عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہم میں کچھ جھگڑا ہو ا تو سیدنا خالد رضی اللہ عنہ نے ان کو برا کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مت برا کہو میرے اصحاب میں سے کسی کو اس لیے کہ اگر کو ئی تم میں سے احد پہاڑ کے برابر سونا صرف کرے تو ان کے مد یا آدھے مد کے برابر نہیں ہو سکتا۔“

حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا جَرِيرٌ، عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي، سَعِيدٍ قَالَ كَانَ بَيْنَ خَالِدِ بْنِ الْوَلِيدِ وَبَيْنَ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ شَىْءٌ فَسَبَّهُ خَالِدٌ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ‏ "‏ لاَ تَسُبُّوا أَحَدًا مِنْ أَصْحَابِي فَإِنَّ أَحَدَكُمْ لَوْ أَنْفَقَ مِثْلَ أُحُدٍ ذَهَبًا مَا أَدْرَكَ مُدَّ أَحَدِهِمْ وَلاَ نَصِيفَهُ ‏"‏ ‏.‏

حدیث نمبر: 6488

صحيح مسلم

جب رسول اللہ ﷺ نے حضرت خالد بن ولید ؓ کو قبیلہ بنو جذیمہ کے پاس جو اطراف مکہ میں مسکن گزین تھا دعوت اسلام کے لیے بھیجا، انہوں نے غلطی سے قتل و خون ریزی کا بازار گرم کر دیا، سرورِکائنات ﷺ کو اطلاع ہوئی تو نہایت متاسف ہوئے اورہاتھ اٹھا کر بارگاہِ رب العالمین میں تین دفعہ اپنی برأت ظاہرکی، خدایا!خالد ؓ نے جو کچھ کیا میں اس سے بری ہوں۔ حضرت عبدالرحمن ؓ کے خاندان اورقبیلہ بنوجذیمہ میں گو قدیم زمانہ سے عداوت چلی آتی تھی، یہاں تک کہ ان کے والد عوف کو اسی قبیلہ کے ایک آدمی نے قتل کیا تھا، تاہم اخوت اسلامی نے اس دیرینہ عداوت کو بھی محوکردیا، چنانچہ اس خونریزی سے بیزار ہوکر حضرت خالد بن ولید ؓ سے کہا، افسوس تم نے اسلام میں جاہلیت کا بدلہ لیا، انہوں نے جواب دیا میں نے تمہارے باپ کے قاتل کو مارا، حضرت عبدالرحمن ؓ نے کہا بیشک تم نے میرے باپ کے قاتل کو مارا؛ لیکن درحقیقت یہ فاکہ بن مغیرہ کا انتقام تھا، جوتمہارا چچا تھے، (حضرت عبدالرحمن ؓ کے والد عوف اورحضرت خالد ؓ کے چچا فاکہ بن مغیرہ تجارت کے خیال سے یمن جا رہے تھے بنو جذیمہ نے راہ میں ایک ساتھ دونوں کو قتل کیا تھا، سیرت ابن ہشام جلد2 صفحہ 256)اس کے بعد دونوں میں نہایت گرم گفتگو ہوئی، آنحضرت ﷺ کو اطلاع ہوئی توحضرت خالد ؓ سے ارشاد ہوا بس خالد! میرے اصحاب کو چھوڑ، اگرتوراہِ خدا میں کوہِ احد کے برابر بھی سونا صرف کرے گا تب بھی ان کے برابر نہ ہوگا۔
 
Last edited:
شمولیت
ستمبر 21، 2015
پیغامات
2,697
ری ایکشن اسکور
760
پوائنٹ
290
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کتنی عجیب سی بات ھے ! جس فورم پر الزام لگایا جا رھا وہی فورم پوری دیانت سے ، مکمل فراخ دلی سے اس مراسلہ کو تمام قارئین کی خدمت میں پیش کر رھا ھے!

الزام کی سنگینی کا انداز لگائیں :

کیا یے آیت سارے صحابہ پے ایک ہی اسکیل کےساتھ نوازی گئی تھی ؟ ؟ اور کیا سورۃ المجادلہ کی یے آیات مدینہ میں سن پانچ ھجری میں نازل نہیں ہوئی تھی ؟ میں اس فورم پے جب بھی کچھ سوال پوچھتا ہوں تو کمال ہوشیاری کے ساتھ مجھے بلاک کیا جاتا ہے ، دل بے ایمان تے حجتاں ڈھیر ! جب اللہ ﷻ اور اس کے رسول اللہ ﷺ نے ایک اسکیل نہیں رکھا تو آپ یا میں کون ہوتے ہیں سب کو ایک ہی ترازو میں تولنے والے ؟ اسی لیئے تو لوگ ہمیں ناصبی کہتے ہیں
ایک شخص خود کو کیا سمجھے بیٹھا ھو اس سے کیا فرق پڑ جانا ھے !
 
شمولیت
ستمبر 21، 2015
پیغامات
2,697
ری ایکشن اسکور
760
پوائنٹ
290
کمال تعجب ھے ، مخاطب جب آپ ھوں تب بھی آپ کسی اور کو "ڈائی ورٹ" کر دیتے ہیں ۔
 
شمولیت
ستمبر 21، 2015
پیغامات
2,697
ری ایکشن اسکور
760
پوائنٹ
290
اس میں کیا شک کہ دودھ پھٹتا ھے ، کس نے فرمائش کی کہ پھٹے دودھ سے مکھن نکالا جائے ۔ اصل معاملہ وہ الزام تھا جو لگایا گیا اور اس مراسلہ کا شامل ھو جانا اور تمام قارئین تک پہونچ جانا آپکے سنگین الزام کا شفاف جواب ثابت ھونا ھوا ۔

سوال جس کا براہ راست مخاطب آپ تھے وہ یہ تھا :

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کتنی عجیب سی بات ھے ! جس فورم پر الزام لگایا جا رھا وہی فورم پوری دیانت سے ، مکمل فراخ دلی سے اس مراسلہ کو تمام قارئین کی خدمت میں پیش کر رھا ھے!
یہ تو صاف شفاف پانی سا سوال تھا ، آپ نے اسے پھٹا دودھ کیسے سمجھ لیا مزید ستم :

جی سر ، میں پھٹے ہوئے دودھ میں سے مکھن بنانے کا قائل نہیں ہوں
فيا للعجب !
 
Top