• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اصحاب رسول میں سے ١٢ یا ١٤ منافق تھے - شیعہ کے اعترض کا جواب

وجاہت

رکن
شمولیت
مئی 03، 2016
پیغامات
421
ری ایکشن اسکور
44
پوائنٹ
45
شیعہ کے ایک بلاگ کا لنک یہ ہے


اس میں اس نے ایک تھریڈ بنایا ہے - جس کا نام ہے


بارہ صحابی جو کہ منافق تھے

اس ظالم شیعہ نے (الله اس کو ہلاک کرے ) یہاں اس نے صفی الرحمٰن مبارکپوری کی کتاب " الرحیق المختوم " کی ایک عبارت لکھی - اور اس کے بعد اس عبارت کو بنیاد بنا کر ابن حزم اندلسی کی کتاب المحلى کا حوالہ دے کر کچھ صحابہ کو منافق ثابت کیا
جواب
اس اعترض کا ایک جواب یہ دیا گیا ہے- اگر اس جواب میں کوئی کمی رہ گئی ہو یا کوئی غلط بات کی گئی ہو تو اہل علم اگاہ کریں - الله ہم سب کا حامی و مددگار ہو - آمین

صحیح مسلم کی حدیث ہے

حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا أَسْوَدُ بْنُ عَامِرٍ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ بْنُ الْحَجَّاجِ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَبِي نَضْرَةَ، عَنْ قَيْسٍ، قَالَ: قُلْتُ لِعَمَّارٍ: أَرَأَيْتُمْ صَنِيعَكُمْ هَذَا الَّذِي صَنَعْتُمْ فِي أَمْرِ عَلِيٍّ، أَرَأْيًا رَأَيْتُمُوهُ أَوْ شَيْئًا عَهِدَهُ إِلَيْكُمْ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ فَقَالَ: مَا عَهِدَ إِلَيْنَا رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ شَيْئًا لَمْ يَعْهَدْهُ إِلَى النَّاسِ كَافَّةً، وَلَكِنْ حُذَيْفَةُ أَخْبَرَنِي عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «فِي أَصْحَابِي اثْنَا عَشَرَ مُنَافِقًا، فِيهِمْ ثَمَانِيَةٌ لَا يَدْخُلُونَ الْجَنَّةَ حَتَّى يَلِجَ الْجَمَلُ فِي سَمِّ الْخِيَاطِ، ثَمَانِيَةٌ مِنْهُمْ تَكْفِيكَهُمُ الدُّبَيْلَةُ وَأَرْبَعَةٌ» لَمْ أَحْفَظْ مَا قَالَ شُعْبَةُ فِيهِمْ

حذیفہ رضی الله عنہ کی حدیث ہے

حذیفہ نے حدیث بیان کی اور غندر نے کہا میں بھی یہی خیال کرتا ہوں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا میری امت میں بارہ منافق ایسے ہیں جو جنت میں داخل نہ ہوں گے اور نہ ہی اس کی خوشبو پائیں گے یہاں تک کہ اونٹ سوئی کے ناکہ میں داخل ہوجائے ان میں سے آٹھ کے لئے دبیلہ (آگ کا شعلہ) کافی ہوگا جو ان کے کندھوں سے ظاہر ہوگا یہاں تک کہ ان کی چھاتیاں توڑ کر نکل جائے گا۔

یہ روایت صحیح ہے لیکن اس سلسلے میں تمام صحیح نہیں ہیں ابن حزم نے اس سلسلے میں ایک روایت کو کذب قرار دیا

أما حديث حذيفة فساقط: لأنه من طريق الوليد بن جميع – وهو هالك – ولا نراه يعلم من وضع الحديث فإنه قد روى أخباراً فيها أن أبا بكر، وعمر وعثمان، وطلحة، وسعد بن أبي وقاص – رضي الله عنهم – أرادوا قتل النبي صلى الله عليه وآله وسلم وإلقاءه من العقبة في تبوك – وهذا هو الكذب الموضوع الذي يطعن الله تعالى واضعه – فسقط التعلق به – والحمد لله رب العالمين

المحلى ابن حزم

اور جہاں تک حذيفة کی حدیث کا تعلق ہے پس ساقط ہے – وہ الوليد بن جميع (الْوَلِيدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ جُمَيْعٍ الزُّهْرِيُّ) کے طرق سے روایت ہے جو ہلاک کرنے والا راوی ہے اور ہم نہیں دیکھتے کہ جان سکیں کہ اس کو کس نے گھڑا ہے (سوائے اسی کے ) کیونکہ اس نے روایت کی ہیں خبریں جن میں ہے کہ ابو بکر اور عمر اور عثمان اور طلحہ اور سعد بن ابی وقاص رضی الله عنہم نے نبی صلی الله علیہ وسلم کو قتل کرنے کا ارادہ کیا اور ان سے عقبہ تبوک میں ملے اور یہ بات کذب ہے گھڑی ہوئی ہے

اب ہم دیکھتے ہیں کہ الوليد بن جميع کے طرق سے روایت امام مسلم نے بیان کی ہے

أَبُو أَحْمَدَ الْكُوفِيُّ، حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ جُمَيْعٍ، حَدَّثَنَا أَبُو الطُّفَيْلِ، قَالَ: كَانَ بَيْنَ رَجُلٍ مِنْ أَهْلِ الْعَقَبَةِ؟ وَبَيْنَ حُذَيْفَةَ بَعْضُ مَا يَكُونُ بَيْنَ النَّاسِ، فَقَالَ: أَنْشُدُكَ بِاللهِ كَمْ كَانَ أَصْحَابُ الْعَقَبَةِ؟ قَالَ فَقَالَ لَهُ الْقَوْمُ: أَخْبِرْهُ إِذْ سَأَلَكَ، قَالَ: كُنَّا نُخْبَرُ أَنَّهُمْ أَرْبَعَةَ عَشَرَ، فَإِنْ كُنْتَ مِنْهُمْ فَقَدْ كَانَ الْقَوْمُ خَمْسَةَ عَشَرَ، وَأَشْهَدُ بِاللهِ أَنَّ اثْنَيْ عَشَرَ مِنْهُمْ حَرْبٌ لِلَّهِ وَلِرَسُولِهِ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَيَوْمَ يَقُومُ الْأَشْهَادُ، وَعَذَرَ ثَلَاثَةً، قَالُوا: مَا سَمِعْنَا مُنَادِيَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَلَا عَلِمْنَا بِمَا أَرَادَ الْقَوْمُ، وَقَدْ كَانَ فِي حَرَّةٍ فَمَشَى فَقَالَ: «إِنَّ الْمَاءَ قَلِيلٌ، فَلَا يَسْبِقْنِي إِلَيْهِ أَحَدٌ» فَوَجَدَ قَوْمًا قَدْ سَبَقُوهُ، فَلَعَنَهُمْ يَوْمَئِذٍ

زہیر بن حرب، ابواحمد کوفی ولید بن جمیع حضرت ابوطفیل سے روایت ہے کہ اہل عقبہ (گھاٹی والوں ) میں سے ایک آدمی اور حضرت حذیفہ (رض) کے درمیان عام لوگوں کی طرح جھگڑا ہوا تو انہوں نے کہا میں تمہیں اللہ کی قسم دیتا ہوں کہ بتاؤ اصحاب عقبہ کتنے تھے (حضرت حذیفہ (رض) سے) لوگوں نے کہا آپ ان کے سوال کا جواب دیں جو انہوں نے آپ سے کیا ہے حضرت حذیفہ (رض) نے کہا ہم کو خبر دی جاتی تھی کہ وہ چودہ تھے اور اگر تم بھی انہیں میں سے ہو تو وہ پندرہ ہوجائیں گے میں اللہ کو گواہ بنا کر کہتا ہوں کہ ان میں سے بارہ ایسے تھے جنہوں نے دنیا کی زندگی میں اللہ اور اس کے رسول کے رضامندی کے لئے جہاد کیا۔

مصنف ابن ابی شیبہ میں الولید بن جمیع کہتا ہے کہ عقبہ والے (گھاٹی والوں ) شخص أَبُو مُوسَى الْأَشْعَرِيُّ رضی الله تھے جن سے حُذَيْفَةَ رضی الله کا جھگڑا ہوا تھا گویا اس نے ان کو منافق قرار دیا نعوذ باللہ

الْفَضْلُ بْنُ دُكَيْنٍ، عَنِ الْوَلِيدِ بْنِ جُمَيْعٍ، عَنْ أَبِي الطُّفَيْلِ، قَالَ: كَانَ بَيْنَ حُذَيْفَةَ وَبَيْنَ رَجُلٍ مِنْهُمْ مِنْ أَهْلِ الْعَقَبَةِ بَعْضُ مَا يَكُونُ بَيْنَ النَّاسِ , فَقَالَ: أُنْشِدُكَ بِاللَّهِ , كَمْ كَانَ أَصْحَابُ الْعَقَبَةِ؟ فَقَالَ الْقَوْمُ: فَأَخْبِرْهُ فَقَدْ سَأَلَكَ , فَقَالَ أَبُو مُوسَى الْأَشْعَرِيُّ: قَدْ كُنَّا نُخْبَرُ أَنَّهُمْ أَرْبَعَةَ عَشَرَ , فَقَالَ حُذَيْفَةُ: ” وَإِنْ كُنْتُ فِيهِمْ فَقَدْ كَانُوا خَمْسَةَ عَشَرَ , أَشْهَدُ بِاللَّهِ أَنَّ اثْنَيْ عَشَرَ مِنْهُمْ حِزْبُ اللَّهِ وَرَسُولِهِ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَيَوْمَ يَقُومُ الْأَشْهَادُ , وَعُذِرَ ثَلَاثَةٌ , قَالُوا: مَا سَمِعْنَا مُنَادِيَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَلَا عَلِمْنَا مَا يُرِيدُ الْقَوْمُ “

یہ واقعہ معجم طبرانی میں اور مسند البزار ولید بن جمیع کی سند سے آیا ہے

حَدَّثَنَا عَبَّادُ بْنُ يَعْقُوبَ، قَالَ: أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَيْلٍ، قَالَ: أَخْبَرَنَا الْوَلِيدُ بْنُ جُمَيْعٍ، عَنْ أَبِي الطُّفَيْلِ، عَنْ حُذَيْفَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: لَمَّا كَانَ غَزْوَةُ تَبُوكَ أَمَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُنَادِيًا فَنَادَى أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَخَذَ الْعَقَبَةَ فَلَا تَأْخُذُوهَا فَسَارَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْعَقَبَةِ، وَعَمَّارٌ يَسُوقُ، وَحُذَيْفَةُ يَقُودُ بِهِ فَإِذَا هُمْ بِرَوَاحِلَ عَلَيْهَا قَوْمٌ مُتَلَثِّمُونَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «قُدْ قُدْ، وَيَا عَمَّارُ سُقْ سُقْ» ، فَأَقْبَلَ عَمَّارٌ عَلَى الْقَوْمِ فَضَرَبَ وُجُوهَ رَوَاحِلِهِمْ فَلَمَّا هَبَطَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنَ الْعَقَبَةِ قَالَ: ” يَا عَمَّارُ، قَدْ عَرَفْتُ الْقَوْمَ، أَوْ قَالَ: قَدْ عَرَفْتُ عَامَّةَ الْقَوْمِ أَوِ الرَّوَاحِلِ أَتَدْرِي مَا أَرَادَ الْقَوْمُ؟ “، قُلْتُ: اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ، قَالَ: «أَرَادُوا أَنْ يَنْفِرُوا بِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ

حُذَيْفَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ نے کہا جب جنگ تبوک ہوئی اپ صلی الله علیہ وسلم نے منادی کا حکم دیا کہ وہ گھاٹی میں سے جائیں گے کوئی اور اس میں سے نہ گزرے پس اپ گھاٹی میں سے گزرے اور عمار اونٹنی ہانک رہے تھے اور اس کی نکیل پکڑے تھے کہ ایک قوم ڈھاٹے باندھے آئی پس رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے عمار کو حکم کیا پس عمار آگے بڑھے اور ان کے چہروں پر ضربیں لگائیں نکیل سے پس جب اس گھاٹی سے اترے اپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا اے عمار کیا تم ان کو جانتے ہو؟ یہ کیا چاہتے تھے ؟ میں نے کہا الله اور اس کا رسول جانتے ہیں فرمایا
یہ ہمیں (گھاٹی میں ) دھکیلنا چاہتے تھے

صفی الرحمٰن مبارکپوری نے اپنی کتاب ” الرحیق المختوم ” میں اس واقعہ کو بیان کیا ہے

ورجع الجيش الإسلامي من تبوك مظفرين منصورين، لم ينالوا كيدا، وكفى الله المؤمنين القتال، وفي الطريق عند عقبة حاول اثنا عشر رجلا من المنافقين الفتك بالنبي صلى الله عليه وسلم، وذلك أنه حينما كان يمر بتلك العقبة كان معه عمار يقود بزمام ناقته، وحذيفة بن اليمان يسوقها، وأخذ الناس ببطن الوادي، فانتهز أولئك المنافقون هذه الفرصة، فبينما رسول الله صلى الله عليه وسلم وصاحباه يسيران إذ سمعوا وكزة القوم من ورائهم، قد غشوه وهم ملتثمون، فبعث حذيفة فضرب وجوه رواحلهم بمحجن كان معه، فأرعبهم الله، فأسرعوا في الفرار حتى لحقوا بالقوم، وأخبر رسول الله صلى الله عليه وسلم بأسمائهم، وبما هموا به، فلذلك كان حذيفة يسمى بصاحب سر رسول الله صلى الله عليه وسلم، وفي ذلك يقول الله تعالى: وَهَمُّوا بِما لَمْ يَنالُوا.

اسلامی لشکر تبوک سے مظفر و منصور واپس آیا ۔ کوئی ٹکر نہ ہوئی ۔ اللہ جنگ کے معاملے میں مومنین کے لیے کافی ہوا ۔ البتہ راستے میں ایک جگہ ایک گھاٹی کے پاس بارہ منافقین نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو قتل کرنے کی کوشش کی ۔ اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس گھاٹی سے گزر رہے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ صرف حضرت عمار رضی اللہ عنہ تھے جو اونٹنی کی نکیل تھامے ہوئے تھے اور حضرت حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ تھے جو اونٹنی ہانک رہے تھے ۔ باقی صحابہ کرام دور وادی کے نشیب سے گزر ہے تھے اس لیے منافقین نے اس موقع کو اپنے ناپاک مقصد کے لیے غنیمت سمجھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف قدم بڑھایا ۔ ادھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دونوں ساتھی حسب معمول راستہ طے کررہے تھے کہ پیچھے سے ان منافقین کے قدموں کی چاپیں سنائی دیں ۔ یہ سب چہروں پہ ڈھاٹا باندھے ہوئے تھے اور اب آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر تقریباً چڑھ ہی آئے تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ کو ان کی جانب بھیجا ۔ انہوں نے ان کی سواریوں کے چہروں پر اپنی ایک ڈھال سے ضرب لگانی شروع کی ، جس سے اللہ نے انہیں مرعوب کردیا اور وہ تیزی سے بھاگ کر لوگوں میں جا ملے ۔ اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے نام بتائے اور ان کے ارادے سے باخبر کیا اسی لیے حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ’’ رازدان ‘‘ کہا جاتا ہے ۔ اسی واقعہ سے متعلق اللہ کا یہ ارشاد نازل ہوا کہ ’’ وَھَمُّوْا بِمَا لَم یَنَالُوْا (9: 74) انہوں نے اس کام کا قصد کیا جسے وہ نہ پا سکے

الْوَلِيدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ جُمَيْعٍ الزُّهْرِيُّ نے بعض روایات میں ان اصحاب رسول کے نام لئے ہیں جو جلیل القدر ہیں اس کی یہ روایت ابن حزم تک پہنچیں اور انہوں نے اس کو کذب قرار دیا

قال العقيلي: فِي حديثه اضطراب

وقال ابْن حبّان: فحش تفرُّده

امام مسلم نے حُذَيْفَةَ رضی الله اور ایک شخص کے جھگڑے کی جو روایت نقل کی ہے اسمیں الولید کا تفرد ہے

کتاب التَّكْميل في الجَرْح والتَّعْدِيل ومَعْرِفة الثِّقَات والضُّعفاء والمجَاهِيل از ابن کثیر کےمطابق

قال الحاكم : لو لم يذكره مسلم في صحيحه كان أولى

امام حاکم نے کہا اگر مسلم نے اس کا صحیح میں ذکر نہ کیا ہوتا تو وہ اولی تھا

گھاٹی والا واقعہ ساقط الاعتبار ہے البتہ یہ بات معلوم ہے نبی صلی الله علیہ وسلم نے حذیفہ رضی الله عنہ کو منافقین کے نام بتائے تھے




 

وجاہت

رکن
شمولیت
مئی 03، 2016
پیغامات
421
ری ایکشن اسکور
44
پوائنٹ
45

صحیح مسلم میں الولید بن جمیع کی روایت کردہ دو روایات آئ ہیں

پہلی روایت


صحیح مسلم: کتاب: جہاد اور اس کے دوران میں رسول اللہﷺ کے اختیار کردہ طریقے

(باب: ایفائے عہد)

4639 . وحَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ، عَنِ الْوَلِيدِ بْنِ جُمَيْعٍ، حَدَّثَنَا أَبُو الطُّفَيْلِ، حَدَّثَنَا حُذَيْفَةُ بْنُ الْيَمَانِ، قَالَ: مَا مَنَعَنِي أَنْ أَشْهَدَ بَدْرًا إِلَّا أَنِّي خَرَجْتُ أَنَا وَأَبِي حُسَيْلٌ، قَالَ: فَأَخَذَنَا كُفَّارُ قُرَيْشٍ، قَالُوا: إِنَّكُمْ تُرِيدُونَ مُحَمَّدًا، فَقُلْنَا: مَا نُرِيدُهُ، مَا نُرِيدُ إِلَّا الْمَدِينَةَ، فَأَخَذُوا مِنَّا عَهْدَ اللهِ وَمِيثَاقَهُ لَنَنْصَرِفَنَّ إِلَى الْمَدِينَةِ، وَلَا نُقَاتِلُ مَعَهُ، فَأَتَيْنَا رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَخْبَرْنَاهُ الْخَبَرَ، فَقَالَ: «انْصَرِفَا، نَفِي لَهُمْ بِعَهْدِهِمْ، وَنَسْتَعِينُ اللهَ عَلَيْهِمْ

حکم : صحیح

حضرت حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ جنگ بدر میں میرے شامل نہ ہونے کی وجہ صرف یہ تھی کہ میں اور میرے والس حسیل رضی اللہ عنہ (جو یمان کے لقب سے معروف تھے) دونوں نکلے تو ہمیں کفار قریش نے پکڑ لیا اور کہا: تم محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جانا چاہتے ہو؟ ہم نے کہا: ان کے پاس جانا نہیں چاہتے، ہم تو صرف مدینہ منورہ جانا چاہتے ہیں۔ انہوں نے ہم سے اللہ کے نام پر یہ عہد اور میثاق لیا کہ ہم مدینہ جائیں گے لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مل کر جنگ نہیں کریں گے، ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر آپ کو یہ خبر دی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "تم دونوں لوٹ جاؤ، ہم ان سے کیا ہوا عہد پورا کریں گے اور ان کے خلاف اللہ تعالیٰ سے مدد مانگیں گے



دوسری روایت


صحیح مسلم: کتاب: منافقین کی صفات اور ان کے بارے میں احکام

(باب: منافقین کی صفات اور ان کے بارے میں احکام)

7037 . حَدَّثَنَا زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ حَدَّثَنَا أَبُو أَحْمَدَ الْكُوفِيُّ حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ جُمَيْعٍ حَدَّثَنَا أَبُو الطُّفَيْلِ قَالَ كَانَ بَيْنَ رَجُلٍ مِنْ أَهْلِ الْعَقَبَةِ وَبَيْنَ حُذَيْفَةَ بَعْضُ مَا يَكُونُ بَيْنَ النَّاسِ فَقَالَ أَنْشُدُكَ بِاللَّهِ كَمْ كَانَ أَصْحَابُ الْعَقَبَةِ قَالَ فَقَالَ لَهُ الْقَوْمُ أَخْبِرْهُ إِذْ سَأَلَكَ قَالَ كُنَّا نُخْبَرُ أَنَّهُمْ أَرْبَعَةَ عَشَرَ فَإِنْ كُنْتَ مِنْهُمْ فَقَدْ كَانَ الْقَوْمُ خَمْسَةَ عَشَرَ وَأَشْهَدُ بِاللَّهِ أَنَّ اثْنَيْ عَشَرَ مِنْهُمْ حَرْبٌ لِلَّهِ وَلِرَسُولِهِ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَيَوْمَ يَقُومُ الْأَشْهَادُ وَعَذَرَ ثَلَاثَةً قَالُوا مَا سَمِعْنَا مُنَادِيَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَلَا عَلِمْنَا بِمَا أَرَادَ الْقَوْمُ وَقَدْ كَانَ فِي حَرَّةٍ فَمَشَى فَقَالَ إِنَّ الْمَاءَ قَلِيلٌ فَلَا يَسْبِقْنِي إِلَيْهِ أَحَدٌ فَوَجَدَ قَوْمًا قَدْ سَبَقُوهُ فَلَعَنَهُمْ يَوْمَئِذٍ

حکم : صحیح

ولید بن جمیع نے کہا: ہمیں ابوطفیل رضی اللہ عنہ نے حدیث بیان کی، انہوں نے کہا: عقبہ والوں میں سے ایک شخص اور حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ کے درمیان (اس طرح کا) جھگڑا ہو گیا جس طرح لوگوں کے درمیان ہو جاتا ہے۔ (گفتگو کے دوران میں) انہوں نے (اس شخص سے) کہا: میں تمہیں اللہ کی قسم دے کر پوچھتا ہوں کہ عقبہ والوں کی تعداد کتنی تھی؟ (حضرت ابوطفیل رضی اللہ عنہ نے) کہا: لوگوں نے اس سے کہا: جب وہ آپ سے پوچھ رہے ہیں تو انہیں بتاؤ۔ (پھر حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ نے خود ہی جواب دیتے ہوئے) کہا: ہمیں بتایا جاتا تھا کہ وہ چودہ لوگ تھے اور اگر تم بھی ان میں شامل تھے تو وہ کل پندرہ لوگ تھے اور میں گواہی دیتا ہوں کہ ان میں سے بارہ دنیا کی زندگی میں بھی اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف جنگ میں تھے اور (آخرت میں بھی) جب گواہ کھڑے ہوں گے۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان تین لوگوں کا عذر قبول فرما لیا تھا جنہوں نے کہا تھا کہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اعلان کرنے والے کا اعلان نہیں سنا تھا اور اس بات سے بھی بے خبر تھے کہ ان لوگوں کا ارادہ کیا ہے جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت حرہ میں تھے، آپ چل پڑے اور فرمایا: "پانی کم ہے، اس لیے مجھ سے پہلے وہاں کوئی نہ پہنچے۔" چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (وہاں پہنچ کر) دیکھا کہ کچھ لوگ آپ سے پہلے وہاں پہنچ گئے ہیں تو آپ نے اس روز ان پر لعنت کی۔

 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791
صحیح مسلم کی حدیث ہے
مکمل حدیث ترجمہ کے ساتھ دیکھیں ،پھر اس کے مفہوم و مراد بتاتے ہیں :
عن قيس، قال: قلت لعمار: أرأيتم صنيعكم هذا الذي صنعتم في أمر علي، أرأيا رأيتموه أو شيئا عهده إليكم رسول الله صلى الله عليه وسلم؟ فقال: ما عهد إلينا رسول الله صلى الله عليه وسلم شيئا لم يعهده إلى الناس كافة، ولكن حذيفة أخبرني عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: قال النبي صلى الله عليه وسلم: «في أصحابي اثنا عشر منافقا، فيهم ثمانية لا يدخلون الجنة حتى يلج الجمل في سم الخياط، ثمانية منهم تكفيكهم الدبيلة وأربعة» لم أحفظ ما قال شعبة فيهم
ترجمہ:
قیس سے روایت ہے، میں نے جناب عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ سے پوچھا: (سیدنا عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ جنگ صفین میں سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی طرف تھے) تم نے جو سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے مقدمہ میں (یعنی ان کا ساتھ دیا اور لڑے سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ سے) یہ تمہاری رائے ہے یا تم سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس باب میں کچھ فرمایا تھا .
سیدنا عمار رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سے کوئی بات ایسی نہیں فرمائی جو اور عام لوگوں سے نہ فرمائی ہو لیکن سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ نے مجھ سے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میرے اصحاب میں بارہ منافق ہیں ان میں سے آٹھ جنت میں نہ جائیں گے یہاں تک کہ اونٹ سوئی کے ناکے میں گھسے .“ (یعنی ان کا جنت میں جانا محال ہے) اور آٹھ کو ان میں سے دبیلہ سمجھ لے گا (دبیلہ پھوڑا یا دمل) اور چار کے باب میں اسود یہ کہتا ہے جو راوی ہے اس حدیث کا کہ مجھے یاد نہ رہا شعبہ نے کیا کہا ‘‘
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔​
صحیح مسلم میں دوسری سند سے یہ حدیث ملاحظہ فرمائیں :
اس میں ( میرے صحابہ کی بجائے میری امت میں سے بارہ منافق کا لفظ ہے :
عن قيس بن عباد، قال: قلنا لعمار: أرأيت قتالكم، أرأيا رأيتموه؟ فإن الرأي يخطئ ويصيب، أو عهدا عهده إليكم رسول الله صلى الله عليه وسلم؟ فقال: ما عهد إلينا رسول الله صلى الله عليه وسلم شيئا لم يعهده إلى الناس كافة، وقال: إن رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: «إن في أمتي» قال شعبة: وأحسبه قال: حدثني حذيفة، وقال غندر: أراه قال: «في أمتي اثنا عشر منافقا لا يدخلون الجنة، ولا يجدون ريحها، حتى يلج الجمل في سم الخياط ثمانية منهم تكفيكهم الدبيلة، سراج من النار يظهر في أكتافهم، حتى ينجم من صدورهم»
ترجمہ:
جناب قیس سے روایت ہے، میں نے جناب عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ سے پوچھا: (سیدنا عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ جنگ صفین میں سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی طرف تھے) تم نے (سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ سے)جو جنگ کی اور لڑے یہ تمہاری رائے ہے ؟
کیونکہ کسی کی رائے درست بھی ہوسکتی ہے ، اورغلط بھی ، یا تم سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس باب میں کچھ فرمایا تھا .
سیدنا عمار رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سے کوئی بات ایسی نہیں فرمائی جو اور عام لوگوں سے نہ فرمائی ہو لیکن سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ نے مجھ سے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میری امت میں بارہ منافق ہیں ، یہ جنت میں نہ جائیں گے یہاں تک کہ اونٹ سوئی کے ناکے میں گھسے .نہ اس کی خوشبو پائیں گے “ (یعنی ان کا جنت میں جانا محال ہے)
اور آٹھ کو ان میں سے دبیلہ سمجھ لے گا (دبیلہ پھوڑا یا دمل)
یعنی ایک آگ کا چراغ ان کے مونڈھوں میں پیدا ہو گا ان کی چھاتیاں توڑ کے نکل آئے گا (یعنی اس میں انگار ہو گا جیسے چراغ رکھ دیا ۔‘‘

علامہ النووی ؒ اس حدیث کے تحت شرح میں لکھتے ہیں :​
(أما قوله صلى الله عليه وسلم في أصحابي فمعناه الذين ينسبون إلى صحبتي كما قال فى الرواية الثانية فى أمتى )
نبی مکرم ﷺ نے جو فرمایا کہ میرے صحابہ سے بارہ منافق ہیں ،تو اس کا مطلب صرف صحبت سے منسوب ہونا ہے (نہ کہ اصل صحابی )
جیسے دوسری سند سے یہاں لفظ ( میری امت سے ) ہے ‘‘
یعنی یہاں صحابی کے لفظ سے مراد سچے اور عادل صحابہ نہیں ، بلکہ اس دور میں اسلام سے منسوب ،اور ایمان کا دعوی رکھنے والے منافقین ہیں ،
کیونکہ صحابی تعریف ہی اسلام میں یہ ہے کہ :
’’ جس نے حالت ایمان میں جناب نبی کریم ﷺ کو دیکھنے کا شرف پایا ‘‘
امام بخاری ؒ صحیح بخاری باب فضائل صحابہ میں فرماتے ہیں :​
ومن صحب النبي صلى الله عليه وسلم أو رآه من المسلمين فهو من أصحابه ‘‘
یعنی : جس مسلمان نے بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت اٹھائی یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا دیدار اسے نصیب ہوا ہو وہ آپ کا صحابی ہے۔​
اور منافقین کے متعلق یہ حقیقت تو معلوم ہی ہے کہ وہ مومن نہیں
قرآن مجید میں ارشاد ہے :
’’ وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَقُولُ آمَنَّا بِاللَّهِ وَبِالْيَوْمِ الْآخِرِ وَمَا هُمْ بِمُؤْمِنِينَ ‘‘البقرۃ
یعنی کچھ لوگ ایمان لانے کا دعوی تو کرتے ہیں ،لیکن حقیقت میں وہ مومن نہیں ‘‘
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہاں بظاہر اپنے آپ کو مومنین کہنے اور ان کے ساتھ ہونے کے سبب لفظ ( صحبت ) ان کیلئے استعمال کردیا
جیسے قرآن کریم میں خود رسول اکرم ﷺ کو مکہ والوں کا ( صاحب ) ساتھ رہنے والا کہا گیا ہے :
قُلْ إِنَّمَا أَعِظُكُمْ بِوَاحِدَةٍ أَنْ تَقُومُوا لِلَّهِ مَثْنَى وَفُرَادَى ثُمَّ تَتَفَكَّرُوا مَا بِصَاحِبِكُمْ مِنْ جِنَّةٍ ‘‘ سورۃ سبا ۴۶
کہہ دیجیئے! کہ میں تمہیں صرف ایک ہی بات کی نصیحت کرتا ہوں کہ تم اللہ کے واسطے [ضد چھوڑ کر] دو دو مل کر یا تنہا تنہا کھڑے ہو کر سوچو تو سہی، تمہارے اس رفیق کو کوئی جنون نہیں، وه تو تمہیں ایک بڑے [سخت] عذاب کے آنے سے پہلے خبر دار کرنے والاہے۔‘‘

تو صرف مکہ میں ایک طویل عرصہ ساتھ رہنے کے سبب پیغمبر اکرم ﷺ کو ان کا ساتھی (صاحب ) کہا گیا ،
اور اسلئے بھی (صاحب ) کہا کہ اتنے طویل عرصہ جس کے ساتھ رہتے ہو اس کی صداقت و عدالت اور اخلاق کو تم خوب پہچانتے ہو،
چالیس سال سے جو آدمی تمہارے ساتھ اتنے اعلی اخلاق کا نمونہ بن کر زندگی گزارتا رہا تم اسے (عقل وخرد سے عاری ) کیسے قرار دے سکتے ہو ،
اب کون اس آیت میں وارد لفظ (صاحب ) جس سے صحابی بنتا ہے اس کی بنیاد پر کہہ سکتا ہے کہ نبی اکرم ﷺ تو مکہ والوں کے صحابی ہیں ؟

اسی طرح حدیث میں وارد لفظ «في أصحابي اثنا عشر منافقا » سے مراد انصار و مہاجرین کے مخلصین نہیں ، جن کی تعریف و مدح میں قرآن کریم کی آیات وارد ہیں ‘‘
وَالسَّابِقُونَ الْأَوَّلُونَ مِنَ الْمُهَاجِرِينَ وَالْأَنْصَارِ وَالَّذِينَ اتَّبَعُوهُمْ بِإِحْسَانٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ وَأَعَدَّ لَهُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِي تَحْتَهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا أَبَدًا ذَلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ (سورۃ التوبۃ 100)
اور جو مہاجرین اور انصار سابق اور مقدم ہیں اور جتنے لوگ اخلاص کے ساتھ ان کے پیرو ہیں اللہ ان سب سے راضی ہوا اور وه سب اس سے راضی ہوئے اور اللہ نے ان کے لیے ایسے باغ مہیا کر رکھے ہیں جن کے نیچے نہریں جاری ہوں گی جن میں ہمیشہ رہیں گے یہ بڑی کامیابی ہے۔‘‘
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اسی لئے ہم برملا کہتے ہیں :
اللہ کے سچے آخری دین پر اپنا تن من، دھن نچھاور کرکے دین کی نصرت کرنے والوں کے متعلق شکوک و شبہات اور بدگمانیاں پیدا کرنے والوں پر اللہ کی لعنت برسے ‘‘
لعنة الله على من يريد أن يشكك فى أول جيل ترك كل شئ من أموال و ديار من أجل نصرة دين الله و بذل النفوس رخيصة لإقامة الإسلام , جيل من أفضل أجيال تواجدت على البسيطة منذ بدء الخليقة ...
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔​
 
Last edited:

وجاہت

رکن
شمولیت
مئی 03، 2016
پیغامات
421
ری ایکشن اسکور
44
پوائنٹ
45
مکمل حدیث ترجمہ کے ساتھ دیکھیں ،پھر اس کے مفہوم و مراد بتاتے ہیں :
عن قيس، قال: قلت لعمار: أرأيتم صنيعكم هذا الذي صنعتم في أمر علي، أرأيا رأيتموه أو شيئا عهده إليكم رسول الله صلى الله عليه وسلم؟ فقال: ما عهد إلينا رسول الله صلى الله عليه وسلم شيئا لم يعهده إلى الناس كافة، ولكن حذيفة أخبرني عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: قال النبي صلى الله عليه وسلم: «في أصحابي اثنا عشر منافقا، فيهم ثمانية لا يدخلون الجنة حتى يلج الجمل في سم الخياط، ثمانية منهم تكفيكهم الدبيلة وأربعة» لم أحفظ ما قال شعبة فيهم
ترجمہ:
قیس سے روایت ہے، میں نے جناب عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ سے پوچھا: (سیدنا عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ جنگ صفین میں سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی طرف تھے) تم نے جو سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے مقدمہ میں (یعنی ان کا ساتھ دیا اور لڑے سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ سے) یہ تمہاری رائے ہے یا تم سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس باب میں کچھ فرمایا تھا .
سیدنا عمار رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سے کوئی بات ایسی نہیں فرمائی جو اور عام لوگوں سے نہ فرمائی ہو لیکن سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ نے مجھ سے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میرے اصحاب میں بارہ منافق ہیں ان میں سے آٹھ جنت میں نہ جائیں گے یہاں تک کہ اونٹ سوئی کے ناکے میں گھسے .“ (یعنی ان کا جنت میں جانا محال ہے) اور آٹھ کو ان میں سے دبیلہ سمجھ لے گا (دبیلہ پھوڑا یا دمل) اور چار کے باب میں اسود یہ کہتا ہے جو راوی ہے اس حدیث کا کہ مجھے یاد نہ رہا شعبہ نے کیا کہا ‘‘
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔​
صحیح مسلم میں دوسری سند سے یہ حدیث ملاحظہ فرمائیں :
اس میں ( میرے صحابہ کی بجائے میری امت میں سے بارہ منافق کا لفظ ہے :
عن قيس بن عباد، قال: قلنا لعمار: أرأيت قتالكم، أرأيا رأيتموه؟ فإن الرأي يخطئ ويصيب، أو عهدا عهده إليكم رسول الله صلى الله عليه وسلم؟ فقال: ما عهد إلينا رسول الله صلى الله عليه وسلم شيئا لم يعهده إلى الناس كافة، وقال: إن رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: «إن في أمتي» قال شعبة: وأحسبه قال: حدثني حذيفة، وقال غندر: أراه قال: «في أمتي اثنا عشر منافقا لا يدخلون الجنة، ولا يجدون ريحها، حتى يلج الجمل في سم الخياط ثمانية منهم تكفيكهم الدبيلة، سراج من النار يظهر في أكتافهم، حتى ينجم من صدورهم»
ترجمہ:
جناب قیس سے روایت ہے، میں نے جناب عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ سے پوچھا: (سیدنا عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ جنگ صفین میں سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی طرف تھے) تم نے (سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ سے)جو جنگ کی اور لڑے یہ تمہاری رائے ہے ؟
کیونکہ کسی کی رائے درست بھی ہوسکتی ہے ، اورغلط بھی ، یا تم سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس باب میں کچھ فرمایا تھا .
سیدنا عمار رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سے کوئی بات ایسی نہیں فرمائی جو اور عام لوگوں سے نہ فرمائی ہو لیکن سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ نے مجھ سے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میری امت میں بارہ منافق ہیں ، یہ جنت میں نہ جائیں گے یہاں تک کہ اونٹ سوئی کے ناکے میں گھسے .نہ اس کی خوشبو پائیں گے “ (یعنی ان کا جنت میں جانا محال ہے)
اور آٹھ کو ان میں سے دبیلہ سمجھ لے گا (دبیلہ پھوڑا یا دمل)
یعنی ایک آگ کا چراغ ان کے مونڈھوں میں پیدا ہو گا ان کی چھاتیاں توڑ کے نکل آئے گا (یعنی اس میں انگار ہو گا جیسے چراغ رکھ دیا ۔‘‘

علامہ النووی ؒ اس حدیث کے تحت شرح میں لکھتے ہیں :​
(أما قوله صلى الله عليه وسلم في أصحابي فمعناه الذين ينسبون إلى صحبتي كما قال فى الرواية الثانية فى أمتى )
نبی مکرم ﷺ نے جو فرمایا کہ میرے صحابہ سے بارہ منافق ہیں ،تو اس کا مطلب صرف صحبت سے منسوب ہونا ہے (نہ کہ اصل صحابی )
جیسے دوسری سند سے یہاں لفظ ( میری امت سے ) ہے ‘‘
یعنی یہاں صحابی کے لفظ سے مراد سچے اور عادل صحابہ نہیں ، بلکہ اس دور میں اسلام سے منسوب ،اور ایمان کا دعوی رکھنے والے منافقین ہیں ،
کیونکہ صحابی تعریف ہی اسلام میں یہ ہے کہ :
’’ جس نے حالت ایمان میں جناب نبی کریم ﷺ کو دیکھنے کا شرف پایا ‘‘
امام بخاری ؒ صحیح بخاری باب فضائل صحابہ میں فرماتے ہیں :​
ومن صحب النبي صلى الله عليه وسلم أو رآه من المسلمين فهو من أصحابه ‘‘
یعنی : جس مسلمان نے بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت اٹھائی یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا دیدار اسے نصیب ہوا ہو وہ آپ کا صحابی ہے۔​
اور منافقین کے متعلق یہ حقیقت تو معلوم ہی ہے کہ وہ مومن نہیں
قرآن مجید میں ارشاد ہے :
’’ وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَقُولُ آمَنَّا بِاللَّهِ وَبِالْيَوْمِ الْآخِرِ وَمَا هُمْ بِمُؤْمِنِينَ ‘‘البقرۃ
یعنی کچھ لوگ ایمان لانے کا دعوی تو کرتے ہیں ،لیکن حقیقت میں وہ مومن نہیں ‘‘
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہاں بظاہر اپنے آپ کو مومنین کہنے اور ان کے ساتھ ہونے کے سبب لفظ ( صحبت ) ان کیلئے استعمال کردیا
جیسے قرآن کریم میں خود رسول اکرم ﷺ کو مکہ والوں کا ( صاحب ) ساتھ رہنے والا کہا گیا ہے :
قُلْ إِنَّمَا أَعِظُكُمْ بِوَاحِدَةٍ أَنْ تَقُومُوا لِلَّهِ مَثْنَى وَفُرَادَى ثُمَّ تَتَفَكَّرُوا مَا بِصَاحِبِكُمْ مِنْ جِنَّةٍ ‘‘ سورۃ سبا ۴۶
کہہ دیجیئے! کہ میں تمہیں صرف ایک ہی بات کی نصیحت کرتا ہوں کہ تم اللہ کے واسطے [ضد چھوڑ کر] دو دو مل کر یا تنہا تنہا کھڑے ہو کر سوچو تو سہی، تمہارے اس رفیق کو کوئی جنون نہیں، وه تو تمہیں ایک بڑے [سخت] عذاب کے آنے سے پہلے خبر دار کرنے والاہے۔‘‘

تو صرف مکہ میں ایک طویل عرصہ ساتھ رہنے کے سبب پیغمبر اکرم ﷺ کو ان کا ساتھی (صاحب ) کہا گیا ،
اور اسلئے بھی (صاحب ) کہا کہ اتنے طویل عرصہ جس کے ساتھ رہتے ہو اس کی صداقت و عدالت اور اخلاق کو تم خوب پہچانتے ہو،
چالیس سال سے جو آدمی تمہارے ساتھ اتنے اعلی اخلاق کا نمونہ بن کر زندگی گزارتا رہا تم اسے (عقل وخرد سے عاری ) کیسے قرار دے سکتے ہو ،
اب کون اس آیت میں وارد لفظ (صاحب ) جس سے صحابی بنتا ہے اس کی بنیاد پر کہہ سکتا ہے کہ نبی اکرم ﷺ تو مکہ والوں کے صحابی ہیں ؟

اسی طرح حدیث میں وارد لفظ «في أصحابي اثنا عشر منافقا » سے مراد انصار و مہاجرین کے مخلصین نہیں ، جن کی تعریف و مدح میں قرآن کریم کی آیات وارد ہیں ‘‘
وَالسَّابِقُونَ الْأَوَّلُونَ مِنَ الْمُهَاجِرِينَ وَالْأَنْصَارِ وَالَّذِينَ اتَّبَعُوهُمْ بِإِحْسَانٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ وَأَعَدَّ لَهُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِي تَحْتَهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا أَبَدًا ذَلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ (سورۃ التوبۃ 100)
اور جو مہاجرین اور انصار سابق اور مقدم ہیں اور جتنے لوگ اخلاص کے ساتھ ان کے پیرو ہیں اللہ ان سب سے راضی ہوا اور وه سب اس سے راضی ہوئے اور اللہ نے ان کے لیے ایسے باغ مہیا کر رکھے ہیں جن کے نیچے نہریں جاری ہوں گی جن میں ہمیشہ رہیں گے یہ بڑی کامیابی ہے۔‘‘
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اسی لئے ہم برملا کہتے ہیں :
اللہ کے سچے آخری دین پر اپنا تن من، دھن نچھاور کرکے دین کی نصرت کرنے والوں کے متعلق شکوک و شبہات اور بدگمانیاں پیدا کرنے والوں پر اللہ کی لعنت برسے ‘‘
لعنة الله على من يريد أن يشكك فى أول جيل ترك كل شئ من أموال و ديار من أجل نصرة دين الله و بذل النفوس رخيصة لإقامة الإسلام , جيل من أفضل أجيال تواجدت على البسيطة منذ بدء الخليقة ...
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔​
@اسحاق سلفی بھائی الله آپ کو جزایۓ خیر دے - آپ نے بہت علمی نکات لکھے - لیکن آپ نے شائد پورا تھریڈ نہیں پڑھا - اس میں شیعہ کے اعترض کا جواب دیا گیا ہے - اور اسی پر میں نے کہا تھا کہ


اس اعترض کا ایک جواب یہ دیا گیا ہے- اگر اس جواب میں کوئی کمی رہ گئی ہو یا کوئی غلط بات کی گئی ہو تو اہل علم اگاہ کریں - الله ہم سب کا حامی و مددگار ہو - آمین
شیعہ نے ایک عبارت پیش کی

أما حديث حذيفة فساقط: لأنه من طريق الوليد بن جميع – وهو هالك – ولا نراه يعلم من وضع الحديث فإنه قد روى أخباراً فيها أن أبا بكر، وعمر وعثمان، وطلحة، وسعد بن أبي وقاص – رضي الله عنهم – أرادوا قتل النبي صلى الله عليه وآله وسلم وإلقاءه من العقبة في تبوك – وهذا هو الكذب الموضوع الذي يطعن الله تعالى واضعه – فسقط التعلق به – والحمد لله رب العالمين
المحلى ابن حزم

پہلے لکھتا ہے کہ

کچھ علماء اھل سنت مثلا ابن حزم اندلسی جو اہلسنت کے پایہ کے عالم گزرے ہیں ان افراد کا نام بتاتے ہیں-
پھر لکھتا ہے کہ

ابن حزم کا نقل کرتے ہوئے ایک اعتراض یہ ہے کہ سلسلہ سند میں وليد بن عبد الله بن جميع ہے اس کی روایت پر اعتراض کیا ہے لہذا کہتے ہیں کہ روایت موضوع اور کذب ہے لیکن علماء اہلسنت نے وليد بن عبد الله بن جميع کو ابن حزم کے دعوے کے بر خلاف ثقہ بتایا ہے اوراس کی توثیق کی ہے۔اس لنک پر۔
نیچے یہ لکھ کر اپنا موقف سچ ثابت کر رہا ہے کہ
اور سب سے بڑی بات یہ کہ امام مسلم نے صحیح مسلم میں وليد بن جميع سےدو روایت لی ہے

حدثنا زهير بن حرب حدثنا أبو أحمد الكوفي حدثنا الوليد بن جميع حدثنا أبو الطفيل قال كان بين رجل من أهل العقبة وبين حذيفة بعض ما يكون بين الناس فقال أنشدك بالله كم كان أصحاب العقبة قال فقال له القوم أخبره إذ سألك قال كنا نخبر أنهم أربعة عشر فإن كنت منهم فقد كان القوم خمسة عشر وأشهد بالله أن اثني عشر منهم حرب لله ولرسوله في الحياة الدنيا ويوم يقوم الأشهاد وعذر ثلاثة قالوا ما سمعنا منادي رسول الله صلى الله عليه وسلم ولا علمنا بما أراد القوم وقد كان في حرة فمشى فقال إن الماء قليل فلا يسبقني إليه أحد فوجد قوما قد سبقوه فلعنهم يومئذ

صحيح مسلم » كتاب صفات المنافقين وأحكامهم الصفحة أو الرقم: 2779

وحدثنا أبو بكر بن أبي شيبة حدثنا أبو أسامة عن الوليد بن جميع حدثنا أبو الطفيل حدثنا حذيفة بن اليمان قال ما منعني أن أشهد بدرا إلا أني خرجت أنا وأبي حسيل قال فأخذنا كفار قريش قالوا إنكم تريدون محمدا فقلنا ما نريده ما نريد إلا المدينة فأخذوا منا عهد الله وميثاقه لننصرفن إلى المدينة ولا نقاتل معه فأتينا رسول الله صلى الله عليه وسلم فأخبرناه الخبر فقال انصرفا نفي لهم بعهدهم ونستعين الله عليهم

صحيح مسلم » كتاب الجهاد والسير » باب الوفاء بالعهد الصفحة أو الرقم: 1787

پس یہ سب قرینہ اس بات پرشاھد ہیں کہ یہ وليد بن جميع قابل اعتماد شخص ہے اور روایت نتجاتاً صحیح کہلائےگی

اب اس پر اس شیعہ کو جواب دیا گیا کہ

صحیح مسلم کی حدیث ہے

حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا أَسْوَدُ بْنُ عَامِرٍ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ بْنُ الْحَجَّاجِ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَبِي نَضْرَةَ، عَنْ قَيْسٍ، قَالَ: قُلْتُ لِعَمَّارٍ: أَرَأَيْتُمْ صَنِيعَكُمْ هَذَا الَّذِي صَنَعْتُمْ فِي أَمْرِ عَلِيٍّ، أَرَأْيًا رَأَيْتُمُوهُ أَوْ شَيْئًا عَهِدَهُ إِلَيْكُمْ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ فَقَالَ: مَا عَهِدَ إِلَيْنَا رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ شَيْئًا لَمْ يَعْهَدْهُ إِلَى النَّاسِ كَافَّةً، وَلَكِنْ حُذَيْفَةُ أَخْبَرَنِي عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «فِي أَصْحَابِي اثْنَا عَشَرَ مُنَافِقًا، فِيهِمْ ثَمَانِيَةٌ لَا يَدْخُلُونَ الْجَنَّةَ حَتَّى يَلِجَ الْجَمَلُ فِي سَمِّ الْخِيَاطِ، ثَمَانِيَةٌ مِنْهُمْ تَكْفِيكَهُمُ الدُّبَيْلَةُ وَأَرْبَعَةٌ» لَمْ أَحْفَظْ مَا قَالَ شُعْبَةُ فِيهِمْ

حذیفہ رضی الله عنہ کی حدیث ہے

حذیفہ نے حدیث بیان کی اور غندر نے کہا میں بھی یہی خیال کرتا ہوں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا میری امت میں بارہ منافق ایسے ہیں جو جنت میں داخل نہ ہوں گے اور نہ ہی اس کی خوشبو پائیں گے یہاں تک کہ اونٹ سوئی کے ناکہ میں داخل ہوجائے ان میں سے آٹھ کے لئے دبیلہ (آگ کا شعلہ) کافی ہوگا جو ان کے کندھوں سے ظاہر ہوگا یہاں تک کہ ان کی چھاتیاں توڑ کر نکل جائے گا۔

یہ روایت صحیح ہے لیکن اس سلسلے میں تمام صحیح نہیں ہیں ابن حزم نے اس سلسلے میں ایک روایت کو کذب قرار دیا

أما حديث حذيفة فساقط: لأنه من طريق الوليد بن جميع – وهو هالك – ولا نراه يعلم من وضع الحديث فإنه قد روى أخباراً فيها أن أبا بكر، وعمر وعثمان، وطلحة، وسعد بن أبي وقاص – رضي الله عنهم – أرادوا قتل النبي صلى الله عليه وآله وسلم وإلقاءه من العقبة في تبوك – وهذا هو الكذب الموضوع الذي يطعن الله تعالى واضعه – فسقط التعلق به – والحمد لله رب العالمين

المحلى ابن حزم

اور جہاں تک حذيفة کی حدیث کا تعلق ہے پس ساقط ہے – وہ الوليد بن جميع (الْوَلِيدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ جُمَيْعٍ الزُّهْرِيُّ) کے طرق سے روایت ہے جو ہلاک کرنے والا راوی ہے اور ہم نہیں دیکھتے کہ جان سکیں کہ اس کو کس نے گھڑا ہے (سوائے اسی کے ) کیونکہ اس نے روایت کی ہیں خبریں جن میں ہے کہ ابو بکر اور عمر اور عثمان اور طلحہ اور سعد بن ابی وقاص رضی الله عنہم نے نبی صلی الله علیہ وسلم کو قتل کرنے کا ارادہ کیا اور ان سے عقبہ تبوک میں ملے اور یہ بات کذب ہے گھڑی ہوئی ہے

اب ہم دیکھتے ہیں کہ الوليد بن جميع کے طرق سے روایت امام مسلم نے بیان کی ہے

أَبُو أَحْمَدَ الْكُوفِيُّ، حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ جُمَيْعٍ، حَدَّثَنَا أَبُو الطُّفَيْلِ، قَالَ: كَانَ بَيْنَ رَجُلٍ مِنْ أَهْلِ الْعَقَبَةِ؟ وَبَيْنَ حُذَيْفَةَ بَعْضُ مَا يَكُونُ بَيْنَ النَّاسِ، فَقَالَ: أَنْشُدُكَ بِاللهِ كَمْ كَانَ أَصْحَابُ الْعَقَبَةِ؟ قَالَ فَقَالَ لَهُ الْقَوْمُ: أَخْبِرْهُ إِذْ سَأَلَكَ، قَالَ: كُنَّا نُخْبَرُ أَنَّهُمْ أَرْبَعَةَ عَشَرَ، فَإِنْ كُنْتَ مِنْهُمْ فَقَدْ كَانَ الْقَوْمُ خَمْسَةَ عَشَرَ، وَأَشْهَدُ بِاللهِ أَنَّ اثْنَيْ عَشَرَ مِنْهُمْ حَرْبٌ لِلَّهِ وَلِرَسُولِهِ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَيَوْمَ يَقُومُ الْأَشْهَادُ، وَعَذَرَ ثَلَاثَةً، قَالُوا: مَا سَمِعْنَا مُنَادِيَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَلَا عَلِمْنَا بِمَا أَرَادَ الْقَوْمُ، وَقَدْ كَانَ فِي حَرَّةٍ فَمَشَى فَقَالَ: «إِنَّ الْمَاءَ قَلِيلٌ، فَلَا يَسْبِقْنِي إِلَيْهِ أَحَدٌ» فَوَجَدَ قَوْمًا قَدْ سَبَقُوهُ، فَلَعَنَهُمْ يَوْمَئِذٍ

زہیر بن حرب، ابواحمد کوفی ولید بن جمیع حضرت ابوطفیل سے روایت ہے کہ اہل عقبہ (گھاٹی والوں ) میں سے ایک آدمی اور حضرت حذیفہ (رض) کے درمیان عام لوگوں کی طرح جھگڑا ہوا تو انہوں نے کہا میں تمہیں اللہ کی قسم دیتا ہوں کہ بتاؤ اصحاب عقبہ کتنے تھے (حضرت حذیفہ (رض) سے) لوگوں نے کہا آپ ان کے سوال کا جواب دیں جو انہوں نے آپ سے کیا ہے حضرت حذیفہ (رض) نے کہا ہم کو خبر دی جاتی تھی کہ وہ چودہ تھے اور اگر تم بھی انہیں میں سے ہو تو وہ پندرہ ہوجائیں گے میں اللہ کو گواہ بنا کر کہتا ہوں کہ ان میں سے بارہ ایسے تھے جنہوں نے دنیا کی زندگی میں اللہ اور اس کے رسول کے رضامندی کے لئے جہاد کیا۔

مصنف ابن ابی شیبہ میں الولید بن جمیع کہتا ہے کہ عقبہ والے (گھاٹی والوں ) شخص أَبُو مُوسَى الْأَشْعَرِيُّ رضی الله تھے جن سے حُذَيْفَةَ رضی الله کا جھگڑا ہوا تھا گویا اس نے ان کو منافق قرار دیا نعوذ باللہ

الْفَضْلُ بْنُ دُكَيْنٍ، عَنِ الْوَلِيدِ بْنِ جُمَيْعٍ، عَنْ أَبِي الطُّفَيْلِ، قَالَ: كَانَ بَيْنَ حُذَيْفَةَ وَبَيْنَ رَجُلٍ مِنْهُمْ مِنْ أَهْلِ الْعَقَبَةِ بَعْضُ مَا يَكُونُ بَيْنَالنَّاسِ , فَقَالَ: أُنْشِدُكَ بِاللَّهِ , كَمْ كَانَ أَصْحَابُ الْعَقَبَةِ؟ فَقَالَ الْقَوْمُ: فَأَخْبِرْهُ فَقَدْ سَأَلَكَ , فَقَالَ أَبُو مُوسَى الْأَشْعَرِيُّ: قَدْ كُنَّا نُخْبَرُ أَنَّهُمْ أَرْبَعَةَ عَشَرَ , فَقَالَ حُذَيْفَةُ: ” وَإِنْ كُنْتُ فِيهِمْ فَقَدْ كَانُوا خَمْسَةَ عَشَرَ , أَشْهَدُ بِاللَّهِ أَنَّ اثْنَيْ عَشَرَ مِنْهُمْ حِزْبُ اللَّهِ وَرَسُولِهِ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَيَوْمَ يَقُومُ الْأَشْهَادُ , وَعُذِرَ ثَلَاثَةٌ , قَالُوا: مَا سَمِعْنَا مُنَادِيَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَلَا عَلِمْنَا مَا يُرِيدُ الْقَوْمُ “

یہ واقعہ معجم طبرانی میں اور مسند البزار ولید بن جمیع کی سند سے آیا ہے

حَدَّثَنَا عَبَّادُ بْنُ يَعْقُوبَ، قَالَ: أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَيْلٍ، قَالَ: أَخْبَرَنَا الْوَلِيدُ بْنُ جُمَيْعٍ، عَنْ أَبِي الطُّفَيْلِ، عَنْ حُذَيْفَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: لَمَّا كَانَ غَزْوَةُ تَبُوكَ أَمَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُنَادِيًا فَنَادَى أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَخَذَ الْعَقَبَةَ فَلَا تَأْخُذُوهَا فَسَارَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْعَقَبَةِ، وَعَمَّارٌ يَسُوقُ، وَحُذَيْفَةُ يَقُودُ بِهِ فَإِذَا هُمْ بِرَوَاحِلَ عَلَيْهَا قَوْمٌ مُتَلَثِّمُونَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «قُدْ قُدْ، وَيَا عَمَّارُ سُقْ سُقْ» ، فَأَقْبَلَ عَمَّارٌ عَلَى الْقَوْمِ فَضَرَبَ وُجُوهَ رَوَاحِلِهِمْ فَلَمَّا هَبَطَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنَ الْعَقَبَةِ قَالَ: ” يَا عَمَّارُ، قَدْ عَرَفْتُ الْقَوْمَ، أَوْ قَالَ: قَدْ عَرَفْتُ عَامَّةَ الْقَوْمِ أَوِ الرَّوَاحِلِ أَتَدْرِي مَا أَرَادَ الْقَوْمُ؟ “، قُلْتُ: اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ، قَالَ: «أَرَادُوا أَنْ يَنْفِرُوا بِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ

حُذَيْفَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ نے کہا جب جنگ تبوک ہوئی اپ صلی الله علیہ وسلم نے منادی کا حکم دیا کہ وہ گھاٹی میں سے جائیں گے کوئی اور اس میں سے نہ گزرے پس اپ گھاٹی میں سے گزرے اور عمار اونٹنی ہانک رہے تھے اور اس کی نکیل پکڑے تھے کہ ایک قوم ڈھاٹے باندھے آئی پس رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے عمار کو حکم کیا پس عمار آگے بڑھے اور ان کے چہروں پر ضربیں لگائیں نکیل سے پس جب اس گھاٹی سے اترے اپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا اے عمار کیا تم ان کو جانتے ہو؟ یہ کیا چاہتے تھے ؟ میں نے کہا الله اور اس کا رسول جانتے ہیں فرمایا
یہ ہمیں (گھاٹی میں ) دھکیلنا چاہتے تھے

صفی الرحمٰن مبارکپوری نے اپنی کتاب ” الرحیق المختوم ” میں اس واقعہ کو بیان کیا ہے

ورجع الجيش الإسلامي من تبوك مظفرين منصورين، لم ينالوا كيدا، وكفى الله المؤمنين القتال، وفي الطريق عند عقبة حاول اثنا عشر رجلا من المنافقين الفتك بالنبي صلى الله عليه وسلم، وذلك أنه حينما كان يمر بتلك العقبة كان معه عمار يقود بزمام ناقته، وحذيفة بن اليمان يسوقها، وأخذ الناس ببطن الوادي، فانتهز أولئك المنافقون هذه الفرصة، فبينما رسول الله صلى الله عليه وسلم وصاحباه يسيران إذ سمعوا وكزة القوم من ورائهم، قد غشوه وهم ملتثمون، فبعث حذيفة فضرب وجوه رواحلهم بمحجن كان معه، فأرعبهم الله، فأسرعوا في الفرار حتى لحقوا بالقوم، وأخبر رسول الله صلى الله عليه وسلم بأسمائهم، وبما هموا به، فلذلك كان حذيفة يسمى بصاحب سر رسول الله صلى الله عليه وسلم، وفي ذلك يقول الله تعالى: وَهَمُّوا بِما لَمْ يَنالُوا.

اسلامی لشکر تبوک سے مظفر و منصور واپس آیا ۔ کوئی ٹکر نہ ہوئی ۔ اللہ جنگ کے معاملے میں مومنین کے لیے کافی ہوا ۔ البتہ راستے میں ایک جگہ ایک گھاٹی کے پاس بارہ منافقین نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو قتل کرنے کی کوشش کی ۔ اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس گھاٹی سے گزر رہے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ صرف حضرت عمار رضی اللہ عنہ تھے جو اونٹنی کی نکیل تھامے ہوئے تھے اور حضرت حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ تھے جو اونٹنی ہانک رہے تھے ۔ باقی صحابہ کرام دور وادی کے نشیب سے گزر ہے تھے اس لیے منافقین نے اس موقع کو اپنے ناپاک مقصد کے لیے غنیمت سمجھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف قدم بڑھایا ۔ ادھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دونوں ساتھی حسب معمول راستہ طے کررہے تھے کہ پیچھے سے ان منافقین کے قدموں کی چاپیں سنائی دیں ۔ یہ سب چہروں پہ ڈھاٹا باندھے ہوئے تھے اور اب آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر تقریباً چڑھ ہی آئے تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ کو ان کی جانب بھیجا ۔ انہوں نے ان کی سواریوں کے چہروں پر اپنی ایک ڈھال سے ضرب لگانی شروع کی ، جس سے اللہ نے انہیں مرعوب کردیا اور وہ تیزی سے بھاگ کر لوگوں میں جا ملے ۔ اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے نام بتائے اور ان کے ارادے سے باخبر کیا اسی لیے حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ’’ رازدان ‘‘ کہا جاتا ہے ۔ اسی واقعہ سے متعلق اللہ کا یہ ارشاد نازل ہوا کہ ’’ وَھَمُّوْا بِمَا لَم یَنَالُوْا (9: 74) انہوں نے اس کام کا قصد کیا جسے وہ نہ پا سکے

الْوَلِيدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ جُمَيْعٍ الزُّهْرِيُّ نے بعض روایات میں ان اصحاب رسول کے نام لئے ہیں جو جلیل القدر ہیں اس کی یہ روایت ابن حزم تک پہنچیں اور انہوں نے اس کو کذب قرار دیا

قال العقيلي: فِي حديثه اضطراب

وقال ابْن حبّان: فحش تفرُّده

امام مسلم نے حُذَيْفَةَ رضی الله اور ایک شخص کے جھگڑے کی جو روایت نقل کی ہے اسمیں الولید کا تفرد ہے

کتاب التَّكْميل في الجَرْح والتَّعْدِيل ومَعْرِفة الثِّقَات والضُّعفاء والمجَاهِيل از ابن کثیر کےمطابق

قال الحاكم : لو لم يذكره مسلم في صحيحه كان أولى

امام حاکم نے کہا اگر مسلم نے اس کا صحیح میں ذکر نہ کیا ہوتا تو وہ اولی تھا

گھاٹی والا واقعہ ساقط الاعتبار ہے البتہ یہ بات معلوم ہے نبی صلی الله علیہ وسلم نے حذیفہ رضی الله عنہ کو منافقین کے نام بتائے تھے

============================

اس جواب پر آپ کی راۓ مطلوب ہے -


 
Top