• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اصلاح معاشرہ کیسے؟

شمولیت
فروری 21، 2019
پیغامات
55
ری ایکشن اسکور
12
پوائنٹ
56
الحمدلله رب العالمين والصلاة والسلام على نبينا محمدﷺ
وبعد
محترم قارئیں!
اصلاح معاشرہ ایک خوبصورت عنوان اور دو لفظوں کی حسین و دلکش تعبیر ہے
معاشرہ کا لفظ سنتے ہی معاشرے کی وہ تمام برائیاں خواہ شرک و بدعات کی شکل میں ہوں یا سود کرپشن، جوا، شراب نوشی، زناکاری، جھوٹ، جگل خوری، غیبت، جھگڑا فساد اور حق تلفی جیسے قبیح افعال کے کی شکل میں ہوں ذہن و دماغ میں گردش کرنے لگتی ہیں، جن برائیوں نے ہمارے مسلم معاشرے کو گندا اور زہر الود کر دیا ہے!
ایسا نہیں کہ معاشرے کی اصلاح کے لیے کوششیں نہیں کی جا رہی ہیں بلکہ اس کے لیے بے شمار جماعتیں اور انگنت ادارے موجود ہیں، نہ جانے کتنی کانفرنس اور اجلاس کا انعقاد خاص اسی مقصد کے تحت ہوتا ہے لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ اتنی ساری جماعتوں اور حلقوں کی ہمہ جہت کوششوں کے باوجود معاشرہ آج بھی انہیں بگاڑ وفساد کے ساتھ سانس لے رہا ہے!

چل چل کے پھٹ چکے ہیں قدم اس کے باوجود
اب تک وہیں کھڑے ہیں جہاں سے چلے تھے ہم

قارئین کرام!
کیا ہم نے غور کیا ہے؟! آخر یہ محنتیں یہ ساری کوششیں بیکار اور اکارت کیوں؟
اصلاح معاشرہ کی کوئی تدبیر کامیاب کیوں نہیں ہو رہی؟!
معاشرہ بجائے اصلاح کے مزید بگاڑ وفساد کی طرف کیوں بڑھ رہا ہے جبکہ قران میں اللہ تعالی کا وعدہ موجود ہے کہ:
والذين جاهدوا فينا لنهدينهم سبلنا"
جو لوگ ہماری راہ میں کوشش کرتے ہیں ہم انہیں راہ راست کی طرف رہنمائی کرتے ہیں!

ظاہر ہے کمی ہمارے اندر ہی موجود ہے، اصلاح معاشرہ کے نام پر کی جانے والی ہماری تدبیروں اور کوششوں کا رخ کہیں نہ کہیں صحیح نہیں ہے، یہ کوششیں ان صفات اور خوبیوں سے آراستہ نہیں ہیں جو دوسروں کو اپنی طرف متوجہ کر سکیں۔

قارئین کرام!
اگر ہم غور و فکر کے دریچے کو کھولیں، اپنے گریباں میں جھانک کر دیکھیں اور تحقیق کا دائرہ ذرا وسیع کریں تو ہمیں اتنا ضرور معلوم ہو جائے گا کہ اصلاح معاشرہ کے نام پر کی جانے والی کوششوں میں سب سے بڑی خامی اور خرابی جس سے ہم یکسر چشم پوشی سے کام لیتے ہیں وہ یہ ہے کہ ہمیں اپنی ذات سے پہلے ہر جگہ دوسروں کی اصلاح کی فکر ہوتی ہے!
اصلاح کے نام پر ہماری غالبا ہر تقریر اور تحریر ہماری ہر نصیحت اور ہمارا ہر اجلاس دوسروں کے لیے ہوتا ہے، ہر وقت ہماری خواہش ہوتی ہے کہ معاشرے کے تمام رسوم و بدعات کے خاتمہ کا آغاز دوسروں کے گھر سے شروع ہو، ہر طرح کی تبدیلی کی ابتدا دوسرا کرے!
اس طرح جہاں ہم ایک طرف خود کو اسلام کا مکیں بتاتے ہیں تو دوسری طرف ہم خود ہی عملی طور پر اسلام کے ستونوں اور دیواروں کو کمزور کر رہے ہیں، المیہ یہ کہ ہر برائی کے لیے جواز کا راستہ تلاش کرنا ہمارا شیوہ بن چکا ہے، ہمارا قومی کلچر کیا ہے ہمیں نہیں معلوم، ہماری قوم ثقافت کیا ہے اس سے ہمیں کوئی سروکار نہیں،
دوسروں تک حق بات پہنچانے میں ہم دلچسپی رکھتے ہیں پر فرائض و واجبات پر اپنی ذمہ داریوں کو بھول بیٹھے ہیں، اس طرح اصلاح ممکن نہیں، اللہ تعالی کا ارشاد ہے:
إن الله لا يغير ما بقوم حتى يغيروا ما بأنفسهم
اللہ تعالی کسی قوم کی حالت میں تبدیلی اس وقت تک نہیں لاتا جب تک وہ خود اپنے اندر تبدیلی پیدا نہ کرے

قارئین کرام!
اگر ہم انبیاء کرام اور صحابہ و تابعین عظام کی حالات زندگی میں ایک طائرانہ نظر ڈالیں تو ہمیں معلوم ہوگا کہ اصلاح کے سلسلے میں ان کا طرز عمل آج کے ہمارے طریقۂ کار سے الگ ہوا کرتا تھا،
وہ اصلاح کا آغاز ہمیشہ پہلے اپنی ذات اور اپنے اہل وعیال سے کرتے تھے انہیں اپنے گھر اور خاندان کی فکر دامن گیر ہوتی تھی، ان کے ہاں اعمال وکردار کے ذریعے دعوت اور اصلاح کا کام ہوتا تھا اور زبانی وعظ ونصیحت کا درجہ دوسرا ہوا کرتا تھا۔
قران مجید نے حضرت اسماعیل علیہ السلام کی خصوصی صفات میں سے یہ بھی بیان کیا ہے:
وكان يأمر أهله بالصلاة والزكاة
کہ وہ اپنے اہل و عیال کو نماز اور زکوۃ کا حکم دیتے تھے۔
اسی طرح حضرت ابراہیم ویعقوب علیہما السلام کے سلسلے میں قرآن کہتا ہے:
ووصى بها إبراهيم بنيه ويعقوب يا بني إن الله اصطفى لكم الدين فلا تموتن إلا وأنتم مسلمون
کہ ابراہیم و یعقوب علیہما السلام نے اپنے بیٹوں کو وصیت کی کہ اے میرے بچو! یقینا اس دین کو اللہ تعالی نے تمہارے لیے منتخب کیا ہے لہذا تم مسلمان ہو کر ہی موت کو گلے لگانا۔

قارئین کرام!
انبیائے کرام کے اس طرز عمل سے ایک اصولی بات یہ معلوم ہوتی ہے کہ والدین کا فرض اور اولاد کا حق یہ ہے کہ سب سے پہلے ان کی اصلاح وفلاح کی فکر کی جائے، انہیں توحید کی اہمیت سے آگاہ کی جائے کہ توحید ہی اصل کامیابی کا ضامن ہے، اس کے بغیر کامیابی کا تصور ہی نہیں، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: قولوا لا اله الا الله تفلحوا
لوگو! کہو کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبود برحق نہیں تم کامیاب ہو جاؤ گے.
انہیں بتایا جائے کہ زندگی کے تمام گوشے میں اللہ تعالی اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع ضروری ہے، کیونکہ یہ اسی خالق کا حکم ہے جس نے تمہیں اس دنیا میں وجود بخشا، ارشاد ربانی ہے:
قل أطيعوا الله والرسول فإن تولوا فإن الله لا يحب الكافرين
اے نبی! آپ کہہ دیجیے کہ لوگو! اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو، اگر تم اس سے روگردانی کرو گے تو جان لو کہ اللہ تعالی کافروں کو پسند نہیں کرتا۔
انہیں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی کی اس سنگینی سے متنبہ کیا جائے جسے قرآن مجید نے صاف الفاظ میں بیان کر دیا ہے:
فليحذر الذين يخالفون عن أمره أن تصيبهم فتنة أو يصيبهم عذاب أليم

ساتھ ہی انہیں دین کے بنیادی علوم سے آراستہ کرنا ہر ذمہ دار کے لیے ضروری ہے ۔

قارئین کرام!
گھر کا ہر ذمہ دار اگر دل وجان سے اصلاح کا یا نبوی طریقہ اپنائیں تو یقین جانیں کہ معاشرہ سے دھیرے دھیرے برائیوں کا خاتمہ ہو جائے گا، یاد رکھیں معاشرہ فرد سے بنتا ہے، لہذا فرد کی اصلاح میں ہی معاشرہ کی اصلاح مضمر ہے۔
اللہ تعالی نے اپنے کلام پاک میں اسی تنظیم وصول کے پیش نظر یہ اعلان فرمایا:
يا أيها الذين آمنوا قوا أنفسكم وأهليكم نارا
اے ایمان والو! تم اپنے آپ کو اور اپنے اہل وعیال کو جہنم کی آگ سے بچاؤ
دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا:
وأمر أهلك بالصلاة واصطبر عليها
اپنے اہل وعیال کو نماز کا حکم کیجیے اور خود بھی اس کے پابند رہیے۔

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جو ساری دنیا کے رسول ہیں اور جن کی ہدایت قیامت تک آنے والی نسلوں کے لیے ہے ان کو بھی سب سے پہلے اسی کا حکم دیا گیا کہ:
وأنذر عشيرتك الأقربين
کہ اپنے رشتہ داروں کو اللہ کے عذاب سے ڈرائیے

اس کے علاوہ مزید چند امور کی طرف اشارہ کرنا مناسب سمجھتا ہوں جو صلاح معاشرہ کے لیے کارامد ثابت ہوں گے جیسے علاقائی سطح پر والدین کی فطری تربیت کی جائے کہ ان کی گود اور آغوش بچوں کے لیے بنیاد اور اساس ہے۔
اسی طرح مساجد کو اس کا حقیقی مقام دیا جائے، بچوں کے لیے مکاتب کھولے جائیں تاکہ ان کی صحیح تربیت ہو سکے، اور دین کی بنیادی تعلیم سے مزین ہوسکے۔

اگر ہمارے معاشرے میں اصلاح کا یہی طرز اپنایا جائے، ہمارے واعظین، مقررین، مصلحین وقائدین اور نوجوان طبقہ جو معاشرے میں ریڑ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں اس میدان میں اخلاص کے ساتھ آگےآئیں اور اصلاح کے ہر کام کو عملی جامہ پہنانے کے لیے متوجہ ہو جائیں تو ان شاءاللہ جلد ہی معاشرہ میں تبدیلی آنے لگیں گی ہمارا معاشرہ چین وسکون کا گہوارہ بن جائے گا اور حقیقی اسلامی معاشرہ کہلانے کا مصداق بن جائے گا
اخیر میں اس شعر کے ساتھ اپنی بات ختم کرتا ہوں
کہ:
یہ حوصلہ بھی عطا کر مجھے خدائے کریم
کہ اپنے آپ کو آئینہ دکھاؤں میں

از قلم: ہدایت اللہ فارس
سعودیہ عربیہ
 
Top