مہتاب عزیز
اس سے کوئی فرق نہیں پڑا، باوجود اس کہ یہ ہجوم ڈنڈے لہراتا ملک کے حساس ترین مقام ریڈ زون میں داخل ہو گیا۔ راستے کے ایک طرف کھڑے پولیس والوں پر ڈنڈے برسا کر انہیں زخمی کیا گیا۔ اس کی وجہ سے 99 فیصد سفارتکار اور سفارتخانوں کا عملہ ڈپلومیٹک ایونیو میں عملا محصورہو چکا ہے۔ اس ہجوم کے قبضے کی وجہ سے شاہرائے دستور پر واقعے ایوان وزیر اعظم، سپریم کورٹ، فیڈرل شریعیت کورٹ، کیبنٹ بلاگ، پارلیمنٹ ہاوس، ایوان صدر اور سول سیکریٹریٹ سمیت دیگر اداروں میں ہونے والا روزمرہ کا کام رُک گیا ہے اور حکومتی فعالیت معطل ہو کر رہ گئی ہے۔
اس ہجوم کا ایک سرغنہ کھلم کھلا اعلان کر رہا ہے کہ وہ وزیراعظم ہاؤس گُھس کر ملک کے منتخب وزیر اعظم کو گھسیٹ کر باہر نکال دے گا۔ دوسرا سرغنہ یہ حکم جاری کر رہا ہے کہ وزیراعظم کو اس کی تمام کابینہ سمیت گرفتار کیا جائے۔ تمام اسمبلیوں کو تحلیل کر دیا جائے۔ ایک طویل المدتی غیر آئینی حکومت قائم ہو۔
اس سب کے باوجود نہ تو کوئی سکیورٹی فورس حرکت میں آئی ہے۔ نہ ہی آزاد میڈیا اس تمام صورتحال میں کسی قسم کی کوئی غلطی یا برائی ڈھونڈ پایا ہے۔ اس قابض ہجوم پر نہ ہی لاٹھی چارچ ہوا ہے، نہ انسو گیس کا کوئی شیل فائر کیا گیا، نہ کوئی گرفتاری عمل میں آئی ہے۔ گولی چلائے جانے کا تو کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
ہاں اگر اس ہجوم نے اگر شریعیت کے نفاذ کا مطالبہ کیا ہوتا تو! ان کے ہاتھوں میں موجود ڈنڈوں سے ریاست کا وقار سخت مجروع ہو چکا ہوتا۔ ریڈ زون کی طرف قدم اٹھانا تو دور کی بات ہے آنکھ اٹھا کر دیکھنے سے پہلے ہی ریاست کے وجود کو شدید خطرہ لاحق ہو جاتا۔ ایوان وزیر اعظم، سپریم کورٹ، کیبنٹ بلاک، پارلیمنٹ ہاوس، ایوان صدر اور سول سیکریٹریٹ تو بہت دور کی بات ہے، اگر یہ کسی چھوٹی سی لائیبریری کے مین گیٹ کے سامنے بیٹھ جاتے تو ریاست کی رٹ پائمال ہو چکی ہوتی۔
کابینہ کی گرفتاری، اسمبلیوں کی تحلیل، غیر آئینی حکومت کے قیام کو تو ایک طرف رکھیے، اگر ان کی طرف سے قحبہ خانے اور مساج سنٹر بند کرنے کے مطالبات ہیآ جاتے تو، عالمی دنیا میں ہونے والی پاکستان کی جگ ہنسائی کے تصور سے ہی میڈیا پر ہسٹریا کے دورے پڑنا شروع ہو جاتے۔
اب تک ریاست مشینیری حرکت میں آچکی ہوتی۔ قانون اپنا راستہ بنانے میں مصروف ہوتا۔ سکیورٹی فوسسز کے بہادر اہلکار ریاستی رٹ کی بحالی کا کام مکمل کر کے وکٹری کے نشان بنا رہے ہوتے۔ شریعت کا نام لینے والوں کے جسموں کے ٹکڑے ان کے لواحقین اسلام آباد کے نالوں سے تلاش کر رہے ہوتے۔ فاسفورس بموں سے جلے ہوئے کئی کئی جسم بلا تمیزِ مرد و زن ایک تابوت میں ڈال کر جی الیون قبرستان کی نامعلوم قبروں میں اُتار دیے گئے ہوتے۔
انقلاب اور آزادی مارچ کے حوالے سے پیش آنے والے واقعات کے نتیجے میں کم ازکم ایک بات تو کنفرم ہو گئی ہے۔ مملکت خداداد اسلامی جمہوریہ پاکستان میں شریعت کے نفاذ کے مطالبے کے علاوہ، کوئی بھی اقدام یا مطالبہ آئین اور قانون سے ہرگز ہرگز متصادم نہیں ہے۔
مملکت خداداد اسلامی جمہوریہ پاکستان کے شہریو یاد رکھو، تم ہر جائز اور ناجائز مطالبہ کرسکتے ہو، ہر ناروا اقدام کرنے کے باوجود تمیں سلامتی حاصل رہے گی، جب تک تمارے لبوں پر اسلام اور شریعیت کا مطالبہ نہ آجائے۔ اگر کبھی ایسا ہوا تو پھر قانون اپنا راستہ ضرور بنائے گا۔
اگر پھر بھی کسی کے دماغ میں اسلام کے نٖفاذ کا کیڑا کلبلا رہا ہو تو اُس کے لئے عرض ہے کہ مصورِ پاکستان نے اس کا حل بہت پہلے بتا دیا تھا؎
ہو صداقت کے لئے جس دل میں مرنے کی تڑپ پیدا
پہلے اپنے پیکرِ خاکی میں جاں پیدا کرے
پھونک ڈالے یہ زمین و آسمانِ مستعار
اور خاکستر سے آپ اپنا جہاں پیدا کرے
اس سے کوئی فرق نہیں پڑا، باوجود اس کہ یہ ہجوم ڈنڈے لہراتا ملک کے حساس ترین مقام ریڈ زون میں داخل ہو گیا۔ راستے کے ایک طرف کھڑے پولیس والوں پر ڈنڈے برسا کر انہیں زخمی کیا گیا۔ اس کی وجہ سے 99 فیصد سفارتکار اور سفارتخانوں کا عملہ ڈپلومیٹک ایونیو میں عملا محصورہو چکا ہے۔ اس ہجوم کے قبضے کی وجہ سے شاہرائے دستور پر واقعے ایوان وزیر اعظم، سپریم کورٹ، فیڈرل شریعیت کورٹ، کیبنٹ بلاگ، پارلیمنٹ ہاوس، ایوان صدر اور سول سیکریٹریٹ سمیت دیگر اداروں میں ہونے والا روزمرہ کا کام رُک گیا ہے اور حکومتی فعالیت معطل ہو کر رہ گئی ہے۔
اس ہجوم کا ایک سرغنہ کھلم کھلا اعلان کر رہا ہے کہ وہ وزیراعظم ہاؤس گُھس کر ملک کے منتخب وزیر اعظم کو گھسیٹ کر باہر نکال دے گا۔ دوسرا سرغنہ یہ حکم جاری کر رہا ہے کہ وزیراعظم کو اس کی تمام کابینہ سمیت گرفتار کیا جائے۔ تمام اسمبلیوں کو تحلیل کر دیا جائے۔ ایک طویل المدتی غیر آئینی حکومت قائم ہو۔
اس سب کے باوجود نہ تو کوئی سکیورٹی فورس حرکت میں آئی ہے۔ نہ ہی آزاد میڈیا اس تمام صورتحال میں کسی قسم کی کوئی غلطی یا برائی ڈھونڈ پایا ہے۔ اس قابض ہجوم پر نہ ہی لاٹھی چارچ ہوا ہے، نہ انسو گیس کا کوئی شیل فائر کیا گیا، نہ کوئی گرفتاری عمل میں آئی ہے۔ گولی چلائے جانے کا تو کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
ہاں اگر اس ہجوم نے اگر شریعیت کے نفاذ کا مطالبہ کیا ہوتا تو! ان کے ہاتھوں میں موجود ڈنڈوں سے ریاست کا وقار سخت مجروع ہو چکا ہوتا۔ ریڈ زون کی طرف قدم اٹھانا تو دور کی بات ہے آنکھ اٹھا کر دیکھنے سے پہلے ہی ریاست کے وجود کو شدید خطرہ لاحق ہو جاتا۔ ایوان وزیر اعظم، سپریم کورٹ، کیبنٹ بلاک، پارلیمنٹ ہاوس، ایوان صدر اور سول سیکریٹریٹ تو بہت دور کی بات ہے، اگر یہ کسی چھوٹی سی لائیبریری کے مین گیٹ کے سامنے بیٹھ جاتے تو ریاست کی رٹ پائمال ہو چکی ہوتی۔
کابینہ کی گرفتاری، اسمبلیوں کی تحلیل، غیر آئینی حکومت کے قیام کو تو ایک طرف رکھیے، اگر ان کی طرف سے قحبہ خانے اور مساج سنٹر بند کرنے کے مطالبات ہیآ جاتے تو، عالمی دنیا میں ہونے والی پاکستان کی جگ ہنسائی کے تصور سے ہی میڈیا پر ہسٹریا کے دورے پڑنا شروع ہو جاتے۔
اب تک ریاست مشینیری حرکت میں آچکی ہوتی۔ قانون اپنا راستہ بنانے میں مصروف ہوتا۔ سکیورٹی فوسسز کے بہادر اہلکار ریاستی رٹ کی بحالی کا کام مکمل کر کے وکٹری کے نشان بنا رہے ہوتے۔ شریعت کا نام لینے والوں کے جسموں کے ٹکڑے ان کے لواحقین اسلام آباد کے نالوں سے تلاش کر رہے ہوتے۔ فاسفورس بموں سے جلے ہوئے کئی کئی جسم بلا تمیزِ مرد و زن ایک تابوت میں ڈال کر جی الیون قبرستان کی نامعلوم قبروں میں اُتار دیے گئے ہوتے۔
انقلاب اور آزادی مارچ کے حوالے سے پیش آنے والے واقعات کے نتیجے میں کم ازکم ایک بات تو کنفرم ہو گئی ہے۔ مملکت خداداد اسلامی جمہوریہ پاکستان میں شریعت کے نفاذ کے مطالبے کے علاوہ، کوئی بھی اقدام یا مطالبہ آئین اور قانون سے ہرگز ہرگز متصادم نہیں ہے۔
مملکت خداداد اسلامی جمہوریہ پاکستان کے شہریو یاد رکھو، تم ہر جائز اور ناجائز مطالبہ کرسکتے ہو، ہر ناروا اقدام کرنے کے باوجود تمیں سلامتی حاصل رہے گی، جب تک تمارے لبوں پر اسلام اور شریعیت کا مطالبہ نہ آجائے۔ اگر کبھی ایسا ہوا تو پھر قانون اپنا راستہ ضرور بنائے گا۔
اگر پھر بھی کسی کے دماغ میں اسلام کے نٖفاذ کا کیڑا کلبلا رہا ہو تو اُس کے لئے عرض ہے کہ مصورِ پاکستان نے اس کا حل بہت پہلے بتا دیا تھا؎
ہو صداقت کے لئے جس دل میں مرنے کی تڑپ پیدا
پہلے اپنے پیکرِ خاکی میں جاں پیدا کرے
پھونک ڈالے یہ زمین و آسمانِ مستعار
اور خاکستر سے آپ اپنا جہاں پیدا کرے