حافظ محمد عمر
مشہور رکن
- شمولیت
- مارچ 08، 2011
- پیغامات
- 427
- ری ایکشن اسکور
- 1,542
- پوائنٹ
- 109
اصل پہلوان وہ ہے جو غصے پر قابو پائے
عَنْ أَبِى هُرَيْرَةَ - رضى الله عنه - أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ - صلى الله عليه وسلم - قَالَ « لَيْسَ الشَّدِيدُ بِالصُّرَعَةِ ، إِنَّمَا الشَّدِيدُ الَّذِى يَمْلِكُ نَفْسَهُ عِنْدَ الْغَضَبِ » [متفق علیه]
’’حضرت ابو ہریرۃ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’ بہت زیادہ طاقتور وہ نہیں جو (مقابل کو) بہت زیادہ بچھاڑنے والا ہے ، بہت زیادہ طاقتور صرف وہ ہے جو غصے کے وقت اپنے آپ پر قابو رکھے۔‘‘
تشریح:
1۔ قرآن مجید میں اللہ تعالی نے غصے پر قابو پان والوں کی تعریف فرمائی ہے:
﴿وَالَّذِينَ يَجْتَنِبُونَ كَبَائِرَ الْإِثْمِ وَالْفَوَاحِشَ وَإِذَا مَا غَضِبُوا هُمْ يَغْفِرُونَ﴾ [الشوری: 42/ 37]
’’ وہ لوگ جو بڑے گناہوں اور بے حیائی کے کاموں سے بچتے ہیں اور جب غصے میں آتے ہیں تو معاف کر دیتے ہیں۔‘‘
اور فرمایا:
﴿الَّذِينَ يُنْفِقُونَ فِي السَّرَّاءِ وَالضَّرَّاءِ وَالْكَاظِمِينَ الْغَيْظَ﴾ [آلعمران: 3/ 134]
’’ وہ لوگ جو خوشی اور تکلیف میں خرچ کرتے ہیں اور غصے کو پی جانے والے ہیں۔‘‘
2۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کچھ لوگوں کے پاس سے گذرے جو کشتی کر رہے تھے۔ فرمایا:
’’ کیا ہو رہا ہے؟ ‘‘ انہوں نے کہا: ’’ فلاں آدمی جس سے بھی کشتی کرتا ہے اسے ( گرا) بچھاڑ دیتا ہے۔ ‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ میں تمہیں اس سے زیادہ طاقت والا آدمی نہ بتاؤں ؟ وہ آدمی جس سے کسی آدمی نے (غصہ دلانے والی) بات کی تو وہ اپنے غصے کو پی گیا، پس اس پر غالب آ گیا ، اپنے شیطان پر غالب آ گیا اور اپنے ساتھی کے شیطان پر غالب آ گیا۔‘‘ [رواہ البزار بسند حسن فتح الباری: 10، کتاب الادب، باب: 76]
صحیح مسلم میں ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’ تم اپنے آپ سے ’’ الصرعۃ‘‘ بچھاڑنے والا صرف وہ ہے جو غصے کے وقت اپنے نفس پر قابو رکھے۔‘‘
3۔ غصے پر قابو پانے کے لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کئی طریقے سکھائے ہیں، سب سے پہلے تو یہ سمجھنا چاہیے کہ غصے کو بھڑکانا، اصل میں شیطان کی طرف سے ہوتا ہے۔ اس لیے اس کا علاج بھی یہی ہے کہ شیطان سے بچنے کے لئے اللہ تعالی کی پناہ طلب کی جائے۔
اللہ تعالی نے فرمایا:
﴿وَإِمَّا يَنْزَغَنَّكَ مِنَ الشَّيْطَانِ نَزْغٌ فَاسْتَعِذْ بِاللَّهِ إِنَّهُ سَمِيعٌ عَلِيمٌ﴾ [ الأعراف: 7/ 200]
’’ اگر تمہیں شیطان کی طرف سے چو کا لگے (یعنی شیطان غصے کو مشتعل کر دے) تو اللہ کی پناہ مانگ یقینا وہی سننے والا ، جاننے والا ہے۔‘‘
سلیمان بن صرد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھا تھا، وہ آدمی آپس میں گالی گلوچ کر رہے تھے ان میں سے ایک کا چہرہ سرخ ہو گیا او رگلے کی رگیں پھول گئیں تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’ مجھے ایک ایسا کلمہ معلوم ہے کہ کہ اگر یہ وہ کلمہ کہہ لے تو اس کی یہ حالت ختم ہو جائے اگر یہ کہہ لے :
( أعوذ باللہ من الشیطن الرجیم) تو جو کچھ اس پر گزر رہی ہے ختم ہو جائے۔ الحدیث ۔[ بخاری: 3282] ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
«إِذَا غَضِبَ أَحَدُكُمْ فَلْيَسْكُتْ »
’’ جب تم میں سے کسی کو غصہ آئے توخاموش ہو جائے۔‘‘ [احمد، صحیح الجامع: 693]
4۔ حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ حقیقی قوت جسمانی قوت نہیں بلکہ معنوی قوت ہے، تو جس طرح اجنبی دشمنوں سے جواللہ کے دین کی مخالفت کریں، مقابلہ ضروری ہے اور اس کے لئے قوت کی ضرورت ہے۔ اسی طرح نفس جب اللہ کے احکام کی مخالفت پر اتر آئے خصوصا جب وہ غصے میں مشغول ہو چکا ہو اور شیطان اس کو برابر بھڑکا ہو۔ زبان سے گالی گلوچ ، ہاتھ سے مارنے اور قتل کرنے پر آمادہ ہو ، چہرہ سرخ بلکہ سیاہ ہو چکا ہو ، جسم پر کپکپی طاری ہو، رگیں پھول چکی ہوں، دل بغض اور کینے سے بھر چکا ہو، اس وقت اس کا مقابلہ اور اس بر قابو پانا اجنبی دشمن پر قابو پانے سے بھی مشکل ہے ا س لیے جو اس پر قابو اس نے گویا کئی حریفوں کو زیر کیا، اس لیے اصل بہادر اور پہلوان وہ ہے۔
5۔ غصہ ایک طبعی خصلت ہے اسے روکنے اور اس پر قابو پانے کا حکم اس وقت ہے جب اس کی وجہ سے اللہ کے احکام کی مخالفت لازم آ رہی ہو، ہاں اللہ کے احکام کی حفاظت کے لئے، اللہ کی نہ فرمانی کو روکنے اور اللہ کے دشمنوں سے لڑنے کے لئے غصہ آئے تو قابل تعریف ہے اور اللہ کی عطا کی ہوئی بہت بڑی نعمت ہے، اللہ کے احکام کی پامالی کو دیکھ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی سخت غصے میں آ جاتے تھے۔ امام بخاری نے صحیح میں اس سلسلے میں پانچ احادیث بیان کی ہیں، دیکھئے: [کتاب الادب ، باب ما یجوز من الغضب والشدۃ لأمر اللہ تعالی]
اور اللہ تعالی نے فرمایا:
﴿يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ جَاهِدِ الْكُفَّارَ وَالْمُنَافِقِينَ وَاغْلُظْ عَلَيْهِمْ﴾ [التحریم: 66/ 9، التوبة:73]
’’اے نبی ! کفار اور منافقین سے جہاد کر اور ان پر سختی کر۔‘‘