ابو زہران شاہ
مبتدی
- شمولیت
- اگست 02، 2018
- پیغامات
- 69
- ری ایکشن اسکور
- 11
- پوائنٹ
- 22
اصل السنۃ واعتقادالدین
امام ابو محمد عبدالرحمٰن بن ابی حاتم الرازی رحمہ اللہ
(۱) قال السمعانی : ’’شیخ صالح خیر کثیر العبادۃ‘‘ توفی ۵۵۴ ھ (سیر اعلام النبلاء ۲۰ /۳۴۱) (۲) ۔۔۔العالم المسند ، توفی ۵۱۶ ھ (سیر اعلام النبلاء ۱۹ /۳۸۶) (۳) وکان صدوقًا دینًا ، توفی ۴۴۵ ھ (تاریخ بغداد ج ۶ ص ۱۳۹ ، سیر اعلام النبلاء ج ۱۷ ص ۶۰۵ ، ۶۰۷) (۴) وکان ثقہ ، توفی ۳۸۷ ھ (تاریخ بغداد ج ۱۲ ص ۳۰) (۵) قال ابو الولید الباحی : ثقہ حافظ ، توفی ۳۸۷ ھ (سیر اعلام النبلاء ۱۳ /۲۶۷) (۶) ابو حاتم الرازی : من الأئمۃ الحفاظ الأثبات ، توفی ۲۷۷ ھ (تاریخ بغداد ج ۲ ص ۷۳ ، سیر اعلام النبلاء ج ۱۳ ص ۲۴۷ ، ۲۶۲) (۷) إمام حافظ ثقۃ مشھور ، توفی ۲۶۴ ھ (التقریب : ۴۳۱۶)
امام ابو محمد عبدالرحمٰن بن ابی حاتم الرازی رحمہ اللہ
[أخبرنا أبو زید الشامی(۱) قراء ۃ علیہ ، قال : أخبرنا الشیخ أبو طالب(۲) عبدالقادر بن محمد بن عبدالقادر بن محمد بن یوسف قراءۃ علیہ وھو یسمع
وأنا أ سمع فاقربہ ، قال أخبرنا الشیخ أبوإسحاق(۳) إبراھیم بن عمر بن أحمد البرمکی رحمہ اللّٰہ ، قال :] حدثنا أبو الحسن علی (۴) بن عبدالعزیز [بن مردک بن أحمد البرذعی] ، قال : أخبرنا أبو محمد عبدالرحمٰن بن أبی حاتم (۵) [أسعدہ اللّٰہ ورضی اللّٰہ عنہ] قال : سألت أبی (۶) و أبا زرعۃ (۷) رضی اللّٰہ عنہما عن مذاھب أھل[السنۃ] فی أصول الدین ، وما أدر کا علیہ العلماء فی جمیع الأمصار ، وما یعتقدان من ذلک ، فقالا : أدرکنا العلماء فی جمیع الأ مصار
حجازًا وعراقًا ومصرًا وشامًا ویمنًا ، فکان من مذھبھم :
امام ابو محمد عبدالرحمٰن ابی حاتم الرازی رحمہ اللہ نے فرمایا : میں نے اپنے والد(ابو حاتم الرازی) اور ابوزرعہ (الرازی) رحمہما اللہ سے اصول دین میں مذاہبِ اہل سنت کے بارے میں پوچھا اور (یہ کہ )انھوں نے تمام شہروں کے علماء کو کس(عقیدے) پر پایا ہے اور آپ دونوں کا کیا عقیدہ ہے؟ تو انھوں نے جواب دیا : ہم نے حجاز، عراق، مصر، شام اور یمن کے تمام شہروں میں علماء کو اس (درج ذیل) مذہب پر پایا :
(۱)۔ إن الإيمان قول وعمل، يزيد وينقص۔
بے شک ایمان قول و عمل(کا نام) ہے (اور یہ) زیادہ ہوتا ہے اور کم ہوتا ہے۔
(۲)۔ والقرآن كلام الله غير مخلوق بجميع جهاته۔
قرآن الکریم ہر لحاظ سے اللہ سبحانہ وتعالٰی کا کلام ہے، مخلوق نہیں ہے۔
(۳)۔ والقدر خيره وشره من الله [عز وجل]۔
اچھی اور بری تقدیر، اللہ سبحانہ وتعالٰی کی طرف سے ہے۔
(۴)۔ وخير هذه الأمة بعد نبيها أبو بكر الصديق، ثم عمر بن الخطاب، ثم عثمان بن عفان، ثم علي بن ابی طالب رضي الله عنهم
وهم الخلفاء الراشدون المهديون۔
نبی اکرم ﷺ کے بعد اس امت میں سب سے بہتر ابو بکر صدیق ہیں پھر عمر بن الخطاب، پھر عثمان بن عفان، پھر علی بن ابی طالب رضی اللہ عنھم اور یہی خلفاء راشدین مہدیین ہیں۔
(۵)۔ وأن العشرة الذين سماهم رسول الله ﷺ وشهد لهم بالجنة على ما شهد بہ، وقوله الحق۔
عشرہ (مبشرہ) جن کے بارے میں رسول اللہ ﷺ نے جنتی ہونے کی گواہی دی ہے (ہمارے نزدیک) وہ جنتی ہیں اور آپ ﷺ کی بات حق ہے۔
(۶)۔ والترحم على جميع أصحاب محمد ﷺ ، والكف عما شجر بينهم۔
محمد ﷺ کے تمام صحابہ کے بارے میں رحمت(اور رضی اللہ عنھم) کی دعا مانگنی چاہئے اور ان کے درمیان جو اختلافات تھے ان کے بارے میں سکوت کرنا چاہئے۔
(۷)۔ وأن الله عزوجل علٰى عرشه بائن من خلقه، كما وصف نفسه في كتابه على لسان رسوله [ﷺ] ، بلا كيف ، أحاط بكل شيء علما.
ليس كمثله شيء وهو السميع البصير۔
اللہ سبحانہ وتعالٰی اپنے عرش پر بغیر(سوال) کیفیت(مستوی) ہے، اپنی مخلوق سے(بلحاظِ ذات) جدا ہے جیسا کہ اس نے اپنی کتاب(قرآن الکریم) میں اور رسول اللہ ﷺ کی زبان(مبارک پر) بیان فرمایا ہے۔ اس نے ہر چیز کو علم سے گھیر رکھا ہے، اس کی مثل کوئی چیز نہیں اور وہ سننے اور دیکھنے والا ہے۔
(۸)۔ والله تبارك وتعالى يُرى في الآخرة، ويراه أهل الجنة بأبصارهم ويسمعون كلامه كيف شاء وكما شاء۔
اللہ سبحانہ وتعالٰی آخرت میں نظر ائے گا، جنتی لوگ اسے اپنی آنکھوں سے دیکھیں گے(اسی کا) کام ہے جیسے چاہے اور جب چاہے۔
(۹)۔ والجنة[ حق]، والنار حق، وهما مخلوقتان [لا يفنيان أبدًا] : فالجنة ثواب لأوليائه، والنار عقاب لأهل معصيته، إلا من رحم۔
جنت حق ہے، جہنم حق ہے، اور یہ دونوں مخلوق ہیں کبھی فنانہ ہوں گی، اللہ سبحانہ وتعالٰی کے دوستوں کے لئے جنت کا بدلہ ہے، اور ان کے نافرمانوں کے لئے جہنم کا عذاب ہے سوائے ان کے جن پر وہ(اللہ سبحانہ وتعالٰی) رحم رفرمائے۔
(۱۰)۔ والصراط حق۔
(پل) صراط حق ہے۔
(۱۱)۔ والميزان [الذي] له كفتان يوزن فيه أعمال العباد حسنها وسيئها حق ۔
میزان(ترازو) کے دو پلڑے ہیں جن میں بندوں کے اچھے اور بُرے اعمال تولے چائیں گے۔
(۱۲)۔ والحوض المكرم به نبينا ﷺحق والشفاعة حق۔
نبی اکرمﷺ کا حوض کوثر حق ہے، اور شفاعت حق ہے۔
(۱۳)۔ وأن ناسًا من أهل التوحيد يخرجون من النار بالشفاعة حق۔
اہل توحید(مسلمانوں) میں سے (بعض) لوگوں کا (آپﷺ کی) شفاعت کے زریعے سے (جہنم کی) آگ سے نکلنا حق ہے۔
(۱۴)۔وعذاب القبر حق ۔
عذابِ قبر حق ہے۔
(۱۵)۔ ومنكر ونكير [حق]۔
منکر و نکیر (قبر میں سوال و جواب والے فرشتے) حق ہیں۔
(۱۶)۔ والكرام الكاتبون حق۔
کرامًا کاتبین (اعمال لکھنے والے فرشتے) حق ہے۔
(۱۷)۔ والبعث بعد الموت حق۔
موت کے بعد دوبارہ زندہ ہونا حق ہے۔
(۱۸)۔ وأهل الكبائر في مشيئة الله عز وجل ، لا نكَّفر أهل القبلة بذنوبهم ، ونكل سرائرهم إلى الله عز وجل۔
کبیرہ گناہ کرنے والوں کا معاملہ اللہ سبحانہ وتعالٰی کی مشیت(اور ارادے) پر ہے (چاہے تو عذاب دے، چاہے تو بخش دے) ہم اہل قبلہ (مسلمانوں) کے گناہوں کی وجہ سے ان کی تکفیر نہیں کرتے، ہم ان کا معاملہ اللہ سبحانہ وتعالٰی کے سپرد کرتے ہیں۔
(۱۹)۔ ونقيم فرض الجهاد والحج مع أئمة المسلمين في كل دهر وزمان۔
ہر زمانے(اور علاقے) میں ہم مسلمان حکمرانوں کے ساتھ جہاد اور حج کی فرضیت پر عمل پیرا ہیں۔
(۲۰)۔ ولا نرى الخروج على الأئمة ولا القتال في الفتنة۔
ہم(مسلمان) حکمرانوں کے خلاف بغاوت کے قائل نہیں ہیں اور نہ فتنے(کے دور) میں (ایک دوسرے سے) قتال کے قائل ہیں۔
(۲۱)۔ ونسمع ونطيع لمن ولاه [الله أمرنا] ولا ننزع يدًا من طاعة۔
اللہ سبحانہ وتعالٰی نے جسے ہمارا حاکم بنایا ہے، ہم اس کی سنتے ہیں اور اطاعت کرتے ہیں اور اطاعت سے اپنا ہاتھ نہیں کھینچتے۔
(۲۲)۔ ونتبع السنة والجماعة ونتجنب الشذوذ والخلاف والفرقة۔
ہم (اہل) سنت والجماعت (کے اجماع) کی پیروی کرتے ہیں اور شزوذ، اختلاف اور فرقہ بازی سے اجتناب کرتے ہیں۔
(۲۳)۔ وأن الجهاد ماضٍ منذ بعث الله [عز وجل] نبيه ﷺ إلى قيام الساعة مع أولي الأمر من أئمة المسلمين، لايبطله شيء۔
جب سے اللہ سبحانہ وتعالٰی نے اپنی نبی اکرمﷺ کو (نبی و رسول بناکر) مبعوث فرمایا ہے، مسلمان حکمرانوں کے ساتھ مل کر(کافروں کے خلاف) جہاد جاری رہے گا۔ اسے کوئی چیز باطل نہیں کرے گی(یعنی جہاد ہمیشہ جاری رہے گا)
(۲۴)۔ والحج كذلك۔
اور یہی معاملہ حج کا(بھی) ہے۔
(۲۵)۔ ودفع الصدقات من السوائم إلى أولي الأمر من [أئمة] المسلمين۔
مسلمان حکمرانوں کے پاس جانوروں(اور دیگر اموال) کے صدقات(زکوۃ، عشر) جمع کرائے جائیں گے۔
(۲۶)۔ والناس مؤمنون في أحكامهم ومواريثهم، ولا يُدرى ما هم عند الله [عز وجل] فمن قال : إنہ مؤمن حقًا فھو مبتدع ومن قال : ھو مؤمن عنداللّٰہ
فھو من الکاذبین ومن قال : إنی مؤمن باللّٰہ فھو مصیب۔
لوگ اپنے احکام اور وراثت میں مومن ہیں، اور اللہ سبحانہ وتعالٰی کے ہاں ان کا کیا مقام ہے معلوم نہیں، جو شخص اپنے بارے میں کہتا ہے کہ وہ یقیناً مومن ہے تو وہ شخص بدعتی ہے، اور جو شخص یہ دعویٰ کرتا ہے کہ وہ اللہ سبحانہ وتعالٰی کے ہاں(بھی) مومن ہے تو ایسا شخص جھوٹوں میں سے ہے۔ اور جو یہ کہتا ہے کہ میں اللہ سبحانہ وتعالٰی کے ساتھ مومن (یعنی اللہ سبحانہ وتعالٰی پر ایمان رکھتا) ہوں تو یہ شخص (صحیح) مصیب ہے۔
(۲۷)۔ والمرجئة مبتدعة ۔
مرجئہ بدعتی گمراہ ہیں۔
(۲۸)۔ والقدرية مبتدعة ضلال، ومن أنكر منهم أن الله [عز وجل] يعلم ما يكون قبل أن يكون فهو كافر۔
قدریہ (تقدیر کا انکار کرنے والے) بدعتی گمراہ ہیں اور ان میں سے جو شخص یہ دعوی کرے کہ اللہ سبحانہ وتعالٰی، کسی کام کے ہونے سے پہلے اس کا علم نہیں رکھتا تو ایسا شخص کافر ہے۔
(۲۹)۔ وأن الجهمية كفار۔
جہمیہ کفار ہیں۔
(۳۰)۔ و[أن] الرافضة رفضوا الإسلام۔
رافضیوں نے اسلام چھوڑ دیا ہے۔
(۳۱)۔ والخوارج مُرّاق۔
خوارج (دین سے) نکلے ہوئے ہیں۔
(۳۲)۔ ومن زعم أن القرآن مخلوق فهو كافر [بالله العظيم] - كفرًا ينقل من الملة ومن شك في كفره ممن يفهم فهو كافر۔
جو شخص یہ کہتا ہے کہ قرآن الکریم مخلوق ہے تو وہ کافر ہے، ملت (اسلامیہ) سے خارج ہے۔ اور جو شخص سوجھ بوجھ (اور اقامت حجت) کے باوجود اس شخص کے کفر میں شک کرے تو وہ(بھی) کافر ہے۔
(۳۳)۔ ومن شك في كلام الله [عز وجل-] فوقف شاكًا فيه يقول : لا أدري مخلوق أو غير مخلوق فهو جهمي۔
جو شخص اللہ سبحانہ وتعالٰی کے کلام کے بارے میں شک کرتے ہوئے توقف کرے اور کہے کہ مجھے پتا نہیں کہ مخلوق ہے یا غیر مخلوق تو ایسا شخص جہمی ہے۔
(۳۴)۔ ومن وقف في القرآن جاهلا عُلِّمَ وبُدِّع ولم يُكفَّر۔
جو جاہل شخص قرآن الکریم کے بارے میں توقف کرے تو اسے سمجھایا جائے گا، اُسے بدعتی سمجھا جائے گا اور اُس کی تکفیر نہیں کی جائی گی۔
(۳۵)۔ ومن قال لفظي بالقرآن مخلوق ، أو القرآن بلفظي مخلوق فهو جهمي۔
جو شخص لفظی بالقرآن(میرے الفاظ جن سے میں قرآن مجید پڑھتا ہوں) یا القرآن بلفظی مخلوق(قرآن الکریم میرے الفاظ کے ساتھ مخلوق) کہے تو وہ جہمی(گمراہ) ہے۔
[قال الشیخ أبو طالب : قال إبراھیم بن عمر : قال علی بن عبدالعزیز] قال أبو محمد : وسمعت أبی ؓ یقول :
ابوحاتم الرازی رحمہ اللہ نے فرمایا :
(۳۶)۔ علامة أهل البدع : الوقيعة في أهل الأثر۔
اہل بدعت کی یہ علامت ہے کہ وہ اہل اثر(اہل الحدیث) پر حملہ کرتے ہیں۔
(۳۷)۔ وعلامة الزنادقة : تسميتهم أهل الأثر حشوية ، يريدون إبطال الآثار۔
زنادقہ کی علامت یہ ہے کہ وہ اہل اثر(اہل الحدیث) کو حشویہ(ظاہر پرست فرقہ) کہتے ہیں، اس سے ان کا مقصود احادیث کا انکار ہے۔
(۳۸)۔ وعلامة الجهمية : تسميتهم أهل السنة مشبَّهة۔
جہمیہ کی علامات یہ ہے کہ وہ اہل سنت کو مشبہ(ایک گمراہ فرقہ جو خالق کو مخلوق سے تشبیہ دیتا ہے) کہتے ہیں۔
(۳۹)۔ وعلامة القدرية : تسميتهم أهل السنة مجبرة۔
قدریہ کی علامت یہ ہے کہ وہ اہل سنت کو مجبرہ(وہ گمراہ فرقہ جس کا نظریہ ہے کہ انسان سے جو فعل صادر ہوتا ہے وہ اختیاری نہیں بلکہ وہ اس کے کرنے پر مجبور ہے) کہتے ہیں۔
(۴۰)۔ وعلامة المرجئة : تسميتهم أهل السنة مخالفة ونقصانية۔
مرجئہ کی (ایک) علامت یہ ہے کہ وہ اہل سنت کو مخالفہ اور نقصانیہ کہتے ہیں۔
(۴۱)۔ وعلامة الرافضة : تسميتھم أهل السنة ثانیۃ۔
رافضہ کی علامت یہ ہے کہ وہ اہل سنت کو ثانیہ(نابتہ، ناصبیہ) کہتے ہیں۔
(۴۲)۔ [ وظل هذا أمر عصبات معصيات ] ، ولا يلحق أهل السنة إلا اسم واحد ويستحيل أن يجمعھم هذه الأسامي۔
ان تمام(برے ناموں) کی بنیاد(بدعات) تعصب اور معصیت پر ہے، اہل سنت کا ایک ہی نام ہے اور یہ محال ہے کہ ان کے بہت سے(خود ساختہ) نام اکٹھے ہوجائیں۔
(۴۳)۔ حدثنا أبو محمد ، قال : [و] سمعت أبی و أبا زرعۃ يأمران یهجران أهل الزيغ والبدع ، ويغلطان رأيهما أشد تغليط ، وينكران وضع الكتب بالرأي
بغير آثار ، وينهيان عن مجالسة أهل الكلام ، وعن النظر في كتب المتكلمين ، ويقولان : لا يُفلح صاحب كلام أبدًا۔
ابو حاتم اور ابو زرعہ رحمہم اللہ دونوں گمراہوں اور بدعتیوں سے ہجر (بائیکاٹ) کرتے تھے اور ان کی (غلط) آراء کا شدید رد کرتے تھے۔ احادیث کے بغیر رائے والی کتابیں لکھنے کی پُرزور تردید کرتے تھے۔ اہل کلام(منطق و فلسفے والوں) کی مجلس اور متکلمین کی کتابیں دیکھنے سے منع کرتے تھے اور کہتے کہ صاحب کلام کبھی فلاح نہیں باتا (اِلا یہ کہ مرنے سے پہلے توبہ کرلے۔)
وأنا أ سمع فاقربہ ، قال أخبرنا الشیخ أبوإسحاق(۳) إبراھیم بن عمر بن أحمد البرمکی رحمہ اللّٰہ ، قال :] حدثنا أبو الحسن علی (۴) بن عبدالعزیز [بن مردک بن أحمد البرذعی] ، قال : أخبرنا أبو محمد عبدالرحمٰن بن أبی حاتم (۵) [أسعدہ اللّٰہ ورضی اللّٰہ عنہ] قال : سألت أبی (۶) و أبا زرعۃ (۷) رضی اللّٰہ عنہما عن مذاھب أھل[السنۃ] فی أصول الدین ، وما أدر کا علیہ العلماء فی جمیع الأمصار ، وما یعتقدان من ذلک ، فقالا : أدرکنا العلماء فی جمیع الأ مصار
حجازًا وعراقًا ومصرًا وشامًا ویمنًا ، فکان من مذھبھم :
امام ابو محمد عبدالرحمٰن ابی حاتم الرازی رحمہ اللہ نے فرمایا : میں نے اپنے والد(ابو حاتم الرازی) اور ابوزرعہ (الرازی) رحمہما اللہ سے اصول دین میں مذاہبِ اہل سنت کے بارے میں پوچھا اور (یہ کہ )انھوں نے تمام شہروں کے علماء کو کس(عقیدے) پر پایا ہے اور آپ دونوں کا کیا عقیدہ ہے؟ تو انھوں نے جواب دیا : ہم نے حجاز، عراق، مصر، شام اور یمن کے تمام شہروں میں علماء کو اس (درج ذیل) مذہب پر پایا :
(۱)۔ إن الإيمان قول وعمل، يزيد وينقص۔
بے شک ایمان قول و عمل(کا نام) ہے (اور یہ) زیادہ ہوتا ہے اور کم ہوتا ہے۔
(۲)۔ والقرآن كلام الله غير مخلوق بجميع جهاته۔
قرآن الکریم ہر لحاظ سے اللہ سبحانہ وتعالٰی کا کلام ہے، مخلوق نہیں ہے۔
(۳)۔ والقدر خيره وشره من الله [عز وجل]۔
اچھی اور بری تقدیر، اللہ سبحانہ وتعالٰی کی طرف سے ہے۔
(۴)۔ وخير هذه الأمة بعد نبيها أبو بكر الصديق، ثم عمر بن الخطاب، ثم عثمان بن عفان، ثم علي بن ابی طالب رضي الله عنهم
وهم الخلفاء الراشدون المهديون۔
نبی اکرم ﷺ کے بعد اس امت میں سب سے بہتر ابو بکر صدیق ہیں پھر عمر بن الخطاب، پھر عثمان بن عفان، پھر علی بن ابی طالب رضی اللہ عنھم اور یہی خلفاء راشدین مہدیین ہیں۔
(۵)۔ وأن العشرة الذين سماهم رسول الله ﷺ وشهد لهم بالجنة على ما شهد بہ، وقوله الحق۔
عشرہ (مبشرہ) جن کے بارے میں رسول اللہ ﷺ نے جنتی ہونے کی گواہی دی ہے (ہمارے نزدیک) وہ جنتی ہیں اور آپ ﷺ کی بات حق ہے۔
(۶)۔ والترحم على جميع أصحاب محمد ﷺ ، والكف عما شجر بينهم۔
محمد ﷺ کے تمام صحابہ کے بارے میں رحمت(اور رضی اللہ عنھم) کی دعا مانگنی چاہئے اور ان کے درمیان جو اختلافات تھے ان کے بارے میں سکوت کرنا چاہئے۔
(۷)۔ وأن الله عزوجل علٰى عرشه بائن من خلقه، كما وصف نفسه في كتابه على لسان رسوله [ﷺ] ، بلا كيف ، أحاط بكل شيء علما.
ليس كمثله شيء وهو السميع البصير۔
اللہ سبحانہ وتعالٰی اپنے عرش پر بغیر(سوال) کیفیت(مستوی) ہے، اپنی مخلوق سے(بلحاظِ ذات) جدا ہے جیسا کہ اس نے اپنی کتاب(قرآن الکریم) میں اور رسول اللہ ﷺ کی زبان(مبارک پر) بیان فرمایا ہے۔ اس نے ہر چیز کو علم سے گھیر رکھا ہے، اس کی مثل کوئی چیز نہیں اور وہ سننے اور دیکھنے والا ہے۔
(۸)۔ والله تبارك وتعالى يُرى في الآخرة، ويراه أهل الجنة بأبصارهم ويسمعون كلامه كيف شاء وكما شاء۔
اللہ سبحانہ وتعالٰی آخرت میں نظر ائے گا، جنتی لوگ اسے اپنی آنکھوں سے دیکھیں گے(اسی کا) کام ہے جیسے چاہے اور جب چاہے۔
(۹)۔ والجنة[ حق]، والنار حق، وهما مخلوقتان [لا يفنيان أبدًا] : فالجنة ثواب لأوليائه، والنار عقاب لأهل معصيته، إلا من رحم۔
جنت حق ہے، جہنم حق ہے، اور یہ دونوں مخلوق ہیں کبھی فنانہ ہوں گی، اللہ سبحانہ وتعالٰی کے دوستوں کے لئے جنت کا بدلہ ہے، اور ان کے نافرمانوں کے لئے جہنم کا عذاب ہے سوائے ان کے جن پر وہ(اللہ سبحانہ وتعالٰی) رحم رفرمائے۔
(۱۰)۔ والصراط حق۔
(پل) صراط حق ہے۔
(۱۱)۔ والميزان [الذي] له كفتان يوزن فيه أعمال العباد حسنها وسيئها حق ۔
میزان(ترازو) کے دو پلڑے ہیں جن میں بندوں کے اچھے اور بُرے اعمال تولے چائیں گے۔
(۱۲)۔ والحوض المكرم به نبينا ﷺحق والشفاعة حق۔
نبی اکرمﷺ کا حوض کوثر حق ہے، اور شفاعت حق ہے۔
(۱۳)۔ وأن ناسًا من أهل التوحيد يخرجون من النار بالشفاعة حق۔
اہل توحید(مسلمانوں) میں سے (بعض) لوگوں کا (آپﷺ کی) شفاعت کے زریعے سے (جہنم کی) آگ سے نکلنا حق ہے۔
(۱۴)۔وعذاب القبر حق ۔
عذابِ قبر حق ہے۔
(۱۵)۔ ومنكر ونكير [حق]۔
منکر و نکیر (قبر میں سوال و جواب والے فرشتے) حق ہیں۔
(۱۶)۔ والكرام الكاتبون حق۔
کرامًا کاتبین (اعمال لکھنے والے فرشتے) حق ہے۔
(۱۷)۔ والبعث بعد الموت حق۔
موت کے بعد دوبارہ زندہ ہونا حق ہے۔
(۱۸)۔ وأهل الكبائر في مشيئة الله عز وجل ، لا نكَّفر أهل القبلة بذنوبهم ، ونكل سرائرهم إلى الله عز وجل۔
کبیرہ گناہ کرنے والوں کا معاملہ اللہ سبحانہ وتعالٰی کی مشیت(اور ارادے) پر ہے (چاہے تو عذاب دے، چاہے تو بخش دے) ہم اہل قبلہ (مسلمانوں) کے گناہوں کی وجہ سے ان کی تکفیر نہیں کرتے، ہم ان کا معاملہ اللہ سبحانہ وتعالٰی کے سپرد کرتے ہیں۔
(۱۹)۔ ونقيم فرض الجهاد والحج مع أئمة المسلمين في كل دهر وزمان۔
ہر زمانے(اور علاقے) میں ہم مسلمان حکمرانوں کے ساتھ جہاد اور حج کی فرضیت پر عمل پیرا ہیں۔
(۲۰)۔ ولا نرى الخروج على الأئمة ولا القتال في الفتنة۔
ہم(مسلمان) حکمرانوں کے خلاف بغاوت کے قائل نہیں ہیں اور نہ فتنے(کے دور) میں (ایک دوسرے سے) قتال کے قائل ہیں۔
(۲۱)۔ ونسمع ونطيع لمن ولاه [الله أمرنا] ولا ننزع يدًا من طاعة۔
اللہ سبحانہ وتعالٰی نے جسے ہمارا حاکم بنایا ہے، ہم اس کی سنتے ہیں اور اطاعت کرتے ہیں اور اطاعت سے اپنا ہاتھ نہیں کھینچتے۔
(۲۲)۔ ونتبع السنة والجماعة ونتجنب الشذوذ والخلاف والفرقة۔
ہم (اہل) سنت والجماعت (کے اجماع) کی پیروی کرتے ہیں اور شزوذ، اختلاف اور فرقہ بازی سے اجتناب کرتے ہیں۔
(۲۳)۔ وأن الجهاد ماضٍ منذ بعث الله [عز وجل] نبيه ﷺ إلى قيام الساعة مع أولي الأمر من أئمة المسلمين، لايبطله شيء۔
جب سے اللہ سبحانہ وتعالٰی نے اپنی نبی اکرمﷺ کو (نبی و رسول بناکر) مبعوث فرمایا ہے، مسلمان حکمرانوں کے ساتھ مل کر(کافروں کے خلاف) جہاد جاری رہے گا۔ اسے کوئی چیز باطل نہیں کرے گی(یعنی جہاد ہمیشہ جاری رہے گا)
(۲۴)۔ والحج كذلك۔
اور یہی معاملہ حج کا(بھی) ہے۔
(۲۵)۔ ودفع الصدقات من السوائم إلى أولي الأمر من [أئمة] المسلمين۔
مسلمان حکمرانوں کے پاس جانوروں(اور دیگر اموال) کے صدقات(زکوۃ، عشر) جمع کرائے جائیں گے۔
(۲۶)۔ والناس مؤمنون في أحكامهم ومواريثهم، ولا يُدرى ما هم عند الله [عز وجل] فمن قال : إنہ مؤمن حقًا فھو مبتدع ومن قال : ھو مؤمن عنداللّٰہ
فھو من الکاذبین ومن قال : إنی مؤمن باللّٰہ فھو مصیب۔
لوگ اپنے احکام اور وراثت میں مومن ہیں، اور اللہ سبحانہ وتعالٰی کے ہاں ان کا کیا مقام ہے معلوم نہیں، جو شخص اپنے بارے میں کہتا ہے کہ وہ یقیناً مومن ہے تو وہ شخص بدعتی ہے، اور جو شخص یہ دعویٰ کرتا ہے کہ وہ اللہ سبحانہ وتعالٰی کے ہاں(بھی) مومن ہے تو ایسا شخص جھوٹوں میں سے ہے۔ اور جو یہ کہتا ہے کہ میں اللہ سبحانہ وتعالٰی کے ساتھ مومن (یعنی اللہ سبحانہ وتعالٰی پر ایمان رکھتا) ہوں تو یہ شخص (صحیح) مصیب ہے۔
(۲۷)۔ والمرجئة مبتدعة ۔
مرجئہ بدعتی گمراہ ہیں۔
(۲۸)۔ والقدرية مبتدعة ضلال، ومن أنكر منهم أن الله [عز وجل] يعلم ما يكون قبل أن يكون فهو كافر۔
قدریہ (تقدیر کا انکار کرنے والے) بدعتی گمراہ ہیں اور ان میں سے جو شخص یہ دعوی کرے کہ اللہ سبحانہ وتعالٰی، کسی کام کے ہونے سے پہلے اس کا علم نہیں رکھتا تو ایسا شخص کافر ہے۔
(۲۹)۔ وأن الجهمية كفار۔
جہمیہ کفار ہیں۔
(۳۰)۔ و[أن] الرافضة رفضوا الإسلام۔
رافضیوں نے اسلام چھوڑ دیا ہے۔
(۳۱)۔ والخوارج مُرّاق۔
خوارج (دین سے) نکلے ہوئے ہیں۔
(۳۲)۔ ومن زعم أن القرآن مخلوق فهو كافر [بالله العظيم] - كفرًا ينقل من الملة ومن شك في كفره ممن يفهم فهو كافر۔
جو شخص یہ کہتا ہے کہ قرآن الکریم مخلوق ہے تو وہ کافر ہے، ملت (اسلامیہ) سے خارج ہے۔ اور جو شخص سوجھ بوجھ (اور اقامت حجت) کے باوجود اس شخص کے کفر میں شک کرے تو وہ(بھی) کافر ہے۔
(۳۳)۔ ومن شك في كلام الله [عز وجل-] فوقف شاكًا فيه يقول : لا أدري مخلوق أو غير مخلوق فهو جهمي۔
جو شخص اللہ سبحانہ وتعالٰی کے کلام کے بارے میں شک کرتے ہوئے توقف کرے اور کہے کہ مجھے پتا نہیں کہ مخلوق ہے یا غیر مخلوق تو ایسا شخص جہمی ہے۔
(۳۴)۔ ومن وقف في القرآن جاهلا عُلِّمَ وبُدِّع ولم يُكفَّر۔
جو جاہل شخص قرآن الکریم کے بارے میں توقف کرے تو اسے سمجھایا جائے گا، اُسے بدعتی سمجھا جائے گا اور اُس کی تکفیر نہیں کی جائی گی۔
(۳۵)۔ ومن قال لفظي بالقرآن مخلوق ، أو القرآن بلفظي مخلوق فهو جهمي۔
جو شخص لفظی بالقرآن(میرے الفاظ جن سے میں قرآن مجید پڑھتا ہوں) یا القرآن بلفظی مخلوق(قرآن الکریم میرے الفاظ کے ساتھ مخلوق) کہے تو وہ جہمی(گمراہ) ہے۔
[قال الشیخ أبو طالب : قال إبراھیم بن عمر : قال علی بن عبدالعزیز] قال أبو محمد : وسمعت أبی ؓ یقول :
ابوحاتم الرازی رحمہ اللہ نے فرمایا :
(۳۶)۔ علامة أهل البدع : الوقيعة في أهل الأثر۔
اہل بدعت کی یہ علامت ہے کہ وہ اہل اثر(اہل الحدیث) پر حملہ کرتے ہیں۔
(۳۷)۔ وعلامة الزنادقة : تسميتهم أهل الأثر حشوية ، يريدون إبطال الآثار۔
زنادقہ کی علامت یہ ہے کہ وہ اہل اثر(اہل الحدیث) کو حشویہ(ظاہر پرست فرقہ) کہتے ہیں، اس سے ان کا مقصود احادیث کا انکار ہے۔
(۳۸)۔ وعلامة الجهمية : تسميتهم أهل السنة مشبَّهة۔
جہمیہ کی علامات یہ ہے کہ وہ اہل سنت کو مشبہ(ایک گمراہ فرقہ جو خالق کو مخلوق سے تشبیہ دیتا ہے) کہتے ہیں۔
(۳۹)۔ وعلامة القدرية : تسميتهم أهل السنة مجبرة۔
قدریہ کی علامت یہ ہے کہ وہ اہل سنت کو مجبرہ(وہ گمراہ فرقہ جس کا نظریہ ہے کہ انسان سے جو فعل صادر ہوتا ہے وہ اختیاری نہیں بلکہ وہ اس کے کرنے پر مجبور ہے) کہتے ہیں۔
(۴۰)۔ وعلامة المرجئة : تسميتهم أهل السنة مخالفة ونقصانية۔
مرجئہ کی (ایک) علامت یہ ہے کہ وہ اہل سنت کو مخالفہ اور نقصانیہ کہتے ہیں۔
(۴۱)۔ وعلامة الرافضة : تسميتھم أهل السنة ثانیۃ۔
رافضہ کی علامت یہ ہے کہ وہ اہل سنت کو ثانیہ(نابتہ، ناصبیہ) کہتے ہیں۔
(۴۲)۔ [ وظل هذا أمر عصبات معصيات ] ، ولا يلحق أهل السنة إلا اسم واحد ويستحيل أن يجمعھم هذه الأسامي۔
ان تمام(برے ناموں) کی بنیاد(بدعات) تعصب اور معصیت پر ہے، اہل سنت کا ایک ہی نام ہے اور یہ محال ہے کہ ان کے بہت سے(خود ساختہ) نام اکٹھے ہوجائیں۔
(۴۳)۔ حدثنا أبو محمد ، قال : [و] سمعت أبی و أبا زرعۃ يأمران یهجران أهل الزيغ والبدع ، ويغلطان رأيهما أشد تغليط ، وينكران وضع الكتب بالرأي
بغير آثار ، وينهيان عن مجالسة أهل الكلام ، وعن النظر في كتب المتكلمين ، ويقولان : لا يُفلح صاحب كلام أبدًا۔
ابو حاتم اور ابو زرعہ رحمہم اللہ دونوں گمراہوں اور بدعتیوں سے ہجر (بائیکاٹ) کرتے تھے اور ان کی (غلط) آراء کا شدید رد کرتے تھے۔ احادیث کے بغیر رائے والی کتابیں لکھنے کی پُرزور تردید کرتے تھے۔ اہل کلام(منطق و فلسفے والوں) کی مجلس اور متکلمین کی کتابیں دیکھنے سے منع کرتے تھے اور کہتے کہ صاحب کلام کبھی فلاح نہیں باتا (اِلا یہ کہ مرنے سے پہلے توبہ کرلے۔)
(۱) قال السمعانی : ’’شیخ صالح خیر کثیر العبادۃ‘‘ توفی ۵۵۴ ھ (سیر اعلام النبلاء ۲۰ /۳۴۱) (۲) ۔۔۔العالم المسند ، توفی ۵۱۶ ھ (سیر اعلام النبلاء ۱۹ /۳۸۶) (۳) وکان صدوقًا دینًا ، توفی ۴۴۵ ھ (تاریخ بغداد ج ۶ ص ۱۳۹ ، سیر اعلام النبلاء ج ۱۷ ص ۶۰۵ ، ۶۰۷) (۴) وکان ثقہ ، توفی ۳۸۷ ھ (تاریخ بغداد ج ۱۲ ص ۳۰) (۵) قال ابو الولید الباحی : ثقہ حافظ ، توفی ۳۸۷ ھ (سیر اعلام النبلاء ۱۳ /۲۶۷) (۶) ابو حاتم الرازی : من الأئمۃ الحفاظ الأثبات ، توفی ۲۷۷ ھ (تاریخ بغداد ج ۲ ص ۷۳ ، سیر اعلام النبلاء ج ۱۳ ص ۲۴۷ ، ۲۶۲) (۷) إمام حافظ ثقۃ مشھور ، توفی ۲۶۴ ھ (التقریب : ۴۳۱۶)