• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اعفاء لحیہ اور ائمہ اربعہ

شمولیت
اپریل 27، 2020
پیغامات
509
ری ایکشن اسکور
167
پوائنٹ
77
اعفاء لحیہ اور ائمہ اربعہ

تحریر : أبو رجب الحنبل

[ اعفاء لحیہ اور امام احمد رحمہ اللہ کا مسلک ]

امام احمد رحمہ اللہ داڑھی کے مطلق ارسال کے قائل نہیں تھے۔ ائمہ اربعہ میں داڑھی کے بارے میں ان کا مسلک سب سے زیادہ واضح ہے، آپ داڑھی کے طول و عرض سے کاٹتے بھی تھے اور اس کا فتویٰ بھی دیتے تھے، حالانکہ انہوں نے ابن عمرؓ، ابو ہریرہؓ، ابو امامہؓ اور ام المؤمنین عائشہؓ وغیرہ سے اعفاء لحیہ (داڑھی بڑھانے) کی احادیث اپنی مسند میں روایت کی ہیں، اس سے ثابت ہوتا ہے کہ آپ نے احادیث کا وہی مفہوم لیا ہے جو جمہور نے لیا ہے۔

امام احمد کا یہ مسلک ان کے شاگردِ رشید اور خادم خاص امام اسحاق بن ابراہیم بن ہانیء نیشاپوری (متوفیٰ 275ھ) نے جو سفر و حضر میں آپ کے ساتھ رہتے تھے اپنی تصنیف مسائل الامام احمد بن حنبل میں نقل کیا ہے، امام کے خادم ہونے کی وجہ سے ان کے بہت سے ایسے امور سے واقف ہوئے جن سے اولاد یا دیگر شاگرد عام طور سے واقف نہیں ہوتے، انہوں نے 9 سال کی عمر سے امام احمد رضی اللہ عنہ کی تاحیات خدمت کی، اس لیے ان کا بیان انتہائی معتبر تصور کیا جاتا ہے۔ انہوں نے مسائل میں جو کچھ نقل کیا ہے، درج ذیل ہے:

سألت أبا عبد الله عن الرجل يأخذ من عارضيه؟
قال: يأخذ من اللحية ما فضل عن القبضة.
قلت: فحديث النبي -صلى الله عليه وسلم- "أحفوا الشوارب وأعفوا اللحى" ؟ .
قال: يأخذ من طولها، ومن تحت حلقه.

ورأيت أبا عبد الله يأخذ من طولها، ومن تحت حلقه.

میں نے ابو عبداللہ (یعنی امام احمدؒ) سے سوال کیا کہ آدمی اپنے دونوں رخساروں سے بال کاٹے؟

آپ نے کہا ایک مٹھی داڑھی سے جو فاضل ہو کاٹے۔
میں نے کہا: تو نبی کریم ﷺ کی حدیث «
أحفوا الشوارب وأعفوا اللحى» کا کیا مطلب ہے؟
آپؒ نے فرمایا: داڑھی کی لمبائی سے اور حلق کے نیچے سے کاٹے گا،

اور میں نے ابو عبد اللہ کو دیکھا کہ وہ دونوں رخساروں سے اور حلق کے نیچے سے کاٹتے تھے۔

[ مسائل الإمام أحمد بن حنبل رواية ابن هانئ النيسابوري (رقم: ١٨٤٨) ]

فقہ حنبلی کی کتابوں میں یہی مسئلہ درج ہے کہ ایک مشت سے زیادہ کا کاٹ لینا مکروہ اور ناجائز نہیں ہے۔ جیسا کہ "الروض المربع" میں ہے:

ولا يكره أخذ ما زاد على القبضة منها وما تحت حلقه.

""ایک مُشت داڑھی سے جو زائد ہو اس کا اور حلق کے نیچے کا بال کاٹنا مکروہ نہیں ہے۔""


[ الروض المربع شرح زاد المستقنع للبهوتي ١/ ٢٦ ]

"الإنصاف" میں درج ہے:

ولا يُكْرَهُ أخْذُ ما زادَ على القَبْضَةِ.

""ایک مُشت سے زائد کا کاٹنا مکروہ نہیں ہے۔""


[ الإنصاف في معرفة الراجح من الخلاف للمرداوي ١/ ٢٥٠ ]

دیگر کتب حنابلہ «الإقناع» ، «شرح منتهى الإرادات»، «غذاء الألباب في شرح منظومة الآداب»، «دليل الطالب لنيل المطالب» اور «منار السبيل في شرح الدليل» میں بِعَینہٖ یہی مسئلہ درج ہے۔

بلکہ ابن الجوزی الحنبلی (متوفیٰ 597ھ) کے نزدیک تو زیادہ طول لحیہ ناپسندیدہ ہے، جیسا کہ "غذاء الألباب في شرح منظومة الآداب" (۱/ ٣٧٦) کی عبارت سے واضح ہوتا ہے۔

[ اِعفاء لحیہ اور امام مالک رحمہ اللہ کا مسلک ]

امام دار الہجرہ امام مالکؒ (متوفی 179ھ) کسی تعارف کے محتاج نہیں ہیں، جن کو مایہ ناز نقادِ حدیث یحییٰ بن سعید القطان رحمہ اللہ نے امیر المؤمنین فی الحدیث کا خطاب دیا ہے۔ امام مالک رحمہ اللہ بھی داڑھی کے مطلق ارسال کے قائل نہیں ہیں، بلکہ انہوں نے بہت لمبی داڑھی کو مکروہ تصور کیا ہے،

جیسا کہ قاضی عیاض مالکی (متوفی 544ھ) نے نقل کیا ہے:

وكره مالك طولها جدا.

امام مالکؒ نے زیادہ لمبی داڑھی کو مکروہ کہا ہے۔


[ إكمال المعلم للقاضي عياض (٢/ ٦٤) ]

امام ابن القاسم رحمہ اللہ (متوفی 191ھ) کہتے ہیں:

سمعت مالكا يقول: لا بأس أن يؤخذ ما تطاير من اللحية وشذ. قال: فقيل لمالك: فإذا طالت جدا، فإن من اللحى ما تطول؟ قال: أرى أن يؤخذ منها وتقصر.

"میں نے امام مالکؒ کو فرماتے سنا کہ داڑھی کے جو بال حد داڑھی سے زیادہ بڑھ جائیں اور الگ ہو جائیں، انہیں کاٹنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ امام مالکؒ سے پوچھا گیا، جب داڑھی بہت لمبی ہو جائے تو کیا حکم ہے؟ آپؒ نے فرمایا کہ میری رائے ہے کہ داڑھی سے کسی قدر کاٹ چھانٹ کرلینا چاہیے۔"


[ التمهيد لابن عبد البر ١٦/ ٣٦ (ت. بشار) وسنده صحيح ]

قاضی عیاضؒ (متوفیٰ 544ھ) جو مالکیہ کے مشہور علماء میں سے ہیں اور اپنے وقت کے حدیث کے امام تھے، کہتے ہیں:

يكره حلقها وقصها وتحريقها، وأما الأخذ من طولها وعرضها فحسن، وتكره الشهرة في تعظيمها، كما تكره في قصها وجزها.

"داڑھی کا مونڈھنا اور اس کو زیادہ کاٹنا چھانٹنا اور جلانا مکروہ ہے، رہا اس کے طول و عرض سے کسی قدر کاٹنا تو بہتر ہے، کیونکہ جس طرح داڑھی کو زیادہ کاٹنا مکروہ ہے ویسے ہی اس کو زیادہ لمبی بنا کر شُہرت کا باعث بنانا بھی مکروہ ہے۔"


[ إكمال المعلم (٢/ ٦٤)، ونقله النووي في شرح مسلم (٢/ ٦٤). ]

اسی طرح، مالکی فقیہ قاضی ابو بکر بن العربی (متوفیٰ 543ھ) لکھتا ہے:

إن ترك لحيته فلا حرج عليه إلا أن يقبح طولها فيستحب أن يأخذ منها.

""اگر اپنی داڑھی چھوڑ دے اور اس سے کوئی تعرض نہ کرے تو کوئی حرج نہیں اِلا یہ کہ بڑی ہوکر بری لگے تو اسے کاٹ لینا مستحب ہے۔""


[ عارضة الأحوذي شرح صحيح الترمذي لابن العربي المالكي ١٠/ ٢١٩ (ط. دار الكتب العلمية، بيروت) ]

مالکی فقیہ، شہاب الدین ابن ادریس القرافی (متوفی 684ھ) لکھتے ہیں:

وإعفاء اللحية إلا أن تطول جداً فله الأخذ منها.

""سنن فطرت میں سے داڑھی کا بڑھانا ہے لیکن بہت زیادہ لمبی نہ ہو، ورنہ اس سے کاٹ سکتا ہے۔""


[ الذخيرة لابن إدريس القرافي المالكي ١٣/ ٢٧٨ ]

مالکی فقیہ، محمد الزرقانی (متوفیٰ ١١٢٢ھ) لکھتے ہیں:

لأن الاعتدال محبوب، والطول المفرط قد يشوه الخلق، ويطلق ألسنة المغتابين، ففعل ذلك مندوب ما لم ينته إلى تقصيص اللحية، وجعلها طاقات فيكره.

""اعتدال چونکہ محبوب ہے اور زیادہ لمبائی فطری حسن کو بگاڑ دے گی اور غیبت کرنے والوں کو زبان درازی کا موقع ملے گا، اس لیے اس کو کاٹ لینا مستحب ہے، البتہ بہت زیادہ کاٹنا اور تہ بہ تہ بنانا مکروہ ہے۔""


[ شرح الزرقاني على الموطأ ٤/ ٥٣٠ ]

[ اِعفاء لحیہ اور امام ابو حنیفہ النعمان ]

ائمہ اربعہ میں سے ایک امام جو محتاجِ تعارف نہیں ہیں۔ امام ابو حنیفہ سیدنا ابن عمرؓ کا وہ اثر روایت کرتے ہیں جو امام بخاری اور امام مالک وغیرہ نے روایت کیا ہے، جس سے ثابت ہوتا ہے کہ امام ابو حنیفہ حدیث اِعفاء لحیہ (داڑھی بڑھاؤ) کا مفہوم وہی سمجھتے ہیں جو راوی حدیث سیدنا ابن عمرؓ اور سیدنا ابو ہریرہؓ سمجھتے ہیں، امام ابو حنیفہ نے یہ اثر ہیثم سے روایت کیا ہے کہ "ابن عمرؓ اپنی داڑھی مٹھی میں لیتے اور مٹھی کے نیچے کے بال کاٹ لیتے۔"

[ الآثار لمحمد بن الحسن الشيباني (رقم: ٨٩٧) ، الموسوعة الحديثية لمرويات الإمام أبي حنيفة (١٤/ ١٨٠ رقم: ٩٤٧٩) ]

امام محمد کتاب الآثار میں عبد اللہ بن عمرؓ کا مذکورہ اثر نقل کرنے کے بعد فرماتے ہیں:

وبه نأخذ، وهو قول أبي حنيفة رحمه الله تعالى.

""ہم اسی کو اختیار کرتے ہیں اور یہی ابو حنیفہ رحمہ اللہ تعالٰی کا قول ہے۔""
(الآثار لمحمد بن الحسن الشيباني رقم: ٨٩٧)

یہی حنفی مذہب میں معتمد قول ہے۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ امام محمد اور قاضی ابو یوسف بھی اسی کے قائل ہیں۔ ایک اور روایت امام ابوحنیفہ سے اسی سے متعلق موجود ہے:

عن أبي حنيفة، عن الهيثم، عن أبي قحافة رضي الله عنه أنه أتي به النبي صلى الله عليه وسلم ولحيته قد انتشرت فقال: «لو أخذتم» وأشار بيده إلى نواحي لحيته.

امام ابو حنیفہ ہیثم سے روایت کرتے ہیں کہ ابو قحافہ رضی اللہ عنہ نبی کریم ﷺ کے پاس حاضر ہوئے تو ان کی داڑھی بکھری ہوئی تھی، راوی کہتے ہیں کہ آپ نے ارشاد فرمایا کہ کاش تم کاٹ لیتے اور آپ ﷺ نے اپنے ہاتھ سے ان کی داڑھی کے ارد گرد اشارہ کیا۔


[ الآثار لأبي يوسف القاضي (رقم: ١٠٣٨) وإسناده مرسل ]

یہ حدیث مرسل ہے لیکن اس سے امام ابو حنیفہ کے یہاں اس کی حجیت پر کوئی اثر نہیں پڑتا اور ان کے نزدیک تابعین کی مراسیل قابل حجت ہیں۔

ملا علی قاری (متوفیٰ 1014ھ) نے (جن کے علو مرتبہ اور اجتہاد کے علامہ شوکانی بھی معترف ہیں) اس مذکورہ حدیث کا مفہوم اس طرح بیان کیا ہے:

لو أخذتم نواحي لحيته طولا وعرضا، وتركتم قدر المستحب، وهو مقدار القبضة، وهي الحد المتوسط بين الطرفين المذمومين من إرسالهما مطلقا، ومن حلقها وقصها على وجه استئصالها.

""کاش تم داڑھی کے اطراف اور طول و عرض سے کاٹ دیتے اور مستحب کی مقدار چھوڑ دیتے اور مستحب کی مقدار ایک مشت ہے اور یہی متوسط حد ہے، باعتبار دو مذموم صورتوں کے کہ اسے مطلق چھوڑ دیا جائے یا اسے منڈوا دیا جائے یا جڑ سے کاٹ دیا جائے۔""


[ شرح مسند أبي حنيفة ١/ ٤٢٣،٣ ]

[ اِعفاء لحیہ اور امام شافعی کا مسلک ]

ناصر السنہ امام شافعی (متوفیٰ 204ھ) داڑھی کے مطلق ارسال کے قائل نہیں تھے، حج و عمرہ کے موقع پر احرام سے نکلنے کے لیے داڑھی اور مونچھ سے بال کاٹنا ان کے نزدیک مستحب ہے، حالانکہ باتفاق علماء داڑھی سے بال کاٹنا اعمالِ حج وعمرہ سے نہیں ہے، خود امام شافعی رحمہ اللہ اس کے معترف ہیں، فرماتے ہیں:

وأحب إلي لو أخذ من لحيته وشاربيه حتى يضع من شعره شيئا لله، وإن لم يفعل فلا شيء عليه؛ لأن النسك إنما هو في الرأس لا في اللحية.


""اگر اپنی داڑھی اور مونچھوں سے کچھ بال کاٹ کر اللہ کے لیے گرائے تو مجھے پسند ہے اگر ایسا نہ کرے تو کوئی بات نہیں ہے۔ اس لیے کہ اعمال حج و عمرہ کا تعلق تو سر سے ہے نہ کہ داڑھی سے۔""


[ الأم للشافعي ٢/ ٢٣٢ ]

امام شافعی صرف حج و عمرہ کے موقع پر داڑھی میں کاٹ چھانٹ کے قائل ہیں۔ لیکن تمام شوافع نے حج و عمرہ سے مشروط نہیں کیا ہے۔

مایۂ ناز شافعی محدث حافظ ابو عبد اللہ حسین بن حسن الحلیمی (متوفی 403ھ) جو اپنے وقت کے امام اور مذہب شافعی کے چنیدہ افراد میں سے تھے، جن کو مورخین نے "رئيس أصحاب الحديث ببخارىٰ ونواحيها" لکھا ہے۔ جن کی کتاب ”المنهاج في شعب الإيمان“ اپنے موضوع پر بے مثال کتاب تصور کی جاتی ہے، حافظ بیہقی نے اسی کتاب کی تلخیص کر کے "شعب الإيمان" مرتب کی ہے، بیہقی اور ابن حجر وغیرہ جن کے اقوال بطور شواہد نقل کرتے ہیں ، یہی حافظ ابو عبد اللہ الحلیمی داڑھی کے مسئلے میں جمہور کے ساتھ ہیں، اس لیے حدیث ""أحْفُوا الشَّوَارِبَ وأَعْفُوا اللِّحَى"" ذکر کرنے کے بعد ابن عمرؓ، ابو ہریرہؓ اور ابراہیم نخعیؒ کا عمل اور حسن بصریؒ اور طاووس بن کیسانؒ کا قول نقل کیا۔ (دیکھیے المنهاج في شعب الإيمان ۳/ ٨٦، ۸۷)

علامہ غزالی (متوفی 505ھ) جو "شافعی ثانی" کہے جاتے ہیں، کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ داڑھی کے مطلق ارسال کے قائل ہیں، یہ دعویٰ صحیح نہیں ہے احیاء علوم الدین میں ان کی درج ذیل تحریر سے مذکورہ دعوی باطل ہو جاتا ہے:

والأمر في هذا قريب إن لم ينته إلى تقصيص اللحية وتدويرها من الجوانب فإن الطول المفرط قد يشوه الخلقة ويطلق ألسنة المغتابين بالنبذ إليه فلا بأس بالاحتراز عنه على هذه النية وقال النخعي عجبت لرجل عاقل طويل اللحية كيف لا يأخذ من لحيته ويجعلها بين لحيتين فإن التوسط في كل شيء حسن ولذلك قيل كلما طالت اللحية تشمر العقل.

""اور کتروانا نیچے سے کچھ مضائقہ نہیں، بشرطیکہ نوبت داڑھی کے زیادہ کترنے اور سب طرف سے گول کرنے کی نہ پہنچے، کیونکہ زیادہ لمبا کرنا بھی فطری حسن کو بدنما کردیتا ہے اور غیبت کرنے والوں کی زبان اس پر کھلتی ہے کہ فلاں لمبی داڑھی والا ہے، تو اس نیت سے کہ ان دونوں باتوں سے محفوظ رہے کتروانے میں مضائقہ نہیں، ابراہیم نخعی کہتے ہیں کہ جو عقلمند شخص لمبی داڑھی رکھتا ہے وہ اس سے کیوں نہیں چھانٹتا اور متوسط داڑھی کیوں نہیں بناتا، ہر چیز میں توسط کا درجہ اچھا ہوتا ہے، اور اسی واسطے کہا گیا ہے کہ جب داڑھی لمبی ہوجاتی ہے تو عقل رخصت ہو جاتی ہے۔""


[ إحياء علوم الدين ١/ ١٤٣ ]

اسی طرح علامہ غزالی شافعی فرماتے ہیں: «داڑھی لمبی ہو تو ایک مشت سے زائد کا کترنا جائز ہے تاکہ حد سے نہ بڑھے۔» (کیمیائے سعادت مترجم ص١٢٥، مطبوعہ مکتبہ رحمانیہ لاہور)

خاتمۃ الحفاظ ابن حجر عسقلانی شافعی (متوفی 852ھ) جو محتاج تعارف نہیں، ان کا بھی رجحان جمہور علمائے امت کے ساتھ ہے، اسی لیے انہوں نے حدیث مرفوع اور ابن عمرؓ اور ابو ہریرہؓ کے فعل کے درمیان تعارض کو اس طرح رفع کیا ہے:

ويمكن الجمع بحمل النهي على الاستئصال أو ما قاربه بخلاف الأخذ المذكور ولا أن الذي فعل هو الذي رواه.

""تطبیق اس طرح ممکن ہے کہ ممانعت کو داڑھی بالکل صاف کر دینے یا قریب قریب صاف کر دینے پر محمول کیا جائے، بخلاف کسی قدر کاٹ لینے کے جو (فعل ابن عمرؓ و ابو ہریرہؓ میں) مذکور ہے، خصوصاً جس نے یہ کیا ہے اسی نے حضور ﷺ سے (اِعفاء لحیہ والی) روایت بھی نقل کی ہے۔""


[ الدراية في تخريج أحاديث الهداية لابن حجر ١/ ٢٨٢ ]

اسی طرح ابن حجر عسقلانی شافعی کی تحقیق کے مطابق ابن عمرؓ نے اپنے فعل کو صرف حج و عمرہ پر خاص نہیں کیا ہے بلکہ عام حالات پر محمول کیا ہے کہ جب بھی داڑھی بڑی ہو کر بدنما لگے اس میں معمولی کاٹ چھانٹ ہوسکتی ہے، فرماتے ہیں:

الذي يظهر لي أن ابن عمر كان لا يخص هذا التخصيص بالنسك، بل كان يحمل الأمر بالإعفاء على غير الحالة التي تتشوه فيها الصورة بإفراط طول شعر اللحية، أو عرضه.

""ظاہر یہ ہے کہ ابن عمرؓ اس فعل کو اعمال حج کے ساتھ خاص نہیں کرتے تھے، بلکہ وہ داڑھی کے بڑھانے کے حکم کو اس حالت کے علاوہ پر محمول کرتے تھے کہ داڑھی کے طول و عرض میں زیادہ ہونے سے صورت بھدی اور بدنما لگے۔""


[ فتح الباري لابن حجر ١٠ / ٣٥٠ ]

علامہ نووی شافعی بھی داڑھی کے مطلق ارسال کے قائل نہیں ہیں، نووی کے قول «والمختار ترکها علی حالها» پر ابن حجر عسقلانی تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

وَكَأَنَّ مُرَادَهُ بِذَلِكَ فِي غَيْرِ النُّسُكِ لِأَنَّ الشَّافِعِيَّ نَصَّ عَلَى اسْتِحْبَابِهِ فِيهِ.

""نووی کی مراد اس سے حج و عمرہ کو چھوڑ کر ہوگی، اس لیے کہ امام شافعی نے حج و عمرہ میں تقصیر لحیہ کو مستحب کہا ہے۔""


[ فتح الباري لابن حجر ١٠ / ٣٥٠ ]

حافظ ابن حجر کا اشارہ امام شافعی کے اس قول کی طرف ہے جو امام شافعی کی کتاب ”الأم“ سے اس سے پہلے نقل کیا گیا ہے۔

اس سے واضح ہوگیا کہ نووی بھی داڑھی کے مطلق ارسال کے قائل نہیں ہیں اور اپنے مقتدا امام شافعی کی طرح حج و عمرہ کے موقع پر داڑھی میں کاٹ چھانٹ کے قائل ہیں۔

علامہ شرف الدین حسین بن محمد طیبی (متوفی 743ھ) جن کے بارے میں حافظ ابن حجر کہتے ہیں: ”كان آية في استخراج الدقائق من القرآن والسنن یعنی قرآن و سنت کے دقائق کو نکالنے میں اللہ کی نشانی تھے، عمرو بن شعیب والی حدیث "أن النبي ﷺ كان يأخذ من لحيته من عرضها وطولها" پر روشنی ڈالتے ہوئے کہتے ہیں:

هذا لا ينافي قوله صلى الله عليه وسلم: ((أعفوا اللحى))؛ لأن المنهي عنه هو قصها كفعل الأعاجم أو جعلها كذنب الحمام. والمراد بالإعفاء التوفير منه كما في الرواية الأخرى. والأخذ من الأطراف قليلا، لا يكون من القص في شيء.

""نبی اکرم ﷺ اپنی داڑھی کے طول و عرض سے کاٹتے تھے، یہ حضور علیہ الصلاۃ والسلام کے ارشاد ”أعفوا اللحى“ کے منافی نہیں ہے، اس لیے کہ جس طریقے سے کاٹنا منع ہے، وہ عجمیوں کا طریقہ ہے، یا اس انداز سے کاٹ دینا جیسے کبوتر کی دم ہو جائے، اِعفاء سے مراد داڑھی کو وافر مقدار میں رکھنا ہے، جیسا کہ دوسری روایت میں ہے اور اِدھر اُدھر سے کچھ تراشنا یہ لفظ قص میں داخل نہیں ہے۔


[ شرح المشكاة للطيبي (الكاشف عن حقائق السنن) ٩/ ٢٩٣٠ ]

ملا علی قاری مذکورہ بالا عبارت نقل کرنے کے بعد تحریر فرماتے ہیں:

”وَعَلَيْهِ سَائِرُ شُرَّاحِ الْمَصَابِيحِ مِنْ زَيْنِ الْعَرَبِ وَغَيْرِهِ“ یعنی زیر بحث حدیث کے مذکورہ بالا مفہوم میں مصابیح السنۃ للبغوی (جو مشکوٰۃ المصابیح کی اصل ہے) کے تمام شارحین زین العرب وغیرہ متفق ہیں، یعنی ان کے نزدیک طول و عرض سے کچھ کاٹ لینا نہ تو قص لحیہ میں شمار ہوگا۔ نہ ہی اعفاء لحیہ کے منافی۔ (مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح ٧/ ٢٨٢٢)

عبد الرؤوف مناوی شافعی (متوفی 1031ھ) جامع صغیر کی شرح میں تحقیق کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

محل الإعفاء في غير ما طال من أطرافها حتى تشعث وخرج عن السمت أما هو فلا يكره قصه.

""محل اعفاء اطراف کے بڑھے ہوئے بالوں کے علاوہ ہے، جن کی وجہ سے انسان پراگندہ صورت بن جائے اور وقار کی حد سے باہر ہو جائے سو ان کا کاٹنا مکروہ نہیں ہے۔""


[ فيض القدير شرح الجامع الصغير للمناوي ١/ ١٩٨ ]
 
Top