بسم اللہ الرحمن الرحیم
کوئی بھی عمل اس وقت تک عبادت نہیں بنتاجب تک کہ اس میں دوچیزیں نہ پائی جائیں ۔
اوروہ دوچیزیں یہ ہےکہ کمال محبت اورکمال تذلل ۔
اللہ سبحانہ وتعالی کافرمان ہے:
اوراللہ تبارک وتعالی نےارشادفرمایاہے:{ اوروہ لوگ جومومن ہیں وہ اللہ تعالی کی محبت میں بہت سخت ہوتےہیں } البقرۃ /(165)
اوراللہ تعالی نےاپنےاس فرمان میں اسےجمع کردیاہے:{ یقیناجولوگ اپنےرب کی ھیبت سےڈرتےہیں } المومنون ۔/(57)
{ بیشک یہ لوگ نیک کاموں کی طرف جلدی کرتےتھےاورہمارےسامنےعاجزی کرنےوالےتھے } الانبیاء ۔/(90)
توجب اس چیزکاعلم ہوگیاتویہ بھی علم ہوناچاہئےکہ عبادت صرف موحدمسلمان کی ہی قبول ہوتی ہے ۔
جیساکہ اللہ تبارک وتعالی کافرمان ہے:
عائشہ رضی اللہ تعالی عنہابیان کرتی ہیں کہ{ اورانہوں نےجوعمل کئےتھےہم آئےان کی طرف انہیں پراگندہ ذروں کی طرح کردیا} الفرقان ۔/(23)
یعنی وہ بعث ونشورپراورقیامت پرایمان نہیں رکھتاتھااورنہ ہی وہ اس لئےعمل کرتا رہا کہ وہ اللہ تعالی کےسامنے پیش ہوگا ۔میں نےرسول صلی اللہ علیہ وسلم کو کہا کہ دورجاہلیت میں ابن جدعان صلہ رحمی کیا کرتااورمسکینوں کوکھانا کھلاتا تھاتوکیا اسےیہ کام آئےگا ؟ تورسول صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا: اسےیہ کوئی نفع نہیں دےگا کیونکہ اس نےایک دن بھی یہ نہیں کہا کہ اےمیرے رب قیامت کےدن میری غلطیاں معاف کردے ۔ صحیح مسلم حدیث نمبر۔(214)
پھریہ کہ مسلمان کی عبادت اس وقت تک قبول نہیں ہوتی جب تک کہ اس میں بنیادی طورپردوشرطیں نہ ہوں ۔
اول : اللہ تعالی کےلئےاخلاص نیت :
وہ اس طرح کہ بندےکےسارےاقوال وافعال اوراعمال ظاہری اورباطنی سب کےسب اللہ تعالی کی رضااورخوشنودی کےلئےہوں کسی اورکےلئےنہیں ۔
دوم : عبادت اس طریقےاورشریعت کےمطابق ہوجس کااللہ تعالی نےحکم دیاہے ۔
اوروہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کےمتابعت اورپیروی واتباع سےہوگا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نےجوکہاہےوہ کیاجائےاورجس سےروکاہےاس سےرکاجائےاوران کی مخالفت نہ کی جائےاورنہ ہی کوئی ایسی نئی عبادت یاطریقہ ایجادکرلیاجائےجوکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سےثابت نہیں ۔
اوران دونوں شرطوں کی دلیل اللہ تعالی کایہ فرمان ہے:
ابن کثیررحمہ اللہ تعالی کاقول ہے:{ توجسے بھی اپنےرب سےملنےکی امیدہےاسےچاہئےکہ وہ نیک اعمال کرےاوراپنےرب کی عبادت میں کسی کوبھی شریک نہ کرے } الکہف ۔/(110)
لہذا قبول عمل کےیہ دوضروری ارکان ہیں کہ وہ اللہ تعالی کےلئےخالص اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت کےمطابق ہوناچاہئے ۔ا{ توجسے بھی اپنےرب سےملنےکی امیدہے } یعنی اس کےثواب اوراچھی جزااوربدلے کی { اسےچاہئےکہ وہ نیک اعمال کرے } یعنی جوکہ اللہ تعالی کی شریعت کےموافق ہوں { اوراپنےرب کی عبادت میں کسی کوبھی شریک نہ کرے } اوروہ اس سےصرف اللہ تعالی وحدہ لاشریک کاچہرہ اور رضاچاہتاہو۔
واللہ اعلم .
بشکریہ: اسلام قیو اے۔انفو
شیخ محمد صالح المنجد