كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَسَلَّمَ إِذَا أَفْطَرَ قَالَ:
«اللَّهُمَّ لَكَ صُمْتُ، وَعَلَى رِزْقِكَ أَفْطَرْتُ»
نبی کریم ﷺ جب افطار کرتے تو فرماتے۔
’’ اےاللہ میں نے تیرے لئے روزہ رکھا اور تیرے رزق پر افطار کیا‘‘
__________________________
(الزهد والرقائق ۱۔۴۹۵۔۔۔امام ابن المباركؒ ۱۸۱ھ) (کتاب الدعاء ۱۔۲۳۷۔۔۔امام محمد بن فضيل الضبیؒ ۱۹۵ھ)
(المصنف ۶۔ ۳۲۹۔۔۔ حافظ ابن ابی شیبہؒ ۲۳۵ھ) (السنن ۳۔۱۴۸۔۔۔ امام ابو داودؒ ۲۷۵ھ)
(السنن الکبیر ۸۔۵۳۴۔۔۔ امام بیہقیؒ ۴۵۸ھ) (شرح السنۃ ۶۔۲۶۵۔۔۔ امام البغویؒ ۵۱۶ھ)
__________________________
یہ روایت مرسل حسن ہے ۔امام ابو داودؒ نے اس پر سکوت فرمایا ہے ۔جو کہ ان کے نزدیک قابل احتجاج ہوتا ہے ۔
اورحافظ ابن ملقنؒ ۔۔۔ تحفة المحتاج إلى أدلة المنهاج للنووي ۲۔۹۶ پہ فرماتے ہیں
رَوَاهُ أَبُو دَاوُد وَلم يُضعفهُ وَهُوَ مُرْسل
یعنی امام ابو داود نے اس کی تضعیف نہیں کی ۔
دوسرے لفظوں میں وہ امام ابو داودؒ کے قاعدہ سے استدلال کر رہے ہیں ۔جو انہوں نے فرمایا ہے کہ جس حدیث پر وہ سکوت کریں گے وہ قابل احتجاج ہے ۔۔۔
پھر ابن الملقنؒ ۸۰۴ھ نے ۔۔خود بھی اس کی سند کو۔۔۔۔۔بدر المنیرتخریج شرح الکبیر ٥-٧١٠ ۔۔۔میں۔۔ مرسل حسن قرار دیا ہے ۔ اسی طرح مختصر بد المنیر ۔رقم۱۱۲۶ پہ بھی مرسل حسن فرمایا ہے ۔
اور شیخ الاسلام زکریا الانصاریؒ ۹۲۶ھ نے بھی فتح الوهاب شرح مختصر منهاج النووي ۱۔۱۴۲ پہ اس کو مرسل حسن فرمایا ہے ۔
حافظ ابن حجر العسقلانیؒ نے
هداية الرواة إلى تخريج احاديث المصابيح والمشكاة ۲۔۳۲۳ پہ سنن ابو داود کا حوالہ دے کر اس پر سکوت کیا ہے جو ان کے نزدیک حسن ہونے کی علامت ہے ۔
کتاب کے مقدمہ ۱۔۵۸ میں اپنا منہج یوں بیان کرتے ہیں
منہج الحکم علی الاحادیث :
فا لتزمت فی ھذا التخریج ان ابین حال کل حدیث من الفصل الثانی ، من کونہ صحیحا ، او ضعیفا ، او منکرا ، او موضوعا ،
وما سکت عن بیانہ فھو حسن۔
ابن حجر الهيتمي ؒ ۔۔۔تحفۃ المحتاج فی شرح المنہاج ۳۔۴۲۵۔۔۔۔میں فرماتے ہیں۔
وَلَا يَضُرُّ إرْسَالُهُ؛ لِأَنَّهُ فِي الْفَضَائِلِ عَلَى أَنَّهُ وَصْلٌ فِي رِوَايَةٍ
اس کے علاوہ
کئی ائمہ مثلاََ ۔۔۔ بیہقیؒ ، بغویؒ ، نوویؒ ، ابن قدامہؒ ،ابن تیمیہؒ ، ابن قیمؒ ، ابن کثیر ؒ نے بطور احتجاج نقل کیا ہے ۔
اور اکثر علما ء ۔۔۔فقہاء مذاہب اربعہ وغیرہ ۔۔۔اس دعاکے پڑھنے کے استحباب کے قائل ہیں ۔اور اس پر تعامل امت ہے ۔
اس لئے یہ دعا پڑھنا مستحب ہے ۔ اور اس کے ساتھ ہی دوسری دعا ذهب الظمأ۔۔۔بھی مستحب ہے ۔
دونوں دعاؤں میں کوئی تعارض نہیں ہے ۔دونوں پڑھنی مستحب ہیں ۔
بلکہ اللھم لک صمت۔۔۔ افطار سے پہلے ۔۔۔۔۔۔اور ذھب الظما۔۔ پانی وغیرہ پینے کے بعد میں پڑھنی چاہیے۔
یہ دعا کوئی واجب یا سنت موکدہ بھی نہیں ۔۔۔اگر کوئی نہ پڑھے تو کوئی حرج نہیں ۔ لیکن پڑھنا فضیلت کا باعث ہے ۔
آج کل اس دعا کے بارے میں بعض علما نے سخت موقف اپنایا ہے اور اس پر اعتراض کیا ہے اور اس کو ناقابل عمل قرار دیا ہے ۔ معلوم نہیں اس معاملے میں کیوں اتنی سختی کی گئی ہے ۔ جبکہ افطار کے وقت مطلق دعا کرنے کے سب ہی قائل ہیں ۔ اس معاملے میں ان کے اسلوب سے محسوس ہوتا ہے کہ شاید یہ بھی کوئی صرف جاہل عوام میں ہی رائج کوئی چیز ہے ۔
اور بعض نے تو اس کو بھی مسائل الخلافیات میں سے کوئی مسئلہ بنا کے رکھ دیاہے جیسے اس میں بھی کوئی دو فریق ہیں ۔
چلیں آدمی اپنی تحقیق سے کوئی صحیح نیت سے ہی کوئی سخت مؤقف اختیار کرتا ہے تو ٹھیک ہے ۔لیکن یوں ظاہر کرنا کہ اس دعا کے پڑھنے کے کوئی قابل ذکر لوگ قائل نہیں ۔ اور ایسا تاثر کے جیسے یہ دعا صرف عوام میں مشہور ہے ۔ایسا مناسب نہیں۔
اور جو پڑھنے کا قائلین ہیں وہ بھی کوئی اس کا وجوب یا سنت موکدۃ بھی ثابت نہیں کرتے ۔ بلکہ یہ دعا پڑھنی صرف مستحب ہے ۔
اور جو نہ پڑھے اس میں کوئی حرج نہیں ۔
اللھم لک صمت۔۔۔ دعا کے استحباب کے قائلین کا آگے ذکر کرتا ہوں ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ دعا مرسل حسن سند سے مروی ہے ۔ اس کے کچھ مرفوع شواہد بھی ہیں ۔ لیکن وہ ضعیف ہیں ۔
اعتراض کرنے والوں کا ایک اعتراض یہ بھی ہے کہ اس کے شواہد ضعیف نہیں بلکہ بہت زیادہ ضعیف ہیں اس لئے ان سے اس کو تقویت کوئی نہیں ملتی ۔
لیکن ائمہ نے ان کو شواہد کے طور پر پیش کیا ہے ۔اور قبول کیا ہے ۔
شیخ البانیؒ کو حافظ ابن حجرؒ ، حافظ ہیثمیؒ اور ان سے پہلے ائمہ سے یہ شکوہ ہے کو وہ اس کے شواہد کو صرف ضعیف کیوں کہتے ہیں ۔۔۔ضعیف جداََ کہنا چاہیے ۔ یہ تساہل ہے ۔اور ان کو صرف ضعیف کہنا اپنا یہ رجحان ظاہر کرنا ہے کہ بہت سے ضعیف مل کے قوت اختیار کر لیتے ہیں۔ چناچہ پہلے انہوں نے مشکاۃ کی تخریج میں اس مرسل کے بارے میں خود ہی فرمایا تھا کہ له شواهد يقوي بها.
لیکن پھر بعد میں اس پر دوبارہ تعلیق میں موقف بدل کر لکھا کہ ان پر ظاہر ہوا ہے کہ اس کے شواہد زیادہ ضعیف ہیں ۔
اورمیری ناقص معلومات کے مطابق ان سے پہلے یہ مسئلہ موجود نہیں تھا۔اور ان کے بعد چونکہ ان کی تحقیق پہ دور حاضر میں بہت اعتماد کیا جاتا ہے ۔اس لئے ان کے بعض تلامذہ نے یہ موقف اختیار کیا۔اور بعض نے اس میں بہت شدت اختیار کی ۔ عجیب بات ہے اس موقع پر ائمہ محدثین فقہا کی تحقیق اور امت میں رائج عمل کو بھی نہیں دیکھتے ۔
«اللَّهُمَّ لَكَ صُمْتُ، وَعَلَى رِزْقِكَ أَفْطَرْتُ»
نبی کریم ﷺ جب افطار کرتے تو فرماتے۔
’’ اےاللہ میں نے تیرے لئے روزہ رکھا اور تیرے رزق پر افطار کیا‘‘
__________________________
(الزهد والرقائق ۱۔۴۹۵۔۔۔امام ابن المباركؒ ۱۸۱ھ) (کتاب الدعاء ۱۔۲۳۷۔۔۔امام محمد بن فضيل الضبیؒ ۱۹۵ھ)
(المصنف ۶۔ ۳۲۹۔۔۔ حافظ ابن ابی شیبہؒ ۲۳۵ھ) (السنن ۳۔۱۴۸۔۔۔ امام ابو داودؒ ۲۷۵ھ)
(السنن الکبیر ۸۔۵۳۴۔۔۔ امام بیہقیؒ ۴۵۸ھ) (شرح السنۃ ۶۔۲۶۵۔۔۔ امام البغویؒ ۵۱۶ھ)
__________________________
یہ روایت مرسل حسن ہے ۔امام ابو داودؒ نے اس پر سکوت فرمایا ہے ۔جو کہ ان کے نزدیک قابل احتجاج ہوتا ہے ۔
اورحافظ ابن ملقنؒ ۔۔۔ تحفة المحتاج إلى أدلة المنهاج للنووي ۲۔۹۶ پہ فرماتے ہیں
رَوَاهُ أَبُو دَاوُد وَلم يُضعفهُ وَهُوَ مُرْسل
یعنی امام ابو داود نے اس کی تضعیف نہیں کی ۔
دوسرے لفظوں میں وہ امام ابو داودؒ کے قاعدہ سے استدلال کر رہے ہیں ۔جو انہوں نے فرمایا ہے کہ جس حدیث پر وہ سکوت کریں گے وہ قابل احتجاج ہے ۔۔۔
پھر ابن الملقنؒ ۸۰۴ھ نے ۔۔خود بھی اس کی سند کو۔۔۔۔۔بدر المنیرتخریج شرح الکبیر ٥-٧١٠ ۔۔۔میں۔۔ مرسل حسن قرار دیا ہے ۔ اسی طرح مختصر بد المنیر ۔رقم۱۱۲۶ پہ بھی مرسل حسن فرمایا ہے ۔
اور شیخ الاسلام زکریا الانصاریؒ ۹۲۶ھ نے بھی فتح الوهاب شرح مختصر منهاج النووي ۱۔۱۴۲ پہ اس کو مرسل حسن فرمایا ہے ۔
حافظ ابن حجر العسقلانیؒ نے
هداية الرواة إلى تخريج احاديث المصابيح والمشكاة ۲۔۳۲۳ پہ سنن ابو داود کا حوالہ دے کر اس پر سکوت کیا ہے جو ان کے نزدیک حسن ہونے کی علامت ہے ۔
کتاب کے مقدمہ ۱۔۵۸ میں اپنا منہج یوں بیان کرتے ہیں
منہج الحکم علی الاحادیث :
فا لتزمت فی ھذا التخریج ان ابین حال کل حدیث من الفصل الثانی ، من کونہ صحیحا ، او ضعیفا ، او منکرا ، او موضوعا ،
وما سکت عن بیانہ فھو حسن۔
ابن حجر الهيتمي ؒ ۔۔۔تحفۃ المحتاج فی شرح المنہاج ۳۔۴۲۵۔۔۔۔میں فرماتے ہیں۔
وَلَا يَضُرُّ إرْسَالُهُ؛ لِأَنَّهُ فِي الْفَضَائِلِ عَلَى أَنَّهُ وَصْلٌ فِي رِوَايَةٍ
اس کے علاوہ
کئی ائمہ مثلاََ ۔۔۔ بیہقیؒ ، بغویؒ ، نوویؒ ، ابن قدامہؒ ،ابن تیمیہؒ ، ابن قیمؒ ، ابن کثیر ؒ نے بطور احتجاج نقل کیا ہے ۔
اور اکثر علما ء ۔۔۔فقہاء مذاہب اربعہ وغیرہ ۔۔۔اس دعاکے پڑھنے کے استحباب کے قائل ہیں ۔اور اس پر تعامل امت ہے ۔
اس لئے یہ دعا پڑھنا مستحب ہے ۔ اور اس کے ساتھ ہی دوسری دعا ذهب الظمأ۔۔۔بھی مستحب ہے ۔
دونوں دعاؤں میں کوئی تعارض نہیں ہے ۔دونوں پڑھنی مستحب ہیں ۔
بلکہ اللھم لک صمت۔۔۔ افطار سے پہلے ۔۔۔۔۔۔اور ذھب الظما۔۔ پانی وغیرہ پینے کے بعد میں پڑھنی چاہیے۔
یہ دعا کوئی واجب یا سنت موکدہ بھی نہیں ۔۔۔اگر کوئی نہ پڑھے تو کوئی حرج نہیں ۔ لیکن پڑھنا فضیلت کا باعث ہے ۔
آج کل اس دعا کے بارے میں بعض علما نے سخت موقف اپنایا ہے اور اس پر اعتراض کیا ہے اور اس کو ناقابل عمل قرار دیا ہے ۔ معلوم نہیں اس معاملے میں کیوں اتنی سختی کی گئی ہے ۔ جبکہ افطار کے وقت مطلق دعا کرنے کے سب ہی قائل ہیں ۔ اس معاملے میں ان کے اسلوب سے محسوس ہوتا ہے کہ شاید یہ بھی کوئی صرف جاہل عوام میں ہی رائج کوئی چیز ہے ۔
اور بعض نے تو اس کو بھی مسائل الخلافیات میں سے کوئی مسئلہ بنا کے رکھ دیاہے جیسے اس میں بھی کوئی دو فریق ہیں ۔
چلیں آدمی اپنی تحقیق سے کوئی صحیح نیت سے ہی کوئی سخت مؤقف اختیار کرتا ہے تو ٹھیک ہے ۔لیکن یوں ظاہر کرنا کہ اس دعا کے پڑھنے کے کوئی قابل ذکر لوگ قائل نہیں ۔ اور ایسا تاثر کے جیسے یہ دعا صرف عوام میں مشہور ہے ۔ایسا مناسب نہیں۔
اور جو پڑھنے کا قائلین ہیں وہ بھی کوئی اس کا وجوب یا سنت موکدۃ بھی ثابت نہیں کرتے ۔ بلکہ یہ دعا پڑھنی صرف مستحب ہے ۔
اور جو نہ پڑھے اس میں کوئی حرج نہیں ۔
اللھم لک صمت۔۔۔ دعا کے استحباب کے قائلین کا آگے ذکر کرتا ہوں ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ دعا مرسل حسن سند سے مروی ہے ۔ اس کے کچھ مرفوع شواہد بھی ہیں ۔ لیکن وہ ضعیف ہیں ۔
اعتراض کرنے والوں کا ایک اعتراض یہ بھی ہے کہ اس کے شواہد ضعیف نہیں بلکہ بہت زیادہ ضعیف ہیں اس لئے ان سے اس کو تقویت کوئی نہیں ملتی ۔
لیکن ائمہ نے ان کو شواہد کے طور پر پیش کیا ہے ۔اور قبول کیا ہے ۔
شیخ البانیؒ کو حافظ ابن حجرؒ ، حافظ ہیثمیؒ اور ان سے پہلے ائمہ سے یہ شکوہ ہے کو وہ اس کے شواہد کو صرف ضعیف کیوں کہتے ہیں ۔۔۔ضعیف جداََ کہنا چاہیے ۔ یہ تساہل ہے ۔اور ان کو صرف ضعیف کہنا اپنا یہ رجحان ظاہر کرنا ہے کہ بہت سے ضعیف مل کے قوت اختیار کر لیتے ہیں۔ چناچہ پہلے انہوں نے مشکاۃ کی تخریج میں اس مرسل کے بارے میں خود ہی فرمایا تھا کہ له شواهد يقوي بها.
لیکن پھر بعد میں اس پر دوبارہ تعلیق میں موقف بدل کر لکھا کہ ان پر ظاہر ہوا ہے کہ اس کے شواہد زیادہ ضعیف ہیں ۔
اورمیری ناقص معلومات کے مطابق ان سے پہلے یہ مسئلہ موجود نہیں تھا۔اور ان کے بعد چونکہ ان کی تحقیق پہ دور حاضر میں بہت اعتماد کیا جاتا ہے ۔اس لئے ان کے بعض تلامذہ نے یہ موقف اختیار کیا۔اور بعض نے اس میں بہت شدت اختیار کی ۔ عجیب بات ہے اس موقع پر ائمہ محدثین فقہا کی تحقیق اور امت میں رائج عمل کو بھی نہیں دیکھتے ۔
البتہ دوسرے محقق عرب علماءکرام میں ۔۔۔ شیخ ابن عثیمینؒ ، شیخ صالح الفوزانؒ کے نزدیک یہ دعا پڑھنا مستحب ہے ۔۔
اورشیخ ابن بازؒ بھی اس کی پڑھنے کی اجازت دیتے ہیں ۔
شیخ ابن العثیمینؒ ۔۔۔۔۔نے ان دونوں دعاؤں ۔۔اللھم لک صمت ۔۔۔اور ۔۔ذھب الظمأ۔۔کو مستحب قرار دیا ہے۔۔
س436: هل هناك دعاء مأثور عند الإفطار؟ .........
الجواب: إن الدعاء عند الإفطار موطن إجابة للدعاء، ..........
والدعاء المأثور: اللهم لك صمت وعلى رزقك أفطرت،
ومنه أيضاً قول النبي صلى الله عليه وسلم حين أفطر قال: ((ذهب الظمأ، وابتلت العروق وثبت الأجر إن شاء الله))
. وهذان الحديثان وإن كان فيهما ضعف لكن بعض أهل العلم حسنهما،
وعلى كل حال فإذا دعوت بذلك، أو دعوت بغيره مما يخطر على قلبك عند الإفطار فإنه موطن إجابة.
يعنی ان میں اگرچہ ضعف ہے ۔۔۔لیکن بعض اہل علم نے انہیں حسن قرار دیا ہے ۔بہرحال آپ یہ دعائیں کریں یا دوسری دعائیں ، افطار کا وقت قبولیت دعا کا وقت ہے ۔
فتاوی ارکان الاسلام ۔ ۔۔ص ۴۸۶
شیخ کی بات بالکل صحیح ہے ۔ذہب الظما ۔۔کو دارقطنیؒ نے حسن قرار دیا ہے ۔۔
اور اللہم لک صمت کو ۔۔ابن ملقنؒ ،زکریا انصاریؒ نے ۔۔مرسل حسن قرار دیا ہے ۔
یہ حوالہ شیخ صالح المنجدؒ نے بھی دیا ہے ۔
https://islamqa.info/ur/65955
وكذلك ورد عن بعض الصحابة أنه كان يقول: (اللهم لك صمت، وعلى رزقك أفطرت) فأنت ادع الله بالدعاء المناسب الذي ترى أنك محتاج إليه.
اللقاء الشهري.٨-٢٥
یہ حوالہ بھی شیخ صالح المنجدؒ نے دیا ہے ۔
https://islamqa.info/ur/14103
شیخ صالح الفوزانؒ
سؤال: ما هو الدعاء المأثور عن النبي صلى الله عليه وسلم عند الإفطار وعند السحور؟
الجواب: قد ورد عن النبي صلى الله عليه وسلم أنه كان إذا أفطر يقول: «ذهب الظمأ وابتلت العروق وثبت الأجر إن شاء الله» ،
وورد عن بعض الصحابة أنه إذا أفطر قال: «اللهم لك صمت وعلى رزقك أفطرت فاغفر لي إنك أنت الغفور الرحيم» .
وأما السحور فلم يرد فيما أعلم دعاء مخصوص يقال عند ذلك، والله أعلم.
(مجموع فتاوى فضيلة الشيخ صالح بن فوزان ۲۔۳۹۵)
شیخ ابن بازؒ
شیخ ؒ کے نزدیک یہ روایت اگرچہ ضعیف ہے لیکن دعا کے معنی صحیح ہیں اور اس کو افطار کے وقت کے پڑھنے میں کوئی حرج نہیں۔
کیونکہ افطاری کا وقت ہی دعا کا ہوتا ہے ۔
وقال سماحة الامام ابن باز رحمه الله تعالى في شرحه لكتاب الصيام من بلوغ المرام عندما سئل عن
حديث: (اللهم لك صمت، وعلى رزقك أفطرت) ، قال :
الحديث ضعيف ، لكن معناه صحيح ولابأس أن يقال عند الإفطار من باب الدعاء
(آڈیوبیان ۔۔۔بحوالہ ملتقي اهل الحديث)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بہرحال اس حدیث سے بڑے ائمہ نے حجت پکڑی ہے اور استحباب ثابت کیا ہے اس معاملے میں تو ائمہ کی بات ہی صحیح ہے ۔
ان کی عبارات بعد میں نقل کرتا ہوں ۔
پہلے ایک روایت جو شاہد کے طور پر پیش کی جاتی ہے اس کو دیکھیں۔
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ الْعَسَّالُ الأَصْبَهَانِيُّ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ عَمْرٍو الْبَجَلِيُّ، حَدَّثَنَا دَاوُدُ بْنُ الزِّبْرِقَانِ، عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ ثَابِتٍ الْبُنَانِيِّ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ, أَنَّ النَّبِيَّ صَلى الله عَلَيه وَسَلم كَانَ إِذَا أَفْطَرَ قَالَ: بِسْمِ اللهِ، اللَّهُمَّ لَكَ صُمْتُ، وَعَلَى رِزْقِكَ أَفْطَرْتُ، تَقَبَّلْ مِنِّي, إِنَّكَ أَنْتَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ.
(الدعاء ۲۔۱۲۲۹۔۔۔الطبرانی ۳۶۰ھ)
اس روایت میں دو راوی مجروح ہیں ۔ ایک اسماعیل بن عمرو
دوسرے داود بن الزبرقان۔
اعتراض یہ ہے کہ۔۔۔۔داود بن الزبرقان کے بارے میں متروک کی جرح ہے جس کی وجہ سے یہ حدیث ضعیف جداََ ہونی چاہیے ۔۔۔
لیکن اگر ان کے بارے میں بھی آرا ءپڑھیں تو ان کی بھی توثیق موجود ہے ۔
یہ ترمذی اور ابن ماجہ کے راوی ہیں۔
امام شعبہؒ نے باوجود ان کے شیخ ہونے کے ان سے روایت بھی کی
(تہذیب الکمال ۸۔۳۹۴ ،تاریخ ابن عساکر ۱۷۔۱۴۲۔ترجمہ داود)
اور شعبہؒ ثقہ سے ہی روایت کرتے تھے ۔
امام احمدؒکی رائے بھی ان کے بارے میں اچھی تھی۔اگرچہ اعلی درجے کی توثیق نہیں۔
و سئل عن داود بن الزبرقان؟
قال: إنما كتبت عنه حديثا. وقال : ما أراه يكذب ولكن كان يدلس .
(مسائل احمد . بروايت ابن هاني٢-٢٣٠)
اور ابن حبانؒ نے نقل کیا ہے
أما أَحْمَد فَحسن القَوْل فِيهِ ......
ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مَحْمُودٍ النَّسَائِيُّ سَمِعْتُ عَلِيَّ بْنَ سَعِيدِ بْنِ جَرِيرٍ يَقُولُ سَمِعت أَحْمد بن حَنْبَل يَقُول دَاوُدُ بْنُ الزِّبْرِقَانِ لَا أَتَّهِمُهُ فِي الْحَدِيثِ
(المجروحین ۱-٢٩٢)
اس سے الازدیؒ اور الجوزجانیؒ کی کذب کی جرح کا بھی جواب ہو گیا۔
امام یحیی بن معینؒ
ان کے شاگردوں الدوریؒ ، الدارمیؒ ، ابن محرزؒ ، الحضرمیؒ ، کی روایات میں ان سے ۔۔لیس بشیئ۔۔منقول ہے ۔
اس جملہ کی تشریح میں اختلاف ہے بعض اوقات امام یحییؒ ۔۔قلیل الحدیث کے لئے بولتے ہیں ۔۔۔اور بعض کے خیال میں اس سے وہ جرح ہی کرتے ہیں۔
بعض اوقات وہ لیس بشیئ کے ساتھ کچھ اور جرح کا جملہ بھی کہتے ہیں جس سے بات واضح ہوتی ہے ۔لیکن ان کے بارے میں کوئی اور جملہ ساتھ منقول نہیں کہ وضاحت ہو ۔ صرف الدوریؒ کی دوسری روایت میں ليس حديثُه بشيءٍمنقول ہے ۔
اور ابن جنیدؒ کی روایت میں یحیی بن معین فرماتے ہیں ۔۔۔ قد كتبتُ عنه۔۔۔
اور بعض علما کا خیال ہے کہ یحیی بن معینؒ بھی ان ائمہ میں سے ہیں جو صرف ثقہ سے ہی لکھتے ہیں۔
البتہ ابن حبانؒ نے اس سے یہی اخذ کیا ہے کہ۔۔۔ ويَحيَى وهَّاه
واللہ اعلم
امام بخاریؒ
نے مقارب الحدیث فرمایا ہے ۔۔۔جو کہ ان کے نزدیک الفاظ توثیق میں سے ہے ۔۔۔اگرچہ اعلیٰ الفاظ توثیق میں سے نہیں لیکن
بہر حال الفاظ توثیق میں سے ہے ۔
دیکھئے ۔۔فتح المغیث السخاوی ۲۔۱۱۹۔۔۔۔اور سنن الترمذی ۱۔۳۸۳ میں امام ترمذیؒ امام بخاریؒ کا ایک راوی کے بارے میں یہ طرز عمل بیان کرتے ہیں۔
وَرَأَيْتُ مُحَمَّدَ بْنَ إِسْمَاعِيلَ يُقَوِّي أَمْرَهُ، وَيَقُولُ: «هُوَ مُقَارِبُ الحَدِيثِ
امام ترمذیؒ نے السنن ۵۔۵۱۳ میں اس کی ایک حدیث کو حسن فرمایا ہے ۔
ابن حبانؒ کے طرز سے بھی یہ مختلف فیہ ہی محسوس ہوتا ہے ۔۔۔البتہ منفرد ہو تو حجت نہیں
دَاوُد بْن الزبْرِقَان ۔۔۔۔۔۔۔۔اخْتلف فِيهِ الشَّيْخَانِ أما أَحْمَد فَحسن القَوْل فِيهِ وَيَحْيَى وهاه
قَالَ أَبُو حَاتِم كَانَ دَاوُد بْن الزبْرِقَان شَيخا صَالحا يحفظ الْحَدِيث ويذاكر بِهِ وَلكنه كَانَ يهم فِي المذاكرة ويغلط فِي الرِّوَايَة إِذَا حدث من حفظَة وَيَأْتِي عَن الثِّقَات بِمَا لَيْسَ من أَحَادِيثهم فَلَمَّا نظر يَحْيَى إِلَى تِلْكَ الْأَحَادِيث أنكرها وَأطلق عَلَيْهِ الْجرْح بِهَا وَأَمَّا أَحْمَد بْن حَنْبَل رَحمَه اللَّه فَإِنَّهُ علم مَا قُلْنَا أَنَّهُ لَمْ يكن بالمعتمد فِي شَيْء من ذَلِكَ فَلَا يسْتَحق الإِنْسَان الْجرْح بالْخَطَأ يخطىء أَو الْوَهم بهم مَا لَمْ يفحش ذَلِكَ حَتَّى يَكُون ذَلِكَ الْغَالِب عَلَى أمره فَإِذَا كَانَ كَذَلِكَ اسْتحق التّرْك
وَدَاوُد بْن الزبْرِقَان عِنْدِي صَدُوق فِيمَا وَافق الثِّقَات إِلَّا أَنَّهُ لَا يحْتَج بِهِ إِذَا انْفَرد وَإِنَّمَا يملي بَعْد هَذَا الْكتاب كتاب الْفضل من النقلَة وَنَذْكُر فِيهِ كُل شيخ اخْتلف فِيهِ أَئِمَّتنَا مِمَّن ضعفه بَعضهم وَوَثَّقَهُ الْبَعْض وَيذكر السَّبَب الدَّاعِي لَهُمْ إِلَى ذَلِكَ ونحتج لكل وَاحِد مِنْهُم وَنَذْكُر الصَّوَاب فِيهِ لِئَلَّا نطلق عَلَى مُسْلِم الْجرْح بِغَيْر علم وَلَا يُقَال فِيهِ أَكْثَر مِمَّا فِيهِ إِن قضى اللَّه ذَلِكَ وشاءه
(المجروحین ۱۔۲۹۲)
ابن عدیؒ
ولداود بن الزبرقان حديث كثير غير ما ذكرته وعامة ما يرويه عن كل من روى عنه مما لا يتابعه أحد عليه، وَهو في جملة الضعفاء الذي يكتب حديثهم.
(الکامل ۴۔۶۷۰)
ابن عدیؒ کی رائے بھی ان کے بارے میں نرم ہے ۔ یعنی ان سے تائید ہوسکتی ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس بارے میں اور بھی بحث ہو سکتی ہے ۔لیکن بات طویل ہو جائے گی۔
اب ان ائمہ کے اقوال کے بعد میری رائے کوئی اس راوی کی اعلی توثیق کی نہیں ہے ۔ کیونکہ دوسرے ائمہ نے ان پر جرح بھی کی ہے ۔ پس کمزور تو ہے لیکن ان کی روایت ضعیف جدا نہیں ہے ۔ اور اس کی متابعت سے تقویت ملتی ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اثر ۔امام الربیع بن خثیمؒ
پھر ایک اور تابعی کبیر بلکہ مخضرم (یعنی جنہوں نے نبی اکرمﷺ کا زمانہ پایا لیکن زیارت نہیں کی )۔۔کی روایت بھی اس کی تائید میں ہے ۔کئی کتب میں معاذؒ کی مرسل کے ساتھ ہی ان کی روایت موجود ہے ۔
قَالَ: أَخْبَرَنَا الْفَضْلُ بْنُ دُكَيْنٍ قَالَ: حَدَّثَنَا شَرِيكٌ عَنْ حُصَيْنٍ عَنْ هِلالِ بْنِ يِسَافٍ عَنِ الرَّبِيعِ بْنِ خُثَيْمٍ أَنَّهُ كَانَ يَقُولُ: اللهم لك صمت وعلى رزقك أفطرت.
(طبقات ابن سعد ۶۔۲۲۵ العلمیہ۔۔۔۔ترجمہ الربيع بن خثيم)
یہ سند حسن ہے ۔
الربیع بن خثیمؒ سے اور ملتے جلتے الفاظ بھی مروی ہیں
اللَّهُمَّ لَكَ صُمْنَا وَعَلَى رِزْقِكَ أفطرنا.
(طبقات ابن سعد ۶۔۲۲۵ )
الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي أَعَانَنِي فَصُمْت ، وَرَزَقَنِي فَأَفْطَرْت.
(الزهد والرقائق لابن المبارك ۱۔۴۹۵)
(الدعاء ، محمد بن فضيل الضبي ۱۔۲۳۷)
(المصنف ابن ابی شیبہ۶۔۳۲۹)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
امام الربيع بن خثيمؒ ۶۵ھ
انہوں نے نبی اکرم ﷺ کا زمانہ پایا ہے اور زیارت نہیں کی ۔یعنی مخضرم ہیں ۔
یہ حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ کے بڑے شاگردوں میں سے ہیں ۔
امام شَقِيْقُ بنُ سَلَمَةَ أَبُو وَائِلٍ ۸۰ھ ۔جو کہ خود بھی مُخَضْرَمٌ (أَدْرَكَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ۔ وَمَا رَآهُ)ہیں
جن کے بارے میں یحیی بن معینؒ فرماتے ہیں لاَ يُسْأَلُ عَنْ مِثْلِهِ
ان سے پوچھا گیا۔ أَنْتَ أَكْبَرُ أَوِ الرَّبِيْعُ بنُ خُثَيْمٍ؟
قَالَ: أَنَا أَكْبَرُ مِنْهُ سِنّاً، وَهُوَ أَكْبَرُ مِنِّي عَقْلاً
امام ذہبیؒ ۔۔۔امام الربیع بن خثیم ؒ کے بارے میں فرماتے ہیں۔
الإِمَامُ، القُدْوَةُ۔۔۔۔۔
أَدْرَكَ زَمَانَ النَّبِيِّ -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ- وَأَرْسَلَ عَنْهُ۔۔۔۔
قَالَ الشَّعْبِيُّ:
مَا رَأَيْتُ قَوْماً قَطُّ أَكْثَرَ عِلْماً، وَلاَ أَعْظَمَ حِلْماً، وَلاَ أَكَفَّ عَنِ الدُّنْيَا مِنْ أَصْحَابِ عَبْدِ اللهِ، وَلَوْلاَ مَا سَبَقَهُمْ بِهِ الصَّحَابَةُ، مَا قَدَّمْنَا عَلَيْهِمْ أَحَداً.
پھران کی انتہائی فضیلت کے لئے عبد اللہ بن مسعود ؓ کا یہ فرمان کافی ہے ۔
فَقَالَ لَهُ ابْنُ مَسْعُوْدٍ: يَا أَبَا يَزِيْدَ، لَوْ رَآكَ رَسُوْلُ اللهِ -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ- لأَحَبَّكَ، وَمَا رَأَيْتُكَ إِلاَّ ذَكَرْتُ المُخْبِتِيْنَ .
امام ذہبی ؒ یہ نقل کر کے فرماتے ہیں۔
فَهَذِهِ مَنْقَبَةٌ عَظِيْمَةٌ لِلرَّبِيْعِ،
(سیر اعلام النبلا ۴۔۲۵۸)
ایسے بڑی فضیلت والے مخضرم تابعی بالکل انہی اور ان جیسے الفاظ میں یہ دعا پڑھتے تھے ۔ اور یہ ہیں بھی کوفہ کے رہنے والے جو اکثر مرفوع روایات کو بھی مرفوع بیان نہیں کرتے تھےتاکہ اگر الفاظ میں کوئی کمی بیشی ہو جائے تو اس کا انتساب نبی اکرمﷺ سے نہ ہو ۔۔جس کی تائید اس سے ہوتی ہے کہ یہ روایت مرفوع بھی مروی ہے ۔۔۔ اس لئے تائید میں اچھا اثر ہے ۔
اورشیخ ابن بازؒ بھی اس کی پڑھنے کی اجازت دیتے ہیں ۔
شیخ ابن العثیمینؒ ۔۔۔۔۔نے ان دونوں دعاؤں ۔۔اللھم لک صمت ۔۔۔اور ۔۔ذھب الظمأ۔۔کو مستحب قرار دیا ہے۔۔
س436: هل هناك دعاء مأثور عند الإفطار؟ .........
الجواب: إن الدعاء عند الإفطار موطن إجابة للدعاء، ..........
والدعاء المأثور: اللهم لك صمت وعلى رزقك أفطرت،
ومنه أيضاً قول النبي صلى الله عليه وسلم حين أفطر قال: ((ذهب الظمأ، وابتلت العروق وثبت الأجر إن شاء الله))
. وهذان الحديثان وإن كان فيهما ضعف لكن بعض أهل العلم حسنهما،
وعلى كل حال فإذا دعوت بذلك، أو دعوت بغيره مما يخطر على قلبك عند الإفطار فإنه موطن إجابة.
يعنی ان میں اگرچہ ضعف ہے ۔۔۔لیکن بعض اہل علم نے انہیں حسن قرار دیا ہے ۔بہرحال آپ یہ دعائیں کریں یا دوسری دعائیں ، افطار کا وقت قبولیت دعا کا وقت ہے ۔
فتاوی ارکان الاسلام ۔ ۔۔ص ۴۸۶
شیخ کی بات بالکل صحیح ہے ۔ذہب الظما ۔۔کو دارقطنیؒ نے حسن قرار دیا ہے ۔۔
اور اللہم لک صمت کو ۔۔ابن ملقنؒ ،زکریا انصاریؒ نے ۔۔مرسل حسن قرار دیا ہے ۔
یہ حوالہ شیخ صالح المنجدؒ نے بھی دیا ہے ۔
https://islamqa.info/ur/65955
وكذلك ورد عن بعض الصحابة أنه كان يقول: (اللهم لك صمت، وعلى رزقك أفطرت) فأنت ادع الله بالدعاء المناسب الذي ترى أنك محتاج إليه.
اللقاء الشهري.٨-٢٥
یہ حوالہ بھی شیخ صالح المنجدؒ نے دیا ہے ۔
https://islamqa.info/ur/14103
شیخ صالح الفوزانؒ
سؤال: ما هو الدعاء المأثور عن النبي صلى الله عليه وسلم عند الإفطار وعند السحور؟
الجواب: قد ورد عن النبي صلى الله عليه وسلم أنه كان إذا أفطر يقول: «ذهب الظمأ وابتلت العروق وثبت الأجر إن شاء الله» ،
وورد عن بعض الصحابة أنه إذا أفطر قال: «اللهم لك صمت وعلى رزقك أفطرت فاغفر لي إنك أنت الغفور الرحيم» .
وأما السحور فلم يرد فيما أعلم دعاء مخصوص يقال عند ذلك، والله أعلم.
(مجموع فتاوى فضيلة الشيخ صالح بن فوزان ۲۔۳۹۵)
شیخ ابن بازؒ
شیخ ؒ کے نزدیک یہ روایت اگرچہ ضعیف ہے لیکن دعا کے معنی صحیح ہیں اور اس کو افطار کے وقت کے پڑھنے میں کوئی حرج نہیں۔
کیونکہ افطاری کا وقت ہی دعا کا ہوتا ہے ۔
وقال سماحة الامام ابن باز رحمه الله تعالى في شرحه لكتاب الصيام من بلوغ المرام عندما سئل عن
حديث: (اللهم لك صمت، وعلى رزقك أفطرت) ، قال :
الحديث ضعيف ، لكن معناه صحيح ولابأس أن يقال عند الإفطار من باب الدعاء
(آڈیوبیان ۔۔۔بحوالہ ملتقي اهل الحديث)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بہرحال اس حدیث سے بڑے ائمہ نے حجت پکڑی ہے اور استحباب ثابت کیا ہے اس معاملے میں تو ائمہ کی بات ہی صحیح ہے ۔
ان کی عبارات بعد میں نقل کرتا ہوں ۔
پہلے ایک روایت جو شاہد کے طور پر پیش کی جاتی ہے اس کو دیکھیں۔
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ الْعَسَّالُ الأَصْبَهَانِيُّ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ عَمْرٍو الْبَجَلِيُّ، حَدَّثَنَا دَاوُدُ بْنُ الزِّبْرِقَانِ، عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ ثَابِتٍ الْبُنَانِيِّ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ, أَنَّ النَّبِيَّ صَلى الله عَلَيه وَسَلم كَانَ إِذَا أَفْطَرَ قَالَ: بِسْمِ اللهِ، اللَّهُمَّ لَكَ صُمْتُ، وَعَلَى رِزْقِكَ أَفْطَرْتُ، تَقَبَّلْ مِنِّي, إِنَّكَ أَنْتَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ.
(الدعاء ۲۔۱۲۲۹۔۔۔الطبرانی ۳۶۰ھ)
اس روایت میں دو راوی مجروح ہیں ۔ ایک اسماعیل بن عمرو
دوسرے داود بن الزبرقان۔
اعتراض یہ ہے کہ۔۔۔۔داود بن الزبرقان کے بارے میں متروک کی جرح ہے جس کی وجہ سے یہ حدیث ضعیف جداََ ہونی چاہیے ۔۔۔
لیکن اگر ان کے بارے میں بھی آرا ءپڑھیں تو ان کی بھی توثیق موجود ہے ۔
یہ ترمذی اور ابن ماجہ کے راوی ہیں۔
امام شعبہؒ نے باوجود ان کے شیخ ہونے کے ان سے روایت بھی کی
(تہذیب الکمال ۸۔۳۹۴ ،تاریخ ابن عساکر ۱۷۔۱۴۲۔ترجمہ داود)
اور شعبہؒ ثقہ سے ہی روایت کرتے تھے ۔
امام احمدؒکی رائے بھی ان کے بارے میں اچھی تھی۔اگرچہ اعلی درجے کی توثیق نہیں۔
و سئل عن داود بن الزبرقان؟
قال: إنما كتبت عنه حديثا. وقال : ما أراه يكذب ولكن كان يدلس .
(مسائل احمد . بروايت ابن هاني٢-٢٣٠)
اور ابن حبانؒ نے نقل کیا ہے
أما أَحْمَد فَحسن القَوْل فِيهِ ......
ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مَحْمُودٍ النَّسَائِيُّ سَمِعْتُ عَلِيَّ بْنَ سَعِيدِ بْنِ جَرِيرٍ يَقُولُ سَمِعت أَحْمد بن حَنْبَل يَقُول دَاوُدُ بْنُ الزِّبْرِقَانِ لَا أَتَّهِمُهُ فِي الْحَدِيثِ
(المجروحین ۱-٢٩٢)
اس سے الازدیؒ اور الجوزجانیؒ کی کذب کی جرح کا بھی جواب ہو گیا۔
امام یحیی بن معینؒ
ان کے شاگردوں الدوریؒ ، الدارمیؒ ، ابن محرزؒ ، الحضرمیؒ ، کی روایات میں ان سے ۔۔لیس بشیئ۔۔منقول ہے ۔
اس جملہ کی تشریح میں اختلاف ہے بعض اوقات امام یحییؒ ۔۔قلیل الحدیث کے لئے بولتے ہیں ۔۔۔اور بعض کے خیال میں اس سے وہ جرح ہی کرتے ہیں۔
بعض اوقات وہ لیس بشیئ کے ساتھ کچھ اور جرح کا جملہ بھی کہتے ہیں جس سے بات واضح ہوتی ہے ۔لیکن ان کے بارے میں کوئی اور جملہ ساتھ منقول نہیں کہ وضاحت ہو ۔ صرف الدوریؒ کی دوسری روایت میں ليس حديثُه بشيءٍمنقول ہے ۔
اور ابن جنیدؒ کی روایت میں یحیی بن معین فرماتے ہیں ۔۔۔ قد كتبتُ عنه۔۔۔
اور بعض علما کا خیال ہے کہ یحیی بن معینؒ بھی ان ائمہ میں سے ہیں جو صرف ثقہ سے ہی لکھتے ہیں۔
البتہ ابن حبانؒ نے اس سے یہی اخذ کیا ہے کہ۔۔۔ ويَحيَى وهَّاه
واللہ اعلم
امام بخاریؒ
نے مقارب الحدیث فرمایا ہے ۔۔۔جو کہ ان کے نزدیک الفاظ توثیق میں سے ہے ۔۔۔اگرچہ اعلیٰ الفاظ توثیق میں سے نہیں لیکن
بہر حال الفاظ توثیق میں سے ہے ۔
دیکھئے ۔۔فتح المغیث السخاوی ۲۔۱۱۹۔۔۔۔اور سنن الترمذی ۱۔۳۸۳ میں امام ترمذیؒ امام بخاریؒ کا ایک راوی کے بارے میں یہ طرز عمل بیان کرتے ہیں۔
وَرَأَيْتُ مُحَمَّدَ بْنَ إِسْمَاعِيلَ يُقَوِّي أَمْرَهُ، وَيَقُولُ: «هُوَ مُقَارِبُ الحَدِيثِ
امام ترمذیؒ نے السنن ۵۔۵۱۳ میں اس کی ایک حدیث کو حسن فرمایا ہے ۔
ابن حبانؒ کے طرز سے بھی یہ مختلف فیہ ہی محسوس ہوتا ہے ۔۔۔البتہ منفرد ہو تو حجت نہیں
دَاوُد بْن الزبْرِقَان ۔۔۔۔۔۔۔۔اخْتلف فِيهِ الشَّيْخَانِ أما أَحْمَد فَحسن القَوْل فِيهِ وَيَحْيَى وهاه
قَالَ أَبُو حَاتِم كَانَ دَاوُد بْن الزبْرِقَان شَيخا صَالحا يحفظ الْحَدِيث ويذاكر بِهِ وَلكنه كَانَ يهم فِي المذاكرة ويغلط فِي الرِّوَايَة إِذَا حدث من حفظَة وَيَأْتِي عَن الثِّقَات بِمَا لَيْسَ من أَحَادِيثهم فَلَمَّا نظر يَحْيَى إِلَى تِلْكَ الْأَحَادِيث أنكرها وَأطلق عَلَيْهِ الْجرْح بِهَا وَأَمَّا أَحْمَد بْن حَنْبَل رَحمَه اللَّه فَإِنَّهُ علم مَا قُلْنَا أَنَّهُ لَمْ يكن بالمعتمد فِي شَيْء من ذَلِكَ فَلَا يسْتَحق الإِنْسَان الْجرْح بالْخَطَأ يخطىء أَو الْوَهم بهم مَا لَمْ يفحش ذَلِكَ حَتَّى يَكُون ذَلِكَ الْغَالِب عَلَى أمره فَإِذَا كَانَ كَذَلِكَ اسْتحق التّرْك
وَدَاوُد بْن الزبْرِقَان عِنْدِي صَدُوق فِيمَا وَافق الثِّقَات إِلَّا أَنَّهُ لَا يحْتَج بِهِ إِذَا انْفَرد وَإِنَّمَا يملي بَعْد هَذَا الْكتاب كتاب الْفضل من النقلَة وَنَذْكُر فِيهِ كُل شيخ اخْتلف فِيهِ أَئِمَّتنَا مِمَّن ضعفه بَعضهم وَوَثَّقَهُ الْبَعْض وَيذكر السَّبَب الدَّاعِي لَهُمْ إِلَى ذَلِكَ ونحتج لكل وَاحِد مِنْهُم وَنَذْكُر الصَّوَاب فِيهِ لِئَلَّا نطلق عَلَى مُسْلِم الْجرْح بِغَيْر علم وَلَا يُقَال فِيهِ أَكْثَر مِمَّا فِيهِ إِن قضى اللَّه ذَلِكَ وشاءه
(المجروحین ۱۔۲۹۲)
ابن عدیؒ
ولداود بن الزبرقان حديث كثير غير ما ذكرته وعامة ما يرويه عن كل من روى عنه مما لا يتابعه أحد عليه، وَهو في جملة الضعفاء الذي يكتب حديثهم.
(الکامل ۴۔۶۷۰)
ابن عدیؒ کی رائے بھی ان کے بارے میں نرم ہے ۔ یعنی ان سے تائید ہوسکتی ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس بارے میں اور بھی بحث ہو سکتی ہے ۔لیکن بات طویل ہو جائے گی۔
اب ان ائمہ کے اقوال کے بعد میری رائے کوئی اس راوی کی اعلی توثیق کی نہیں ہے ۔ کیونکہ دوسرے ائمہ نے ان پر جرح بھی کی ہے ۔ پس کمزور تو ہے لیکن ان کی روایت ضعیف جدا نہیں ہے ۔ اور اس کی متابعت سے تقویت ملتی ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اثر ۔امام الربیع بن خثیمؒ
پھر ایک اور تابعی کبیر بلکہ مخضرم (یعنی جنہوں نے نبی اکرمﷺ کا زمانہ پایا لیکن زیارت نہیں کی )۔۔کی روایت بھی اس کی تائید میں ہے ۔کئی کتب میں معاذؒ کی مرسل کے ساتھ ہی ان کی روایت موجود ہے ۔
قَالَ: أَخْبَرَنَا الْفَضْلُ بْنُ دُكَيْنٍ قَالَ: حَدَّثَنَا شَرِيكٌ عَنْ حُصَيْنٍ عَنْ هِلالِ بْنِ يِسَافٍ عَنِ الرَّبِيعِ بْنِ خُثَيْمٍ أَنَّهُ كَانَ يَقُولُ: اللهم لك صمت وعلى رزقك أفطرت.
(طبقات ابن سعد ۶۔۲۲۵ العلمیہ۔۔۔۔ترجمہ الربيع بن خثيم)
یہ سند حسن ہے ۔
الربیع بن خثیمؒ سے اور ملتے جلتے الفاظ بھی مروی ہیں
اللَّهُمَّ لَكَ صُمْنَا وَعَلَى رِزْقِكَ أفطرنا.
(طبقات ابن سعد ۶۔۲۲۵ )
الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي أَعَانَنِي فَصُمْت ، وَرَزَقَنِي فَأَفْطَرْت.
(الزهد والرقائق لابن المبارك ۱۔۴۹۵)
(الدعاء ، محمد بن فضيل الضبي ۱۔۲۳۷)
(المصنف ابن ابی شیبہ۶۔۳۲۹)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
امام الربيع بن خثيمؒ ۶۵ھ
انہوں نے نبی اکرم ﷺ کا زمانہ پایا ہے اور زیارت نہیں کی ۔یعنی مخضرم ہیں ۔
یہ حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ کے بڑے شاگردوں میں سے ہیں ۔
امام شَقِيْقُ بنُ سَلَمَةَ أَبُو وَائِلٍ ۸۰ھ ۔جو کہ خود بھی مُخَضْرَمٌ (أَدْرَكَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ۔ وَمَا رَآهُ)ہیں
جن کے بارے میں یحیی بن معینؒ فرماتے ہیں لاَ يُسْأَلُ عَنْ مِثْلِهِ
ان سے پوچھا گیا۔ أَنْتَ أَكْبَرُ أَوِ الرَّبِيْعُ بنُ خُثَيْمٍ؟
قَالَ: أَنَا أَكْبَرُ مِنْهُ سِنّاً، وَهُوَ أَكْبَرُ مِنِّي عَقْلاً
امام ذہبیؒ ۔۔۔امام الربیع بن خثیم ؒ کے بارے میں فرماتے ہیں۔
الإِمَامُ، القُدْوَةُ۔۔۔۔۔
أَدْرَكَ زَمَانَ النَّبِيِّ -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ- وَأَرْسَلَ عَنْهُ۔۔۔۔
قَالَ الشَّعْبِيُّ:
مَا رَأَيْتُ قَوْماً قَطُّ أَكْثَرَ عِلْماً، وَلاَ أَعْظَمَ حِلْماً، وَلاَ أَكَفَّ عَنِ الدُّنْيَا مِنْ أَصْحَابِ عَبْدِ اللهِ، وَلَوْلاَ مَا سَبَقَهُمْ بِهِ الصَّحَابَةُ، مَا قَدَّمْنَا عَلَيْهِمْ أَحَداً.
پھران کی انتہائی فضیلت کے لئے عبد اللہ بن مسعود ؓ کا یہ فرمان کافی ہے ۔
فَقَالَ لَهُ ابْنُ مَسْعُوْدٍ: يَا أَبَا يَزِيْدَ، لَوْ رَآكَ رَسُوْلُ اللهِ -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ- لأَحَبَّكَ، وَمَا رَأَيْتُكَ إِلاَّ ذَكَرْتُ المُخْبِتِيْنَ .
امام ذہبی ؒ یہ نقل کر کے فرماتے ہیں۔
فَهَذِهِ مَنْقَبَةٌ عَظِيْمَةٌ لِلرَّبِيْعِ،
(سیر اعلام النبلا ۴۔۲۵۸)
ایسے بڑی فضیلت والے مخضرم تابعی بالکل انہی اور ان جیسے الفاظ میں یہ دعا پڑھتے تھے ۔ اور یہ ہیں بھی کوفہ کے رہنے والے جو اکثر مرفوع روایات کو بھی مرفوع بیان نہیں کرتے تھےتاکہ اگر الفاظ میں کوئی کمی بیشی ہو جائے تو اس کا انتساب نبی اکرمﷺ سے نہ ہو ۔۔جس کی تائید اس سے ہوتی ہے کہ یہ روایت مرفوع بھی مروی ہے ۔۔۔ اس لئے تائید میں اچھا اثر ہے ۔
Last edited: