کلیم حیدر
ناظم خاص
- شمولیت
- فروری 14، 2011
- پیغامات
- 9,747
- ری ایکشن اسکور
- 26,381
- پوائنٹ
- 995
بسم اللہ الرحمن الرحیم
اقامت صلاة اور ہمارى زبوں حالی
أبو عبد الرحمان محمد رفيق الطاهر
اللہ رب العالمین کی توحید اور امام الانبیاء ﷺ کی رسالت کے اقرار کے بعد انسان پر جو سب سے اہم ترین ذمہ داری عائد ہوتی ہے، اپنے آپ کو مسلمانوں کی صف میں شامل کرنے اور اپنے کافروں کے درمیان امتیاز پیدا کرنے کےلیے ، وہ نماز ہےرسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے: "بین العبد والکفر ترک الصلاۃ " (مسند المستخرج علی صحیح الامام مسلم ۱۶۰/۱/۲۴۵)"بندے اور کافر کے درمیان فرق نماز کے ترک کا ہے"
یعنی جو شخص نماز کاتارک ہے وہ بندہ بلکہ کافر ہے اللہ تعالیٰ کا بندی حقیقی وہ ہوگا جو نماز ترک کرنے والا نہ ہو۔
نیز فرمایا: "من ترک الصلاۃ المکتوبۃ متعمداً فقد کفر" (معجم الاوسط للطبرانی ۳۴۳/۳ (۳۳۴۸)
"جس بندے نے ایک بھی فرضی نماز جان بوجھ کر عمداً چھوڑ دی اس نے کفر کیا"
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
فَإِن تَابُوا وَأَقَامُوا الصَّلَاةَ وَآتَوُا الزَّكَاةَ فَإِخْوَانُكُمْ فِي الدِّينِ ۗ وَنُفَصِّلُ الْآيَاتِ لِقَوْمٍ يَعْلَمُونَ(التوبة 11)
اگر ان تینوں کاموں سے کوئی ایک کام بھی نہ ہو، کفر و شرک سے توبہ نہ ہو یا نماز کا قیام نہ ہو یا زکوٰۃ کی ادائیگی نہ ہو تو پھر اخوت دینی پیدا نہیں ہوتی اور اسلامی برادری میں وہ بندہ داخل نہیں ہو سکتا۔"اگر وہ (کفر و شرک سے) توبہ کرلیں اور نماز قائم کرنے لگیں اور زکوٰۃ ادا کرنے لگیں تب وہ تمھارے دینی بھائی ہیں"
اسی طرح فرمایا:
فَإِن تَابُوا وَأَقَامُوا الصَّلَاةَ وَآتَوُا الزَّكَاةَ فَخَلُّوا سَبِيلَهُمْ ۚ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ (التوبة 5)
یعنی پھر تم نے ان کے خلاف تلوار اُٹھا کر جہاد نہیں کرنا۔ اور اگر ان تینوں کا موں میں سے کوئی ایک کام بھی یہ لوگ نہیں کرتے تو ان کے خلاف قتال و جہاد کرنا تمھارے لیے روا اور جائز ہے۔ کیونکہ اللہ رب العالمین کےہاں یہ لوگ مسلم و مؤمن کہلاوانے کے حق دار نہیں ہیں بلکہ یہ کفر کر چکے ہیں۔" اگر وہ (کفر و شرک) سے توبہ کرلیں اور نماز قائم کرلیں اور زکوٰۃ ادا کریں تو پھر تم ان کا راستہ چھوڑ دو۔"
اللہ رب العالمین جب اہل جنت کو جنت میں داخل کر چکے اوراہل جہنم کو جہنم میں باقی چھوڑ دیا جائے گا اور اس کے بعد کوئی بھی شخص جہنم سے نکل کر جنت می نہیں جائے گا ، شفاعت کرنے والے تمام تر انبیاء ورسل ، صدیقین، شہداء، صلحاء سارے کےسارے شفاعت کر چکے ہوں گے ، اللہ رب العالمین کی آخری شفاعت کے ذریعے بھی الہ واحد القہار کی مٹھی بھر لوگ جہنم سے نکل کر جنت میں جا چکیں گے تب اہل جنت اور اہل جہنم کے مابین مکالمہ ہو گا۔ جنتی جہنمیوں سے پوچھیں گے: مَا سَلَكَكُمْ فِي سَقَرَ(المدثر42)تمھیں جہنم میں کس چیز نے داخل کردیا"
تو وہ جواب دیں گے کہ ہمارا جرم یہ تھاکہ:
"قَالُوا لَمْ نَكُ مِنَ الْمُصَلِّينَ-وَلَمْ نَكُ نُطْعِمُ الْمِسْكِينَ-وَكُنَّا نَخُوضُ مَعَ الْخَائِضِينَ-وَكُنَّا نُكَذِّبُ بِيَوْمِ الدِّينِ -حَتَّىٰ أَتَانَا الْيَقِينُ-(المدثر43،47)
تو اللہ رب العالمین نے ان اعمال کی وجہ سے ان کو یہ سزا دی کہ:"ہم نمازیوں میں سے نہ تھے اور نہ ہی ہم (زکوٰۃ ادا کرکے) مسکین کو کھلاتے تھے اور ہاں باتیں نبانے والوں کے ساتھ مل کر فضول بحثیں ضرور کیا کرتے تھے اور ہم جزا کے دن کو جھٹلایا کرتے تھے، یہاں تک کہ ہمارے پاس یقین آگیا۔
فَمَا تَنفَعُهُمْ شَفَاعَةُ الشَّافِعِينَ (المدثر:48)
شفاعت کرنے والوں کی شفاعت کی وجہ سے لوگ جہنم سے نکل نکل کر جنتوں کی راہ لے گئے، جنتوں میں داخل ہو گئے لیکن نماز ادا نہ کرنے کی وجہ سے اور زکوٰۃ ادا نہ کرنے کی وجہ سے ان سفارش کرنےوا لوں کی سفارش نفع نہ دے گی اور یہ ابدی جہنمی ٹھہریں گے۔"ان لوگوں کو شفاعت کرنے والوں کی شفاعت نے فائدہ نہ دیا"
لیکن اس بندے نے تو لا الہ الا اللہ پڑھا ہے اور نماز نہ پڑھنے اور زکوٰۃ نہ دینے کی وجہ سے جہنمی ہی ہے او ر اس کو شفاعت کرنے والوں کی شفاعت بھی نفع نہ دے گی ۔ آخر کیوں؟یہاں یہ سوال پیدا ہو تا ہے کہ احادیث نبویہ میں جابجا یہ بات ذکر ہوئی ہے کہ جو بندہ لاالہ الا اللہ پڑھ لیتا ہے وہ جنت میں داخل ہوجائےگا۔(مسند احمد :۱۱۹۲۳)
تو اس کا مختصر جواب یہ ہے کہ اس حدیث کا معنی وہ نہیں جو سمجھاجاتا ہے اور نہ ہی الفاظ اس قدر ہیں جتنے کہ زبان زد عام ہیں بلکہ حدیث میں لاالہ الا اللہ کی گواہی "صدقا من قلبہ" کے الفاظ کے ساتھ مقید ہے یعنی دل سے جو توحید الہٰی اور رسالت نبوی کی گواہی دے گا وہ جنت میں داخل ہوگا اور اس پر آگ ِ جہنم کو اللہ نے حرام قرار دیا ہے۔(صحیح البخاری، کتاب العلم ، باب من خص بالعلم قوما دون قوم )
اور اسی طرح جس حدیث میں بڑی وضاحت کے ساتھ یہ بات آئی ہے کہ قیامت کے دن جب تمام شفاعت کرنے والے شفاعت کرچکیں گے تو اللہ رب العالمین فرمائیں گے کہ فرشتوں ، نبیوں اور مؤمنوں سب نے شفاعت کر لی ہے اب صرف أرحم الراحمین ہی باقی ہے تو پھر جہنم سے ایک مٹھی بھر کر نکالیں گےا ور ان میں کچھ لوگ ایسے ہوں گے جنھوں نے کبھی "خیر کاکام" نہیں کیا ہوگا۔اور اسی طرح وہ حدیث جس میں یہ آتا ہے کہ اللہ تعالیٰ روز محشر ایک ایسے بندے کو معاف فرمادے گا جس نے زندگی بھر کوئی نیکی کا کام نہ کیا ہوگا۔ (صحیح البخاری، کتاب التوحید، باب قول اللہ عز وجل یریدون أن یبدلوا کلام اللہ)
تو یہ حدیثیں بھی مقید ہیں کیونکہ اس کو وضاحت بھی حدیث ہی میں موجود ہے کہ"ولم یعمل خیراً قط الا التوحید" (مسند أحمد (۷۹۸۰)
جبکہ توحید پر کاربند رہنا اور شرک سے اجتناب کرنابھی عمل خیر ہی ہے۔" کہ اس نے توحید کے علاوہ خیر کا کوئی کام نہ کیا ہوگا"
اور اسی طرح نبی کریم ﷺ کا فرمان "لایدخل الجنۃ الا نفس مؤمنۃ" (صحیح البخاری، کتاب التفسیر، باب ومن سورۃ التوبۃ،(۳۰۹۲)
ان دونوں حدیثنوں کو مدنظر رکھیں تو سابقہ دونوں حدیثوں کا معنیٰ واضح ہوجاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو جنت میں داخل کرے گا جنھوں نے توحید اور ایمان کے سوا اور کوئی نیک عمل نہ کیا ہوگایعنی موحد ہونےا ور باایمان ہونے کےلیے اپنے دل میں ایمان متحقق کرنے کےلیے جو ضروری اعمال ہیں وہ تو بجا لائے مگر اس کے علاوہ اور کوئی نوافل والا کام نہ کیا۔کہ جنت میں صرف اور صرف مؤمن جان ہی داخل ہی سکے گی۔
اور ایمان قول وعمل اور تصدیق کے مجموعہ کا نام ہے اس کی تعریف میں اقامت صلاۃ، ادائے زکوٰۃ ، صوم رمضان ، حج بیت اللہ وغیرہ سب شامل ہیں۔
تو جس کے اندر ایمان وتوحید نہ ہوں اس کو شفاعت کرنے والوں کی شفاعت نفع نہ دے گی۔
تو نماز کا قائم کرنا اللہ رب العالمین کاحکم ہے ۔ فرمایا: " اقیموا الصلوٰۃ" (البقرۃ: ۴۳)
اور عربی لغت میں اقامت کا معنی ٰ ہے: "أن یوتی بھا بحقوقھا"
"کہ اس کو اس کے تمام تر حقوق سمیت ادا کیا جائے۔" اور نماز کے چھ حقوق ہیں۔
۱۔تعدیل ارکان
کہ بندہ ہر رکن کو اطمینا ن و سکون کے ساتھ ٹھہر ٹھہر کر ادا کرے یعنی بندہ رکوع میں جاتے ہوئے تکبیر کہے اور جب مکمل طور پر رکوع میں پہنچ جائے ، اس کی کمر مکمل سیدھی ہوچکی ہو، اس کے ہاتھ گھٹنوں کو پکڑ چکے ہوں، کہنیوں میں خم نہ ہو بلکہ بازو بالکل سیدھے تنے ہوئے ہوں پھر وہ رکوع کی تسبیحات کہنے کا آغاز کرے اور اسی حالت میں ہی رکوع کی تسبیحات مکمل کرے اور جب وہ رکوع کی تسبیحات مکمل کرچکے تو پھر سمع اللہ لمن حمدہ کہتے ہوئے اپنے سر کو رکوع سے اُٹھائے اور رفع الیدین کرےاور جب مکمل طور پر سیدھا کھڑا ہو جائے تو اس کے بعد قومہ والی تسبیحات و ادعیہ کا آغاز کرے اور اسی حالت میں ہی ان کو مکمل کرے ۔جب ان دعاؤں کو سے فارغ ہوچکے تو پھر وہ تکبیرکہتا ہوا سجدہ کےلیے جھکے اور پھر جب تک اس کے دونوں ہاتھ ،دونوں گھٹنے ،پاؤں کے دونوں پنجے، ماتھا اور ناک زمین پر نہ لگ جائے اس وقت تک سجدہ کی تسبیحات کا آغاز نہ کرے۔ جب یہ ساتوں اعضاء زمین پر لگ جائیں پھر وہ سجدہ کی تسبیحات کا آغاز کرے اور جب تک اس کی سجدے کی تسبیحات مکمل نہیں ہوجاتیں اس وقت تک ان اعضاء میں سے کسی ایک کو بھی زمیں سے نہ اُٹھائے۔ پھر تکبیر کہتے ہوئے سر سجدے سے اُٹھائے اور مکمل طور پر اطمینان کے ساتھ بیٹھے دونوں بازو اس کی دونوں رانوں پر ہوں، بائیں ہاتھ کو بائیں گھٹنے پر رکھ کر انگلی کے ساتھ اشارہ کرے اور پھر "رب اغفرلی ، رب اغفرلی" کی تسبیح و دعاء شروع کرے۔ یہ مکمل پڑھ لینے کے بعد جب اس وظیفہ سے رکے تو تب تکبیر کہتے ہوئے دوسرے سجدہ کے لیے جھکے اور اگلا سجدہ اسی طرح سے کرے، پھر تکبیر کہتے ہوئے سر کو اُٹھائے اور اُٹھ کر بیٹھے ، اطمینان کے ساتھ، جلسۂ استراحت کرے پھر اگلی رکعت کے لیے اُٹھ کر کھڑا ہواور جب تک وہ سیدھا کھڑا نہیں ہوجاتا اور ہاتھ باندھ نہیں لیتا اس وقت تک وہ قیام کی قرأت کا آغاز نہ کرے ، یہ معنی ٰ ہے تعدیل ارکان کا۔ یہ ہوگا تو بندہ نماز قائم کرنے والا بنے گا ، اگر اس طرح سے نماز ادا نہیں کرتا تو وہ نماز قائم کرنے والا نہیں ہے۔
۲۔دوام اور ہمیشگی
یعنی نماز پر دوام کیا جائے ساری زندگی ہر روز تمام نماز یں پڑھی جائیں یہ نہ ہو کہ کبھی پڑھ لی اور کبھی چھوڑدی یا دن میں ایک دو نمازیں پڑھ لیں باقی چھوڑدیں تو یہ دوام نہ ہوگا اور یہ بند ہ نماز قائم کرنے والا نہ بنے گا۔
۳۔باجماعت نماز ادا کرنا
اللہ تعالیٰ کا حکم ہے " واکعو ا مع الراکعین " (البقرۃ: ۴۳)
یعنی باجماعت نماز ادا کرو۔ اگر بندہ بے جماعت نماز ادا کرتا ہے تو وہ اقامت صلاۃ نہیں ہے، وہ نماز قائم کرنے والا تبھی بنے گا جب وہ باجماعت نماز اداکرے۔"رکوع کرنے والوں کے ساتھ رکوع کرو"
۴۔صفوں کی درستگی
نبی کریم ﷺ کا فرمان ہے:
"فان تسویۃ الصفوف من اقامۃ الصلاۃ" (صحیح بخاری، کتاب الآذان، باب اقامۃ الصف من تمام الصلاۃ:۷۲۳)
لہٰذا صفیں اگر سیدھی ار برابر نہو ہوں تو تب بھی نماز "قائم" نہیں ہوتی۔ اقامۃ صلاۃ کے فریضہ سے بندہ تبھی سبکدوش ہو سکتا ہے جب صفیں برابر ہوں ، پاؤں اچھی طرح ملے ہوں، درمیان میں خلا نہ ہو، کوئی شخص صف سے آگے نکلنے والا یا پیچھے ہٹنے والا نہ ہو۔"صفوں کو برابر کرو کیونکہ صفوں کا برابر کرنا نماز قائم کرنے میں سے ہے۔"
۵۔مقررہ اوقات میں نماز ادا کرنا
اللہ رب العالمین کا فرمان ہے:
"ان الصلوٰۃ کانت علی المؤمنین کتابا موقوتا" (النساء:۱۰۳)
تو بے وقتی نماز اقامت صلاۃ نہیں ہے کہ بندہ نماز کوتاخیر سے قضاء کرکے پڑھنے لگے وہ مقیمی الصلاۃ میں شامل نہیں ہوگا۔ جبکہ اللہ تعالیٰ کو نماز کا قائم کرنا مطلوب ہے اور طلب الہیٰ تبھی پوری ہوگی جب بندہ بروقت باجماعت نماز ادا کرے۔"یقیناً نماز اہل ایمان پر مقررہ اوقات میں فرض کی گئی ہے۔"
کئی لوگوں کو یہ بیماری ہوتی ہے کہ چلو کوئی بات نہیں ، مسجد میں اگر جماعت کھڑی ہو بھی گئی تو کیا ہے ؟؟ ہم بھی بہت بڑے علامہ فہامہ ہیں بعد میں اپنی علیحدہ جماعت کروالیں گے۔ یہ سراسر جہالت و نادانی ،بیوقوفی و کم عقلی اور غیر دانشمندی کی دلیل ہے۔ نماز تو بروقت باجماعت مسجد میں آکر ادا کی جائے تب قائم ہوتی ہے ، تاخیر سے آکر جماعت کراونا وہ حیثیت نہیں رکھتا جو پہلی جماعت کی ہے۔
۶۔سنۃ کے مطابق نماز ادا کرنا
رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے:
"صلوا کما رأیتمونی أصلی" (بخاری، کتاب الأدب، باب رحمۃ الناس والبھائم، حدیث:۶۰۰۸)
لہٰذا اگر نماز سنت نبویہﷺ کے مطابق ہوگی تو بندہ نماز قائم کرنے والا بنے گا، وگرنہ نہیں؛"اسی طرح نماز پڑھو جس طرح مجھے نماز پڑھتا دیکھتے ہو۔"
اور جو بندہ نماز قائم کرنے والا نہیں ہوتا اس کو اس کی نماز فائدہ نہیں دیتی ۔ نماز کا فائدہ یہ ہے : ان الصلوٰۃ تنھی عن الفحشاء والمنکر" (العنکبوت: ۴۵)
تو جو شخص نماز پڑھ کر مسجد میں بیٹھا ہی غیبتیں شروع کردے، نماز پڑھ کر نکلتے ہی غیر محرموں کو دیکھنا شروع کردے اور نماز پڑھ کر دھوکہ ، فراڈ، چغلی، جھوٹ وغیرہ سے نہ رُکے، گالی گلوچ، بیہودہ باتیں، فحش گانے، گندے ناول، محرمات دینیہ اس کا معمول ہوں، برائی اور فحاشی کے کاموں سے نہ بچے تو وہ سمجھ لے کہ اللہ رب العالمین کی عدالت میں اس کی ادا شدہ نماز، نماز نہیں ہے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں نماز کا خاصہ بیان فرمایا ہے کہ نماز بندے کو بے حیائی اور فحاشی والے کاموں سے باز رکھتی ہے۔ نماز منکرات و نواہی سے انسان کو دور لے جاتی ہے ۔"یقیناً نماز بندے کو بے حیائی اور برائی سے منع کرتی ہے"
تو معلوم یہ ہوتا ہے کہ جس چیز کو اللہ تعالیٰ نماز کہتے ، قراردیتے اور سمجھتے ہیں کہ یہ "شئے" "نماز" ہے ، اس چیز میں یہ قوت و طاقت پا۴ی جاتے ہے کہ وہ بندے کو بےحیائی اور برائی سے منع کرے۔ اور یہ بندہ مسجد میں جا کر کچھ کرکے آیا ہے، اور اس کے فعل نے بندے کو بے حیائی اور برائی سے منع نہیں کیا تو معلوم ہوا کہ اس آدمی کے اس فعل کو اللہ رب العالمین نے اپنی مطلوبہ "نماز" نہیں سمجھا، تبھی تو اس میں وہ تاثیر پیدا نہیں کی جو ایک نماز میں اس نے رکھی ہے۔ اللہ تعالیٰ کا وعدہ سچا ہےکہ نماز بندے کو بے حیائی اوربرائی سے روکتی ہے۔ اگر آج کسی کی نماز میں تاثیر نہیں ہے تو اس کو اپنی نماز کی اصلاح کرنی چاہیے۔ وہ اپنی نماز کو ضائع ہونے سے بچائے اور ان لوگوں کی طرح نہ ہوجائے کہ جنھوں نے " أضاعواالصلاۃ واتبعواالشھوات" اپنی نمازوں کو "ضائع" کر لیا اور اپنی خواہشات کی پیروی کی تو اللہ تعالیٰ نے انھیں ناخلف قوم قرار دیا اور "فسوف یلقون غیاً" کہتے ہوئے جہنم کی وعید سنائی۔ (مریم: ۵۹)
امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ نے ایک قوم کے ساتھ نماز ادا کی ۔ پھر بعد میں انھیں خط لکھا اور فرمایا: اگر میں سو(۱۰۰) سے زائد مساجد میں بھی نماز اداکروں تو پھر بھی مجھے کسی بھی ایک مسجد کے سارے نماز اس انداز میں نماز پڑھنے والے نظر نہیں آتے جس طرح سے نماز رسول اللہﷺ نے سکھائی تھی۔" (رسالۃ "الصلاۃ" لابن حنبل)
لیکن آج ہماری زبوں حالی اور عدم توجہی و نماز سے غفلت کا عالم یہ ہے کہ ہمارے اکثر ائمہ مساجد نماز کے احکام و مسائل سے ناآشنا ہیں۔ ہاں چند ایک احکامات کا سبھی کو علم ہوتا ہے، حتی کہ نماز پڑھانے کا درست طریقہ ٔ کار معلوم نہیں ہے۔جبکہ امام صاحب کو معلوم ہونا چاہیے کہ وہ امامت کیسے کروائے۔جب جماعت كروا رہا ہو تو اس کو کس طرح نماز پڑھنا چاہیے ۔ کن کن باتوں کو ملحوظ رکھنا چاہیے۔ اور جب وہ اکیلا نماز پڑھے تو پھر کیسے پڑھے؟ لیکن عموماً ائمہ کرام اس شعور سے عاری ہوتے ہیں اور مقتدیان کرام ہیں تو ان کے تو کیا ہی کہنے کہ نماز کو ایک عادت کے طور پر بجا لاتے ہیں اور اس غفلت کا نتیجہ یہ ہے کہ ہماری نمازیں نہ ہمیں بے حیائی سے منع کرنے والی ہیں ، نہ برائی سے روکنے والی۔ حقیقتاً ہماری نمازوں میں وہ لطف وسرور باقی نہیں رہا اور اس کا سبب صرف اورصرف یہ ہے کہ ہم نماز صحیح طور پر ادا نہیں کرتے ۔ بہت سی ادعیہ ادھوری ، بہت سے ارکان ادھورے!! تعدیل تو دور کی بات ہے!!! نمازوں میں بھی ہم شارٹ کٹ مارنے کی بھرپور کوشش کرتے ہیں۔
یہ الفاظ کہے جائیں تویہ دعا مکمل ہوتی ہے۔ پھر اسی طرح ثناء کے بعد تعوذ کی باری آئی تو جو الفاظ نبی کریم ﷺ نے قرأت قرآن سے قبل پڑھے ہیں اور نماز میں پڑھنا منقول ہیں وہ تو یوں ہیں:تکبیر تحریمہ کہتے ہوئے رفع الیدین صحیح طور سے نہیں۔ ثناء میں سبحانک اللھم وبحمدک والی دعاء شروع کی تو لا الہ غیرک پر بریک لگ گئی۔ جبکہ یہ دعا ان الفاط پرختم نہیں ہوتی بلکہ رسول اللہﷺ اس کے بعد تین مرتبہ الا الہ الااللہ اور تین مرتبہ اللہ کبیراً کہتے۔ (سنن ابی داؤد، کتاب الصلاۃ، باب من رأی الاستفتاح بسبحانک اللھم وبحمدک، حدیث: ۷۷۵)
"اعوذباللہ السمیع العلیم من الشیطان الرجیم من ھمزہ ونفخہ ونفثہ"(سنن ابی داؤد، کتاب الصلاۃ، باب من رأی الاستفتاح بسبحانک اللھم وبحمدک، حدیث: ۷۷۵)
لیکن بالعموم وہ الفاظ پڑھے اور یاد کیے اور کروائے جاتے ہیں جو اس موقع پرپڑھنا ثابت نہیں ہیں، بلکہ وہ تو غصہ کوٹھنڈا کرنے کے لیے نبی کریمﷺ نے سکھائے ہیں کہ اعوذ باللہ من الشیطان الرجیم پڑھ لینے سے غصہ کافور ہوجاتا ہے۔(صحیح البخاری، کتاب الأدب، باب الحذر من الغضب، حدیث: ۶۱۱۵)
بس عادت پڑی ہوئی ہے اختصار کی، کہ نماز مختصر سے مختصر ترین ہو جائے خواہ وہ اختصار کتنا ہی مخل کیوں نہ ہو۔
پھر سورۃ الفاتحۃ کا آغاز ہوتا ہے تو اس کو بھی دو تین سانسوں میں مکمل کرنے کی بھرپور کوشش کی جاتی ہے۔ حالانکہ رسول اکرم ﷺ " یقطع آیۃ آیۃ"(سنن ابی داؤد، کتاب الحروف والقرأت باب، حدیث: ۴۰۰۱) " ہر ہر آیت پر وقف کرکے علیحدہ علیحدہ کر کے پڑھا کرتے تھے" اور وہ بھی "کان عد مداً" (صحیح البخاری، کتاب فضائل القرآن، باب مد القرأۃ، حدیث: ۵۰۴۰) "لمبا کھینچ کھینچ کر پڑھتے تھے۔" اور ہمارے ہاں تو بعض افراد ایسے بھی پائے جاتے ہیں جو سورۃ الفاتحہ کے آغاز میں بسم اللہ الرحمٰن الرحیم پڑھتے ہی نہیں۔ حالانکہ بسم اللہ الرحمٰن الرحیم سورۃ الفاتحہ کی پہلی آیت ہے، اس کو ملا کر فاتحہ کی سات آیات مکمل ہوتی ہیں۔ اور جو شخص فاتحہ مکمل نہیں پڑھتا اس کی نماز نہیں ہوتی یعنی جس شخص نے کسی بھی رکعت میں فاتحۃ الکتاب بسم اللہ سمیت نہیں پڑھی گویا اس کی وہ رکعت نہیں ہے اسے وہ رکعت دوبارہ ادا کرنا پڑے گی، وگرنہ اس کی نماز نامکمل ہے۔
اور جب قرأۃ کا مرحلہ آتا ہے تو پھر بھی مختصر ترین آیت و سورۃ کا انتخاب کیا جاتا ہے۔ اگرچہ فاتحہ کے بعد کوئی سورۃ نہ بھی ملائی جائے تو نماز بہر حال ہو جاتی ہے۔ (صحیح مسلم، کتاب الصلاۃ، باب وجوب القرأۃ الفاتحۃ فی کل رکعۃ۔۔۔، حدیث: ۳۹۶) لیکن قرأۃ کرنا ہر رکعت میں افضل و مستحب ہےاور نبی کریم ﷺ تو ظہر کی پہلی دورکعتوں میں سورۃ السجدہ کی تلاوت کے برابر قیام فرماتے اور آخری دو رکعتوں میں نصف سورۃ کے برابر اور اسی طرح عصر کی پہلی دو رکعتوں میں نصف سورۂ سجدہ کے برابر قیام ہوتا اور آخری دو رکعتوں میں اس سے بھی نصف کے برابر۔ (سنن ابی داؤد، کتاب الصلاۃ، باب تخفیف الأخیرین، حدیث: ۸۰۴) اور مغرب میں عموماً سورۃ البینہ سے آخر قرآن تک والی چھوٹی چھوٹی سورتیں پڑھتے اور عشاء میں البروج سے بینہ تک والی اور فجر میں الحجرات سے البروج تک والی سورتیں تلاوت فرماتے لیکن کبھی کبھی مغرب کی نماز میں سورہ طور جیسی لمبی لمبی سورتیں بھی پڑھ لیا کرتے۔(بخاری، کتاب الآذان، باب الجھر فی المغرب، حدیث: ۷۶۵) اور آپ ﷺ نے زندگی میں جو آخری آخری مغرب کی جماعت کروائی اس میں سورۃ المرسلات کی تلاوت فرمائی۔(بخاری، کتاب الآذان، باب القرأۃ فی المغرب، حدیث: ۷۶۳) اور ظہر کی جماعت نبی کریم ﷺ کرواتے تو جماعت کھڑی ہوجانے کے بعد کوئی شخص مسجد سے نکل کر بقیع میں جاکر قضائے حاجت کر کے پھر گھر جا کر وضوء کر کے مسجد میں آتا تو رسول اللہﷺ کو دوسری رکعت میں پالیتا تھا۔(المسند المستخرج علی صحیح الامام ، مسلم ، کتاب الصلاۃ ، باب القرأۃ فی الظھر ۷۴/۲، (۱۰۰۹)
لیکن ہماری صورت حال تو بہت نازک ہے کہ فرضی نمازوں میں بھی مختصر ترین آیات و سور کا انتخاب اور نوافل میں تو سورۃ الکوثر اور سورۃ الاخلاص کے علاوہ کوئی اور سورۃ ہی زبان پر نہیں چڑھتی ۔ اور اگر کبھی امام صاحب بھولے سے لمبی قرأت کر لیں تو ان کی "شامت "آجاتی ہے کہ ہم سے اتنی دیر تک کھڑا نہیں ہوا جاتا ، وقت نہیں ہے، کاروبار، دکانداری خراب ہوتی ہے، ہم مسیتٹر نہیں ہیں خواہ نماز سے فارغ ہوتے ہی مسجد کے دروازے پر کھڑے "گپ شپ " میں آدھا گھنٹہ صرف کردیں۔یعنی اما م الانبیاء جناب محمد مصطفی ٰ ﷺ عموماً درمیانی قرأت کرتے ، کبھی کبھی چھوٹی سورتوں سے ہلکا قیام فرمالیتے اور کبھی کبھی بڑی سورتوں سے لمبا قیام کرنا بھی فرضی نمازوں میں رسول اللہ ﷺ سے ثابت اور آپ کی سنت مطہرہ ہے۔
رکوع و سجود میں عدم اطمینان کا عالم یہ ہے کہ قرأت کے الفاظ ابھی منہ میں ہوتے ہیں اور رفع الیدین کے لیے ہاتھ اٹھنا شروع ہوجاتے ہیں اور بسا اوقات تو رفع الیدین مکمل بھی ہوچکتا ہے ، قرأت سے فارغ ہونے سے قبل! اور اسی طرح حمداً کثیراً طیباً مبارکاً فیہ کے الفاظ منہ میں ہوتے ہیں اور ادھر سجدے کے لیے جھکتے ہوئے ہاتھ زمین پر لگ رہے ہوتے ہیں، اور اس پر مستزاد کہ پھر فوراً تکبیر کہہ کر رکوع اور سجدے میں مکمل طور پر پہنچنے سے قبل ہی تسبیحات کا آغاز ہوجاتا ہے کیونکہ زبانیں تو ماشاء اللہ کافی رواں ہوچکی ہیں اور وہ رکنے کا نام ہی نہیں لیتی ہیں ، سانس اندر کی جانب بھی کھینچیں تو زبانیں "نان سٹاپ" سلام پھیرنے سے قبل رک ہی نہیں سکتی ہیں ، سکون اور اطمینان کا تصور معدوم ہے ، جلسۂ استراحت کو کالعدم قرار دے دیا گیا ہے۔ تشھد اول اس قدر مختصر کہ اللہ کی پناہ ! ایسا اختصار تو اللہ رب العالمین نے منافقین کا ذکر کیا ہےکہ : " لا یذکرون اللہ ٳلا قلیلا" وہ (اپنی نمازوں میں) اللہ کا بہت ہی کم ذکر کرتے ہیں۔(النساء: ۱۴۲)
اور نبی رحمت ﷺ نے بھی کیا خوب تبصرہ فرمایا ہے کہ منافق آدمی عصر کی نماز کو مؤخر کرتا ہے حتی کہ سورج شیطان کے دو سینگھوں کے درمیان ہوتا تو پھر وہ کھڑا ہو کر چار ٹھونگے مارتا ہے اور نمازمیں بھی اللہ کا بہت تھوڑا ذکر تا ہے۔(مسلم ، کتاب المساجد ومواضع الصلاۃ، باب استعجاب التکبیر بالعصر، حدیث: ۶۲۲)
ایسی ہی نماز کے متعلق رسول اکرم ﷺ نے فرمایا تھا:
ان الرجل لینصرف وما کتب لہ الا عشر صلاتہ تسعھا ثمنھا سبعھا سدسھا خمسھا ربعھا ثلثھا نصفھا۔"(سنن ابی داؤد، کتاب الصلاۃ، باب ما جاء فی نقصان الصلاۃ ، حدیث: ۷۹۶)
محض اس کی غفلت اور عدم توجہی کی بنا ء پر نماز درست طور سے ادا نہ کرنے کی وجہ سے اور اگر نماز میں عدم اطمینان اور عدم تعدیل ارکان بھی ہوتو اللہ رب العالمین کے کاغذوں میں وہ نماز ،نماز ہے ہی نہیں۔ وہ تو محض ورزش ہی کرکے آیا ہے کیونکہ وہ شخص جس کی نماز میں اطمینان اور سکون نہ تھا۔ ارکان میں تعدیل نظر نہ آتی تو اس کو سرور دوعالم ﷺ نے باربار یہی حکم دیا: " ارجع فصل فانک لم تصل" جا، جا کر نماز پڑھ ، تونے نماز پڑھی ہی نہیں ہے۔ (صحیح بخاری، کتاب الآذان، باب امر النبی ﷺ الذی لا یتم رکوعہ بالاعادۃ، حدیث: ۷۹۳)کہ بندہ نماز کی رکعتیں ساری پڑھ کر چلا جاتاہے لیکن اس کو نماز پڑھنے کا ثواب صرف دسواں حصہ یا نواں حصہ یا آٹھواں حصہ یا ساتواں حصہ یا چھٹا، پانچواں، چوتھا، تیسرا یا آدھا حصہ ملتا ہے ، اس کی باقی آدھی یا زائد نماز ضائع کردی جاتی ہے ۔
اور ایسے بندہ کو بدترین کہا ہے ، چوری کے اعتبار سے جو بندہ رکوع اور سجدہ اچھی طرح سے نہ کرکے نماز کی چوری کرتا ہے۔(مسند احمد، ۳۱۰/۵، (۲۲۱۳۶)
جب ہماری نمازوں کی یہ حالت ہوگی تو پھر وہ کیونکر ہمیں بے حیائی وبرائی سے منع کرنے والی بنیں ہوگی۔ کیونکہ رسول اکرم ﷺ اس نماز کو نماز ہی نہیں سمجھا ہے۔
ان ارید الا الاصلاح ما استطعت ، وما توفیقی الا باللہاللہ رب العزۃ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں اپنی عبادت کی اصلاح کرکے ا ن کو کما حقہ بجالانے کی توفیق عطا فرمائے ۔ آمین