• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اقامت کے وقت مسواک کرنے کا حکم

مقبول احمد سلفی

سینئر رکن
شمولیت
نومبر 30، 2013
پیغامات
1,391
ری ایکشن اسکور
452
پوائنٹ
209
اقامت کے وقت مسواک کرنے کا حکم
مقبول احمدسلفی

احادیث میں مسواک کی بڑی تاکید آئی ہے ، نبی ﷺ اس کا بڑا اہتمام کرتے تھے اور آپ نے اپنی امت کو بھی اس کی ترغیب دلائی ہے لیکن ٹوتھ پیسٹ اور ٹوتھ برش نے مسواک کی سنت کو لوگوں کی نظروں سے اوجھل کردیااس وجہ سے برصغیرہندوپاک میں مسواک کا استعمال نہ کے برابر ہے جبکہ طبی اعتبار سے اس کے جو فوائد ہیں اپنی جگہ مسلم ہیں شرعا یہ سنت رسول اللہ ﷺ ہے ۔ سعودی عرب میں اس کا استعمال بہت عام ہے یہی وجہ ہے کہ ہردوکان میں اور تقریبا اکثر مساجد کے پاس مسواک دستیاب ہوتی ہے اور یہاں کے باشندے وضو کے وقت، اذان کے وقت اوراقامت کے وقت اس کا بڑا اہتمام کرتے ہیں ۔
سوال یہ ہے کہ کیا نماز کے وقت یا اقامت ہوتےوقت یا اقامت ہوجانے کے بعد مسواک کرنا کیساہے ؟
احادیث سے کئی اوقات میں نبی ﷺ سے مسواک کرنے کا پتہ چلتا ہے بطور خاص وضو کے وقت اور نماز کے وقت مسواک کرنے کی بڑی ترغیب دلائی گئی ہے ۔
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
لولا أن أشقَّ على أمتي، أو على الناسِ لأمَرتُهم بالسواكِ معَ كلِّ صلاةٍ(صحيح البخاري:887)
ترجمہ: اگر مجھے اپنی امت یا لوگوں کی تکلیف کا خیال نہ ہوتا تو میں ہر نماز کے لیے ان کو مسواک کا حکم دے دیتا۔
اس حدیث سے پتہ چلتا ہے کہ نماز ی کو چاہئے کہ وہ ہرنماز کے لئے مسواک کرلیا کرے ۔ اس کا طریقہ یہ ہے کہ جب وضو کرنے لگے تو پہلے مسواک کرے اگر وضو کے وقت مسواک نہیں کرسکا تو نماز سے پہلے کسی وقت مسواک کرلے خواہ اقامت ہی کیوں نہ ہورہی ہو ۔نماز سے پہلے پہلے کسی بھی وقت مسواک کرنا نماز کے لئے مسواک کرنا ہے ،اس سے رسول اللہ ﷺ کی سنت پر عمل ہوجاتا ہے ۔
زید بن خالدجہنی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے:
لَولا أن أشقَّ علَى أمَّتي لأمرتُهُم بالسِّواكِ عندَ كلِّ صلاةٍ ، ولأخَّرتُ صلاةَ العشاءِ إلى ثلثِ اللَّيلِ(صحيح الترمذي:23)
ترجمہ: اگر مجھے اپنی امت کو حرج و مشقت میں مبتلاکرنے کا خطرہ نہ ہوتاتومیں انہیں ہرنماز کے وقت مسواک کرنے کا حکم دیتا، نیز میں عشاء کو تہائی رات تک مؤخرکرتا۔
ترمذی کی اس روایت میں راوی ابوسلمہ ،زید بن خالد رضی اللہ عنہ کا اس حدیث پر عمل کرنے کی کیفیت ذکر کرتے ہیں ۔

فَكَانَ زَيْدُ بْنُ خَالِدٍ يَشْهَدُ الصَّلَوَاتِ فِي الْمَسْجِدِ وَسِوَاكُهُ عَلَى أُذُنِهِ مَوْضِعَ الْقَلَمِ مِنْ أُذُنِ الْكَاتِبِ،لاَيَقُومُ إِلَى الصَّلاَةِ إِلاَّأُسْتَنَّ ثُمَّ رَدَّهُ إِلَى مَوْضِعِهِ.
ترجمہ: زیدبن خالد رضی اللہ عنہ نمازکے لئے مسجد آتے تو مسواک ان کے کان پربالکل اسی طرح ہوتی جیسے کاتب کے کان پرقلم ہوتاہے، وہ نماز کے لئے کھڑے ہوتے تو مسواک کرتے پھر اسے اس کی جگہ پرواپس رکھ لیتے
۔
صحابی کے عمل سے واضح ہوتا ہے کہ ہم مسواک مسجد لاسکتے ہیں اور نماز کھڑی ہوتے وقت اس کا استعمال کرسکتے ہیں ۔ نماز کے وقت مسواک کا استحباب کمال نظافت، شرف عبادت اور تقرب الی اللہ کا باعث ہے ۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
السِّواكُ مَطهرةٌ للفمِ ، مَرضاةٌ للرَّبِّ (صحيح النسائي:5)
ترجمہ: مسواک منہ کی صفائی و پاکیزگی اور رب تعالیٰ کی رضا مندی کا ذریعہ ہے۔
یہی وجہ ہے کہ علماء نے پانچ اوقات میں مسواک کرنے کو زیادہ فضیلت دی ہے گوکہ اس کا استعمال عام ہے کبھی بھی کرسکتے ہیں ۔
وضو کے وقت، نماز کے لئے کھڑا ہوتے وقت، قرآن کی تلاوت کے وقت ، بیدار ہوتے وقت اور منہ میں بدبو آنے کے وقت ۔
خلاصہ یہ ہوا کہ جس بندے نے وضو میں مسواک نہ کیا ہو وہ اقامت کے وقت مسواک کرسکتا ہے ، اسی طرح وہ بھی بوقت اقامت مسواک کرسکتا ہے جنہوں نے بہت پہلے وضو میں مسواک کیا تھا اور نماز کھڑی ہونے کے وقت مسواک کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے ۔
 

عمر السلفی۔

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 22، 2020
پیغامات
1,608
ری ایکشن اسکور
41
پوائنٹ
110
. مسواک اور معیشت

بچپن سے سنتے آئے ہیں کہ آقا کریم نے فرمایا "مسواک کرکے دورکعت پڑھنا بغیر مسواک کے ستر رکعت کے برابر ہے ".. آقا کریم مسواک بہت اہتمام فرماتے اور صحابہ کرام کو بہت تاکید کرتے. ایک روایت کے مطابق آقا کریم نے ارشاد فرمایا کہ" اگر مجھے یہ خیال نہ ہوتا کہ میری امت مشقت میں پڑجائے گی. تو انہیں ہر نماز کے وقت مسواک کا حکم دیتا. " اس کے علاوہ بھی بہت سی تاکید ہے.

اب اگر ہمارے اندر خوئے اطاعت ہوتی تو سوچیں ہمیں کم بیش بیس کروڑ مسواک چاہیے ہوتیں . روزانہ یا دوسرے دن یا ہفتہ بھر میں ایک بار بھی بیس کروڑ مسواکیں فراہم کرنے کیلئے کس قدر منظم شجرکاری کرتے. یقیناً ہمارے معاشرے کا ہر فرد درختوں کی ضرورت اور افادیت سے آگاہ ہوتا، ان میں دلچسپی لیتا ان کی دیکھ بھال کرتا. میرا ایسا ماننا ہے کہ مسواک کا حکم فی الحقیقت شجرکاری کا حکم ہے.

پھر اگر ہم مسواک پر مزید تحقیق کرتے تو جانتے کہ مسواک کے کون سے اجزاء ہمارے دانتوں کی صحت کے لیے مفید ہیں اور کون کون سے ہماری صحت کیلئے. جیسے پیلو کی مسواک میں موجود کیمیائی اجزاء نہ صرف یہ کہ منہ میں موجود نقصان دہ بیکٹیریاز ختم کرنے کی صلاحیت ہے بلکہ یہ انہیں دوبارہ لمبے عرصہ تک بڑھنے سے بھی روکتے ہیں . اس کے علاوہ اس مسواک میں اینٹی آکسیڈنٹس، پلاک روکنے والے اجزاء ، منہ کو صاف کرنے والا قدرتی صابن سیپونین خوشبو پیدا کرنے والے اجزاء وغیرہ شامل ہیں.

اب جب کہ جدید علم کے باعث ہم جانتے ہیں کہ ایک ہزار سے پندرہ سو پی پی ایم فلورائیڈ والی ٹوتھ پیسٹ دانتوں کو گرنے سے روکنے اور ان میں کھوڑ بننے کے عمل کو کم کرنے کیلئے بہت ضروری ہے تو ہم شاید کوشش کرتے کہ کسی طرح ایسے پودے تیار کیے جائیں جن میں قدرتی طور پر اس مقدار میں فلورائیڈ موجود ہوں.

دوسری طرف زراعت سے متعلق لوگ جانتے ہیں فلورائیڈ کی ایک حد سے زیادہ مقدار زمین کو بنجر کردیتی ہے. پودوں کی نشوونما کو آہستہ کردیتی ہے. زمین میں موجود انسان دوست بیکٹیریاز کو ختم کردیتی ہے. اب دیکھیں اگر ہم تحقیق و تفکر کے رسیا ہوتے تو ہم جدید جینیاتی عمل سے ایسے درخت بناتے جو زمین سے فلورائیڈ لیکر تنوں اور شاخوں میں پہنچاتے. جو نہ صرف ہمیں بہترین مسواکیں فراہم کرتے بلکہ بنجر زمینوں پر پیداوار دیتے اور آہستہ آہستہ زمین سے ساری فلورائیڈ نکال کر اسے زرخیز زمین میں بدل دیتے.

ہم اگر مسواک کے عادی ہوتے تو شجر کاری کے رسیا ہوتے. ہمارے گاؤں اور گھروں میں کوئی جگہ ایسی نہ ہوتی جہاں درخت نہ ہوتے. ہمارے گاؤں اور شہروں میں میلوں میل سڑکوں کے کنارے گھنے درختوں کی قطاریں ہوتیں.

ہم نے ایک روز تھوڑا سا حساب لگانے کی کوشش کی تو یہ عقدہ کھلا کہ ہماری ہائی ویز اور موٹرویز کہ جن کی کل لمبائی پندرہ ہزار کلومیٹر سے زائد ہے، کی کناروں پر جو جگہ چھوڑی گئی ہے اس جگہ کو پبلک پرائیویٹ سیکٹر کی مدد سے بھر پور طریقے سے درخت لگا کر استعمال کیا جائے تو ہم سالانہ سو ارب روپیہ تک کماسکتے ہیں. ایسے حالات میں جب ہمارا پورے ملک کا تعلیم کا بجٹ تراسی ارب سالانہ ہے یقینا اگر سو ارب مزید ہمارے پاس ہو جو ہم اپنے لوگوں کو ہنرمند بنانے پر لگا سکیں تو بخدا ہم چند سال میں وطن عزیز میں معاشی انقلاب برپا کر سکتے ہیں.

اگر ہم ایسا کوئی قانون بنا لیں کہ جس شخص کی سڑک کے ساتھ جتنی جگہ ہے اتنی ہی ملحقہ سرکاری جگہ اس کے ذمہ ہے اور وہ اس پر درخت لگائے اور ان کی حفاظت کرے اور جب درخت بیچیں جائیں تو آدھی آمدن اس کسان کو ملے اور آدھی سرکار کو تو یقیناً ہر شخص آمادہ ہوجائے گا. اگر ہم علاقہ کی آب وہوا کی مناسبت سے ہائبرڈ کیکر شیشم، ساگوان وغیرہ لگائیں تو آمدن ہمارے توقع اور اندازہ سے کئی گنا زیادہ بھی ہوسکتی ہے. اور اگر چھوٹی رابطہ سڑکوں اور ریلوے لائنوں کو بھی شامل کرلیا جائے تو شاید ہمارے پاس سالانہ کئی سو ارب روپے کا وافر بجٹ ہو جسے اگر صرف تعلیم وتربیت اور تحقیق کیلئے مختص کردیا جائے تو…… کاش ہم ایسا کرسکیں..
اے بسا آرزو کہ خاک شدہ

(ابن فاضل)
#ابن_فاضل
 
Top