• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

(اقلیتوں کا اسلامی وآئینی تحفظ اور ملکی بد امنی کے اسباب).(ظفر اقبال ظفر؟)

ظفر اقبال

مشہور رکن
شمولیت
جنوری 22، 2015
پیغامات
281
ری ایکشن اسکور
21
پوائنٹ
104
تحریر...ظفر اقبال ظفر)
(اقلیتوں کا اسلامی وآئینی تحفظ اور ملکی بد امنی کے اسباب)
اللہ تعالیٰ نے جب دنیا میں انسان کو بسایا تو اس کی رہنمائی و تعلیم وتربیت اور اصلاح کے لیے مختلف ادوا ر میں مختلف اقوام بقدر ضرورت انبیاء ورسل اور کتب سماویہ کے ساتھ ساتھ انبیاء کرام کو معجزات دے کر بطور تصدیق لوگوں کی اصلاح کا سامان کیا جس کا بنیادی مقصد لوگوں کی اصلاح کرنا تھا تاکہ امن و عافیت کی فضاء پیدا کی جائے اور بدامنی کو فروغ دینے والے تمام تر اسباب و محرکات کی جڑہیں کاٹی جائیں چناچہ انبیاء ورسل اور کتب سماویہ غرض کہ معجزات کا تسلسل حاتم النبین‘سیدالرسل‘امام الانبیاء حضرت محمد رسول اللہﷺپر آ کر ختم ہوتا ہے۔یہ وہ دور تھا جب چار سو لادینیت‘ضلالت وگمراہی ‘شرک وبدعت‘قتل وغارت‘دختر کشی غرض کہ ہر قسم کی معاشرتی برائی کی کالی گھٹائوں نے عرب و عجم غرض کہ پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا تھا امن و عافیت نام کی کوئی چیز دیکھنے کو نہیں ملتی تھی قبائلی تعصب ہو یا لسانی تفریق‘مال وزر کی حوس ہو یا شہرت کا نشہ ہو‘خاندانی فخر ہویا عہدے کے حصول کی خواہش غرض کہ کوئی بھی سبب ہو جس کی وجہ سے جھنگ وجدل‘ظلم و بربریت‘قتل و غارت کا لا متناہی سلسلہ جب شروع ہوتا تو صدیوں جاری رہتا اور خاندانوں کے خاندان اس کی نظر ہو جاتے انسانیت کا وہ قتل عام ہوتا جو تاریخ کی کتابوں میں سرخ حروف میں آج بھی ملتا ہے جس کو بیان کرنے سے قلم وقرطاس بھی خون کے آنسو ں رونے لگتے ہیں انسانی سوچ جواب دے جاتی ہے۔عین انہیں حالات میں قانون الہی کے مطابق عبداللہ بن عبدالمطلب کے گھر سے امن و عافیت کا آفتاب سراج منیرطلوع ہوا جس سے عرب و عجم اور شرق و غرب کے اندھیرے دیکھتے ہی دیکھتے چھٹنے لگے دنوں کی طرح راتیں بھی روشن ہونے لگیں ۔معاشرتی برائیوں کا خاتمہ ہوا امن و عافیت کا پرچار ہوا محبت واخوت ‘رواداری و ہمدردی‘اخلاق و کردار نیز توحید ربانی ‘اطاعت و فرمابرداری‘تقویٰ و خشیت الہی ‘احترام انسانیت ان کی زندگی کا حصہ بن گے ۔عزتوں کے لٹیرے عزتوں کے محافظ بن گے انسانیت کے قاتل جانثاری و آپنائیت کا پیغام لے کر آئے ۔وہ معاشرہ امن و عافیت کا گہوارہ بن گیا جنت کا سا حسین منظر پیش کرنے لگا ۔نبی ﷺ کی تعلیمات (المسلم اخو المسلم)(المسلم من سلم المسلمون من السانہ ویدہ)(حق المسلم علی المسلم ستہ)(من لم یرحم صغیرنا ولم یعقر کبیرنا فلیس منا)نیز فرمایا کہ کسی عربی کو کسی عجمی پر کسی کالے کو گورے پر کوئی فوقیت نہیں بلکہ تقویٰ کی بنیاد پر فوقیت ہے جس کی بدولت لوگ جانثاری کی مثال بن گےخدا شاہد ہے کہ مدینے کی سرزمین میں کوئی جرم باقی نہ رہا۔مگر روز اول سے ہی حق وباطل کی معرکہ آرائی افسوس سے آج تک جاری ہے حضرت آدم علیہ السلام کو شیطان‘ حضرت ابراھیم علیہ السلام کو باپ‘حضرت موسیٰ علیہ السلام کو فرعون‘حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو یہودیوں‘نبی اکرم ﷺ کو مشرکین مکہ ‘حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ کو منکرین زکوٰۃ اور متنبیوں ‘حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو قیصرو کسریٰ‘حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو عبداللہ بن سبا یہودی ‘حضرت علی رضی اللہ عنہ کو خارجیوں ‘حضرت حسین رضی اللہ کو کوفیوں غرض کہ موجودہ دور میں امت مسلمہ کو روس ‘امریکہ ‘ برطانیہ‘ اسرائیل‘بھارت جیسے اسلام کے بنیادی دشمنوں کا سامنا ہے ۔تاریخ اسلام کی اگرورق گردانی کی جائے تو تاریخ کے اوراق خود گواہ ہیں کہ جو مسلمانوں کا قتل عام کیا گیا دنیا کی کوئی تاریخی کتاب بھی اس کی نظیر پیش نہیں کر سکتی ۔ایسے حالات میں اسلام نے مسلمانوں کواپنے دفاع اور عزت و آبرو کی حفاظت کے لیے جہاد جیسی نعمت عطا کی جس میں بنیادی تعلیمات کو واضع کر دیا کہ جہاد کن لوگوں کے خلاف کرنا ہے تو جب اسلام کی جہادی تعلیمات پر نگاہ پڑھتی ہے اور جہادی اصول قتال کا جب مطالعہ کیا جاتا ہے تو تب جا کر پتہ چلتا ہے کہ اسلام کتنا پر امن مذہب ہے اسلام نےاپنے ماننے والوں کی تربیت اس انداز میں کی کہ میدان جھنگ میں جو لوگ امان طلب کریں ان کو امان دی جائے ‘جو لوگ معہد بن کر آ جائیں اور جزئیہ دے کر رہنا چاہیں ان کو قتل نہ کیا جائے‘جو معبد خانوں اور گرجہ گھرومیں عبادت میں مصروف ہو ان کو قتل نہ کیا جائے‘بچوں ‘بوڑھوں ‘کمزوروں بیماروں فصلوں‘جانوروں ‘عورتوں وغیرہ کو قتل نہ کیا جائےحتٰی کہ مردوں وغیرہ کا مثلہ نہ کیا جائےغرض کہ ان کو مسلم معاشرےمیں رہتے ہوئے ہر قسم کی مذہبی آزادی ہو گی ریاست ان کے جان و مال اور گرجا گھرو کے تحفظ کی ذمہ دار ہو گی اور کسی مسلمان کو کسی معاہدکو ناحق قتل کرنے کی اجازت نہیں ہو گی اصولوں کےمطابق ثابت بھی ہوجائےتو قاضی تحقیقات کے بعدفیصلہ کرے گا اور حکومت وقت اس کو سزادے گی کسی اور کے لیے جائز نہیں کے قانون کو ہاتھ میں لے کر لوگوں کا قتل عام کرتا پھرےبلکہ بنیادی ضروریات میں مسلمانوں کی طرح ان کو بھی آزادی ہو گی ۔افسوس کہ ماضی قریب میں چند مسلمانوں نے جس قدر کوٹ رادھا کشن کے واقع میں مسیحی برادری کے میاں بیوی کو (4ماہ کی حاملہ خاتون )کو دھکتی ہوئی آگ میں جلایا دیا بغیر ثبوت کے اور اسلامی تعلیمات کی جس قدر دہجیاں اوڑائیں اس کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے ۔اس کا نتیجہ تھا کہ حال ہی میں یونحا آ باد کے گرجا گھرو کو 2 خود کش دھماکوں کے ذریعے مسمار کرنے کی سعی کی گی اس کی اسلام اجازت نہیں دیتا اس کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے ۔مگر مسیحی برادری کی طرف سے ری ایکشن میں بے گناہ نہتے 2 مسلمانوں کا زندہ جلایا جانا کہا کی امن پسندی ہے ان کو کس جرم میں زندہ جلا دیا گیا ہے کوئی حکمرانوں میں سےہے پوچھنے والا ؟حقیقت یہ ہے کہ جو حقوق اور تحفظ اقلیتوں کو اسلام نے دیے ہیں کسی اور مذہب میں اس کی نظیر نہیں ملتی اور جو حقوق اور تحفظات اقلیتوں کو پاکستان میں حاصل ہیں وہ خود ان کو اپنی ریاستوں میں شرمندہ خواب بن کر رہ جاتے ہیں چند ایک مثالیں پیش خدمت ہیں پاکستان میں اقلیتوں کے حقوق کے متعلق تاکہ ہر ذی شعور جان لے کہ پاکستان میں کس قدر اقلیتوں کے حقوق اور تحفظات پر توجہ دی جاتی ہےیتوں۔
پاکستان میں اقلیتوں کے حقوق پر توجہ۔
1۔1995میں ایسٹر کے تہوار پر10 عیسائیوں کو روم بھیجا گیا جس پر 4لاکھ72ہزار خرچ ہوئے۔
2۔سکھ برادری کو گروہ نانک کی مذہبی رسومات پر حکومتی پروٹوکول کس سے مخفی ہے ؟
3۔اقلیتی ممبران کو ترقیاتی منصوبو کے لیے خاص فنڈ دیے جاتے ہیں ۔
4۔1996 میں 50 عیسائیوں کو سرکاری طور پر اسیر منانے روم بھیجنا منظور کیا گیا ۔
5۔سرکاری ملازمتوں کے لیے اقلیتوں کا خاص کوٹا رکھا گیا ۔
6۔ان کے قومی تہوار پر عیسائیوں کونقدی اور ایوارڈ سے نوازہ جاتا ہے نیز سکول اور کالجز کے لیے پراپرٹی کی فراہمی اور طلباء و طالبات کے لیے ٹرانسپورٹ کی سہولت ‘کرمس کے تہوار پر سرکاری چھٹیاں اور وزیر اعظم کی طرف سے 25 لاکھ کا تحفہ‘ان کے تہواروں کی میڈیا پر نشریات کے خصوصی انتظامات کیے ماتے ہیں۔
7۔ توہین رسالت کے دو مجرموں (سلامت مسیح‘رحمت مسیح)کو بیرونی دباؤں پر لاہور کو ہائی کورٹ سے باعزت بری کروا کر بحفاظت جرمنی پہنچایا گیا ۔
8 ۔ پشاور اور لاہور بادامی باغ غرض کے پاکستان کے جس شہرمیں جب بھی گرجاگھرو کو نقصان پہنچایا گیا حکومت وقت نے سرکاری خرچہ سے تعمیر نو کروائی۔
9۔ریمنڈڈیوس جیسے انسانی حقوق کی دہجیاں اوڑانے والے 3بے گنا ہ مسلمانوں کے قاتل کو باعزت بری کر گیا۔
10۔کوٹ رادھا کشن سے متاثرہ میاں بیوی کے ورثا کو زمین اور نقدی سے نوازہ گیا۔
غیر مسلموں کا اقلیتوں سے رویہ۔
1۔32 عیسائی نوجوانوں نے خود کو مسلمان ظاہر کر کےافغان مجاہدین سے ٹرینگ حاصل کر کے اپنی تنظیم کرسچن طالبان کی بنیاد رکھی اور پاکستان میں کرسچن ٹائمز کے اڈیٹر کو قتل کر دیا ۔
2۔مصر کے آرچ بشپ (تھیوفیلوس)نےخاندان بطالسہ کا عظیم الشان کتب خانہ جلا دیا۔
3۔ارجنٹائز میں رومن کیتھولک حکومت ہےوہا 35ملین آبادی کے پروٹسنٹ فرقوںکو تسلیم نہیں کرتی اور ان پر ہر قسم کا ظلم روا رکھتی ہے۔
4۔بلغاریہ میں آرتھوڈکس چرچ کو ریاستی مذہب کا درجہ حاصل ہے جبکہ حکومت نے میتھوڈسٹ عیسائیوں کا گرجہ چھین کرکٹ پتلی گھر میں تبدیل کر دیا۔
5۔لارس اینجلس کے نسلی فسادات میں امریکی سیاہ فام کو سفیدفام برداشت نہیں کرتا۔
6۔عیسائی عورت خاندان سے ہٹ کر کسی کو اگر ووٹ دے تو اس کو طلاق ہو جاتی ہے ۔
7۔سکھ اقلیت ہندوستان میں ہندو مظالم کا تختہ مشق بنے ہوئے ہوئے ہیں۔
8۔اچھوت دولہا اگر گھوڑے پر سوار ہو جائے تو اس کی پٹائی کی جاتی ہے۔
9۔اسٹریلیاں میں پادری کو بمع اہل و ایال زندہ جلا دیا گیا۔
آئین پاکستان میں اقلیتوں کے حقوق!
پاکستان کا آئین پاکستان میں بسنے والے تمام مذاہب کے پیروکاروں کو مکمل آزادی ، سلامتی اور مساوات فراہم کرتا ہے ۔مذہبی بنیادوں پر کسی کے ساتھ کسی قسم کا امتیاز رکھنے کی اجازت نہیں دیتا ۔آئین پاکستان کا آرٹیکل ۲۰ کے مطابق مذہب کی پیروی اور مذہبی اداروں کے انتظام کی آزادی کا حق ہر شہری کوحاصل ہے۔(الف) ہر شہری کو اپنے مذہب کی پیروی کرنے ، اس پر عمل کرنے اور اسکی تبلیغ کرنے کا حق ہوگا ۔(ب) ہر مذہبی گروہ اور اس کے ہر فرقے کو مذہبی ادارے قائم کرنے اور ان کا انتظام کرنے کا حق ہوگا۔آئین پاکستان کی ایک دفعہ ۲۲ مذہب وغیرہ کے بارے میں تعلیمی اداروں سے متعلق تحفظات کوظاہر کرتی ہے۔آرٹیکل ۲۲ (۱) کسی تعلیمی ادارے میں تعلیم پانے والے کسی شخص کو مذہبی تعلیم حاصل کرنے یا کسی مذہبی تقریب میں حصہ لینے یا مذہبی عبادات میں شرکت کرنے پر مجبور نہیں کیا جائے گا۔اگرایسی تعلیم ، تقریب یا عبادت کا تعلق اس کے اپنے مذہب کے علا وہ کسی اور مذہب سے ہو۔(۳) (الف)کسی مذہبی فرقے یا گروہ کو کسی تعلیمی ادارے میں جو کلی طور پر اس فرقے یا گروہ کے زیر اہتمام چلا یا جاتا ہو ، اس فرقے یا گروہ کے طلباء کو مذہبی تعلیم دینے کی ممانت نہ ہوگی۔(ب) کسی شہری کو محض نسل ، مذہب ، ذات یا مقام پیدائش کی بنا پر ایسے تعلیمی ادارے میں داخل ہونے سے محروم نہیں کیا جائے گا جسے سرکاری محاصل سے امداد ملتی ہو ۔ پاکستان کے شہریوں چاہے وہ کسی مذہبی گروہ یارنگ ونسل سے تعلق رکھتے ہوں آئین پاکستان کا آرٹیکل ۲۵ سماجی اور شہری اعتبار سے برابری فراہم کرتا ہے اور مذہب ذات پات ،جنس یا جائے پیدائش کی بناء پرکسی فققسم کے امتیاز کی اجازت نہیں دیتا ۔پاکستان میں مذہبی اقلیتوں مردوں عورتوں سب کے حقوق برابر ہیں ۔(یہ برابری صرف شہری حقوق میں ہوگی)آرٹیکل ۲۵۔(۱) تمام شہری قانون کی نظر میں برابر ہیں اور قانونی تحفظ کے مساوی طور پر حقدار ہیں ۔(۲) محض جنس کی بناء پر کوئی امتیاز نہیں کیا جائے گا۔پاکستان اقوام متحدہ کے ایک رکن ملک کی حیثیت سے چارٹر آف ہیومن رائٹس کا پابند ہے ۔چارٹر آف ہیومن رائٹس کا آرٹیکل ۱۸ ہر شخص کو ضمیر کے مطابق مذہب کی پیروی کی مکمل آزادی دیتا ہے تاکہ ہر شخص اپنے مذہب پر قائم رہ کراور بلا خوف وخطر مذ ہبی رسوم ادا کرے اور انسانوں میں ایک دوسرے کے مذاہب کی عزت واحتر م کو فروغ دیتا ہے ۔دفعہ ۱۸ چارٹر آف ہیومن رائٹس (۱) ہر شخص کو سوچ ضمیر اور مذہب کی آزادی کا حق حا صل ہوگا اس میں یہ بات بھی شامل ہوگی کہ وہ اپنے پسند کا مذہب یا عقیدہ رکھ سکے اور اپنے مذہب اور عقیدے کی تعلیمات عبادات اور روایات کی بجا آوری کے زریعے انفرادی یا اجتماعی طور پر نجی سطح پر یا اعلا نیہ طور پر اپنے مذہب یا عقیدے کا اظہار کر سکے ۔(۲) کسی شخص پر ایسا جبر نہیں کیا جائے گا جو اپنی پسند کا مذہب یا عقیدہ رکھنے کی آزادی کی راہ میں رکاوٹ بنے ۔(۳) کسی شخص کے مذہب یا عقیدے کی آزادی اظہار وہی پابندی لا گو ہوگی جو قانون نے دوسرے لوگوں کی سلامتی ، نظم و ضبط ، صحت ، اخلا قیات ، بنیادی حقوق اور آزادی کی حفاظت کو مدنظر رکھتے ہوئے عائد کی ہے۔(۴) اس میثاق میں شریک ممالک والدین اور جہاں وہ موجو د نہ ہوں قانونی سر پر ستوں کی اس آزادی کا احترام کرنے کا عہد کرتے ہیں کہ وہ اپنے اپنے عقیدے کے مطابق اپنے بچوں کو مذہبی واخلا قی تعلیم دلائیں ۔پاکستان کے آئین کاآرٹیکل ۳۶کے مطابق ریا ست اقلیتوں کے حقوق اور مفادات کا تحفظ کرے گی اور آئین کے ہی آرٹیکل ۸کے مطابق بنیادی حقوق کے نقیض یا منافی قوانین کالعدم ہوں گےاور پاکستان چارٹر آف ہیومن رائٹس پر بھی عمل درآمد کا پابند ہے ۔ آئین پاکستان کے مطابق پاکستان ایک اسلامی جمہوریہ ہے اور اسلامی تعلیمات کے مطابق سب کو مذہبی آزادی حا صل ہے اور اسلام میں دین میں جبر کی کوئی گنجائش نہیں ہے اور ہر ایک کو اپنے مذہب ما ننے کی آزادی حاصل ہے اسی طرح دنیا کے ہر معاشرے کی طرح پاکستان میں بھی آئین فرد کی سلامتی کو اہمعیت دیتا ہے چاہے وہ کسی بھی مذہب ، ذات پات ، رنگ نسل سے تعلق رکھتا ہو اس وقت تک اسکی جان نہیں لی جاسکتی سوائے اس کہ قانون اسکی اجازت دے ۔ آئین کا ارٹیکل 9! کسی شخص کو زندگی یا آزادی سے محروم نہیں کیا جائے گاسوائے اسکہ قانون اسکی اجازت دے ۔اسلامی تعلیمات کے مطابق اسلامی ریاست اس امر کی پابند ہے کہ اپنے ہر شہری کی جان کو تحفظ فراہم کرے۔میدان عرفات میں حضرت محمد نے فرما یا تھا نہ تم کسی پر ظلم کرو اور نہ تم پر ظلم کیا جائے گا۔حضرت علی کا قول ہے ہر ظالم سے نفرت کرو اور ہر مظلوم کی نصرت کرو ۔ اسی طرح نجران کے عیسائیوں کے ساتھ جو حضرت محمد مصطفی ﷺنے معاہدہ کیا وہ پورا کا پورا اقلیتوں کے حقوق انکی جان ومال اور مذہبی آزادی کے متعلق ہے ۔اسلام امن محبت اور بھائی چارہ کا درس دیتا ہے اور دنیا کہ تمام مذاہب امن اور یگانگت کا درس دیتے ہیں ۔(یہ الگ بات ہے کہ مذاہب سماویہ میں سوائے اسلام کے سب تحریف کی نظر ہونے کے بعد تعصب پرستی اور ان کے ماننے والوں نے جوانسانیت پہ ظلم ‘تشدد کیا اس کی نظیر نہیں ملتی )پاکستان میں آئین کے مطابق اقلیتوں کو مساوی حقوق ، مساویانہ سلوک اور انکو مذہبی اور معاشرتی آزادی کا تحفظ حاصل ہے لیکن عملی طور پر ہمارے معاشرے میں کچھ نظر نہیں آتا ۔ہمارے معاشرے میں عملا اقلیتوں کو ایک کمزور اور لا وارث طبقہ سمجھا جاتا ہے اور سماجی اور مذہبی عدم رواداری جیسے مسائل سے دو چار ہیں ۔اسکی وجہ صرف اور صرف یہ ہے کہ ہمارے آئین اور قانون پر سختی سے آج تک عمل درآمد نہیں ہو ا اور ایک آمر کے دور میں بنے وہ قوانین جو آئین پاکستان سے متصادم ہیں کالعدم قرار نہیں دیئے گئے جس سے غیرمسلم طبقات کے خلا ف ان قوانین کا استعما ل اپنی ذاتی عناد اور دشمنیوں اور مقاصد کے حصول کے لیئے ہونے لگااور اقلیت عدم تحفظ کا شکار ہوگئی اور لوگوں نے انصاف کے فطری اصول اور قانون سے ہٹ کر جانیں لیں جس کی اجازت نہ قانون دیتا ہے اور نہ مذہب کیونکہ جب تک جرم ثابت نہ ہوجائے ملزم کو مجرم قرار نہیں دیا جاسکتا ۔اس لیئے ریاست کے لیئے لازم ہے کہ ایسے قوانین جو آئین پاکستان سے متصادم ہیں فوری کالعدم قرار دیئے جائیں اور آئین اور قانون پر سختی سے عمل درآمد یقینی بنایا جائے تاکہ اس ملک میں مذہبی اکثریت اور اقلیت کا جھگڑا ختم ہوجائے اور یہ ملک امن کا گہوارہ بن جائے۔
پاکستان میں اقلیتوں کا قتل اصل ذمہ دار کون؟
بدقسمتی سے نائن الیون کاواقع ہویابمبئی حملے عراق و مصرمیں شعیہ وسنی فساد ہویاہمارے قبائلی علاقوں میں امریکی ڈرون حملو ں کی پداش میں بے قصور بچوں ‘بوڑھوں اور عورتوں کا قتل عام کیا گیا ہوان کے بعد جو خونی کھیل پاکستان میں کھیلا گیا اور کھیلا جا رہا ہے نا جانے کب ختم ہوگا کیونکہ پاکستان کے حکمرانوں نے عدم توجہ اور لاقانونیت کی جو تاریخ رقم کی ہے اس کی نظیر کون پیش کر سکتا ہے؟غیر انسانی ‘غیر اخلاقی ‘اور فسادانہ کاروائیوں میں ملوث حضرات کو چند ٹکوں کی خاطر باعزت بری کیا جاتا رہا جس کی بدولت دوسرے فسادرسا ادارو کو اپنی من مانی کا موقع ملتا رہاجب کہ ہونا یہ چاہیے تھا کہ جب کوئی ایسا واقع ہوتا مجرموںاور ان کےپشت پناہوں کو سرعام چوکوں اور چراہوں پہ لٹکایا جاتا اگر اسلام کے دیئے قانون (ولکم فی القصاص حیاۃ )اور غنڈہ گردی و دہشت گردی کرنے والے جرائم پیشہ افراد کو (اسلامی قوانین)کے تحت سزا دی جاتی تو آج یہ شرمندگی نہ اٹھا نا پڑھتی-
اکس کو علم نہیں تھا کہ کراچی جیسے بڑے تجارتی شہر کا امن تباہ کرنے والے کون لوگ ہیں اور ان کا احتساب بروقت کیوں نہ کیا گیا ؟کس کو معلوم نہیں 3بے قصور نہتے مسلمانوں کا قاتل اور حقوق انسانی کا مذاق اڑانے والا ریمنڈڈیوس نہیں ہےپھر کیوں اس کو باعزت بری کیا گیا ؟کس کو معلوم نہیں تھا کہ جامعہ حفصہ کی طالبات کا قاتل کون ہے مگر آج تک اس کو سزا کیوں نہ دی گئی؟کس کو معلوم نہیں کہ کراچی میں 250 مزدرو ں کا قاتل کون ہے مگر ان کا سراغ آج تک کیوں نہیں لگایا گیا اور اس کے مجرموں کو آج تک بے نقاب کیوں نہیں کیا گیا ؟ کس کو معلوم نہیں کہ الطاف حسین 1979 ۔1987کو گرفتارہوکر جیل گے اور این ار ا و کےتحت 72 مقدمات سے بری ہوئے۔2009میں31قتل‘11اقدام قتل 3اغواء کے مقدمات واپس کیوں لیلے گے (نوائے وقت18مارچ2015)؟ قوم کی بیٹی ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو کس جرم میں امریکہ کے ہاتھوں کس نے فروخت کیا کس کو معلوم نہیں؟اسلام آباد میں پی‘ٹی ‘آئی پر حملہ کر کے بدامنی کی تاریخ کس نےرقم کی ان کو آج تک سزا کیوں نہیں دی گی ؟لاہور پولیس لائن پر حملہ کس نے کیا اس کے مجرموں کو آج تک بے نقاب کیوں نہیں کیا گیا؟بے نظیر بھٹوکو کس نے قتل کیا اس کے قاتلوں کا سراغ آج تک کیوں نہیں لگایا گیااور کیوں ان کو سزا نہیں دی گی؟اسلام آباد میں بلیک گاڑی میں بیٹھ کر گھنٹوں اسلحہ کے زور پر کس نے پولیس اور کمانڈوز کویرغمال بنائے رکھا اس کو آج تک سزا کیوں نہیں دی گی؟کس کو معلوم نہیں کےانسانی سگلنگ کون کرتا ہے مگر ان کو آج تک کیوں پکڑ کر سزا نہیں دی گی؟یاد رکھیے جس معاشرے میں لاقانونیت ہو اور قانون لو گوں کی نظر میں ہیچ ہو‘جس کی لاٹھی اس کی بھینس کا قانون گردش ایام می؟ں اپنی مثال نہ رکھتا ہوجو معاشرہ جنگل کے معاشرے کی عملی تصویر پیش کرتا ہو کہ طاقت ورطاقت کے نشہ میں کمزوروں پہ اپنی وحشت و ہیبت طاری رکھتا ہو جس وقت جو دل میں آئے کر گزرتا ہو اس کی زبان کو کوئی لگام ڈالنے اور اس کے ہاتھوں میں بروقت کوئی بیڑیا نہ ڈال سکتاہو تو اس معاشرے میں ایک نہیں مستقبل میں بیسوں سانحہ پشاور ‘سانحہ کوٹ رادھا کشن‘سانحہ بلدیہ ٹاون کراچی ‘سانحہ یوحنا آبادجیسے یا اس سے بھی لرزہ خیزرونما ہونے سے کوئی نہیں روک سکے گا ۔
وطن عزیزمیں بدامنی کے اسباب ومحرکات
1۔عقیدے میں تناقض... بعض کلمہ طیبہ کا اقرار کرنے والےمسلمان تقلید شخصی‘شرک وبدعت‘تصوف وجود اوردیگرخرافات میں گر کر توحید خالص کی تعلیمات سے انحراف پہ اتر آیا ہے اور مسلکی اور نظریاتی اختلافات کی بنیاد پہ ایک دوسرے پہ کفر کے فتوے لگا کر خانہ جھنگی میں تعاون کے مرتکب ہوکر امن و عافیت کی فضا کو خراب کرنے کی سر توڑکوش کر رہے ہیں۔
2۔اسلامی تعلیمات سے عدم واقفیت.....اسلام کا مزاج خاص جس کا وہ اپنے ماننے والوں سے ہر حال میں تقاضہ کرتا ہے وہ (يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنْ جَاءَكُمْ فَاسِقٌ بِنَبَإٍ فَتَبَيَّنُوا أَنْ تُصِيبُوا قَوْمًا بِجَهَالَةٍ فَتُصْبِحُوا عَلَى مَا فَعَلْتُمْ نَادِمِينَ)ہے ۔مگر افسوس چند حواس باختہ اور درندہ صفت انسانوں نے اسلامی تعلیمات کی جو دہجیاں کوٹ رادھا کشن میں کرسچن میاں بیوی جو کہ(4ماہ کی حاملہ تھی )کودھکتی ہوئی آگ میں جلا کر راکھ کر کے وہ راکھ اسلام کے چہرے پہ مل کر اسلام کو بدنام کرنے کی جسارت کی ہے کہ دل خون کےآنسوں روتا ہے کہ اس زانیہ کا واقع کیوں تمہیں یاد نہ رہا (جی وہ حاملہ تھی اور حشیت الہی کی وجہ سے خود کو حضور ﷺکی عدالت میں سزا کے لیے پیش کرتی ہے مگر میرے حضور ﷺفرماتے ہیں جب حمل وضع ہو جائے پھر آنا مگر بچہ پیدا ہو گیا موت کا خوف پھر اسے حضور ﷺ کی عدالت میں آنے پہ مجبور کرتا ہے بچے کو اٹھا کر آئی خود کو سزا کے لیے پیش کیا حضورﷺ نے کہا جا چلی جا جب بچہ دود چھوڑ دے پھر آنا پھر موت کا منظر آنکھوں کے سامنے گردش کرنے لگابچے کو اٹھا یا حضور ﷺکی عدالت میں پھر تشریف اے آئی کہا حضورﷺ مجھے حد لگا کر گناہ سے پاک کردیجیے پھر بھی حضورﷺ نے جب تک اس بچے کی پرورش کی ذمہ داری کسی صحابی کو نہیں دی اس وقت تک اس زانیہ کورجم نہیں کیا اس بھی آگے بڑھیے پھر حضور ﷺنے اس کا جنازہ پڑھایا اور اس کے کفن دفن کاانتظام کرنے کے لیے صحابہ کو کہا پوچھنے والے نے پوچھا کہ حصور زانیہ کا جنازہ کیوں پڑھایا ؟تو نبوت والی زبان سے حضور ﷺنے پھرمایا اس نے جوتوبہ کی ہے اگر مدینے کے 70گنہگاروں میں تقسیم کی جاتی تو ان کو بھی کافی ہو جاتی ...)اس واقع سے یہ بات واضع ہوئی کے بے گناہ اور معصوم جنین کو زانیہ کے ساتھ قتل نہیں کیا جائے گا مگر اس طرح لگتا ہے 4 ماہ کی حاملہ کو جلانے والے سب کے سب اسلامی تعلیمات سے غافل ‘جاہل ‘اور تعصب پرست درندہ صفت انسان تھے جن میں سے کسی نے بھی تحقیق کرنے اور عدالت کی طرف رجوع کرنے کی زرا بھی سعی نہیں کی گی خود ہی فیصلہ کر دیکھلایا۔ اسی کے ری ایکشن میں15 مارچ کو2مسلمان نوجوانوں کو کرسچن لوگوں نے جلا کر راکھ کر دیا یونحا آباد کا سانحہ رونما ہواجب ایسے حالات پیدا ہو جائیں اور لوگ اپنی مرضی سے خود ہی فیصلہ کرنے پہ اتر آئیں تو اس معاشرے کے قانون نافذ کرنے والے اداروں کی کیا قدر رہ جاتی ہے ۔یاد رکھیں اسلام کسی کو اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ قانون کو ہاتھ میں لے کر جس کا جی چاہے لوگوں کا قتل عام کرتا پھر ے
3۔احکام الہی سے انجراف اور لاقانونیت......اسلام نے جو مسلمانو ں کو امن و عافیت کے قوانین دیے ہیں اس سے بغاوت کرتے اغیار کے بنائے ہوئے قانون نافذ العمل جس معاشرے میں ہو زانی اور زانیہ کو سزا نہ دی جائے تو اس معاشرے میں(رحیم یار خاں کے مسلم لیگ نون کے ایم‘پی‘اے رانا نوید اختر اور اس کے ساتھیوں کے ہاتھوں حاملہ خاتون نادیہ بشیر کی آبروریزی )کا ایک واقع نہیں سینکڑوں واقعات دیکھنے کو مل سکتے ہیں ۔جس معاشرے میں شراب نوشی سرعام کی جاتی ہو اس معاشرے میں عزتوں کی حفاظت شرمندہ خواب بن کر رہ جاتی ہے –جس معاشرے میں قتل کی سزا مقرر نہ ہو اس معاشرے میں بینظیر بھٹو کا قتل ہو یا سانحہ بلدیہ ٹاون کراچی میں 250سے زائد بے قصور نہتے مزدورو کا قتل عام جیسے سینکڑو واقعات دیکھنے کو مل سکتے ہیں ۔جس معاشرے میں چوری کی سزا مقرر نہ ہو اس معاشرے میں ۔4۔نصاب تعلیم کا غیر اسلامی ہونا۔اسلامی نظام تعلیم اتحاد‘رواداری ‘اخوت ومحبت ‘ جانثاری ‘ احترام انسانیت‘حقوق انسانی ‘ صبر و تحمل‘من لایرحم لا یر حم‘بہادر وہ نہیں جو دوسروں کو گرا دے بلکہ بہادر وہ ہے جو غصے کے وقت اپنے غصے پہ قابوں پالیے‘من غشّہ فلیس منّا)کا درس دیتا ہے اس کو چھوڑ کر اگر ایسا نظام تعلیم رائج ہوجو مال وزر کی حوس‘خود غرضی‘مفاد پرستی‘تعصب پسندی‘انتشار‘اور وحدت امت کی اتحادی قوت کو کمزور کرنے کی دعوت دے وہ نصاب تعلیم قیامت کی دیواروں تک امن و عافیت کا ماحول پیدا نہیں کرسکتی اسلیے ہمارے حکمران آنے والی نسلوں کو امن عامہ کی اگر تعلیم دینے میں مخلص ہیں تو اسلامی نصاب تعلیم کا فوری اجراء کر کے ذہن سازی کی جائے دیکھنا چند سالوں میں دہشت گردی کس طرح حتم ہوتی ہے ۔5۔باہمی اختلافات۔اسلام کا نظریہ اتحاد واتفاق بڑا ہی واضع نظریہ ہے جس پر عمل کرنے سے اتحادی قوت کی بدولت انسان اخوت اور بھائی چارے کے بندھن میں بندجاتا ہے اور پھر انسان ایک جسم کی مانند ہوجاتے ہیں جیسے جسم کے ایک حصے کو تکلیف ہو تو پورا جسم اس کی شدت محسوس کرتا ہے جس کو اقبال نے ان الفاظ میں ذکر کیا ہے (اخوت اس کو کہتے ہیں چبہے کانٹا جو کابل میں......تو ہندوستان کا ہر پیروجواں بے تاب ہو جائے)مگر بدقسمتی سے آج مسلمانوں کی وحدت کا شیرازہ بکھر چکا ہے اور دشمن اتحادی قوت سے مسلمانوں پہ بھوکے بھیڑے کی طرح للچائی ہوئی نظرو سے دیکھ رہا ہے جس کی مثال (نیٹوں اور اقوام متحدہ ہے)جو مسلمانوں اور اسلام کے خلاف کوئی موقع بھی ہاٹھ سے نہیں جانے دیتا۔6۔عدالتی نظام کا بگاڑ۔بدقسمتی سے ہمار عدالتی نظام اس قدر بگڑ چکا ہے کہ اللہ کی پنہا اگر کوئی غریب اور مظلوم اپنی فریاد لے کر عدالت کا دروازہ انصاف کے لیے کھٹکاتا ہے تو عدالتوں میں بیٹھے ججز حضرات اور وکلا کی سالہا سال کی روٹی چل جاتی ہے اگرچہ اس غریب کا گھر بار اور جمع پونجی کیوں نہ داعوں پہ لگ جائے ان کو اس بات کی غرض نہیں ان کا پیٹ پھر جائے اگرچہ وہ اپنے گدے بیچے یا بچے فروخت کیوں نہ کرنے پڑھیں ان کی فیس پوری ہونی چاہیے اس طرح وہ بچارہ موت کو ہی اپنی عافیت سمجھتا ہے اور آخر کار وہ خود کشی کرکے اس ہمیشہ کی ذلت سے جان چھڑا لیتا ہے مگر انصاف نہ کی کوئی چیز اس کو نہیں ملتی ۔
7۔نظریہ پاکستان سے صرف نظر۔برصغیر میں جب مسلمانوں کا عروج اپنوں کی غداری کی وجہ سے زوال پزیر ہوا تو برطانوی سامراج اور ہندووں کی تنگ نظری کی وجہ سے جو مسلمانوں کے ساتھ ہوا تاریخ شاہد ہے کہ آج بھی اس کو بیان کرتے وقت قلم و قرطاس خون کے آنسوروتے ہیں تو اس وقت مسلمانوں نےہندووں کے منافقانہ رویہ سے تنگ آ کر آزادی کے لیے جدوجہد شروع کی ہزارو قربانیوں کے بعد 14 اگست 1947 کو بر صغیر کے مسلمانوں کے لیے الگ وطن حاصل کرنے میں کامیاب ہوئنے جس ریاست کا نام اسلامی جمہوریہ پاکستان رکھا گیا تاکہ مسلمان آزادی سے اپنے مذہب پہ عمل کر سکیں مگر افسوس 68 سال سے زائد کا عرصہ گزرنے کے باوجود آ تک مسلمان ظلم وستم اور ذلت کی زندگی گزار رہے ہیں اور بد قسمتی سے وطن عزیز کی بھا گ دوڑ شروع دن سے ہی جن کے ہاتھ میں ہے انہوں لاقانونیت کی جو تاریخ رقم کی ہے موجودہ حالات اس کے اینی شاہد اور منہ بولتا ثبوت ہیں امن عافیت کی قباء اس طرح چاک کی گی کے اللہ میری توبہ مسلمان مسلمان کے خون سے کھیلنے کا لا متناہی سلسلہ نہیں ہو رکنے کا نام نہیں لیتا ایک واقع کا غم ابھی ختم نہیں ہوتا کہ دوسرہ واقع پیش آ جاتا ہے اے میری قوم کے جوانوں اور وطن عزیز پہ براجماں حکمرانوں زرہ ہوش میں آؤو اور نظریہ پاکستان (لا الہ الا محمد رسول اللہﷺ)اور زطن عزیز کے لیے ہسلاف کی قربانیوں کی کچھ لاج رکھوں اور مسلمانوں کی حالب پہ کچھ بر کھاؤ ں۔8۔مذہب اور سیاست کی تفریق۔اسلام میں مذہب اور سیاست کی تفریق نہیں بلکہ احادیث کی کتب کا اگر مطالعہ کیا جائے تو( کتاب الامارہ)کے نام سے ہمیں اصول سیاست ملیں گے اور مذہب سیاست شرعی کے بغیر نامکمل ہے جس کو علامہ محمد اقبال نے کہا تھا (جدا ہو دین سیاست سے .......تو رہ جاتی ہے چنگیزی)مگر بدقسمتی سے ہمارے علماء نے سیاست کو خیر آباد کہا اور سیاست دانوں نے اسی میں عافیت سمجھی اور کہا کہ علماء کا کام صرف تسبحی اور مساجد کی دیکھ بھال کرنا ہے سیاست سے ان کا کیا تعلق ہے اور اس طرح وہ سیاست میں بیٹھے اغیار اے اشاروں پہ کھیلتے ہیں۔9۔علاقائی تقسیم۔نظریہ پاکستان میں اور اس وطن عزیز کے حصول کے لیے جو جدوجہد ہوئی اس میں ہندو اور مسلم کی تفریق تھی مگر وطن عزیز کو حاصل کیے 68 سال گزر جانے کے بعد آج تک مسلمان سندھی ا ور بلوچی ‘پنجابی اور پٹھان کی تقسیم سے اپنی وحدت کو کھوچکے ہیں اور آپس میں لڑائی جھگڑوں میں بھٹ کر رہ گے ہیں ۔10۔لسانی تفریق۔آ ج مسلمان سندھی اور بلوچی ‘پنجابی اورپٹھان ‘ سرائیکی اور مویتی کی تقسیم میں بھٹ کر رہ گے ہیں اور لسانی فتنہ اس قدر مضبوط ہو چکا ہے کہ ایک دوسرے کو گوارہ نہیں کرتے اور غیر ملکی ایجنسیوں اور این ‘جی ‘اوز نے بلوچیوں اور سندھیوں غرض کہ سرائیکوں کو پاکستان سے علہدگی پر اکسانے کی ناکام کوششیں کر رکھی ہیں اور اپنے ناجائز مقاصد حاصل کرنے کی سعی کر رکھی ہے مگر ہمارے مسلمان ابھی تک خواب غفلت کے مزے لوٹ رہے ہیں ہے ۔11۔مسلکی تفریق۔بد قسمتی سے وطن عزیز میں جس کو( لا الہ الاّللہ محمد رسول اللہ)کی بنیاد پر حاصل کیا تھا اور اس وقت تمام مسلمانوں کے اتحاد اور اتفاق کی بنیاد کلمہ طیبہ کوٹھہرایاتھا اور اس اتحاد کے پرچم تلے مسلمانوں کو جمع ہونے کی دعوت دی گی تاکہ مل کر آزادی کی جدوجہد کو پایاتکمیل تک پہنچایا جائے مگر بد قسمتی سے ہر قسم کی تفریق نے اتحاد امت کا شیرازہ بکھیر کررکھ دیا اور لسانی ‘مسلکی تفرقات نے دشمن کو شرانگیزیہ کرنے کی معاونت اور راہ ہموار کی جس سے دشمن نے فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے عزائم کو پورا کیااور ارباب مسالک کو اس قدر ایک دوسرے کی مخالفت پر اکسایا کہ آج تک اتحاد امت شرمندہ خواب بن کر رہ گیا ہےیہی پہ بس نہیں بلکہ شعیہ ‘سنّی فساد کھڑا کر کے قتل و غارت گری جیسے فتنے گھڑے کر کے وحدت امت کی فضاء کو خراب کر دیا ہے ۔12۔خاندانی تفریق۔روز وطن عزیز میں قتل و غارت ‘عناء پسندی‘خاندانی فخروغیرہ کی بنیاد پرجو خونی کھیل کھیلا جا رہا ہےاس سے بدامنی کی جو تاریخ رقم کی گئی اس کی مثال نہیں ملتی کہ ایک خاندان دوسرے خاندانوں کو گٹھیا ‘محکوم اور قمی قسم کی شمار کرنے لگے ہیں جس کی بدولت تکبر‘عناد‘حسد‘کینہ‘بغض‘وغرہ کی فضاء نے قتل و غارت کا وہ بازار گرم کر رکھاےہے کہ جو رکنے کا نام نہیں لیتا اور افسوس کے ساتھ کہنا چاہوں گاکہ خاندانوں کے خاندان اس کی نظر ہو گے مگر خاندانی دشمنی کا لا متناہی سلسلہ بد قسمتی سے آج تک جاری ہےاور قانون نام کی ہر چیز ان کے سامنے ہیچ ہےاور یہ لوگ قانون کی نظر میں امن پسند اور غرباء اور شریف طبع لوگ دہشت گردتصور کیے جاتے ہیں اور خدانخواستہ اگر کوئی بے گناہ غریب قانون کے رکھوالوں کے ہٹھے چڑھ جائے تو ہر قسم کے جبر وتشدّدکے پہاڑاس پرتوڑے جاتے ہیں اور حقیقی مجرم قانون کے رکھوالوں کے ہاں شاہی مہمان کی حثیت رکھتے ہیں خاندانی وڑیروں کے ہاں عام سپاہی سے لے کر ایس‘ایچ‘او اور ڈی ‘ایس ‘پی تک سب انہی کے ڈیرو پہ پلتے اور فیض حاصل کرتے ہیں۔
اقلیتوں کے متعلق علماء کی رائے۔
1۔ابراھیم نخی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ.....اذا كانت لك حاجة عند يهودي او نصراني فابداه باسلام(قرطبی. جلد نمبر 11صفحہ نمبر 112)
2۔ ابو عبیدہ (کتاب الاحوال) رقمطراز ہیں ....(ھم اصرار فی شھادتھم ومنا کحاتھم و مواریثھم وجمیع احکامھم)
3۔امام شوکانی رحمہ اللہ(نیل الاوطار جلد نمبر 7صفحہ نمبر 8)پہ لکھتے ہیں .....ويجب كف الاخر عنه و تحريم غيبته كالمسلم)
4-امام ابو يوسف رحمہ اللہ (کتاب الخراج )میں لکھتے ہیں.....لایھدم لھم بیعة ولا يمنعون من ضرب النّواقيس الّا في اوقات الصّلوٰة ولامن اخراج الصّلبان في يوم عيدھم)
5۔علامہ قرطبی اپنی کتاب( تفسیر قرطبی ‘جلد نمبر5صفحہ نمبر184)پر لکھتے ہیں ...... قال العلماء الاحادیث فی اکرام الجارجا ت مطلقة غيرمقيدة حتی لكافر)
اسلام میں اقلیتوں کا تحفظ غیر مسلموں کا اعتراف حقیقت۔
1۔فرانسیسی مستشرق (موسیوسیڈلیسٹ)لکھتا ہے کہ جو لوگ مذہب اسلام کو وحشیانہ تصور کرتے ہیں ان کے ضمیر کے تاریک ہونے کی دلیل یہ ہے کہ ان صریح علامات کو نہیں دیکھتے جن کے اثر سے عربوں کی وہ تمام بری خصلتیں (قبائلی تعصب ‘شراب نوشی‘دختر کشی)جو ان میں برسوں سے رئج تھیں وہ مٹ گئیں ۔
2۔پروفیسر(ٹی ڈبلیوآرنلڈ)اعتراف کرتا ہے کہ اسلام اگر جلوا گر نہ ہوتاتو دنیا شاید اخلاق‘عفودرگزر‘انسانی احترام وغیرہ سےروشناس نہ ہوتی اسلام ہی کا نتیجہ ہے کہ آج دنیا میں ایک واضع مساوات باہمی ہمدردی‘احترام انسانیت کی تحریکیں کھڑیں ہوئیں نظام حکومت کا ڈانچا بدلا‘اقتصادی نظام میں تبدیلی آئی ‘دنیا کے لیے رحمت ثابت ہونے والا مکمل ضابطہ حیات دیا ‘مزید لکھتے ہیں کہ اسلام میں ایسی خوبیاں ہیں جن کے سامنے نہ صرف میری بلکہ ہر انصاف پسند کی گردن جھک جانی چاہیے ۔
3۔پروفیسر ٹی‘ڈبلیو آرنلڈ اپنی کتاب ( دا پریچنگ اوف اسلام )میں لکھتا ہے کہ اسلام تلوار سے نہیں بلکہ غیر مسلموں کو جس جگہ ذبر دستی اسلام پر مجبور کیا جا سکتا تھا وہا علماء کرام اور اسلامی تعلیمات نے پوری آزادی دی مزید لکھتے ہیں کہ اقلیتوں کو مکمل مذہبی آزادی اسلام کا دستور العمل رہا ہے ۔
4۔تھامس کار لائل عیسائی محقق 1840ءمیں اپنی کتاب (ہیروز اینڈ ہیروزورشپ ) میں لکھتا ہے کہ اسلام تلوار اسلام سے نہیں پھیلہ بلکہ اسلام کے لیے تلوار استعمال ضرور ہوئی لیکن یہ تلوار آئی کہا سے تھی ؟ عیسائی مذہب کے ہاتھ میں جب بھی تلوار آئی ہے اس نے استعمال ضرور کی ہے ۔
5۔پروفیسرٹی ‘ڈبلیوآرنلڈ اشاعت اسلام کی وجوہات اور اسباب ذکر کرتے مزید لکھتا ہے کہ مسلم مجاہد کے ہاتھ میں تلوار اور قرآن والی تصویر خیالی ہے اس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں بلکہ اسلام تاجرو کے ذریعے پھیلہ ہ جو نہایت خاموشی سے دنیا میں پھیلانے کا سبب بنے مزید لکھتا ہے کہ ہم جبرواکراہ کی بجائے دوسرے اسباب تلاش کرنے کے بعد اسلام قبول کرتے ہیں جو اسلام کی اشاعت کا سبب بنے ہیں۔
6۔برطانیہ کی مشور ادیبہ(کرن آر مسٹرانگ)اپنی کتاب (محمد اے ویزٹرن اٹیمپٹ ٹو انڈرسٹینڈنگ اسلام)میں لکھتی ہے کہ محمدﷺ ایسے مذہب کے بانی ہیں جو تلوار کے ذریعے نہیں پھیلہ بلکہ صلح اور امن اسلام کی اشاعت کا سبب بنے ۔
7۔ماہر فلکیات اور مشہور دانش ورڈاکٹر (میخال ایچ ہارٹ ازر اس کی بیوی)دنیا کی سو عظیم شخصیات کا مطالعہ کرکرتے اپنی کتاب (دا ہنڈرڈ) میں لکھتے ہیں کہ( محمد(ﷺ)واز دا اونلی مین ان ہیسٹری ہو واز سپریملی سکسیسفل اون بوتھ دا ر یجیس اینڈ دا سیکولر لیولز)یعنی کہ پور ی تاریخ میں صرف محمدﷺ ہی وہ واحد شخصیت ہیں جنہو ں نے مذہبی اور غیر مذہبی اعتبار سے کامیابی اور کامرانی حاصل کی جس کے اثرات پوری دنیا نے محسوس کیے۔
اقلیتوں کے حقوق پر مبنی اسلامی واقعات۔
اسلام کسی غیر مسلم کے ساتھ کیا رویہ رکھتا ہے اس حوالہ سے چندایک تاریخ اسلامی سے پیش خدمت ہیں تا کہ معلوم ہو آج کا مسلمان اسلا می تعلیمات سے واقف کیوں نہیں ہے اگر ان کا علم ہے تو پھر من مانی اور جذبات میں آکر ایسے حولناک واقعات کر گزرنے پر آخر کونسی چیز انہیں مجبور کیے رکھتی ہے جس سے انسانیت کانپ جاتی ہے ہا غیرت ایمانی ہونی چاہیے میں اس بات پر پوری طرح متفق ہو مگر کیا صحابہاکرام رضی اللہ عنہ اور بنی اکرمﷺاور آئمہ ومحدثین سے ہم میں بڑھ کر غیرت ایمانی سرایت کر گی (معاذ اللہ) ہےکہ ہم اسلامی تعلیمات کی دہجیاں اڑاتے ہوئے کوٹ رادھا کشن کا واقع کر گزرے اور ہمیں آج تک شرمندگی بھی نہیں ہوئی اگر مسلمان اس وقت زرا ہوش کے ناخن لیتے اور معاملہ کی تحقیقات کر کے معاملہ قاضی کے سلمنے پیش کیا جاتا تو آج مسیح برادری کے ہاتھوں دو بے گنا ہ مسلمانوں کوزندہ جلائے جانے جیسے شرمناک کھیل کا سامنا نہ کرنا پڑھتا آخر کیوں ہم ایسے واقات کرتے شرم محسوس نہیں کرتے کیا اسلام کا یہ طرز عمل ماضی میں اقلیتوں سے رہا ہے آئیے چند حقائق آپ قارئین کی پیش خدمت کرنا حالات کی نزاکت کے پیش نظر ضروری محسوس کرتا ہوں تا کہ ہر فہم و فراست رکھنے والےاور حقائق کے متلاشی کو صراط مستقیم کی طرف کامیابی اور کامرانی سے ہمکنار ہونی میں مدد مل سکے۔
٭حضرت ابو ھریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کردا بحاری ومسلم کا واقع ہے کہ حضرت ثمامہ بن اثال جو کہ بنوحنفیہ کا شخص تھا صحابہ رضی اللہ عنھم اس کو گر فتار کر کے لے آئے 3 دن بعد جب نبیﷺ نے اس کو رہا کیا تو کچھ دور جا کر واپس اسلام لا کر مطیع و فرمابرداری کی حالت میں رشتہ صحابیت سے ہمکنار ہوتا ہے وجہ پوچھی کہ اچانک اتنی جلدی تبدیلی کیسے رونما ہوئی تو فرمانے لگے جب قیدی تھا تو آپﷺ کا چہرے جیسا برا چہرا کوئی نہیں لگتا تھا مگر جب اسلام کی دولت سے ہم کنار ہوا تو واللہ اس جیسا اچھا چہرہ کبھی نہیں دیکھا اس کی بنیادی وجہ حضور ﷺ کا اخلاق تھا جس نے اچانک اسلام لانے پر مجبور کیا۔
٭حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ یہودی کا جنازہ دیکھ کرآپﷺکھڑےہو گے صحابہ رضی اللہ عنھم نے کہا یا رسول اللہﷺ وہ تو یہودی ہے تو حضورﷺ نے نبوت والی زبان سے کہا کیا وہ اللہ تعالیٰ کی مخلوق نہیں ہے (بخاری)
٭علامہ ابوبکر جصاص(احکام القرآن)میں ہلال الکائی سے وہ وسق الرومی سے نقل کرتے ہیں کہ میں حضرت عمررضی اللہ عنہ کا غلام تھا انہوں نے مجھے قبول اسلام کا کہا کہ اسلام لا کر میرا مدد گار بن جا میں نے انکار کردیا تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا(لا اکراہ فی الدین )۔
٭فتح مکہ کے وقت سعدبن عبادہ رضی اللہ عنہ نے کہا (الیوم یوم الملحمة .........اليوم تستحلّ كهالكعبة)كہ آج خانہ کعبہ میں بھی خون بہایہ جائے گا مگر آپرضی اللہ عنہ نے سن کر فرمایا(کذب سعد الیوم یوم الرحمۃ)کہآج کا دن عفودرگزر ‘معافی ئ اور رحم و کرم کا دن ہے ۔
 
Top