• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

الامر بالمعروف والنھی عن المنکر کا فریضہ

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
امام ماوردی قاضی اور محتسب کے فرق کو بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں: قاضی کیلئے ضروری ہے کہ اس کے پاس مدعی دعوی کرے اور مدعی علیہ دعوے کا انکار کرے، دعوی دائر کرنے سے پہلے جو معاملہ فریقین میں ہے وہ محتسب کے اختیارات میں آتا ہے۔ اختیارات کی یہ تقسیم اس وقت ہے جب دواوین تشکیل پا گئے ہوں (اگر خلیفہ ازخود یہ کام کرے تو پھر سارے اختیارات خلیفہ کے پاس ہوں گے)۔ (مترجم)۔ محتسب دعوے کی نوبت سے پہلے بازاروں اور محلوں میں پھر کر دیکھے گا کہیں کسی مکان سے ناگوار خوش بو آتی ہو تو وہ جائزہ لے گا کہ یہاںکوئی شراب کی بھٹی تو نہیں، اگر ایسا ہوا تو وہ اُسے خود توڑ دے گا راتوں کو جا کر کھوج لگائے گا، کہیں سے طبلے، سارنگی کی آواز تو نہیں آرہی، آواز کی سمت جا کر وہ آلات موسیقی برآمد کرے گا اور ضروری ہے کہ وہ انہیں موقع پر ہی توڑ کر ناکارہ کردے، مورتیوں کو جہاں پائے ان کا چہرہ مہرہ بگاڑ کر رکھ دے۔ ہماری یہ بات اس اصول سے ماخوذ ہے کہ نبی بازار جاتے تھے۔ آپ نے سبزی فروش کے گٹھے سے گیلی ترکاری برآمد کی اور سبزی فروش سے ڈانٹ کر پوچھا یہ گیلی کیوں ہے؟ آپ نے اس موقع پر ارشاد فرمایا تھا من غش وفی روایہ من غشنا فلیس منا ”جس نے ملاوٹ کی، دوسری روایت میں الفاظ ہیں جس نے ہمارے ساتھ دھوکا کیا وہ ہم میں سے نہیں ہے“۔ وہ مزید لکھتے ہیں کہ عمر بن خطاب بذات خود محتسب کا کام کرتے تھے اور گلی محلوں میں جا کر مسلمانوں کے احوال سے ازخود باخبر رہتے تھے۔ ایسے امورمیں وزارت حسبہ، وزارت قضاءسے زیادہ بااختیار ہے۔ وزارت حسبہ کو حکومت کی طرف سے ایک ایسا اختیار ہے جو وزارت قضاءکو نہیں ہے۔ وزارت حسبہ کا فریضہ معاشرے میں (منکرات کے خلاف) ڈر اور خوف پیدا کرنا ہے جبکہ وزارت قضاءکا فریضہ انصاف کے تقاضوں کو پوراکرنا ہے۔ امام ماوردی کے یہ الفاظ ہیں:
الحسبہ موضوعہ الرھبہ، والقضاءموضوع للمناصفہ
اسلامی فقہ کی رو سے محتسب کے اختیارات سلطان کے اختیارات کی طرح ہیں کیونکہ سلطان سے بھی رعیت میں جرائم کرنے کی جرات پیدا نہیں ہوتی اور محتسب کی بارعب شخصیت سے بھی یہی غرض پوری ہوتی ہے۔ پھر ایک لحاظ سے محتسب قاضی کی طرح بھی ہوتا ہے جو گلیوں اور بازاروں میں جا کر خلاف شریعت کاموں کا موقع پر فیصلہ کرکے مناسب تادیبی کارروائی بھی کرتا ہے (اور بیشتر معاملات جن کا موقع پر انکار ممکن نہیں ہوتا محتسب کی بروقت مداخلت سے عدالت تک جانے کی نوبت ہی نہیں آپاتی)۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
فقہاءکرام نے جہاں قاضی اور محتسب کے اختیارات بتائے ہیں وہاں محتسب اورمتطوع (عام شہری جو منکر کے خلاف آواز اٹھائے) کے درمیان فرق بھی واضح کیا ہے، فقہ کی کتابوں میں محتسب اور متطوع کے درمیان نو فروق بتلائے گئے ہیں لیکن انہیں منجملہ ایک جملے میں بھی بیان کیا جا سکتا ہے۔ متطوع منکرات کے خلاف آواز اٹھانا اپنا فرض سمجھتا ہے کیونکہ شریعت ہر شخص کو الامر بالمعروف والنھی عن المنکر کا انکار حسب استطاعت کرنے کا حکم دیتی ہے۔ اس بناءپر یہ نہیں کہا جا سکتاکہ احتساب کا محکمہ بنانے کے بعد باقی مسلمانوں سے منکر کو تبدیل کرنے کی ذمہ داری موقوف ہو جاتی ہے۔

متطوع بلامعاوضہ اور سرکاری اختیارات کے بغیر اصلاح معاشرہ کا کام کرتا ہے اور محتسب کو سرکاری اختیارات کے علاوہ بیت المال سے وظیفہ بھی ملتا ہے کیونکہ محتسب اِسی کام میں مشغول رہتا ہے اور اپنے روزگار کا کوئی اور بندوبست کرنے کیلئے فراغت نہیں پاتا، متطوع منکر کا انکار زبان سے کرتا ہے اور دوسروں کی کڑوی کسیلی باتوں کو بھی برداشت کرتا ہے وہ حدود نافذ نہیں کر سکتا، سزا نہیں دے سکتا، تعزیر نافذ نہیں کر سکتا سوائے انتہائی سنگین حالات کے جیسے گلی میں بدکاری ہو رہی ہو تو ظاہر ہے کوئی مسلمان ایسے موقع پر زبان سے انکار کرنے پر کفایت نہیں کرے گا بلکہ سرکاری کارروائی سے پہلے وہ خود بھی کوئی نہ کوئی تادیبی کارروائی جو حدود سے کم درجے کی ہوئی کرے گا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
قاضی اور محتسب کے سزا دینے کے اختیارات:
محتسب موقع پر سزا دینے کا اختیار رکھتا ہے شیخ الاسلام ابن تیمیہ فرماتے ہیں: الامر بالمعروف والنھی عن المنکر پر صرف اسی صورت میں عمل ہو سکتا ہے جب منکرات کرنے والوں کو بروقت شرعی سزائیں دینے کا انتظام موجود ہو۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ حکومت سے وہ کام لیتا ہے جو قرآن سے نہیں لیتا۔ شرعی سزائوں کو نافذ کرنا گورنر پر واجب ہے لیکن وہ سزائیں جو از قسم حدود (سرقہ، زنا) سے ہیں ان کے نفاذ کا اختیار صرف قاضی کو ہے۔ جہاں تک تعزیرات کا تعلق ہے جیسے ڈانٹ ڈپٹ کرنا، تادیبی تشدد کرنا اور بسا اوقات محتسب کے اپنے قید خانے بھی ہوا کرتے تھے جہاں مختصر مدت کیلئے مجرم کو قید میں رکھا جاتا تھا، تو اس قسم کی سزائیں دینے میں محتسب بااختیار ہے فقہاءکرام نے محتسب کی مفوضہ سزائوں کو تفصیل سے بیان کیا ہے جیسا کہ شیخ الاسلام نے اختصار سے از قسم حدود کے علاوہ سزاؤں کے اختیار کا ذکر کیا ہے ہم ان سزاؤں کو ذرا تفصیل سے بیان کریں گے تاکہ حسبہ کی اہمیت اور فعلیت ذہنوں میں اجاگر ہو جائے اور نبی علیہ السلام کی اس سنت کا احیاءکرکے ہم اس کے دنیاوی اور اخروی فوائد پا کر اللہ کا شکر بجا لائیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
محتسب کی مفوضہ سزائیں

١) جنس کو تلف کرنا:
محتسب کو یہ اختیار حاصل ہے کہ منکرات پھیلانے والے آلات اور اسباب کو موقع پر تلف کردے، جیسے آلات موسیقی، طبلہ، طنبور، سارنگی وغیرہ اگر آلات موسیقی کو تلف کیا جا سکتا ہے تو پوجے جانے والے مجسمے کسی صورت میں ایستادہ رہنے نہیں دیئے جائیں گے، اگر محتسب کو اطلاع ہوتی ہے کہ کسی دور دراز مقام پر یا کسی شہری آبادی سے دور قبیلے میں صنم پرستی یا مقدس اشجار یامقدس مورتیاں پائی جاتی ہیں تو محتسب کا یہ فرض بنتا ہے کہ بت شکنی کرے اور درختوں کو جڑ سے اکھاڑ دے۔

متاخرین فقہاءکرام نے خور و نوش والی غذاؤں کی بابت اپنی آراءکو قلم بند کیا ہے۔ اسلامی فتوحات سے بے شمار اضلاع اسلامی قلم رو میں شامل ہو گئے تھے اور کہیں کہیں دودھ میں ملاوٹ بھی ہوتی تھی اس بابت فقہاءکرام فرماتے ہیں کہ کون سی صورت بہتر ہے ایسے دودھ کو بہادیا جائے یا اسے مستحقین پر صدقہ کر دیا جائے جو دودھ میں پانی ملا کر پینے کو پسند کرتے ہیں جہاں تک دودھ بہا دینے کا تعلق ہے تو اس پر عمل اس وجہ سے روا ہے کہ خلیفہ راشد عمر بن خطاب نے ملاوٹ شدہ دودھ بہا دیا تھا، لیکن ہم ان فقہاءکرام کو بھی قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں جو ملاوٹ شدہ دودھ صدقہ کرنے کی ترجیح دیتے ہیں۔ دونوں کی آراءاس لحاظ سے متفق ہیں کہ شیر فروش کو دونوں صورتوں میں دودھ سے ہاتھ دھونا پڑتا ہے۔ اور اُسے بروقت ملاوٹ کی سزا دودھ کے نقصان کی صورت میں بھگتنی پڑتی ہے۔
فقہاءکرام نے دودھ کو بطور مثال پیش کیا ہے اس پر ہر قسم کی پکی پکائی اور خام غذاؤں کو قیاس کیا جا سکتا ہے، گلے سڑے پھل بیچنے والے سے محتسب پھل چھین کر فقراءمیں تقسیم کردے یا انہیں تلف کردے، دونوں سزاؤں کا اُسے اختیار ہے کسی حد تک یہ پھل کی نوعیت پر بھی ہے کہ وہ کتنا گل سڑ چکا ہے فقراءاس سے مرض میں مبتلا تو نہیں ہو جائیں گے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
فقہاءکرام نے غذاؤں کے علاوہ روزمرہ اشیاءکی تمام خلاف شرع چیزوں کو بیان کیا ہے۔ پارچہ بافی کے اڈوں پر اگر ریشم کے سوت سے کپڑا بنا جا رہا ہو تو کیا اُسے تلف کیا جائے گا یا صدقہ کیا جائے، ہمارے نزدیک راجح یہی ہے کہ ریشم کے پارچہ جات اڈے پر تلف کر دیئے جائیں، اسی طرح شراب کے برتنوں کے ساتھ جام اور کنٹارا وغیرہ تلف کی جائے گی۔
آلات موسیقی از قسم سارنگی اور طنبور کے بارے میں ایک وقیع رائے یہ ہے کہ ان کی ساخت تبدیل کرکے اس کے چوبی اور دھاتی حصے کسی اور کام میں استعمال کئے جائیں، ہم اس رائے کا احترام کرتے ہیں لیکن راجح ترین رائے یہی ہے کہ آلات موسیقی تلف کر دیئے جائیں الا یہ کہ اُسی وقت آگ کی بھٹی یا آگ سینکنے کیلئے چولہے میں جھونک دیئے جائیں اور اس طرح ان کی تپش اور حرارت سے کوئی فائدہ اٹھایا جا سکتا ہو تو اٹھا لیا جائے۔ جہاں تک جدید برقی (الیکٹرانک) اور نفیس آلات موسیقی کا تعلق ہے تو محتسب انکی قیمت سے ہرگز نہ گھبرائے اور بالفور انہیں تلف کردے اور جدید آلات موسیقی کو تلف کرنے میں ذرا بھی تامل سے کام نہ لے۔
صرافہ بازار میں چل پھر کر دیکھ لے، اگر مردانہ زیورات (طلائی انگوٹھی) قابل فروخت ہوں تو انہیں تلف کردے یا اپنی نگرانی میں اسے تبدیل کرکے زنانہ ساخت میں ڈھال دے۔
پارچہ فروش 100% سوتی کپڑے کا دعوی کرتا ہو اور لیبارٹری ٹسٹ سے اس میں صرف 30% قطنی سوت ہو، اس صورت میں فقہاءکرام کی اس رائے پر عمل کرتے ہوئے اگر تلف کردے تو بھی درست ہے اور اگر فقراءپر صدقہ کردے تو یہ بھی صائب ہے، اس سزا کا مقصود ملاوٹ کرنے والے کو سزا دینا اور دوسروں کو عبرت دلانا ہے تاکہ بازار میں ملاوٹی اشیاءفروخت نہ ہوں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
تاریخ اسلامی میں محتسب یہ فرائض انجام دیتا رہا ہے اور بازار کو ملاوٹی سامان سے پاک کرکے مسلمانوں کیلئے صحت بخش غذا کوالٹی کنٹرول کا انتظام کرنے، خالص اشیاءکی فراہمی کو ممکن بناتا رہا ہے۔ موجودہ زمانے کی طرح وہ زمانہ منافقین کا نہیں تھا۔ ہمارے ہاں یہ کام صحافت کرتی ہے، اب کون جانے یہ الزام بلیک میلنگ کیلئے ہے یا واقعتا سچ لکھا جا رہا ہے، ان کے لکھنے سے بازار اور معاشرے میں ذرا بھی تبدیلی نہیں ہوتی۔ محتسب کی عدم موجودگی یا سعودی معاشرے میں غیر فعالیت کی وجہ سے گلی کوچوں اور بازاروں میں غیبت، الزام تراشی چغلی اور گالی گلوچ عام ہے اور معاشرے کا رخ برائی کی سمت میں ہی ہے جبکہ وزارت حسبہ کے مؤثر ہونے کے زمانے میں ہر شخص چوکنا ہوتا تھا، محتسب کے ڈر سے محلے اور بازار ان بیماریوں سے پاک تھے ہر شخص جانتا تھاکہ ہمارے اوپر نگرانی کرنے والے دیانت دار افراد موجود ہیں، حسبہ کے اہل کار بااختیار ہوتے تھے اور لوگوں کے معاملات میں بروقت مداخلت کرکے انہیں شرعی تقاضوں کے مطابق کرنے کے مجاز تھے سوائے ان معاملات میں حسبہ کے اہلکار مداخلت نہیں کرتے تھے جو اس وقت کے علمائے کرام اور فقہائے عظام اپنے ماحول کو سامنے رکھ کر انہیں مداخلت سے منع کر دینے کا فتوی جاری کردیتے تھے۔ علمائے کرام کی اس نگرانی اور ان کے فتوی کے وقار کی وجہ سے حسبہ کا محکمہ اپنی حدود میں رہ کر صرف اصلاح کا کام کرتا تھا۔ بلیک میلنگ کی اُسے علماءکی مداخلت کی وجہ سے جرات نہیں ہوتی تھی۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
٢) تلف کرنے کی بجائے جنس کی ساخت تبدیل کرنے کی سزا:
جنس کی ساخت تبدیل کرکے اسے دوسرے جائز کام میں استعمال کرنا رسول اللہ کے اس فعل سے ماخوذ ہے۔ آپ کے پاس ایک ایسا پردہ تھا جس پر تصویریں بنی ہوئی تھیں آپ نے اُسے پھاڑ کر دو گدے بنا لئے جن پر چلا جاتا تھا اس حدیث کو بخاری مسلم احمد ابو داؤد اور امام ترمذی نے بیان کیا ہے اور اسی کی بابت شیخ الاسلام نے فرمایا ہے کہ جنس کی ساخت کو تبدیل کرکے استعمال کرنے میں یہ بنیادی حدیث ہے اسی طرح وہ حدیث بھی اس اصول کی بنیاد ہے جس میں آپ نے جانور نما کھلونوں کے سر کاٹ دیئے تھے اور اس کے بعد وہ کھلونے ایسے لگتے تھے جیسے درخت ہوں۔ ہیئت کی اس تبدیلی کے بعد وہ بچوں کے کھیلنے کیلئے چھوڑ دیئے گئے تھے۔
مذکورہ بالا احادیث سے ثابت ہوا کہ رسول اللہ ہر قسم کے منکرات سے ایک جیسا سلوک نہیں فرماتے تھے۔ کبھی آپ نے جنس کو تلف کردیا اور کبھی آپ نے تصویروں والے پردے کے گدے بنا لیے اور گڑیوں کے سر کاٹ کر ان کے ڈھانچے کو کھیلنے کیلئے چھوڑ دینے کا طریقہ اپناتے تھے۔
ٹیلی ویژن، نغموں کی کیسٹیں اور ویڈیو فلمیں تلف کی جائیں یا کسی اور استعمال میں لائی جائیں اس کا فیصلہ اس امر پر موقوف ہے کہ اگر تلف کرنے کی سزا زیادہ مؤثر ہے اور آئندہ فروخت کنندہ تائب ہو جائے گا تو ان اجناس کونذر آتش کردیا جائے، جن کیسٹوں میں برہنہ تصویریں ہوں، تو ان کا تلف کرنا زیادہ بہتر ہے لیکن اگر کوئی فائدہ مند لیکچر یا علمی (سائنسی) مواد ریکارڈ کرکے قابل استعمال بنا لیا جائے تو یہ بھی درست ہے، دونوں طریقوں میں سے جو طریقہ بھی محتسب قرین مصلحت سمجھے اُس کے اختیار کرنے میں وہ آزاد ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
محتسب کا میدان عمل:
نماز سے غفلت برتنے والوں کو مسجد میں لائے بغیر نہ چھوڑنا، محتسب اسلام کے اس بنیادی رکن کی بروقت ادائیگی کو سختی سے ممکن بنائے اور ہمارے ملک (مملکت سعودی عرب) میں اقامت صلوٰت کے لئے سرسری کارروائی کی جاتی ہے، محکمہ احتساب کے اہل کار بازاروں میں پھر مائیکرو فون پر اس جملے کی تکرار کرتے رہتے ہیں، نماز کا وقت ہوگیا، نماز کا وقت ہو گیا اگر کوئی دکاندار یا سیلزمین شٹر ڈال کر بیٹھے رہے تو زیادہ ہوا تو انہیں مخاطب کرکے کارروائی پوری کردے گا کہ اب تک نماز پر نہیں گئے۔محتسب کی اس بلا توبیخ یاد دہانی پر بھی ہمارے شہری دارالافتاءسے تقاضا کرتے ہیں کہ محتسب کو نرم رویہ رکھنے کی تلقین کی جائے، سبحان اللہ، نماز کی طرف توجہ دلانا ہر مسلمان مرد وعورت پر واجب ہے، اتنی سی یاد دہانی تو تمام شہریوں کی ذمہ داری ہے محتسب کی ذمہ داری عام شہریوں سے بڑھ کر ہے، اسکا وقار ہو، محض کسی چوراہے پر اس کی موجودگی خرید وفروخت کرنے والوں کیلئے نماز کی بروقت ادائیگی کو تازہ رکھتی ہو، محتسب کی شخصیت سے نماز کا خیال آجانا شہریوں میں اس قدر راسخ ہو کہ محتسب کی صورت دیکھتے ساتھ انہیں مسجد جانے کا خیال آجائے، چاہے ابھی اذان بھی نہ دی گئی ہو اور کتنا اچھا ہے کہ محتسب خود سے کہے ابھی اذان نہیں ہوئی!
اگر اذان کے بعد کوئی شخص دکان میں رہ جاتا ہے تو ایک دو بار نرمی اختیار کرنے کے بعد محتسب تادیبی کارروائی کرنے کا مجاز ہو۔
جمعہ اور عیدین اسلام کے شعائر ہیں، محتسب اس بات کو یقینی بنائے کہ جمعہ کے روز قبل از خطبہ دکانیں بند ہوں اور خطیب کے منبر پر بیٹھنے سے پہلے نمازی جامع مسجد میں پہنچ کر نفل ادا کر چکے ہوں۔ اقامت صلوٰت کی اہمیت اور اس فریضے سے پیچھے رہ جانے والوں کے متعلق رسول اللہ کی تادیبی کارروائی کرنے کے ارادے کو بیان کرتے ہوئے آپ فرماتے ہیں:
”اگر گھروں میں عورتوں اور نابالغ بچوں کے جل جانے کا اندیشہ نہ ہوتا تو میں نماز کیلئے کسی شخص کو متعین کرکے (محلوں میں)نکل جاتا اور جو مرد گھروں میں بیٹھے ملتے ان کے مکانات نذر آتش کر دیتا“۔
اس حدیث کی بنیاد پر فقہاءکرام محتسب کو نماز سے پیچھے رہ جانے والے مردوں کیلئے تادیبی کارروائی کرنے کا اختیار دیتے ہیں۔ فقہاءکرام نماز استسقاءجو فرض عین نہیں ہے اس کیلئے بھی یہی تجویز کرتے ہیں کہ عوام الناس کو نماز استسقاءسے پیچھے نہ رہنے دیا جائے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
تجارتی لین دین پر نظر رکھنا، بازار کا تمام کاروبار محتسب کی کڑی نگرانی میں ہونا چاہیے، خلافت کے زمانے میں اسلامی ریاست کے تمام صوبوں بشمول اندلس (اسپین) مصر، بغداد، خراسان اور دیگر صوبہ جات سب بازاروں میں محتسب تعینات تھے اور ہر دکان دار خواہ خوردہ فروش ہو یا تھوک کا کاروبار کرنے والا اپنے اوپر محتسب کی نگرانی کو محسوس کرتے تھے، ترازو اور باٹ کی جانچ پڑتال، غذائی اجناس میں ملاوٹ، کوالٹی کنٹرول اور کیمیائی مرکبات کی تحلیل کیلئے آلات لئے محتسب پوری بازار کو کھنگال ڈالتا تھا۔
شاہراہوں کی نگرانی کرنا، بازار میں خرید وفروخت کے دوران میں خواتین اور مردوں میں اختلاط نہ ہونے دینا، مشکوک حرکات پر نظر رکھنا، کوئی خفیہ مقام اس کی نظر سے اوجھل نہ ہو، وقفوں وقفوں سے وہ ایسے مقامات کا جائزہ لیتا تھا، اگر مرد و عورت تنہائی میں شک پیدا کریں تو پوری تسلی کرے اور غیر محارم کے درمیان ملاقات نہ ہونے دے، ان مقامات پر اگر نشہ آور اشیاءکا استعمال ہوتا ہو تو اس کا فوری طور پر تدارک کرے۔ بازار اور راستوں کی نگرانی میں بے شمار امور آجاتے ہیں جن کا آپ بآسانی تصور کر سکتے ہیں اور اس طرح آپ محتسب کی بازار اور راستوں کی نگرانی سے متعلق وسیع سرگرمیوں کا بھی تصور کر سکتے ہیں۔ مزید برآں ان ذمہ داریوں سے عہدہ برآہونے کیلئے محتسب کے معاونین کا اندازہ بھی کیا جا سکتا ہے۔ تجارتی لین دین میں سودی معاملات کی نگرانی، آجر اور اجیر کے درمیان غیرمنصفانہ معاہدے غرض لین دین اور معاہدے کی اس طرح نگرانی کرے گا کہ شریعت کےخلاف تجارتی معاملات نہ ہو سکیں۔ شیخ الاسلام ابن تیمیہ فرماتے ہیں، بیشتر سودی معاملات فریقین کی رضا مندی سے طے پاتے ہیں اور محکمہ قضاءمیں یہ معاملات آنے ہی نہیں پاتے، محتسب کا یہ فریضہ ہے کہ وہ سودی معاہدات اور معاملات کالعدم قرار دے، جن اڈوں پر ایسا بیوپار ہوتا ہو انہیں منہدم کردے اور سود خوروں کو قرار واقعی سزا دے۔
اسی طرح محتسب سٹہ بازی پر کڑی نظر رکھے گا، ہمارے بازاروں میں سٹہ بازی کس قدر رواج پا گئی ہے یہ آپ سے پوشیدہ نہیں۔ محتسب کی نگرانی اور تادیبی کارروائی سے سٹے بازی کا خاتمہ ہو جائے تو اشیاءکی قیمتیں اعتدال پر آجائیں گی، عام گاہک کے علاوہ چھوٹے سرمایہ دار بھی بازار میں فعال ہو جائیں گے اور اجارہ داری کا خاتمہ ہو جائے گا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
سادہ لوح دہقان اپنا غلہ فروخت کرنے کیلئے شہروں کا رخ کرتے ہیں، آڑھت کے ملازمین شہر سے باہر ہی بازار سے کم داموں میں سودا کر لیتے ہیں،اس طرح دہقان بازار کے نرخ سے مطلع ہی نہیں ہو پاتا، محتسب اس بات کو یقینی بنائے گا کہ دیہی علاقوں سے غلہ اور دوسری اجناس فروخت کرنے والے منڈی تک بلاخوف وہراس پہنچ سکیں اور منڈی کے بھاؤکے مطابق اپنی اجناس فروخت کریں۔
بعض فقہاءکرام نے محتسب کے اعمال میں اس بات کو شامل کیا ہے کہ وہ چیزوں کے نرخ متعین کرے۔ لیکن ہم سمجھتے ہیں یہ پیچیدہ اور اختلافی مسئلہ ہے لیکن فقہاءکرام کی اس رائے سے آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ محتسب کو کس قدر وسیع اختیارات دیے جا سکتے ہیں۔
تاریخ اسلامی میں بازار اور عوامی راستوں پر محتسب کا وجود اسی طرح معمول کی بات تھی جس طرح تاجر اپنی اپنی دکانوں پر معمول کے مطابق کام کرتے ہیں۔
شہر پناہ (ناکے) شاہ راہیں، پلیں اور خفیہ راستوں کی حفاظت، راستوں یا شاہراہوں پر بھتہ لینے والے یا اٹھائی گیروں کو پکڑنا قاضی کا کام نہیں ہے، راستوں اور شاہراہوں کو محفوظ بنانا، پلوں کی دیکھ بھال کرنا اور اگر کہیں دراڑ پڑنے یا پل کے شکستہ ہونے کا امکان ہو تو اس کی قبل از وقت مرمت کا بندوبست کرائے اور متعلقہ ادارے کو اس کی اطلاع دے۔ اگر شہر کے گردا گرد حفاظتی دیوار موجود ہو تو اس کی شکست وریخت کا وہ ذمہ دار ہے، شہر میں داخل ہونے والے چور راستے بھی اس کی نظر میں ہوں، اسی طرح اگر ریل کا نظام موجود ہو تو پٹڑی کی حفاظت اور اس کی پائیداری کا ریکارڈ رکھے۔ حادثات سے بچاؤ کی تدابیر اختیار کرے اور خدانخواستہ حادثات کی صورت میں اس کی تفتیش کے علاوہ اس کا مناسب تدارک بھی کرے اور متعلقہ محکمہ کو حفاظتی اقدامات کا پابند بنائے۔
فقہاءکرام کے سابقہ اقوال کی روشنی میں ہم اپنے حالات اور جدید سہولیات کو سامنے رکھتے ہوئے اس بات کا جائزہ لیں گے کہ اگر محکمہ احتساب کو اس کا تاریخ ساز کردار ادا کرنے کا موقع فراہم کیا جائے تو کون کون سے محکمے یا وزارتیں اس محکمہ یا وزارت میں ضم کرنا ہوں گی۔
 
Top