- شمولیت
- اپریل 27، 2013
- پیغامات
- 26,585
- ری ایکشن اسکور
- 6,762
- پوائنٹ
- 1,207
امام ماوردی قاضی اور محتسب کے فرق کو بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں: قاضی کیلئے ضروری ہے کہ اس کے پاس مدعی دعوی کرے اور مدعی علیہ دعوے کا انکار کرے، دعوی دائر کرنے سے پہلے جو معاملہ فریقین میں ہے وہ محتسب کے اختیارات میں آتا ہے۔ اختیارات کی یہ تقسیم اس وقت ہے جب دواوین تشکیل پا گئے ہوں (اگر خلیفہ ازخود یہ کام کرے تو پھر سارے اختیارات خلیفہ کے پاس ہوں گے)۔ (مترجم)۔ محتسب دعوے کی نوبت سے پہلے بازاروں اور محلوں میں پھر کر دیکھے گا کہیں کسی مکان سے ناگوار خوش بو آتی ہو تو وہ جائزہ لے گا کہ یہاںکوئی شراب کی بھٹی تو نہیں، اگر ایسا ہوا تو وہ اُسے خود توڑ دے گا راتوں کو جا کر کھوج لگائے گا، کہیں سے طبلے، سارنگی کی آواز تو نہیں آرہی، آواز کی سمت جا کر وہ آلات موسیقی برآمد کرے گا اور ضروری ہے کہ وہ انہیں موقع پر ہی توڑ کر ناکارہ کردے، مورتیوں کو جہاں پائے ان کا چہرہ مہرہ بگاڑ کر رکھ دے۔ ہماری یہ بات اس اصول سے ماخوذ ہے کہ نبی بازار جاتے تھے۔ آپ نے سبزی فروش کے گٹھے سے گیلی ترکاری برآمد کی اور سبزی فروش سے ڈانٹ کر پوچھا یہ گیلی کیوں ہے؟ آپ نے اس موقع پر ارشاد فرمایا تھا من غش وفی روایہ من غشنا فلیس منا ”جس نے ملاوٹ کی، دوسری روایت میں الفاظ ہیں جس نے ہمارے ساتھ دھوکا کیا وہ ہم میں سے نہیں ہے“۔ وہ مزید لکھتے ہیں کہ عمر بن خطاب بذات خود محتسب کا کام کرتے تھے اور گلی محلوں میں جا کر مسلمانوں کے احوال سے ازخود باخبر رہتے تھے۔ ایسے امورمیں وزارت حسبہ، وزارت قضاءسے زیادہ بااختیار ہے۔ وزارت حسبہ کو حکومت کی طرف سے ایک ایسا اختیار ہے جو وزارت قضاءکو نہیں ہے۔ وزارت حسبہ کا فریضہ معاشرے میں (منکرات کے خلاف) ڈر اور خوف پیدا کرنا ہے جبکہ وزارت قضاءکا فریضہ انصاف کے تقاضوں کو پوراکرنا ہے۔ امام ماوردی کے یہ الفاظ ہیں:
الحسبہ موضوعہ الرھبہ، والقضاءموضوع للمناصفہ
اسلامی فقہ کی رو سے محتسب کے اختیارات سلطان کے اختیارات کی طرح ہیں کیونکہ سلطان سے بھی رعیت میں جرائم کرنے کی جرات پیدا نہیں ہوتی اور محتسب کی بارعب شخصیت سے بھی یہی غرض پوری ہوتی ہے۔ پھر ایک لحاظ سے محتسب قاضی کی طرح بھی ہوتا ہے جو گلیوں اور بازاروں میں جا کر خلاف شریعت کاموں کا موقع پر فیصلہ کرکے مناسب تادیبی کارروائی بھی کرتا ہے (اور بیشتر معاملات جن کا موقع پر انکار ممکن نہیں ہوتا محتسب کی بروقت مداخلت سے عدالت تک جانے کی نوبت ہی نہیں آپاتی)۔
الحسبہ موضوعہ الرھبہ، والقضاءموضوع للمناصفہ
اسلامی فقہ کی رو سے محتسب کے اختیارات سلطان کے اختیارات کی طرح ہیں کیونکہ سلطان سے بھی رعیت میں جرائم کرنے کی جرات پیدا نہیں ہوتی اور محتسب کی بارعب شخصیت سے بھی یہی غرض پوری ہوتی ہے۔ پھر ایک لحاظ سے محتسب قاضی کی طرح بھی ہوتا ہے جو گلیوں اور بازاروں میں جا کر خلاف شریعت کاموں کا موقع پر فیصلہ کرکے مناسب تادیبی کارروائی بھی کرتا ہے (اور بیشتر معاملات جن کا موقع پر انکار ممکن نہیں ہوتا محتسب کی بروقت مداخلت سے عدالت تک جانے کی نوبت ہی نہیں آپاتی)۔