بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
الجزء المفقود:قائلین کی زبانی ایک جائزہ
کچھ عرصہ قبل ایک خاص مکتبہ فکر کی جانب سے اپنے غیر ثابت عقائد و نظریات کو سند جواز اور سہارا دینے کی خاطر ایک مجہول مخطوطہ کی بنیاد پرپہلے عربی زبان میں ’’الجزء المفقود من الجزء الاول من المصنف‘‘ اور پھر اردو زبان میں ’’مصنف عبدالرزاق کی پہلی جلد کے دس گم گشتہ ابواب‘‘ کے نام سے نسخے چھاپے گئے۔ دعویٰ یہ کیا گیا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے نور اور عدم سایہ سے متعلق روایات اپنی صحیح اسناد کے ساتھ دستیاب ہو گئی ہیں۔چنانچہ عبدالحکیم شرف قادری بریلوی نے لکھا:
اس مخطوطے کی تلاش اور اس کی اشاعت کرنے والے کا تعارف کرواتے ہوئے کہا گیا:’’لیجئے محافل میلاد مصطفیٰ ﷺ کی زینت بننے والی ’’حدیث نور‘‘ اور سرکار دو عالم ﷺ کے تاریک سائے کی نفی کرنے والی روایت اپنی صحیح سند اور پوری آب و تاب کے ساتھ آپ کے سامنے ہے۔۔۔۔‘‘ [مصنف عبدالرزاق کی پہلی جلد کے دس گم گشتہ ابواب:ص۲۱]
اس نام نہاد نسخے اور مخطوطے کی حقیقت تو اسی وقت علمائے حقہ نے بیان کر دی تھی جس کی مکمل تفصیل کتاب ’’جعلی جز ء کی کہانی اور علمائے ربانی‘‘ میں ملاحظہ کی جا سکتی ہے۔ اس میں تفصیلی دلائل کے ساتھ علماء و محققین نے اس نسخے اور مخطوطے کا جعلی ہونا ثابت کیا جس کی بنیاد پر یہ ساری کہانی گھڑی گئی تھی۔ فی الحال قارئین کی خدمت میں، اس نسخے اور اس کے چھاپنے والوں کی اپنی زبانی ایک جائزہ پیش خدمت ہے تاکہ معلوم ہو سکے کہ اس نسخے کی بنیاد پر بڑے بڑے دعوے کرنے والے دلائل کے میدان میں کس قدر تہی داماں ہیں۔’’یہ قابل صد رشک سعادت فاضل جلیل ڈاکٹرعیسیٰ مانع حمیری مدظلہ العالی، سابق ڈائریکٹر محکمہ اوقاف و امور اسلامیہ، دبئی و پرنسپل امام مالک کالج برائے شریعت و قانون، دبئی کے حصے میں آئی کہ وہ ’’مصنف ‘‘ کا نادر و نایاب اور ابتدا سے مکمل نسخہ حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے۔‘‘ [مصنف عبدالرزاق کی پہلی جلد کے دس گم گشتہ ابواب:ص۳۰]
۱) اس نسخے کی پہلی روایت کے الفاظ ملاحظہ فرمائیں:
مخالفین تو اس نسخے کو صحیح مانتے ہی نہیں بلکہ جعلی قرار دیتے ہیں مگراس نسخے کو صحیح ماننے والوں کی خدمت میں عرض ہے کہ اس نسخے کی سب سے پہلی روایت میں اس بات کی صاف تصریح موجود ہے کہ نبی ﷺ کے نور سے پہلے اللہ تعالیٰ نے ایک درخت پیدا فرمایا ۔ یہ بات نہ صرف اس حدیث جابرؓکے خلاف ہے جس کی خاطر اس نسخے کو چھاپا گیا بلکہ ان حضرات کے اس متفقہ عقیدے کے بھی صریح خلاف ہے کہ نبی ﷺ اول المخلوقات ہیں۔ چنانچہ ڈاکٹر عیسیٰ بن مانع الحمیری نے کہا:’’بے شک اللہ تعالیٰ نے ایک درخت پیدا فرمایا جس کی چار شاخیں تھیں، اس کا نام ’’یقین کا درخت‘‘ رکھا، پھر نور مصطفی ﷺ کو سفید موتی کے پردے میں پیدا کیا۔۔۔۔‘‘ [مصنف عبدالرزاق کی پہلی جلد کے دس گم گشتہ ابواب:ص۸۷]
جناب عالی آپ پر یہ جو حقیقت منکشف ہوئی ہے خود آپ کے پیش کیے گئے نسخے کی پہلی روایت کے ہی خلاف ہے۔افسوس کہ’’ ہم پر یہ حقیقت بھی منکشف ہو گئی کہ ہمارے آقا و مولا حضرت محمد مصطفی ﷺ سب سے پہلی مخلوق ہیں۔۔۔۔‘‘ [مصنف عبدالرزاق کی پہلی جلد کے دس گم گشتہ ابواب:ص۴۴۔۴۵]]
جن پہ تکیہ تھا وہی ’نسخے‘ ہوا دینے لگے!!!
۲)ڈاکٹر عیسیٰ بن مانع الحمیری نے جس مخطوطہ سے اس نسخے کو چھاپا اس کا تعارف کرواتے ہوئے خود فرماتے ہیں:
لیجئے قصہ ہی ختم، گویا جس مخطوطہ سے یہ نسخے چھاپے گئے اس کی حقیقت بھی یہ ہے کہ اصل مخطوطہ اس دنیا میں اب موجود ہی نہیں اور معاملہ صرف نقل در نقل پر ہی چل رہا ہے۔ حیرت کی بات ہے کہ ایسے کمزور نسخے کے سہارے اپنے عقائد کو ثابت کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔بریلوی حضرات سے گزارش ہے کہ اس سلسلے میں اپنے اعلیٰ حضرت احمد رضا خان بریلوی کا یہ اصول بھی ملاحظہ فرمائیں:’’میرے پاس جو مخطوطہ ہے وہ ایک قدیم اصل سے نقل کیا گیا ہے، میں نے اس اصل تک پہنچنے اور حاصل کرنے کی کوشش کی بصورت دیگر اس کی فوٹوکاپی ہی مل جائے تو مجھے معلوم ہوا کہ وہ اصل مخطوطہ ان جنگوں میں ضائع ہو گیا جو کچھ عرصہ قبل افغانستان کے شہروں میں لڑی گئی ہیں۔‘‘ [مصنف عبدالرزاق کی پہلی جلد کے دس گم گشتہ ابواب:ص۱۷۴]
اپنے اعلیٰ حضرت کے اس اصول کے پیش نظر بریلوی حضرات بتائیں کہ وہ ایک مجہول قلمی نسخے کو’’ الجزء المفقود۔۔۔‘‘ کے نام سے چھاپ چھاپ کر کیوں خوشی سے بغلیں بجا رہے ہیں؟جبکہ آپ کے اعلیٰ حضرت کے مندرجہ بالا اصول کے مطابق بھی ایسے کسی مجہول قلمی نسخے کی کوئی عبارت دلیل شرعی ہے ہی نہیں۔’’کسی الماری میں کوئی قلمی کتاب ملے اس میں کچھ عبارت ملنی دلیل شرعی نہیں کہ بے کم و بیش مصنف کی ہے پھر اس قلمی نسخے سے چھاپا کریں تو مطبوعہ نسخوں کی کثرت کثرت نہ ہو گی اور ان کی اصل وہی مجہول قلمی ہے۔۔۔۔‘‘ [فتاویٰ رضویہ:ج۲۹ص۲۲۵]
۳)ڈاکٹر عیسیٰ بن مانع الحمیری لکھتے ہیں:
مزیدایک اور جگہ فرماتے ہیں:’’یہ جو نسخہ میں نے پیش کیا ہے اس کی ضرورت تھی اور اسلامی لائبریریوں کے لیے یہ سرمائے کی حیثیت رکھتا ہے، میرے نزدیک اس کی حیثیت اس حدیث ضعیف والی ہے جب کسی باب میں اس کے علاوہ حدیث دستیاب نہ ہو۔۔۔۔۔‘‘ [مصنف عبدالرزاق کی پہلی جلد کے دس گم گشتہ ابواب:ص۲۲۸۔۲۲۹]
یہ ہے اس سارے نسخے کی حقیقت جس کے سہارے اپنے عقائد کو ثابت کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ خود اس نسخے کے پیش کرنے والوں کے نزدیک بھی اس کی حیثیت صرف ایک ضعیف حدیث کی سی ہے۔کس قدر افسوس کی بات ہے کہ اس ساری حقیقت کو جاننے کے باوجود عوام کو دھوکہ دینے کے لیے اپنے نزدیک بھی ضعیف نسخے کے سہارے کیسے کیسے بلند بانگ دعوے کیے گئے۔ ملاحظہ فرمائیں:’’میرے نزدیک اس کی حیثیت وہ ہے جو اس حدیث ضعیف کی ہے جب کسی باب میں اس کے علاوہ کوئی حدیث نہ پائی جائے، قارئین اس میں سے جس حصے پر مطمئن ہوں اسے لے لیں اور جس سے مطمئن نہ ہوں اسے چھوڑ دیں۔‘‘ [مصنف عبدالرزاق کی پہلی جلد کے دس گم گشتہ ابواب:ص۲۳۰۔۲۳۱]
’’محافل میلاد میں بیان کی جانے والی حدیث نور اور حدیث نفی سایہ اپنی صحیح سندوں کے ساتھ منظر عام پر جگمگانے لگیں‘‘ [مصنف عبدالرزاق کی پہلی جلد کے دس گم گشتہ ابواب:سرورق]
’’جس نے نورانیت مصطفی کے منافی عقیدہ اپنایااس کے عقیدے کے غلط ہونے پر مصنف عبدالرزاق کی عالی سند والی حدیث صریح دلیل ہے۔‘‘ [مصنف عبدالرزاق کی پہلی جلد کے دس گم گشتہ ابواب:ص۴۱]
’’یہ بھی واضح ہو گیا کہ ’’حدیث نور‘‘ صحیح ہے۔۔۔۔۔‘‘ [مصنف عبدالرزاق کی پہلی جلد کے دس گم گشتہ ابواب:ص۴۴]
اس حقیقت کو تسلیم کرنے کے بعد بھی کہ یہ نسخہ ،حدیث ضعیف کی حیثیت کا حامل ہے اس پورے ضعیف نسخے کی احادیث اور اسناد کو صحیح قرار دینا ،صریح دھوکہ دہی اور عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے مترادف ہے۔اللہ ان لوگوں کو ہدایت دے اور بجائے عقائد اور اس کے لیے دلائل گھڑنے کے قرآن و سنت کو اپنانے کی توفیق دے، آمین یا رب العالمین۔’’قلمی نسخے کی پہلی جلد کا مطبوعہ نسخے کے ساتھ مقابلہ کرنے سے یہ حقیقت سامنے آئی ہے کہ قلمی نسخہ عام طور پر مطبوعہ نسخے سے زیادہ صحیح ہے۔‘‘ [مصنف عبدالرزاق کی پہلی جلد کے دس گم گشتہ ابواب:ص۴۸]
علماء کا حدیث جابر ؓ کو بیان کرنا
الجواب:۔
احمد رضا خان بریلوی ایک روایت کے بارے میں فرماتے ہیں:
اس سے معلوم ہوا کہ کچھ علماء کا سہواً کسی حدیث کو صحیح قرار دے دینا یا اس پر اعتماد کر لینا اس حدیث کو صحیح نہیں بنا دیتا بلکہ عدم ثبوت کی صورت میں وہ غیر ثابت ہی قرار پائے گی۔لہٰذا جب تک حدیث جابر ؓ کی صحیح سند نہ پیش کی جائے تب تک یہ حدیث غیر ثابت ہی رہے گی اور مختلف حیلے بہانوں سے اسے بطور دلیل ہرگز پیش نہیں کیا جا سکتا۔ خود بریلوی حضرات کے حکیم الامت مفتی احمد یار نعیمی کی مشہور کتاب ’’جاء الحق‘‘ سے ایک لمبی فہرست ان روایات کی پیش کی جا سکتی ہے جن کو ایک دو نہیں بلکہ جمہور آئمہ و محدثین نے صحیح قرار دے رکھا ہے مگر بریلوی حکیم الامت ان روایات پر اصول حدیث کے زریعے جرح کرتے ہیں۔’’اجلہ علماء نے اس پر اعتماد (کیا)۔۔۔۔مگر تحقیق یہ ہے کہ وہ حدیث ثابت نہیں۔‘‘ [ملفوظات،حصہ دوم:ص۲۲۲،اکبر بک سیلرز لاہور]
اسی طرح بریلویوں کے فاضل محدث عباس رضوی بریلوی ایک جگہ لکھتے ہیں:
جب کسی کے ضعیف حدیث کو صحیح ثابت کہنے سے وہ ضعیف صحیح نہیں بن جاتی تو جس حدیث کی سرے سے سند ہی ثابت نہ ہو اسے ایسے بہانوں سے کیسے قبول کیا جا سکتا ہے؟’’کسی کے ضعیف حدیث کو صحیح اور صحیح کو ضعیف حدیث کہہ دینے سے سے وہ ضعیف صحیح نہیں ہو جاتی۔‘‘ [مناظرے ہی مناظرے:ص۲۹۲]
چنانچہ بریلویوں کے یہی فاضل محدث عباس رضوی بریلوی ایک روایت پر تبصرہ کرتے فرماتے ہیں:
شاہ عبدالعزیز دہلوی کی ایک بات یاد رکھنے کے لائق قرار دیتے ہوئے اور بطور حجت پیش کرتے ہوئے احمد رضا خان بریلوی نے لکھا:’’ہرگز صحیح سند کے ساتھ مروی نہیں ہے اگر ہے تو اس کی سند بیان کریں کیونکہ سند کے بغیر توکوئی روایت قابل حجت نہیں ہوتی۔‘‘ [مناظرے ہی مناظرے:ص۳۰۰]
اللہ حق بات کو سمجھنے کی توفیق دے، آمین۔’’اہلسنت کے ہاں حدیث وہی معتبر ہے جو محدثین کی کتب احادیث میں صحت کے ساتھ ثابت ہو، ان کے ہاں بے سند حدیث ایسے ہی ہے جیسے بے مہار اونٹ ،جو کہ ہرگز قابل سماعت نہیں۔‘‘ [فتاویٰ رضویہ:ج۵ص۵۸۵]
اسکین حوالہ جات: