عرض مؤلف
یہ کتاب:
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ وَالصَّلَاۃُ وَالسَّلَامُ عَلٰی رَسُوْلِ اللّٰہِ وَعَلٰی آلِہٖ وَصَحْبِہٖ وَمِن وَالَاہ، أمَّا بَعْد !
یہ ربیع الاوّل ۱۳۹۶ھ (مارچ ۱۹۷۶ء) کی بات ہے کہ کراچی میں عالم اسلام کی پہلی سیرت کانفرنس ہوئی۔ جس میں رابطۂ عالم اسلامی مکہ مکرمہ نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور اس کانفرنس کے اختتام پر ساری دنیا کے اہل قلم کو دعوت دی کہ وہ سیرت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے موضوع پر دنیا کی کسی بھی زندہ زبان میں مقالے لکھیں۔ پہلی، دوسری، تیسری، چوتھی اور پانچویں پوزیشن حاصل کرنے والوں کو علی الترتیب پچاس، چالیس، تیس، بیس اور دس ہزار ریال کے انعامات دیے جائیں گے۔ یہ اعلان رابطہ کے سرکاری ترجمان اخبار العالم الاسلامی کی کئی اشاعتوں میں شائع ہوا لیکن مجھے اس تجویز اور اعلان کا بروقت علم نہ ہو سکا۔
کچھ دنوں کے بعد جب میں بنارس سے اپنے وطن مبارکپور گیا تو مجھ سے اس کا ذکر کیا گیا اور زور دیا گیا کہ میں بھی اس مقابلے میں حصہ لوں۔ میں نے اپنی علمی کم مائیگی اور ناتجربہ کاری کا عذر کیا مگر اصرار قائم رہا اور بار بار کی معذرت پر فرمایا گیا کہ ہمارا مقصود یہ نہیں ہے کہ انعام حاصل ہو، بلکہ ہم چاہتے ہیں کہ اسی ''بہانے'' ایک ''کام'' ہو جائے۔ میں نے اس اصرارِ مسلسل پر خاموشی تو اختیار کر لی لیکن نیت یہی تھی کہ اس مقابلے میں حصّہ نہیں لوں گا۔
چند دن بعد جمعیت اہل حدیث ہند کے آرگن اور پندرہ روزہ ترجمان دہلی میں رابطہ کی اس تجویز اور اعلان کا اُردو ترجمہ شائع ہوا تو میرے لیے ایک عجیب صورتِ حال پیدا ہو گئی۔ جامعہ سلفیہ کے متوسط اور منتہی طلبہ میں سے عموماً جس کسی سے سامنا ہوتا وہ اس مقابلے میں شرکت کا مشورہ دیتا۔ خیال ہوا کہ شاید ''خلق کی یہ زبان'' ''خدا کا نقارہ'' ہے۔ تاہم مقابلے میں حصہ نہ لینے کے اپنے قلبی فیصلے پر میں قریب قریب اٹل رہا۔ کچھ دنوں بعد طلبہ کے ''مشورے'' اور ''تقاضے'' بھی تقریباً ختم ہی ہو گئے۔ مگر چند ایک طالب علم اپنے تقاضے پر قائم رہے۔ بعض نے مقالے کے تصنیفی خاکے کو موضوعِ گفتگو بنا رکھا تھا اور بعض کی ترغیب اصرار کی آخری حدوں کو چھو رہی تھی۔ بالآخر میں خاصی ہچکچاہٹ کے ساتھ آمادہ ہو گیا۔
کام شروع کیا۔ لیکن تھوڑا تھوڑا۔ کبھی کبھی اور آہستہ خرامی کے ساتھ۔ چنانچہ ابھی بالکل ابتدائی مرحلے ہی میں تھا کہ تعطیل کلاں کا وقت آ گیا۔ ادھر رابطہ نے آنے والے محرم الحرام کی پہلی تاریخ کو مقالات کی وصولی کی آخری تاریخ قرار دیا تھا۔ اس طرح مہلتِ کار کے کوئی ساڑھے پانچ ماہ گزر چکے تھے اور اب زیادہ سے زیادہ ساڑھے تین ماہ میں مقالہ مکمل کر کے حوالۂ ڈاک کر دینا ضروری تھا تاکہ وقت پر پہنچ جائے اور ادھر ابھی سارا کام باقی تھا۔ مجھے یقین نہیں تھا کہ اس مختصر عرصے میں ترتیب و تسوید، نظر ثانی اور نقل و صفائی کا کام ہو سکے گا۔ مگر اصرار کرنے والوں نے چلتے چلتے تاکید کی کہ کسی طرح کی غفلت یا تذبذب کے بغیر کام میں جت جاؤں۔ رمضان بعد ''سہارا'' دیا جائے گا۔ میں نے بھی فرصت کے ایام غنیمت سمجھے۔ اشہبِ قلم کو مہمیز لگائی اور کد وکاوش کے بحر بیکراں میں کود پڑا۔ پوری تعطیل سہانے خواب کے چند لمحوں کی طرح گزر گئی اور جب یہ حضرات واپس پلٹے تو مقالے کا دو تہائی حصہ مرتب ہو چکا تھا۔ چونکہ نظر ثانی اور تبییض کا موقع نہ تھا اس لیے اصل مسودہ ہی ان حضرات کے حوالے کر دیا کہ نقل و صفائی اور تقابل کا کام کر ڈالیں۔ باقی ماندہ حصے کے کچھ دیگر لوازمات کی فراہمی و تیاری میں بھی ان سے کسی قدر تعاون لیا۔ جامعہ کی ڈیوٹی اور ہماہمی شروع ہو چکی تھی۔ اس لیے زمانۂ تعطیل کی رفتار برقرار رکھنی ممکن نہ تھی۔ تاہم ڈیڑھ ماہ بعد جب عید ِاضحی کی تعطیل کا وقت آیا تو ''شب بیداری'' کی ''برکت'' سے مقالہ تیاری کے آخری مرحلے میں تھا ، جسے سرگرمی کی ایک جست نے تمام وکمال کو پہنچا دیا اور میںنے آغاز محرم سے بارہ، تیرہ دن پہلے یہ مقالہ حوالۂ ڈاک کر دیا۔
مہینوں بعد مجھے رابطہ کے دو رجسٹرڈ مکتوب ہفتہ عشرہ آگے پیچھے موصول ہوئے۔ خلاصہ یہ تھا کہ میرا مقالہ، رابطہ کے مقررہ شرائط کے مطابق ہے، اس لیے شریکِ مقابلہ کر لیا گیا ہے۔ میں نے اطمینان کا سانس لیا۔
اس کے بعد دن پر دن گزرتے گئے حتیٰ کہ ڈیڑھ سال کا عرصہ بِیت گیا، مگر رابطہ مہر بلب۔ میں نے دوبارہ خط لکھ کر معلوم کرنا بھی چاہا کہ اس سلسلے میں کیا ہو رہا ہے تو مہرِ سکوت نہ ٹوٹی۔ پھر میں خود بھی اپنے مشاغل اور مسائل میں اُلجھ کر یہ بات تقریباً فراموش کر گیا کہ میں نے کسی ''مقابلہ'' میں حصہ لیا ہے۔
اوائل شعبان میں ۱۳۹۸ھ ( ۶/۷/۸ جولائی ۱۹۷۸ء کو) کراچی (پاکستان) میں پہلی ایشیائی اسلامی کانفرنس منعقد ہو رہی تھی۔ مجھے اس کی کارروائیوں سے دلچسپی تھی۔ اس لیے اس سے متعلق اخبار کے گوشوں میں دبی ہوئی خبریں بھی ڈھونڈھ کر پڑھتا تھا۔ ایک روز بھدوہی اسٹیشن پر ٹرین کے انتظار میں ... جو لیٹ تھی ... اخبار دیکھنے بیٹھ گیا۔ اچانک ایک چھوٹی سی خبر پر نظر پڑی کہ اس کانفرنس کے کسی اجلاس کے اندر رابطہ نے سیرت نگاری کے مقابلے میں کامیاب ہونے والے پانچ ناموں کا اعلان کر دیا ہے۔ او ر ان میں ایک مقالہ نگار ہندوستانی بھی ہے، یہ خبر پڑھ کر اندر ہی اندر طلب و جستجو کا ایک ہنگامۂ محشر بپا ہو گیا۔ بنارس واپس آ کر تفصیل معلوم کرنے کی کوشش کی مگرلاحاصل۔
۱۰ جولائی کو چاشت کے وقت... پوری رات مناظرہ بجر ڈیہہ کے شرائط طے کرنے کے بعد بے خبر سورہا تھا کہ اچانک حجرے سے متصل سیڑھیوں پر طلبہ کا شور و ہنگامہ سنائی پڑا اور آنکھ کھل گئی۔ اتنے میں طلبہ کا ریلا حجرے کے اندر تھا۔ ان کے چہروں پر بے پناہ مسرت کے آثار اور زبانوں پر مبارکبادی کے کلمات تھے۔
''کیا ہوا؟ کیا مخالف مناظر نے مناظرہ کرنے سے انکار کر دیا؟'' میں نے لیٹے ہی لیٹے سوال کیا۔
''نہیں۔ بلکہ آپ سیرت نگاری کے مقابلہ میں اوّل آ گئے۔''
''اللہ! تیرا شکر ہے۔'' ''آپ حضرات کو کیسے علم ہوا۔'' میں اُٹھ کر بیٹھ چکا تھا۔
''مولوی عزیر شمس یہ خبر لائے ہیں۔''
''مولوی عزیر یہاں آ چکے ہیں؟''
''جی ہاں۔''
اور چند لمحوں بعد مولوی عزیر مجھے تفصیلات سنا رہے تھے۔
پھر ۲۲/شعبان ۱۳۹۸ھ (۲۹/جولائی ۱۹۷۸ء) کو رابطہ کا رجسٹرڈ مکتوب وارد ہوا۔ جس میں کامیابی کی اطلاع کے ساتھ یہ مژدہ بھی رقم تھا کہ ماہ محرم ۱۳۹۹ھ میں مکہ مکرمہ کے اندر رابطہ کے مستقر پر، تقسیم انعامات کے لیے ایک تقریب منعقد کی جائے گی اور اس میں مجھے شرکت کرنی ہے۔ یہ تقریب محرم کے بجائے ۱۲/ ربیع الآخر ۱۳۹۹ھ کو منعقد ہوئی۔
اس تقریب کی بدولت مجھے پہلی بار حرمیَن شریفین کی زیارت کی سعادت نصیب ہوئی۔ ۱۰/ ربیع الآخر یوم جمعرات کو عصر سے کچھ پہلے مکہ مکرمہ کی پُر نور فضاؤں میں داخل ہوا۔ تیسرے دن ساڑھے آٹھ بجے رابطہ کے مستقر پر حاضری کا حکم تھا۔ یہاں ضروری کارروائیوں کے بعد تقریباً دس بجے تلاوت قرآن پاک سے تقریب کا آغاز ہوا۔ سعودی عدلیہ کے چیف جسٹس شیخ عبد اللہ بن حمید صدر مجلس تھے۔ مکہ کے نائب گورنر امیر سعود بن عبد المحسن - جو مرحوم ملک عبد العزیز کے پوتے ہیں ...... تقسیم انعامات کے لیے تشریف فرما تھے۔ انھوں نے مختصر سی تقریر کی، ان کے بعد رابطہ کے نائب سکریٹری جنرل شیخ علی المختار نے خطاب فرمایا۔ انہوں نے قدرے تفصیل سے بتایا کہ یہ انعامی مقابلہ کیوں منعقد کرایا گیا اور فیصلے کے لیے کیا طریقہ کار اپنایا گیا۔ انہوں نے وضاحت فرمائی کہ رابطہ کو اعلان مقابلہ کے بعد ایک ہزار سے زائد (یعنی ۱۱۸۲) مقالات موصول ہوئے، جن کے مختلف پہلوؤں کا جائزہ لینے کے بعد ابتدائی کمیٹی نے ایک سو تراسی (۱۸۳) مقالات کو مقابلے کے لیے منتخب کیا اور آخری فیصلے کے لیے انہیں وزیر تعلیم شیخ حسن بن عبداللہ آل الشیخ کی سرکردگی میں قائم ماہرین کی ایک آٹھ رکنی کمیٹی کے حوالے کر دیا۔ کمیٹی کے یہ آٹھوں ارکان ملک عبد العزیز یونیورسٹی جدہ کی شاخ کلیۃ الشریعہ (اور اب جامعہ اُم القری) مکہ مکرمہ کے استاد اور سیرت ِ نبوی ﷺ اور تاریخ اسلام کے ماہر اور متخصص ہیں۔ ان کے نام یہ ہیں :
ڈاکٹر ابراہیم علی شعوط
ڈاکٹر احمد سید دراج
ڈاکٹر عبد الرحمن فہمی محمد
ڈاکٹر فائق بکر صواف
ڈاکٹر محمد سعید صدیقی
ڈاکٹر شاکر محمود عبد المنعم
ڈاکٹر فکری احمد عکاز
ڈاکٹر عبد الفتاح منصور
ان اساتذہ نے مسلسل چھان بین کے بعد متفقہ طور پر پانچ مقالات کو ذیل کی ترتیب کے ساتھ انعام کا مستحق قرار دیا :
1۔ الرحیق المختوم (عربی) تالیف صفی الرحمن مبارکپوری جامعہ سلفیہ، بنارس، ہند (اوّل)
2۔ خاتم النبییّن ﷺ (انگریزی) ڈاکٹر ماجد علی خان جامعہ ملیہ اسلامیہ، دہلی، ہند (دوم)
3۔ پیغمبر اعظم و آخر (اُردو) تالیف ڈاکٹر نصیر احمد ناصر وائس چانسلر جامعہ اسلامیہ، بہاوّلپور، پاکستان (سوم)
4۔ منتقی النقول فی سیرۃ اعظم رسول (عربی) تالیف شیخ حامد محمود بن محمد منصور لیمود، جیزہ، مصر (چہا رم)
5۔ سیرۃ نبی الہدیٰ والرحمۃ (عربی) استاد عبد السلام ہاشم حافظ مدینہ منورہ، مملکت سعودیہ عربیہ (پنجم)
نائب سکریٹری جنرل محترم شیخ علی المختار نے ان توضیحات کے بعد حوصلہ افزائی، مبارکباد اور دعائیہ کلمات پر اپنی تقریر ختم کر دی۔
اس کے بعد مجھے اظہارِ خیال کی دعوت دی گئی۔ میں نے اپنی مختصر سی تقریر میں رابطہ کو ہندوستان کے اندر دعوت و تبلیغ کے بعض ضروری اور متروک گوشوں کی طرف توجہ دلائی اور اس کے متوقع اثرات و نتائج پر روشنی ڈالی۔ رابطہ کی طرف سے اس کا حوصلہ افزا جواب دیا گیا۔
اس کے بعد امیر محترم سعود بن عبد المحسن نے ترتیب وار پانچوں انعامات تقسیم فرمائے اور تلاوتِ قرآن مجید پر تقریب کا اختتام ہو گیا۔
۱۷/ ربیع الآخر یوم جمعرات کو ہمارے قافلے کا رخ مدینہ منورہ کی طرف تھا۔ راستے میں بدر کی تاریخی رزمگاہ کا مختصراً مشاہدہ کر کے آگے بڑھے تو عصر سے کچھ پہلے حرم نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے در و بام کا جلال و جمال نگاہوں کے سامنے تھا۔ چند دن بعد ایک صبح خیبر بھی گئے اور وہاں کا تاریخی قلعہ اندر و باہر سے دیکھا، پھر کچھ تفریح کر کے سرِ شام مدنیہ منورہ کو واپس ہوئے اور پیغمبر آخر الزماں ﷺ کی اس جلوہ گاہ، جبریل امین کے اس مَہبَط، قدوسیوں کی اس فرد و گاہ اور اسلام کے اس مرکز انقلاب میں دو ہفتے گزارکر طائر شوق نے پھر حرم کعبہ کی راہ لی۔ یہاں طواف وسعی کے ''ہنگامے'' میں مزید ایک ہفتہ گزارنے کا شرف حاصل ہوا۔ عزیزوں، دوستوں، بزرگوں اور علماء و مشائخ نے کیا مکہ، کیا مدینہ، ہر جگہ ہاتھوں ہاتھ لیا۔ یوں میرے خوابوں اور آرزؤوں کی سرزمین حجاز مقدس کے اندر ایک ماہ کا عرصہ چشم زدن میں گزر گیا اور پھر صنم کدۂ ہند میں واپس آ گیا۔
حیف درچشم زدن صحبتِ یار آخر شُد
روئے گل سیر ند یدیم وبہار آخر شُد
حجاز سے واپس ہوا تو ہندوستان و پاکستان کے اُردو خواں طبقے کی طرف سے کتاب کو اُردو جامہ پہنانے کا تقاضا شروع ہو گیا۔ جو کئی برس گزرجانے کے باوجود برابر قائم رہا۔ ادھر نئی نئی مصروفیات اس قدر دامن گیر ہوتی گئیں کہ ترجمہ کے لیے فرصت کے لمحات میسر ہوتے نظر نہ آئے۔ بالآخر مشاغل کے اسی ہجوم میں ترجمہ شروع کر دیا گیا اور اللہ کا بے پایاں شکر ہے کہ چند ماہ کی جزوی کوشش سے پایۂ تکمیل کو پہنچ گیا۔ وللّٰہ الأمر من قبل ومن بعد ۔
اخیر میں میں ان تمام بزرگوں، دوستوں اور عزیزوں کا شکریہ ادا کرنا ضروری سمجھتا ہوں جنہوں نے اس کام میں کسی بھی طرح مجھ سے تعاون کیا۔ خصوصاً استاذ محترم مولانا عبد الرحمن صاحب رحمانی، اور عزیزانِ گرامی شیخ عزیر صاحب اور حافظ محمد الیاس صاحب فاضلان مدینہ یونیورسٹی کا کہ ان کے مشورے اور ہمت افزائی نے مجھے وقتِ مقررہ پر اس مقالے کی تیاری میں بڑی مدد پہنچائی۔ اللہ ان سب کو جزائے خیر دے۔ ہمارا حامی و ناصر ہو۔ کتاب کو شرفِ قبول بخشے اور مؤلف ومعاونین اور مستفیدین کے لیے فلاح و نجاح کا ذریعہ بنائے۔ آمین !!
۱۸/ رمضان المبارک ۱۴۰۴ھ
صفی الرحمن المبارکفوری
****