• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

الرد الوافر لابن ناصر الدین الدمشقی

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,472
پوائنٹ
964
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کے دفاع میں لکھی ہوئی ایک کتاب ’ الرد الوافر ‘ کا مختصر تعارف

’ شیخ الإسلام ‘ مشہور لقب ہے ، جو قرون اولی سے ہی علماء و محدثین اور فقہاء کے لیے استعمال کیا جاتا رہا ، لیکن علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ پر یہ لقب ایسا جچا کہ انہیں کا ہو کر رہ گیا ۔ ابن تیمیہ کے بعد بھی بہت سارے علماء کرام اور بزرگان دین آئے ، جنہیں اس لقب سے نوازا گیا ،
اور آج تک یہ لقب علماء و طلبہ اپنے ممدوحین کی خدمات جلیلہ کے پیش نظر ان کے لیے ذکر کرتے ہیں ، گو کچھ جہلاء عصر نے خود کو شیخ الاسلام بھی کہلوانا شروع کردیا ہے ، لیکن امام ابن تیمیہ کے نام نامی کے ساتھ یہ لقب اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ دمکتا نظر آتا ہے ۔
شیخ الاسلام کی وفات کے تقریبا ایک صدی بعد ایک حنفی عالم دین کے ذہن میں پتہ نہیں کیا سوجھی ، انہوں نے یہ فتوی جاری کردیا : ’ جس نے بھی ابن تیمیہ کو شیخ الاسلام کہا ، وہ کافر ہے ، جس کے پیچھے نماز جائز نہیں ‘ اس بزرگ کے ذہن میں پتہ نہیں کیا ہوگا ؟ انہوں نے یہ سوچ کیوں سوچی ؟ بہر صورت اس کا فائدہ یہ ہوا کہ ان کی یہ بات ’ الرد الوافر علی من زعم أن من سمی ابن تیمیۃ بشیخ الإسلام فہو کافر ‘ جیسی عظیم الشان کتاب کے ظہور کا باعث بنی ، کتاب کے مؤلف 9 صدی ہجری کے مشہور دمشقی عالم دین محمد ابن أبی بکر المعروف ابن ناصر الدین الدمشقی ( متوفی 842 ھ ) ہیں ،یہ کتاب عرصہ دراز سے مطبوع ہے ، میرے پیش نظر زہیر شاویش صاحب کی تحقیق و تخریج کے ساتھ مطبوع المکتب الإسلامی والا نسخہ ہے ، جس کے صفحات کی تعداد ساڑھے تین سو سے زائد ہے ۔
مؤلف کتاب کے مقدمہ میں نقل کرتے ہیں :
وَقد كَانَ النَّاس على ذَلِك زَمَانا بعده إِذْ كَانَ فيهم الْعلمَاء وَأهل الْمعرفَة بِاللَّه من الفهماء من أَرَادَ تَغْيِير الْحق منعُوهُ وَمن ابتدع بِدعَة زجروه وَإِن زاغ عَن الْوَاجِب قوموه وبينوا لَهُ رشده وفهموه فَلَمَّا ذهب الْعلمَاء من الْحُكَمَاء ركب كل وَاحِد هَوَاهُ فابتدع مَا أحب وارتضاه وناظر أهل الْحق عَلَيْهِ ودعاهم بجهله إِلَيْهِ وزخرف لَهُم القَوْل بِالْبَاطِلِ فتزين بِهِ وَصَارَ ذَلِك عِنْدهم دينا يكفر من خَالفه ويلعن من باينه وساعده على ذَلِك من لَا علم لَهُ من الْعَوام ويوقع بِهِ الظنة وَالْإِيهَام وَوجد على ذَلِك الْجُهَّال أعوانا وَمن أَعدَاء الْعلم أخدانا أَتبَاع كل ناعق ومجيب كل زاعق لَا يرجعُونَ فِيهِ إِلَى دين وَلَا يعتمدون۔الرد الوافر (ص: 7)
لوگ ایک زمانے تک اتباع کتاب وسنت اور منہج سلف پر گامزن رہے ، کیونکہ ان میں علماء و اہل معرفت و فہم موجود تھے ، جنہوں نے حقائق مسخ کرنے والوں کو روکا ، اہل بدعت کو ٹوکا ، کوتاہی و انحراف میں مبتلا ہونے والوں کی اصلاح کرتے ہوئے رشد و ہدایت کی طرف متوجہ کیا ، جب اہل حکمت علماء چلے گئے ، تو ان کی جگہ ایسے لوگ آئے کہ ہر ایک نے خواہشات کی پیروی کی ، جو چاہا دین کا حصہ قرار دیا ، اس پر اہل حق سے الجھنا ، اور انہیں جہل کی طرف دعوت دینا شروع کردیا ، باطل کو مزین کرکے پیش کیا ، اور یوں ایک غلط فکر دین کا اس طرح حصہ ٹھہری کہ جس نے بھی اس کی مخالفت یا اس سے اختلاف کیا ، کافر و معلون قرار پایا ، دھوکہ دہی میں آنے والے عوام کالانعام اس رویے کی ترویج کا باعث بنے ، جاہل و علم دشمن لوگ مخلص مدد گار ثابت ہوئے ، جن کا وتیرہ ہی یہ ہے کہ ہر اونچی آواز کے پیچھے دوڑتے چلے جاتے ہیں ، دین کے تقاضوں سے ان کو کوئی سروکار نہیں ۔
کتاب کے مقدمہ میں رد و قدح ، اور مخالف کے ساتھ کیا اسلوب ہونا چاہیے ، علم جرح و تعدیل کے کیا تقاضے ہیں ؟ اور ائمہ جرح و تعدیل کیا شان رکھتے تھے ، یہ سب باتیں ایجاز و اختصار کے ساتھ ذکر ہوگئی ہیں ، سبب تالیف ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
قد نطق فِيهِ من لَا خبْرَة لَهُ بتراجم الرِّجَال وَلَا عِبْرَة لَهُ فِيمَا تقلده من سوء الْمقَال وَلَا فكرة لَهُ فِيمَا تطرق بِهِ إِلَى تَكْفِير خلق من الاعلام بِأَن قَالَ من سمى ابْن تَيْمِية شيخ الاسلام كَانَ كَافِرًا لَا تصح الصَّلَاة وَرَاءه وَهَذَا القَوْل الشنيع الَّذِي نرجو من الله الْعَظِيم أَن يعجل لقائله جزاه قد ابان قدر قَائِله فِي الْفَهم وأفصح عَن مبلغه من الْعلم وكشف عَن مَحَله من الْهوى وَوصف كَيفَ اتِّبَاعه لسبيل الْهدى۔الرد الوافر (ص: 21)
علم رجال سے نابلد ، اور گفتگو کے نتائج سے انجان اور ائمہ اعلام کی تکفیر سے بے خبر ایک شخص کا کہنا ہے کہ جس نے بھی ابن تیمیہ کو شیخ الاسلام کہا ، وہ کافر ٹھہرے گا ، اس کے پیچھے نماز جائز نہیں ، قائل کے اس قول نے اس کے عقل و فہم اور مبلغ علم کا پول کھول کر رکھ دیا ہے اور یہ بھی واضح کردیا کہ وہ تعصب و ھوی میں بہنے والا ہے یا راہ حق کا راہی ہے ۔
اس کے بعد ذکر کرتے ہیں کہ کسی کو ’ شیخ الاسلام ‘ کہنے کا سے کیا مراد ہے ؟ اور ابن تیمیہ سے پہلے کتنے ہی ائمہ اعلام ہیں جنہیں اس عظیم الشان لقب سے ملقب کیا گیا ۔ اور پھر ان علما و کبار شخصیات کا لفظ محمد کے بعد حروف تہجی کی ترتیب سے تذکرہ کیا جنہوں نے علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ کو ’ شیخ الاسلام ‘ کے لقب سے یاد کیا ، جس میں انہوں نے تقریبا پچاسی 85 کے قریب شخصیات کا تذکرہ کیا ہے ۔
کتاب کے محقق شیخ زہیر شاویش کے مطابق اگر استقصاء کیا جائے تو ہزاروں ناموں ایسے تلاش کیے جاسکتے ہیں ، جنہوں نے صراحتا ابن تیمیہ کے لیے ’ شیخ الاسلام ‘ کا لقب استعمال کیا ہے ، اور اگر عمومی مدح و ثنا یا دیگر القابات کی بات کی جائے تو پھر تو یہ ایک بحر بیکراں ہے ، گویا جب بھی کسی نے اس چاند پر تھوکنے کی کوشش کی ، دنیا نے اس کا چہرہ اس کے تھوک سے لتھڑا دیکھا ، جبکہ شیخ الاسلام اور ان کے علوم و فنون ہر بار بہت سارے لاعلموں کے لیے راہ حق پر آنے کا ذریعہ بن گئے ۔
رحم اللہ جمیع علماء الإسلام رحمۃ واسعۃ .​
 
Top