نہ تو مطلق جمہورکی پیروی درست ہے اورنہ ہی مطلق جمہور کے فیصلے کو نظر انداز کیا جاسکتاہے۔
ہم نے آپ سے پہلے بھی کہا تھا:
ہاں یہ بات درست ہے کہ اگر ایسے قرائن مل جائیں جو جمہور کے فیصلے کو مرجوح قرار دیں تو ایسی صورت میں جمہور کا فیصلہ قابل قبول نہ ہوگا ، لیکن علی الاطلاق یہ کہہ دینا کہ جمہور کے فیصلہ کو ترجیح دینے کے اصول پر کوئی عمل پیرا ہی نہیں بہت بڑی جسارت ہے ۔
اب بھی کہتے ہیں کہ اس بابت راجح موقف یہی معلوم ہوتا کہ قرائن دیکھیں جائیں ، قرائن سے جمہور کا فیصلہ درست معلوم ہو تو وہی لیں گے اور اگرقرائن سے جمہور کا فیصلہ غیر درست معلوم ہو تو اسے ترک کردیں گے ، امام ذہبی ،حافظ ابن حجر ، علامہ احمد شاکر ،علامہ معلمی اور علامہ البانی رحمہم اللہ کی تحریروں کے مطالعہ سے ان کا یہی موقف معلوم ہوتاہے، یعنی نہ تو مطلق جمہور کی توثیق قبول کی جائے اور نہ ہی مطلق اسے رد کیا جائے ، یہی موقف اقرب الی الصواب ہے۔
واضح رہے کہ قرائن میں مفسر وغیرمفسر ، متشدد وغیرمتشدد ، متقدم ومتاخر ناقد وناقل ، خاص وعام ، اوراس جیسی دیگرچیزوں پر بحث ہوگی ،جیساکہ اب تک اہل فن بحث کرتے آئے ہیں۔
اوراگرقرائن ناپید ہوں اور تطبیق وغیر ہ کی صورت نظر نہ آئے تو جمہور ناقدین ہی کے فیصلہ کو ہرحال میں ترجیح جائے گی ۔واللہ اعلم۔