- شمولیت
- ستمبر 26، 2011
- پیغامات
- 2,767
- ری ایکشن اسکور
- 5,410
- پوائنٹ
- 562
شاہ ولی اﷲ رحمۃ اﷲ علیہ کے زمانے تک برصغیر کے مسلمانوں میں سلام کے نام پر فقط ’آداب و تسلیمات‘ ہی کا رواج رہ گیا تھا ۔۔۔ ’آداب بجا لاتا ہوں‘۔۔۔’سلام عرض کرتاہوں‘۔۔۔’سرکار! تسلیم‘۔۔۔ ’حضور! تسلیمات‘۔۔۔ ’قبلہ! سلام عرض ہے‘۔۔۔’ محترم چچاجان! سلامِ مسنون‘۔۔۔’سرتاجِ من! سلامت!‘۔۔۔ ’ابّا سلام‘۔۔۔ ’امّاں سلام‘۔۔۔ ’چھوٹے ماموں سلام‘۔۔۔ ’بڑی خالہ سلام‘۔۔۔وغیرہ وغیرہ!
ایک روز شاہ ولی اﷲکی محفل میں افغانستان سے ایک’طالب‘ تشریف لائے۔ گھٹنوں سے نیچے تک چلاجانے والا اور ٹخنوں سے بس ذراہی اوپرتک رہ جانے والا لمباکرتا۔ گھیردار شلوار۔ سرپر صافہ۔ صافے میں سے اُبھری ہوئی کُلاہ۔ کُلاہ کے آگے تنا ہوا طُرّہ۔ بھرواں سیاہ ڈاڑھی اور سُرخ وسفید رنگت۔ سب کی توجہ کا مرکز بن گئے۔
محفل میں داخل ہوتے ہی موصوف نے گرج دار آواز اور کرارے پختون لہجہ میں فرمایا:’’السّلامُ علیکم ورحمۃ اﷲ وبرکاتہٗ‘‘ شاہ ولی اﷲ ؒ یہ کلمات سُن کر حد درجہ مسرور ہوئے اورنہایت مسرت آگیں لہجہ میں جواب دیا:’’وعلیکم السّلام ورحمۃ اﷲ وبرکاتہٗ‘‘
اس کے بعد حاضرین سے مخاطب ہوکرفرمایا:’’سلام کرنے کا مسنون طریقہ یہی ہے‘‘۔
پھراپنے شاگردوں، مریدوں، معتقدین اور متوسّلین کو حکم دیا: ’’آئندہ ہرشخص بہ طریق سنّتِ نبویؐ سلام کیا کرے‘‘۔
یوں شاہ ولی اﷲ اورآپ کے پیروکاروں نے برصغیر میں ایک اور بھولی بسری سنّت کااحیاء کردیا۔اِن کلماتِ سَلام کو اِس قدر رواج دیا کہ اب ہمارے معاشرے میں یہ کلمات قطعاً اجنبی نہیں ہیں۔معروف اور مانوس ہیں۔اب بر صغیر کا پُرانا طریقۂ سلام ہی بیشتر غیر معروف اور نامانوس ہو چکا ہے۔مگرجوبات ابھی تک نامانوس اور غیر معروف ہے، وہ ہے کثرت سے سلام کرنا، جسے رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلّم نے سب سے اچھی عادت قرار دیا ہے۔ سیدنا عبداﷲ بن عمرو بن العاص رضی اﷲ عنہما کی روایت کردہ ایک حدیث کی رُو سے:
’’ سب سے اچھی عادت ہے:ہرمسلمان کو سلام کرنا خواہ تُم اُسے جانتے ہو یا نہ جانتے ہو‘‘۔
یہ اچھی عادت ہم نے اپنے ایک کالم نگار بھائی مختار گوہر میں دیکھی۔ایک روز صدر(کراچی) میں لکی اِسٹار کے قریب مل گئے۔ لپک کر معانقہ کیا اور بہ طریقِ سنّتِ نبویؐ سلام کیا۔ چائے کی دعوت دی۔’ کفرانِ چائے‘ توہم نے کبھی کیاہی نہیں۔ فی الفور دعوت قبول کرلی۔ اب چائے خانے کی تلاش میں چلے جارہے ہیں اور باتیں بھی کرتے جارہے ہیں۔ مگر ہر بات اورہرجملہ کے آغاز، درمیان اور اختتام پر ایک عدد’السّلامُ علیکم‘ کانگینہ بھی جڑا ہواہے۔ بات یہ ہے کہ صدر میں کھوے سے کھوا چھلتاہے۔ جملہ شروع نہیں ہوتا کہ سامنے سے کوئی مسلمان آجاتاہے۔ پورا نہیں ہوتاکہ دوسرامسلمان ٹپک پڑتاہے۔ ابھی ختم ہونے ہی کو ہوتاہے کہ تیسرے مسلمان پر سلام بھیجنا پڑجاتاہے۔ہے توبڑی محنت اوربہت مشقت کی بات۔ مگر یہ بات بھائی مختارگوہر کی عادت میں شامل ہوگئی ہے۔ اِس کا ثمرہ ہم نے یہ دیکھا کہ ہمارے اِس بھائی سے محبت کرنے والے بہت ہیں۔کیوں نہ ہوں؟ معلم انسانیت صلی اﷲ علیہ وسلّم کے ایک اور ارشاد کے مطابق سَلام کی کثرت سے آپس میں محبت بڑھتی ہے۔
خیریت ہے کہ ہمارے مذہبی و سیاسی قائدین ایک تو پیدل نہیں چلتے۔ دوسرے، اگرکبھی پیدل ہو جائیں تب بھی ہر مسلمان کو، چاہے وہ اُنھیں سلام کرے یا نہ کرے، ازخود سلام نہیں کرتے۔اگرخدانخواستہ ہمارے قائدین سَلام کو کثرت سے رواج دینے لگ جائیں تو کہیں ایسا نہ ہو جائے کہ اس ملک کے مسلمان بھی اُن سے محبت کرنے لگ جائیں۔یوں ہوتے ہوتے پوری قوم میں ایک دوسرے کو محبت سے سلام کرنے کا رواج پڑجائے۔ یوں پورے ملک میں باہمی محبت بڑھ جائے۔اگر ایسا ہوگیا تو تفرقے کی سیاست کا کیا بنے گا؟ کتنے ہی قائدین کو یہ کہہ کہہ کر سیاست سے با حسرت و یاس استعفیٰ دینا پڑ جائے گا کہ ۔۔۔ ’وہ شاخ ہی نہ رہی جس پہ آشیانہ تھا‘۔
سَلام کو رواج دینے کے لیے کوئی بھاری بھرکم ملک گیر یا ہمہ گیر مہم چلانے کی ضرورت نہیں۔ بس سَلام کرنے کی ضرورت ہے۔ اِس کاسبق ہمیں اُسی وقت مل گیا تھا جب ہم ہرایک کو فخر سے بتاتے پھرتے کہ اب ہم (پرائمری اسکول میں نہیں پڑھتے) جماعت’ ششم الف‘ کے طالب علم ہوگئے ہیں۔ یادداشت میں اُنھی دِنوں کا ایک منظر محفوظ ہے۔ سردیوں کی ایک ٹھٹھرتی صبح کو ہم بستہ اور دونوں ہاتھ بغل میں دابے، منہ سے بھاپ چھوڑتے، بھاگے چلے جارہے ہیں، صبح سات بجے سے پہلے پہلے اِسکول پہنچ جانے کے لیے۔نیزتاخیر سے پہنچنے پر اِسکول کے صدر دروازے پرمستعد کھڑے پی ٹی ماسٹر صاحب سے فی ہتھیلی ایک بید کھانے سے بچنے کے لیے ۔ ملیر کھوکھراپار سے لیاقت مارکیٹ تک پیدل جانا معمول بن چکا تھا۔ اُس زمانے میں یہ فاصلہ لمبا لگتاہی نہیں تھا۔اب تو ہماری نئی نسل بس، ویگن یا کسی دوسری سواری کے بغیر یہ فاصلہ طے کرنے کا تصور ہی نہیں کرسکتی۔ وقت پر گھر سے نکلنے اورمخصوص رفتارسے چلنے کی وجہ سے راستے کی ہرمنزل تک پہنچنے کا ایک وقت مقرر ہوچکا تھا۔ پونے سات بجے کے مقررہ وقت پر ایک سفید ریش اور سفید لباس بزرگ ہرروز مسجد باب الاسلام (سعود آباد) سے نکلتے۔آگے بڑھ کرراستے میں ملنے والے اِس چھٹی جماعت کے چھوٹے سے بچے کو بڑی شفیق مُسکراہٹ سے سلام کرتے۔ جواب سنتے اور اپنی راہ لیتے۔ باربار کی کوششوں کے باوجود ہم سلام میں سبقت پر اُن سے بازی لے جانے میں ناکام رہے۔آخر ایک روز باقاعدہ منصوبے کے تحت پانچ منٹ پہلے گھر سے نکلے اورمسجد باب الاسلام تک پہنچ کر اُس کے صدر دروازے کے پیچھے چھپ کر کھڑے ہوگئے۔ جوں ہی وہ بزرگ نمودار ہوئے، اُنھیں ایک زوردار سلام کیا اوراپنے رستے پر دوڑ لگادی۔ اُس روز بزرگ کے پُرنور چہرے پر نمودار ہونے اور پھیلتی چلی جانے والی، شفقت بھری بے ساختہ مسکراہٹ قابلِ دید تھی۔ بچے کے چہرے پربھی ’فاتحانہ‘ مسکراہٹ تھی جودیر تک اور دُور تک پھیلی رہی۔
۱۹۹۰ء کی دہائی کاذکرہے۔ سردیوں میں رات نو بجے کے بعد اِسلام آباد کی کراچی کمپنی سے جی ٹین مرکز تک جانے کے لیے کوئی سواری نہیں ملتی تھی۔ راستہ تو اُتناہی تھا، گھر سے اِسکول والا، مگر اب اتنے فاصلے ہمیں طویل لگنے لگے تھے۔ معروف سیاح، صحافی اور سفرنامہ نگارعبیداﷲ کیہر کراچی سے آئے ہوئے تھے اور مہمان کی حیثیت سے ساتھ تھے۔یہ انتہائی ٹھٹھرتی ہوئی رات تھی۔ خیر کسی طرح اُنھیں گرماگرم مونگ پھلی کا ایک’ لفافہ‘ تھماکر پیدل چلنے پر آمادہ کرلیا۔ ویران سنسان راستہ۔دُور دُور تک کوئی آدم، نہ آدم زاد، نہ آدم زادی۔ سنّاٹے میں پُر شور اورتیزرفتار پانی کے فراٹے بھرتے قدرتی نالے پر بنے ہوئے پُل سے آگے، جہاں اَرنڈ کے پودوں کاجھنڈ ہے، وہیں سے چار آدمی سیاہ لباس میں اچانک نمودار ہوگئے۔ کم ازکم اُس گھنگھور شبِ دیجور میں تودُور سے اُن کے ملبوسات سیاہ ہی نظر آرہے تھے۔ چہرے سب کے چادروں میں چھپے ہوئے ۔یقین مانیے کہ ہم دونوں ’کراچویوں‘ کی سٹی گُم ہوگئی۔ پاؤں من من بھر کے ہوگئے۔ سانس سینے سے باہر نہ آئے۔ خوف سے ایک دوسرے کے ہاتھ پکڑ لیے۔ اب آگے جا سکتے تھے نہ پیچھے بھاگ سکتے تھے۔ جہاں کے تہاں رُک گئے۔ چاروں چادرپوش ہمارے قریب سے گزرے۔ گزرتے ہوئے اُن میں سے ایک نے بالجہر کہا:’’السّلامُ علیکم‘‘اور چاروں آگے بڑھ گئے۔ سلام کے جادُوئی الفاظ سنتے ہی ہماری کیفیت کی جو کایا پلٹی ہے وہ ہم بیان نہیں کرسکتے۔ ایسا امن،ایسا اطمینان اور اِتناسکون زندگی میں اچانک کبھی شاید ہی نصیب ہوا ہوگا۔یوں محسوس ہو رہا تھا جیسے اُنھوں نے سلام نہ کیا ہو،بلکہ بڑی محبت سے یہ کہاہو:
’’ڈرومت۔ ہمارے ہاتھ اور ہماری زبان سے تُم محفوظ ہو۔بالکل محفوظ!‘‘(ابو نثر، روزنامہ نئی بات)
ایک روز شاہ ولی اﷲکی محفل میں افغانستان سے ایک’طالب‘ تشریف لائے۔ گھٹنوں سے نیچے تک چلاجانے والا اور ٹخنوں سے بس ذراہی اوپرتک رہ جانے والا لمباکرتا۔ گھیردار شلوار۔ سرپر صافہ۔ صافے میں سے اُبھری ہوئی کُلاہ۔ کُلاہ کے آگے تنا ہوا طُرّہ۔ بھرواں سیاہ ڈاڑھی اور سُرخ وسفید رنگت۔ سب کی توجہ کا مرکز بن گئے۔
محفل میں داخل ہوتے ہی موصوف نے گرج دار آواز اور کرارے پختون لہجہ میں فرمایا:’’السّلامُ علیکم ورحمۃ اﷲ وبرکاتہٗ‘‘ شاہ ولی اﷲ ؒ یہ کلمات سُن کر حد درجہ مسرور ہوئے اورنہایت مسرت آگیں لہجہ میں جواب دیا:’’وعلیکم السّلام ورحمۃ اﷲ وبرکاتہٗ‘‘
اس کے بعد حاضرین سے مخاطب ہوکرفرمایا:’’سلام کرنے کا مسنون طریقہ یہی ہے‘‘۔
پھراپنے شاگردوں، مریدوں، معتقدین اور متوسّلین کو حکم دیا: ’’آئندہ ہرشخص بہ طریق سنّتِ نبویؐ سلام کیا کرے‘‘۔
یوں شاہ ولی اﷲ اورآپ کے پیروکاروں نے برصغیر میں ایک اور بھولی بسری سنّت کااحیاء کردیا۔اِن کلماتِ سَلام کو اِس قدر رواج دیا کہ اب ہمارے معاشرے میں یہ کلمات قطعاً اجنبی نہیں ہیں۔معروف اور مانوس ہیں۔اب بر صغیر کا پُرانا طریقۂ سلام ہی بیشتر غیر معروف اور نامانوس ہو چکا ہے۔مگرجوبات ابھی تک نامانوس اور غیر معروف ہے، وہ ہے کثرت سے سلام کرنا، جسے رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلّم نے سب سے اچھی عادت قرار دیا ہے۔ سیدنا عبداﷲ بن عمرو بن العاص رضی اﷲ عنہما کی روایت کردہ ایک حدیث کی رُو سے:
’’ سب سے اچھی عادت ہے:ہرمسلمان کو سلام کرنا خواہ تُم اُسے جانتے ہو یا نہ جانتے ہو‘‘۔
یہ اچھی عادت ہم نے اپنے ایک کالم نگار بھائی مختار گوہر میں دیکھی۔ایک روز صدر(کراچی) میں لکی اِسٹار کے قریب مل گئے۔ لپک کر معانقہ کیا اور بہ طریقِ سنّتِ نبویؐ سلام کیا۔ چائے کی دعوت دی۔’ کفرانِ چائے‘ توہم نے کبھی کیاہی نہیں۔ فی الفور دعوت قبول کرلی۔ اب چائے خانے کی تلاش میں چلے جارہے ہیں اور باتیں بھی کرتے جارہے ہیں۔ مگر ہر بات اورہرجملہ کے آغاز، درمیان اور اختتام پر ایک عدد’السّلامُ علیکم‘ کانگینہ بھی جڑا ہواہے۔ بات یہ ہے کہ صدر میں کھوے سے کھوا چھلتاہے۔ جملہ شروع نہیں ہوتا کہ سامنے سے کوئی مسلمان آجاتاہے۔ پورا نہیں ہوتاکہ دوسرامسلمان ٹپک پڑتاہے۔ ابھی ختم ہونے ہی کو ہوتاہے کہ تیسرے مسلمان پر سلام بھیجنا پڑجاتاہے۔ہے توبڑی محنت اوربہت مشقت کی بات۔ مگر یہ بات بھائی مختارگوہر کی عادت میں شامل ہوگئی ہے۔ اِس کا ثمرہ ہم نے یہ دیکھا کہ ہمارے اِس بھائی سے محبت کرنے والے بہت ہیں۔کیوں نہ ہوں؟ معلم انسانیت صلی اﷲ علیہ وسلّم کے ایک اور ارشاد کے مطابق سَلام کی کثرت سے آپس میں محبت بڑھتی ہے۔
خیریت ہے کہ ہمارے مذہبی و سیاسی قائدین ایک تو پیدل نہیں چلتے۔ دوسرے، اگرکبھی پیدل ہو جائیں تب بھی ہر مسلمان کو، چاہے وہ اُنھیں سلام کرے یا نہ کرے، ازخود سلام نہیں کرتے۔اگرخدانخواستہ ہمارے قائدین سَلام کو کثرت سے رواج دینے لگ جائیں تو کہیں ایسا نہ ہو جائے کہ اس ملک کے مسلمان بھی اُن سے محبت کرنے لگ جائیں۔یوں ہوتے ہوتے پوری قوم میں ایک دوسرے کو محبت سے سلام کرنے کا رواج پڑجائے۔ یوں پورے ملک میں باہمی محبت بڑھ جائے۔اگر ایسا ہوگیا تو تفرقے کی سیاست کا کیا بنے گا؟ کتنے ہی قائدین کو یہ کہہ کہہ کر سیاست سے با حسرت و یاس استعفیٰ دینا پڑ جائے گا کہ ۔۔۔ ’وہ شاخ ہی نہ رہی جس پہ آشیانہ تھا‘۔
سَلام کو رواج دینے کے لیے کوئی بھاری بھرکم ملک گیر یا ہمہ گیر مہم چلانے کی ضرورت نہیں۔ بس سَلام کرنے کی ضرورت ہے۔ اِس کاسبق ہمیں اُسی وقت مل گیا تھا جب ہم ہرایک کو فخر سے بتاتے پھرتے کہ اب ہم (پرائمری اسکول میں نہیں پڑھتے) جماعت’ ششم الف‘ کے طالب علم ہوگئے ہیں۔ یادداشت میں اُنھی دِنوں کا ایک منظر محفوظ ہے۔ سردیوں کی ایک ٹھٹھرتی صبح کو ہم بستہ اور دونوں ہاتھ بغل میں دابے، منہ سے بھاپ چھوڑتے، بھاگے چلے جارہے ہیں، صبح سات بجے سے پہلے پہلے اِسکول پہنچ جانے کے لیے۔نیزتاخیر سے پہنچنے پر اِسکول کے صدر دروازے پرمستعد کھڑے پی ٹی ماسٹر صاحب سے فی ہتھیلی ایک بید کھانے سے بچنے کے لیے ۔ ملیر کھوکھراپار سے لیاقت مارکیٹ تک پیدل جانا معمول بن چکا تھا۔ اُس زمانے میں یہ فاصلہ لمبا لگتاہی نہیں تھا۔اب تو ہماری نئی نسل بس، ویگن یا کسی دوسری سواری کے بغیر یہ فاصلہ طے کرنے کا تصور ہی نہیں کرسکتی۔ وقت پر گھر سے نکلنے اورمخصوص رفتارسے چلنے کی وجہ سے راستے کی ہرمنزل تک پہنچنے کا ایک وقت مقرر ہوچکا تھا۔ پونے سات بجے کے مقررہ وقت پر ایک سفید ریش اور سفید لباس بزرگ ہرروز مسجد باب الاسلام (سعود آباد) سے نکلتے۔آگے بڑھ کرراستے میں ملنے والے اِس چھٹی جماعت کے چھوٹے سے بچے کو بڑی شفیق مُسکراہٹ سے سلام کرتے۔ جواب سنتے اور اپنی راہ لیتے۔ باربار کی کوششوں کے باوجود ہم سلام میں سبقت پر اُن سے بازی لے جانے میں ناکام رہے۔آخر ایک روز باقاعدہ منصوبے کے تحت پانچ منٹ پہلے گھر سے نکلے اورمسجد باب الاسلام تک پہنچ کر اُس کے صدر دروازے کے پیچھے چھپ کر کھڑے ہوگئے۔ جوں ہی وہ بزرگ نمودار ہوئے، اُنھیں ایک زوردار سلام کیا اوراپنے رستے پر دوڑ لگادی۔ اُس روز بزرگ کے پُرنور چہرے پر نمودار ہونے اور پھیلتی چلی جانے والی، شفقت بھری بے ساختہ مسکراہٹ قابلِ دید تھی۔ بچے کے چہرے پربھی ’فاتحانہ‘ مسکراہٹ تھی جودیر تک اور دُور تک پھیلی رہی۔
۱۹۹۰ء کی دہائی کاذکرہے۔ سردیوں میں رات نو بجے کے بعد اِسلام آباد کی کراچی کمپنی سے جی ٹین مرکز تک جانے کے لیے کوئی سواری نہیں ملتی تھی۔ راستہ تو اُتناہی تھا، گھر سے اِسکول والا، مگر اب اتنے فاصلے ہمیں طویل لگنے لگے تھے۔ معروف سیاح، صحافی اور سفرنامہ نگارعبیداﷲ کیہر کراچی سے آئے ہوئے تھے اور مہمان کی حیثیت سے ساتھ تھے۔یہ انتہائی ٹھٹھرتی ہوئی رات تھی۔ خیر کسی طرح اُنھیں گرماگرم مونگ پھلی کا ایک’ لفافہ‘ تھماکر پیدل چلنے پر آمادہ کرلیا۔ ویران سنسان راستہ۔دُور دُور تک کوئی آدم، نہ آدم زاد، نہ آدم زادی۔ سنّاٹے میں پُر شور اورتیزرفتار پانی کے فراٹے بھرتے قدرتی نالے پر بنے ہوئے پُل سے آگے، جہاں اَرنڈ کے پودوں کاجھنڈ ہے، وہیں سے چار آدمی سیاہ لباس میں اچانک نمودار ہوگئے۔ کم ازکم اُس گھنگھور شبِ دیجور میں تودُور سے اُن کے ملبوسات سیاہ ہی نظر آرہے تھے۔ چہرے سب کے چادروں میں چھپے ہوئے ۔یقین مانیے کہ ہم دونوں ’کراچویوں‘ کی سٹی گُم ہوگئی۔ پاؤں من من بھر کے ہوگئے۔ سانس سینے سے باہر نہ آئے۔ خوف سے ایک دوسرے کے ہاتھ پکڑ لیے۔ اب آگے جا سکتے تھے نہ پیچھے بھاگ سکتے تھے۔ جہاں کے تہاں رُک گئے۔ چاروں چادرپوش ہمارے قریب سے گزرے۔ گزرتے ہوئے اُن میں سے ایک نے بالجہر کہا:’’السّلامُ علیکم‘‘اور چاروں آگے بڑھ گئے۔ سلام کے جادُوئی الفاظ سنتے ہی ہماری کیفیت کی جو کایا پلٹی ہے وہ ہم بیان نہیں کرسکتے۔ ایسا امن،ایسا اطمینان اور اِتناسکون زندگی میں اچانک کبھی شاید ہی نصیب ہوا ہوگا۔یوں محسوس ہو رہا تھا جیسے اُنھوں نے سلام نہ کیا ہو،بلکہ بڑی محبت سے یہ کہاہو:
’’ڈرومت۔ ہمارے ہاتھ اور ہماری زبان سے تُم محفوظ ہو۔بالکل محفوظ!‘‘