- شمولیت
- اپریل 14، 2011
- پیغامات
- 1,118
- ری ایکشن اسکور
- 4,480
- پوائنٹ
- 376
ماشاء اللہ بہت ہی احسن انداز میں اصلاح کی گئی ہے
اور یہی حق اور سچ ہے ۔
بارک اللہ فیکم
اور یہی حق اور سچ ہے ۔
بارک اللہ فیکم
لیجئے رضا بھائیبھائی چند ہفتوں یا مہینے پہلے یہ کتاب آن لا ئن دستیاب تھی، لیکن اب پتہ نہیں کیوں وہاں سے ہٹا لی گئی ہے، اگر کسی کے محفوظ ہے تو لنک شئیر کر دیں، جزاک اللہ خیرا
کتاب کو سکین کر کے تو میں نے ہی اپلوڈ کیا تھا پہلے بھی لیکن تھریڈ میری نظر سے ابھی گزرا ہے لہذا فورا شیئر کر دیا۔جزاک اللہ خیرا بھائی۔۔ بڑی دیر سے اس کی تلاش میں تھا۔
مثلاایک زمین آپ کے نام پر رجسٹر ہے۔آپ اس میں کس قسم کا مکان بناناچاہئے ہ محل نما،بنگلہ ٹائپ کا ،فلیٹ یاپھراپارٹمنٹ یاپھر کچھ اور۔ایسے اختلاف سے زمین کی رجسٹری پر کوئی اثرنہیں پڑتا۔
لیکن ایک زمین کاٹکرآپ کا ہے یانہیں اگراس کے ثبوت میں شک تونفس ثبوت مین شک کے ساتھ مکان کس قسم کا بنے یہ قضیہ ہی ختم ہوجاتاہے۔[/H1]
جو کچھ بھی تحقیق حدیث سے متعلق عرض کیا ہے عین وہی باتیں فہم حدیث سے متعلق بھی کہی جاسکتی ہیں اورکہی جانی چاہئیں ، ورنہ انصاف کا تقاضہ پورا نہیں ہوگا اورہمیں تو یہی لگے گا کہ آج ہرشخص تمام لوگوں کو محض اپنے ذوق و شوق کا پاپند بنانا چاہتا ہے۔
جسے غیر مسلموں میں کام کرنے کا شوق ہے وہ تقلیدو بدعت کے خلاف کام کرنے کو فتنہ سمجھتا ہے۔
جسے فقہ حدیث اور استنباط واستدلال سے شغف وہ تحقیق حدیث کو فساد سمجھتا ہے ۔
جسے تحقیق حدیث کا خبط ہے وہ فقہ و تدبر کے نام کی ہرشے سے متنفرہے۔
انصاف تو یہ ہے کہ آدمی اپنی ذوق اور اپنی دلچسپی کے لحاظ سے اپنے میدان میں کام کرے بشرطیکہ وہ اس کا اہل ہو، اوردوسرے میدان کے لوگوں کے کاموں کا بھی احترام کرے۔
جزاک اللہ خیرا کفایت اللہ بھائی۔جہاں تک تحقیق حدیث سے متعلق اجتہاد کے خطرات کو بڑا بتانے کی بات ہے تو یہ بھی درست نہیں بلکہ ہم تو سمجھتے ہیں کہ تحقیق حدیث کے اجتہاد سے فھم حدیث کا اجتہاد زیادہ خطرناک ہے۔ حدیث کی صحت وضعف میں اختلاف کی بناپر جن مسائل میں اختلاف ہوا ہے وہ اول تو فروعی ہیں نیز انگلیوں پر گنے جاسکتے ہیں ۔
ہم نے آج تک نہیں سنا کہ تحقیق حدیث میں بھی مجتہدین کے فرقے بنے ہوں اوراور الگ الگ مکتب فکر قائم ہوئے ہوں ، یا عہد رسالت سے لیکر آج تک کوئی ایسافتنہ رونما ہوا ہو جس کی بنیاد تحقیق حدیث ہو ۔
اس کے برعکس سلف سے لیکر خلف تک جس قدر بھی فرقے بنے اور آج بھی دن بدن جو نئے نئے فرقے وجود میں آرہے ہیں ان سب کی بنیادی وجہ فھم نصوص یعنی فھم قران وحدیث کی دعویداری ہی ہے ، حتی کہ انکار حدیث کا فتنہ بھی تحقیق کے میدان سے نہیں بلکہ فھم نصوص ہی کی وادی سے آیا ہے لوگوں نے قرآنی آیات کو سمجھنے میں اس قدر مہارت اورفقاہت دکھلائی کی ان کی فھم میں صحیح احادیث خلاف قران معلوم ہوئیں اور پھر فہم وتدبر کے اس غرور نے انہیں انکار حدیث تک پہنچا دیا ۔
عرض ہے کہ ان سارے فتنوں کی جڑ بھی اصلا فھم حدیث میں اجتہاد کی جسارت ہی ہے ، معتزلہ کا یہ اصول کہ حدیث موافق عقل ہو ، اب اس عقل کا تحقیق حدیث سے کیا تعلق ؟؟؟ یہ فھم وتدبر کا دعوی ہوا نا کہ تحقیق حدیث۔۔فہم حدیث اورتحقیق حدیث کی گمراہی کے تعلق سے عرض ہے کہ فہم حدیث کا معاملہ بہت نمایاں ہوتاہے جب کہ تحقیق حدیث کا معاملہ ذراپوشیدہ رہتاہے۔اب دیکھیں معتزلہ نے ایک الگ اصول بنایاکہ حدیث کا موافق عقل ہوناضروری ہے۔ یہ ان کی تحقیق ہی توتھی۔ خوارج نے تحقیق حدیث کیلئے کچھ الگ وصول وضع کئے ۔شیعہ حضرات نے حدیث کی تحقیق کامعیار بنایاکہ وہ اہل بیت سے مروی ہو۔اسی طرح اگرآپ غورکریں تو اس گمراہی میں تحقیق حدیث کاحصہ اورجثہ بھی آنجناب کو بخوبی نظرآنے لگے گا۔