ابو عکاشہ
مشہور رکن
- شمولیت
- ستمبر 30، 2011
- پیغامات
- 412
- ری ایکشن اسکور
- 1,491
- پوائنٹ
- 150
آج ہم ایک ایسی ہستی کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ساتھ چند واقعات کے بارے میں بات کریں گے کہ جب نبی علیہ الصلا ۃ و السلام سے پوچھا گیا کہ آپ کو سب سے زیادہ محبوب کون ہے تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے جواب میں اُس ہستی کا نام لیا
(صحیح بخاری کتاب فضائل الصحابہ)
وہ ہستی کہ لوگ رسول اللہ صلی علیہ و آلہ وسلم کو تحفہ تحائف بھیجنے کے لئے اُ س ہستی کی باری کا انتظار کیا کرتے تھے۔ اور وہ اس سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خوشنودی چاہتے تھے۔اور جب آقا علیہ السلام سے اِس بارے میں بات کی گئی تو آپ علیہ الصلا ۃ و السلام نے فرما اُس کی بابت مجھے نہ ستاؤ اللہ کی قسم مجھ پر تم میں سے کسی بی بی کی چادر میں (جو سوتے وقت اوڑھتا ہوں) مجھ پر وحی نہیں اترتی سوائے اُس کے۔ (صحیح بخاری کتاب فضائل الصحابہ)
وہ ہستی کہ جبریل علیہ السلام بھی اُ س ہستی کو آ کر سلام کہا کرتے تھے (صحیح مسلم کتاب الفضائل)
وہ ہستی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم فرماتے ہیں کہ اُس کی فضیلت تمام عورتوں پر ایسی ہے جیسا کہ ثرید کھانے کی فضیلت تمام کھانوں پر۔
وہ ہستی کہ جس کی تصویر آقا علیہ الصلا ۃ و السلام کو ریشمی رومال میں دکھائی گئی اور بتلایا گیا کہ یہ دنیا اور آخرت میں آپ کی بیوی ہیں ۔( ترمذی شریف)
وہ ہستی کہ جس کی وجہ سے تیمم کی آیت اتری سید نا اسید بن حضیر رضی اللہ عنہ اُ ن سے کہنے لگے اللہ تم کو جزائے خیر دے اللہ کی قسم جب تم پر کوئی آفت آئی تو اللہ نے تم کو بچا دیا اور مسلمانوں کو اس میں فائدہ دیا ۔ (صحیح بخاری کتاب فضائل الصحابہ)
وہ ہستی کہ سید نا مسروق رحمہ اللہ جب اُ ن سے روایت بیان کرتے تو فرمایا کرتے مجھ سے بیا ن کیا صدیقہ بنت صدیق نے اللہ کے حبیب کی حبیبہ نے جس کی پاکیزگی اور برا ءت کا اعلان ساتوں آسمانوں کے اوپر سے کیا گیا ۔
وہ ہستی کہ جب اکابر صحابہ کرام کو کسی مسئلہ میں اشکال ہوتا ان کے دروازے پر آکے پوچھتے مسئلہ حل ہو جاتا ۔اسی حوالے سے سید نا مسروق کہتے ہیں کہ اُ س ذات کی قسم جس کے علاوہ کوئی الٰہ نہیں میں نے کبار صحابہ کو اِن کے دروازے پر فرائض پوچھتے دیکھا ہے (دارمی)
تو آئیے پڑھتے ہیں اُس ہستی کے متعلق چند واقعات
1۔
سید ہ عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب تم مجھ سے خوش ہوتی ہو، یا ناراض تو میں پہچان لیتا ہوں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں میں نے پوچھا، وہ کیسے؟ تو آپ نے فرمایا کہ جب تم مجھ سے خوش ہوتی ہو تو قسم کھاتے وقت لا ورب محمد کہتی ہو اور جب خفا ہوتی ہو تو لا ورب ابراہیم (قسم ہے ابراہیم کے رب کی) کہتی ہو، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں میں نے کہا درست ہے لیکن اللہ کی قسم! یا رسول اللہ میں صرف آپ کا نام چھوڑ دیتی ہوں (آپ کی محبت نہیں چھوڑتی) ۔( صحیح بخاری:کتاب النکاح )
2۔
سید نا انس رضی اللہ عنہ (بن مالک) سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی کسی بیوی (سید ہ عائشہ رضی اللہ عنہا) کے پاس تھے کہ آپ کی کسی دوسری بیوی (سیدہ صفیہ رضی اللہ عنہا) نے ایک رکابی میں کھانا بھیجا، جس بیوی کے گھر میں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم تشریف فرما تھے اس نے غلام کے ہاتھ پر ہاتھ مارا جس سے رکابی گر کر ٹوٹ گئی، نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اس کے ٹکڑے جمع کئے، پھر اس میں جو کچھ کھانا تھا اسے سمیٹتے جاتے اور یہ کہتے جاتے کہ تمھاری ماں (ہاجرہ) نے بھی ایسی ہی غیرت کی تھی، پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے خادم کو ٹھہرا لیا اور اس بیوی سے جس کے گھر میں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم تھے دوسری رکابی منگوا کر اس کو دی جس کی رکابی ٹوٹی تھی اور ٹوٹی ہوئی رکابی انکے گھر میں رکھ دی جنھوں نے توڑی تھی۔ٍ(صحیح بخاری کتاب النکاح با ب الغیرہ بخاری شریف کی روایت میں نام مذکور نہیں البتہ نسائی کی روایت میں نام کی وضاحت آئی ہے)
3۔
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں ایک دن رسول اللہ جنت البقیع میں جنازے میں شرکت کرنے کے بعد میرے ہاں تشریف لائے تو مجھے اس حالت میں پایا کہ مجھے درد تھا اور میں یہ کہہ رہی تھی ہائے میرا سر آپ نے ارشاد فرمایا نہیں بلکہ عائشہ( رضی اللہ عنہا )مجھے یہ کہنا چاہیے کہ ہائے میرا سر نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا تمہیں کیا نقصان ہے اگر تم مجھ سے پہلے فوت ہوجاؤ تو میں تمہیں غسل دوں گا تمہیں کفن دوں گا تمہاری نماز جنازہ پڑھوں گا تمہیں دفن کروں گا۔ میں نے عرض کی ایسا ہی ہوگا اللہ کی قسم اگر میں مرجاتی ہوں تو آپ واپس میرے اس گھر میں آئیں گے اور یہاں اپنی کسی دوسری اہلیہ محترمہ کے ساتھ رہیں گے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم مسکرادئیے اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو اس تکلیف کا آغاز ہوا جس میں آپ کی وفات ہوئی۔( سنن دارمی:جلد اول:حدیث نمبر 80 )
4۔
سید ہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ وہ ایک سفر میں جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ تھیں وہ کہتی ہیں کہ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ پیدل دوڑ لگائی اور میں جیت گئی پھر جب میرا جسم ذرا بھاری ہو گیا تو میں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ پھر دوڑ لگائی اور اس مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جیت گئے اور فرمایا آج کی یہ جیت پچھلی ہار کا بدلہ ہے۔
(سنن ابوداؤد: کتاب الجہاد)
5۔
سید نا نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ سید ہ عائشہ رضی اللہ عنہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے برہم ہو کر اونچی اونچی آواز میں باتیں کر رہی تھیں ،اتفاق سے سید نا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ آگئے اور سید ہ عائشہ رضی اللہ عنہا کو تھپڑ مارنا چاہا اور کہا : ابنة أم رومان: ترفعين صوتك على رسول الله صلى الله عليه وسلم؟
: اے ام رومان کی بیٹی تو رسول اللہ صلی علیہ و آلہ وسلم پر آواز بلند کر رہی ہے؟:
اتنے میں رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم دونوں کے بیچ میں آگئے ، جب سید نا ابوبکر رضی اللہ عنہ غصہ میں باہر نکل گئے تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے سیدہ کو راضی کرنے کے انداز میں کہا : ألم تريني حلت بينك وبين الرجل؟!
"تم نے دیکھا نہیں کہ میں نے کس طرح تمہارے اور اس آدمی کے بیچ میں آکر تمہیں پٹنے سے بچا لیا؟"
کچھ دنوں کے بعد سید نا ابوبکر رضی اللہ عنہ رسول مقبول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے گھر تشریف لائے تو دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سیدہ عائشہ کو ہنسا رہے ہیں ،عرض کیا
: أشركاني في سلمكما كما أشركتماني في حربكما:
:اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آپ دونوں مجھے بھی صلح میں شریک کریں جیسا کہ آپ دونوں نے ناراضگی کی جنگ میں مجھے شریک کیا تھا : (مسند احمد 4/272 صحیح علی شرط مسلم ، النسائی فی الکبری55/9)
6۔
سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے گھر میں، میری باری کے دن میرے سینہ سے ٹیک لگائے ہوئے فوت ہوئے ہمارا دستور تھا کہ جب آپ بیمار ہوتے تو ہم آپ کے لئے دعائیں پڑھ کر شفا طلب کرتے، چنانچہ میں نے یہ کام شروع کردیا رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے آسمان کی طرف نظریں اٹھائیں، اور فرمایا، کہ فی الرفیق الاعلیٰ، فی الرفیق الاعلیٰ، اتنے میں عبدالرحمن آ گئے ان کے ہاتھ میں ہری مسواک تھی، آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اس کو دیکھا، میں جان گئی اور فورا ان سے لے کر چبایا اور نرم کرکے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ہاتھ میں دیدی، آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اچھی طرح دانتوں میں مسواک کی، پھر وہ مسواک آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم مجھے دینے لگے تو وہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ہاتھ سے گر پڑی، اللہ کا فضل دیکھو، کہ اس نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے آخری دن میں میرا لعاب دہن آپ کے لعاب دہن سے ملا دیا۔ (صحیح بخاری کتاب المغازی)
(صحیح بخاری کتاب فضائل الصحابہ)
وہ ہستی کہ لوگ رسول اللہ صلی علیہ و آلہ وسلم کو تحفہ تحائف بھیجنے کے لئے اُ س ہستی کی باری کا انتظار کیا کرتے تھے۔ اور وہ اس سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خوشنودی چاہتے تھے۔اور جب آقا علیہ السلام سے اِس بارے میں بات کی گئی تو آپ علیہ الصلا ۃ و السلام نے فرما اُس کی بابت مجھے نہ ستاؤ اللہ کی قسم مجھ پر تم میں سے کسی بی بی کی چادر میں (جو سوتے وقت اوڑھتا ہوں) مجھ پر وحی نہیں اترتی سوائے اُس کے۔ (صحیح بخاری کتاب فضائل الصحابہ)
وہ ہستی کہ جبریل علیہ السلام بھی اُ س ہستی کو آ کر سلام کہا کرتے تھے (صحیح مسلم کتاب الفضائل)
وہ ہستی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم فرماتے ہیں کہ اُس کی فضیلت تمام عورتوں پر ایسی ہے جیسا کہ ثرید کھانے کی فضیلت تمام کھانوں پر۔
وہ ہستی کہ جس کی تصویر آقا علیہ الصلا ۃ و السلام کو ریشمی رومال میں دکھائی گئی اور بتلایا گیا کہ یہ دنیا اور آخرت میں آپ کی بیوی ہیں ۔( ترمذی شریف)
وہ ہستی کہ جس کی وجہ سے تیمم کی آیت اتری سید نا اسید بن حضیر رضی اللہ عنہ اُ ن سے کہنے لگے اللہ تم کو جزائے خیر دے اللہ کی قسم جب تم پر کوئی آفت آئی تو اللہ نے تم کو بچا دیا اور مسلمانوں کو اس میں فائدہ دیا ۔ (صحیح بخاری کتاب فضائل الصحابہ)
وہ ہستی کہ سید نا مسروق رحمہ اللہ جب اُ ن سے روایت بیان کرتے تو فرمایا کرتے مجھ سے بیا ن کیا صدیقہ بنت صدیق نے اللہ کے حبیب کی حبیبہ نے جس کی پاکیزگی اور برا ءت کا اعلان ساتوں آسمانوں کے اوپر سے کیا گیا ۔
وہ ہستی کہ جب اکابر صحابہ کرام کو کسی مسئلہ میں اشکال ہوتا ان کے دروازے پر آکے پوچھتے مسئلہ حل ہو جاتا ۔اسی حوالے سے سید نا مسروق کہتے ہیں کہ اُ س ذات کی قسم جس کے علاوہ کوئی الٰہ نہیں میں نے کبار صحابہ کو اِن کے دروازے پر فرائض پوچھتے دیکھا ہے (دارمی)
تو آئیے پڑھتے ہیں اُس ہستی کے متعلق چند واقعات
1۔
سید ہ عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب تم مجھ سے خوش ہوتی ہو، یا ناراض تو میں پہچان لیتا ہوں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں میں نے پوچھا، وہ کیسے؟ تو آپ نے فرمایا کہ جب تم مجھ سے خوش ہوتی ہو تو قسم کھاتے وقت لا ورب محمد کہتی ہو اور جب خفا ہوتی ہو تو لا ورب ابراہیم (قسم ہے ابراہیم کے رب کی) کہتی ہو، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں میں نے کہا درست ہے لیکن اللہ کی قسم! یا رسول اللہ میں صرف آپ کا نام چھوڑ دیتی ہوں (آپ کی محبت نہیں چھوڑتی) ۔( صحیح بخاری:کتاب النکاح )
2۔
سید نا انس رضی اللہ عنہ (بن مالک) سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی کسی بیوی (سید ہ عائشہ رضی اللہ عنہا) کے پاس تھے کہ آپ کی کسی دوسری بیوی (سیدہ صفیہ رضی اللہ عنہا) نے ایک رکابی میں کھانا بھیجا، جس بیوی کے گھر میں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم تشریف فرما تھے اس نے غلام کے ہاتھ پر ہاتھ مارا جس سے رکابی گر کر ٹوٹ گئی، نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اس کے ٹکڑے جمع کئے، پھر اس میں جو کچھ کھانا تھا اسے سمیٹتے جاتے اور یہ کہتے جاتے کہ تمھاری ماں (ہاجرہ) نے بھی ایسی ہی غیرت کی تھی، پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے خادم کو ٹھہرا لیا اور اس بیوی سے جس کے گھر میں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم تھے دوسری رکابی منگوا کر اس کو دی جس کی رکابی ٹوٹی تھی اور ٹوٹی ہوئی رکابی انکے گھر میں رکھ دی جنھوں نے توڑی تھی۔ٍ(صحیح بخاری کتاب النکاح با ب الغیرہ بخاری شریف کی روایت میں نام مذکور نہیں البتہ نسائی کی روایت میں نام کی وضاحت آئی ہے)
3۔
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں ایک دن رسول اللہ جنت البقیع میں جنازے میں شرکت کرنے کے بعد میرے ہاں تشریف لائے تو مجھے اس حالت میں پایا کہ مجھے درد تھا اور میں یہ کہہ رہی تھی ہائے میرا سر آپ نے ارشاد فرمایا نہیں بلکہ عائشہ( رضی اللہ عنہا )مجھے یہ کہنا چاہیے کہ ہائے میرا سر نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا تمہیں کیا نقصان ہے اگر تم مجھ سے پہلے فوت ہوجاؤ تو میں تمہیں غسل دوں گا تمہیں کفن دوں گا تمہاری نماز جنازہ پڑھوں گا تمہیں دفن کروں گا۔ میں نے عرض کی ایسا ہی ہوگا اللہ کی قسم اگر میں مرجاتی ہوں تو آپ واپس میرے اس گھر میں آئیں گے اور یہاں اپنی کسی دوسری اہلیہ محترمہ کے ساتھ رہیں گے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم مسکرادئیے اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو اس تکلیف کا آغاز ہوا جس میں آپ کی وفات ہوئی۔( سنن دارمی:جلد اول:حدیث نمبر 80 )
4۔
سید ہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ وہ ایک سفر میں جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ تھیں وہ کہتی ہیں کہ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ پیدل دوڑ لگائی اور میں جیت گئی پھر جب میرا جسم ذرا بھاری ہو گیا تو میں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ پھر دوڑ لگائی اور اس مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جیت گئے اور فرمایا آج کی یہ جیت پچھلی ہار کا بدلہ ہے۔
(سنن ابوداؤد: کتاب الجہاد)
5۔
سید نا نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ سید ہ عائشہ رضی اللہ عنہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے برہم ہو کر اونچی اونچی آواز میں باتیں کر رہی تھیں ،اتفاق سے سید نا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ آگئے اور سید ہ عائشہ رضی اللہ عنہا کو تھپڑ مارنا چاہا اور کہا : ابنة أم رومان: ترفعين صوتك على رسول الله صلى الله عليه وسلم؟
: اے ام رومان کی بیٹی تو رسول اللہ صلی علیہ و آلہ وسلم پر آواز بلند کر رہی ہے؟:
اتنے میں رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم دونوں کے بیچ میں آگئے ، جب سید نا ابوبکر رضی اللہ عنہ غصہ میں باہر نکل گئے تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے سیدہ کو راضی کرنے کے انداز میں کہا : ألم تريني حلت بينك وبين الرجل؟!
"تم نے دیکھا نہیں کہ میں نے کس طرح تمہارے اور اس آدمی کے بیچ میں آکر تمہیں پٹنے سے بچا لیا؟"
کچھ دنوں کے بعد سید نا ابوبکر رضی اللہ عنہ رسول مقبول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے گھر تشریف لائے تو دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سیدہ عائشہ کو ہنسا رہے ہیں ،عرض کیا
: أشركاني في سلمكما كما أشركتماني في حربكما:
:اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آپ دونوں مجھے بھی صلح میں شریک کریں جیسا کہ آپ دونوں نے ناراضگی کی جنگ میں مجھے شریک کیا تھا : (مسند احمد 4/272 صحیح علی شرط مسلم ، النسائی فی الکبری55/9)
6۔
سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے گھر میں، میری باری کے دن میرے سینہ سے ٹیک لگائے ہوئے فوت ہوئے ہمارا دستور تھا کہ جب آپ بیمار ہوتے تو ہم آپ کے لئے دعائیں پڑھ کر شفا طلب کرتے، چنانچہ میں نے یہ کام شروع کردیا رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے آسمان کی طرف نظریں اٹھائیں، اور فرمایا، کہ فی الرفیق الاعلیٰ، فی الرفیق الاعلیٰ، اتنے میں عبدالرحمن آ گئے ان کے ہاتھ میں ہری مسواک تھی، آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اس کو دیکھا، میں جان گئی اور فورا ان سے لے کر چبایا اور نرم کرکے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ہاتھ میں دیدی، آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اچھی طرح دانتوں میں مسواک کی، پھر وہ مسواک آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم مجھے دینے لگے تو وہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ہاتھ سے گر پڑی، اللہ کا فضل دیکھو، کہ اس نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے آخری دن میں میرا لعاب دہن آپ کے لعاب دہن سے ملا دیا۔ (صحیح بخاری کتاب المغازی)