ہمیں علم ہے آپ کے بغیر ختنہ مجاہدین کا اور شیطانی ٹیٹو والوں کو بھی ہم جانتے ہیں۔ یہ سب کام امریکی اور یہودی کرتے ہیں جن کو آپ مجاہدین کہہ رہے ہیں۔ امریکہ کی لونڈی کون ہے آپ کےان مجاہدین کو دیکھ کر اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔
ٹی ٹی پی کا مردار خوارجی اور ابوزینب صاحب کا مجاہد
اسرائیل سے ہمارے کیسے تعلقات ہیں اس کا ثبوت ہم نے دے دیا لیکن ہم اپنے اباواجداد کی سنت پر چلتے ہوئے ہمارے کسی حوالے کو غلط ثابت نہیں کر سکے بلکہ ابھی تک ہمارا مطالبہ آپ کے جواب کے انتظار میں تھریڈ میں موجود ہے۔ اللہ اللہ کر کے ایک حوالے کا جواب دیا ہے اس کا حشر بھی ابھی آپ کو دیکھا دیتے ہیں۔آپ نے جو لنک شئیر کیا ہے اس میں آپ کے مفاد میں کون سی بات ہے؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟
اگر آپ کی خوارجی ذہنیت مطمئین نہیں ہے تو مذید لنک لگادیتے ہیں انشاللہ کھل پر پتہ چل جائے گا کہ امریکہ کی لونڈی کون ہے۔
http://www.examiner.com/article/u-s-supports-al-qaeda-freedom-fighters-against-gaddafi-libyan-civil-war
http://www.telegraph.co.uk/news/worldnews/africaandindianocean/libya/8407047/Libyan-rebel-commander-admits-his-fighters-have-al-Qaeda-links.html
http://www.thegatewaypundit.com/2011/03/why-is-obama-helping-al-qaeda-terrorists-overthrow-gaddafi/
http://www.informationclearinghouse.info/article27759.htm
متلاشی تم مردہ گھوڑے پر سوار ی کرنے کی کوشش کررہے ہو۔اس کا مطلب یہ ہے کہ اب تمہاری ٹیم کے پاس جماعۃ الدعوۃ کے مراکز سےمنظور شدہ بہتانوں کی لسٹ جو کہ مجاہدین اسلام کے خلاف ہے وہ ختم ہوچکی ہے۔اس مردہ گھوڑے کو جہادی فورم پر بحث کرکے ہمیشہ کے لئے دفن کردیا گیا تھا۔اور وہ تمام حقائق بیان کردیئے گئے تھے جن سے عام مسلمان متعارف نہیں تھے ۔متلاشی تم پھرمات کھاگئے ۔تم نے مردہ رات کے اندھیرے میں حاطب اللیل کی طرح مردے گھوڑے پر سوار ہونے کی کوشش کی ۔یہ لاش، اس امریکی کی ہےجو ناپاک فضائیہ کی بیس پرہونے والے استشہادی حملے میں ماراگیا، یہ امریکی ناپاک فوج کی تربیت کے لئے کئی ماہ سے پشاور بیس پر اپنے دیگر ساتھیوں کے ساتھ موجودتھا۔
متلاشی ہم تمہیں اصل صورت حال سے آگاہ کئے دیتے ہیں جو کہ خود تحریک طالبان پاکستان کی کے امراء کی زبانی بیان کی گئی ہے:
[qoute]
تحریک طالبان پاکستان کے امیر حکیم اللہ محسود اور مولانا ولی الرحمن حفظھما اللہ سے خصوصی انٹرویو کی ویڈیو کا مکمل اردو تحریری مسودہ
بسم اللہ الرحمن الرحیم
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنْ جَاءَكُمْ فَاسِقٌ بِنَبَإٍ فَتَبَيَّنُوا أَنْ تُصِيبُوا قَوْمًا بِجَهَالَةٍ فَتُصْبِحُوا عَلَى مَا فَعَلْتُمْ نَادِمِينَ [الحجرات : 6]
ترجمہ: "مومنو! اگر کوئی بدکردار تمہارے پاس کوئی خبر لے کر آئے تو خوب تحقیق کرلیا کرو (مبادا) کہ کسی قوم کو نادانی سے نقصان پہنچا دو پھر تم کو اپنے کئے پر نادم ہونا پڑے"۔
ترانہ
ہم ایک ہیں ایک ہیں
بنیان ہیں مرصوص ہیں
امیر محترم حکیم اللہ محسود اور مولانا ولی الرحمن حفظھما اللہ سے خصوصی انٹرویو
س: امیر محترم کچھ عرصہ سے میڈیا میں اس بات کو بہت اٹھایا جا رہا ہے کہ تحریک طالبان پاکستان مرکزی سطح پر دو گروپوں میں تقسیم ہوگئی ہے، ان باتوں میں کتنی صداقت ہے؟ کیا واقعی تحریک طالبان پاکستان دو گروپوں میں تقسیم ہوگئی ہے؟
امیر محترم حکیم اللہ محسود:
اعوذ بالله من الشيطان الرجيم . بسم الله الرحمن الرحيم . {وَلَا تَهِنُوا وَلَا تَحْزَنُوا وَأَنْتُمُ الْأَعْلَوْنَ إِنْ كُنْتُمْ مُؤْمِنِينَ} [آل عمران : 139] وقال النبي صلى الله عليه وسلم: "الجهاد ماض إلى يوم القيامة"، أو كما قال عليه الصلوة والسلام.
یہ جو پروپیگنڈہ ہورہا ہے کہ تحریک طالبان دو گروپوں میں تقسیم ہوگئی ہے یقیناً اس پروپیگنڈے سے مراد میں اور مولانا ولی الرحمن صاحب ہیں۔ میڈیا میں یہ جو پروپیگنڈہ ہو رہا ہے، یہ ایک بے بنیاد پروپیگنڈہ ہے اور اس میں کوئی حقیقت نہیں، جس کا ثبوت میرے اور مولوی صاحب کا یہاں اکٹھے بیٹھنا ہے۔ پہلے بھی میڈیا نے یہ پروپیگنڈہ کیا تھا، مگر وقت اور تاریخ نے یہ بات ثابت کردی کہ میں اور مولوی صاحب یک جان ہیں، اور ان شاءاللہ مرتے دم تک یک جان رہیں گے۔
س: میرا اگلا سوال مولوی صاحب آپ سے ہے کہ آپ کے بارے میں یہ باتیں کی جارہی ہیں کہ آپ افغانستان کے جہاد کو زیادہ ترجیح دیتے ہیں، اور پاکستان کے جہاد کو اتنی توجہ نہیں دیتے ہیں، آیا ان باتوں میں کوئی صداقت ہے، اور پاکستان کے جہاد کو آپ کس نظر سے دیکھ رہے ہیں؟
مولانا ولی الرحمن:
الحمدلله والصلوة والسلام على من لا نبي بعده، أما بعد: فأعوذ بالله من الشيطان الرجيم: {وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّهِ جَمِيعًا وَلَا تَفَرَّقُوا} [آل عمران : 103] وقال النبي صلى الله عليه وسلم: "عليكم بالجماعة، والإطاعة، من شذ شذ في النار، أو كما قال النبي صلى الله عليه وسلم.
محترم آپ نے جو سوال پوچھا ہے اس سوال کے جواب سے پہلے میں یہ عرض کرنا چاہوں گا کہ:
امیر محترم حفظہ اللہ سے جو بات آپ نے کی ہے، اس کے بارے میں، میں یہ کہنا چاہوں گا کہ میڈیا نے بار بار یہ خبریں پھیلائی ہیں کہ ان دونوں کے مابین اختلافات ہیں، آپس کی جنگ ہے، ایک دوسرے کے قتل کے درپے ہیں، لیکن یہ بات وقت نے ثابت کر دی ہے کہ جس طرح امیر محترم نے فرمایا کہ وہ سب جھوٹ پر مبنی پروپیگنڈہ تھا اسی طرح تاریخ بھی یہ بات ثابت کرے گی اور ہمارا اکٹھا بیٹھنا بھی یہ ثابت کر رہا ہے کہ ہم پہلے بھی ایک تھے اور اب بھی ایک ہیں اور انشاءاللہ آئندہ بھی ایک رہیں گے، ایک جان رہیں گے اور ایک جماعت رہیں گے جیسا کہ امیر محترم نے فرمایا ہے۔ اور ہم کیوں نہ ایک جان رہیں، حالانکہ ہم دیکھتے ہیں کہ یہ چور، فوج، خفیہ ادارے، یہ چور سیاستدان اور بیوروکریٹس، پاکستان کو لوٹنے میں متفق ہیں، پاکستان کو تباہ کرنے میں متفق ہیں، تو ہم کیوں نہ اعلائے کلمتہ اللہ کے لئے متفق نہیں رہیں گے۔ شرعی نظام کی جدوجہد کے لئے جیسے میں نے پہلے آیت تلاوت کی ہے، اس میں اللہ پاک ہمیں جس شریعت کا حکم دیتے ہیں، اور ہم اسی شریعت کے لئے جدوجہد کررہے ہیں، اور یہی شریعت ہمیں تعلیم دیتی ہے، کہ اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھامے رکھو، اور پیغمبر ﷺ بھی ہمیں یہ تعلیم دیتے ہیں کہ آپ لوگ جماعت کو لازم رکھو۔ اور اطاعت کو لازم رکھو اور جو بھی جماعت سے جدا ہوگیا وہ آگ کے لئے جدا ہوگیا۔
تو الحمدللہ ہم نے اتفاق سے امیر محترم پر اعتماد کیا، اور اعتماد بھی تحریک کے سربراہ کے طور پر کیا ہے اور یہ سفر اسی طرح جاری ہے اور انشاءاللہ آئندہ بھی جاری رہے گا۔
دوسری بات آپ نے جو سوال پوچھا تھا، تو اس سوال کے بارے میں، میں یہ کہنا چاہوں گا کہ اس سلسلے میں سات، آٹھ یا دس سال خصوصاً ۲۰۰۳ کے بعد پاکستان کے خلاف جہاد، یا جہاد پاکستان کے حوالےسے ہماری عملی زندگی، ہماری قربانیاں، اور ہمارے ساتھیوں کی استقامت کو آپ دیکھیں۔ تو اس بارے میں، میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ اس طرح کی خبریں بنانا کہ افغانستان کے جہاد میں دلچسپی ہے یا پاکستان کے جہاد میں دلچسپی ہے، تو میں وضاحت کر دوں کہ یہ دونوں ہمارے محاذ ہیں، امریکہ براہ راست افغانستان پر بھی حکومت کر رہا ہے، وہاں بھی ایک کٹھ پتلی بٹھایا ہوا ہے اور اسی طرح یہاں پاکستان میں بھی ایک کٹھ پتلی بٹھایا ہوا ہے، فوج کو تنخواہیں دے کر ہمارے خلاف لڑاتا ہے، تو یہ دراصل ایک ہی محاذِ جنگ ہے، چاہے وہ پاکستان کے خلاف ہو یا افغانستان کے خلاف ہو، ہم دونوں کو امریکہ کے خلاف جنگ قرار دیتے ہیں، اور اسی صلیبی، صیہونی اتحاد جو انہوں نے بنایا ہے، کے خلاف ہم نبردآزما ہیں۔
اِن کے ساتھ ہمارا مقابلہ ہے انشاءاللہ۔ اپنی شہیدوں کی شہادتوں اور قربانیوں سے ہم نے یہ ثابت کیا ہے کہ خواہ افغانستان کی سرزمین ہو یا پاکستان کی سرزمین ہو، دونوں کو ہم نے اپنے خون سے سیراب کیا ہے، اور یہ سب کچھ خالصتاً اسلامی نظام کی خاطر کیا ہے۔
س: آپ کی باتوں سے ہم یہ نتیجہ اخذ کر سکتے ہیں کہ آپ کا امیر صاحب پر مکمل اعتماد ہے اور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ آپ کو امیر بنایا جا رہا ہے یا مولانا فضل اللہ صاحب کو امیر بنایا جا رہا ہے، اس بات میں کوئی حقیقت ہے؟
مولانا ولی الرحمن:
یہ قطعاً بے بنیاد بات ہے۔ اس بات میں کوئی حقیقت نہیں ہےکہ ہمارا امیر صاحب پر اعتماد نہیں ہے یا قیادت کے لئے میں آگے آرہا ہوں یا مولانا فضل اللہ صاحب آگے آرہے ہیں، اسلئے کہ دنیا یا پاکستان جو ہمارے بارے میں تصور کر رہے ہیں کہ یہ عہدوں یا کرسیوں کی وجہ سے ایک دوسرے کے مخالف ہیں، یہ تصوّر بالکل بے بنیاد ہے، اسلئے کہ جہاد میں ایسے کوئی منصب یا عہدے نہیں ہوتے کہ بندہ اس میں دلچسپی رکھے، اس میں پاکستان میں رائج خبیث نظام کی طرح کوئی کرسیاں نہیں ہیں کہ کوئی ان کی طرف راغب ہو، عہدوں اور کرسیوں کی طرف وہی راغب ہوتا ہے جس کے اس میں دنیاوی مفاد ہوں، پلاٹوں کا مقصد ہو، زمینوں کا مقصد ہو، کرپشن مقصود ہو، غریب عوام کا خون چوسنا مقصود ہو، حالانکہ جہاد میں تو ایسی کوئی ایک چیز بھی نہیں ہے۔
یہاں جہاد میں جو جتنے اعلیٰ عہدے پر فائز ہو وہ اتنا ہی دشمن کے ہدف پر ہوتا ہے، تو کون ہوگا جو ایسا کہے کہ مجھے بڑا عہدہ ملے، کیونکہ جو جتنے بڑے عہدے پر ہوتا ہے اتنا ہی ان کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے، کیونکہ یہ ایک نظریاتی سفر ہے۔
س: امیر محترم میرا سوال آپ سے ہے کہ افغانستان میں افغان طالبان نے امریکہ سے مذاکرات شروع کیے ہیں، اگر پاکستانی حکومت آپکو کوئی ایسی پیشکش کرے تو کیا آپ لوگ اس پر سنجیدگی سے غور کرسکتے ہیں؟
امیر محترم حکیم اللہ محسود:
جو سوال آپ نے کیا مذاکرات کے بارے میں، تو ہم نے کبھی بھی مذاکرات سے انکار نہیں کیا ہے لیکن ہم اُن مذاکرات پر یقین رکھتے ہیں جو سنجیدہ مذاکرات ہوں اگر ایسا ہو تو ہم اِن سے مذاکرات کرسکتے ہیں۔
لیکن ایسے مذاکرات جو کہ غیر سنجیدہ ہوں مثلاً اس میں ایسی بات ہو کہ آپ لوگ ہتھیار رکھ دو، بندوق رکھ دو تب ہم مذاکرات کریں گے، تو پھر یہ بہت غیر سنجیدہ باتیں ہیں۔ تقریباً ساٹھ سال سے ہمارے آباءواجداد کے زمانے سے قبائل میں اسلحہ موجود ہے اسلحہ قبائلیوں کا زیور ہے، لہذا یہ ایک غیر سنجیدہ بات ہے کہ اسلحہ جمع کروا دو تو پھر ہم آپ لوگوں سے مذاکرات کریں۔
مشروط مذاکرات یا شرائط پر مبنی مذاکرات کے ہم قائل نہیں ہیں، البتہ وہ سنجیدہ مذاکرات جو سنجیدگی کے ساتھ ہوں، تو ایسے مذاکرات سے ہم نے انکار نہیں کیا ہے۔ بار بار ہم نے اس دشمن پاکستانی حکومت کے ساتھ مذاکرات بھی کئے ہیں، معاہدے بھی کئے ہیں، جیسا کہ سراروغہ کا معاہدہ تھا جس پر ہم برقرار تھے کہ جب امیر بیت اللہ شہید رحمہ اللہ نے سراروغہ کا معاہدہ کیا تھا مگر بار بار اس معاہدے کو دشمن نے توڑا ہے، ہم نے کبھی بھی معاہدے کی خلاف ورزی نہیں کی، اس بات کے گواہ سابقہ گورنر علی محمد جان اورکزئی ہیں، کہ جنہوں نے بار بار حکومت سے کہا کہ معاہدے کی خلاف ورزی بار بار فوج کی جانب سے ہورہی ہے، مگر حکومت اور مشرف نے ان کی بات پر کوئی دھیان نہیں دیا، لہذا انہوں نے یہ غیرت کا مظاہرہ کیا کہ استعفٰی دے دیا کہ میں اس سے آگے ڈیوٹی نہیں کر سکتا۔
تو مذاکرات سے ہم نے کبھی بھی انکار نہیں کیا ہے لیکن بات یہ ہے کہ پاکستان کے پاس اپنا کوئی اختیار نہیں ہے، کیونکہ پاکستان ایک غلام ملک ہے، امریکیوں کا پیروکار ہے امریکیوں کا غلام ہے اور غلام تو کبھی بھی خود مختار نہیں ہوتا، غلام تو کوئی اختیار نہیں رکھتا، غلام کو تو جو اس کا آقا حکم دیتا ہے بس وہی بات، اس کی بات ہوتی ہے۔ اگر پاکستان واقعی خود مختار ہے تو امریکیوں کا بائیکاٹ کرے اور اپنے اختیار کے ساتھ ہم سے سنجیدہ مذاکرات کرے، لیکن ویسے مذاکرات نہیں جیسا کہ پہلے کیئے تھے کہ جس میں امریکیوں کی طرف سے دباؤ آجاتا تھا کہ معاہدہ توڑ دو، مذاکرات ختم کر دو۔ تو پھر پاکستان نے امریکہ کے کہنے پر وہ معاہدے بھی ختم کئے اور وہ مذاکرات بھی ختم کئے اپنے ہی قبائل و عوام کا خون ڈالروں کے عوض بہایا اور تاریخ نے ثابت کیا کہ پاکستان کی معزز بہن ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو ڈالروں کے بدلے گرفتار کرکے امریکیوں کے حوالے کردیا گیا، تو ہم ایسی غلام حکومت پر کیسے اعتماد کر سکتے ہیں۔
س:مولانا صاحب آپ اس بارے میں کیا کہنا چاہیں گے؟
مولانا ولی الرحمن:
میں امیرمحترم کی ان باتوں سے سو فیصد متفق ہوں اور ان کی باتوں کی تائید میں یہ بات کروں گا کہ جسطرح پہلے میں نے بتایا کہ یہ ایک نظریے کا سفر ہے، ایک عقیدے کا سفر ہے، تو ہمارے عقیدے ونظریے میں کہیں یہ تصوّر بھی نہیں ہے کہ ہم کسی کی غلامی قبول کریں یا ہم اُس نظام کی غلامی کریں جو کہ ہمارے دشمن کا نظام ہے۔ البتہ اگر سنجیدہ مذاکرات ہوں اور سنجیدہ مذاکرات کے لئے راہ ہموار ہو اور ہم یہ محسوس کریں کہ حکومت واقعی ان مذاکرات کے لئے سنجیدہ ہے، تو پھر اس پر ضرور غور کیا جائے گا اور ایک فیصلے تک پہنچا جاسکتا ہے، مگر یہ تو اس وقت ممکن ہو سکتا ہے جس طرح امیر محترم نے فرمایاکہ کم از کم پاکستان اپنے مذاکرات میں خودمختار تو ہو لیکن کیونکہ پاکستان خود مختار نہیں ہےاس لئے مشکلات ہیں، ہمارا اختیار ہمارے اپنے ہاتھوں میں ہے ہمارے بزرگوں کے ہاتھوں میں ہے، مگر حکومت کا اپنا اختیار نہیں ہے اور یہی بات مذاکرات میں حائل سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔
س: مولانا صاحب میرا سوال آپ سے ہے، کہا جاتا ہے کہ تحریک طالبان کی جو افرادی قوت ہے، وہ اب کمزور ہوگئی ہے یا ختم ہو گئی ہے اسلئے اب یہ غیر ملکی افراد کو اپنی جنگ میں استعمال کررہے ہیں، اس بات میں کتنی حقیقت ہے کیا آپ اپنی افرادی قوت کا کوئی خاکہ پیش کرسکتے ہیں؟
مولانا ولی الرحمن:
اس بارے میں میں یہ کہنا چاہوں گا کہ تحریک طالبان پاکستان جب سے بنی ہے، امیر شہید بیت اللہ محسود رحمہ اللہ نے اس کی بنیاد رکھی، الحمدللہ ہم نے اپنے اعمال وکردار سے یہ بات ثابت کی ہے کہ ہر آنے والے سال میں ہماری افرادی قوت اور عملیات کا دائرہ وسیع ہوا ہے، کم نہیں ہوا ہے جب کبھی بھی انہوں نے اس طرح کے بیانات جاری کئے ہیں کہ ہم نے اِن کی کمر توڑ دی ہے یا تحریک طالبان کو ختم کر دیا ہے، تو ہم نے بار بار اپنے عمل سے ثابت کیا ہے، جیسا کہ کچھ دن پہلے پشاور ایئر پورٹ پر جو کاروائی ہوئی اس سے ہم نے ثابت کردیا کہ الحمدللہ ہماری پاس عملیات کے لئے طاقت بھی ہےاور جس طرح کے اسباب درکار ہیں افرادی قوت بھی ہے، جہاں تک غیر ملکی کا تعلق ہے تو یہ ایک غلیظ اصطلاح ہے کہ یہ ملکی ہے اور یہ غیر ملکی ہے، اسلام میں یہ تصور نہیں ہے دنیا کے سارے مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں، ہم یہ تصور بھی نہیں کرسکتے، لیکن جہاں تک اِن عملیات کا تعلق ہے جس طرف اشارہ کیا گیا ہے تو اس بارے میں، میں یہ کہوں گا کہ اس کاروائی میں ہمارے ساتھی غیر ملکی نہیں تھے۔ لیکن چونکہ یہ ہم سب کی جنگ ہے، ضرورت پیش آئے گی تو ہمارے ساتھ غیر ملکی بھی ہونگے اور ملکی بھی ہونگے۔ یہ اِن لوگوں کی اصطلاح ہے،حالانکہ ہم مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں، ہم اس کو اپنے لئے عار سمجھتے ہیں، مشرق ومغرب میں جتنے مسلمان ہیں ہم اُن کے بھائی ہیں اور وہ ہمارے بھائی ہیں۔
س: امیر صاحب عرب دنیا میں ایک انقلاب آیا ہے اس کو آپ کس نظر سے دیکھ رہے ہیں؟
امیر محترم حکیم اللہ محسود:
سارے خلیج اور عرب ممالک جن کو بہت عرصے سے امریکہ نے اپنے تسلط میں رکھا ہوا تھا، ان کے حکمرانو ں کو اپنے تسلط میں لے رکھا تھا امریکہ کی دوستی میں شخصی حکومتیں متعین کی تھیں کہ جس میں مظلوم عوام کے ساتھ ظلم ہو رہا تھا مظلوم عوام ہمیشہ سے ظلم کے شکار تھے، کفر کا نظام تھا، عرب جو کہ ایک معزز قوم ہیں ان کے لو گ محترم لوگ ہیں، امت کے اِن عرب ممالک میں بھی کفری نظام رائج تھا الحمد للہ ابھی جو انقلابات آئیں ہیں، جو تحریکیں اُٹھی ہیں تو یہ ایک شرعی نظام کیلئے اُٹھائی گئی تحریکیں ہیں اور اس پر ہم یقین رکھتے ہیں اور ان لوگوں سے ہماری یہ اُمید ہے کہ اِن انقلابات کی وجہ سے آئندہ اسلامی نظام آئے گا اور خلیج سے کفری نظام کا خاتمہ ہو گا، تو ہم ان کی حمایت کرتے ہیں اور ان سے تعاون بھی کریں گے، اگر اُن کو ہمارا خون یعنی ہماری جان درکار ہو یا اُن کو ہمارے ساتھیوں کی ضرورت ہو ہر قسم کے تعاون کیلئے ہم تیار ہیں، اور یہ اس لئے کہ جمہوری اور سیکولر نظام ختم ہو جائے، کفری نظام ختم ہو جائے اس کی جگہ ایک شرعی اسلامی نظام قائم ہو جائے۔ تو میں عرب ممالک میں جو تحریکیں اُٹھی ہیں ان لوگوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ کبھی بھی سیکولر جمہوری نظام پر اعتماد نہ کریں ایسا نہ ہو کہ پھر سیکولر نظام آپ لو گوں پر مسلط کیا جائے اور کبھی بھی اس دھوکے میں نہ آئیں کہ سیکولر اور جمہوری نظام میں آپ لوگوں کیلئے کوئی خیر ہے۔ سیکولر اور جمہوری نظام میں کبھی بھی مسلمانوں کیلئے کوئی خیر نہیں ہے بلکہ اِس میں ہمیشہ مسلمانوں کے ساتھ ظلم ہوا ہے، کیونکہ یہ ایک کفری نظام ہے، یہ کفر ہے، کبھی بھی یہ نہیں ہوسکتا ہے کہ جمہوریت کے ذریعے آپ کو شرعی نظام حاصل ہوا ہو، تو اس کے دھوکے میں نہ آئیں۔ میں یہ نصیحت کرتا ہوں کہ اپنی جدوجہد جاری رکھیں انشاءاللہ جہاد کے ذریعے ہی شرعی نظام نافذ ہوگا اور تاریخ نے ثابت بھی کیا ہے۔
س: مولانا صاحب میرا سوال آپ سے ہے کہ گزشتہ دنوں عوامی نیشنل پارٹی کے رہنما اور سینئر صوبائی وزیر بشیر بلور کو تحریک طالبان پاکستان کی جانب سے ایک کامیاب کاروائی میں نشانہ بنایا گیا، اس کی کوئی خاص وجوہات ہوسکتی ہیں کہ بشیر بلور کو ہی خاص کیوں نشانہ بنایا گیا؟
مولانا ولی الرحمن:
یہ ایک بہت ہی واضح بات ہے کہ ہمارے خلاف جو جنگ شروع کی گئی ہے سوات سے لے کر وزیرستان تک، اس میں ان کا ایک ایسا براہِ راست حصہ تھا جوکہ کسی سے پوشیدہ نہیں ہے، ہمارے خلاف جنگ میں یہ براہِ راست شامل تھے، ہمارے سینکڑوں ہزاروں بھائی ان لوگوں نے شہید کئے اور خاص کر وہ لوگ جن کو جیلوں سے نکال کر شہید کیا گیا اور یہاں تک کہ ان کو ہیلی کاپٹروں سے گرا کر شہید کیا گیا، تو جب میں ان ظالم لوگوں کی تعزیت کرنے والے لوگوں کے یہ تاثرات سنتا ہوں کہ یہ بہت انسان دوست تھے تو مجھے یہ تعجب ہوتا ہے کہ ان لوگوں کو بشیر بلور کا وہ کردار یاد نہیں آرہا تھا جو روزانہ میڈیا پر آیا کرتے تھے، اور ان کا جو کردار تھا لوگوں کے قتلِ عام کے بارے میں کہ نہ انہوں نے بچوں کو معاف کیا، نہ عورتوں، بوڑھوں اور جوانوں کو معاف کیا۔ عدمِ تشدد کے فلسفے کے نام لیوا، خود تشدد کے علمبردار بن گئے۔ پورے صوبے خصوصاً پشتون علاقے کو ان کی حکومت نے ایک عذاب میں مبتلا کر دیا، یہ لوگ اپنےاس کردار ہی کی وجہ سے تو نشانہ بنے ہیں اور آئندہ بھی نشانہ بنتے رہیں گے۔ یہ جو میں باتیں کر رہا ہوں یہ تو آپ خود اِن کے ترجمان سے سنتے رہتے ہیں کہ ہم حکومت نہیں کر رہے بلکہ مجاہدین کے خلاف جہاد کر رہے ہیں۔ یہ اِن لوگوں کے اصطلاحات ہیں، تو اِن لوگوں سے میری یہ اپیل ہے کہ اگر واقعی آپ لوگ حکومت نہیں کر رہے تو پھر حکومت چھوڑ کر آجائو، آپ بھی ہمارے خلاف جہاد کرو اور ہم بھی آپ کے خلاف جہاد کریں باقی جس کو اللہ کامیابی دے۔ پشتون قوم پر جو حالات مسلط ہیں اُن پر رحم کریں، حکومت چھوڑ کر باہر آجائیں تاکہ جہاد کا جو نعرہ ہے، ہمارا اور آپ کا، وہ واضح ہوجائے اور میں یہ بات بھی واضح کر دینا چاہتا ہوں کہ کسی کے ساتھ ہمارا ٹکراؤ اُس کی شخصیت کی وجہ سے نہیں ہے بلکہ اُس کے نظریے اور عقیدے کے ساتھ ہمارا ٹکراؤ ہے، اس فاسد نظام کے ساتھ ہمارا ٹکراؤ ہے اور اِس عقیدے کے اور بھی جتنے علمبردار ہیں، وہ بھی انشاءاللہ ہمارے نشانے پر ہونگے۔
س: امیر محترم انتخابات قریب آرہے ہیں اِس حوالے سے آپ لوگوں یعنی تحریک طالبان پاکستان نے کوئی حکمتِ عملی تیار کی ہے، تحریک طالبان پاکستان کی انتخابات کے دوران حکمتِ عملی کیا ہوگی اور کیا ایسا کوئی امکان ہے کہ آپ لوگ کسی سیاسی پارٹی کو سپورٹ کریں یا اُن کی مدد کریں؟
امیر محترم حکیم اللہ محسود:
آپ کے سوال کے جواب میں، میں اتنا کہوں گا کہ جمہوری نظام پر ہم یقین نہیں رکھتے۔ ہم جمہوری نظام کو کفر کہتے ہیں اور کفر کہا ہے۔ البتہ جو برسرِاقتدار لوگوں میں وہ سیاسی لوگ جنہوں نے طالبان اور مجاہدین کے خلاف اعلانِ جنگ کیا، امریکیوں کا ساتھ دیا اور امریکیوں کی صف میں کھڑے ہیں، سوات سے لے کر جنوبی وزیرستان تک معصوم عوام کا خون بہایا، اور یہ سب کچھ امریکہ کی خوشنودی کے لئے کیا، جیسا کہ پیپلزپارٹی، عوامی نیشنل پارٹی، ایم کیو ایم، جنہوں نے امریکہ کا ساتھ دیا اور مسلمانوں کا خون ڈالروں کے بدلے بہا دیا، تو وہ لوگ، وہ پارٹیاں اِس کفری نظام کا حصہ ہیں وہ اس میں شامل ہیں، میں واضح کر دوں کہ ہماری جنگ افراد کے ساتھ نہیں ہے، ہماری جنگ عام عوام کے ساتھ نہیں ہے، ہماری جنگ کسی کی پارٹی کے ساتھ نہیں ہے بلکہ ہماری اس نظام کے خلاف جنگ ہے۔ موجودہ جو کفری نظام ہے اُس کے خلاف ہماری جنگ جاری رہے گی اور ہمیشہ جاری رہے گی ان شاءاللہ۔
لہذا یہ تصور بھی نہیں کیا جا سکتا کہ ہم کسی سیاسی پارٹی کی مدد کریں، لیکن ہاں یہ بات کہ جسطرح پیپلزپارٹی، عوامی نیشنل پارٹی، ایم کیو ایم کا کردار ہے اگر کوئی دوسری پارٹی بھی برسرِاقتدار آرکر اِن تینوں پارٹیوں کی طرح، یہی کردار ادا کرے گی، تو اُن کے خلاف بھی ہماری جنگ ہوگی۔ اگر کسی پارٹی کا جنگ میں ہمارے خلاف کوئی حصہ ہوگا تو اُن کے خلاف بھی ہماری جنگ جاری رہے گی، مگر ہماری جنگ افراد یا اشخاص کے خلاف نہیں ہے بلکہ ہماری جنگ اِس کفری نظام کے خلاف ہے۔
س: مولوی صاحب کہا جا تا ہے کہ تحریک طالبان کا کوئی خاص ایجنڈا نہیں ہے۔ آیا آپ لوگوں کا کو ئی خاص ایجنڈا ہے اور پاکستان میں آپ لوگ جو جنگ لڑرہے ہیں کیا اسکا کوئی مقصد ہے۔؟
مولانا ولی الرحمن:
اس سوال کا میں مختصر جواب دوں گا کہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں کہ:
{وَقَاتِلُوهُمْ حَتَّى لَا تَكُونَ فِتْنَةٌ وَيَكُونَ الدِّينُ كُلُّهُ لِلَّهِ} [الأنفال : 39]
"آپ لوگ ان کے خلاف لڑو یہاں تک کہ فتنہ باقی نہ رہے اور دین سارا کا سارا اللہ کا ہو جائے"
مفسرین لکھتے ہیں کہ سب سے بڑا فتنہ جو تمام فتنوں کی جڑ ہے وہ کفر ہے۔ کفر ختم نہیں ہو تا،
اس سے مراد یہ ہے کہ کفر کاغلبہ ختم ہو جائے اسکی قوت ختم ہو جائے اور اسکی شان ختم ہو جائے۔
یہ چونکہ دو جماعتیں ہیں حق اور باطل یہ ہمیشہ مو جود رہیں گی کبھی ایک غالب، کبھی دوسری غالب مگر بظاہر کبھی کبھی حق مغلوب بھی ہوجاتا ہے۔ اگر پیغمبرﷺ کی تاریخ کو دیکھا جائے تو اس میں بہت کمزور حالات بھی آئے ہیں، پیغمبرﷺ پر بہت سخت حالا ت آئے ہیں یہاں تک کہ آپﷺ نے ایک غار میں پناہ لی تھی۔ مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ حق مغلوب ہو گیا، نہیں بلکہ وقتی طور پر باطل غالب نظر آرہا تھا مگر آخرکار فتح حق کی ہی ہوتی ہے۔ ہماری بھی جو پاکستان کے خلاف جنگ ہے، امریکا کے خلاف جو جنگ ہے اور طاغوت کے خلاف جو جنگ ہے یہ صرف ایک نقطے پر مشتمل جنگ ہے کہ خلافت راشدہ کے طرز پر احیائے خلافت کیلئے ایک محنت کرنا ہے، اس محنت میں جتنی بھی قربانیاں دینی پڑیں، دیں گے۔ جتنی بھی تکالیف اٹھا نی پڑیں چاہےحالات ان کیلئے سازگار ہو ں یا نہ ہوں ہم ان قرآنی تعلیمات کی روشنی میں اس کو اپنا فریضہ سمجھتے ہیں تو ہم جان، مال اور گھر بار سب کی قربانی دیں گے اور عملی جدوجہد کریں گے۔ تو تحریک طالبان پاکستان اسی کا نام ہے کہ احیائے خلافت کیلئے عملی جدوجہد کرنا اور اپنی منزل کو پہنچنا جو کہ نفاذِ شریعت ہے جس میں ساری امت، پوری قوم اور تمام علاقوں کیلئے خیر ہے۔ غریب جو آج غربت میں حد درجے تک پہنچا ہے اور امیر آمریت میں حد درجے تک پہنچا ہوا ہے اور ابھی بھی پہنچ رہے ہیں یہ اس کفری نظامِ جمہوریت کی وجہ سے ہے۔ اور یہ اِس نظام کے منحوس اثرات ہیں۔ اگر اسلامی نظام نافذ ہوتا، شرعی نظام ہوتا، تو ان لوگوں کے سارے مسائل حل ہوتے کیونکہ ان تمام مسائل کا حل شرعی نظام میں ہے۔ آپ لوگ بھی اس ملک میں دیکھ رہے ہیں کہ ایک ملک میں سالانہ ساڑھے تین ہزار ارب کی کرپشن ہو رہی ہے اور جس ملک کا بجٹ ۲۲سو ارب ہو تو آپ لوگ خود سوچیں کہ اس ملک کا اللہ ہی حافظ ہے۔ اگر اسلامی نظام نافذ ہو جائے،علماء آگے آجائیں، شیوخ آگے آجائیں، یہ نظامِ شرعی گھر میں آجائے تو یقیناً ایک سال میں یہ دنیا کا ترقی یا فتہ ملک بن سکتا ہے۔
س: امیر صاحب محترم آپ اس بارے میں کیا کہنا چاہیں گے؟
امیر محترم حکیم اللہ محسود:
میں مولوی صاحب کی بات کی مکمل تائید کرتا ہوں ویکون الدین کلہ للہ۔
س: میرا اگلا سوال امیر محترم آپ سے ہے کہ ۲۰۱۴ میں امریکی فوج افغانستان سے نکل رہی ہے تو اسکے بعد آپ لوگوں کی حکمت عملی کیا ہوگی؟
امیر محترم حکیم اللہ محسود:
اس سوال کا جواب میں مختصر سا دوں گا کہ ۲۰۱۴ میں جب امریکی افواج افغانستان سے نکل جا ئیں، اس کے بعد ملا محمد عمر مجاہد حفظہ اللہ جو کہ ہمارے امیر ہے آج بھی ہمارے امیر ہے اور اُس کے بعد ہمارے امیر ہو نگے انشاءاللہ امیرالمومنین ملا محمد عمر حفظہ اللہ کی جو بھی پالیسی ہو گی ہم اس پر عمل کریں گے آج بھی ہم ان کی پالیسیوں کی تائید کرتے ہیں اور اس کے بعد بھی ملا محمد عمر حفظہ اللہ کی جو پالیسی ہو گی وہ ہماری پالیسی ہو گی اور ہم اس کے تائید کریں گے انشاءاللہ
س: امیر محترم افغانی طالبان اور تنظیم القاعدہ کے ساتھ آپ لوگوں کے تعلقات کس نوعیت کے ہیں؟
امیر محترم حکیم اللہ محسود:
افغانی طالبان کے بارے میں جو بات ہے، تو امیرالمو منین ہمارے بھی امیر ہے اور افغانی طالبان کے بھی امیر ہیں اور القاعدہ کے بھی امیر ہیں الحمد للہ۔ امیرالمومنین تمام مسلمانوں کے امیر ہیں۔ اور الحمدللہ ہم نے ان کوصدقِ دل سے امیر تسلیم کیا۔ اس میں تعلقات کا کوئی تصور نہیں کیا جاسکتا۔ اس لئے کہ ایک ہی امیر کے کمانڈ میں جہاد کر رہیں اسی طرح القاعدہ والے ہمارے بھائی ہیں اُن کے ساتھ تو ہم ہر قسم کی قربانی دینے کو تیار ہیں، وہ ہمارے مہاجرین بھائی ہیں اور ہم ان کے انصار ہیں اور انہی کے خاطر ہمارے گھر بار اور خاندان ختم ہوگئے مگر پھر بھی ہماری اِن سے محبت ہے، اور ہمارے سینے ان کے لئے کشادہ ہیں۔ آپ لوگوں نے دیکھا ہو گا اور پاکستانی عوام بھی اس بات پر گواہ ہے کہ جب امیر محترم شیخ اسامہ بن لادن رحمہ اللہ کو پاکستان میں شہید کیا گیا تو سب سے پہلے ہمارا جذبہ یہ تھا کہ ہم شیخ شہید رحمہ اللہ کا انتقام لیں اور ہم نے لیا بھی، اور آئندہ بھی لیتے رہیں گے یہ ہمارے بھائی ہیں۔ ہمارا خون بھی اگر ان لوگوں کو درکار ہو تو ہم اپنا خون دینے سے بھی گریز نہیں کریں گے اور اِن کی عزت کی حفاظت سے پیچھے نہیں ہٹیں گے۔
س: مولوی صاحب آپ اس بارے میں کیا کہنا چاہیں گے؟
مولانا ولی الرحمن:
میں بھی امیر محترم کی باتوں کی مکمل تائید وتصدیق کرتا ہوں مگر ان کے تائید کے ساتھ یہ عرض کرنا چاہوں گا کہ جس طرح امیر محترم نے اشارہ کیا کہ شیخ اسامہ بن لادن شہید رحمہ اللہ کی شہادت کا سب سے پہلے انتقام تحریک طالبان نے لیا تھا اور بہت کم دنوں کے اندر لیا تھا جیساکہ مہران بیس پر جو حملہ کیا تھا، یا شب قدر میں جو ہوا تھا اور ابھی تک جو جاری ہیں۔ چونکہ ہم ان کو ایک جان سمجھ رہے ہیں اور وہ ہماری جان ہیں تو لہٰذا ہم پھر بھی ان لوگوں کی خاطر اپنی جانیں دیں گے اور سروں کی قربانیاں دینگے۔
س: مولوی صاحب آپ سے سوال ہے کہ کشمیر میں ہندوستان کی جانب سے مسلسل ظلم کا ایک سلسلہ جاری ہے بعض لوگ اور مطبوعات یہ الزام لگارہے ہیں کہ تحریک طالبان کو ہندوستان سپورٹ کررہا ہے اس الزام میں کتنی صداقت ہیں اور کشمیر کے مظلوم عوام کے بارے میں کیا کہنا چاہیں گے؟
مولانا ولی الرحمن:
اس بارے میں، میں یہ عرض کرنا چاہوں گا کہ کشمیر کی عوام ہمارے مسلمان بھائی ہیں اور ان پر جو ظلم ہو رہا ہے اور جس بربریت کے وہ شکار ہیں، چاہے وہ ہندوستان کی طرف سے ظلم ہو یا پاکستان کی طرف سے ہے، کشمیر کے نام پر ان دونوں ممالک نے جو کھیل کھیلا ہے، کشمیر کے نام پر جو تجارت شروع کی ہے اس پر ہمیں بے حد افسوس ہے، اِن پر ہو نے والے مظالم سے یقیناً ہمارے دلوں کو تکلیف پہنچتی ہے، ہمارے دل دکھتے ہیں لیکن جہاں تک پاکستان کی غلیظ پالیسی کا تعلق ہے کہ جس میں کشمیر کی آزادی کی آڑ میں کشمیریوں کو جس طرح تباہ وبرباد کردیا گیا ہے، ان کی ہر ایک چیز ختم کو کردیا گیا ہے، ان کے ظلم کی بھی ہم اتنی ہی مذمت کرتے ہیں جتنی ہندوستان کے ظلم کی کرتے ہیں۔ ہم نے جو جدوجہد شروع کی ہے، جو جہاد ہم کررہے ہیں وہ ہم غزوہ ہند سمجھ کر کررہے ہیں تو غزوہ ہند میں چاہے پاکستان ہو یا کشمیر ہو یا پھر انڈیا ہو یہ سب ہمارے عملی میدان ہیں انشاءاللہ تحریک طالبان کے مجاہدین کشمیر آئیں گے اور کشمیر کے مسلمانوں کو شرعی نظام کے مطابق اُن کا حق دلوائیں گے جس طرح ہمارے آباواجداد نے کشمیر کی خاطر اپنی جانیں قربان کی تھیں اور کشمیر کو بزورِ بازو آزاد کیا تھا اسی طرح ان کی یہ اولاد بھی آباواجداد کے نقش قدم پر چل کر کشمیر کو آزاد کریں گے انشاءاللہ ان کو انکا حق دلوائیں گے۔
شرعی نظام کی خاطر عملی جد وجہد جیسا کہ ہم پاکستان میں کررہے ہیں اِسی طرح ہم کشمیر میں بھی کریں گے اور اس طرح شرعی نظام ہندوستان میں بھی نافذ کریں گے اور ان لو گوں کے مسائل کا واحد حل بھی یہی ہے۔ اور وہ رجسٹر جہاد، جو پاکستان نے شروع کیا تھا اس سے کشمیر کبھی بھی آزاد نہیں ہو سکتا اور اگر آزاد ہو بھی جائے تو برائے نام آزاد ہو گا، مگر نظام نہیں بدلے گا۔ اور ان لوگوں کی تقدیر نہیں بدلے گی، اگر بدلے گی تو وہ صرف اور صرف شرعی نظام سے بدلے گی اور ان لوگوں کے ساتھ ہمارا وعدہ رہے گا کہ ان کا غم ہم اپنا غم سمجھیں گے انشاءاللہ
س: امیر محترم میڈیا کا کچھ مو ضوعات پر آپ لو گوں کے نظریے سے اختلاف ہے اور آپ لوگوں کے خلاف ایک پروپیگنڈہ شروع کیا ہے، تو موجودہ جنگ میں آپ میڈیا کے کردار کو کس نظر سے دیکھ رہے ہیں؟
امیر محترم حکیم اللہ محسود:
میڈیا نے تو ہمیشہ سے جو کردار ادا کیا ہے، امریکہ نے جو جنگ طالبان اور مجاہدین کے خلاف شروع کی ہے اس میں میڈیا کا کردار درست نہیں ہے باوجود اسکے ہم نے انکے ساتھ بہت نرمی بھرتی ہے اور ابھی تک نرمی کررہے ہیں۔ میڈیا کو اصل معنوں میں آزاد ہونا چاہیئے میڈیا ابھی تک طالب ومجاہد کا موقف واضح نہیں کرسکی اور نہ ہی واضح کیا ہے جبکہ دشمن کا موقف واضح الفاظ میں بیان کرتے ہیں۔
س: مولوی صاحب آپ اس بارے میں کیا کہنا چاہیں گے؟
مولانا ولی الرحمن:
میں اس حوالے سے یہ عرض کرنا چاہوں گا کہ موجودہ دور میں میڈیا کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا، میڈیا کی جتنی اہمیت ہے وہ سب کو معلوم ہے، البتہ دور حاضر میں اس دجالی میڈیا نے مجاہدین کے خلاف تھوڑے پیسوں کے حصول کی خاطر جو محاذ کھول رکھا ہے، یقیناً یہ بہت تشویشناک اور قابل نفرت ہے، اسلئے میں یہ کہتا ہوں کہ ہر آرٹیکل اور مضمون لکھنے والے نے اپنا مضمون اور آرٹیکل کو پہلے سے بیچ ڈالا ہوتا ہے کہ اگر میں یہ آرٹیکل یا مضمون طالبان کے خلاف لکھوں گا تو مجھے اتنا پیسہ ملیں گا، ہر تجزیہ نگار، جو ٹی وی یا ریڈیو پر طالبان کے خلاف تجزیہ کرنے کیلئے آتا ہے اس نے پہلے ہی سے اپنا معاوضہ لیا ہوتا ہے۔ تو جس طرح امیر محترم نے کہا کہ میڈیا کا کردار درست نہیں ہے اور آنے والی تاریخ میں یہ ایک سیاہ باب لکھا جائے گا ہم یہ نہیں کہہ رہے ہیں کہ میڈیا وہی کچھ پیش کرے جو ہم کہتے ہیں اور حکومت کا مو قف پیش نہ کرے، نہیں بلکہ آزاد میڈیا کا یہ کردار ہوتا ہے کہ وہ دونوں اطراف کا پوری ایمانداری کے ساتھ موقف پیش کرے۔
پھر اس کے بعد اچھے اور برے کا فیصلہ عوام کا ہوتا ہے اور چاہے کہ فیصلے عوام پر چھوڑدیں میڈیا سے ہمارا جو شکوہ ہے وہ یہ ہے کہ وہ اس جنگ کے ایک ہی فریق، ایک ہی منصف اور مدعی کا موقف بیان کررہے ہیں۔ دشمن کی صف میں کھڑے ہیں۔
ہم یہ بھی نہیں کہتے ہیں کہ میڈیا الف سے ی تک سارے ہی برے ہیں، یا ساری برائی ہی برائی ہے یقیناً ہم اس بات کا اعتراف بھی کرتے ہیں کہ اچھے لوگ بھی موجود ہیں، جو ملک وقوم، اسلام ومذہب کے دائرے کے اندر ایک کردار ادا کررہے ہیں، غیر جانبدارانہ کردار ادا کررہے ہیں، ہم اس کا بھی اعتراف کرتے ہیں کہ ان کا بھی ایک کردار ہے، اس صف میں اچھے لوگ بھی ہیں مگر تعداد میں بہت ہی کم ہیں، تقریباً آٹے میں نمک کے برابر۔ ان لوگوں سے ہماری اپیل ہے ہماری عرض ہےکہ ہم جو کہہ رہے ہیں اس کے ساتھ سو فیصد آپ لوگ یا عوام متفق ہوجاؤ بلکہ ہمارے موقف کی وضاحت یا ہم جو کہنا چاہتے ہیں اسکو اسی طرح پیش کیا کریں جس طرح ہمارے دشمن کے موقف کو پیش کرتے ہیں، ایسا نہ کریں کہ سو فیصد اُنکا موقف پیش کریں اور صرف دو فیصد ہمارا موقف۔ حالانکہ یہ آپ لوگوں کے ایمان کی بھی تباہی ہے اور آپ لوگوں کے پیشے کو بھی زیب نہیں دیتا کہ آپ لوگ یک طرفہ کردار اداکریں، بلکہ دونوں جانب توازن برقرار رکھنا چاہیئے۔ ایسا نہیں ہے کہ ہم اُن پر اپنا نظریہ مسلط کررہے ہیں یا اپنا ایجنڈا اُن پر مسلط کررہے ہیں ہم بھی اختلاف رائے کے قائل ہیں کیوں کہ جس قوم، جماعت اور جس ملک میں اختلاف رائے کی آزادی نہ ہو تو اسکی اصلاح ہو بھی نہیں سکتی، اختلاف رائے کا حق ضرور ہوناچاہیئے، مگر جو صحافتی اقدار ہے، اس کی جو ذمہ داری ہے اسکو بھی دیکھا کریں صرف ڈالر، پیسہ اور پرکشش مراعات کے پیچھے نہ جائیں، اسلئے کہ یہ اپنی جان، اپنے ملک اور اپنے مذہب کا بھی سودا ہے اور ایسا کرنے پر ضرور اُس کو دشمن کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔
س: امیر محترم قبائلی علاقوں میں مسلسل فوجی آپریشنوں کے بعد، طالبان کو علاقے سے نکالے جانے کے دعوے کیے جارہے ہیں تو ان علاقوں میں آپ کی مو جودگی کتنی ہے اور کیا اِن علاقوں میں آپ لوگوں کا اثرورسوخ ہے، اگر ہے تو کتنا ہے؟
امیر محترم حکیم اللہ محسود:
الحمدللہ تحریک طالبان پاکستان، ایک عالمی جماعت ہے اس کا مقصد یہ نہیں کہ وہ ہر علاقے میں موجود ہو۔ اوّل تو ہماری جنگ گوریلا جنگ ہے اور گوریلا جنگ کا مقصد بھی یہی ہے کہ اسمیں ٹھکانے واضح نہیں ہوتے ہیں، یعنی کوئی خاص ٹھکانہ نہیں ہوتا ہے کسی کو معلوم نہیں ہوتا ہے کہ کس علاقے میں کتنا اثرورسوخ ہے، طالبان کہاں ہیں اور کہاں نہیں۔ جب قبائلی علاقوں میں جنگ نہیں تھی اُس وقت بھی یہاں طالبان موجود تھے ہر کسی کو پتہ تھا اور جب جنگ شروع ہوگئی تو کسی کو پتہ نہیں چل رہا ہے کہ طالبان موجود ہیں کہ نہیں ہیں۔ بہر حال قبائلی علاقوں میں ہم موجود ہیں جہاد شروع ہے اور میں یہ نہیں بتانا چاہتا کہ طالبان کہاں ہیں اور کہاں نہیں ہیں اور قبائلی علاقوں کے حالات مجھ سے زیادہ آپ لوگوں کو معلوم ہیں۔
س: مولوی صاحب جنوبی وزیرستان کے بارے میں یہ کہا جا رہا ہے کہ وہاں پر حکومت قابض ہے اور طالبان کا کوئی اثر ورسوخ نہیں ہے بحیثیت جنوبی وزیرستان کے مقامی کمانڈر ہونے کے آپ کیا فرمائیں گے کہ وہاں پر طالبان کا اثرورسوخ ہے یا نہیں ہے؟
مولانا ولی الرحمن:
جس طرح امیر محترم نے فرمایا کہ قبائل کے خلاف پاکستانی حکومت اور پاکستانی فوج نے جب یہ چڑھائی شروع کی تو لوگوں کے املاک تباہ کئے، ان گھر تباہ کئے، مدارس کو نہیں چھوڑا، مساجد کو نہیں چھوڑا گیا اور ظلم کی ایک تاریخ رقم کردی اور اسی نشے میں کہ پاکستانی فوج ایک ناقابل تسخیر فوج ہے، ایک ایٹمی طاقت ہے اس لئے بہت عرصے سے یہ اِس سوچ میں تھے کہ قبائلیوں کو اپنے زیر تسلط کرلیں گے اور اپنی رٹ بحال کر لیں گے، مگر تمام قبائلی علاقوں میں مجاہدین کی موجود گی، ان کی عملیات اور ان کے پروگرام یہ ثابت کر رہے ہیں کہ پاکستان کی حکومت نے آٹھ، دس سالہ جنگ میں کچھ حاصل نہیں کیا ہے، بلکہ اسی پوزیشن میں ہے جس طرح ۲۰۰۳ میں یا ۲۰۰۴ میں تھے، البتہ اپنا نقصان ضرور کروایا ہے اور فائدہ کچھ حاصل نہیں کیا ہے امریکہ کی خوشنودی کی وجہ سے قبائلیوں کو اپنا دشمن تو بنایا لیکن اپنا حامی نہیں بناسکے۔
تو اپنے علاقے کے مسئول ہونے کی حیثیت سے میں یہ کہنا چاہوں کہ جنوبی وزیرستان علاقہ محسود میں پانچ تحصیلیں ہیں میں مختصر عرض کرنا چاہوں گا (۱) تحصیل سرویکائی (۲) تحصیل تیارزا (۳) تحصیل لدھا (۴) تحصیل مکین (۵) تحصیل سراروغہ ان سب میں بھی صرف تحصیل سراروغہ میں جزوی طور پر حکومت نے کچھ لوگوں کو واپس لوٹایا ہے، جسمیں کچھ گاوں مثلاً سپینکئی رغزئی، کوٹکئی اور سراروغہ کے اطراف میں کچھ گاوں ہیں جس میں کچھ لوگوں کو واپس بھیجا ہے اور وہ بھی حکومت کے ہاتھوں یرغمال ہیں۔ اس کے علاوہ باقی چاروں تحصیلوں میں کوئی ایک بھی خاندان واپس نہیں آیا ہے اور حکومت کا لوگوں کو واپس نہ لا سکنا، اس بات کا ثبوت ہے کہ وہاں پر حکومتی نظام بحال نہیں ہے اور اُن کی مو جودگی نہیں ہے اور اُن کی رٹ نہیں ہے۔ اگر جنو بی وزیرستان اِن کے قبضے میں ہوتا تو ان چاروں تحصیلوں میں وہ متاثرین کو واپس لے آتے اور پانچویں تحصیل جس میں جزوی طور پر لوگ آئے ہیں، تو اس میں یہ جزوی طور پر نہ لاتے بلکہ پورے علاقے پر کنٹرول ہوتا۔ اور محسود قوم کو جوکہ شہری علاقوں میں رہ رہے ہیں، کو ابھی تک مشکلات کا سامنا کرنا پڑرہا ہے، جیساکہ ٹانک، ڈیرہ اسماعیل خان میں ہے۔ لہذا یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ جنوبی وزیرستان میں اِنکی رٹ نہیں ہے اور میں دعوے کے ساتھ کہتا ہوں کہ صحافی بھی یہاں آزادی کے ساتھ آسکتے ہیں، اس علاقے کا دورہ بھی ہم اُن کو کرواسکتے ہیں کہ ۷۰ فیصد علاقہ ہمارے کنٹرول میں ہے اور بمشکل ۲۵ سے ۳۰ فیصد علاقہ فوج کے پاس ہو گا۔
لہذا حکومت کے اس دعوے میں کوئی حقیقت نہیں ہے کہ ہم نے طالبان کو علاقے سے بے دخل کر دیا ہے الحمدللہ چار سال پہلے جو ہماری عسکری قوت یا افرادی قوت اور وسائل کی جو پوزیشن تھی، آج اس سے بھی زیادہ ہماری پو زیشن مستحکم ہے اور ہم نے جنو بی وزیرستان کے ساتھ ساتھ پاکستان کے مختلف علاقوں میں کاروائیوں سے بھی اپنی قوت ثابت کی ہے الحمد للہ۔
س: امیر محترم میڈیا پر یہ جو بات کی جا رہی ہے کہ تحریک طالبان پاکستان کا جو ترجمان ہے احسان اللہ احسان یہ غیر ملکی ایجنٹ اور غیر ملکی ادارے کیلئے کام کرتا ہے اور یہ تحریک طالبان پاکستان کا ترجمان نہیں ہے، اس بات میں کتنی حقیقت ہے؟
امیر محترم حکیم اللہ محسود:
میں اس سوال کے جواب میں زیادہ بحث نہیں کرنا چاہتا۔ احسان اللہ احسان ہمارے ساتھ یہاں موجود ہیں اور اس سوال کے با رے میں، میں کیا کہوں کہ احسان اللہ احسان ترجمان ہے کہ نہیں ہے۔
س: مولوی صاحب آپ کیا کہیں گے؟
مولانا ولی الرحمن:
مولوی صاحب! بالکل یہ ایک حقیقت ہے، اس کیلئے کوئی ثبوت پیش کرنے کی ضرورت نہیں ہے، کیونکہ ان کا یہاں وجود ہی اس کا ثبوت ہے۔
مرکزی ادارہ برائے نشرواشاعت
عمر میڈیا
تحریک طالبان پاکستان[/qoute]
ٹی پی پی والے یہ وضاحت کئی بار کرچکے ہیں۔
مگر اس کے باوجود دشمنان جہاد اور ان کے پیروکار اس پروپیگنڈے کو اس لیے کررہے ہیں تاکہ پشاور ایئرپورٹ پر مارے جانے والے بلیک واٹر اور امریکی فوجی اہلکاروں کی لاشوں میں سے ایک اہلکار کی لاش کو جان بوجھ کر منظر عام پر لایا گیا تاکہ ایک تیر سے دوشکار کرکے مجاہدین کو بدنام کیا جاسکیں۔ ناپاک آرمی اس امریکی مردار کوچھپانے کے لئے یہ ڈرامہ کررہے ہیں۔
تو متلاشی یہ ہے تمہارے مردہ گھوڑے کا حال جس پر تم نے سواری کرنے کوشش کی اور دھڑام سے گرگئے ۔اچھا ہوا کہ ا س پوسٹ کے ذریعے سے قارئین اصل صورتحال سے واقف ہوجائیں گے۔والحمدللہ