• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

القاعدہ کی کہانی ، القاعدہ کی زبانی (ایک سنسنی خیز دستاویز)

شمولیت
اگست 30، 2012
پیغامات
348
ری ایکشن اسکور
970
پوائنٹ
91
السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاۃ۔

محترم اراکین فورم ، یہاں میں جو معلومات شیئر کرنے جا رہا ہوں ، یہ استفادہ عام کے لئے ہیں ، اور میرا ان اقتباسات و تحریر سے متفق ہونا لازم نہیں۔
جزاک اللہ خیرا​


القاعدہ کے نظریات کا رد

(سید امام الشریف المعروف ڈاکٹر فادل کا القاعدہ راہنما ایمن الظواہری سے مکالمہ)​

بسم اللہ الرحمن الرحیم​

سید امام عبدالعزیز الشریف کو مصر کی ''الجہاد'' تنظیم کا بانی شمار کیا جاتا ہے اور ڈاکٹر فادل یا فضل کے نام سے پہچانا جاتا ہے۔ سید امام اپنی تنظیم الجہاد کے ارکان کے ہمراہ القاعدہ میں ضم ہو کر اس کا باقاعدہ حصہ بن چکا تھا۔ اس تنظیم کے بانیوں میں ایمن الظواہری، اسامہ بن لادن، خالد شیخ محمد کے ساتھ ڈاکٹر فادل کا نام بھی آتا ہے۔ اسے القاعدہ کی ہر اول کونسل کا پہلا رکن منتخب کیا گیا۔ بیس سال پیشتر اس نے جدید اسلام پر دو اہم کتابیں لکھیں، جن سے القاعدہ استفادہ کرتی رہی۔ اس میں نوجوانوں کی بھرتی کا طریقہ کار اور اقدام قتل کے جواز فراہم کیے گئے تھے۔
مگر 9/11 کے بعد اس کے القاعدہ سے اختلافات شروع ہو گئے اور اس نے القاعدہ کے نظریات کو رد کرنا شروع کر دیا۔اس کے لیے از سر نو ''جہاد'' کے احکام کی تشریح کی اور اپنے سابقہ نظریات کے برعکس ایک نئی کتاب لکھی جس میں اس نے کہا ''اگر اسلام کے دشمن ظلم کا ارتکاب کریں تو پھر بھی ہمیں شرعی طور پر فساد پھیلانے سے منع کیا گیا ہے۔'' اس کی کتاب کے جواب میں ایمن الظواھری نے ''التبریہ'' کے نام سے کتاب لکھی جس میں سید امام کو امریکی ایجنٹ اور سازشیوں کا دوست کہا گیا۔
پھر ایمن الظواہری کے جواب میں سید امام نے ''التعریة'' لکھی، جس کے چند حصے آپ اس مضمون میں ملاحظہ کریں گے۔
ماہنامہ تجزیات کے دسمبر 2009ء اور جنوری 2010ء کے شمارے میں معروف محقق لارنس رائیٹ کا القاعدہ کی اندرونی بغاوت کے بارے میں تفصیلی مضمون شائع ہو چکا ہے۔
قارئین اس مضمون کو پڑھنے سے پہلے اگر لارنس رائیٹ کے مضمون کا مطالعہ کریں تو انھیں القاعدہ کے نظریات اس کی ابتداء اور اس کے طریقہ کار کو سمجھنے میں مدد ملے گی۔
سید امام نے زیر نظر مضمون ''التعریة'' در جواب ''التبریة'' میں القاعدہ کے عسکریت پسندی کی مخالفت کی ہے اور دلائل کی روشنی میں ایمن الظواہری کا جواب پیش کیاہے۔(مدیر تجزیات)
مصر میں الجہاد کے بانیوں میں سے ایک، سید امام نے جہادی نظریات پر ایک بار پھر نظرثانی کی ہے جس کو ا حمد الخطیب نے مرتب کیا ہے۔ روزنامہ المصری الیوم نے ایمن الظواہری کی کتاب ''التبریہ'' کے جواب ''التعریہ'' کو جو سید امام کا تحریر کردہ ہے، چند اقساط میں شائع کیا ہے۔

سید امام کہتے ہیں کہ الظواہری بین الاقوامی دروغ گو (جھوٹا) ہے۔ وہ کہتا ہے کہ ''ترشید العمل الجہادی'' امریکا اور یہودیوں کی سرپرستی میں لکھی گئی لیکن اس کا کوئی ثبوت نہیں دیتا۔

ایمن الظواہری، القاعدہ تنظیم کی نمبر دو شخصیت ایک ''بین الاقوامی دروغ گو'' ہے۔ یہ وہ نکتہ ہے جس پر مصر میں الجہاد تنظیم کے بانی اورمفتی شیخ سید امام بن عبدالعزیز الشریف نے اپنی نئی تحریر ''التعریہ لکتاب التبریہ'' کے پہلے حصے میں زور دیا ہے۔ یہ تحریر انہوں نے جیسا کہ ان کا کہنا ہے ایمن الظواہری کی کتاب التبریہ میں اس کی دروغ گوئیوں کے بارے میں دیئے گئے حقائق کا انکشاف کرنے کے لیے لکھی ہے۔

یہ کتاب ایمن الظواہری نے سید امام کی پہلی دستاویز ''ترشید العمل الجہادی'' (جہادی کارروائیوں کی توجیہ) کے جواب میں لکھی تھی۔

التعریہ کی ابتدا میں جو کہ الجہاد تنظیم کی دوسری نظر ثانی قرار دی جاتی ہے اور جو چار ابواب پر مشتمل ہے اور جسے المصری الیوم نے خصوصی طور سے شائع کیا ہے، سید امام نے ''ترشید العمل الجہادی'' کا حوالہ دیا ہے جس میں انہوں نے القاعدہ کے جہادی عقیدے کے ماننے والوں پر تنقید کی ہے۔ انہوں نے اسے مجرمانہ اور معیوب عقیدہ قرار دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ القاعدہ تنظیم میں ایسے لوگ تھے جو باطل کا علم بلند کیے ہوئے تھے اور پہلی تحریر کو اس کی اشاعت سے کئی ماہ قبل ہی رد کرنے پر تلے ہوئے تھے۔ ان میں سے ایک یمن کے شہر صنعا میں تردید لکھتے ہوئے جولائی 2007ء میں مارا گیا۔ دوسرا وزیرستان میں 2008ء میں ہلاک ہوا۔ وہ بھی تردید رقم کر رہا تھا۔ چنانچہ تیسرے یعنی ایمن الظواہری نے یہ کام اپنے ذمے لیا اور مارچ 2008ء میں تردید لکھ ڈالی اور اسے 'التبریہ'' کا نام دیا۔

اس انکشافی تحریر التعریہ کو سید امام نے التبریہ میں کہی گئی باتوں کے لحاظ سے تین حصوں میں تقسیم کیا ہے۔

پہلے حصے کو ''جھوٹ اور بہتان'' کا عنوان دیا ہے اور الظواہری پر صاف طور سے دروغ گوئی کا الزام عائد کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ خود (ایمن الظواہری) اپنے آپ کو سوڈانی انٹیلی جنس کا ایجنٹ کہتا ہے۔
دوسرے حصے میں انہوں نے فقہی غلط بیانیوں کا جواب دیا ہے۔

تیسرا حصہ ان انکشافات پر مشتمل ہے جہاں ان کے مطابق الظواہری نے قارئین کی آنکھوں میں دھول جھونکی ہے۔

پہلا حصہ:
سید امام نے التعریہ کے پہلے باب کا آغاز اس آیت کریمہ سے کیا ہے ''جھوٹ بہتان وہی باندھتے ہیں جو اللہ کی آیتوں پر ایمان نہیں رکھتے اور وہی جھوٹے ہیں'' (سورہ النحل آیت 105)، اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے ''اور جو ایمان والے مردوں اور عورتوں کو بلا وجہ ستاتے ہیں انہوں نے بہتان اور کھلا گناہ اپنے سر لیا۔'' (سورہ الاحزاب، آیت 58)

الظواہری کی دروغ گوئیوں میں سے چند یہ ہیں:

الظواہری کہتا ہے کہ
''ترشید العمل الجہادی'' امریکا اور یہودیوں کے کہنے پر لکھی گئی تھی۔
امام نے استدلال کیا ہے کہ اس قسم کی باتوں کے لیے اس کے پاس کیا ثبوت ہے اور اس کی شہادت میں کون سے کاغذات اس کے پاس ہیں؟ کیا اس کی شہادت سنی سنائی ہے یا مشاہدے یا پھر معتبر گواہوں کی بیان کردہ احوال پر مبنی ہے؟ اگر ان میں سے کچھ بھی نہیں تو وہ جھوٹا اور افترا پرداز ہے۔ میں اسے مباہلہ کی دعوت دیتا ہوں۔

اللہ کا فرمان ہے ''پھر مباہلہ کریں تو جھوٹوں پر اللہ کی لعنت ڈالیں'' (سورہ آل عمران، آیت 61) کئی علما اپنی مخالفت کرنے والوں کو مباہلے کی دعوت دیتے آئے ہیں جیسے کہ ابن عباس اور محمد بن عبدالوہاب رضی اللہ تعالیٰ عنہما اور دیگر نے کیا ہے۔ یہ میرا مباہلہ ہے ''میرے اللہ تو جانتا ہے کہ یہ تحریر میں نے صرف تیرے دین کی سربلندی کے لیے لکھی ہے اور الظواہری کے الزامات غلط ہیں اور میرا ان سے کوئی سروکار نہیں، تو اے میرے اللہ توہم دونوں میں سے اس پر لعنت بھیج جس نے دروغ گوئی کی ہے۔'' میرا مطالبہ ہے کہ وہ اس مباہلے کا جواب تحریری طور پر اور آڈیو اور وڈیو ٹیپ کے ذریعے دے جو مجھے میسر نہیں ہیں۔

آج جو وہ یہ بات کہہ رہا ہے کہ یہ تحریر امریکہ اور یہود کی سرپرستی میں لکھی گئی ہے، اسی قسم کی بات اس نے پہلے اپنے موجودہ قائد بن لادن کے بارے میں کہی تھی۔ اس نے بن لادن پر اسلامی تحریک میں سعودی ایجنٹ ہونے کا الزام عائد کیا کیونکہ جیسا کہ میں نے اپنے پریس انٹرویو میں کہا تھا کہ وہ انہیں 1995ء میں مالی امداد نہیں دے رہا تھا۔ الظواہری دوسروں پر غداری کے الزامات عائد کرنے کے لیے ہر وقت تیار رہتا ہے کیونکہ وہ سمجھتا ہے کہ سب اس کی طرح ہیں۔

جہاں تک میرا تعلق ہے تو جب میں نے اس پر سوڈانی انٹیلی جنس کا ایجنٹ ہونے کا الزام عائد کیا تو میں ا للہ کی قسم کھاتا ہوں، جس کے سوائے کوئی اورمعبود نہیں کہ یہ بات میں نے خود اپنے کانوں سے الظواہری کے منہ سے سنی تھی، کسی تیسرے ذریعے سے نہیں۔ یہ 1993ء کے اواخر میں سوڈان کا واقعہ ہے جب اس نے مجھے بتایا تھا ''اس نے سوڈانیوں سے وعدہ کیا ہے کہ وہ مصر میں 10 کارروائیاںکرے گا اور اس مقصد کے لیے اس نے ان سے 100,000 ڈالر وصول کیے ہیں۔'' یہ اس کے الفاظ ہیں جو اس نے مجھ سے کہے۔ اگر وہ ان کی تردید کرتا ہے تو میں اسے دوسرے مباہلے کی دعوت ہوتا ہوں۔

مزید برآں ایمن الظواہری نے کہا کہ ''التعریہ'' امریکی سرپرستی میں لکھی گئی ہے۔ لیکن اس کی اسی کتاب 'التبریہ' میں اس نے اپنی ہی تردید کی ہے اور اعتراف کیا ہے کہ میں نے 14 سال پہلے انہیں مصر میں تصادم میں ملوث ہونے، اسلامی گروپوں پر تنقید کرنے سے منع اور دارالحرب میں ان افراد کو دھوکا نہ دینے کی تاکید کی تھی جو وہاں ویزا لے کر داخل ہوئے ہوں اوراس طرح امان کے حقدار ہوں۔ الظواہری نے اعتراف کیا کہ اس وقت بھی میرا یہ موقف تھا اور یہ الجامع میں تحریر تھا جسے الظواہری نے 'اللہ کی جانب سے فتح' قرار دیا تھا۔ انہی الفاظ کا میں نے 2007ء کی تحریر میں حوالہ دیا تھا۔

تو جب میں نے 1993ء میں الجامع میں یہ الفاظ لکھے تو کیا میں کسی سیکورٹی تنظیم کے دبائو میں تھا؟ کیا میں نے یہ الفاظ کسی کو مطمئن کرنے کے لیے لکھے تھے؟ 1993ء میں جب پاکستان نے ہمیں ملک بدر کیا تو میرے پاس یورپ میں سیاسی پناہ کا اختیار تھا لیکن میں نے اسے مسترد کر دیا۔ مجھے یہ پیش کش پہلے بھی ہوچکی تھی اور میں نے انکار کر دیا تھا۔ میں مسلمانوں کے ساتھ سیکورٹی خطرات کے باوجود پسماندہ ملکوں میں رہنے کو ترجیح دیتا تھا تو کیا یہی بات میں نے الجامع میں صلیبی یہودی مہم کے حوالے سے کی تھی؟

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سوال کیا ''کیا میں نے تمہیں بڑے گناہوں کے بارے میں خبردار نہیں کیا ہے'' لوگوں نے پوچھا ''کیا رسول اللہ؟'' آپ ۖ نے فرمایا ''اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک اور والدین کی نافرمانی'' آپ ۖ اس وقت دراز تھے اور یہ کہتے ہوئے اٹھ بیٹھے ''اور جھوٹی گواہی'' اور آپ یہ دہراتے رہے حتی کہ لوگوں نے کہا کہ وہ سمجھ گئے ہیں۔ یہ حدیث متفقہ ہے۔

الظواہری نے اپنی کتاب التبریہ میں دوسرا جھوٹ یہ بیان کیا ہے۔ صفحہ 199 پر لکھا ہے کہ
میں نے التعریہ میں مصر میں الجہاد گروپ کی چند کارروائیوں کا ذکر کیا ہے جس میں وزیر داخلہ حسن الافی اور وزیر اعظم عاطف صدقی کو ہلاک کرنے کی کوشش شامل ہے اور میں نے اس کارروائی میں شریک ایک شخص کا پورا نام لیا ہے (ضیاالدین) یہ غلط ہے۔ میں نے اس کا ذکر نہیں کیا اور میں نے اس تحریر سے پہلے کبھی اس بھائی کا نام بھی نہیں لیا۔ پہلی بات تو یہ کہ میں اس بھائی کو جانتا ہی نہیں اور میں نے اس کا نام ہی الظواہری کی کتاب التبریہ میں پڑھا ہے۔
الظواہری کی دروغ گوئیوں میں سے ایک صفحہ 5 اور 99 پر تحریر ہے کہ
میں نے یمنی حکام کے ساتھ ساز باز کی جنہوں نے مجھے گرفتار کیا اور امریکی ہدایات پرمصر کے حوالے کر دیا تھا اور یہ میں نے اس تحریر کی تیاری کی غرض سے کیا تھا۔
اس دروغ گوئی کی کوئی دلیل یا سند ہے؟ وہ گمان کی بنیاد پر نتائج اخذ کرتا اور لوگوں پر الزام عائد کرتا ہے جیسا کہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا کے ساتھ افک کے دوران ہوا۔
جہاں تک یمن کا تعلق ہے تو میرے وہاں کے حکام کے ساتھ کوئی روابط نہیں تھے اور یہ بات الظواہری کے ساتھی جانتے ہیں۔ میرا آجر (اسپانسر) یہ فیصلہ کرنے کا مجازتھا کہ میں کہا ںقیام کروں گا۔ جب نائن الیون کاواقعہ ہوا یمنی حکام نے مجھے گرفتار کر لیا۔ یہ انہوں نے اپنے مقاصد کے تحت اور مصر سے اپنے بدلے چکانے کے لیے کیا تھا۔ میں اکیلا نہیں تھا میرے ساتھ کئی مصری تھے جو اس کی شہادت دے سکتے ہیں۔

یمنی انٹیلی جنس ڈائریکٹر نے ہم سے کہا ''ہم نے تمہارے نام امریکا کو دے دئیے ہیں اور اسے تم سے کوئی سروکار نہیں ہے۔'' یمنی انٹیلی جنس ڈائریکٹر نے 2002ء کے شروع میں مجھ سے کہا ''اپنے مصری ساتھیوں کو لائو اور ایک جلاوطن مصری مخالف سیاسی پارٹی بنا لو۔ ہم تمہیں تمام ضروری تعاون فراہم کریں گے۔'' میں نے اسے بتا دیا کہ ''میں کوئی ملکی سربراہ نہیں بننا چاہتا اور تم مجھ سے سیاسی جماعت کی تشکیل کروانا چاہتے ہو۔'' لہٰذا انہوں نے یمن بلا جواز اور بلا سبب ڈھائی سال قید رکھا۔ یہاں تک کہ یمنی چیمبر آف ڈپٹیز کے سربراہ (شیخ عبداللہ بن حسین الاحمر) نے چیمبر کے ایک اجلاس میں 2003ء کے اواخر میں ہماری طرف سے بیان دیا اور ہمارے ساتھ جو سلوک کیا جا رہا تھا اس سے برأت ظاہر کی۔
یمنی حکام نے ہمیں ملک بدر کر کے فروری 2004ء میں مصر میں بھجوا دیا۔ ہمیں ایک گروپ کی شکل میں بھیجا گیا تھا اور وہ سب اس کے گواہ ہیں۔

الظواہری نے صفحات 5 اور 99 پر حیرت ظاہر کی ہے کہ میں یمن میں اپنے اصل نام کے ساتھ رہ رہا تھا۔ اسے اس کی وجہ معلوم تھی لیکن وہ حیلے بہانے کر رہا تھا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ مجھے اپنے پیشے میں اپنی تعلیمی اہلیت کے ساتھ ملازمت حاصل کرنے کے لیے اپنے اصل نام کے ساتھ ہی کام کرنا تھا۔ سیکورٹی کے خطرے کے باوجود میں نے ایسا ہی کیا۔ میں ان کی طرح عطیات پر زندگی گزارنے کی بجائے ملازمت کر رہا تھا۔ حدیث نبوی ۖ ہے کہ ''اس سے بہتر کوئی رزق نہیں جو اپنے ہاتھوں سے مشقت کر کے حاصل کیا گیا ہو۔'' (بخاری) حدیث میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ''اوپر والا ہاتھ نیچے والے ہاتھ سے بہتر ہے۔'' متفقہ حدیث۔

الظواہری نے یہ بھی جھوٹ بولا ہے کہ وہ (القاعدہ) ہی میں جو امریکی مہم کا مقابلہ کر رہے ہیں اور وہ مسلم امہ کے خلاف صیہونی صلیبی مہم کی عوامی مزاحمت کی علامت ہیں (اس کی کتاب کے صفحہ 193 اور 199 پر) اس کی کذب بیانیوں کی دلیل یہ ہے

1-دس جولائی 2001ء کو امریکا کے افغانستان میں داخلے کے بعد امریکا کے ساتھ محاذ آرائی سے فرار کرنے والے سب سے پہلے وہی لوگ تھے۔
2-انہوں نے امریکہ سے مصالحت اور مذاکرات کا مطالبہ کیا تھا۔ کیا اس کا مطلب یہ تھا کہ صلیبی مہم ختم ہو گئی تھی؟ وہ جنگ کی بجائے دوسرا راستہ کیوں اختیار کر رہے تھے جبکہ دوسروں کو اس سے منع کرتے تھے؟ بن لادن نے امریکا کو طویل مصالحت کی پیش کش کی تھی جبکہ الظواہری نے امریکا کو مذاکرات کی پیش کش کی تھی۔
3- اس بین الاقوامی دروغ گو الظواہری نے سوڈانی انٹیلی جنس کے ساتھ کام کیا جس نے مصری حکام سے اپنا سیاسی حساب کتاب برابر کرنے کے لیے اس کا اور اس کے گروپ (الجہاد گروپ) کا استعمال کیا۔ یہ 1993ء کی بات ہے۔ جوں ہی الظواہری کی علی عثمان محمد طلحہ (حسن ترابی کے نائب اورنائب صدر سوڈان) کے ساتھ ملاقات ہوئی، الظواہری نے دروغ گوئی سے کام لیتے ہوئے انہیں بتایا کہ ''مصر میں اس کے پاس 10,000 لڑاکا ہیں جن کی تربیت الصاعقہ فورس کے ہم پلہ ہے۔ یہ جھوٹ تھا کیونکہ ان کی تعداد چند سوتک محدود تھی۔ اس کے پیروکار اب بھی مصر کی جیلوں میں بند ہیں۔
4- ان میں ع۔ش شامل تھا جس نے کہا تھا کہ وہ اس وقت تک جیل سے باہر نہیں آئے گا جب تک الظواہری کے ٹینک آ کر اسے نہ چھڑائیں۔
6- ان میں ع۔م۔ د تھا جس نے کہا تھا کہ ''تم حکومت کے ساتھ کیوں صلح کرنا چاہتے ہو جب کہ الظواہری کے پاس 10,000 فوج ہے جس کو اس نے ابھی تک استعمال نہیں کیا ہے۔''
7- ان میں ا۔س۔م تھا جس کا کہنا تھا کہ وہ اس وقت حکومت کے ساتھ بات کرے گا جب الظواہری مصر میں دو یا تین کارروائیاں کر ڈالے گا تاکہ اس کی مذاکراتی پوزیشن مستحکم ہوسکے۔

دوسرا حصہ:
اپنے مضمون کے دوسرے باب میں سید امام نے القاعدہ کے خون بہانے اور امریکہ سے محاذ آرائی میں ذاتی مخالفت (بن لادن کی) کو پوری مسلم امہ کا قضیہ بنانے کی حکمت عملی کا ذکر کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ حکمت عملی گزشتہ صدی کی نویں دہائی میں شروع ہوئی اور عشرے کے اختتام تک انتہا کو پہنچ چکی تھی جب اسامہ بن لادن اور خالد شیخ محمد نے امریکیوں کی سب سے بڑی تعداد کی ہلاکت کا منصوبہ بنایا تھا۔

ان کا کہنا ہے کہ امریکہ کے خلاف ذاتی لڑائی کو پوری امہ کی جنگ بنا دینے میں پروپیگنڈے کو بنیاد بنایا گیا۔ ایسے فتوے حاصل کیے گئے جو امریکہ کے خلاف جنگ کی ضرورت کو اور اس کے لیے زیادہ سے زیادہ تعداد میں لوگوں کو متحرک کرنے پر زور دیتے ہیں۔

سید امام کہتے ہیں ''میں نے اپنی تصنیف الجامع 1994ء کے وسط میں مکمل کی تھی اور اس کی ایک کاپی الظواہری کو دی تاکہ وہ اس سے کچھ حاصل کریں، اسے شائع کریں اور اس سے انہیں کچھ آمدنی ہو۔ الظواہری نے اسے اسلامی تحریک پر تنقید سمجھا۔ اس نے میرے اعتماد کو دھوکا دیا اور میری اجازت کے بغیر اس میں سے بہت کچھ حذف کر دیا۔ درحقیقت اس نے کتاب کا نام تبدیل کر کے اسے شائع کروا دیا۔ پھر ان لوگوں نے اس میں سے علمی مواد سرقہ کر کے ایک کتاب احکام الایمان اور دوسری شرعی سیاست پر شائع کر ڈالی اوراصل مصنف کا حوالہ دیئے بغیر اس پراپنے نام بطور مصنف لکھ ڈالے۔ یہ کتابیں وہ اپنے پیروکاروں کی بھرتی کے لیے استعمال کرتے رہے۔ الظواہری نے یہ نہیں سوچا تھا کہ جس تنقید کو اس نے 1994ء میں خارج کر دیا تھا وہ دوبارہ سامنے آ سکتی ہے۔ جب وہ 2007ء میں دوبارہ میرے مضمون کا حصہ بنی تو الظواہری نے اس کی اشاعت سے پہلے ہی اس پر حملے شروع کر دئیے۔ اس نے اس کے مصنف کو بدنام کرنے اور اس کی ساکھ کو مشتبہ بنانے کے لیے جھوٹ اور فریب کا سہارا لیا۔ ایسی خامیاں ظاہر کیں جو اس مصنف میں تھیں ہی نہیں اور نظریے کی غلط توجیہہ کر کے قارئین کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کی جو کوشش کی وہ آئندہ ابواب میں آپ کے سامنے بیان کی جائے گی۔ یہ ذکر میں نے اس لیے کیا ہے کہ آج جو کچھ ہو رہا ہے قارئین اس کے پس منظر کو سمجھ سکیں۔ چوتھے باب میں انشاء اللہ آپ الظواہری کی سرگرمیوں کی اصلیت کو جان سکیں گے۔ تمام توفیق اللہ تعالیٰ کی جانب سے ہے۔''

اول: قتل عام کے لیے ا لقاعدہ کا نظریہ کیسے وجود میں آیا؟
یہ نظریہ 1990ء کے عشرے میں وجود میں آیا اور اس کے لیے دونوں (بن لادن اور خالد شیخ محمد) کے اپنے اپنے مقاصد تھے لیکن یہاں ان مقاصد کے بارے میں بات کرنا برمحل نہیں ہو گا۔ یہ نظریہ 1990ء کے اواخر میں اس وقت عام ہوا جب اسامہ بن لادن اور خالد شیخ محمد کے امریکیوں کو بڑی تعداد میں ہلاک کرنے کے ارادوں میں ہم آہنگی پیدا ہوئی۔ انہوں نے اپنے ارادوں کو 11 ستمبر 2001ء کو عملی شکل دی اور شہریوں اور فوج کو بلاامتیاز بہت بڑی تعداد میں ہلاکت کا نشانہ بنا دیا۔

چونکہ اس نظریے میں شرعی خلاف ورزی ہو رہی تھی لہٰذا اس کا دینی جواز پیدا کرنے کی کوشش کی گئی اسے مسلمانوں میں جہاد فی سبیل اللہ قرار دے کر پھیلایا جائے گا۔ بن لادن نے 9/11 سے پہلے اور بعد میں اس کے لیے اپنا کردار ادا کیا اور اس کو جائز ثابت کرنے کے کام کو ایمن الظواہری کے سپرد کر دیا جس نے اپنی کتاب ''التبریہ'' کے ذریعے یہ کام انجام دیا۔

دوم: قتل عام کے بارے میں القاعدہ نظریے کے ارکان
امریکہ میں اور اس سے باہر امریکیوں کی بڑی تعداد میں ہلاک کرنے کے لیے القاعدہ کو بعض شرعی احکامات کی خلاف ورزی کرنا تھی۔ چنانچہ اس نے فاسد نظریات اور اصولوں کی تشکیل کی جن کو ا رکان کی حیثیت دی گئی اور اس کے ساتھ ساتھ ''فقہ التبریہ'' کے ذریعے جواز پیدا کیا گیا۔ یہاں ان میں سے چند اہم ارکان مختصراً بیان کیے جاتے ہیں:الف) امریکہ کے خلاف جنگ کو ایک ذاتی مخاصمت سے تبدیل کر کے مسلم امہ کا قضیہ بنا دیا گیا۔ بن لادن نے اس مقصد کے حصول کے لیے دو پہلوئوں کا سہارا لیا۔

ایک میڈیا اور پروپیگنڈا کا پہلو جس کے ذریعے فاسد پیغام پھیلایا گیا کہ مسلمانوں کی تمام تکالیف کا سبب امریکہ ہے۔ یہودیوں کو بھی اس کا حصہ بنایا جانا تھا کیونکہ عوام میں فلسطین کے مسئلے کو زیادہ توجہ حاصل ہے۔ اگرچہ بن لادن نے فلسطین کے لیے کچھ بھی نہیں کیا جس کی وجوہ میں انشاء اللہ تیسرے باب میں بیان کروں گا اور انشاء اللہ اس کی تردید بھی کی جائے گی۔

دوسرا شرعی اور فقہی پہلو، بن لادن نے زیادہ سے زیادہ تعداد میں مشائخ، خصوصاً پاکستان اور افغانستان کے مفتیوں سے 'امریکہ سے جنگ فرض ہے' پر فتوے حاصل کرنے کی کوشش کی تاکہ اسے ذاتی لڑائی کی بجائے امہ کی جنگ قرار دیا جا سکے۔ الظواہری نے اپنی کتاب التبریہ کے صفحات 39/40 پر اس کا حوالہ دیا ہے۔ چنانچہ انہوں نے ''خانہ کعبہ اور مسجد اقصیٰ کی آزادی کے لیے مسلم امہ کو اکسانے کے لیے اور امریکیوں کو حرمین، فلسطین اور دوسرے مسلمان ملکوں سے نکالنے کے لیے جہاد کی ضرورت پر فتاوٰی اور دستخط حاصل کیے۔

بن لادن نے یہ کام 9/11 سے پہلے کیا لہٰذا جب اس نے 9/11 کے حملوں کا ارادہ کیا تو اس نے ان مشائخ سے رجوع نہیں کیا جیسے کہ وہ پہلے ہی ان حملوں کے لیے فتویٰ جاری کر چکے ہوں۔ دراصل اس نے اپنے امیر ملا محمد عمر سے بھی مشورہ نہیں کیا اور نہ ہی اپنی شریعہ کمیٹی سے رجوع کیا۔ اس نے ان سب کی آنکھوں میں دھول جھونکی اور ان کے پیٹھ پیچھے یہ کارروائی کی۔

ب) امریکہ پر حملے کے لیے لوگوں کی زیادہ سے زیادہ حمایت حاصل کرنا
اور اس مقصد کے لیے الظواہری نے اپنی کتاب التبریہ میں ذیل کے تصورات کا انکار کیا ہے:

ایک مسلمان کے پاس اپنے دشمنوں سے مقابلے کے لیے اپنی استطاعت اور حالات کے مطابق کئی راستے ہیں۔

جہاد کے لیے شرائط اور موانع اور اس میں کامیابی کے لوازمات۔ الظواہری ہرایک کو ہر جگہ لڑانا چاہتا ہے اور کوئی موقع نہیں دیتا نہ حالات اور شرائط کی پرواہ کرتا ہے۔ وہ اس کے لیے دروغ گوئی کرتا ہے کیونکہ وہ اور اس کے قائدین بن لادن سب سے پہلے دشمن کے مقابلے سے بھاگے تھے۔ اس کے بارے میں ہم انشاء اللہ آئندہ بات کریں گے۔


ج) امیر اور اس ملک کے حکمراں کی اجازت سے چشم پوشی جہاں پناہ دی گئی ہو۔
انہوں نے ملا عمر کی اطاعت کا حلف اٹھایا تھا جو افغانستان کے امیر المومنین تھے جہاں انہیں پناہ دی گئی تھی۔ شریعہ کی رو سے ان کی اجازت، خاص طور پر جہاد کے لیے اجازت حاصل کرنا لازمی تھا۔ القاعدہ کو علم تھا کہ مُلّا محمد عمر امریکہ سے تصادم نہیں چاہتے تھے اور یہ کہ انہوں نے اس معاملے میں سختی سے وضاحت کر دی تھی۔ لہٰذا بن لادن نے اس سے بچنے کے لیے 'امارت کے مقام' کی اختراع کی یعنی کہ وہ ملا عمر کی اطاعت کے صرف افغانستان کے اندر پابند ہیں اس سے باہر نہیں۔ اس بات پر بن لادن اور اس کی شریعہ کمیٹی کے درمیان 9/11 سے پہلے شدید اختلاف رائے ہوا۔ اس نے کمیٹی کو جون 2001ء سے بتا رکھا تھا کہ امریکہ کے خلاف بہت بڑی کارروائی کی جائے گی لیکن مقام اور دیگر تفصیلات خفیہ رکھی گئی تھیں۔ اس کی شریعہ کمیٹی نے اس بنیاد پر اس کی مخالفت کی کہ ملا محمد عمر کی اجازت ضروری ہے۔ بن لادن نے اسے مسترد کر دیا اور امارت کا مقام کی اختراع کر ڈالی۔ اس پر انشاء اللہ ہم آئندہ روشنی ڈالیں گے۔


د) امریکیوں کے قتل عام کے لیے القاعدہ نے تمام شرعی موانع کو مٹانا چاہا


اس مقصد کے لیے انہوں نے درج ذیل نکات مرتب کیے جن میں سے اکثر الظواہری نے اپنی کتاب التبریہ کے صفحات 4,74,79,98 اور 110 سے 154 تک بطور جواز نقل کیے ہیں۔
وہ یہ ہیں:
o دور دراز دشمن (امریکہ) سے جنگ قریب موجود دشمن سے زیادہ اہم ہے۔
o کفار کے ملکوں میں ارتداد اور قومیت کی بنیاد پر مسلمانوں کا قتل واجب ہے کیونکہ قومیت اس کافر ملک کے قوانین پر رضا مندی کی دلیل ہے۔
o کفار کو ٹیکس ادا کرنے والوں کے قتل کی اجازت ہے کیونکہ وہ جنگ میں دشمن کا ساتھ دیں گے۔
o کفار کے زیر اثر افراد کا قتل یعنی کفار کے ملکوں میں عام شہریوں کے قتل کا جواز ہے۔
o کفار کے ساتھ اختلاط رکھنے والے مسلمانوں کا قتل جائز ہے۔
o برابر کے بدلے کی بنیاد پر بلا امتیاز قتل عام کا جواز۔
o امریکہ سے جنگ اپنے دفاع میں ہے اس لیے والد وغیرہ کی اجازت کے بغیر اس مقصد کے لیے امریکہ کا سفر جائز ہے۔
o کفار کے ملک میں داخلے کے لیے ویزا کا مطلب مسلمانوں کے تحفظ کی ضمانت نہیں ہے لہٰذا وہ وہاں قتال کا جواز رکھتے ہیں۔
o اگر یہ ویزا تحفظ کی ضمانت بھی دیتا ہو تب بھی وہ اس کی خلاف ورزی کر سکتا ہے۔ اس کی وجہ بعد میں بتائی جائے گی۔
o مسلمانوں کے ملک میں داخلے کے لیے ویزا کے ساتھ تحفظ کی ضمانت نہیں ہوتی لہٰذا ان کا قتل یا اغوا جائز ہے۔


ھ) القاعدہ کی طرف سے اپنے ناقدین کی تکذیب۔

القاعدہ نے اپنے مجرمانہ نظریوں پر تنقید کرنے والوں کے خلاف کئی دفاعی نکات اختراع کیے۔ ان میں:
o سوائے قائدین جہاد کے ان امور پر کوئی اور ا ظہار خیال کا مجاز نہیں ہو گااور قائدین پہاڑوں اور غاروںمیں جا چھپے ہیں۔ یہ بھی ان کی اختراع تھی۔
o جو ان پر تنقید کرتے ہیں وہ دراصل جہاد کے مخالف ہیں اس طرح وہ مجاہدین پر حملوں اور امہ کو ایذا پہنچانے میں معاونت کرتے ہیں۔
o ان پر تنقید کرنے والے صلیبی صیہونیوں کے مقاصد کی تکمیل کر رہے ہیں، اس میں جہاد کی توجیہہ کے بارے میں لکھا گیا مضمون شامل ہے۔ اگرچہ الظواہری نے اعتراف کیا ہے کہ میں نے مضمون میں جس بات کی مذمت کی تھی۔ میں پہلے بھی 1993ء میں اپنی کتاب الجامع میں اور اس کی اشاعت سے پہلے بھی کر چکا تھا۔


تیسراحصہ
سوئم: قتل عام کے لیے القاعدہ کے نظریے کی اسا س پر تنقید:
مضمون میں ان دلیلوں کا جواب دیا گیا ہے جن کی بنیاد پر القاعدہ نے امریکیوں کے قتل اور وہ بھی قتل عام سے شروعات کی ضرورت پر زور دیا ہے۔ میں اس کا مختصراً اور بالترتیب حوالہ دوںگا لیکن اس ترتیب سے نہیں جس سے وہ اوپر نکتہ دوم میں بیان کیے گئے ہیں۔ مضمون، پریس انٹرویو اور یہ یادداشت مل کر ایک بن جاتے ہیں۔

آیئے ان کی اس دلیل کی طرف کہ 'امریکہ اور یہود مسلمانوں کے تمام مصائب کے ذمے دار ہیں'

بن لادن اسے ان کے خلاف مسلمانوں کو اپنے ساتھ اکٹھا کرنے کے لیے استعمال کرتا ہے تاکہ اپنی ذاتی مخالفت کو 'جسے وہ ہر بات پر ترجیح دیتا ہے' امہ کا مسئلہ بنا سکے۔ یہ دلیل واضح طور پر غلط ہے ا ور قرآن کے خلاف ہے۔

اے مسلمان ساتھیو! بن لادن تمہاری عقل کو غلط راہ پر ڈال رہا ہے کیونکہ مسلمانوں کے مصائب کا سبب خود مسلمان ہیں۔ یہ خود اللہ کا کلام ہے اور جو اس سے انکار کرے وہ کفر کا مرتکب ہو گا۔ جب مسلمانوں کو احد میں شکست ہوئی تو اللہ تعالیٰ نے ان سے یہ نہیں فرمایا کہ یہ کفار قریش کی وجہ سے ہوا ہے بلکہ فرمایا کہ یہ ان کے اپنے گناہوں کا نتیجہ ہے۔ یہ ان لوگوں کا معاملہ تھا جو امت محمد ۖ کی بہترین قوم تھے۔ آپ ۖ نے فرمایا 'میرے صحابہ میری امت کے بہترین افراد ہیں' یہ ایک متفقہ حدیث ہے۔ توان کے بعد آنے والوں کے بارے میں کیا کہا جا سکتا ہے؟ فرمان الٰہی ہے کہ ''بے شک وہ جو تم میں سے پھر گئے جس دن دونوں فوجیں ملی تھیں، انہیں شیطان ہی نے لغزش دی'' (سورہ آل عمران، آیت 155)۔ اس غزوہ میں ان کی شکست پر اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ ''کیا جب تمہیں کوئی مصیبت پہنچے کہ اس سے دونی تم پہنچا چکے ہو تو کہنے لگو کہ یہ کہاں سے آئی۔ تم فرما دو کہ یہ تمہاری طرف سے آئی''(سورہ آل عمران، آیت 165)۔ اور اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ''اور جو مصیبت تم پر آتی ہے سو تمہارے اپنے کرتوتوں سے'' (سورہ الشورٰی، آیت 30)۔ مسلمانوں کے مصائب ان کے داخلی سبب سے ہیں نہ کہ امریکہ کی وجہ سے۔ یہ اللہ کا کلام ہے اور جو اس سے انکار کرے وہ کفر کر رہا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے ''اور ہماری آیتوں سے وہی انکار کرتے ہیں جو ہیں ہی کافر'' (سورہ العنکبوت، آیت 47)۔

سو یہ کتاب اللہ جو واضح طور سے کہتی ہے کہ مسلمانوں کے مصائب ان کے اپنے کرتوتوں کی وجہ سے ہیں، کفار کی وجہ سے نہیں۔ اس کی تصدیق حدیث مبارکہ سے بھی ہوتی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ ایک کافر دشمن اس وقت ہی مسلمانوں پر غالب آ سکتا ہے جب مسلمان خود داخلی طور پر بگاڑ کا شکار ہو جائیں۔ جیسا کہ امام احمد سے روایت ہے جس کی سند شداد بن اوس سے ہے کہ رسول اللہ ۖ نے فرمایا ''ارشاد باری تعالیٰ ہے 'اے محمد! اگر میں کوئی فیصلہ کر لوں تو اسے رد نہیں کیا جا سکتا۔ میں نے تمہاری امت کو یہ عطیہ دیا ہے کہ میں اسے کسی عام سبب سے ہلاک نہیں کروں گا اور اس کے خلاف کسی ایسے دشمن کو ہلاکت کا موقع دوں گا جو خود امہ میں سے نہ ہو۔ یہاں تک کہ ان میں سے بعض خود بعض کو ہلاک کریں گے، بعض خود بعض کو قتل کریں گے اور بعض دوسروں کو ضرر پہنچائیں گے۔''(حدیث)

ابن کثیر سے مروی ہے اور یہ قوی حدیث ہے کہ جس کی سند ابن مردویہ نے ثوبان سے دی ہے اور یہ کلام الٰہی کی تفسیر ہے۔ ''کہہ دو کہ وہ اس پر بھی قدرت رکھتا ہے کہ تم پر اوپر کی طرف سے یا تمہارے پائوں کے نیچے سے عذاب بھیجے یا تمہیں فرقہ فرقہ کر دے اور ایک کودوسرے سے بھڑا کر آپس کی لڑائی کا مزہ چکھا دے۔'' (سورہ الانعام، آیت 65)۔ اور تفسیر کا یہ جملہ 'دشمن جو ان میں سے نہیں' کا اشارہ مشرکین کی طرف ہے جیسا کہ تفسیر ابن کثیر کے باب 2 کے صفحات 142-141 پر الطبرانی نے علی سے روایت کی ہے۔

اس لیے جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ مسلمانوں پر مصائب امریکہ یا یہود کی وجہ سے آئے ہیں وہ قرآن اور سنت کی تردید کرتے ہیں۔ لیکن بن لادن اور الظواہری اور ان کے ساتھی اسے نہیں سمجھتے اور چیزوں کے ظاہر کو دیکھتے ہیں ان کی حقیقت پر غورنہیں کرتے اور انہیں شرع کا علم نہیں ہے۔


جیسا کہ عمر ابن الخطاب نے اپنے لشکر کو ہدایات دیتے ہوئے فرمایا کہ درحقیقت مسلمانوں کے گناہوں پر سزا دینے کے لیے اللہ تعالیٰ کفار کو اکساتا ہے۔ جب اللہ کی راہ میں لڑنے نکلو تو کوئی ایسا کام نہ کرنا جس سے اللہ تعالیٰ ناراض ہو، اور یہ نہ کہنا کہ ہمارا دشمن ہم سے بدتر ہے تو وہ تم پر غالب نہیں کیا جائے گا۔ کیونکہ بعض لوگوں پر بدتر لوگ مسلط کر دیئے گئے جیسے کہ مجوسی کفار کو اس وقت بنی اسرائیلیوں پر مسلط کر دیا گیا جب انہوں نے اللہ تعالیٰ کی ناراضی مول لے لی۔ وہ شہریوں کے اندر پھیل گئے اور وہ وعدہ پورا ہو کے رہا''۔ (سورہ الاسرا، آیت 5)

جب نصرانی ہسپانویوں نے اندلس کے علاقے فتح کرنا شروع کیے تو مسلمانوں کے آپس میں برسرپیکار منقسم امرا نے امیرِ مراکش یوسف بن تاشفین سے مدد طلب کی۔ وہ اپنے لشکر کے ساتھ ان کی مدد کو آئے اور ہسپانویوں کو شکست دی۔ جب وہ مراکش واپس جانے لگے تو امرا نے ان سے کچھ فوج اندلس میں چھوڑ جانے کے لیے کہا۔ اس پر ابن تاشفین نے جواب دیا ''اپنی نیت میں اخلاص رکھو اللہ تمہارے دشمنوں کے لیے کافی ہے۔''

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ مسلمانوں کے لیے مصائب ان کی اپنی وجہ سے ہیں۔ بن لادن اور الظواہری کا کہنا ہے کہ یہ مصائب امریکہ کی وجہ سے ہیں۔ اب دیکھتے ہیں کہ مسلمان کس کا اتباع کرتے ہیں؟ اللہ کا یا بن لادن اور الظواہری کا؟ ارشاد باری ہے ''لوگو جو کتاب تم پر تمہارے پروردگار کے ہاں سے نازل ہوئی ہے اس کی پیروی کرو اور اس کے سوا اور رفیقوں کی پیروی نہ کرو اور تم کم ہی نصیحت قبول کرتے ہو۔'' (سورہ الاعراف، آیت 3) الظواہری کی کتاب التبریہ کا بیشتر حصہ مسلمانوں کے ذہن میں اس فاسد خیال کے بیج بونے پر صرف ہوا ہے تاکہ ان کے (القاعدہ کے) کئے کا جواز دیا جا سکے اور ان کے ناقدین پر ضرب لگائی جا سکے۔

فلسطین کو کس نے گنوایا؟ یہ عرب تھے جنہوں نے عثمانیوں سے جنگ کی اور جنگ عظیم اول میں انہیں فلسطین سے نکال دیا اور پھر اسے 1916ء میں برطانیہ کے حوالے کر دیا۔ برطانیہ نے اسے 1917ء میں بالفور معاہدے کے تحت اسرائیلیوں کو سونپ دیا۔


آج فلسطینیوں کو کون قتل کر رہا ہے، خاص طور پر ان کے رہنمائوں کو؟ یہ فلسطینی خود ہیں جو اسرائیل کے ایجنٹ بن کر ان کو دوسرے فلسطینیوں کی خبریں پہنچاتے ہیں تاکہ اسرائیل جسے چاہے ہلاک کر سکے۔


مغربی کنارے میں آج یہودی مقبوضات کی تعمیر کون کر رہا ہے تاکہ اسرائیل کا قبضہ مستحکم کیا جا سکے؟ وہ فلسطینی مزدور ہیں۔

افغانستان میں 2001ء میں امریکہ کے داخلے کو کس نے ممکن بنایا؟ بن لادن اور الظوہری نے۔ کیوبا میں مسلمانوں کو قید کرنے کے لیے امریکی گوانتانا موبے کیمپ کس نے بنوایا؟ الظواہری کی حماقت نے۔


قدیم بغداد میں مغلوں کا داخلہ 1258ء میں کس نے ممکن بنایا؟ وہ وزیر ابن القمی تھا۔

آج کے بغداد میں 2002ء میں امریکہ کیسے داخل ہو پایا؟ یہ سینئر عراقی فوجی افسروں کی غداری تھی۔

لبنان میں لبنانیوں کا 15 سال (1975ء سے 1990ئ) تک خون کس نے بہایا؟ خود لبنانیوں نے۔

کس نے 1990ء میں کویت پر قبضہ کر کے اس کے عوام کو ہلاک کیا؟ وہ عراقی تھے امریکہ یا اسرائیل نہیں تھا۔

آج دارفور میں لاکھوں سوڈانیوں کو کون موت کے گھاٹ اتار رہا ہے؟ خود سوڈانی ایک دوسرے کا گلا کاٹ رہے ہیں۔

یمنی بھی یہی کرر ہے ہیں۔

عراق کے کویت پر حملے کے بعد امریکیوں کی سعودی عرب میں موجودگی کے جواز سے قطع نظر، 1990ء کے بعد سے اب تک ا مریکیوں کے ہاتھوں وہاں ایک بھی مسلمان کی ہلاکت نہیں ہوئی۔ جبکہ القاعدہ نے سعودی عرب میں مسلمانوں کو قتل کیا ہے۔

کینیا، افغانستان، عراق، سعودی عرب، الجزائر، پاکستان یا اور کہیں چند سال میں جتنے افراد القاعدہ کے ہاتھوں ہلاک یا بے گھر ہوئے ہیں ان کی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے جو اسرائیل کے ہاتھوں 60 سال میں فلسطین یا اس کے اردگرد کے علاقوں میں ہلاک یا بے گھر ہوئے ہیں۔ لہٰذا یہ بیان کہ القاعدہ مسلمانوں کا دفاع کر رہی ہے ایک 'خرافات' ہے۔ دراصل وہ مسلمانوں کو ہلاکت میں ڈالتی ہے اور ان کی بربادی کا سبب بنتی ہے۔ الظواہری اور اس کے قائد بن لادن مسلمانوں کی عقلوں پر پردہ ڈال رہے ہیں۔

اسی طرح یہ کہنا کہ القاعدہ اسلام کا دفاع کر رہی ہے ایک 'خرافات' ہے۔ دراصل وہ دینی اصولوں کو پامال اور احکامات الٰہی سے انکار کر رہی ہے۔ کیا جو شخص دین سے بے بہرہ ہو دین کا دفاع کر سکتا ہے؟

ایسی کئی مثالیں ہیں اور ارشاد باری کی تصدیق کرتی ہیں کہ ''یہ تمہاری ہی شامت اعمال ہے'' (سورہ آل عمران، آیت 165)

لیکن دوسروں کو الزام دینا اور اپنی کمزوریوں پر پردہ ڈالنا جیسے کہ بن لادن اور الظواہری کرتے ہیں شیطانی فعل ہے۔ جیسا کہ ارشاد باری ہے ''اس (ابلیس) نے کہا پروردگار جیسا تو نے مجھے بھٹکایا ہے میں بھی زمین میں لوگوں کے لیے گناہوں کو آراستہ کر کے دکھائوں گا اور سب کو بہکائوں گا۔ ہاں ان میں جو تیرے مخلص بندے ہیں ان پر میرا قابو چلنا مشکل ہے (سورہ الحجر، آیت 39-40)۔ ابلیس نے سمجھا کہ وہ اللہ کی وجہ سے لوگوں کو گمراہ کرتا ہے نہ کہ اپنی شیطانی فطرت کی وجہ سے جسے وہ خطائوں سے پاک گردانتا ہے۔

اس صداقت کی تصدیق میں ابن تیمیہ رحمة اللہ علیہ کہتے ہیں
''اگر مسلمانوں میں کمزوری ہو اور ان کے دشمنوں کا پلہ ان پر بھاری ہو تو یہ ان کی غلط کاریوں اور گناہوں کی وجہ سے ہوتا ہے۔ فرائض سے باطنی اور ظاہری غفلت کے سبب سے ہوتا ہے۔'' ارشاد باری ہے۔ اس کے بعد ابن تیمیہ نے سورہ آل عمران اور سورہ الشورٰی کی آیات قرآنی دہرائیں۔ ( از مامون الفتاوی۔645/11)
ان کے شاگرد ابن قیم رحمتہ اللہ علیہ کہتے ہیں
'' اللہ تعالیٰ نے اپنے دین، اپنی جماعت اور اپنے اولیا کے لئے کامیابی کی ضمانت دی ہے جو اپنے علم اور عمل کے ذریعے اس کے دین پر قائم رہتے ہیں۔ اس نے باطل کے لئے فتح کا یقین نہیں دلایا۔ خواہ غلط کار خود کو راستی پر بھی کیوں نہ سمجھ رہا ہو۔ اس لئے جب اللہ کا کوئی بندہ کسی ذاتی یا مالی مصیبت میں گرفتار ہوتا ہے تو اپنے گناہوں کے سبب سے ہوتا ہے جو یا تو اپنے فرائض سے غفلت یا کسی ممنوعہ فعل کا نتیجہ ہوتا ہے۔ اور یہ اس کے ایمان میں خلل کے سبب سے ہوتا ہے'' اس کے بعد ابن قیم نے مندرجہ بالا آیات دہرائیں۔(از اغاثة اللھفان من مصاید الشیطان( 178.179/2)۔
اگر صورتحال یہ ہے تو مسلمانوں کی اصلاح مسلمانوں کے اندر سے ہی شروع ہو گی۔ جیسا کہ ارشاد باری ہے '' اللہ اس قوم کی حالت کو نہیں بدلتا جب تک وہ خود اپنی حالت کو نہ بدلے'' ( سورة الرعد۔ آیت 11)میں نے خود اسلامی گروپوں کے اندر اس کی کوشش کی تھی۔

الظواہری نے اعتراف کیا ہے کہ میں نے اپنی کتاب الجامع میں ان لوگوں پر تنقید کی تھی جس کا حوالہ اس نے التبریہ کے صفحہ 10 پر دیا ہے۔ میں نے اصلاح کی کوشش کی جو ناکام رہی۔ وہ اپنے غلط موقف پر ڈٹے رہنے پر اصرار کرتے رہے، ان کے پاس اس کے لئے کوئی دینی شہادت نہیں تھی سوائے بہادرانہ تقریروں کے، اسی قسم کی تقریریں جن سے الظواہری کی کتاب التبریہ بھری پڑی ہے۔ جب انہوں نے میرے مشوروں پر کان نہیں دھرے تو میں نے خود کو رسول اللہ ۖکی پیروی میں ان سے الگ تھلگ کر لیا جن ۖ کا فرمان ہے '' اگر تم گمان کی پیروی ہوتے دیکھو ، بخیلی کا مظاہرہ ہوتے دیکھو، دنیا کو اہمیت دی جا رہی ہو، اگر تم دیکھو کے صاحب الرائے کو اپنی رائے پر ناز ہے تو خود کو الگ کر لو اور عوامی معاملات سے دوررہو'' ( روایت ابو داؤداور ترمذی)۔

بن لادن اور الظواہری کی دینی شعائر کی خلاف ورزیاں اس حد تک بڑھیں کہ ایک مجاہد ڈاکٹر احمد الجزائری نے جو شیخ ابو محمد المقدسی کے شاگرد ہیں، 1992 میں ایک اجلاس کے دوران ان کے خلاف کفر کا فتوی صادر کر دیا۔​
بشکریہ ماہانہ تجزئیات
 

کنعان

فعال رکن
شمولیت
جون 29، 2011
پیغامات
3,564
ری ایکشن اسکور
4,425
پوائنٹ
521
سید امام عبدالعزیز الشریف کو مصر کی ''الجہاد'' تنظیم کا بانی شمار کیا جاتا ہے اور ڈاکٹر فادل یا فضل کے نام سے پہچانا جاتا ہے۔ سید امام اپنی تنظیم الجہاد کے ارکان کے ہمراہ القاعدہ میں ضم ہو کر اس کا باقاعدہ حصہ بن چکا تھا۔ اس تنظیم کے بانیوں میں ایمن الظواہری، اسامہ بن لادن، خالد شیخ محمد کے ساتھ ڈاکٹر فادل کا نام بھی آتا ہے۔ اسے القاعدہ کی ہر اول کونسل کا پہلا رکن منتخب کیا گیا۔ بیس سال پیشتر اس نے جدید اسلام پر دو اہم کتابیں لکھیں، جن سے القاعدہ استفادہ کرتی رہی۔ اس میں نوجوانوں کی بھرتی کا طریقہ کار اور اقدام قتل کے جواز فراہم کیے گئے تھے۔
السلام علیکم

٢٠١٣ سے بیس سال پیچھے ١٩٩٣، پرنٹ میڈیا سے ریگولر مطالعہ کی پیش نظر شائد قائدہ کا کوئی وجود نہیں تھا۔

والسلام
 
شمولیت
فروری 07، 2013
پیغامات
453
ری ایکشن اسکور
924
پوائنٹ
26
شیخ سید امام کے متعلق چند کلمات (عبدالمنعم مصطفیٰ حلیمہ ابوبصیر الطرطوسی حفظہ اللہ)

شیخ سید امام کے متعلق چند کلمات

عبدالمنعم مصطفیٰ حلیمہ ابوبصیر الطرطوسی حفظہ اللہ


الحمد للّٰہ والصلاۃ والسلام علی من لا نبی بعدہ وبعد:
سید امام جو عبدالقادر بن عبدالعزیزاور ڈاکٹر فضل کے نام سے مشہور ہیں ان کے چند مقالات اورکلمات کے متعلق بہت سے سوالات پیدا ہوگئے ہیں خاص طور پر جب سے طاغوتی حکام اور ان کے فاسد نظام کے مذموم مقاصد ومفادات کی خاطر ان کے مذکورہ مقالات پر ظلم ڈھاتے ہوئے بڑے پیمانے پر سیکولر ،ظالمانہ اور منافقانہ پروپیگنڈہ کیاگیا اور ابتداء اسلامی جہاد اور مجاہدین پر لعن وتشنیع سے کی گئی۔

شیخ سید امام کے خطابات سے متعلق کچھ کہنے سے قبل میں تشکیکانہ ماحول جس کے متعلق مجھے علم ہوا ہے کہ بارے میں کچھ اشارے دینا چاہوں گا بعض لوگ کہتے ہیں اگرچہ زبان قال سے نہ سہی زبان حال سے ہی سہی کہ شیخ سید امام کا تعاقب نہیں کیاجاسکتا وہ استاذ الاساتذہ ہیں شیخ المجاہدین ہیں جب وہ بات کہیں تو دیگر شیوخ کوبلاتردد وتوقف ان کی ہر بات مان لینی چاہیئے اور اس کی مکمل اتباع کرنی چاہیئے ان سے زیادہ درست بات اور کسی کی نہیں ہوسکتی وہ جیل جانے سے پہلے بھی امام تھے بعد بھی امام ہیں ان مقالات سے قبل بھی امام تھے بعد بھی امام ،جیل جانے سے قبل ہر مرحلہ افراط (یعنی سخت موقف)اور مرحلہ تفریط (یعنی ڈھیلا موقف)میں بھی امام ہیں ان کی ہر مثبت ومنفی بات کی اتباع کی جانی چاہیئے اور کسی کویہ حق نہیں کہ وہ ان پر انکار کرے یا انہیں غلطی پر سمجھے یا ان کی مخالفت کرے………آخر کیوں؟
میں کہتا ہوں :یہ عقل ونقل ہر اعتبار سے مذموم غلو ہے ہمارا یعنی اہل السنۃ والجماعۃ کا متفقہ عقیدہ ہے کہ ہر ایک خواہ اس کی بزرگی ورعلمیت کعبۃ اللہ سے بڑھ کر ہی ہو غلطی بھی کرسکتا ہے اور درست بھی کرتا ہے اس کی بات لی بھی جاسکتی ہے اور ردّ بھی کی جاسکتی ہے جہاں وہ درست ہو اسے درست کہاجائے گا اورجہاں وہ غلط ہوتو غلط ماسوا نبی eکے ان کی ہر بات اور ہر سنت واجب الاتباع ہے ظاھراً اور باطناً دونوں طرح ۔یہ تو روافض شیعہ کا وطیرہ ہے کہ وہ اپنے بزرگوں کی ہر جائز و ناجائز بات کو حق مانتے ہیں اور ان درویشوں اور ان صوفیاء کاطرز عمل ہے جو دنیا کو اپنی شیخ کی نگاہوں سے دیکھتے ہیں منہج وعقیدہ اہل السنۃ والجماعۃ اس طرز فکر عمل سے منزہ وبری ہے ۔وللّٰہ الحمد۔
ایسے ہی ہم ظالم سیکولر حضرات سے اور ان کے پیچھے چھپے منافقین سے بھی کہیں گے کہ تمہیں نہ تو زیادہ خوش ہونے کی ضرورت ہے نہ ہی کم کہ شیخ نے اس اس طرح کہا اور مقالے لکھے کیونکہ اس دین کا رب اس کی حفاظت وحمایت شیخ کے ذریعے بھی کرسکتا ہے اور ان کے بغیر بھی یہ تو اللہ کی سنت ہے کہ وہ کوئی نہ کوئی پودا لگادیتا ہے جسے پھر وہ اپنی اطاعت وتوحید اور اپنی راہ میں جہاد اور اپنے ظالم طاغوتی دشمنوں کے خلاف تصادم میں استعمال کرتاہے……تاقیامت ایسا ہی رہے گا۔یہ جان لینے کے بعد میں کہوں گا کہ شیخ سید امام کے کلمات اورمقالوں کے تین پہلو ہیں :
1 مثبت :اس پر ان کا شکریہ ادا کرنا چاہیئے ۔
2 منفی:اس پر ان کا ردّ کرناچاہیئے ۔
3 متشابہ:اس پر ان سے مناقشہ کرناچاہیئے۔

مثبت پہلو
حق کی طرف رجوع کرنا واجب ہے اگرچہ تاخیرسے ہو چنانچہ ہم شیخ سید امام سے امید کرتے ہیں کہ وہ اپنے خطابات اورمقالوں کو لوگوں کے سامنے وہی وضاحت کردیں گے جو ہم ذکر کرآئے ہیں کیونکہ اب وہ آزاد ہیں جیل سے باہر ہیں نیز وہ باتیں انہوں نے جیل میں اس وقت کی تھیں جب انہیں جیل میں بدترین تشدد کا نشانہ بنایا اس اعتبار سے ان کلمات کی کچھ حیثیت نہیں رہ جاتی بلکہ ان کی بھی وہی حالت ہوئی جو اس وقت ان کے قائل کی تھی ۔میرے علم اور اطلاع کے مطابق شیخ نے جیل جانے سے قبل ایسی کوئی بات نہیں کہی جو مذکورہ امور کے خلاف ہو یہ ممکن ہے کہ ان امور سے متعلق اس قدر واضح اور صریح الفاظ نہ استعمال کئے ہوں جو اپنے بعد کے مقالوں میں استعمال کئے اسی لئے انہیں لیکچر ہی کہا جاتا ہے لیکن کچھ ظالم لوگ انہیں اپنے موقف سے رجوع کانام دیتے ہیں گویا کہ شیخ اس سے قبل اس کے برعکس کہتے تھے ان دونوں مثبت اورمنفی پہلوؤں میں میرے نزدیک مثبت پہلو معتبر ہے کیونکہ اس میں وضاحت وصراحت اور نصیحت ومصالحت اور ان لوگوں کے سامنے معذرت کا پہلو جو ایک عرصے تک ان کی کوتاہ بیانی سے اذیت میں مبتلا رہے تاآنکہ یہ وضاحت وصراحت آگئی ۔

منفی پہلو
جسے ہم شیخ کا طاغوتی ،ظالم ،کافر اور مرتد حکام سے متعلق سابقہ موقف سے رجوع کہہ سکتے ہیں اپنے مقالوں کی نویں قسط تک انہوں نے کبھی بھی طاغوتی یاکافر حاکم کو صراحت کے ساتھ مسلمان نہیں کہا ایسے ہی ان کی تکفیر اور کفر کی ان جرائم کے باوجود وہ خود اپنے ساتھ دین کے ساتھ او رامت کے ساتھ کرتے ہیں صراحت نہیں کی بلکہ ایسے اشارے دیئے جن سے ان کے مسلمان ہونے کا وہم ہوتا ہے اور بندوں پر ان کے کفر اور جرائم کی حقیقت واضح نہیں ہوتی نیز ان کے کافر ہونے کی طرف اشارہ دیئے بغیر انہیں سلطان اور سلاطین کا نام دیئے ہیں جیساکہ عنوان ’’سلطان کا کفر اور اس کے خلاف خروج‘‘سے متعلق کلمات میں انہوں نے ایسا کیا ہے ۔تو’’ سلطان ‘‘ایک شرعی اصطلاح ہے جس کا انطباق صرف ان حکام پر ہوتا ہے جو اللہ کے نازل کردہ نظم کے ذریعے حکومت کرتے ہوں اگرچہ وہ فاسق وفاجر اور ظالم ہوں جبکہ طاغوت جو اللہ اور اس کے رسول اور اہل ایمان کے خلاف مصروف جنگ ہو اور خودکو اللہ کاشریک بنالیتا ہو اس کا شرعی اور لغوی اعتبار سے صرف ایک ہی نام ہے یعنی طاغوت شیخ نے اسی چیز سے احتراز کیا اور یہ ایسا فریب اور حق پوشی اور کتمان علم ہے جو قبل ازیں شیخ سے متعلق معروف نہیں ایسے ہی ایک حدیث جس میں کافر ،طاغوتی اور مرتد حکام جن کا کفر واضح ہو کے خلاف خروج کے واجب ہونے کا تذکرہ ہے مثلاً’’الا ان ترواکفرا بواحا عندکم من اﷲ فیہ برھان‘‘یعنی:(امیر کی اطاعت واجب ہے )اِلَّا یہ کہ تم اس میں کسی ایسے واضح کفرکو دیکھ لوجس( کے کفر ہونے )پر تمہارے پاس اللہ کی جانب سے کوئی دلیل ہو‘‘اس حدیث کو نقل کرنے کے فوراً بعد شیخ اس حکم شرعی سے روکنے لگتے ہیں اور اس کا انکار کردیتے ہیں اور پھر اس حکم کے مطابق فکر وعمل کو ناممکن اور محال قرار دیتے ہیں اور پھر ایسی ڈھیلی اور ہلکی باتیں کرتے ہیں جو اس سے قبل نہیں کرتے تھے کہ ہم عاجز ہیں کمزور ہیں لاچار ہیں یعنی انہوں نے اپنے استدلال کا محور عجز (یعنی ہماری طاقت وقوت سے باہر ہونا)اور فقہ العجز کو بنایا ہے اور اس کی بنیاد پر جہاد کو معطل اور باطل قرار دیا ہے گویا کہ عجز یہ ایسی صفت بن چکی ہے جو امت سے کسی بھی حالت میں جدا نہیں ہوتی اس کے بعد ان حکام کے خلاف خروج وبغاوت کے نتیجے میں پیدا ہونے والے مفاسد ونقصانات کافی طویل بحث کی ہے اور یہ نتیجہ نکالا ہے کہ ان حکام اور طاغوتوں کو ان کے نظام باطل سمیت قبول کرنا ان کے خلاف خروج کی بنسبت عین مصلحت ہے اس کے بعد ان حکام اورطواغیت کے خلاف خروج وبغاوت کو ان مسلم حکام کے خلاف خروج کے مترادف قرار دیا ہے جو فقط ظالم ہوں لیکن کفر بواح کے مرتکب نہ ہوں جبکہ عصر حاضر کے مرتد اور طاغوتی حکام اور تاریخ کے مسلم اور ظالم حکمرانوں میں واضح فرق ہے یہ تمام باتیں اور نظریات شیخ کے سابقہ نظریات واقوال سے یکسر مختلف ہیں اس سے زیادہ اہم یہ ہے کہ یہ تمام نظریات نقل صحیح اور عقل سلیم کے بھی مخالف ہیں اسی لئے ہم نے ان کے ان مقالوں کو منفی پہلو شمار کیا ہے اور اسے ان کے سابقہ نظریات سے رجوع قرار دیا ہے علاوہ ازیں شیخ نے جہاد اور مجاہد جماعتوں (جو کہ امت کے لئے حقیقی خیر ہیں)اور عملی جہاد کے وجوب کو قائم کرکے کافر،مرتد،طاغوتی اور ظالم حکام کو معزول کرنے کا متبادل بھی تجویز کیا ہے وہ یہ کہ تمام جہادی تحریکیں (جو کہ دراصل طائفہ منصورہ اور غالبہ کا ہی ایک لازمی جزو ہیں جن کی نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے تعریف فرمائی ہے اور جبکہ اللہ تعالیٰ انہیں جہاد کی بدولت غلبہ عطا فرمارہا ہے)تبلیغی جماعتوں میں ضم ہوجائیں تو تبلیغی جماعتوں کو شیخ اور ان کے نئے نظریات کے متبعین مبارک ہوں ہم قاری کی خدمت میں گزشتہ سے پیوستہ شیخ کے چند اقوال پیش کررہے ہیں فرماتے ہیں :
’’گذشتہ عشروں سے اسلامی ممالک میں نظام شریعت کے قیام کے پیش نظر حکام کے خلاف بغاوت کے بہت سے واقعات سامنے آئے ہیں جن کی وجہ سے ان ممالک اور وہاں موجود اسلامی تحریکوں کو اچھے خاصے نقصانات اٹھانے پڑے ہیں حالانکہ جبکہ موجود غیر شرعی صورتحال کے مقابلے کے لئے محض جہادہی واحد شرعی حل نہیں ہے کچھ اور بھی شرعی حل ہیں جیسے دعوت ،ہجرت ،عزلت نشینی ،درگزر،عدم توجہ ،صبر اور ایمان کو مخفی رکھنا کیونکہ اکثر اسلامی ممالک میں نفاذ شریعت کے لئے کوشاں اسلامی تحریکیں کمزوراور بے بس ہیں جس کے بہترین شاہد ماضی کے چند واقعات ہیں یہ تو انسان کی خود فریبی ہے کہ وہ خود کوکسی ایسے عمل میں مشغول رکھے جس کی وہ استطاعت نہیں رکھتا ہم مسلم ممالک میں نفاذ شریعت کے لئے جہاد کے نام پر وہاں کے حکام سے تصادم کوجائز نہیں سمجھتے عملی طور پر ایسا کچھ کرنا دین سہل کے پسندیدہ امور میں سے نہیں لہٰذا یہ واجب نہیں البتہ دعوت و تبلیغ واجب ہے ،شریعت کے مطابق حکومت نہ کرنا کفر ہو یا دون کفر یا نافرمانی ہم بہرصورت اسلامی ممالک میں نفاذ شریعت کے لئے جہاد کے نام پر وہاں کے حکام سے تصادم کو جائز نہیں سمجھتے لہٰذامصر میں یا دیگر اسلامی ممالک میں ایسی کوئی بھی کوشش سابقہ وجوہات کی بناء پر واجب نہیں ہے خواہ وہ جہاد کے نام پر کی جائے یا بزور قوت منکرات کے ازالے کے نام پر ایسا کچھ بھی واجب تو کجا جائز بھی نہیں اور حکومتی قوتوں(فوج،پولیس اور سیکیورٹی فورسز وغیرہ )کوکسی طرح کی تکلیف دیناجائز نہیں کیونکہ اس میں بہت سے مفاسد ہیں ہم تمام مسلمانوں کو یہی نصیحت کرتے ہیں کرتے ہیں اور دعوتی عمل اور انہیں اس طور پر ان کے دین سے قریب کرنے کو جائز سمجھتے ہیں جس سے نقصانات کا سامنا کم سے کم کرنا پڑے بلکہ یہ اسلام اور اہل اسلام دونوں کے لئے نفع بخش ہے‘‘۔

درحقیقت یہ سب امت کو بے حس اور معذور کردینے اور طاغوت اور اس کے نظام کو مضبوط کرنا ہوا خواہ شیخ یہ جانتے ہوں یا اس سے نابلد ہی ہوں ۔اب ہم مذکورہ مغالطو ں اور شبہات کاچند طور سے ردّ کرتے ہیں :
1 نص اور اجماع سے ثابت ہے کہ مسلم ممالک کے ظالم،مرتد اور طاغوتی حکام کے خلاف خروج کرناواجب ہے اور اس کے وجوب کو محض ظن وتخمین سے ردّ نہیں کیا جاسکتا کیونکہ یہ بزدلی ،ڈر،کمزوری،دنیاسے محبت اورنفس پرستی کانتیجہ ہے ۔
2 اگر یہ مان بھی لیا جائے کہ جہاد کے ذریعے ان حکام کومعزول کرنے اور ان کے خلاف خروج کرنے (جوکہ شرعی واجب ہے)سے عاجز ہیں اور اس کی استطاعت نہیں رکھتے تو اوّلاً اس عجز وعدم استطاعت کو دورکرنا چاہیئے کیونکہ مستقل عجز کو قبول نہیں کیا جاسکتا کہ ہم امت اسلامیہ کو ایسی بھیڑ بکری بنادیں جو طاغوتی حکام کے مذبح خانوں میں دھڑا دھڑ ذبح کی جائیں اورانہیں اس بات کی بھی اجازت نہ ہو کہ وہ حکام کے اس عمل کو جرم تک کہہ سکیں ۔چنانچہ اگر کسی بھی جہادی مرحلے میں عدم استطاعت یا عجز کا سامنا ہو تو پہلے اس عجز وعدم استطاعت کو دور کرنا منصوص اور واجب ہے ۔
شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
’’جہاد کے لئے جبکہ وہ عجز وعدم استطاعت کا شکارہو قوت تیارکرنا اور گھوڑے باندھنا واجب ہے کیونکہ جو واجب کے حصول وتکمیل کا ذریعہ ہو وہ بھی واجب ہوتا ہے ۔‘‘(فتاوی :259/8)
عدم استطاعت کبھی بھی شرعی تکالیف کو ساقط نہیں کرسکی جبکہ اس عجز اور عدم استطاعت کو دور کرنے کی طاقت ہو اور عجز کو دور کئے بغیر عمل کرنا ممکن نہ ہو اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
فَاتَّقُوا اﷲَ مَا اسْتَطَعْتُمْ۔(التغابن:16)
تم اللہ سے ڈرو جس قدر طاقت رکھتے ہو۔
نیز فرمایا:
وَ اَعِدُّوْا لَہُمْ مَّا اسْتَطَعْتُمْ۔ (الانفال:60)
ان (کفار )کے خلاف قوت تیار کرو جس قدر استطاعت رکھو۔

ان نصوص قرآنی میں امت سے مطالبہ ہے کہ حسب طاقت واستطاعت اللہ سے ڈریں اور عجز و عدم استطاعت کو دور کرنے کی کوشش کریں اور فریضہ جہاد فی سبیل اللہ کی ادائیگی کے لئے حسب طاقت تیاری رکھیں اورپستی وذلت اور ظلم کا مقابلہ کریں نہ کہ یہ انہیں گلے سے لگالیں اور ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھ جائیں اور دھرے کے دھرے رہیں۔تو جو شخصیت امت سے ان کی کمزوری وعدم استطاعت اورلاچارگی کے حوالے سے خطاب کرے اور عجز کے نام پر ان کے لئے پستی کو جائز قرار دے جب کہ اس سے تو عدم استطاعت میں اضافہ ہوگا کہ مرض بڑھتا چلاجائے گا اور امت سے عمل اور اعداد فی سبیل اللہ اور بیداری ونشاط کی روح ہی فنا ہوجائے گی ایسے تو وہ کچھ بھی نہیں کرپائے گی تو وہ ایسیطبیب کی طرح ہوا جوبستر سے چمٹے ہوئے مریض سے کہتا ہوکہ بستر پر ہی پڑے رہودوا ء کی ضرورت نہیں تاکہ تمہاری بیماری دور نہ ہو اور مستقل بیمار بن جاؤ۔

3 اگرکہیں کسی مرحلے یا کسی فریق میں استطاعت نہیں ہے کہ وہ جہاد وقتال میں حصہ لے تو پھر جہاد وقتال فی سبیل اللہ کی ترغیب دینا واجب ہوجاتا ہے اورامت کو اللہ کے دین،اسلامی ممالک ، ان کے باشندوں ،اور دشمن اور قابض (خواہ وہ دشمن یا قابض اصلاً کافر ہو یا مرتد اور زندیق ہونے کی وجہ سے کافر ہو)کے حوالے سے اس کی ذمہ داریوں کامکمل احساس دلانا واجب ہے زبان وتحریر سے اور حق کا اعلان کرکے جہاد کرنا واجب ہے اس میں خیر کثیر ہے بشرطیکہ علماء اور داعیان حق اس کا التزام کریں جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
فَقَاتِلْ فِیْ سَبِیْلِ اﷲِلاَ تُکَلَّفُ اِلَّا نَفْسَکَ وَحَرِّضِ الْمُؤْمِنِیْنَ عَسَی اﷲُ اَنْ یَّکُفَّ بَاْسَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا وَ اﷲُ اَشَدُّ بَاْسًا وَّ اَشَدُّ تَنْکِیْلاً۔(النساء:84)
آپ اہل ایمان کو قتال کی ترغیب دیں یقینا اللہ کافروں کی تکالیف روک دے گا اور اللہ سخت عذاب اور عبرت بنادینے والا ہے۔

نیز نبی ﷺنے فرمایا:
ان المومن یجاھد بسیفہ ولسانہ۔(صحیح الجامع : 1934)
مومن اپنی تلوار اور زبان کے ذریعے جہاد کرتا ہے ۔
نیز فرمایا:
افضل الجھاد کلمۃ حق عند سلطان جائر۔(صحیح الجامع:1100)
ظالم حاکم کے روبرو کلمہ حق کہنا افضل جہاد ہے۔

یہ ہے عدم استطاعت اور عجز کی صورت میں اصل شرعی متبادل نہ کہ فرار اور عزلت نشینی اختیار کرنا یا تہہ خانوں میں داخل ہوجانا یا حق اور ایمان کو چھپارکھنا تاکہ ظالم و مفسد خوب موج مستی کریں مزید ظلم وفساد کریں اور سفینہ اسلام کو بالکل ہی غرق کردیں جیسا کہ شیخ نے تجویز دی ہے ۔

4 عجز وعدم استطاعت جو شرعی عذر بن سکتی ہو وہ تو فرد میں ہوتی ہے یا کسی جماعت میں اگر کسی ایسی جماعت میں یہ چیز ہوجس کی تعداد روز بروز بڑھتی جارہی ہے اور ایک آدھ کروڑ ہو اورتو پھر یہ عجز وعدم استطاعت ان کی ایسی لازمی صفت بن جائے جو ان سے جدا نہ ہوسکتی ہو اور پھر اسے اس بناء پر معذور یا عاجز قرار دے دیا جائے تویہ نقل وعقل کے خلاف ہے کیونکہ امت اسلامیہ گمراہی پر اکھٹی نہیں ہوسکتی ایسے ہی وہ کسی ایسے عجز وعدم استطاعت پر یکجا نہیں ہوسکتی ہے جو اسے ظالم اور طاغوت کو طاغوت کہنے سے بھی باز رکھے بایں طور کہ پوری امت جس کی تعداد سو اارب سے زائد ہوسے یہ مطالبہ کردیاجائے کہ وہ اس عجز وعدم استطاعت کو اپنا لازمی خاصہ مان لے اور ظلم وسربریت (حاشیہ:عام طور پر لفظ بربریت لکھاجاتا ہے جو کہ ایک مسلم امّہ بربر کی فتوحات سے گھبراکر صلیبیوں نے اختیار کیا چنانچہ ہم نے سربریت لکھاہے سربی صلیبیوں کے مظالم کی نسبت سے)سے لاتعلق ہوجائے اس کی پرواہ نہ کرے اور تہہ خانوں میں جاچھپے اپنے ایمان کو چند ظالم طاغوتوں کے خوف سے چھپائے رکھے یہ تو عقلاً وشرعاً ہر طرح ناجائز وحرام ہے مثلاً مصر کے صرف ایک طاغوت کی وجہ سے وہاں کے ستّر ملین سے زائد مسلمانوں سے یہ مطالبہ کریں کہ وہ اپنے گھروں میں بیٹھے رہیں اور اپنے ایمان کو چھپائے رہیں اور خود پر عجز و ضعف اوربزدلی طاری کرلیں تف ہے ایسی ہولناک فکر پر جو عوام الناس سے پہلے خواص الناس پر طاری ہوگئی ۔نبی ﷺنے ارشاد فرمایا:
اذا رایت امتی تھاب الظالم ان تقول لہ انت ظالم وفی لفظ: انک انت الظالم فقد تودع منہم۔ (مسند احمد)
جب تو دیکھے کہ میری امت ظالم سے خوفزدہ ہے کہ اسے یہ تک نہ کہے کہ توظالم ہے تو پھر انہیں عیش وآرام کے لئے چھوڑ دے ۔
اللہ شیخ سید کو ہدایت دے وہ امت کو اسی درجے پر لانا چاہتے ہیں کہ اسے عیش وآرام کے لئے چھوڑ دیاجائے اور وہ ظالم کو ظالم تک نہ کہے اورانہیں اس پستی پر جری کررہے ہیں اور اگر وہ اس کے برعکس کچھ کرنا چاہے تو اسے مجرم قرار دیتے ہیں ۔نبی eنے فرمایا:
والذی نفسی بیدہ لتأمرن بالمعروف ولتنھون عن المنکر او لیوشکن اﷲ ان یبعث علیکم عقابا من عندہ ثم لتدعہ فلا یستجیب لکم۔(صحیح الجامع:7070)
تم ضرور بالضرور امر بالمعروف اورنہی عن المنکر کروگے وگرنہ اللہ ضرور بالضرور تمہیں سزا دے گا پھر تم اسے پکاروگے اور وہ تمہاری پکار قبول نہ کرے گا۔

شیخ نے عجز وعدم استطاعت کے لئے جو دلائل دئیے (حاشیہ:جن کامقصد امت کے ارادوں اور ان کے نفوس کو مزید کمزور کرنا اور ان کے لئے طاغوت اور ظالم کے ظلم و نخوت کے سامنے سرجھکانے کو جائز قرار دینا ہے)ان میں ایک دلیل بار بار پیش کرتے ہیں عیسیٰ uاور ان کے اہل ایمان رفقاء کا جب یاجوج ماجوج سے سابقہ پڑے گا توعیسیٰ علیہ السلام کو ان سے قتال کا حکم نہ ہوگابلکہ یہ حکم ہوگا کہ وہ اہل ایمان کو لے کر پہاڑ میں چلے جائیں کیونکہ وہ یاجوج ماجوج کا مقابلہ کرنے کی سکت نہ رکھتے ہوں گے ۔جبکہ یہ منفرد صورتحال ہے اور صرف ایک ہی دفعہ ایسا ہوگاہم اس کے جواب میں کہیں گے کہ یاجوج ماجوج اللہ کی آیات میں سے ایک آیت اور قیامت کی بڑی علامات میں سے ایک علامت ہیں ان کی اس قدر کثرت ہوگی کہ حدیث میں آیا ہے :کہ ان کا ابتدائی ریلہ بحر طبریہ سے سے گزرے گا اور اس کا سارا پانی پی جائے گا پھر ان کے لشکر کا آخری ریلہ وہاں سے گزرتے وقت کہے گا کبھی یہاں پانی ہوا کرتا تھا(صحیح مسلم)۔گویا یہ حکم ان کی کثرت کی بناء پر ہے اور پھر مومنین اس وقت عظیم جنگوں ،دجال سے جنگ ایسے ہی دیگر شدید حالات سے کچھ عرصہ قبل ہی دوچار رہے ہوں گے اور یاجوج ماجوج کے خروج تک ان کے پرانے زخم ہی مندل نہ ہوئے ہوں گے تو اللہ تعالیٰ مومنوں پر یہ احسان کرے گا انہیں طویل جدوجہد اور مشقت کے بعد آرام دے گا اورخود ہی اپنے کسی ذریعہ سے یاجوج ماجوج کا خاتمہ کرے گا ان کی گردنوں میں کیڑے ڈال دے گا اور صبح تک ان کا خاتمہ ہوچکا ہوگا جیسا کہ صحیح مسلم کی حدیث میں اس کی مکمل وضاحت ہے ہم کہتے ہیں کہ صحیح مسلم کی حدیث میں اس بات پر نص موجود ہے کہ اللہ تعالیٰ بذریعہ وحی منصوص انہیں ان کے ساتھ قتال سے روک دے گاارشاد فرمایا کہ :
’’اللہ تعالیٰ عیسیٰ علیہ السلام کی طرف وحی کرے گا کہ میں نے اپنے ایسے بندوں کو نکالنا ہے جن سے مقابلے کی کوئی طاقت نہیں رکھتا سو تومیرے بندوں کو پہاڑ پر لے جا۔‘‘

اور اللہ کاحکم ردّ نہیں کیاجاسکتا یہ سوال پیدا ہوتا ہے اور شیخ سے اس کا جواب چاہیئے کہ کیا ’’حسنی مبارک مصر کا صدر‘‘یاجوج ماجوج ہے کہ مصر کے آدھے سے زائد ستّر ملین بھی زائد مسلمان باشندے اپنے حقوق ودین اور حرمات میں اس ظالم طاغوت سے خوفزدہ رہیں ؟کیاملک واہل وطن پر مسلط کردہ ظالم طاغوت کہ جن کی تعداد یاجوج ماجوج (کہ جن سے اللہ سبحانہ وتعالیٰ لامتناہی وسعتوں کی حامل جہنم کو بھرے گا)کے مقابلے میں ایک سو تو کیا تقابل وتماثل کے تصور سے بھی بالاتر ہو وہ اس قابل ہیں کہ ہم کروڑھا مسلمانوں کو ان کے خلاف بغاوت وجہاد اور اپنے حقوق کے مطالبے اور ان کے مظالم سے چھٹکارے سے خوفزدہ کردیں اور ان کے یہ سب ناجائز قرار دے دیں ؟پھر کیا ان طواغیت سے قتال نہ کرنے کے متعلق نص موجود ہے جیساکہ یاجوج ماجوج کے متعلق ہے؟کہ ہم ان کو ان پر قیاس کرسکیں؟جناب شیخ اس سے قبل کبھی ہم نے آپ سے اس قدر کمزور اور لچک دار اوربزدلانہ دلائل واستدلال کا مشاہدہ نہیں کیا لیکن کیا کیا جائے باطل کی دلیل ہمیشہ کمزور ہی رہی ہے خواہ دلیل پیش کرنے والا کس قدر عظمت وفضل کا مالک ہو ہم اللہ سے ثابت قدمی اور اچھے خاتمے کے لئے دعاگو ہیں۔(جاری ہے)
 
شمولیت
فروری 07، 2013
پیغامات
453
ری ایکشن اسکور
924
پوائنٹ
26
شیخ سید امام کے متعلق چند کلمات (عبدالمنعم مصطفیٰ حلیمہ ابوبصیر الطرطوسی حفظہ اللہ)

(گذشتہ سے پیوستہ)
شیخ سید امام کے متعلق چند کلمات
عبدالمنعم مصطفیٰ حلیمہ ابوبصیر الطرطوسی حفظہ اللہ



5 یہ بڑی ہی واضح ہی غلط فہمی اور ٹھوکر ہے کہ نبی ﷺکے اس فرمان :
الا ان تروا کفرا بواحا عندکم من اللّٰہ فیہ برھان۔
(یعنی:امیر کی اطاعت واجب ہے)اِلَّا یہ کہ تم اس میں کسی ایسے واضح کفر کو دیکھ لو جس (کے کفر ہونے )پر تمہارے پاس اللہ کی جانب سے کوئی دلیل ہو۔
کے مطابق عمل کرنے والے پوری امت میں صرف چند علماء ،مدرسین،داعیان اور غیور مجاہدین اور طلباء وغیرہ ہیں جبکہ انہی طبقات اور دیگر طبقات کی اکثریت اس عمل کو اہمیت نہیں دے رہے اور نہ اس کی رعایت کرتے ہیں اس سے یہ وہم پیدا ہوتا ہے کہ امت مجموعی طور پر اس فرمان کے تقاضے پورے کرنے سے عاجز ہے۔

علماء اور داعیان حق کو درپیش مشکلات میں سے ایک بڑی مشکل ہے جبکہ حالات یہ ہے کہ حق اور علم چھپایا جاتا ہے تو ہرشخص کو اپنی استطاعت کے مطابق اپنی ذمہ داریوں کا احساس کرناچاہئیے اورانہیں اداکرنا چاہئیے چہ جائیکہ امت کے اس تسلسل کا حصہ بناجائے گویا کہ مجاہدین کی حوصلہ شکنی ،حق پوشی ،ظالم طاغوتی حکام کے اسلامی ممالک پر کافرانہ تسلط کو سراہنے اور انہیں ان ممالک اور وہاں کے باشندوں سے متعلق فتنہ وفساد مچانے کی کھلی چھوٹ دینے کے سوا اور کوئی جائے پناہ ہوہی نہ اور گویا کہ ان کے حکام اس قدر مضبوط اور ضروری ہیں نہ توانہیں معزول کیا جاسکتا ہو نہ ان سے جھڑپ کی جاسکتی ہو؟

6 مقاصد شریعت جیسے مصالح اور مفاسد توجلب مصالح اور دفاع مفاسد کے قاعدے پر اس وقت عمل کیاجاسکتا ہے جب کہ وہ ایسے نص کے ذریعے متعین ہو جس میں ذاتی رجحانات اورنفسانی خواہشات کا عمل دخل نہ ہو کیونکہ اکثر اہل بدعت اپنی بدعات ومفادات اورگمراہیوں کو جائز قرار دینے کے لئے جلب مصالح اور دفاع مفاسد کا ہی حوالہ دیتے ہیں جبکہ اس کا تعلق نص شرعی سے نہیں بلکہ آراء وعقلیات سے ہوتاہے کیونکہ یہ آسان ترین راستہ ہے چنانچہ اگر آپ ان سے کچھ پوچھ بیٹھیں تو فوراً جلب مصالح اور دفع مضار کا قاعدہ پیش کردیں گے کہ ہمارا مقصدکم نوعیت کانقصان برداشت کرکے بڑے نقصان سے بچنا ہے لیکن جب آپ ان کے اقوال واحوال کا نصوص شرعیہ کی روشنی میں جائزہ لیں گے تویہی پائیں گے کہ انہوں نے چھوٹا ضرر کے بجائے بڑا ضرر اختیارکرلیا ہے اورمفاسد کو حاصل کرکے نصوص شریعت سے ثابت شدہ مصالح کو ردّ کردیا ہے مثلاً جو سیاسی عمل میں شریک ہوجائے اور اسی قاعدے کو دلیل بنالے تو درحقیقت انجانے میں انہوں نے اپنے آپ کو بھی اورامت کو بھی مفاسد میں لاکھڑاکیا اور اپنے نفوس اور امت اسلامیہ سے حقیقی مصلحتوں کو بہت دور کردیا گویا وہ برائی کرکے اچھائی کا زعم رکھتے ہیں۔شیخ کا نیا موقف بھی ایسی ہی مثال ہے کہ انہوں نے کافر مرتد اور طاغوتی حکام کے خلاف خروج وجہادکو توبڑا فساد اور بھاری نقصان قرار دے دیا اور ان سے جہاد نہ کرنے ،ان کو برداشت کرنے ان کے ظلم وکفر اور فسادات کو برداشت کرنے کو بہت بڑی مصلحت قرار دے دیا سو جب معیار اورضابطہ ہی الٹ ہوگیا تونتائج بھی ازخود سنگین تر ہوگئے۔سینکڑوں آیات قرآنی اور احادیث صحیحہ جن سے یقینا شیخ سید واقف ہیں ان ظالم اور طاغوتی حکام کے خلاف خروج اور جہاد کی دعوت دیتی ہیں اور بندگان الٰہ کو ان سے تعلقات استوار کرنے اوران کی طرف میلان رکھنے سے منع کرتی ہیں توجناب شیخ صاحب آپ ہی بتائیں کہ اس قدر قرآنی آیات واحادیث کے ساتھ ہم کیا کریں اور ان سے کیا مراد لیں؟ان طواغیت کے خلاف ترک جہاد میں کہاں کی مصلحت ہے جبکہ امت انہی کے سبب اپنے دین وشرف اور اپنے علاقوں اور مصلحتوں سے محروم سے محروم تر ہوتی جارہی ہے؟انہی کی وجہ سے تو ہم روز بروز اپنے دین وشرف ،عزت وجاہ ،اموال واولاد اوراپنے ممالک اور علاقوں سے محروم ہورہے ہیں اورفواحش ومنکرات بڑھتی ہی چلی جارہی ہیں وہ ظالم ان کی حمایت میں قانون بناتے ہیں،ان کے لئے لڑتے ہیں ان کے مخالفین کو سزائیں دیتے ہیں تو ان سے ترک جہاد میں کون سی مصلحت ہے جو شیخ صاحب کو نظر آرہی ہو اور ان سے جہاد کرنے میں وہ کون سافساد ہے جن سے وہ خوفزدہ ہیں امت اپنا سب کچھ تو کھوچکی ہے اب ایسا کوئی فساد رہاہی نہیں جس سے ہم ڈریں کہ کہ امت اس میں واقع ہوجائے گی کیونکہ ہر طرح کا فسادان پر ایک عرصے سے اپنے تاریک سائے پھیلائے ہوئے ہے جب سے امت ان کے ظلم وستم اور کفر ارتداد پر صبر کررہی ہے ۔چنانچہ شرعی دلائل سے ثابت شدہ مقاصد شریعت پر عمل کرتے ہوئے جلب مصالح اور دفاع مفاسد اور چھوٹا نقصان برداشت کرکے بڑے نقصان سے بچنا ان طواغیت کے خلاف جہاد کے ذریعے ہی ممکن ہے اسی ذریعے یہ امید کی جاسکتی ہے کہ اللہ اس امت پر مسلط ذلت ورسوائی ،کمزوری وبزدلی اور جہل وفقر کو زائل کردے گا۔جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
کُتِبَ عَلَیْکُمُ الْقِتَالُ وَ ہُوَ کُرْہٌ لَّکُمْ وَ عَسٰٓی اَنْ تَکْرَہُوْا شَیْئًا وَّ ہُوَ خَیْرٌ لَّکُمْ وَ عَسٰٓی اَنْ تُحِبُّوْا شَیْئًا وَّ ہُوَ شَرٌّ لَّکُمْ وَ اﷲُ یَعْلَمُ وَ اَنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْن۔(البقرۃ:216)
تم پر قتال فرض کردیا گیا ہے حالانکہ وہ تمہیں ناپسند ہے اور قریب ہے کہ تم ایک شئے پسند نہ کرتے ہو جبکہ وہ ہی تمہارے لئے بہتر ہو اور قریب ہے کہ ایک شئے تم پسند کرتے ہو جبکہ وہ تمہارے لئے بری ہو اوراللہ مکمل علم رکھتا ہے اور تم کچھ نہیں جانتے ۔
نیز فرمایا:
وَقَاتِلُوْہُمْ حَتّٰی لاَ تَکُوْنَ فِتْنَۃٌ۔ (الانفال:39)
اور ان (یعنی کفار خواہ ان کا کفر حقیقی ہو یا ارتداد کی بناء پر ہو)سے لڑتے رہو تاآنکہ عبادت محض اللہ ہی کی ہو اور شرک نہ رہے ۔
نیز فرمایا۔:
وَ الْفِتْنَۃُ اَشَدُّ مِنَ الْقَتْلِ۔(البقرۃ:191)
شرک قتل (یعنی شرک اوراہل شرک کے خلاف جہاد کے نتیجے میںہونے والا قتل مومن)سے زیادہ سنگین ہے۔

امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں ۔’’چونکہ امربالمعروف اور نہی عن المنکر اور جہاد فی سبیل اللہ میں کچھ ایسی آزمائشیں اور سختیاں آجاتی ہیں کو کسی بھی شخص کو فتنہ میں ڈال دیتی ہیں توکچھ لوگ ان واجبات کو ترک کردینے کی یہ علت پیش کرنے لگے کہ وہ سلامتی چاہتا ہے اور فتنے سے محفوظ رہنا چاہتا ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ۔
وَ مِنْہُمْ مَّنْ یَّقُوْلُ ائْذَنْ لِّیْ وَ لاَ تَفْتِنِّیْ اَلاَ فِی الْفِتْنَۃِ سَقَطُوْا وَ اِنَّ جَہَنَّمَ لَمُحِیْطَۃٌ بِالْکٰفِرِیْنَ۔(التوبۃ:49)
ان میں سے کچھ لوگ( منافقین )وہ ہیں جو کہتے ہیں کہ آپ مجھے رخصت دیجئے اور فتنہ میں نہ ڈالئے خبردار فتنہ میں وہ گرگئے اور جہنم کافروں کو گھیرنے والی ہے ۔(فتاوی ابن تیمیۃ : 165/28)

توجواللہ کے حکم جہاد کو فتنہ سے بچنے کے لئے چھوڑ دے گا فتنہ میں تو وہ پڑ ہی گیا اس کے دل میں شک آگیا اور اس کا دل بیمار ہوگیا اور اس نے اللہ کے حکم جہاد کو ترک کردیا۔

7 شیخ اور ان کے رفقاء کو نصرت وتمکن سے متعلق اللہ کی سنتوں کے متعلق بھی کلام کرناچاہیئے تھا اس کے ساتھ ساتھ اگر چاہتے تو کچھ اوربھی کہہ دیتے لیکن پھر بھی یہ سب ان کو یا ان کے رفقاء کو یہ اجازت نہیں دیتا کہ وہ جہاد کو حرام کے درجے تک لے جائیں اور اس کے ناجائز ہونے کا فتویٰ دیں اور اس فریضہ کو اداکرنے والے کو مجرم قرار دیں یا چند کمزور اور گھٹیا دلائل کی بناء پر کافر ،طاغوتوں ،مرتدوں ،ظالموں ،مشرکوں اور قاھر حربیوں کے خلاف جہاد کا انکار کردیں یہ بات وہ کہیں یا کوئی بھی تیس مار خاں کہے اس کی بات مردود اور ناقابل قبول ہے عقل ونقل کے خلاف ہے ۔
سلمہ بن نفیل الکندی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ۔
’’میں رسول اللہ ﷺکے پاس بیٹھا تھا کہ ایک شخص نے کہا :یا رسول اللہ لوگوں نے گھوڑے چھوڑ دیئے اور اسلحہ اتار پھینکا اور کہنے لگے ہیں کہ جہاد نہیں رہا اب جنگ نے اپنے اوزار اتار دیئے ہیں ۔تو رسول اللہ ﷺاپنے چہرے کے ساتھ متوجہ ہوکر فرمانے لگے :وہ جھوٹ بولتے ہیں اب بھی جہاد ہے اورمیری امت کی ایک جماعت ہمیشہ حق کے لئے جہاد کرے گی اوراللہ ان کی طرف سے کچھ لوگوں کے دلوں کو ٹیڑھا کردے گا اورانہیں انہی کے ذریعے رزق دے گاتاآنکہ قیامت قائم ہوجائے اور اللہ کا وعدہ آجائے اور گھوڑوں کی پیشانیوں میں تاقیامت خیر باندھ دی گئی ہے۔(صحیح سنن النسائی : 3333)

ہم بھی شیخ سید امام اور ان جیسے ا ن سے پہلے دیگر شیوخ اور مصر کی اسلامی تحریکوں جنہوں نے اپنے موقف سے رجوع کرلیا اور اس طرح کی خرافات بکنے لگے سب سے وہی بات کہیں گے جو نبی eنے فرمائی کہ تم جھوٹ بولتے ہو اب بھی جہاد وقتال ہے اور محمد ﷺکی امت میں ہمیشہ ایک جماعت حق فی سبیل اللہ پرجہاد کرتی رہے گی اور اللہ ان کی جانب سے کچھ لوگوں کے دلوں کو ٹیڑھا کرے گا اورانہیں انہی کے ذریعے رزق بھی دے گاحتی کہ قیامت آجائے تمہارے ان انقلابات ،بیمار افکار اور جہاد اور مجاہدین کے خلاف لوگوں کو تمہارے بھڑکانے کے باجود اس سب کے باجود۔

8 شیخ سید نے جیسا کہ ان کا زعم ہے اور ان کے مقالوں کے عنوان ’’عمل جہاد کی راہنمائی‘‘سے پتہ چلتاہے انہوں نے جہاد کو راہ نہیں دکھائی نہ اس کی نوک پلک سنواری بلکہ اس کا انکار کردیا اور اسے ناجائز اورحرام قرار دیاہے اور احیائے جہاد کے ہر مرتکب کومجرم شمارکیا ہے تووہ کسی ایسے عمل کو کیا راہ دکھائیں گے جسے خود انہوں نے لغوقرار دیا ہو اور اسے ناجائز وحرام بتایا ہو اور اس کے جواز تک کو نہ مانا ہو چہ جائیکہ وجوب چنانچہ ان کے مقالے کا درست عنوان ہونا چاہئیے کہ ’’عمل جہاد کی تردید‘‘نہ کہ ’’عمل جہاد کی راہنمائی‘‘۔

9 غلو کا نتیجہ غلو ہی ہوتا ہے اور افراط (یعنی سخت موقف)کے حامل کو جب محاسبہ ومعاقبہ کا سامنا کرنا پڑے اور اس کے دل میں اللہ کا خوف نہ ہو نہ ہی وہ خود کو اس کی جوار رحمت میں سمجھتا ہو تو وہ تفریط(یعنی ڈھیلا موقف)کی راہ کو اپناتا ہے اللہ جانتاہے کہ اس سے قبل شیخ سید کااس حکم کے متعلق جو اللہ کے نازل کردہ کے بغیر حکومت کرتا ہو کس قدر شدید موقف تھا اس پر وہ علی الاعلان کفر اکبر کا لفظ واحد استعمال کرتے جیساکہ ان کی حصول علم سے متعلق جامع کتاب میں ہے اس میں انہوں نے حاکم کے متعلق جو اللہ کے نازل کردہ کے بغیر حکومت کرتا ہوسلف صالحین اور آثار سے ثابت شدہ موقف کہ کبھی ان کا کفر ’’کفر اکبر ‘‘ہوتا ہے اور کبھی کفر اصغر ’’یعنی کفر دون کفر‘‘کو بھی باطل قرار دے دیا ہے۔ان کا یہ قول غالی خوارج کا نظریہ تھا اور ان کے مذہب خبیث کی اصل بنیاد تھا اور آج بھی جب ہم اللہ کے نازل کردہ کے بغیر حکم کرنے کی دوصورتیں بیان کرتے ہیں جو کہ سلف صالحین اور نصوص وآثار سے ثابت ہیں کہ ایک صورت کفر اکبر کی ہے اور دوسری صورت کفر اصغر یا کفر دون کفر کی تو اس دور کے غالی خوارج ہم سے کس قدر شدید اختلاف کرتے ہیں ۔اور اگر اس تقسیم کی مخالفت کردی جائے توخلفاء راشدین کے بعد کے تمام ادوار کی تمام حکومتیں اور ریاستیں اور جماعتیں کافر قرار پاتی ہیں ہمارے بھائی ابومحمد المقدسی dجو آج کل قید میں ہیں’’ اللہ انہیں اور دیگر مسلم قیدیوں کونجات دلائے ‘‘انہوں نے اپنی کتاب ’’النکت اللوامع فی ملحوظات الجوامع‘‘میں اس غلو کا بہترین ردّ کیا ہے ۔اور آج شیخ سید ہمارے سامنے ایک اور غلوکا شکار ہیں جو پہلے غلو کے بالکل برعکس ہے یعنی ڈھیلا موقف جہمیہ اور مرجئہ اور درباری ملاؤں کا موقف اور ان کے اس بعدکے موقف کے متبعین بھی ہم سے کس قدر اختلاف اور جھگڑا کرتے ہیں نیز ان کے اس شور وغوغا اور حملوں کے ابتدائی نتائج دکھائی دے رہے ہیں ہم اللہ سے اس کی مدد اور ثابت قدمی کا سوال کرتے ہیں ۔شیخ سید اپنے اس انقلاب سے قبل غالی خوارج کے حامی تھے ۔اور اس انقلاب کے بعد غالی مرجئہ کے حامی ہیں ولا حول ولا قوۃ الاباللہ۔ان کے اس انقلاب کے بعد مسئلہ تحکیم سے متعلق صرف ایک مثال ملاحظہ ہو فرماتے ہیں :
’’شریعت کے مطابق حکومت نہ کرنا کفر ہو یا کفر دون کفر یا نافرمانی ہم بہرصورت اسلامی ممالک میں نفاذ شریعت کے جہاد کے نام پر وہاں کے حکام سے تصادم کو جائزنہیں سمجھتے ‘‘
شیخ کی اس اضاعت وتفریط اور خود فریبی پر غور کیجئے کہ اگر عصر حاضر کا کوئی طاغوتی حاکم جسے وہ مقتدر حکومت کہتے ہیں احکام شریعت کو چھوڑ دے ان سے اعراض کرے بلکہ ان کے اور ان کے حاملین کے خلاف جنگ کرے اور انہیں اپنے بنائے ہوئے جاہلی قوانین سے بدل ڈالے جو نفس انسانی کا شاخسانہ ہوتے ہیں تو یہ سب شیخ کے نزدیک ان کے نئے ارجائی موقف کے مطابق کفر دون کفر یا معصیت جو کفر دون کفر سے بھی کم تر درجہ ہے ہونے کا احتمال رکھتا ہے حالانکہ دلالت اور معنی کے اعتبار سے شریعت کے مطابق حکم نہ کرنے کے کفر بواح اور کفر اکبر ہونے اس صورت اور شریعت کے مطابق کسی ایک مسئلہ میں خواہش یا رشوت یا قرابت یا کسی بھی وجہ سے حکم نہ کرنے اور اسے گناہ سمجھنے اور اپنے اس فعل پر قابل سزاہونے کا اعتراف کرنے کے کفر دون کفر یا کفر اصغر ہونے اس صورت کے درمیان بڑا فرق واضح ہے جس سے شیخ اچھی طرح واقف ہیں ۔یعنی شیخ سید کے اس انقلاب سے پہلے والے موقف اور اس انقلاب کے بعد والے موقف میں بڑا واضح فرق ہے کہ وہ ثانی الذکر موقف میں ظالم طواغیت کی طرف میلان رکھتے ہیں ۔ہم اللہ تعالیٰ سے ثابت قدمی اور حسن خاتمہ کا سوال کرتے ہیں ۔

10 یہ شیخ سید اس انقلاب سے قبل اپنے مقالوں میں اپنے ٹریننگ کے رفیق مجاہدین کو سخت سست کہتے اور ان پر خوب طعن وتشنیع اور جرح کرتے تھے اور ان انقلابات کے بعد وہ طاغوتی حکام اور حکومتی اداروں کے لئے انتہائی نرم گوشہ رکھتے ہیں جیسا کہ وہ اب وسعت نظری کے نام پر ان حکام وطواغیت اور امن قائم کرنے والے اور تشدد کرنے والے اور جاسوسی اور سراغ رسانی کرنے والے اداروں کو جائز قرار دیتے ہیں اوریہ نہ توخیر خواہی ہے اورنہ جہادی عمل کی راہنمائی ہے جیسا کہ وہ کہتے ہیں ۔
میرے خیال میں شیخ سید کے اپنے دیگر رفقاء کے ساتھ اس قدیم اختلاف ہی اس ظلم وزیادتی کا سبب بنا ہے لیکن کسی بھی عقل سلیم اور قلب متین رکھنے والے مسلمان خصوصاً شیخ سید جیسی شخصیت کو یہ زیب نہیں دیتا کہ وہ اپنے مسلمان بھائیوں خاص کر مجاہد بھائیوں کے ساتھ یہ رویہ رکھے ۔اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اﷲِ وَ الَّذِیْنَ مَعَہٗٓ اَشِدَّآئُ عَلَی الْکُفَّارِ رُحَمَآءَ بَیْنَہُمْ۔(الفتح:29)
محمد(ﷺ)اللہ کے رسول ہیں اورجو لوگ ان کے ساتھ ہیں وہ کفارکے لئے بڑے سخت اورآپس میں رحم دل ہیں ۔
نیز نبی ﷺنے فرمایا:
ان اﷲ رفیق یحب الرفق فی الامر کلہ۔(بخاری)
اللہ بڑا ہی نرم ہے اور ہربات میں نرمی ہی پسند فرماتا ہے ۔
نیز فرمایا:
ان اﷲ رفیق یحب الرفق ویعطی علی الرفق مالا یعطی علی العنف وما لا یعطی ما سواہ۔ (مسلم)
اللہ بڑا ہی نرم ہے نرمی کو پسند کرتاہے اور نرمی پر وہ کچھ عطاکرتا ہے جو سختی پر یا نرمی کے سوا کسی بھی شئے پر عطاء نہیں کرتا۔

مگر شیخ میں یہ اوصاف کہاں ؟

11 مصری حکومت یا ان کے جاسوس اداروں کو شیخ کے مقالوں کے مثبت پہلویعنی معصوم حرمتوں پر زیادتی نہیں کرنی چاہیئے اور کشت وخون کو آسان نہیں لینا چاہیئے سے بالکل دلچسپی نہیں نہ ہی ان کا یہ ہدف ہے بلکہ ان کا ہدف تو یہ ہے غلط اور ناجائز امور کو مجاہدین کی طرف منسوب کیا جائے تاکہ ان کی شہرت اور جہاد کی شہرت کو نقصان پہنچے اوریہ اسی وقت ممکن ہے جب فی الحقیقت کہیں نہ کہیں غلطی اور خطا کاوجود ہو اگر یہ غلطی مجاہدین میں نہ مانی جائے گی تولامحالہ طاغوتی حکام اس کی زد میں آئیں گے جیسا کہ اکثر وبیشترایسا ہوتا ہے کہ طاغوتی حکام کسی جرم کا خود سے ارتکاب کرکے اس کا الزام مجاہدین کے سر دھر دیتے ہیں تاکہ ان کی اور جہاد کی شہرت کو نقصان پہنچایا جائے اور لوگوں کو مجاہدین سے متنفر کیا جائے توطاغوت شیخ کے مقالوں کے اس مثبت پہلو کو اہمیت نہیں دیتا نہ اس کی پرواہ کرتا ہے اس کے لئے اہم یہ ہے کہ کیا وہ اس کی حکومت اور اس کے نظام کو ایک حاکم کے طور پر مانتے ہیں اور اسے واجب الاتباع حاکم مانتے ہیں یا نہیں وہ طاغوت شیخ او ران کے متبعین سے اس بات کا منتظرہے اگر وہ طاغوت کی اس خواہش کی تکمیل نہیں کرتے تو پھر اس سے کسی بھی طرح کا درگزر اور آزادی متوقع نہیں خواہ شیخ معصوم خون کی حرمت سے متعلق کچھ بھی کہتے رہیں کیونکہ ا س کے نزدیک نہ تو معصوم خون کی اہمیت ہے نہ ہی اس کی حرمت ۔شیخ نے اب تک طاغوت کی آدھی خواہش کی تکمیل کی ہے کہ اس یا اس کے نظام کے خلاف بغاوت کو مجرمانہ قرار دینے کو حرام اور ناجائز قرار دیا ہے طاغوت اسے اہمیت بھی دیتاہے لیکن ابھی آدھی خواہش کی تکمیل باقی ہے کہ اس کی حکومت اور اس کے نظام کو مکمل طور پر اور صراحت کے ساتھ تسلیم کرلیاجائے اورمصری مسلمانوں پر اس کی اطاعت اسی طرح واجب قرار دی جائے جس طرح شرعی حاکم واجب الاتباع ہوتا ہے جیسا کہ اس سے قبل بھی بعض مشائخ اور اسلامی تحریکیں طاغوتی حکام اسی طرح تسلیم کرچکی ہیں توکیا شیخ سید طاغوت کی یہ خواہش بھی پوری کردیں گے اور پھر نئے مقالے لکھ کر اور بیانات دے کر اس کا اعتراف بھی کرلیں گے اور اس سلسلے میں اپنے مخالفین کو مجرم اورگناہ گار قرار دیں گے اور ان طاغوتی حکام کے کفر کو کفر دون کفر یا کفرا صغر قرار دیں گے؟ان تمام امور کی وضاحت ہمارے لئے آئندہ چند روز کردیں گے ۔

12 جیل میں تشدد جو شرعی عذرنہیں بن سکتا ایسے جو جیل سے باہر ہیں ان کی عدم استطاعت کہ وہ طاغوتی حکام کے کسی بھی شریعت مخالف عمل کی مخالفت کرنے کی استطاعت نہیں رکھتے اور ایسی مخالفت کی صورت میں جیل جانے کاخوف یہ سب ان کے لئے اس طرح کی طاغوتی حمایت اور حق سے انحراف کو جائز قرار نہیں دے سکتا کہ وہ حق پر ایام قید کو ترجیح دینے لگیں میں کہتا ہوں یہ ایسی بدعت ہے جو اس سے قبل ہمیں اسلامی تحریکوں اورمصری شیوخ اور قائدین میں دکھائی نہیں دیتی اور اس کابوجھ خود ان پر تو ہوگا ہی لیکن جو ان کے ان انقلابی نظریات کی اتباع کریں گے ان کے گناہوں کا بوجھ بھی انہی پر پڑے گا ۔اس سے پہلے بھی علماء سلف صالحین کو گرفتار کیاگیا ان پر تشددکیا گیا لیکن وہ حق سے دست بردار نہ ہوئے امام احمد ،ابن تیمیہ ،سرخسی وغیرہ دیگر سلف رحمہم اللہ اورآج بھی کتنے ہی علماء حق ان طاغوتی حکام کی خفیہ جیلوں میں قید پڑے ہیں اور شاید تا قیامت رہیں لیکن شیخ سید اور ان کے رفقاء کی طرح نہ تو وہ اپنے موقف سے رجوع کرتے ہیں نہ اس میں لچک کا مظاہرہ کرتے ہیں مثلاً شام کے نصیری طاغوت کی جیلوں میں سینکڑوں علماء نظربند ہیں ان میں سے بعض شدید ترین تشدد کے نتیجے میں (ان شاء اللہ)شہید بھی ہوگئے جیسے الشیخ المجاہد مروان حدید اور ان کے بھائی الشیخ المجاہد عدنان عقلۃ…یہ دونوں بیس سال سے زیادہ شام کی نصیری جیلوں میں قید وبند کی صعوبتیں برداشت کرتے رہے اور ایسے اردن میں شیخ ابومحمد المقدسی حفظہ اللہ اور ان کے رفقاء اپنی نصف عمر جیل میں گزارچکے ہیں اور ایسے مصر شیخ کمال السنانیری بھی بدترین تشددکے نتیجے میں شہید ہوگئے اور زینب الغزالی ایک عورت ہونے کے باوجود تشدد برداشت کررہی ہے بھوکے اور خونخوا رکتے ان پر چھوڑے گئے لیکن پھر بھی صبر وثبات کا پیکر اعظم بنی ہوئی ہیں انہوں نے شیخ سید ،ان کے رفقاء اوران سے پہلے دیگر چند شیوخ اور اسلامی تحریکوں کی طرح اپنے موقف سے نہ تو رجوع کیا نہ ہی اس میں لچک دکھائی ایسے الشیخ المجاہد عمر عبدالرحمن امریکی جیلوں میں ایسے ہی شیخ عبدالحمید کشک اور ان سب سے پہلے راہ حق کے جانباز مجاہد سید قطب شہیدرحمہ اللہ نے تختہ دار کو گلے لگالیا مگر طاغوتی حکام کے سامنے معذرت تک کرنے کی کوشش نہ کی کہیں اس کی حوصلہ افزائی نہ ہوجائے اور پھر اس عظیم قربانی کے سبب اللہ نے زمین پرانہیں مقبولیت عطاء فرمائی ۔سید قطب رحمہ اللہ اور سیدامام کے موقف میں زمین آسمان کا فرق ہے ایسے ہی مغرب میں شیخ محمدالفزاری اور ان کے رفقاء وشیوخ وحامیان اور جزائر میں شیخ علی بلحاج اور ان کے حامیان اور جزیرہ عرب میں شیخ خضیر ،ناصر الفہد اور ابن زعیر وغیرہ کتنے ہی راہ حق کے جانباز مجاہدین ہیں جو شمار سے باہر ہیں کسی نے بھی اپنے موقف سے رجوع توکیا اس میں لچک تک نہ دکھائی اللہ ان میں سے جوفوت ہوچکے ان پر رحمت کرے اور انہیں شہداء میں قبول فرمائے اور جواب تک زندہ ہیں انہیں حق پر ثابت قدم رکھے اور ہمارا اوران کا خاتمہ بخیر فرمائے جسے وہ پسند کرتا ہواور اس سے راضی ہوتا ہو۔اللھم آمین

ہر مومن کو اس کے دین وایمان کے مطابق آزمایا جاتاہے جو محمد eکے نقش قدم پر چلے دعوت وجہاد اور حق پر رہے اسے توضرور ہی آزمایا جاتا ہے اور اس کے لئے ضروری بھی ہے کہ وہ اپنے آپ کو ہر طرح کی مصیبت کا مقابلہ کرنے کے لئے تیار رکھے اگرچہ اسے ناپسند کرے اور اس کاطالب نہ ہو ایک عام مسلمان چہ جائیکہ وارثان انبیاء کے لئے جائزنہیں کہ وہ معمولی تکلیف سے بچنے کی خاطر راہ حق سے اعراض کرجائے اور باطل کے سرنگوں پرچموں کو بلند کرنا شروع کردے اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
اَحَسِبَ النَّاسُ اَنْ یُّتْرَکُوْآ اَنْ یَّّقُوْلُوْآ ٰامَنَّا وَ ہُمْ لاَ یُفْتَنُوْن، وَ لَقَدْ فَتَنَّا الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِہِمْ فَلَیَعْلَمَنَّ اﷲُ الَّذِیْنَ صَدَقُوْا وَ لَیَعْلَمَنَّ الْکٰذِبِیْنَ۔(العنکبوت:2-3)
کیا لوگ سمجھتے ہیں کہ انہیں ایسے ہی چھوڑ دیا جائے گا کہ وہ کہیں کہ ہم مومن ہیں اورانہیں آزمایا نہ جائے گا حالانکہ ہم نے ان سے پہلے لوگوں کو آزمایا ہے تو اللہ ان لوگوں کو جو سچے ہیں ضرور ظاہر کرے گا اور جھوٹوں کو ضرور بے نقاب کرے گا۔
نیز فرمایا:
وَ لَنَبْلُوَنَّکُمْ بِشَیْئٍ مِّنَ الْخَوْفِ وَ الْجُوْعِ وَ نَقْصٍ مِّنَ الْاَمْوَالِ وَ الْاَنْفُسِ وَ الثَّمَرٰتِ وَ بَشِّرِ الصّٰبِرِیْنَ۔(البقرۃ:155)
اور ہم تمہیں خوف اوربھوک اوراموال اورجانوں اور پھلوں کے نقصان کے ذریعے ضرور آزمائیں گے اور آپ صبر کرنے والوں کوخوشخبری سنادیں ۔
نیز فرمایا۔ وَ لَنَبْلُوَنَّکُمْ حَتّٰی نَعْلَمَ الْمُجٰہِدِیْنَ مِنْکُمْ وَ الصّٰبِرِیْنَ وَ نَبْلُوَا اَخْبَارَکُمْ۔(محمد:31)
اور ہم تمہیں ضرور ہی آزمائیں گے تاکہ تم میں سے مجاہدین اور صابرین کو ظاہر کردیں اور ہم تمہاری حالتوں کو بھی آزمائیں گے ۔
نیز نبی ﷺنے فرمایا:
ان اعظم الجزاء من عظم البلاء وان اﷲ تعالیٰ اذا احب قوما ابتلاھم فمن رضی فلہ الرضا ومن سخط فلہ السخط۔(صحیح ترمذی:1954)
یقینا عظیم ثواب عظیم آزمائش کے ساتھ ہے اور اللہ تعالیٰ جب کسی قوم سے محبت کرنے لگتا ہے انہیں آزمائشوں میں مبتلا کردیتاہے پھر جو راضی رہے اس کے لئے رضا ہے اور جو ناراض ہو اس کے لئے ناراضی ہے ۔
نیز رسول اللہ ﷺسے پوچھاگیا کہ سب سے زیادہ آزمائش کن لوگوں پر اترتی ہے تو آپ نے فرمایا:
الانبیاء ثم الامثل فالامثل یبتلی الناس علی قدر دینھم فمن ثخن دینہ اشتد بلاؤہ ومن ضعف دینہ ضعف بلاؤہ۔(صحیح الترغیب والترھیب:3402)
انبیاء پھر وہ جوان سے قریب ہوں پھر جو ان کے قریب ہیں لوگوں کو ان کے دین کے مطابق آزمایا جاتا ہے جس کا دین مضبوط ہو اس کی آزمائش سخت ہوتی ہے اور جس کا دین کمزور ہو اس کی آزمائش کم ہوتی ہے ۔
نیز فرمایا:
کما یضاعف لنا الاجر یضاعف لنا البلاء۔ (صحیح الجامع:4577)
جس طرح ہمارے اجر میں اضافہ کیا جاتا ہے اسی طرح ہمارے آزمائش میں اضافہ کیاجاتا ہے ۔

نیز فرمایا:
ان معاشر الانبیاء یضاعف علینا البلاء۔ (صحیح الجامع:2288)
ہم انبیاء کی جماعت ہیں ہمارے لئے آزمائش بڑھ کر ہوتی ہیں۔
نیز فرمایا:
ما اوذی احد ما اوذیت فی اﷲ۔ (السلسلۃ الصحیحۃ:2222)
جس قدر مجھے اللہ کے لئے اذیت دی گئی کسی کو اذیت نہ دی گئی ۔
صحیح ابن حبان میں ہے کہ ایک شخص رسول اللہ ﷺکے پاس آیا اورکہنے لگا اللہ کے رسول اللہ کی قسم میں آپ سے محبت کرتا ہوں تو آپ نے اس سے فرمایا:
ان البلایا اسرع الی من یحبنی من السیل الی منتھاہ۔ (السلسلۃ الصحیحۃ:1586)
سیلاب کے انتہائی زور سے بھی زیادہ تیزی سے مجھ سے محبت کرنے والے کی طرف مصائب لپکتے ہیں ۔

یعنی اس دعوی کی دلیل چاہیئے اور وہ دلیل تیرے آنگن میں مصائب وآلام کا نزول ہے جنہیں تجھے سہنا پڑے گا اور ان پرصبر کرنا پڑے گا اوراگر انہیں برداشت نہ کرسکا توتیرے دعوی محبت کی کچھ حقیقت نہیں ۔بلا مشقت دعوی محبت واتبا ع پر ہر شخص کو اپنے دین وایمان کامحاسبہ کرنا چاہیئے کہ وہ اپنے دعوی ایمان میں کس قدر سچااور مخلص ہے اگر کوئی کہے کہ شیخ کا یہ انقلاب جبر واکراہ کا نتیجہ ہے او ر ایسا شخص شرعاًمعذور ہوتا ہے تومیں کہوں گاکہ کاش حقیقت یہی ہو یہی وجہ تھی کہ ہم تحریر کو اس قدر تاخیر سے لکھ رہے ہیں کہ شاید وہ عذر خواہی کریں یاہمیں ہی مل جائے لیکن افسوس احوال وقرائن سے پتہ چلتا ہے شیخ یہ سب بخوشی ورضاکررہے ہیں اسی لئے تو وہ اس سلسلے میں اپنے کسی مخالف کو پسند نہیں کرتے اور پھر جبر واکراہ جس پر کسی شخص کو معذور تسلیم کیا جاتا ہے اس کی عبارات سے ظاہر ہوجاتا ہے یا پھر وہ ایک آدھ سطر یا زیادہ سے زیادہ جابرین وقاھرین کے جبر وقہر میں ایک دوصفحے لکھ لیتا ہے لیکن پورے پورے مقالے اور بحثیں اور کتابیں لکھ مارنا اور پھر ان پر فقہی اصول جنہیں ان کے سوا اورکوئی نہیں جانتا اور ہر طریق واستدلال اختیار کرنا اوراپنے ذاتی تجربات کا حوالہ دینا اور مخالف نظریے کے حامل کو جھکانے کی پھر پور جدوجہد کرنا اور مختلف انداز اور ترغیب و ترہیب کے ذریعے اسے قائل کرنے کی کوشش کرنا یہ سب جبر واکراہ کا نتیجہ نہیں ہوسکتا ۔واللہ تعالیٰ اعلم ۔

مگر چونکہ ہمیں اپنے حبیبﷺکے سکھائے ہوئے عذر سے متعلق تعلیمات سے محبت ہے لہٰذا میں کہوں گا کہ :اگر بعد کے حالات میں ایسا کچھ سامنے آیاکہ شیخ نے یہ سب جبر واکراہ سے مجبور ومکروہ ہوکرکیا اور اس سے راضی وہ خوش نہ تھے اور اللہ کی طرف ان سب سے اظہار براء ت کردیتے ہیں تو ہم بھی فوراً ہی بلاتردد اپنی اس تحریر کا ردّ کردیں گے اور اسے کالعدم قرار دے دیں گے اور واضح طور پر ان سے اپنی اس تحریر کے سلسلے میں عذرت خواہی کریں گے کیونکہ ہماری اس تحریر کا مقصد کسی پر ظلم ڈھانانہیں ہے اگر میرے معذرت کرنے سے حق کی یا مظلوم کی مدد ہو اور اسے انصاف مل جائے تومعذرت کرنا میرے لئے کچھ مشکل نہیں ۔وللّٰہ الحمد

3 متشابہ پہلو
یہ پہلو ان کے مثالوں اورخطابات میں غالب ہے انہوں نے جو مسائل پیش کئے ہیں اس میں حق اور باطل خلط ملط ہے یہی وجہ ہے کہ ان کا کلام ایسے متشابہ کے حکم میں ہوگا جو تفصیل ووضاحت کا محتاج ہوتاہے اس تفصیل وضاحت میں نئے سرے سے حق کو باطل سے الگ کردیاجاتا ہے اورباطل کو حق سے جو کسی مقصد یا مفاد کے تحت وہ اپنے بیان میں بطور متشابہ کے ذکرکرتا ہے تاکہ اسے دیوار پر دے مارا جائے لیکن اس سب کے لئے انہیں مہلت درکا رہے جس کامیں اختیار نہیں رکھتا اگر زندگی باقی رہی اور حالات نے اجازت دی اور ان کے مقالوں سے متعلق دوبارہ گفتگو کرنے کی نوبت آگئی تومیں ایسا ضرور کروں گا (ان شاء اللہ )میرے خیال میں شیخ سید امام کی جانب سے پیش کئے گئے باطل اور حق سے انحراف کے ردّاور اس سے بچانے اور ڈرانے کے لئے گذشتہ تحریر کافی ہے خاص کر منفی پہلو کی تردید اور خطرناکی اور اسے بے نقاب کرنے کی اہمیت کے حوالے سے ۔
واﷲ من وراء القصد وھو الھادی الی سواء السبیل۔
[ان ارید الا الاصلاح ما استطعت وما توفیقی الا باﷲ علیہ توکلت والیہ انیب۔میں محض بقدر استطاعت اصلاح کا خواہاںہوں اور اللہ ہی مجھے توفیق دینے والا ہے اسی پر توکل کرتا ہوں اور اسی کی طرف رجوع کرتا ہوں ۔(ھود:88)]وآخر دعوانا ان الحمد للّٰہ رب العالمین۔
عبدالمنعم مصطفی حلیمۃ ابوبصیر الطرطوسی حفظہ اللہ
1428/11/19ھـ 2007/11/29ء
www.abubaseer.bizland.com
 
شمولیت
اگست 30، 2012
پیغامات
348
ری ایکشن اسکور
970
پوائنٹ
91
قابل غور نکات


بن لادن نے یہ کام 9/11 سے پہلے کیا لہٰذا جب اس نے 9/11 کے حملوں کا ارادہ کیا تو اس نے ان مشائخ سے رجوع نہیں کیا جیسے کہ وہ پہلے ہی ان حملوں کے لیے فتویٰ جاری کر چکے ہوں۔ دراصل اس نے اپنے امیر ملا محمد عمر سے بھی مشورہ نہیں کیا اور نہ ہی اپنی شریعہ کمیٹی سے رجوع کیا۔ اس نے ان سب کی آنکھوں میں دھول جھونکی اور ان کے پیٹھ پیچھے یہ کارروائی کی۔

ب) امریکہ پر حملے کے لیے لوگوں کی زیادہ سے زیادہ حمایت حاصل کرنا
اور اس مقصد کے لیے الظواہری نے اپنی کتاب التبریہ میں ذیل کے تصورات کا انکار کیا ہے:

ایک مسلمان کے پاس اپنے دشمنوں سے مقابلے کے لیے اپنی استطاعت اور حالات کے مطابق کئی راستے ہیں۔

جہاد کے لیے شرائط اور موانع اور اس میں کامیابی کے لوازمات۔ الظواہری ہرایک کو ہر جگہ لڑانا چاہتا ہے اور کوئی موقع نہیں دیتا نہ حالات اور شرائط کی پرواہ کرتا ہے۔ وہ اس کے لیے دروغ گوئی کرتا ہے کیونکہ وہ اور اس کے قائدین بن لادن سب سے پہلے دشمن کے مقابلے سے بھاگے تھے۔ اس کے بارے میں ہم انشاء اللہ آئندہ بات کریں گے۔

ج) امیر اور اس ملک کے حکمراں کی اجازت سے چشم پوشی جہاں پناہ دی گئی ہو۔
انہوں نے ملا عمر کی اطاعت کا حلف اٹھایا تھا جو افغانستان کے امیر المومنین تھے جہاں انہیں پناہ دی گئی تھی۔ شریعہ کی رو سے ان کی اجازت، خاص طور پر جہاد کے لیے اجازت حاصل کرنا لازمی تھا۔ القاعدہ کو علم تھا کہ مُلّا محمد عمر امریکہ سے تصادم نہیں چاہتے تھے اور یہ کہ انہوں نے اس معاملے میں سختی سے وضاحت کر دی تھی۔ لہٰذا بن لادن نے اس سے بچنے کے لیے 'امارت کے مقام' کی اختراع کی یعنی کہ وہ ملا عمر کی اطاعت کے صرف افغانستان کے اندر پابند ہیں اس سے باہر نہیں۔ اس بات پر بن لادن اور اس کی شریعہ کمیٹی کے درمیان 9/11 سے پہلے شدید اختلاف رائے ہوا۔ اس نے کمیٹی کو جون 2001ء سے بتا رکھا تھا کہ امریکہ کے خلاف بہت بڑی کارروائی کی جائے گی لیکن مقام اور دیگر تفصیلات خفیہ رکھی گئی تھیں۔ اس کی شریعہ کمیٹی نے اس بنیاد پر اس کی مخالفت کی کہ ملا محمد عمر کی اجازت ضروری ہے۔ بن لادن نے اسے مسترد کر دیا اور امارت کا مقام کی اختراع کر ڈالی۔ اس پر انشاء اللہ ہم آئندہ روشنی ڈالیں گے۔

د) امریکیوں کے قتل عام کے لیے القاعدہ نے تمام شرعی موانع کو مٹانا چاہا

اس مقصد کے لیے انہوں نے درج ذیل نکات مرتب کیے جن میں سے اکثر الظواہری نے اپنی کتاب التبریہ کے صفحات 4,74,79,98 اور 110 سے 154 تک بطور جواز نقل کیے ہیں۔
وہ یہ ہیں:
o دور دراز دشمن (امریکہ) سے جنگ قریب موجود دشمن سے زیادہ اہم ہے۔
o کفار کے ملکوں میں ارتداد اور قومیت کی بنیاد پر مسلمانوں کا قتل واجب ہے کیونکہ قومیت اس کافر ملک کے قوانین پر رضا مندی کی دلیل ہے۔
o کفار کو ٹیکس ادا کرنے والوں کے قتل کی اجازت ہے کیونکہ وہ جنگ میں دشمن کا ساتھ دیں گے۔
o کفار کے زیر اثر افراد کا قتل یعنی کفار کے ملکوں میں عام شہریوں کے قتل کا جواز ہے۔
o کفار کے ساتھ اختلاط رکھنے والے مسلمانوں کا قتل جائز ہے۔
o برابر کے بدلے کی بنیاد پر بلا امتیاز قتل عام کا جواز۔
o امریکہ سے جنگ اپنے دفاع میں ہے اس لیے والد وغیرہ کی اجازت کے بغیر اس مقصد کے لیے امریکہ کا سفر جائز ہے۔
o کفار کے ملک میں داخلے کے لیے ویزا کا مطلب مسلمانوں کے تحفظ کی ضمانت نہیں ہے لہٰذا وہ وہاں قتال کا جواز رکھتے ہیں۔
o اگر یہ ویزا تحفظ کی ضمانت بھی دیتا ہو تب بھی وہ اس کی خلاف ورزی کر سکتا ہے۔ اس کی وجہ بعد میں بتائی جائے گی۔
o مسلمانوں کے ملک میں داخلے کے لیے ویزا کے ساتھ تحفظ کی ضمانت نہیں ہوتی لہٰذا ان کا قتل یا اغوا جائز ہے۔

ھ) القاعدہ کی طرف سے اپنے ناقدین کی تکذیب۔

القاعدہ نے اپنے مجرمانہ نظریوں پر تنقید کرنے والوں کے خلاف کئی دفاعی نکات اختراع کیے۔ ان میں:
o سوائے قائدین جہاد کے ان امور پر کوئی اور ا ظہار خیال کا مجاز نہیں ہو گااور قائدین پہاڑوں اور غاروںمیں جا چھپے ہیں۔ یہ بھی ان کی اختراع تھی۔
o جو ان پر تنقید کرتے ہیں وہ دراصل جہاد کے مخالف ہیں اس طرح وہ مجاہدین پر حملوں اور امہ کو ایذا پہنچانے میں معاونت کرتے ہیں۔
o ان پر تنقید کرنے والے صلیبی صیہونیوں کے مقاصد کی تکمیل کر رہے ہیں، اس میں جہاد کی توجیہہ کے بارے میں لکھا گیا مضمون شامل ہے۔ اگرچہ الظواہری نے اعتراف کیا ہے کہ میں نے مضمون میں جس بات کی مذمت کی تھی۔ میں پہلے بھی 1993ء میں اپنی کتاب الجامع میں اور اس کی اشاعت سے پہلے بھی کر چکا تھا۔
 
شمولیت
نومبر 09، 2013
پیغامات
329
ری ایکشن اسکور
151
پوائنٹ
45
اے مسلمان ساتھیو! بن لادن تمہاری عقل کو غلط راہ پر ڈال رہا ہے کیونکہ مسلمانوں کے مصائب کا سبب خود مسلمان ہیں۔ یہ خود اللہ کا کلام ہے اور جو اس سے انکار کرے وہ کفر کا مرتکب ہو گا۔ جب مسلمانوں کو احد میں شکست ہوئی تو اللہ تعالیٰ نے ان سے یہ نہیں فرمایا کہ یہ کفار قریش کی وجہ سے ہوا ہے بلکہ فرمایا کہ یہ ان کے اپنے گناہوں کا نتیجہ ہے۔

سو یہ کتاب اللہ جو واضح طور سے کہتی ہے کہ مسلمانوں کے مصائب ان کے اپنے کرتوتوں کی وجہ سے ہیں، کفار کی وجہ سے نہیں۔ اس کی تصدیق حدیث مبارکہ سے بھی ہوتی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ ایک کافر دشمن اس وقت ہی مسلمانوں پر غالب آ سکتا ہے جب مسلمان خود داخلی طور پر بگاڑ کا شکار ہو جائیں۔ جیسا کہ امام احمد سے روایت ہے جس کی سند شداد بن اوس سے ہے کہ رسول اللہ ۖ نے فرمایا ''ارشاد باری تعالیٰ ہے 'اے محمد! اگر میں کوئی فیصلہ کر لوں تو اسے رد نہیں کیا جا سکتا۔ میں نے تمہاری امت کو یہ عطیہ دیا ہے کہ میں اسے کسی عام سبب سے ہلاک نہیں کروں گا اور اس کے خلاف کسی ایسے دشمن کو ہلاکت کا موقع دوں گا جو خود امہ میں سے نہ ہو۔ یہاں تک کہ ان میں سے بعض خود بعض کو ہلاک کریں گے، بعض خود بعض کو قتل کریں گے اور بعض دوسروں کو ضرر پہنچائیں گے۔''(حدیث)



اس لیے جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ مسلمانوں پر مصائب امریکہ یا یہود کی وجہ سے آئے ہیں وہ قرآن اور سنت کی تردید کرتے ہیں۔ لیکن بن لادن اور الظواہری اور ان کے ساتھی اسے نہیں سمجھتے اور چیزوں کے ظاہر کو دیکھتے ہیں ان کی حقیقت پر غورنہیں کرتے اور انہیں شرع کا علم نہیں ہے۔
جیسا کہ عمر ابن الخطاب نے اپنے لشکر کو ہدایات دیتے ہوئے فرمایا کہ درحقیقت مسلمانوں کے گناہوں پر سزا دینے کے لیے اللہ تعالیٰ کفار کو اکساتا ہے۔ جب اللہ کی راہ میں لڑنے نکلو تو کوئی ایسا کام نہ کرنا جس سے اللہ تعالیٰ ناراض ہو، اور یہ نہ کہنا کہ ہمارا دشمن ہم سے بدتر ہے تو وہ تم پر غالب نہیں کیا جائے گا۔ کیونکہ بعض لوگوں پر بدتر لوگ مسلط کر دیئے گئے جیسے کہ مجوسی کفار کو اس وقت بنی اسرائیلیوں پر مسلط کر دیا گیا جب انہوں نے اللہ تعالیٰ کی ناراضی مول لے لی۔ وہ شہریوں کے اندر پھیل گئے اور وہ وعدہ پورا ہو کے رہا''۔ (سورہ الاسرا، آیت 5)


اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ مسلمانوں کے لیے مصائب ان کی اپنی وجہ سے ہیں۔ بن لادن اور الظواہری کا کہنا ہے کہ یہ مصائب امریکہ کی وجہ سے ہیں۔ اب دیکھتے ہیں کہ مسلمان کس کا اتباع کرتے ہیں؟ اللہ کا یا بن لادن اور الظواہری کا؟ ارشاد باری ہے ''لوگو جو کتاب تم پر تمہارے پروردگار کے ہاں سے نازل ہوئی ہے اس کی پیروی کرو اور اس کے سوا اور رفیقوں کی پیروی نہ کرو اور تم کم ہی نصیحت قبول کرتے ہو۔'' (سورہ الاعراف، آیت 3) الظواہری کی کتاب التبریہ کا بیشتر حصہ مسلمانوں کے ذہن میں اس فاسد خیال کے بیج بونے پر صرف ہوا ہے تاکہ ان کے (القاعدہ کے) کئے کا جواز دیا جا سکے اور ان کے ناقدین پر ضرب لگائی جا سکے۔
 
شمولیت
نومبر 24، 2011
پیغامات
43
ری ایکشن اسکور
66
پوائنٹ
38
کاپی پیسٹ کرنے والو! نام تو صحیح لکھ دو فضل کو فادل لکھا دیکھا تو سمجھ گیا کسی انگریز کی تحقیق کو اس کے کسی ایجنٹ نے پیش کردیا ہے۔ ہمت ہے تو دونوں کتابیں پیش کردو یہاں
 
Top