القول السدید
رکن
- شمولیت
- اگست 30، 2012
- پیغامات
- 348
- ری ایکشن اسکور
- 970
- پوائنٹ
- 91
السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاۃ۔
محترم اراکین فورم ، یہاں میں جو معلومات شیئر کرنے جا رہا ہوں ، یہ استفادہ عام کے لئے ہیں ، اور میرا ان اقتباسات و تحریر سے متفق ہونا لازم نہیں۔
جزاک اللہ خیرا
جزاک اللہ خیرا
القاعدہ کے نظریات کا رد
(سید امام الشریف المعروف ڈاکٹر فادل کا القاعدہ راہنما ایمن الظواہری سے مکالمہ)
بسم اللہ الرحمن الرحیم
سید امام عبدالعزیز الشریف کو مصر کی ''الجہاد'' تنظیم کا بانی شمار کیا جاتا ہے اور ڈاکٹر فادل یا فضل کے نام سے پہچانا جاتا ہے۔ سید امام اپنی تنظیم الجہاد کے ارکان کے ہمراہ القاعدہ میں ضم ہو کر اس کا باقاعدہ حصہ بن چکا تھا۔ اس تنظیم کے بانیوں میں ایمن الظواہری، اسامہ بن لادن، خالد شیخ محمد کے ساتھ ڈاکٹر فادل کا نام بھی آتا ہے۔ اسے القاعدہ کی ہر اول کونسل کا پہلا رکن منتخب کیا گیا۔ بیس سال پیشتر اس نے جدید اسلام پر دو اہم کتابیں لکھیں، جن سے القاعدہ استفادہ کرتی رہی۔ اس میں نوجوانوں کی بھرتی کا طریقہ کار اور اقدام قتل کے جواز فراہم کیے گئے تھے۔
مگر 9/11 کے بعد اس کے القاعدہ سے اختلافات شروع ہو گئے اور اس نے القاعدہ کے نظریات کو رد کرنا شروع کر دیا۔اس کے لیے از سر نو ''جہاد'' کے احکام کی تشریح کی اور اپنے سابقہ نظریات کے برعکس ایک نئی کتاب لکھی جس میں اس نے کہا ''اگر اسلام کے دشمن ظلم کا ارتکاب کریں تو پھر بھی ہمیں شرعی طور پر فساد پھیلانے سے منع کیا گیا ہے۔'' اس کی کتاب کے جواب میں ایمن الظواھری نے ''التبریہ'' کے نام سے کتاب لکھی جس میں سید امام کو امریکی ایجنٹ اور سازشیوں کا دوست کہا گیا۔
پھر ایمن الظواہری کے جواب میں سید امام نے ''التعریة'' لکھی، جس کے چند حصے آپ اس مضمون میں ملاحظہ کریں گے۔
ماہنامہ تجزیات کے دسمبر 2009ء اور جنوری 2010ء کے شمارے میں معروف محقق لارنس رائیٹ کا القاعدہ کی اندرونی بغاوت کے بارے میں تفصیلی مضمون شائع ہو چکا ہے۔
قارئین اس مضمون کو پڑھنے سے پہلے اگر لارنس رائیٹ کے مضمون کا مطالعہ کریں تو انھیں القاعدہ کے نظریات اس کی ابتداء اور اس کے طریقہ کار کو سمجھنے میں مدد ملے گی۔
سید امام نے زیر نظر مضمون ''التعریة'' در جواب ''التبریة'' میں القاعدہ کے عسکریت پسندی کی مخالفت کی ہے اور دلائل کی روشنی میں ایمن الظواہری کا جواب پیش کیاہے۔(مدیر تجزیات)
بشکریہ ماہانہ تجزئیاتمصر میں الجہاد کے بانیوں میں سے ایک، سید امام نے جہادی نظریات پر ایک بار پھر نظرثانی کی ہے جس کو ا حمد الخطیب نے مرتب کیا ہے۔ روزنامہ المصری الیوم نے ایمن الظواہری کی کتاب ''التبریہ'' کے جواب ''التعریہ'' کو جو سید امام کا تحریر کردہ ہے، چند اقساط میں شائع کیا ہے۔
سید امام کہتے ہیں کہ الظواہری بین الاقوامی دروغ گو (جھوٹا) ہے۔ وہ کہتا ہے کہ ''ترشید العمل الجہادی'' امریکا اور یہودیوں کی سرپرستی میں لکھی گئی لیکن اس کا کوئی ثبوت نہیں دیتا۔
ایمن الظواہری، القاعدہ تنظیم کی نمبر دو شخصیت ایک ''بین الاقوامی دروغ گو'' ہے۔ یہ وہ نکتہ ہے جس پر مصر میں الجہاد تنظیم کے بانی اورمفتی شیخ سید امام بن عبدالعزیز الشریف نے اپنی نئی تحریر ''التعریہ لکتاب التبریہ'' کے پہلے حصے میں زور دیا ہے۔ یہ تحریر انہوں نے جیسا کہ ان کا کہنا ہے ایمن الظواہری کی کتاب التبریہ میں اس کی دروغ گوئیوں کے بارے میں دیئے گئے حقائق کا انکشاف کرنے کے لیے لکھی ہے۔
یہ کتاب ایمن الظواہری نے سید امام کی پہلی دستاویز ''ترشید العمل الجہادی'' (جہادی کارروائیوں کی توجیہ) کے جواب میں لکھی تھی۔
التعریہ کی ابتدا میں جو کہ الجہاد تنظیم کی دوسری نظر ثانی قرار دی جاتی ہے اور جو چار ابواب پر مشتمل ہے اور جسے المصری الیوم نے خصوصی طور سے شائع کیا ہے، سید امام نے ''ترشید العمل الجہادی'' کا حوالہ دیا ہے جس میں انہوں نے القاعدہ کے جہادی عقیدے کے ماننے والوں پر تنقید کی ہے۔ انہوں نے اسے مجرمانہ اور معیوب عقیدہ قرار دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ القاعدہ تنظیم میں ایسے لوگ تھے جو باطل کا علم بلند کیے ہوئے تھے اور پہلی تحریر کو اس کی اشاعت سے کئی ماہ قبل ہی رد کرنے پر تلے ہوئے تھے۔ ان میں سے ایک یمن کے شہر صنعا میں تردید لکھتے ہوئے جولائی 2007ء میں مارا گیا۔ دوسرا وزیرستان میں 2008ء میں ہلاک ہوا۔ وہ بھی تردید رقم کر رہا تھا۔ چنانچہ تیسرے یعنی ایمن الظواہری نے یہ کام اپنے ذمے لیا اور مارچ 2008ء میں تردید لکھ ڈالی اور اسے 'التبریہ'' کا نام دیا۔
اس انکشافی تحریر التعریہ کو سید امام نے التبریہ میں کہی گئی باتوں کے لحاظ سے تین حصوں میں تقسیم کیا ہے۔
پہلے حصے کو ''جھوٹ اور بہتان'' کا عنوان دیا ہے اور الظواہری پر صاف طور سے دروغ گوئی کا الزام عائد کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ خود (ایمن الظواہری) اپنے آپ کو سوڈانی انٹیلی جنس کا ایجنٹ کہتا ہے۔
دوسرے حصے میں انہوں نے فقہی غلط بیانیوں کا جواب دیا ہے۔
تیسرا حصہ ان انکشافات پر مشتمل ہے جہاں ان کے مطابق الظواہری نے قارئین کی آنکھوں میں دھول جھونکی ہے۔
پہلا حصہ:
سید امام نے التعریہ کے پہلے باب کا آغاز اس آیت کریمہ سے کیا ہے ''جھوٹ بہتان وہی باندھتے ہیں جو اللہ کی آیتوں پر ایمان نہیں رکھتے اور وہی جھوٹے ہیں'' (سورہ النحل آیت 105)، اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے ''اور جو ایمان والے مردوں اور عورتوں کو بلا وجہ ستاتے ہیں انہوں نے بہتان اور کھلا گناہ اپنے سر لیا۔'' (سورہ الاحزاب، آیت 58)
الظواہری کی دروغ گوئیوں میں سے چند یہ ہیں:
الظواہری کہتا ہے کہامام نے استدلال کیا ہے کہ اس قسم کی باتوں کے لیے اس کے پاس کیا ثبوت ہے اور اس کی شہادت میں کون سے کاغذات اس کے پاس ہیں؟ کیا اس کی شہادت سنی سنائی ہے یا مشاہدے یا پھر معتبر گواہوں کی بیان کردہ احوال پر مبنی ہے؟ اگر ان میں سے کچھ بھی نہیں تو وہ جھوٹا اور افترا پرداز ہے۔ میں اسے مباہلہ کی دعوت دیتا ہوں۔''ترشید العمل الجہادی'' امریکا اور یہودیوں کے کہنے پر لکھی گئی تھی۔
اللہ کا فرمان ہے ''پھر مباہلہ کریں تو جھوٹوں پر اللہ کی لعنت ڈالیں'' (سورہ آل عمران، آیت 61) کئی علما اپنی مخالفت کرنے والوں کو مباہلے کی دعوت دیتے آئے ہیں جیسے کہ ابن عباس اور محمد بن عبدالوہاب رضی اللہ تعالیٰ عنہما اور دیگر نے کیا ہے۔ یہ میرا مباہلہ ہے ''میرے اللہ تو جانتا ہے کہ یہ تحریر میں نے صرف تیرے دین کی سربلندی کے لیے لکھی ہے اور الظواہری کے الزامات غلط ہیں اور میرا ان سے کوئی سروکار نہیں، تو اے میرے اللہ توہم دونوں میں سے اس پر لعنت بھیج جس نے دروغ گوئی کی ہے۔'' میرا مطالبہ ہے کہ وہ اس مباہلے کا جواب تحریری طور پر اور آڈیو اور وڈیو ٹیپ کے ذریعے دے جو مجھے میسر نہیں ہیں۔
آج جو وہ یہ بات کہہ رہا ہے کہ یہ تحریر امریکہ اور یہود کی سرپرستی میں لکھی گئی ہے، اسی قسم کی بات اس نے پہلے اپنے موجودہ قائد بن لادن کے بارے میں کہی تھی۔ اس نے بن لادن پر اسلامی تحریک میں سعودی ایجنٹ ہونے کا الزام عائد کیا کیونکہ جیسا کہ میں نے اپنے پریس انٹرویو میں کہا تھا کہ وہ انہیں 1995ء میں مالی امداد نہیں دے رہا تھا۔ الظواہری دوسروں پر غداری کے الزامات عائد کرنے کے لیے ہر وقت تیار رہتا ہے کیونکہ وہ سمجھتا ہے کہ سب اس کی طرح ہیں۔
جہاں تک میرا تعلق ہے تو جب میں نے اس پر سوڈانی انٹیلی جنس کا ایجنٹ ہونے کا الزام عائد کیا تو میں ا للہ کی قسم کھاتا ہوں، جس کے سوائے کوئی اورمعبود نہیں کہ یہ بات میں نے خود اپنے کانوں سے الظواہری کے منہ سے سنی تھی، کسی تیسرے ذریعے سے نہیں۔ یہ 1993ء کے اواخر میں سوڈان کا واقعہ ہے جب اس نے مجھے بتایا تھا ''اس نے سوڈانیوں سے وعدہ کیا ہے کہ وہ مصر میں 10 کارروائیاںکرے گا اور اس مقصد کے لیے اس نے ان سے 100,000 ڈالر وصول کیے ہیں۔'' یہ اس کے الفاظ ہیں جو اس نے مجھ سے کہے۔ اگر وہ ان کی تردید کرتا ہے تو میں اسے دوسرے مباہلے کی دعوت ہوتا ہوں۔
مزید برآں ایمن الظواہری نے کہا کہ ''التعریہ'' امریکی سرپرستی میں لکھی گئی ہے۔ لیکن اس کی اسی کتاب 'التبریہ' میں اس نے اپنی ہی تردید کی ہے اور اعتراف کیا ہے کہ میں نے 14 سال پہلے انہیں مصر میں تصادم میں ملوث ہونے، اسلامی گروپوں پر تنقید کرنے سے منع اور دارالحرب میں ان افراد کو دھوکا نہ دینے کی تاکید کی تھی جو وہاں ویزا لے کر داخل ہوئے ہوں اوراس طرح امان کے حقدار ہوں۔ الظواہری نے اعتراف کیا کہ اس وقت بھی میرا یہ موقف تھا اور یہ الجامع میں تحریر تھا جسے الظواہری نے 'اللہ کی جانب سے فتح' قرار دیا تھا۔ انہی الفاظ کا میں نے 2007ء کی تحریر میں حوالہ دیا تھا۔
تو جب میں نے 1993ء میں الجامع میں یہ الفاظ لکھے تو کیا میں کسی سیکورٹی تنظیم کے دبائو میں تھا؟ کیا میں نے یہ الفاظ کسی کو مطمئن کرنے کے لیے لکھے تھے؟ 1993ء میں جب پاکستان نے ہمیں ملک بدر کیا تو میرے پاس یورپ میں سیاسی پناہ کا اختیار تھا لیکن میں نے اسے مسترد کر دیا۔ مجھے یہ پیش کش پہلے بھی ہوچکی تھی اور میں نے انکار کر دیا تھا۔ میں مسلمانوں کے ساتھ سیکورٹی خطرات کے باوجود پسماندہ ملکوں میں رہنے کو ترجیح دیتا تھا تو کیا یہی بات میں نے الجامع میں صلیبی یہودی مہم کے حوالے سے کی تھی؟
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سوال کیا ''کیا میں نے تمہیں بڑے گناہوں کے بارے میں خبردار نہیں کیا ہے'' لوگوں نے پوچھا ''کیا رسول اللہ؟'' آپ ۖ نے فرمایا ''اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک اور والدین کی نافرمانی'' آپ ۖ اس وقت دراز تھے اور یہ کہتے ہوئے اٹھ بیٹھے ''اور جھوٹی گواہی'' اور آپ یہ دہراتے رہے حتی کہ لوگوں نے کہا کہ وہ سمجھ گئے ہیں۔ یہ حدیث متفقہ ہے۔
الظواہری نے اپنی کتاب التبریہ میں دوسرا جھوٹ یہ بیان کیا ہے۔ صفحہ 199 پر لکھا ہے کہ
الظواہری کی دروغ گوئیوں میں سے ایک صفحہ 5 اور 99 پر تحریر ہے کہمیں نے التعریہ میں مصر میں الجہاد گروپ کی چند کارروائیوں کا ذکر کیا ہے جس میں وزیر داخلہ حسن الافی اور وزیر اعظم عاطف صدقی کو ہلاک کرنے کی کوشش شامل ہے اور میں نے اس کارروائی میں شریک ایک شخص کا پورا نام لیا ہے (ضیاالدین) یہ غلط ہے۔ میں نے اس کا ذکر نہیں کیا اور میں نے اس تحریر سے پہلے کبھی اس بھائی کا نام بھی نہیں لیا۔ پہلی بات تو یہ کہ میں اس بھائی کو جانتا ہی نہیں اور میں نے اس کا نام ہی الظواہری کی کتاب التبریہ میں پڑھا ہے۔
اس دروغ گوئی کی کوئی دلیل یا سند ہے؟ وہ گمان کی بنیاد پر نتائج اخذ کرتا اور لوگوں پر الزام عائد کرتا ہے جیسا کہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا کے ساتھ افک کے دوران ہوا۔میں نے یمنی حکام کے ساتھ ساز باز کی جنہوں نے مجھے گرفتار کیا اور امریکی ہدایات پرمصر کے حوالے کر دیا تھا اور یہ میں نے اس تحریر کی تیاری کی غرض سے کیا تھا۔
جہاں تک یمن کا تعلق ہے تو میرے وہاں کے حکام کے ساتھ کوئی روابط نہیں تھے اور یہ بات الظواہری کے ساتھی جانتے ہیں۔ میرا آجر (اسپانسر) یہ فیصلہ کرنے کا مجازتھا کہ میں کہا ںقیام کروں گا۔ جب نائن الیون کاواقعہ ہوا یمنی حکام نے مجھے گرفتار کر لیا۔ یہ انہوں نے اپنے مقاصد کے تحت اور مصر سے اپنے بدلے چکانے کے لیے کیا تھا۔ میں اکیلا نہیں تھا میرے ساتھ کئی مصری تھے جو اس کی شہادت دے سکتے ہیں۔
یمنی انٹیلی جنس ڈائریکٹر نے ہم سے کہا ''ہم نے تمہارے نام امریکا کو دے دئیے ہیں اور اسے تم سے کوئی سروکار نہیں ہے۔'' یمنی انٹیلی جنس ڈائریکٹر نے 2002ء کے شروع میں مجھ سے کہا ''اپنے مصری ساتھیوں کو لائو اور ایک جلاوطن مصری مخالف سیاسی پارٹی بنا لو۔ ہم تمہیں تمام ضروری تعاون فراہم کریں گے۔'' میں نے اسے بتا دیا کہ ''میں کوئی ملکی سربراہ نہیں بننا چاہتا اور تم مجھ سے سیاسی جماعت کی تشکیل کروانا چاہتے ہو۔'' لہٰذا انہوں نے یمن بلا جواز اور بلا سبب ڈھائی سال قید رکھا۔ یہاں تک کہ یمنی چیمبر آف ڈپٹیز کے سربراہ (شیخ عبداللہ بن حسین الاحمر) نے چیمبر کے ایک اجلاس میں 2003ء کے اواخر میں ہماری طرف سے بیان دیا اور ہمارے ساتھ جو سلوک کیا جا رہا تھا اس سے برأت ظاہر کی۔
یمنی حکام نے ہمیں ملک بدر کر کے فروری 2004ء میں مصر میں بھجوا دیا۔ ہمیں ایک گروپ کی شکل میں بھیجا گیا تھا اور وہ سب اس کے گواہ ہیں۔
الظواہری نے صفحات 5 اور 99 پر حیرت ظاہر کی ہے کہ میں یمن میں اپنے اصل نام کے ساتھ رہ رہا تھا۔ اسے اس کی وجہ معلوم تھی لیکن وہ حیلے بہانے کر رہا تھا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ مجھے اپنے پیشے میں اپنی تعلیمی اہلیت کے ساتھ ملازمت حاصل کرنے کے لیے اپنے اصل نام کے ساتھ ہی کام کرنا تھا۔ سیکورٹی کے خطرے کے باوجود میں نے ایسا ہی کیا۔ میں ان کی طرح عطیات پر زندگی گزارنے کی بجائے ملازمت کر رہا تھا۔ حدیث نبوی ۖ ہے کہ ''اس سے بہتر کوئی رزق نہیں جو اپنے ہاتھوں سے مشقت کر کے حاصل کیا گیا ہو۔'' (بخاری) حدیث میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ''اوپر والا ہاتھ نیچے والے ہاتھ سے بہتر ہے۔'' متفقہ حدیث۔
الظواہری نے یہ بھی جھوٹ بولا ہے کہ وہ (القاعدہ) ہی میں جو امریکی مہم کا مقابلہ کر رہے ہیں اور وہ مسلم امہ کے خلاف صیہونی صلیبی مہم کی عوامی مزاحمت کی علامت ہیں (اس کی کتاب کے صفحہ 193 اور 199 پر) اس کی کذب بیانیوں کی دلیل یہ ہے
1-دس جولائی 2001ء کو امریکا کے افغانستان میں داخلے کے بعد امریکا کے ساتھ محاذ آرائی سے فرار کرنے والے سب سے پہلے وہی لوگ تھے۔
2-انہوں نے امریکہ سے مصالحت اور مذاکرات کا مطالبہ کیا تھا۔ کیا اس کا مطلب یہ تھا کہ صلیبی مہم ختم ہو گئی تھی؟ وہ جنگ کی بجائے دوسرا راستہ کیوں اختیار کر رہے تھے جبکہ دوسروں کو اس سے منع کرتے تھے؟ بن لادن نے امریکا کو طویل مصالحت کی پیش کش کی تھی جبکہ الظواہری نے امریکا کو مذاکرات کی پیش کش کی تھی۔
3- اس بین الاقوامی دروغ گو الظواہری نے سوڈانی انٹیلی جنس کے ساتھ کام کیا جس نے مصری حکام سے اپنا سیاسی حساب کتاب برابر کرنے کے لیے اس کا اور اس کے گروپ (الجہاد گروپ) کا استعمال کیا۔ یہ 1993ء کی بات ہے۔ جوں ہی الظواہری کی علی عثمان محمد طلحہ (حسن ترابی کے نائب اورنائب صدر سوڈان) کے ساتھ ملاقات ہوئی، الظواہری نے دروغ گوئی سے کام لیتے ہوئے انہیں بتایا کہ ''مصر میں اس کے پاس 10,000 لڑاکا ہیں جن کی تربیت الصاعقہ فورس کے ہم پلہ ہے۔ یہ جھوٹ تھا کیونکہ ان کی تعداد چند سوتک محدود تھی۔ اس کے پیروکار اب بھی مصر کی جیلوں میں بند ہیں۔
4- ان میں ع۔ش شامل تھا جس نے کہا تھا کہ وہ اس وقت تک جیل سے باہر نہیں آئے گا جب تک الظواہری کے ٹینک آ کر اسے نہ چھڑائیں۔
6- ان میں ع۔م۔ د تھا جس نے کہا تھا کہ ''تم حکومت کے ساتھ کیوں صلح کرنا چاہتے ہو جب کہ الظواہری کے پاس 10,000 فوج ہے جس کو اس نے ابھی تک استعمال نہیں کیا ہے۔''
7- ان میں ا۔س۔م تھا جس کا کہنا تھا کہ وہ اس وقت حکومت کے ساتھ بات کرے گا جب الظواہری مصر میں دو یا تین کارروائیاں کر ڈالے گا تاکہ اس کی مذاکراتی پوزیشن مستحکم ہوسکے۔
دوسرا حصہ:
اپنے مضمون کے دوسرے باب میں سید امام نے القاعدہ کے خون بہانے اور امریکہ سے محاذ آرائی میں ذاتی مخالفت (بن لادن کی) کو پوری مسلم امہ کا قضیہ بنانے کی حکمت عملی کا ذکر کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ حکمت عملی گزشتہ صدی کی نویں دہائی میں شروع ہوئی اور عشرے کے اختتام تک انتہا کو پہنچ چکی تھی جب اسامہ بن لادن اور خالد شیخ محمد نے امریکیوں کی سب سے بڑی تعداد کی ہلاکت کا منصوبہ بنایا تھا۔
ان کا کہنا ہے کہ امریکہ کے خلاف ذاتی لڑائی کو پوری امہ کی جنگ بنا دینے میں پروپیگنڈے کو بنیاد بنایا گیا۔ ایسے فتوے حاصل کیے گئے جو امریکہ کے خلاف جنگ کی ضرورت کو اور اس کے لیے زیادہ سے زیادہ تعداد میں لوگوں کو متحرک کرنے پر زور دیتے ہیں۔
سید امام کہتے ہیں ''میں نے اپنی تصنیف الجامع 1994ء کے وسط میں مکمل کی تھی اور اس کی ایک کاپی الظواہری کو دی تاکہ وہ اس سے کچھ حاصل کریں، اسے شائع کریں اور اس سے انہیں کچھ آمدنی ہو۔ الظواہری نے اسے اسلامی تحریک پر تنقید سمجھا۔ اس نے میرے اعتماد کو دھوکا دیا اور میری اجازت کے بغیر اس میں سے بہت کچھ حذف کر دیا۔ درحقیقت اس نے کتاب کا نام تبدیل کر کے اسے شائع کروا دیا۔ پھر ان لوگوں نے اس میں سے علمی مواد سرقہ کر کے ایک کتاب احکام الایمان اور دوسری شرعی سیاست پر شائع کر ڈالی اوراصل مصنف کا حوالہ دیئے بغیر اس پراپنے نام بطور مصنف لکھ ڈالے۔ یہ کتابیں وہ اپنے پیروکاروں کی بھرتی کے لیے استعمال کرتے رہے۔ الظواہری نے یہ نہیں سوچا تھا کہ جس تنقید کو اس نے 1994ء میں خارج کر دیا تھا وہ دوبارہ سامنے آ سکتی ہے۔ جب وہ 2007ء میں دوبارہ میرے مضمون کا حصہ بنی تو الظواہری نے اس کی اشاعت سے پہلے ہی اس پر حملے شروع کر دئیے۔ اس نے اس کے مصنف کو بدنام کرنے اور اس کی ساکھ کو مشتبہ بنانے کے لیے جھوٹ اور فریب کا سہارا لیا۔ ایسی خامیاں ظاہر کیں جو اس مصنف میں تھیں ہی نہیں اور نظریے کی غلط توجیہہ کر کے قارئین کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کی جو کوشش کی وہ آئندہ ابواب میں آپ کے سامنے بیان کی جائے گی۔ یہ ذکر میں نے اس لیے کیا ہے کہ آج جو کچھ ہو رہا ہے قارئین اس کے پس منظر کو سمجھ سکیں۔ چوتھے باب میں انشاء اللہ آپ الظواہری کی سرگرمیوں کی اصلیت کو جان سکیں گے۔ تمام توفیق اللہ تعالیٰ کی جانب سے ہے۔''
اول: قتل عام کے لیے ا لقاعدہ کا نظریہ کیسے وجود میں آیا؟
یہ نظریہ 1990ء کے عشرے میں وجود میں آیا اور اس کے لیے دونوں (بن لادن اور خالد شیخ محمد) کے اپنے اپنے مقاصد تھے لیکن یہاں ان مقاصد کے بارے میں بات کرنا برمحل نہیں ہو گا۔ یہ نظریہ 1990ء کے اواخر میں اس وقت عام ہوا جب اسامہ بن لادن اور خالد شیخ محمد کے امریکیوں کو بڑی تعداد میں ہلاک کرنے کے ارادوں میں ہم آہنگی پیدا ہوئی۔ انہوں نے اپنے ارادوں کو 11 ستمبر 2001ء کو عملی شکل دی اور شہریوں اور فوج کو بلاامتیاز بہت بڑی تعداد میں ہلاکت کا نشانہ بنا دیا۔
چونکہ اس نظریے میں شرعی خلاف ورزی ہو رہی تھی لہٰذا اس کا دینی جواز پیدا کرنے کی کوشش کی گئی اسے مسلمانوں میں جہاد فی سبیل اللہ قرار دے کر پھیلایا جائے گا۔ بن لادن نے 9/11 سے پہلے اور بعد میں اس کے لیے اپنا کردار ادا کیا اور اس کو جائز ثابت کرنے کے کام کو ایمن الظواہری کے سپرد کر دیا جس نے اپنی کتاب ''التبریہ'' کے ذریعے یہ کام انجام دیا۔
دوم: قتل عام کے بارے میں القاعدہ نظریے کے ارکان
امریکہ میں اور اس سے باہر امریکیوں کی بڑی تعداد میں ہلاک کرنے کے لیے القاعدہ کو بعض شرعی احکامات کی خلاف ورزی کرنا تھی۔ چنانچہ اس نے فاسد نظریات اور اصولوں کی تشکیل کی جن کو ا رکان کی حیثیت دی گئی اور اس کے ساتھ ساتھ ''فقہ التبریہ'' کے ذریعے جواز پیدا کیا گیا۔ یہاں ان میں سے چند اہم ارکان مختصراً بیان کیے جاتے ہیں:الف) امریکہ کے خلاف جنگ کو ایک ذاتی مخاصمت سے تبدیل کر کے مسلم امہ کا قضیہ بنا دیا گیا۔ بن لادن نے اس مقصد کے حصول کے لیے دو پہلوئوں کا سہارا لیا۔
ایک میڈیا اور پروپیگنڈا کا پہلو جس کے ذریعے فاسد پیغام پھیلایا گیا کہ مسلمانوں کی تمام تکالیف کا سبب امریکہ ہے۔ یہودیوں کو بھی اس کا حصہ بنایا جانا تھا کیونکہ عوام میں فلسطین کے مسئلے کو زیادہ توجہ حاصل ہے۔ اگرچہ بن لادن نے فلسطین کے لیے کچھ بھی نہیں کیا جس کی وجوہ میں انشاء اللہ تیسرے باب میں بیان کروں گا اور انشاء اللہ اس کی تردید بھی کی جائے گی۔
دوسرا شرعی اور فقہی پہلو، بن لادن نے زیادہ سے زیادہ تعداد میں مشائخ، خصوصاً پاکستان اور افغانستان کے مفتیوں سے 'امریکہ سے جنگ فرض ہے' پر فتوے حاصل کرنے کی کوشش کی تاکہ اسے ذاتی لڑائی کی بجائے امہ کی جنگ قرار دیا جا سکے۔ الظواہری نے اپنی کتاب التبریہ کے صفحات 39/40 پر اس کا حوالہ دیا ہے۔ چنانچہ انہوں نے ''خانہ کعبہ اور مسجد اقصیٰ کی آزادی کے لیے مسلم امہ کو اکسانے کے لیے اور امریکیوں کو حرمین، فلسطین اور دوسرے مسلمان ملکوں سے نکالنے کے لیے جہاد کی ضرورت پر فتاوٰی اور دستخط حاصل کیے۔
بن لادن نے یہ کام 9/11 سے پہلے کیا لہٰذا جب اس نے 9/11 کے حملوں کا ارادہ کیا تو اس نے ان مشائخ سے رجوع نہیں کیا جیسے کہ وہ پہلے ہی ان حملوں کے لیے فتویٰ جاری کر چکے ہوں۔ دراصل اس نے اپنے امیر ملا محمد عمر سے بھی مشورہ نہیں کیا اور نہ ہی اپنی شریعہ کمیٹی سے رجوع کیا۔ اس نے ان سب کی آنکھوں میں دھول جھونکی اور ان کے پیٹھ پیچھے یہ کارروائی کی۔
ب) امریکہ پر حملے کے لیے لوگوں کی زیادہ سے زیادہ حمایت حاصل کرنا
اور اس مقصد کے لیے الظواہری نے اپنی کتاب التبریہ میں ذیل کے تصورات کا انکار کیا ہے:
ایک مسلمان کے پاس اپنے دشمنوں سے مقابلے کے لیے اپنی استطاعت اور حالات کے مطابق کئی راستے ہیں۔
جہاد کے لیے شرائط اور موانع اور اس میں کامیابی کے لوازمات۔ الظواہری ہرایک کو ہر جگہ لڑانا چاہتا ہے اور کوئی موقع نہیں دیتا نہ حالات اور شرائط کی پرواہ کرتا ہے۔ وہ اس کے لیے دروغ گوئی کرتا ہے کیونکہ وہ اور اس کے قائدین بن لادن سب سے پہلے دشمن کے مقابلے سے بھاگے تھے۔ اس کے بارے میں ہم انشاء اللہ آئندہ بات کریں گے۔
ج) امیر اور اس ملک کے حکمراں کی اجازت سے چشم پوشی جہاں پناہ دی گئی ہو۔
انہوں نے ملا عمر کی اطاعت کا حلف اٹھایا تھا جو افغانستان کے امیر المومنین تھے جہاں انہیں پناہ دی گئی تھی۔ شریعہ کی رو سے ان کی اجازت، خاص طور پر جہاد کے لیے اجازت حاصل کرنا لازمی تھا۔ القاعدہ کو علم تھا کہ مُلّا محمد عمر امریکہ سے تصادم نہیں چاہتے تھے اور یہ کہ انہوں نے اس معاملے میں سختی سے وضاحت کر دی تھی۔ لہٰذا بن لادن نے اس سے بچنے کے لیے 'امارت کے مقام' کی اختراع کی یعنی کہ وہ ملا عمر کی اطاعت کے صرف افغانستان کے اندر پابند ہیں اس سے باہر نہیں۔ اس بات پر بن لادن اور اس کی شریعہ کمیٹی کے درمیان 9/11 سے پہلے شدید اختلاف رائے ہوا۔ اس نے کمیٹی کو جون 2001ء سے بتا رکھا تھا کہ امریکہ کے خلاف بہت بڑی کارروائی کی جائے گی لیکن مقام اور دیگر تفصیلات خفیہ رکھی گئی تھیں۔ اس کی شریعہ کمیٹی نے اس بنیاد پر اس کی مخالفت کی کہ ملا محمد عمر کی اجازت ضروری ہے۔ بن لادن نے اسے مسترد کر دیا اور امارت کا مقام کی اختراع کر ڈالی۔ اس پر انشاء اللہ ہم آئندہ روشنی ڈالیں گے۔
د) امریکیوں کے قتل عام کے لیے القاعدہ نے تمام شرعی موانع کو مٹانا چاہا
اس مقصد کے لیے انہوں نے درج ذیل نکات مرتب کیے جن میں سے اکثر الظواہری نے اپنی کتاب التبریہ کے صفحات 4,74,79,98 اور 110 سے 154 تک بطور جواز نقل کیے ہیں۔
وہ یہ ہیں:
o دور دراز دشمن (امریکہ) سے جنگ قریب موجود دشمن سے زیادہ اہم ہے۔
o کفار کے ملکوں میں ارتداد اور قومیت کی بنیاد پر مسلمانوں کا قتل واجب ہے کیونکہ قومیت اس کافر ملک کے قوانین پر رضا مندی کی دلیل ہے۔
o کفار کو ٹیکس ادا کرنے والوں کے قتل کی اجازت ہے کیونکہ وہ جنگ میں دشمن کا ساتھ دیں گے۔
o کفار کے زیر اثر افراد کا قتل یعنی کفار کے ملکوں میں عام شہریوں کے قتل کا جواز ہے۔
o کفار کے ساتھ اختلاط رکھنے والے مسلمانوں کا قتل جائز ہے۔
o برابر کے بدلے کی بنیاد پر بلا امتیاز قتل عام کا جواز۔
o امریکہ سے جنگ اپنے دفاع میں ہے اس لیے والد وغیرہ کی اجازت کے بغیر اس مقصد کے لیے امریکہ کا سفر جائز ہے۔
o کفار کے ملک میں داخلے کے لیے ویزا کا مطلب مسلمانوں کے تحفظ کی ضمانت نہیں ہے لہٰذا وہ وہاں قتال کا جواز رکھتے ہیں۔
o اگر یہ ویزا تحفظ کی ضمانت بھی دیتا ہو تب بھی وہ اس کی خلاف ورزی کر سکتا ہے۔ اس کی وجہ بعد میں بتائی جائے گی۔
o مسلمانوں کے ملک میں داخلے کے لیے ویزا کے ساتھ تحفظ کی ضمانت نہیں ہوتی لہٰذا ان کا قتل یا اغوا جائز ہے۔
ھ) القاعدہ کی طرف سے اپنے ناقدین کی تکذیب۔
القاعدہ نے اپنے مجرمانہ نظریوں پر تنقید کرنے والوں کے خلاف کئی دفاعی نکات اختراع کیے۔ ان میں:
o سوائے قائدین جہاد کے ان امور پر کوئی اور ا ظہار خیال کا مجاز نہیں ہو گااور قائدین پہاڑوں اور غاروںمیں جا چھپے ہیں۔ یہ بھی ان کی اختراع تھی۔
o جو ان پر تنقید کرتے ہیں وہ دراصل جہاد کے مخالف ہیں اس طرح وہ مجاہدین پر حملوں اور امہ کو ایذا پہنچانے میں معاونت کرتے ہیں۔
o ان پر تنقید کرنے والے صلیبی صیہونیوں کے مقاصد کی تکمیل کر رہے ہیں، اس میں جہاد کی توجیہہ کے بارے میں لکھا گیا مضمون شامل ہے۔ اگرچہ الظواہری نے اعتراف کیا ہے کہ میں نے مضمون میں جس بات کی مذمت کی تھی۔ میں پہلے بھی 1993ء میں اپنی کتاب الجامع میں اور اس کی اشاعت سے پہلے بھی کر چکا تھا۔
تیسراحصہ
سوئم: قتل عام کے لیے القاعدہ کے نظریے کی اسا س پر تنقید:
مضمون میں ان دلیلوں کا جواب دیا گیا ہے جن کی بنیاد پر القاعدہ نے امریکیوں کے قتل اور وہ بھی قتل عام سے شروعات کی ضرورت پر زور دیا ہے۔ میں اس کا مختصراً اور بالترتیب حوالہ دوںگا لیکن اس ترتیب سے نہیں جس سے وہ اوپر نکتہ دوم میں بیان کیے گئے ہیں۔ مضمون، پریس انٹرویو اور یہ یادداشت مل کر ایک بن جاتے ہیں۔
آیئے ان کی اس دلیل کی طرف کہ 'امریکہ اور یہود مسلمانوں کے تمام مصائب کے ذمے دار ہیں'
بن لادن اسے ان کے خلاف مسلمانوں کو اپنے ساتھ اکٹھا کرنے کے لیے استعمال کرتا ہے تاکہ اپنی ذاتی مخالفت کو 'جسے وہ ہر بات پر ترجیح دیتا ہے' امہ کا مسئلہ بنا سکے۔ یہ دلیل واضح طور پر غلط ہے ا ور قرآن کے خلاف ہے۔
اے مسلمان ساتھیو! بن لادن تمہاری عقل کو غلط راہ پر ڈال رہا ہے کیونکہ مسلمانوں کے مصائب کا سبب خود مسلمان ہیں۔ یہ خود اللہ کا کلام ہے اور جو اس سے انکار کرے وہ کفر کا مرتکب ہو گا۔ جب مسلمانوں کو احد میں شکست ہوئی تو اللہ تعالیٰ نے ان سے یہ نہیں فرمایا کہ یہ کفار قریش کی وجہ سے ہوا ہے بلکہ فرمایا کہ یہ ان کے اپنے گناہوں کا نتیجہ ہے۔ یہ ان لوگوں کا معاملہ تھا جو امت محمد ۖ کی بہترین قوم تھے۔ آپ ۖ نے فرمایا 'میرے صحابہ میری امت کے بہترین افراد ہیں' یہ ایک متفقہ حدیث ہے۔ توان کے بعد آنے والوں کے بارے میں کیا کہا جا سکتا ہے؟ فرمان الٰہی ہے کہ ''بے شک وہ جو تم میں سے پھر گئے جس دن دونوں فوجیں ملی تھیں، انہیں شیطان ہی نے لغزش دی'' (سورہ آل عمران، آیت 155)۔ اس غزوہ میں ان کی شکست پر اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ ''کیا جب تمہیں کوئی مصیبت پہنچے کہ اس سے دونی تم پہنچا چکے ہو تو کہنے لگو کہ یہ کہاں سے آئی۔ تم فرما دو کہ یہ تمہاری طرف سے آئی''(سورہ آل عمران، آیت 165)۔ اور اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ''اور جو مصیبت تم پر آتی ہے سو تمہارے اپنے کرتوتوں سے'' (سورہ الشورٰی، آیت 30)۔ مسلمانوں کے مصائب ان کے داخلی سبب سے ہیں نہ کہ امریکہ کی وجہ سے۔ یہ اللہ کا کلام ہے اور جو اس سے انکار کرے وہ کفر کر رہا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے ''اور ہماری آیتوں سے وہی انکار کرتے ہیں جو ہیں ہی کافر'' (سورہ العنکبوت، آیت 47)۔
سو یہ کتاب اللہ جو واضح طور سے کہتی ہے کہ مسلمانوں کے مصائب ان کے اپنے کرتوتوں کی وجہ سے ہیں، کفار کی وجہ سے نہیں۔ اس کی تصدیق حدیث مبارکہ سے بھی ہوتی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ ایک کافر دشمن اس وقت ہی مسلمانوں پر غالب آ سکتا ہے جب مسلمان خود داخلی طور پر بگاڑ کا شکار ہو جائیں۔ جیسا کہ امام احمد سے روایت ہے جس کی سند شداد بن اوس سے ہے کہ رسول اللہ ۖ نے فرمایا ''ارشاد باری تعالیٰ ہے 'اے محمد! اگر میں کوئی فیصلہ کر لوں تو اسے رد نہیں کیا جا سکتا۔ میں نے تمہاری امت کو یہ عطیہ دیا ہے کہ میں اسے کسی عام سبب سے ہلاک نہیں کروں گا اور اس کے خلاف کسی ایسے دشمن کو ہلاکت کا موقع دوں گا جو خود امہ میں سے نہ ہو۔ یہاں تک کہ ان میں سے بعض خود بعض کو ہلاک کریں گے، بعض خود بعض کو قتل کریں گے اور بعض دوسروں کو ضرر پہنچائیں گے۔''(حدیث)
ابن کثیر سے مروی ہے اور یہ قوی حدیث ہے کہ جس کی سند ابن مردویہ نے ثوبان سے دی ہے اور یہ کلام الٰہی کی تفسیر ہے۔ ''کہہ دو کہ وہ اس پر بھی قدرت رکھتا ہے کہ تم پر اوپر کی طرف سے یا تمہارے پائوں کے نیچے سے عذاب بھیجے یا تمہیں فرقہ فرقہ کر دے اور ایک کودوسرے سے بھڑا کر آپس کی لڑائی کا مزہ چکھا دے۔'' (سورہ الانعام، آیت 65)۔ اور تفسیر کا یہ جملہ 'دشمن جو ان میں سے نہیں' کا اشارہ مشرکین کی طرف ہے جیسا کہ تفسیر ابن کثیر کے باب 2 کے صفحات 142-141 پر الطبرانی نے علی سے روایت کی ہے۔
اس لیے جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ مسلمانوں پر مصائب امریکہ یا یہود کی وجہ سے آئے ہیں وہ قرآن اور سنت کی تردید کرتے ہیں۔ لیکن بن لادن اور الظواہری اور ان کے ساتھی اسے نہیں سمجھتے اور چیزوں کے ظاہر کو دیکھتے ہیں ان کی حقیقت پر غورنہیں کرتے اور انہیں شرع کا علم نہیں ہے۔
جیسا کہ عمر ابن الخطاب نے اپنے لشکر کو ہدایات دیتے ہوئے فرمایا کہ درحقیقت مسلمانوں کے گناہوں پر سزا دینے کے لیے اللہ تعالیٰ کفار کو اکساتا ہے۔ جب اللہ کی راہ میں لڑنے نکلو تو کوئی ایسا کام نہ کرنا جس سے اللہ تعالیٰ ناراض ہو، اور یہ نہ کہنا کہ ہمارا دشمن ہم سے بدتر ہے تو وہ تم پر غالب نہیں کیا جائے گا۔ کیونکہ بعض لوگوں پر بدتر لوگ مسلط کر دیئے گئے جیسے کہ مجوسی کفار کو اس وقت بنی اسرائیلیوں پر مسلط کر دیا گیا جب انہوں نے اللہ تعالیٰ کی ناراضی مول لے لی۔ وہ شہریوں کے اندر پھیل گئے اور وہ وعدہ پورا ہو کے رہا''۔ (سورہ الاسرا، آیت 5)
جب نصرانی ہسپانویوں نے اندلس کے علاقے فتح کرنا شروع کیے تو مسلمانوں کے آپس میں برسرپیکار منقسم امرا نے امیرِ مراکش یوسف بن تاشفین سے مدد طلب کی۔ وہ اپنے لشکر کے ساتھ ان کی مدد کو آئے اور ہسپانویوں کو شکست دی۔ جب وہ مراکش واپس جانے لگے تو امرا نے ان سے کچھ فوج اندلس میں چھوڑ جانے کے لیے کہا۔ اس پر ابن تاشفین نے جواب دیا ''اپنی نیت میں اخلاص رکھو اللہ تمہارے دشمنوں کے لیے کافی ہے۔''
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ مسلمانوں کے لیے مصائب ان کی اپنی وجہ سے ہیں۔ بن لادن اور الظواہری کا کہنا ہے کہ یہ مصائب امریکہ کی وجہ سے ہیں۔ اب دیکھتے ہیں کہ مسلمان کس کا اتباع کرتے ہیں؟ اللہ کا یا بن لادن اور الظواہری کا؟ ارشاد باری ہے ''لوگو جو کتاب تم پر تمہارے پروردگار کے ہاں سے نازل ہوئی ہے اس کی پیروی کرو اور اس کے سوا اور رفیقوں کی پیروی نہ کرو اور تم کم ہی نصیحت قبول کرتے ہو۔'' (سورہ الاعراف، آیت 3) الظواہری کی کتاب التبریہ کا بیشتر حصہ مسلمانوں کے ذہن میں اس فاسد خیال کے بیج بونے پر صرف ہوا ہے تاکہ ان کے (القاعدہ کے) کئے کا جواز دیا جا سکے اور ان کے ناقدین پر ضرب لگائی جا سکے۔
فلسطین کو کس نے گنوایا؟ یہ عرب تھے جنہوں نے عثمانیوں سے جنگ کی اور جنگ عظیم اول میں انہیں فلسطین سے نکال دیا اور پھر اسے 1916ء میں برطانیہ کے حوالے کر دیا۔ برطانیہ نے اسے 1917ء میں بالفور معاہدے کے تحت اسرائیلیوں کو سونپ دیا۔
آج فلسطینیوں کو کون قتل کر رہا ہے، خاص طور پر ان کے رہنمائوں کو؟ یہ فلسطینی خود ہیں جو اسرائیل کے ایجنٹ بن کر ان کو دوسرے فلسطینیوں کی خبریں پہنچاتے ہیں تاکہ اسرائیل جسے چاہے ہلاک کر سکے۔
مغربی کنارے میں آج یہودی مقبوضات کی تعمیر کون کر رہا ہے تاکہ اسرائیل کا قبضہ مستحکم کیا جا سکے؟ وہ فلسطینی مزدور ہیں۔
افغانستان میں 2001ء میں امریکہ کے داخلے کو کس نے ممکن بنایا؟ بن لادن اور الظوہری نے۔ کیوبا میں مسلمانوں کو قید کرنے کے لیے امریکی گوانتانا موبے کیمپ کس نے بنوایا؟ الظواہری کی حماقت نے۔
قدیم بغداد میں مغلوں کا داخلہ 1258ء میں کس نے ممکن بنایا؟ وہ وزیر ابن القمی تھا۔
آج کے بغداد میں 2002ء میں امریکہ کیسے داخل ہو پایا؟ یہ سینئر عراقی فوجی افسروں کی غداری تھی۔
لبنان میں لبنانیوں کا 15 سال (1975ء سے 1990ئ) تک خون کس نے بہایا؟ خود لبنانیوں نے۔
کس نے 1990ء میں کویت پر قبضہ کر کے اس کے عوام کو ہلاک کیا؟ وہ عراقی تھے امریکہ یا اسرائیل نہیں تھا۔
آج دارفور میں لاکھوں سوڈانیوں کو کون موت کے گھاٹ اتار رہا ہے؟ خود سوڈانی ایک دوسرے کا گلا کاٹ رہے ہیں۔
یمنی بھی یہی کرر ہے ہیں۔
عراق کے کویت پر حملے کے بعد امریکیوں کی سعودی عرب میں موجودگی کے جواز سے قطع نظر، 1990ء کے بعد سے اب تک ا مریکیوں کے ہاتھوں وہاں ایک بھی مسلمان کی ہلاکت نہیں ہوئی۔ جبکہ القاعدہ نے سعودی عرب میں مسلمانوں کو قتل کیا ہے۔
کینیا، افغانستان، عراق، سعودی عرب، الجزائر، پاکستان یا اور کہیں چند سال میں جتنے افراد القاعدہ کے ہاتھوں ہلاک یا بے گھر ہوئے ہیں ان کی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے جو اسرائیل کے ہاتھوں 60 سال میں فلسطین یا اس کے اردگرد کے علاقوں میں ہلاک یا بے گھر ہوئے ہیں۔ لہٰذا یہ بیان کہ القاعدہ مسلمانوں کا دفاع کر رہی ہے ایک 'خرافات' ہے۔ دراصل وہ مسلمانوں کو ہلاکت میں ڈالتی ہے اور ان کی بربادی کا سبب بنتی ہے۔ الظواہری اور اس کے قائد بن لادن مسلمانوں کی عقلوں پر پردہ ڈال رہے ہیں۔
اسی طرح یہ کہنا کہ القاعدہ اسلام کا دفاع کر رہی ہے ایک 'خرافات' ہے۔ دراصل وہ دینی اصولوں کو پامال اور احکامات الٰہی سے انکار کر رہی ہے۔ کیا جو شخص دین سے بے بہرہ ہو دین کا دفاع کر سکتا ہے؟
ایسی کئی مثالیں ہیں اور ارشاد باری کی تصدیق کرتی ہیں کہ ''یہ تمہاری ہی شامت اعمال ہے'' (سورہ آل عمران، آیت 165)
لیکن دوسروں کو الزام دینا اور اپنی کمزوریوں پر پردہ ڈالنا جیسے کہ بن لادن اور الظواہری کرتے ہیں شیطانی فعل ہے۔ جیسا کہ ارشاد باری ہے ''اس (ابلیس) نے کہا پروردگار جیسا تو نے مجھے بھٹکایا ہے میں بھی زمین میں لوگوں کے لیے گناہوں کو آراستہ کر کے دکھائوں گا اور سب کو بہکائوں گا۔ ہاں ان میں جو تیرے مخلص بندے ہیں ان پر میرا قابو چلنا مشکل ہے (سورہ الحجر، آیت 39-40)۔ ابلیس نے سمجھا کہ وہ اللہ کی وجہ سے لوگوں کو گمراہ کرتا ہے نہ کہ اپنی شیطانی فطرت کی وجہ سے جسے وہ خطائوں سے پاک گردانتا ہے۔
اس صداقت کی تصدیق میں ابن تیمیہ رحمة اللہ علیہ کہتے ہیں
ان کے شاگرد ابن قیم رحمتہ اللہ علیہ کہتے ہیں''اگر مسلمانوں میں کمزوری ہو اور ان کے دشمنوں کا پلہ ان پر بھاری ہو تو یہ ان کی غلط کاریوں اور گناہوں کی وجہ سے ہوتا ہے۔ فرائض سے باطنی اور ظاہری غفلت کے سبب سے ہوتا ہے۔'' ارشاد باری ہے۔ اس کے بعد ابن تیمیہ نے سورہ آل عمران اور سورہ الشورٰی کی آیات قرآنی دہرائیں۔ ( از مامون الفتاوی۔645/11)
اگر صورتحال یہ ہے تو مسلمانوں کی اصلاح مسلمانوں کے اندر سے ہی شروع ہو گی۔ جیسا کہ ارشاد باری ہے '' اللہ اس قوم کی حالت کو نہیں بدلتا جب تک وہ خود اپنی حالت کو نہ بدلے'' ( سورة الرعد۔ آیت 11)میں نے خود اسلامی گروپوں کے اندر اس کی کوشش کی تھی۔'' اللہ تعالیٰ نے اپنے دین، اپنی جماعت اور اپنے اولیا کے لئے کامیابی کی ضمانت دی ہے جو اپنے علم اور عمل کے ذریعے اس کے دین پر قائم رہتے ہیں۔ اس نے باطل کے لئے فتح کا یقین نہیں دلایا۔ خواہ غلط کار خود کو راستی پر بھی کیوں نہ سمجھ رہا ہو۔ اس لئے جب اللہ کا کوئی بندہ کسی ذاتی یا مالی مصیبت میں گرفتار ہوتا ہے تو اپنے گناہوں کے سبب سے ہوتا ہے جو یا تو اپنے فرائض سے غفلت یا کسی ممنوعہ فعل کا نتیجہ ہوتا ہے۔ اور یہ اس کے ایمان میں خلل کے سبب سے ہوتا ہے'' اس کے بعد ابن قیم نے مندرجہ بالا آیات دہرائیں۔(از اغاثة اللھفان من مصاید الشیطان( 178.179/2)۔
الظواہری نے اعتراف کیا ہے کہ میں نے اپنی کتاب الجامع میں ان لوگوں پر تنقید کی تھی جس کا حوالہ اس نے التبریہ کے صفحہ 10 پر دیا ہے۔ میں نے اصلاح کی کوشش کی جو ناکام رہی۔ وہ اپنے غلط موقف پر ڈٹے رہنے پر اصرار کرتے رہے، ان کے پاس اس کے لئے کوئی دینی شہادت نہیں تھی سوائے بہادرانہ تقریروں کے، اسی قسم کی تقریریں جن سے الظواہری کی کتاب التبریہ بھری پڑی ہے۔ جب انہوں نے میرے مشوروں پر کان نہیں دھرے تو میں نے خود کو رسول اللہ ۖکی پیروی میں ان سے الگ تھلگ کر لیا جن ۖ کا فرمان ہے '' اگر تم گمان کی پیروی ہوتے دیکھو ، بخیلی کا مظاہرہ ہوتے دیکھو، دنیا کو اہمیت دی جا رہی ہو، اگر تم دیکھو کے صاحب الرائے کو اپنی رائے پر ناز ہے تو خود کو الگ کر لو اور عوامی معاملات سے دوررہو'' ( روایت ابو داؤداور ترمذی)۔
بن لادن اور الظواہری کی دینی شعائر کی خلاف ورزیاں اس حد تک بڑھیں کہ ایک مجاہد ڈاکٹر احمد الجزائری نے جو شیخ ابو محمد المقدسی کے شاگرد ہیں، 1992 میں ایک اجلاس کے دوران ان کے خلاف کفر کا فتوی صادر کر دیا۔