سعودی عرب کے بارے سعودی سلفی علماء کا کہنا یہ ہے کہ وہاں دوسرے اسلامی ممالک کی طرح سوائے انتظامی معاملات کے کوئی باقاعدہ وضعی قانون نافذ نہیں ہے بلکہ قرآن وسنت کو سپریم لاء کی حیثیت حاصل ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ سعودی سلفی علماء کی اکثریت قانون سازی کے عمل ہی کو حرام قرار دیتی ہے' چاہے وہ فقہ حنبلی یا فقہ حنفی ہی کے مطابق کیوں نہ ہو اورسعودیہ کے حکمرانوں کو دوسرا امتیاز یہ حاصل ہے کہ وہ اہل توحید میں سے ہیں اور توحید الوہیت کو نافذ کرنے والے ہیں۔ شیخ بن باز رحمہ اللہ سعودی حکمرانوں کی تکفیر اور ان کے خلاف خروج کے لٹریچر پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
''أما ما یقوم بہ الآن محمد المسعری وسعد الفقیہ و أشباھھما من ناشری الدعوات الفاسدة الضالة فھذا بلا شک شر عظیم وھم دعاة شر عظیم وفساد کبیر والواجب الحذر من نشراتھم والقضاء علیھا واتلافھا وعدم التعاون معھم فی أی شیء یدعواا لی الفساد والشر والباطل والفتن لأن اللہ أمر بالتعاون علی البر والتقوی لا بالتعاون علی الفساد والشر ونشر الکذب ونشر الدعوات الباطلة التی تسبب الفرقة واختلال الأمن ا لی غیر ذلک؛ ھذا النشرات التی تصدر من الفقیہ أو من المسعری أو من غیرھما من دعاة الباطل ودعاة الشر والفرقة یجب القضاء علیھا واتلافھا وعدم الالتفات الیھا ویجب نصیحتھم وارشادھم للحق وتحذیرھم من ھذا الباطل ولا یجوز لأحد أن یتعاون معھم فی ھذا الشر ویجب أن ینصحوا وأن یعودواا لی رشدھم وأن یدعوا ھذا الباطل و یترکوہ ونصیحتی للمسعری والفقیہ وابن لادن وجمیع من یسلک سبیلھم أن یدعوا ھذا الطریق الوخیم وأن یتقوا اللہ ویحذروا نقمتہ وغضبہ وأن یعودواا لی رشدھم وأن یتوبوا الی اللہ مما سلف.''(مجموع فتاوی ومقالات : جلد٩' ص ١٠٠(
''فساد اور گمراہی پر مبنی افکار و دعوت پھیلانے والوں میں سے محمد المسعریاور سعد الفقیہ جیسے لوگ بھی شامل ہیں جواپنی دعوت لے کر کھڑے ہوئے ہیں۔بلاشبہ ان کی دعوت ایک بہت بڑا شر ہے اور یہ لوگ بھی ایک بڑے شر اور فتنے و فساد کے داعی ہیں۔پس یہ لازم ہے کہ ان کی تحریروں سے بچا جائے اور ان کے نظریات کے خلاف فیصلہ کیا جائے اور ان کی کتابوں کو تلف کیا جائے اور ان کے ساتھ ہر اس کام میں عدم تعاون کیا جائے جو فتنے، فساد، باطل اور شر کی طرف لے کر جانے والاہے۔کیونکہ اللہ تعالی نے نیکی اور تقوی کے کاموں میں تعاون کا حکم دیا ہے اور فساد، شر، جھوٹ کی اشاعت اورایسے باطل افکار جو تفرقے اور امن و امان کی خرابی وغیرہ کا سبب بنتے ہوں، کی اشاعت سے منع فرمایا ہے۔ یہ تحریریں جو سعد الفقیہ اور مسعری وغیرہ، جو شر،باطل اور امت میں تفرقے کے داعی ہیں، کی طرف سے شائع ہوتی ہیں، ان تحریروں کے خلاف فتوی دینااور ان کو تلف کرنا اور ان کی طرف عدم التفات واجب ہے۔اور ان لوگوں کو نصیحت کرنا اور ان کی حق بات کی طرف رہنمائی اور ان کو ان باطل افکار سے ڈرانا بھی ایک شرعی فریضہ ہے۔کسی بھی شخص کے لیے یہ جائز نہیں ہے کہ وہ ان لوگوں کے ساتھ اس شرمیں تعاون کرے اور ان لوگوں پر یہ لازم ہے کہ وہ نصیحت حاصل کریں اورہدایت کے رستے کی طرف پلٹ آئیں اور اس باطل کو چھوڑ دیں۔مسعری، فقیہ اور اسامہ بن لادن اور جوشخص بھی ان کے رستے کو اختیار کرے، کو میری (یعنی شیخ بن باز کی)نصیحت یہ ہے کہ وہ اس گندے رستے کو چھوڑ دیں اور اللہ سے ڈریں اور اللہ کے انتقام اور غضب سے بچیں اور رشد و ہدایت کی طرف لوٹ آئیں اور جوکچھ ہو چکا اس سے اللہ کی جناب میں توبہ کریں کیونکہ اللہ سبحانہ و تعالی نے اپنے بندوں کی توبہ قبول کرنے اور ان کے ساتھ احسان کا وعدہ فرمایا ہے۔''
شیخ صالح العثیمین رحمہ اللہ سعودی حکمرانوں کی تکفیر اور عیوب کے بارے رائج لٹریچر پر تبصرہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
''ولقد انتشر فی الآونة الآخیرة نشرات تأتی من خارج البلاد وربما تکتب فی داخل البلاد ' فیھا سب ولاة الأمور والقدح فیھم ولیس فیھا ذکر أی خلصة من خصال الخیر التی یقومون بھا وھذہ بلا شک من الغیبة و ذا کانت من الغیبة فقراء تھا حرام وکذلک تداولھا حرام ولا یجوز أن یتداولھا ولا أن ینشرھابین الناس وعلی من رآھا أن یمزقھا أو یحرقھا لأن ھذہ تسبب الفتن تسبب الفوضی تسبب الشر ولقد حذر مفتی ھذہ المملکة شیخنا عبد العزیز بن باز وفقہ اللہ ورحمہ بالدنیا والآخرة.'' (فتاوی فی التکفیر والخروج علی ولاة الأمر : ص ٢١(
''آج کل مملکت عربیہ اور دوسرے ممالک سے کچھ ایسی چیزیں نشر ہو رہی ہیں جن میں سعودی حکمرانوں کو بر ابھلا کہا جاتا ہے اور ان پر طعن کیا جاتا ہے اور ان نشریات میں ان کی کسی ایسی بھلائی یا اچھی خصلت کا تذکرہ تک نہیں ہوتا جسے وہ قائم کرتے ہیں اور یہ بلاشبہ غیبت میں شامل ہے۔ پس جبکہ یہ غیبت ہے تو اس کا پڑھنا بھی حرام ہے اور اسی طرح اس کا آگے پھیلانا بھی حرام ہے۔ ایسی نشریات کا پھیلانا یا ان کو عوام الناس کے مابین عام کرنا جائز نہیں ہے اور جو بھی شخص ایسی نشریات دیکھے وہ انہیں پھاڑ دے یا پانی میں بہا دے کیونکہ یہ فتنے، شر اور انتشار کا سبب بنتی ہیں اور مملکت عربیہ کے مفتی اعظم شیخ بن باز اس بارے متنبہ کر چکے ہیں کہ ان نشریات کو پھاڑ دینا چاہیے۔ اللہ شیخ پر دنیا اور آخرت میں رحم فرمائے۔''
شیخ صالح الفوزان، اسامہ بن لادن کی سعودی حکمرانوں کی تکفیر اور ان کے خلاف خروج کے بارے فرماتے ہیں:
'' السوال: لایخفی علیکم تاثیر أسامہ بن لادن علی الشباب فی العالم ' فالسوال ھل یسوغ لنا أن نصفہ أنہ من الخوارج لا سیما أنہ یؤید التفجیرات فی بلادنا وغیرھا؟ الجواب: کل من اعتق ھذا الفکر ودعا لیہ وحرض علیہ فھو من الخوارج بقطع النظر عن اسمہ وعن مکانہ فھذہ قاعدة أن کل ما دعا الی ھذا الفکر و ھو الخروج علی ولاة الأمور وتکفیر واستباحة دماء المسلمین فھو من الخوارج.''(فتاوی فی التکفیر والخروج علی ولاة الأمر : ص ٢٥(
''سوال: آپ پر نوجوان نسل میں اسامہ بن لادن کی شخصیت کی تاثیر مخفی نہیں ہے۔ پوچھنا یہ ہے کہ کیا ہمارے لیے یہ جائز ہے کہ ہم ان کو خوارج میں شمار کریں خاص طورپر اس وجہ سے کہ وہ ہمارے ممالک اور اس کے علاوہ مسلمان ممالک میں خود کش دھماکوں کی تائید کرتے ہیں۔
جواب: جس کا بھی یہ فکر ہو اور جو بھی اس فکر کا داعی ہو اور اس کی لوگوں کو ترغیب دے تو خوارج میں سے ہے ، چاہے اس کا نام یا اس کا مقام کچھ بھی ہو۔ قاعدہ کلیہ یہ ہے کہ جو شخص بھی اس فکر کا داعی ہو یعنی مسلمانوں حکمرانوں کے خلاف خروج۔ ان کو کافر قرار دینے اور مسلمانوں کے خون کو مباح سمجھتا ہو تو وہ خارجی ہے۔''
شیخ عبد العزیز آل الشیخ' اسامہ بن لادن کی سعودی حکمرانوں کی تکفیر اور ان کے خلاف خروج کے بارے فرماتے ہیں:
''السوال :ھل یجوز أن یقال أن ابن لادن ضال وھل یجوز للمسلمین الذین لیس عندھم علم کاف أن یستمعوا الی خطابتہ فی الأنترنت؟ الجواب: یا اخوانی ھؤلاء ھم سبب الشر والفساد وھم لا شک ضالون فی طریقتھم.'' (فتاوی فی التکفیر والخروج علی ولاة الأمر : ص ١٨' ١٩(
''سوال: کیا یہ جائز ہے کہ یہ کہاجائے کہ سعودی حکمرانوں کی تکفیر اور ان کے خلاف خروج کا فتوی دینے کی وجہ سےاسامہ بن لادن ایک گمراہ آدمی ہے اور کیا جاہل مسلمانوں کے لیے یہ درست ہے کہ وہ انٹرنیٹ وغیرہ پر اس کےایسےخطابات سنیں جو مسلمان حکمرانوں کی تکفیر اور ا ن کے خلاف خروج پر ابھارتے ہوں؟
جواب: میرے بھائیو! یہ لوگ شر و فساد کی جڑ ہیں اور اس میں کوئی شک نہیں ہیں کہ یہ گمراہ ہیں۔''
ہیئہ کبار العلماء نے بھی سعودی حکمرانوں کی تکفیر اور ان کے خلاف خروج کے قائلین کو متنبہ اورخبردار کیا ہے۔ شیخ صالح الفوزان لکھتے ہیں:
'' السوال : لماذا لا تصدر فتاوی من کبار العلماء تحذر من رؤوس الخوارج مثل بن لادن والفقیہ والظواھری حتی لا یغتر بھم کثیر من الناس. الجواب : ظھر من ھیئة کبار العلماء عدة قرارات بالتندید من ھذہ الأعمال و أصحابھا .''( فتاوی فی التکفیر والخروج علی ولاة الأمر :ص ٢٥(
''سوال: کبار علماء کی طرف سے ایسے فتاوی جاری کیوں نہیں ہوتے جن میں خارجیوں کے سرغنہ اسامہ بن لادن، سعد الفقیہ اور ایمن الظواہری وغیرہ کے بارے لوگوں کی رہنمائی کی جائے تا کہ ان کی وجہ سے لوگوں کی اکثریت دھوکے کا شکار نہ ہو جائے۔
جواب: ہیئہ کبار العلماء کی طرف سے ان اصحاب اور ان کے اعمال و افعال کی مذمت میں کئی ایک قرار دادیں پاس ہو چکی ہیں۔''
شیخ صالح اللحیدان، اسامہ بن لادن اور ان کی تنظیم کی سعودی حکمرانوں کی تکفیر اور ان کے خلاف خروج کی تحریک کے بارے فرماتے ہیں:
''ما موقف المسلم من تنظیم القاعدة ومنھجھا الذی یتزعمہ أسامة بن لادن.الجواب: لا شک أن ھذا التنظیم لا خیر فیہ ولا ھو فی سبیل صلاح وفلاح...ثم ھذا التنظیم ھل نظم لقتال الکفار وخراجھم من بلاد الاسلام والتوجہ الی البلاد التی ترزح تحت دول غیرا سلامیة لنشر الدین فیھا أو ھذہ القاعدة تحت الشعوب فی أوطانھا علی الخروج علی سلطانھا لیحصل بذلک سفک دماء وھدار حقوق وتدمیر منشآت واشاعة خوف.''(فتاوی فی التکفیر والخروج علی ولاة الأمر : ص ٣٠(
'' ایک مسلمان کی القاعدہ نامی تنظیم اور اس کے منہج کے بارے کیا رائے ہونی چاہیے جس کی سربراہی جناب اسامہ بن لادن فرما رہے ہیں؟
جواب: اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ اس تنظیم میں کوئی خیر نہیں ہے اور نہ ہی یہ اصلاح اور فلاح کے رستے پر ہے... سوال یہ ہے کہ کیا یہ تنظیم کفار سے قتال اور ان کافروں کو مسلمان ممالک سے نکالنے یا ان اسلامی ممالک کی طرف توجہ دینے کے لیے کہ جو کافر حکومتوں کے بوجھ تلے دبے ہوئے ہیں تاکہ ان میں دین اسلام کی نشر و اشاعت کی جائے، منظم کی گئی ہے یا اس تنظیم القاعدہ کا اصل کام مسلمان ممالک میں مسلمان حکمرانوں کے خلاف خروج ہے تاکہ اس سے دونوں طرف سے مسلمانوں کا خون بہے،حقوق تلف ہوں، تنصیبات تباہ ہوں اور مسلمان معاشروں میں خوف و ہراس پھیل جائے۔''
ان فتاوی کو دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ اسامہ بن لادن کی مسلمان حکمرانوں کی تکفیراور ان کے خلاف خروج کی تحریک کو سلفی اہل علم کے طبقے میں ذرا برابر بھی اہمیت حاصل نہیں ہے۔ بعض مجاہدین کا کہنا ہے کہ اسامہ بن لادن سعودی حکمرانوں کی تکفیر اور ان کے خلاف خروج کے خلاف تھے یہاں تک انہیں أیمن الظواہری کی صحبت نصیب ہوئی اور أیمن الظواہری نے ان میں یہ تکفیری فکر کی بنیاد ڈالی اس کی گواہی شیخ عبد اللہ عزام کے اہل خانہ نے دی ہے۔ أیمن الظواہری مصری ہیں اور 'جماعة التکفیر والھجرة'سےمتاثر ہیں۔ یہ بات بھی نوٹ کرنے کے قابل ہے کہ تکفیر کی تحریک کے اکثر قائدین یا تو دینی و شرعی علوم سے ناواقف ہیں یا پھرغیر معروف علماء میں سے ہیں ۔ مثلاً محمد المسعری ایک میڈیکل ڈاکٹر، سعد الفقیہ فزکس میں پی۔ایچ۔ڈی، ایمن الظواہری سرجری میں ایم ۔اے، اسامہ بن لادن سعودی نظام تعلیم کے مطابق ثانوی یعنی ایف۔اےپاس اور سید قطب ایک ادیب ہیں وغیرذلک۔
حق تو یہ تھا کہ سعودی حکمرانوں کی تکفیر کرنے والے یہ حضرات کبار علماء کے فتاوی اور نصائح کو قبول کرتے لیکن اس کا جواب اہل تکفیر کی طرف سے یہ آیا کہ انہوں نے کبار سلفی علماء کو علماء ماننے سے ہی انکار کر دیا۔شیخ أیمن الظواہری فرماتے ہیں:
''قال شیخنا علامة زمانہ أیمن الظواھری المصری فابن باز وابن عثیمین أسماء براقة من استمع الیھا کان من الجاھلین فأعرضوا عنھم تکونوا سالمین فالسمع والطاعة للمضحین المجاھدین لا لعملاء السلطان المداھنین.'' (حوار مع أھل التکفیر قبل التفجیر : ص ٢(
''علامة الزمان جناب شیخ أیمن الظواہری مصری نے یہ کہا ہے کہ بن باز اور بن عثیمین تو درحقیقت خوشنما نام ہیں جو بھی ان کو سنے گا وہ جہلاء میں سے ہو جائے گا پس تم ان سے اعراض کرو تاکہ تمہار ا فکر صحیح رہے اور اصل اطاعت ان مجاہدین کی کرو جو قربانی دینے والے ہیں نہ کہ ان علماء کی جو درباری مولوی ہیں اور دین کے معاملے میں مداہنت کرنے والے ہیں۔''
بعض لوگ یہ کہتے ہیں کہ حقیقی عالم دین یا تو وہ ہے جو جیل میں ہے یا پھر میدان جنگ میں۔ اس کے علاوہ ہم کسی کو عالم دین ہی نہیں مانتے۔ عالم کی یہ تعریف ہمارے خیال میں ایک بدعی تعریف ہے جس کے نتیجہ میں ایک عامی کو بھی حقیقی عالم دین بننے کا سنہری موقع حاصل ہوتا ہے بشرطیکہ وہ توحید حاکمیت پر چند کتابیں پڑھ کر حکمرانوں کے کفر کے فتوے جاری کرنا شروع کر دیں۔ اب تو ظاہری وضع قطع کی بھی اتنی اہمیت نہیں رہی ہے بلکہ امام بننے کی اصل شرط حکمرانوں کی تکفیر ہے اور آپ آج تکفیر شروع کر دیں کل سے لوگ آپ کو امام کہنا شروع کر دیں گے۔
''أما ما یقوم بہ الآن محمد المسعری وسعد الفقیہ و أشباھھما من ناشری الدعوات الفاسدة الضالة فھذا بلا شک شر عظیم وھم دعاة شر عظیم وفساد کبیر والواجب الحذر من نشراتھم والقضاء علیھا واتلافھا وعدم التعاون معھم فی أی شیء یدعواا لی الفساد والشر والباطل والفتن لأن اللہ أمر بالتعاون علی البر والتقوی لا بالتعاون علی الفساد والشر ونشر الکذب ونشر الدعوات الباطلة التی تسبب الفرقة واختلال الأمن ا لی غیر ذلک؛ ھذا النشرات التی تصدر من الفقیہ أو من المسعری أو من غیرھما من دعاة الباطل ودعاة الشر والفرقة یجب القضاء علیھا واتلافھا وعدم الالتفات الیھا ویجب نصیحتھم وارشادھم للحق وتحذیرھم من ھذا الباطل ولا یجوز لأحد أن یتعاون معھم فی ھذا الشر ویجب أن ینصحوا وأن یعودواا لی رشدھم وأن یدعوا ھذا الباطل و یترکوہ ونصیحتی للمسعری والفقیہ وابن لادن وجمیع من یسلک سبیلھم أن یدعوا ھذا الطریق الوخیم وأن یتقوا اللہ ویحذروا نقمتہ وغضبہ وأن یعودواا لی رشدھم وأن یتوبوا الی اللہ مما سلف.''(مجموع فتاوی ومقالات : جلد٩' ص ١٠٠(
''فساد اور گمراہی پر مبنی افکار و دعوت پھیلانے والوں میں سے محمد المسعریاور سعد الفقیہ جیسے لوگ بھی شامل ہیں جواپنی دعوت لے کر کھڑے ہوئے ہیں۔بلاشبہ ان کی دعوت ایک بہت بڑا شر ہے اور یہ لوگ بھی ایک بڑے شر اور فتنے و فساد کے داعی ہیں۔پس یہ لازم ہے کہ ان کی تحریروں سے بچا جائے اور ان کے نظریات کے خلاف فیصلہ کیا جائے اور ان کی کتابوں کو تلف کیا جائے اور ان کے ساتھ ہر اس کام میں عدم تعاون کیا جائے جو فتنے، فساد، باطل اور شر کی طرف لے کر جانے والاہے۔کیونکہ اللہ تعالی نے نیکی اور تقوی کے کاموں میں تعاون کا حکم دیا ہے اور فساد، شر، جھوٹ کی اشاعت اورایسے باطل افکار جو تفرقے اور امن و امان کی خرابی وغیرہ کا سبب بنتے ہوں، کی اشاعت سے منع فرمایا ہے۔ یہ تحریریں جو سعد الفقیہ اور مسعری وغیرہ، جو شر،باطل اور امت میں تفرقے کے داعی ہیں، کی طرف سے شائع ہوتی ہیں، ان تحریروں کے خلاف فتوی دینااور ان کو تلف کرنا اور ان کی طرف عدم التفات واجب ہے۔اور ان لوگوں کو نصیحت کرنا اور ان کی حق بات کی طرف رہنمائی اور ان کو ان باطل افکار سے ڈرانا بھی ایک شرعی فریضہ ہے۔کسی بھی شخص کے لیے یہ جائز نہیں ہے کہ وہ ان لوگوں کے ساتھ اس شرمیں تعاون کرے اور ان لوگوں پر یہ لازم ہے کہ وہ نصیحت حاصل کریں اورہدایت کے رستے کی طرف پلٹ آئیں اور اس باطل کو چھوڑ دیں۔مسعری، فقیہ اور اسامہ بن لادن اور جوشخص بھی ان کے رستے کو اختیار کرے، کو میری (یعنی شیخ بن باز کی)نصیحت یہ ہے کہ وہ اس گندے رستے کو چھوڑ دیں اور اللہ سے ڈریں اور اللہ کے انتقام اور غضب سے بچیں اور رشد و ہدایت کی طرف لوٹ آئیں اور جوکچھ ہو چکا اس سے اللہ کی جناب میں توبہ کریں کیونکہ اللہ سبحانہ و تعالی نے اپنے بندوں کی توبہ قبول کرنے اور ان کے ساتھ احسان کا وعدہ فرمایا ہے۔''
شیخ صالح العثیمین رحمہ اللہ سعودی حکمرانوں کی تکفیر اور عیوب کے بارے رائج لٹریچر پر تبصرہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
''ولقد انتشر فی الآونة الآخیرة نشرات تأتی من خارج البلاد وربما تکتب فی داخل البلاد ' فیھا سب ولاة الأمور والقدح فیھم ولیس فیھا ذکر أی خلصة من خصال الخیر التی یقومون بھا وھذہ بلا شک من الغیبة و ذا کانت من الغیبة فقراء تھا حرام وکذلک تداولھا حرام ولا یجوز أن یتداولھا ولا أن ینشرھابین الناس وعلی من رآھا أن یمزقھا أو یحرقھا لأن ھذہ تسبب الفتن تسبب الفوضی تسبب الشر ولقد حذر مفتی ھذہ المملکة شیخنا عبد العزیز بن باز وفقہ اللہ ورحمہ بالدنیا والآخرة.'' (فتاوی فی التکفیر والخروج علی ولاة الأمر : ص ٢١(
''آج کل مملکت عربیہ اور دوسرے ممالک سے کچھ ایسی چیزیں نشر ہو رہی ہیں جن میں سعودی حکمرانوں کو بر ابھلا کہا جاتا ہے اور ان پر طعن کیا جاتا ہے اور ان نشریات میں ان کی کسی ایسی بھلائی یا اچھی خصلت کا تذکرہ تک نہیں ہوتا جسے وہ قائم کرتے ہیں اور یہ بلاشبہ غیبت میں شامل ہے۔ پس جبکہ یہ غیبت ہے تو اس کا پڑھنا بھی حرام ہے اور اسی طرح اس کا آگے پھیلانا بھی حرام ہے۔ ایسی نشریات کا پھیلانا یا ان کو عوام الناس کے مابین عام کرنا جائز نہیں ہے اور جو بھی شخص ایسی نشریات دیکھے وہ انہیں پھاڑ دے یا پانی میں بہا دے کیونکہ یہ فتنے، شر اور انتشار کا سبب بنتی ہیں اور مملکت عربیہ کے مفتی اعظم شیخ بن باز اس بارے متنبہ کر چکے ہیں کہ ان نشریات کو پھاڑ دینا چاہیے۔ اللہ شیخ پر دنیا اور آخرت میں رحم فرمائے۔''
شیخ صالح الفوزان، اسامہ بن لادن کی سعودی حکمرانوں کی تکفیر اور ان کے خلاف خروج کے بارے فرماتے ہیں:
'' السوال: لایخفی علیکم تاثیر أسامہ بن لادن علی الشباب فی العالم ' فالسوال ھل یسوغ لنا أن نصفہ أنہ من الخوارج لا سیما أنہ یؤید التفجیرات فی بلادنا وغیرھا؟ الجواب: کل من اعتق ھذا الفکر ودعا لیہ وحرض علیہ فھو من الخوارج بقطع النظر عن اسمہ وعن مکانہ فھذہ قاعدة أن کل ما دعا الی ھذا الفکر و ھو الخروج علی ولاة الأمور وتکفیر واستباحة دماء المسلمین فھو من الخوارج.''(فتاوی فی التکفیر والخروج علی ولاة الأمر : ص ٢٥(
''سوال: آپ پر نوجوان نسل میں اسامہ بن لادن کی شخصیت کی تاثیر مخفی نہیں ہے۔ پوچھنا یہ ہے کہ کیا ہمارے لیے یہ جائز ہے کہ ہم ان کو خوارج میں شمار کریں خاص طورپر اس وجہ سے کہ وہ ہمارے ممالک اور اس کے علاوہ مسلمان ممالک میں خود کش دھماکوں کی تائید کرتے ہیں۔
جواب: جس کا بھی یہ فکر ہو اور جو بھی اس فکر کا داعی ہو اور اس کی لوگوں کو ترغیب دے تو خوارج میں سے ہے ، چاہے اس کا نام یا اس کا مقام کچھ بھی ہو۔ قاعدہ کلیہ یہ ہے کہ جو شخص بھی اس فکر کا داعی ہو یعنی مسلمانوں حکمرانوں کے خلاف خروج۔ ان کو کافر قرار دینے اور مسلمانوں کے خون کو مباح سمجھتا ہو تو وہ خارجی ہے۔''
شیخ عبد العزیز آل الشیخ' اسامہ بن لادن کی سعودی حکمرانوں کی تکفیر اور ان کے خلاف خروج کے بارے فرماتے ہیں:
''السوال :ھل یجوز أن یقال أن ابن لادن ضال وھل یجوز للمسلمین الذین لیس عندھم علم کاف أن یستمعوا الی خطابتہ فی الأنترنت؟ الجواب: یا اخوانی ھؤلاء ھم سبب الشر والفساد وھم لا شک ضالون فی طریقتھم.'' (فتاوی فی التکفیر والخروج علی ولاة الأمر : ص ١٨' ١٩(
''سوال: کیا یہ جائز ہے کہ یہ کہاجائے کہ سعودی حکمرانوں کی تکفیر اور ان کے خلاف خروج کا فتوی دینے کی وجہ سےاسامہ بن لادن ایک گمراہ آدمی ہے اور کیا جاہل مسلمانوں کے لیے یہ درست ہے کہ وہ انٹرنیٹ وغیرہ پر اس کےایسےخطابات سنیں جو مسلمان حکمرانوں کی تکفیر اور ا ن کے خلاف خروج پر ابھارتے ہوں؟
جواب: میرے بھائیو! یہ لوگ شر و فساد کی جڑ ہیں اور اس میں کوئی شک نہیں ہیں کہ یہ گمراہ ہیں۔''
ہیئہ کبار العلماء نے بھی سعودی حکمرانوں کی تکفیر اور ان کے خلاف خروج کے قائلین کو متنبہ اورخبردار کیا ہے۔ شیخ صالح الفوزان لکھتے ہیں:
'' السوال : لماذا لا تصدر فتاوی من کبار العلماء تحذر من رؤوس الخوارج مثل بن لادن والفقیہ والظواھری حتی لا یغتر بھم کثیر من الناس. الجواب : ظھر من ھیئة کبار العلماء عدة قرارات بالتندید من ھذہ الأعمال و أصحابھا .''( فتاوی فی التکفیر والخروج علی ولاة الأمر :ص ٢٥(
''سوال: کبار علماء کی طرف سے ایسے فتاوی جاری کیوں نہیں ہوتے جن میں خارجیوں کے سرغنہ اسامہ بن لادن، سعد الفقیہ اور ایمن الظواہری وغیرہ کے بارے لوگوں کی رہنمائی کی جائے تا کہ ان کی وجہ سے لوگوں کی اکثریت دھوکے کا شکار نہ ہو جائے۔
جواب: ہیئہ کبار العلماء کی طرف سے ان اصحاب اور ان کے اعمال و افعال کی مذمت میں کئی ایک قرار دادیں پاس ہو چکی ہیں۔''
شیخ صالح اللحیدان، اسامہ بن لادن اور ان کی تنظیم کی سعودی حکمرانوں کی تکفیر اور ان کے خلاف خروج کی تحریک کے بارے فرماتے ہیں:
''ما موقف المسلم من تنظیم القاعدة ومنھجھا الذی یتزعمہ أسامة بن لادن.الجواب: لا شک أن ھذا التنظیم لا خیر فیہ ولا ھو فی سبیل صلاح وفلاح...ثم ھذا التنظیم ھل نظم لقتال الکفار وخراجھم من بلاد الاسلام والتوجہ الی البلاد التی ترزح تحت دول غیرا سلامیة لنشر الدین فیھا أو ھذہ القاعدة تحت الشعوب فی أوطانھا علی الخروج علی سلطانھا لیحصل بذلک سفک دماء وھدار حقوق وتدمیر منشآت واشاعة خوف.''(فتاوی فی التکفیر والخروج علی ولاة الأمر : ص ٣٠(
'' ایک مسلمان کی القاعدہ نامی تنظیم اور اس کے منہج کے بارے کیا رائے ہونی چاہیے جس کی سربراہی جناب اسامہ بن لادن فرما رہے ہیں؟
جواب: اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ اس تنظیم میں کوئی خیر نہیں ہے اور نہ ہی یہ اصلاح اور فلاح کے رستے پر ہے... سوال یہ ہے کہ کیا یہ تنظیم کفار سے قتال اور ان کافروں کو مسلمان ممالک سے نکالنے یا ان اسلامی ممالک کی طرف توجہ دینے کے لیے کہ جو کافر حکومتوں کے بوجھ تلے دبے ہوئے ہیں تاکہ ان میں دین اسلام کی نشر و اشاعت کی جائے، منظم کی گئی ہے یا اس تنظیم القاعدہ کا اصل کام مسلمان ممالک میں مسلمان حکمرانوں کے خلاف خروج ہے تاکہ اس سے دونوں طرف سے مسلمانوں کا خون بہے،حقوق تلف ہوں، تنصیبات تباہ ہوں اور مسلمان معاشروں میں خوف و ہراس پھیل جائے۔''
ان فتاوی کو دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ اسامہ بن لادن کی مسلمان حکمرانوں کی تکفیراور ان کے خلاف خروج کی تحریک کو سلفی اہل علم کے طبقے میں ذرا برابر بھی اہمیت حاصل نہیں ہے۔ بعض مجاہدین کا کہنا ہے کہ اسامہ بن لادن سعودی حکمرانوں کی تکفیر اور ان کے خلاف خروج کے خلاف تھے یہاں تک انہیں أیمن الظواہری کی صحبت نصیب ہوئی اور أیمن الظواہری نے ان میں یہ تکفیری فکر کی بنیاد ڈالی اس کی گواہی شیخ عبد اللہ عزام کے اہل خانہ نے دی ہے۔ أیمن الظواہری مصری ہیں اور 'جماعة التکفیر والھجرة'سےمتاثر ہیں۔ یہ بات بھی نوٹ کرنے کے قابل ہے کہ تکفیر کی تحریک کے اکثر قائدین یا تو دینی و شرعی علوم سے ناواقف ہیں یا پھرغیر معروف علماء میں سے ہیں ۔ مثلاً محمد المسعری ایک میڈیکل ڈاکٹر، سعد الفقیہ فزکس میں پی۔ایچ۔ڈی، ایمن الظواہری سرجری میں ایم ۔اے، اسامہ بن لادن سعودی نظام تعلیم کے مطابق ثانوی یعنی ایف۔اےپاس اور سید قطب ایک ادیب ہیں وغیرذلک۔
حق تو یہ تھا کہ سعودی حکمرانوں کی تکفیر کرنے والے یہ حضرات کبار علماء کے فتاوی اور نصائح کو قبول کرتے لیکن اس کا جواب اہل تکفیر کی طرف سے یہ آیا کہ انہوں نے کبار سلفی علماء کو علماء ماننے سے ہی انکار کر دیا۔شیخ أیمن الظواہری فرماتے ہیں:
''قال شیخنا علامة زمانہ أیمن الظواھری المصری فابن باز وابن عثیمین أسماء براقة من استمع الیھا کان من الجاھلین فأعرضوا عنھم تکونوا سالمین فالسمع والطاعة للمضحین المجاھدین لا لعملاء السلطان المداھنین.'' (حوار مع أھل التکفیر قبل التفجیر : ص ٢(
''علامة الزمان جناب شیخ أیمن الظواہری مصری نے یہ کہا ہے کہ بن باز اور بن عثیمین تو درحقیقت خوشنما نام ہیں جو بھی ان کو سنے گا وہ جہلاء میں سے ہو جائے گا پس تم ان سے اعراض کرو تاکہ تمہار ا فکر صحیح رہے اور اصل اطاعت ان مجاہدین کی کرو جو قربانی دینے والے ہیں نہ کہ ان علماء کی جو درباری مولوی ہیں اور دین کے معاملے میں مداہنت کرنے والے ہیں۔''
بعض لوگ یہ کہتے ہیں کہ حقیقی عالم دین یا تو وہ ہے جو جیل میں ہے یا پھر میدان جنگ میں۔ اس کے علاوہ ہم کسی کو عالم دین ہی نہیں مانتے۔ عالم کی یہ تعریف ہمارے خیال میں ایک بدعی تعریف ہے جس کے نتیجہ میں ایک عامی کو بھی حقیقی عالم دین بننے کا سنہری موقع حاصل ہوتا ہے بشرطیکہ وہ توحید حاکمیت پر چند کتابیں پڑھ کر حکمرانوں کے کفر کے فتوے جاری کرنا شروع کر دیں۔ اب تو ظاہری وضع قطع کی بھی اتنی اہمیت نہیں رہی ہے بلکہ امام بننے کی اصل شرط حکمرانوں کی تکفیر ہے اور آپ آج تکفیر شروع کر دیں کل سے لوگ آپ کو امام کہنا شروع کر دیں گے۔