• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

الله دو موتوں اور دو زندگیوں کا تذکرہ کرتا ہے

lovelyalltime

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 28، 2012
پیغامات
3,735
ری ایکشن اسکور
2,899
پوائنٹ
436
rooh ka lotayana jana.jpg


روح کا سلسلہ جب روزانہ ہی بدن کے ساتھ قائم و دائم ہے تو پھر قیامت کے دن روح کو جسم کی طرف واپس کر دیا جانا کیا معنی رکھتا ہے .... ور پھر اس آیات کا کیا مطلب ہے جس میں الله دو موتوں اور دو زندگیوں کا تذکرہ کرتا ہے، آیات ملاحظہ کیجئے!


كَيْفَ تَكْفُرُ‌ونَ بِاللَّـهِ وَكُنتُمْ أَمْوَاتًا فَأَحْيَاكُمْ ۖ ثُمَّ يُمِيتُكُمْ ثُمَّ يُحْيِيكُمْ ثُمَّ إِلَيْهِ تُرْ‌جَعُونَ ﴿سورة البقرة:٢٨﴾

تم اللہ کے ساتھ کیسے کفر کرتے ہو؟ حاﻻنکہ تم مرده تھے اس نے تمہیں زنده کیا، پھر تمہیں مار ڈالے گا، پھر زنده کرے گا، پھر اسی کی طرف لوٹائے جاؤ گے
[سورة البقرة:28]

قَالُوا رَ‌بَّنَا أَمَتَّنَا اثْنَتَيْنِ وَأَحْيَيْتَنَا اثْنَتَيْنِ فَاعْتَرَ‌فْنَا بِذُنُوبِنَا فَهَلْ إِلَىٰ خُرُ‌وجٍ مِّن سَبِيلٍ ﴿سورة غافر:١١﴾

وه کہیں گے اے ہمارے پروردگار! تو نے ہمیں دو (2) بار مارا اور دو (2) بار ہی جلایا، اب ہم اپنے گناہوں کے اقراری ہیں، تو کیا اب کوئی راه نکلنے کی بھی ہے؟ [سورة غافر:11]

اور یہ بھی ایک حقیقت ہے کے روح الله کے پاس پوھنچنے کے بعد واپسی کا مطالبہ کرتی ہے تو جواب ملتا ہے کے نہیں، آیت ملاحظہ کیجئے!

[سورة المؤمنون]

حَتَّىٰ إِذَا جَاءَ أَحَدَهُمُ الْمَوْتُ قَالَ رَ‌بِّ ارْ‌جِعُونِ ﴿٩٩﴾ لَعَلِّي أَعْمَلُ صَالِحًا فِيمَا تَرَ‌كْتُ ۚ كَلَّا ۚ إِنَّهَا كَلِمَةٌ هُوَ قَائِلُهَا ۖ وَمِن وَرَ‌ائِهِم بَرْ‌زَخٌ إِلَىٰ يَوْمِ يُبْعَثُونَ
﴿١٠٠﴾

یہاں تک کہ جب ان میں کسی کو موت آنے لگتی ہے تو کہتا ہے اے میرے پروردگار! مجھے واپس لوٹا دے (99) کہ اپنی چھوڑی ہوئی دنیا میں جا کر نیک اعمال کر لوں، ہرگز ایسا نہیں ہوگا، یہ تو صرف ایک قول ہے جس کا یہ قائل ہے، ان کے پیچھے ایک برزخ (آڑ) حایل ہے، ان کے دوباره جی اٹھنے کے دن تک (100)
 

lovelyalltime

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 28، 2012
پیغامات
3,735
ری ایکشن اسکور
2,899
پوائنٹ
436


مرنے کے بعد انسانی روح کا ٹھکانہ



اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :

وَهُوَ الْقَاهِرُ فَوْقَ عِبَادِهٖ وَيُرْسِلُ عَلَيْكُمْ حَفَظَةً ۭﱑ اِذَا جَاۗءَ اَحَدَكُمُ الْمَوْتُ تَوَفَّتْهُ رُسُلُنَا وَهُمْ لَا يُفَرِّطُوْنَ 61؀ ثُمَّ رُدُّوْٓا اِلَى اللّٰهِ مَوْلٰىهُمُ الْحَقِّ ۭ اَلَا لَهُ الْحُكْمُ ۣ وَهُوَ اَسْرَعُ الْحٰسِبِيْنَ 62؀


’’اور وہ( اللہ)اپنے بندوں پر قادر ہے ، اور تم پر نگرانی کرنے والے (فرشتے)بھیجتا ہے، یہاں تک کہ جب تم میں سے کسی ایک کی موت کا وقت
آجاتا ہے ، تو ہمارے بھیجے ہوئے (فرشتے )اس ( اسکی روح) کو قبض کر لیتے ہیں اور وہ کوئی کوتاہی ( غلطی ) نہیں کرتے۔ پھر سب اللہ کی طرف لوٹا ئے جاتے ہیں جو کہ سب کا مالک حقیقی ہے ۔آگاہ رہو کہ حکم اسی کا ہے اور وہ بہت ہی جلد حساب لینے والا ہے‘‘۔


( سورہ انعام )

وَلَقَدْ جِئْتُمُوْنَا فُرَادٰي كَمَا خَلَقْنٰكُمْ اَوَّلَ مَرَّةٍ وَّتَرَكْتُمْ مَّا خَوَّلْنٰكُمْ وَرَاۗءَ ظُهُوْرِكُمْ ۚ وَمَا نَرٰي مَعَكُمْ شُفَعَاۗءَكُمُ الَّذِيْنَ زَعَمْتُمْ اَنَّهُمْ فِيْكُمْ شُرَكٰۗؤُا ۭ لَقَدْ تَّقَطَّعَ بَيْنَكُمْ وَضَلَّ عَنْكُمْ مَّا كُنْتُمْ تَزْعُمُوْنَ 94؀ۧ


’’ اور تم تن تنہاہمارے پاس پہنچ گئے جیسا کہ ہم نے تمہیں پہلی مرتبہ پیدا کیا تھا اور تم چھوڑ آئے ہو جو کچھ ہم نے تمہیں دیا تھا ، اور ہم نہیں دیکھتے تمہارے ساتھ تمہارے شریکوں کو جن کا تمہیں زعم تھا کہ یہ تمہارے معاملے میں شریک ہیں، اور یقینا ٹوٹ گئے ہیں تمہارے آپس کے رابطے اور گم ہوگیا ہے تم سے جن کا تمہیں بڑا گھنڈ تھا ‘‘۔


( الانعام )

حَتّيٰٓ اِذَا جَاۗءَ اَحَدَهُمُ الْمَوْتُ قَالَ رَبِّ ارْجِعُوْنِ 99۝ۙ لَعَلِّيْٓ اَعْمَلُ صَالِحًا فِيْمَا تَرَكْتُ كَلَّا ۭ اِنَّهَا كَلِمَةٌ هُوَ قَاۗىِٕلُهَا ۭ وَمِنْ وَّرَاۗىِٕهِمْ بَرْزَخٌ اِلٰى يَوْمِ يُبْعَثُوْنَ ١٠٠؁


’’ یہاں تک کہ جب ان میں کسی ایک کی موت کا وقت آتا ہے (تو) کہتا ہے اے میرے رب لوٹا دے مجھے،تاکہ میں نیک عمل کر سکوں اس میں جسے میں چھوڑ آیا ہوں، ہرگز نہیں! یہ تو محض ایک بات ہےجو وہ کہتا ہے، اور ان کے پیچھے ایک آڑ ( برزخ )حائل ہے اٹھائے جانے والے دن تک ‘‘۔


( المومنوں )

اَللّٰهُ يَتَوَفَّى الْاَنْفُسَ حِيْنَ مَوْتِهَا وَالَّتِيْ لَمْ تَمُتْ فِيْ مَنَامِهَا ۚ فَيُمْسِكُ الَّتِيْ قَضٰى عَلَيْهَا الْمَوْتَ وَيُرْسِلُ الْاُخْرٰٓى اِلٰٓى اَجَلٍ مُّسَمًّى ۭ اِنَّ فِيْ ذٰلِكَ لَاٰيٰتٍ لِّــقَوْمٍ يَّتَفَكَّرُوْنَ 42؀


’’اللہ روحوں کو قبض کرلیتا ہے ان کی موت کے وقت، جن کی موت نہیں آئی ان کی سوتے میں، پھر روک لیتا ہے اس کی روح جس پر موت کا فیصلہ ہو اور چھوڑ دیتا ہے باقی کو ایک خاص وقت تک کے لئے ، بے شک اس میں نشانیاں ہیں ان کے لئے جو غور و فکر کرتے ہیں ‘‘۔


( الزمر)

لاریب قر آن میں اللہ کا فیصلہ آگیا کہ جن کو موت آجائے ان کی روح قبض کرکے اللہ کے پاس لے جائی جاتی ہے، رب کائنات اس کی روح کو روک لیتا ہے اور قیامت تک اب روح واپس اس دنیا میں نہیں آسکتی۔ اللہ تعالی نے ہر انسان کے لئے دو موتیں اور دو زندگیاں بیان فرمائی ہیں:

كَيْفَ تَكْفُرُوْنَ بِاللّٰهِ وَكُنْتُمْ اَمْوَاتًا فَاَحْيَاكُمْ ۚ ثُمَّ يُمِيْتُكُمْ ثُمَّ يُحْيِيْكُمْ ثُمَّ اِلَيْهِ تُرْجَعُوْنَ 28؀


’’ تم کیسے کفر کرتے ہو اللہ کے ساتھ حالانکہ تم مرے ہوئے تھے تو اس نے تمہیں زندگی دی پھر وہی تمہیں موت دیتا ہے اور وہی تمہیں زندہ کرے گا،پھر اسی کی طرف تم لو ٹائے جاتے ہو‘‘۔


(البقرہ)

قَالُوْا رَبَّنَآ اَمَتَّنَا اثْنَتَيْنِ وَاَحْيَيْتَنَا اثْنَتَيْنِ فَاعْتَرَفْنَا بِذُنُوْبِنَا فَهَلْ اِلٰى خُرُوْجٍ مِّنْ سَبِيْلٍ 11؀


’’ وہ کہیں گے اے ہمارے رب واقعی تو نے ہم کو دو مرتبہ موت بھی دے دی اور دو مرتبہ زندگی بھی، سو ہم اپنے گناہوں کا اعتراف کرتے ہیں تو کیا اب کوئی صورت ہے نکلنے کی ؟‘‘۔


( المومن )

قرآن بتایا کہ ایک انسان کے لئے دو موتیں اور دو زندگیاں ہیں۔ پہلی موت : اس کی روح موجود لیکن اس کو یہ دنیاوی جسم نہیں ملا، یعنی موت کا دور وہ ہوتا ہے کہ جب یہ روح اور جسم جدا جدا ہوں۔ پہلی زندگی : جب اللہ نے ایک جسم بنا کر اس میں روح ڈالدی تو یہ انسان کی پہلی زندگی ہوئی۔ دوسری موت : جس کا ذکر اوپر بیان کردہ آیات میں موجود ہے کہ اس جسم سے روح نکال کر اللہ کے پاس پہنچادی جاتی ہے اور اب روح قیامت تک اس جسم میں واپس نہیں آئے گی یعنی روح اور جسم میں جدائی رہے گی یہ ہے انسان کی دوسری موت۔ دوسری زندگی : قرآن اور حدیث کے بیان کے مطابق قیامت کے دن ان دنیاوی جسموں کو دوبارہ بنا کر ان میں روح ڈال کر انہیں زندہ کیا جائے گا، اور پھر اس کے بعد کوئی موت نہیں۔ واضح ہوا کہ یہ عقیدہ رکھنا کہ قبض ہونے والی روح مرنے کے بعد قیامت سے پہلے اس جسم میں لوٹادی جاتی ہے قرآن کا انکار اور ایک تیسری زندگی پر ایمان رکھنا ہے۔

سورہ المومنون میں اسی بات کو مزید واضح کیا گیا :

وَلَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ مِنْ سُلٰـلَـةٍ مِّنْ طِيْنٍ 12 ؀ۚ ثُمَّ جَعَلْنٰهُ نُطْفَةً فِيْ قَرَارٍ مَّكِيْنٍ 13۝۠ ثُمَّ خَلَقْنَا النُّطْفَةَ عَلَقَةً فَخَـلَقْنَا الْعَلَقَةَ مُضْغَةً فَخَـلَقْنَا الْمُضْغَةَ عِظٰمًا فَكَسَوْنَا الْعِظٰمَ لَحْــمًا ۤ ثُمَّ اَنْشَاْنٰهُ خَلْقًا اٰخَرَ ۭفَتَبٰرَكَ اللّٰهُ اَحْسَنُ الْخٰلِقِيْنَ 14؀ۭ ثُمَّ اِنَّكُمْ بَعْدَ ذٰلِكَ لَمَيِّتُوْنَ 15؀ۙ ثُمَّ اِنَّكُمْ يَوْمَ الْقِيٰمَةِ تُبْعَثُوْنَ 16؀


’’ اور بلاشبہ ہم نے انسان کوپیدا کیا مٹی کے خلاصے سے۔ پھر ہم نے اسے نطفے کی صورت میں ایک محفوظ جگہ رکھا ،پھر اس نطفے کو ہم نے ایک لوتھڑا بنا دیا، پھر ہم نے اس لوتھڑے کو گوشت بنا یا، پھر ہم نے اس گوشت کی ہڈیاں بنائیں، پھر ہم نے ان ہڈیوں پر گوشت چڑھا دیا۔ پھر اس کو ہم نے اسےایک دوسری صورت میں اٹھا کھڑا کیا، سو بڑا ہی برکت والا ہے وہ اللہ جو سب سے بہتر بنانے والا ہے۔پھر اس کے بعد تم سب کوموت آ جائے گی، پھر تم سب قیامت کے دوبار زندہ کرکے اٹھاو جاوگے ‘‘۔


( المومنون )

اس آیت میں انسانی زندگی کا ایک مکمل نقشہ بیان کردیا گیا ہے کہ کس طرح اس کی تخلیق ہوئی اور اسے دنیا میں لاکھڑا کیا اور بتایا کہ اس زندگی کے بعد تمام انسانوں کو موت آ جا تی ہے اور موت کا یہ دور قیامت کے دن ہی ختم ہوگا جب انہیں دوبارہ زندہ کر کے اٹھایا جائے گا۔ اسی بات کو سورہ نحل میں اس طرح بیان کیا گیا :

وَالَّذِيْنَ يَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ لَا يَخْلُقُوْنَ شَيْـــًٔـا وَّهُمْ يُخْلَقُوْنَ 20۝ۭ اَمْوَاتٌ غَيْرُ اَحْيَاۗءٍ ۚ وَمَا يَشْعُرُوْنَ ۙ اَيَّانَ
يُبْعَثُوْنَ 21۝ۧ
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,800
پوائنٹ
1,069
کیا اللہ سبحان و تعالیٰ بغیر روح کے جسم پر عذاب پر قادر نہیں ؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟
 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,553
پوائنٹ
304
کیا اللہ سبحان و تعالیٰ بغیر روح کے جسم پر عذاب پر قادر نہیں ؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟
محترم -

الله رب العزت تو بغیر روح جسم کو عذاب دینے پر قادر ہے- تو پھر ان روایات کا کیا بنے گا جس میں ہے کہ روح مردہ میں لوٹائی جاتی ہے - اور مردہ سنتا ہے اور روح لوٹنے پر ہی عذاب و ثواب کا سلسلہ شروع ہوتا ہے - یعنی جب الله اس بات پر قادر ہے کہ بے جان اجسام کو قبر میں عذاب دے سکتا ہے- تو پھر روح لوٹانے کا کیا مقصد ؟؟؟
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,800
پوائنٹ
1,069
علماء کا صحیح قول یہی ہے کہ عذاب قبر روح اور جسم دونوں کو ہوتا ہے ۔

شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں :

آئمہ سلف کا مذہب یہ ہے کہ عذاب قبر اور اس کی نعمتیں میت کی روح اور جسم دونوں کو حاصل ہوتی ہیں اور روح بدن سے جدا ہونے کے بعد عذاب یا نعمت میں ہوتی ہے اور بعض اوقات جسم سے ملتی بھی ہے تو دونوں کو عذاب یا نعمت حاصل ہوتی ہے ۔

تو ہم پر یہ ضروری ہے کہ جو اللہ تعالی نے ہمیں خبر دی ہے ہم اس پر ایمان لائیں اور اس کی تصدیق کریں ۔

الاختیارات الفقہیۃ (ص 94)

اور ابن قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں :

اس مسئلہ کے متعلق شیخ الاسلام رحمہ اللہ سے سوال کیا گیا اور ان کے جواب کے الفاظ ہمیں یاد ہیں انہوں نے فرمایا :

اہل سنت والجماعت اس پر متفق ہیں کہ عذاب اور نعمتیں بدن اور روح دونوں کو ہوتی ہے روح کو بدن سے جدا ہونے کی شکل میں بھی عذاب اور نعمتیں حاصل ہوتی ہیں اور بدن سے متصل ہونے کی شکل میں بھی تو بدن سے روح کے متصل ہونے کی شکل میں روح کو عذاب اور نعمت کا اس حالت میں حصول دونوں کو ہوتا ہے جس طرح کہ روح کا بدن سے منفرد ہونے کی شکل میں ہے ۔

ائمہ سلف کا مذہب :

مرنے کے بعد میت یا تو نعمتوں میں اور یا پھر عذاب میں ہوتی ہے ۔ جو کہ روح اور بدن دونوں کو حاصل ہوتا ہے روح بدن سے جدا ہونے کے بعد یا تو نعمتوں میں اور یا عذاب میں ہوتی اور بعض اوقات بدن کے ساتھ ملتی ہے تو بدن کے ساتھ عذاب اور نعمت میں شریک ہوتی اور پھر قیامت کے دن روحوں کو جسموں میں لوٹایا جائے گا تو وہ قبروں سے اپنے رب کی طرف نکل کھڑے ہوں گے جسموں کا دوبارہ اٹھنا اس میں مسلمان اور یہودی اور عیسائی سب متفق ہیں- الروح ( ص / 51- 52)

علماء اس کی مثال اس طرح دیتے ہیں کہ انسان خواب میں بعض اوقات یہ دیکھتا ہے کہ یہ کہیں گیا اور اس نے سفر کیا یہ پھر اسے سعادت ملی ہے حالانکہ وہ سویا ہوا ہے اور بعض اوقات وہ غم وحزن اور افسوس محسوس کرتا ہے حالانکہ وہ اپنی جگہ پر دنیا میں ہی موجود ہے تو بزرخی زندگی بدرجہ اولی مختلف ہو گي جو کہ اس زندگی سے مکمل طور پر مختلف ہے اور اسی طرح آخرت کی زندگی میں بھی ۔

امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :

اگر یہ کہا جائے کہ میت کو قبر میں اپنی حالت پر ہی دیکھتے ہیں تو پھر کس طرح اس سے سوال کیا جاتا اور اسے بٹھایا اور لوہے کے ہتھوڑوں سے مارا جاتا ہے اور اس پر کوئی اثر ظاہر نہیں ہوتا ؟

تو اس کا جواب یہ ہے کہ یہ ممکن ہے بلکہ اس کی مثال اور نظیر عام طور پر نیند میں ہے کیونکہ سویا ہوا شخص بعض اوقات کسی چیز پر لذت اور یا پھر تکلیف محسوس کرتا ہے لیکن ہم اسے محسوس نہیں کرتے اور اسی طرح بیدار شخص جب کچھ سوچ رہا ہوتا یا پھر سنتا ہے تو اس کی لذت اور یا تکلیف محسوس کر رہا ہوتا ہے لیکن اس کے ساتھ بیٹھا ہوا شخص اس کا مشاہدہ نہیں کرتا اور اسی طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جبرائیل علیہ السلام آتے اور انہیں وحی کی خبر دیتے تھے لیکن حاضرین کو اس کا ادراک نہیں ہوتا تھا تو یہ سب کچھ واضح اور ظاہر ہے – شرح مسلم ( 71/ 201)

اور شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کا قول ہے :

اور سوئے ہوئے شخص کو اس کی نیند میں لذت اور تکلیف ہوتی ہے جو کہ روح اور بدن دونوں کو حاصل ہوتی ہے حتی کہ یہ ہوتا ہے کہ نیند میں اسے کسی نے مارا تو اٹھنے کے بعد اس کی درد اپنے بدن میں محسوس کرتا ہے اور نیند میں یہ دیکھتا ہے کہ اس نے کوئی اچھی سی چیز کھائی ہے تو اس کا ذائقہ اٹھنے کے بعد اس کے منہ میں ہوتا ہے اور یہ سب کچھ پایا جاتا اور موجود ہے ۔

تو اگر سوۓ ہوئے شخص کے بدن اور روح کو یہ نعمتیں اور عذاب جسے وہ محسوس کرتا ہے ہو سکتیں ہیں اور جو اس کے ساتھ ہوتا ہے اسے محسوس تک نہیں ہوتا حتی کہ کبھی سویا ہوا شخص تکلیف کی شدت یا غم پہنچنے سے چیختا چلاتا بھی ہے اور جاگنے والے اس کی چیخیں سنتے ہیں اور بعض اوقات وہ سونے کی حالت میں باتیں بھی کرتا ہے یا قرآن پڑھتا اور ذکر واذکار اور یا جواب دیتا ہے اور جاگنے والا یہ سب کچھ سنتا اور وہ سویا ہوا اور اس کی آنکھیں بند ہیں اور اگر اسے مخاطب کیا جائے تو وہ سنتا ہی نہیں ۔

تو اس کا جو کہ قبر میں ہے کیسے انکار کیا جا سکتا ہے کہ جس کی نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خبر دی ہے کہ وہ ان کے قدموں کی چاپ سنتا ہے اور فرمایا تم ان سے زیادہ نہیں سن سکتے جو میں انہیں کہہ رہا ہوں ؟

اور دل قبر کے مشابہ ہے تو اسی لۓ غزوہ خندق کے دن جب عصر کی نماز فوت ہو گئی تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اللہ تعالی ان کے پیٹوں اور قبروں کو آگ سے بھرے گا اور دوسری روایت کے لفظ ہیں < ان کے دلوں اور قبروں کو آگ سے بھرے > اور ان کے درمیان اس قول میں تفریق کی گئی ہے ۔

< جب قبروں جو ہے نکال لیا جائے گا اور سینوں کی پوشیدہ باتیں ظاہر کر دی جائیں گی >

اور اس کے امکان کی تقریر اور تقریب ہے ۔

یہ کہنا جائز نہیں کہ جو کچھ میت عذاب اور نعمتیں کو حاصل کرتی ہے وہ اسی طرح کہ سونے والا حاصل کرتا ہے بلکہ یہ عذاب اور نعمتیں اس سے زیادہ کامل اور حقیقی ہیں لیکن یہ مثال امکانی طور پر ذکر کی جاتی ہے اور اگر سائل یہ کہے کہ میت قبر میں حرکت تو کرتی نہیں اور نہ ہی مٹی میں تغیر ہوتا ہے وغیرہ حالانکہ یہ مسئلہ تفصیل اور شرح چاہتا ہے یہ اوراق اس کے متحمل نہیں ہو سکتے ۔

اور اللہ تعالی زیادہ علم رکھتا ہے ۔

اللہ تعالی محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کی آل اور صحابہ پر رحمتیں نازل فرمائے – آمین

مجموع الفتاوی ( 4/ 275 – 276 )

واللہ اعلم .

الشیخ محمد صالح المنجد
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,800
پوائنٹ
1,069
Top