بسم الله الرحمن الرحیم
سوال : ۔
جواب : ۔
الله تعالیٰ فرماتا ہے : ۔
تِلْكَ الرُّسُلُ فَضَّلْنَا بَعْضَھُمْ عَلٰي بَعْضٍ ۘ مِنْھُمْ مَّنْ كَلَّمَ اللّٰهُ وَرَفَعَ بَعْضَھُمْ دَرَجٰتٍ ۭ وَاٰتَيْنَا عِيْسَى ابْنَ مَرْيَمَ الْبَيِّنٰتِ وَاَيَّدْنٰهُ بِرُوْحِ الْقُدُسِ ۭ وَلَوْ شَاۗءَ اللّٰهُ مَا اقْتَتَلَ الَّذِيْنَ مِنْۢ بَعْدِھِمْ مِّنْۢ بَعْدِ مَا جَاۗءَتْھُمُ الْبَيِّنٰتُ وَلٰكِنِ اخْتَلَفُوْا فَمِنْھُمْ مَّنْ اٰمَنَ وَمِنْھُمْ مَّنْ كَفَرَ ۭ وَلَوْ شَاۗءَ اللّٰهُ مَا اقْتَتَلُوْا ۣوَلٰكِنَّ اللّٰهَ يَفْعَلُ مَا يُرِيْدُ
ان رسولوں میں سے ہم نے بعض کو بعض پر فضیلت دی ہے ان میں سے وہ بھی تھے جن سے اللہ نے کلام فرمایا اور بعض کے درجات بڑھا دیے اور ہم نے عیسیٰ ابن مریم کو بڑے کھلے معجزے دیے اور ان کی مدد فرمائی روح القدس کے ‘ ساتھ اور اگر اللہ چاہتا تو ان کے بعد آنے والے آپس میں نہ لڑتے جھگڑتے اس کے بعد کہ ان کے پاس واضح تعلیمات آچکی تھیں لیکن انہوں نے اختلاف کیا پھر کوئی تو ان میں سے ایمان لایا اور کوئی کفر پر اڑا رہا اور اگر اللہ چاہتا تو وہ آپس میں نہ لڑتے لیکن اللہ تو کرتا ہے
جو وہ چاہتا ہے
(البقرہ -253)
یہ ایک بہت اہم اصول بیان ہو رہا ہے۔تفریق بین الرسل کفر ہے ‘ جبکہ تفضیل قرآن سے ثابت ہے۔
ــــــــــــــــــــــــ
پہلی قسم کا فرق کرنا :۔
ــــــــــــــــــــــــ
رسولوں میں فرق کرنے کی دو صورتیں ہیں ایک یہ کہ کسی کو تو اللہ کا رسول مانا جائے اور کسی کو نہ مانا جائے۔ جیسے یہود نہ نہ محمد صلی الله علیہ وسلم کو رسول مانتے ہیں اور نہ عیسیٰ (علیہ السلام) کو اور عیسائی محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)
کو اللہ کا نبی نہیں سمجھتے۔
جبکہ مسلمین ان سب کو اللہ کے نبی اور رسول مانتے ہیں۔ ان کے نبی یا رسول ہونے میں کوئی فرق نہیں کرتے۔
تفریق بین الرسل کفر ہے۔
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــ
دوسری قسم کا فرق کرنا : ۔
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــ
رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ مجھے کسی پیغمبر پر فضیلت نہ دو۔ نیز فرمایا کہ کسی پیغمبر کو کسی دوسرے پر فضیلت نہ دو۔ حتیٰ کہ یونس بن متی پر بھی
(بخاری، کتاب التفسیر)
ابو ہریرہ نے بیان کیا کہ : ۔
بَيْنَمَا يَهُودِيٌّ يَعْرِضُ سِلْعَتَهُ أُعْطِيَ بِهَا شَيْئًا كَرِهَهُ، فَقَالَ: لَا وَالَّذِي اصْطَفَى مُوسَى عَلَى الْبَشَرِ فَسَمِعَهُ رَجُلٌ مِنْ الْأَنْصَارِ فَقَامَ فَلَطَمَ وَجْهَهُ، وَقَالَ: تَقُولُ وَالَّذِي اصْطَفَى مُوسَى عَلَى الْبَشَرِ وَالنَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَيْنَ أَظْهُرِنَا فَذَهَبَ إِلَيْهِ، فَقَالَ: أَبَا الْقَاسِمِ لِي ذِمَّةً وَعَهْدًا فَمَا بَالُ فُلَانٍ لَطَمَ وَجْهِي، فَقَالَ: لِمَ لَطَمْتَ وَجْهَهُ فَذَكَرَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى رُئِيَ فِي وَجْهِهِ، ثُمَّ قَالَ: "لَا تُفَضِّلُوا بَيْنَ أَنْبِيَاءِ اللَّهِ فَإِنَّهُ يُنْفَخُ فِي الصُّورِ فَيَصْعَقُ مَنْ فِي السَّمَوَاتِ وَمَنْ فِي الْأَرْضِ إِلَّا مَنْ شَاءَ اللَّهُ ثُمَّ يُنْفَخُ فِيهِ أُخْرَى فَأَكُونُ أَوَّلَ مَنْ بُعِثَ فَإِذَا مُوسَى آخِذٌ بِالْعَرْشِ فَلَا أَدْرِي أَحُوسِبَ بِصَعْقَتِهِ يَوْمَ الطُّورِ أَمْ بُعِثَ قَبْلِي
ایک مرتبہ لوگوں کو ایک یہودی اپنا سامان دکھا رہا تھا لیکن اسے اس کی جو قیمت لگائی گئی اس پر وہ راضی نہ تھا۔ اس لیے کہنے لگا کہ ہرگز نہیں، اس ذات کی قسم جس نے موسیٰ کو تمام انسانوں میں برگزیدہ قرار دیا۔ یہ لفظ ایک انصاری صحابی نے سن لیے اور کھڑے ہو کر انہوں نے ایک تھپڑ اس کے منہ پر مارا اور کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ابھی ہم میں موجود ہیں اور تو اس طرح قسم کھاتا ہے کہ اس ذات کی قسم جس نے موسیٰ علیہ السلام کو تمام انسانوں میں برگزیدہ قرار دیا۔ اس پر وہ یہودی
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہا: اے ابوالقاسم! میرا مسلمانوں کے ساتھ امن اور صلح کا عہد و پیمان ہے۔ پھر فلاں شخص کا کیا حال ہو گا جس نے میرے منہ پر چانٹا مارا ہے ‘ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس صحابی سے دریافت فرمایا کہ تم نے اس کے منہ پر کیوں چانٹا مارا؟ انہوں نے وجہ بیان کی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم غصے ہو گئے اس قدر کہ غصے کے آثار چہرہ مبارک پر نمایاں ہو گئے۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کے انبیاء میں آپس میں ایک کو دوسرے پر فضیلت نہ دیا کرو، جب صور پھونکا جائے گا تو آسمان و زمین کی تمام مخلوق پر بے ہوشی طاری ہو جائے گی ‘ سوا ان کے جنہیں اللہ تعالیٰ چاہے گا۔ پھر دوسری مرتبہ صور پھونکا جائے گا اور سب سے پہلے مجھے اٹھایا جائے گا ‘ لیکن میں دیکھوں گا کہ موسیٰ علیہ السلام عرش کو پکڑے ہوئے کھڑے ہوں گے ‘ اب مجھے معلوم نہیں کہ یہ انہیں طور کی بے ہوشی کا بدلا دیا گیا ہو گا یا مجھ سے بھی پہلے ان کی بے ہوشی ختم کر دی گئی ہو گی۔
(صحیح بخاری كتاب أحاديث الأنبياء بَابُ قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى: {وَإِنَّ يُونُسَ لَمِنَ الْمُرْسَلِينَ} إِلَى قَوْلِهِ: {فَمَتَّعْنَاهُمْ إِلَى حِينٍ}: حدیث نمبر: 3414)
(نوٹ : ۔ اس مضمون کی بہت ساری احادیث ہیں ، جن کو طوالت کے سبب نقل نہیں کیا جا رہا ۔)
قارئین ! رہی جزوی فضیلتیں تو اس لحاظ سے اللہ تعالیٰ نے کسی رسول کو کسی ایک فضیلت سے نوازا اور دوسرے کو کسی دوسری فضیلت سے جیسا کہ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے بعض انبیاء کے فضائل خود ہی ذکر فرما دیئے اور فضائل سے مراد دراصل خصائص یا مخصوص معجزات ہیں جو دوسروں کو عطا نہیں ہوئے۔ مثلاً موسیٰ (علیہ السلام) سے اللہ تعالیٰ نے اس دنیا میں اور اس زمین پر براہ راست کلام کیا جو اور کسی نبی سے نہیں کیا۔ اسی طرح عیسیٰ (علیہ السلام) اللہ کے حکم سے مردوں کو زندہ کرتے اور مٹی کے پرندے بناکر الله کے حکم سے ان میں روح پھونک کر اڑا دیتے تھے۔
الله تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں حق باق کو پڑھنے ، سمجھنے ، اسے دل سے قبول کرنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق دے !
آمین یا رب العالمین
والحمد للہ رب العالمین