- شمولیت
- اپریل 27، 2013
- پیغامات
- 26,585
- ری ایکشن اسکور
- 6,762
- پوائنٹ
- 1,207
اللہ اور اس کے رسول کے مخالفین سے دوستی نہ رکھنے والے
اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
{لَا تَجِدُ قَوْمًا یُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْآخِرِ یُوَآدُّوْنَ مَنْ حَادَّ اللّٰہَ وَرَسُوْلَہٗ وَلَوْ کَانُوْا آبَائَ ہُمْ اَوْ اَبْنَآئَ ہُمْ أَوْ إِِخْوَانَہُمْ أَوْ عَشِیرَتَہُمْ أُوْلٰٓئِکَ کَتَبَ فِیْ قُلُوْبِہِمُ الْاِِیْمَانَ وَأَیَّدَہُمْ بِرُوحٍ مِّنْہُ وَیُدْخِلُہُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِہَا الْاَنْہٰرُ خٰلِدِیْنَ فِیْہَا رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمْ وَرَضُوْا عَنْہُ أُولٰٓئِکَ حِزْبُ اللّٰہِ أَ لَا إِنَّ حِزْبَ اللّٰہِ ہُمُ الْمُفْلِحُوْنَ o}[المجادلہ: ۲۲]
'' اللہ تعالیٰ پر اور قیامت کے دن پر ایمان رکھنے والوں کو آپ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) اللہ اور اس کے رسول کی مخالفت کرنے والوں سے محبت رکھتے، ہرگز نہ پائیں گے، گو وہ ان کے باپ یا ان کے بیٹے یا ان کے بھائی یا ان کے کنبہ قبیلے کے عزیز ہی کیوں نہ ہوں، یہی لوگ ہیں جن کے دلوں میں اللہ تعالیٰ نے ایمان کو لکھ دیا ہے اور جن کی تائید اپنی روح سے کی ہے اور جنہیں ان جنتوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں، جہاں ہمیشہ رہیں گے، اللہ ان سے راضی ہے اور یہ اللہ سے خوش ہیں،یہ خدائی لشکر ہے، آگاہ رہو! بے شک اللہ کے گروہ والے ہی کامیاب لوگ ہیں۔ ''
خدائی لشکر...: وہ لوگ مراد ہیں جن کے ہاں دین کا تعلق خونی تعلق سے مقدم اور تقویٰ کی قرابت، بدن کی قرابت سے زیادہ نزدیک ہے۔ اللہ کی وجہ سے ہی کسی سے محبت اور اس کی وجہ سے ہی کسی سے بغض رکھتے ہیں۔ جن سے اللہ تعالیٰ راضی ہو یہ بھی ان سے راضی ہیں، جن سے اللہ اور اس کا رسول ناراض ہو یہ بھی ناراض ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے دوستوں سے دوستی اور دشمنوں سے دشمنی رکھتے ہیں۔
دوسرے لوگوں سے محض ان مذکورہ امور کی بنیاد پر معاملہ نہیں کرتے، جن کی تردید قرآن میں آئی ہے یعنی حکمرانی، رشتہ داری، کنبہ اور صرف ان کی وجہ سے ہی تعلق قائم نہیں رکھتے کیونکہ یہ جاہلیت کے کاموں میں سے ہے اور بدبو دار قبیح، مکروہ، ناپاک اور موذی صورت ہے۔ اللہ اور اس کا رسول اس کو ناپسند کرتے ہیں۔
((قَالَ عَمْرٌو سَمِعْتُ جَابِرَ بْنَ عَبْدَ اللّٰہِ رضی اللہ عنہما قَالَ: کُنَّا فِی غَزَاۃٍ۔ قَالَ سُفْیَانُ مَرَّۃً فِی جَیْشٍ۔ فَکَسَعَ رَجُلٌ مِنَ الْمُھَاجِرِیْنَ رَجُلًا مِنَ الْأَنْصَارِ، فَقَالَ الْأَنْصَارِيُّ یَالَلْاَنْصَارِ، وَقَالَ الْمُھَاجِرِيُّ! یَا لَلْمُھَاجِرِیْنَ، فَسَمِعَ ذٰلِکَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم فَقَالَ: مَا بَالُ دَعْوَی جَاھِلِیَّۃِ؟)) قَالُوْا: یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ! کَسَعَ رَجُلٌ مِنَ الْمُھَاجِرِیْنَ رَجُلًا مِنَ الْأَنْصَارِ، فَقَالَ: دَعُوْھُا فَإِنَّھَا مُنْتِنَۃٌ۔ فَسَمِعَ بِذٰلِکَ عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ اُبَیٍّ فَقَالَ: فَعَلُوْھَا ؟ اَمَا وَاللّٰہِ لَئِنْ رَجَعْنَا اِلَی الْمَدِیْنَۃِ لَیُخْرِجَنَّ الْأَعَزُّ مِنْھَا الْاَذَلَّ۔ فَبَلَغَ النَّبِيَّ صلی اللہ علیہ وسلم فَقَامَ عُمَرُ فَقَالَ: یَا َرسُوْلَ اللّٰہِ، دَعْنِیْ اَضْرِبْ عُنُقَ ھٰذَا الْمُنَافِقِ فَقَالَ النَّبِیُّ صلی اللہ علیہ وسلم دَعْہُ لَا یَتَحَدَّثُ النَّاسُ اَنَّ مُحَمَّدًا یَقْتُلُ أَصْحَابَہُ'' وَکَانَتِ الْأَنْصَارُ أَکْثَرَ مِنَ الْمُھَاجِرِیْنَ حِیْنَ قَدِمُوا الْمَدِیْنَۃَ، ثُمَّ اِنَّ الْمُھَاجِرِیْنَ کَثَرُ وا بَعْدُ۔))1
''سیّدنا جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں: ہم غزوۂ تبوک کے سفر میں تھے کہ... امام بخاری رحمہ اللہ کے استاذ کے شیخ جناب سفیان رحمہ اللہ نے یہ حدیث بیان کرتے ہوئے ایک بار ''جیش'' کا لفظ استعمال کیا، یعنی ہم ایک لشکر میں تھے کہ: مہاجرین میں سے ایک آدمی نے انصار کے ایک آدمی کو لات مار دی۔ انصاری نے ہانک لگا دی، اے انصاریو! دوڑو۔ اُدھر مہاجرین نے آواز لگا دی، اے مہاجرین! دوڑو۔ یہ آوازیں جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سنیں تو دریافت فرمایا: قصہ کیا ہے؟ یہ جاہلیت کی پکار کیسی ہے؟ لوگوں نے بتایا کہ اے اللہ کے رسول! ایک مہاجر نے ایک انصاری کو لات ماری ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس طرح کی جاہلیت والی پکار کو چھوڑ دو۔ یہ نہایت ناپاک باتیں ہیں۔ عبد اللہ بن ابی ابن سلول نے جب یہ بات سنی تو کہنے لگا: اچھا! اب نوبت یہاں تک پہنچ گئی ہے۔ اللہ کی قسم! جب ہم مدینہ منورہ واپس لوٹیں گے تو ہم میں سے عزت والا مدینہ سے ذلیلوں کو نکال باہر کرے گا۔ اس کی خبر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ملی تو جناب عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے کھڑے ہوکر عرض کیا: اے اللہ کے رسول! مجھے اجازت دیں کہ میں اس منافق کو ختم کردوں۔ مگر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اسے چھوڑ دو تاکہ لوگ یہ نہ کہیں کہ محمد( صلی اللہ علیہ وسلم ) اپنے ساتھیوں کو قتل کرا دیتے ہیں۔ جب مہاجرین مدینہ منورہ آئے تھے تو انصار کی تعداد سے ان کی تعداد کم تھی۔ مگر بعد میں مہاجرین کی تعداد انصار سے زیادہ ہوگئی۔''
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1 صحیح بخاري، کتاب التفسیر، باب: قولہ سواء علیہم استغفرت لہم ام لم تستغفرلہم لن یغفر اللّٰہ لہم؍ حدیث: ۴۹۰۵۔