محمد ارسلان
خاص رکن
- شمولیت
- مارچ 09، 2011
- پیغامات
- 17,859
- ری ایکشن اسکور
- 41,096
- پوائنٹ
- 1,155
بسم اللہ الرحمن الرحیم
اللہ تعالیٰ پر ایمان
اللہ تعالیٰ پر ایمان چار امور پر مشتمل ہے:
اللہ تعالیٰ کے وجود پر ایمان
اللہ تعالیٰ کے وجود پر عقل،فطرت ،حس اور شریعت سبھی چیزیں دلالت کرتی ہیں۔
وجود باری تعالیٰ پر فطری دلائل
ہر مخلوق کا اپنے خالق پر ایمان کی ھالت میں پیدا ہونا ایک ایسا فطری اور پیدائشی وصف ہے جو غور و فکر اور علم کے بغیر اس کی جبلت میں شامل ہے،لہذا کوئی فرد فطرت کے اس تقاضے سے ہرگز نہیں پھرتا مگر یہ کہ کوئی غلط ماحول اس کے دل پر ایسے نقوش بٹھا دے جو اسے اس کی فطرت سے پھیر دیں۔جیسا کہ نبی ﷺ کے اس ارشاد سے واضح ہے:
"ما من مولود الا یولد علی الفطرۃ فابواہ یھودانہ او ینصرانہ او یمجسانہ"
وجود باری تعالیٰ پر عقلی دلائل"ہر بچہ فطرت ہی پر پیدا ہوتا ہے،پھر اس کے ماں باپ اسے یہودی یا عیسائی یا مجوسی بنا دیتے ہیں۔"(صحیح بخاری،الجنائز)
تمام مخلوقات س پہلے ان کے خلاق اور موجد کا موجود ہونا شرط لازم ہے کیونکہ کسی فرد یا کسی چیز کا از خود ،اتفاقی یا حادثاتی طور پر وجود میں آ جانا قطعا نا ممکن ہے۔اور وہ اس لیے کہ کوئی چیز اپنے آپ کو خود پیدا نہیں کر سکتی کیونکہ وہ اپنے وجود سے پہلے معدوم ہوتی ہے اور جو چیز معدوم ہو وہ خالق کس طرح ہو سکتی ہے؟
اسی طرح کسی چیز کا اچانک اتفاقیہ یا حادثاتی طور پر وجود پا جانا بھی ناممکن ہے کیونکہ ہر حادث ،یعنی نئی چیز کے لیے کسی محدث ،یعنی وجود بخشنے والے کا موجود ہونا لازمی ہے۔مزید برآں یہ حقیقت بھی پیش نظر رہنی چاہیے کہ اس حادث کا وجود ایک مستقل دلفریب نظام،مناسب ترتیب ،اسباب و مسببات اور کائنات کی بعض چیزوں کے درمیان مضبوط باہمی تعلق و ارتباط پر منحصر ہونا،اس بات کی مکمل نفی کرتا ہے کہ اس کا وجود محض ایک حادثہ یا اتفاق ہے ۔اگر موجودات اپنی اصل میں کسی نظم کی پابند ہونے کی بجائے دفعتا ایک اتفاق کا نتیجہ ہوتیں تو اب تک ان کی بقا اور ارتقاء یعنی بتدریج نشونما کیوں کر باقاعدہ منظم پیمانے پر ہوتی؟
جب ان مخلوقات کا خودزاد ہونا یا اچانک اتفاقی اور حادثاتی طور پر پیدا ہو جانا محال ہے تو یہ حقیقت روز روشن کی طرح ثابت ہو جاتی ہے کہ ان سب چیزوں کا کوئی موجد و خالق ضرور ہے اور وہ اللہ تعالیٰ ہی ہے جو سارے جہانوں کا پروردگار ہے۔اللہ تعالیٰ نے اس عقلی اور قطعی دلیل کا حوالہ خود"سورہ طور" میں یوں دیا ہے:
أَمْ خُلِقُوا۟ مِنْ غَيْرِ شَىْءٍ أَمْ هُمُ ٱلْخَٰلِقُونَ ﴿35﴾
یعنی وہ بغیر خالق کے پیدا نہیں ہوئے اور نہ انہوں نے خود اپنے آپ کو پیدا کیا ہے،پس ثابت ہوا کہ ان کا کوئی بنانے والا ضرور موجود ہے،اور وہ اللہ تبارک و تعالیٰ ہی ہے۔یہی وجہ ہے کہ جب حضرت جبیر بن معطم رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ ﷺ کو "سورہ طور" کی یہ آیات تلاوت کرتے ہوئے سنا:ترجمہ: کیا وہ بغیر کسی خالق کے پیدا ہو گئے ہیں یا وہ خود خالق ہیں (سورۃ الطور،آیت 35)
أَمْ خُلِقُوا۟ مِنْ غَيْرِ شَىْءٍ أَمْ هُمُ ٱلْخَٰلِقُونَ ﴿٥٣35﴾أَمْ خَلَقُوا۟ ٱلسَّمَٰوَٰتِ وَٱلْأَرْضَ ۚ بَل لَّا يُوقِنُونَ ﴿36﴾أَمْ عِندَهُمْ خَزَآئِنُ رَبِّكَ أَمْ هُمُ ٱلْمُصَۣيْطِرُونَ ﴿37﴾
تو اس وقت حالت کفر میں ہونے کے باوجود وہ بے ساختہ بول اُٹھے:ترجمہ: کیا وہ بغیر کسی خالق کے پیدا ہو گئے ہیں یا وہ خود خالق ہیں یا انہوں نے آسمانوں اور زمین کوبنایا ہے نہیں بلکہ وہ یقین ہی نہیں کرتے کیا ان کے پاس آپ کے رب کے خزانے ہیں یا وہ داروغہ ہیں (سورۃ الطور،آیت 35تا37)
مزید وضاحت کے لیے ایک مثال پیش خد مت ہے:"میرا دل شکستہ،بدحال اور اڑا اڑا سا ہو گیا۔اور یہ پہلی بار ہوا جب ایمان نے میرے دل میں گھر کر لیا تھا۔"(صحیح بخاری،المغازی)
اگر کوئی شخص آپ کو کسی ایسے مضبوط بلند و بالا محل کی خبر دے جس میں چاروں طرف باغات ہوں،ان کے درمیان نہریں بہہ رہی ہوں،تخت پوش لگے ہوں ،نرم و نازک بچھونے بچھے ہوئے ہوں اور تزئین و آرائش کے ہر سامان سے محل خوب سجا ہوا ہو،پھر وہ شخص یہ کہے کہ یہ محل اور اس میں موجود سارا سامان بغیر کسی بنانے والے کے خودبخود وجود میں آ گیاتو آپ نہ صرف پوری قوت سے اس کا انکار کر دیں گے اوراسے جھٹلائیں گے بلکہ اسے پاگل قرار دیں گے۔
کیا اس مثال کے بعد بھی اس بات کا کوئی جواز ہے کہ وسیع کائنات زمین،آسمان،سورج،چاند،ستارے اور سیاروں کی بے مثال گردشوں کے سلسلے ،صحرا وکوہسار سمندر اور ندی نالے محض ایک اتفاق یا حادثے کی بنا پر خودبخود وجود میں آگئے ہیں؟
وجود باری تعالیٰ پر شرعی دلائل
بلاشبہ تمام آسمانی کتابیں اللہ تعالیٰ کے وجود پر شاہد ہیں اور مخلوق کی مصلحتوں کے سلسلے میں جو احکام ان کتب سماویہ میں آئے ہیں،وہ سب اس حقیقت عظمی کی دلیل ہے کہ بلاشبہ یہ کتابیں ایک نہایت دانا ،حکیم اور اپنی مخلوق کی مصلحتوں کو خوب جاننے والے پرودگار کی طرف سے ہیں اور ان آسمانی کتابوں میں جن تکوینی باتوں کی امر واقع نے تصدیق کی ہے وہ بھی اس بات کی دلیل ہیں کہ بلاشبہ یہ تمام چیزیں ایک ایسے رب کی طرف سے ہیں جو ان تمام چیزوں کی ایجاد پر پوری قدرت رکھتا ہے جن کے بارے میں اس نے خبر دی ہے۔
وجود باری تعالیٰ پر حسی دلائل
حسی دلائل دو قسم کے ہیں
(1)ہم دعا کرنے والوں کی دعاؤں کو پورا ہوتے ہوئے دیکھتے اور سنتے ہیں،اسی طرح انتہائی دکھ اور تکالیف میں مبتلا لوگوں کی فریاد رسی بھی کوئی پوشیدہ بات نہیں ہے۔یہ چیزیں اللہ تعالیٰ کی ہستی پر دلالت کرتی ہیں۔اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
وَنُوحًا إِذْ نَادَىٰ مِن قَبْلُ فَٱسْتَجَبْنَا لَهُۥ
ایک اور مقام پر ارشاد ہوتا ہے:ترجمہ: اور نوح کو جب اس نے اس سے پہلے پکارا پھر ہم نے اس کی دعا قبول کر لی (سورۃ الانبیاء،آیت 76)
إِذْ تَسْتَغِيثُونَ رَبَّكُمْ فَٱسْتَجَابَ لَكُمْ
صحیح بخاری میں حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے۔انہوں نے فرمایا:ترجمہ:"اس وقت کو یاد کرو جب تم اپنے رب سے فریاد کر رہے تھے ،پھر اللہ تعالیٰ نے تمہاری فریاد سن لی۔(سورۃ الانفال،آیت 9)
"جمعہ کے دن ایک اعرابی اس وقت (مسجد نبوی میں)داخل ہوا جب نبی ﷺ جمعہ کا خطبہ دے رہے تھے،اس نے عرض کی!اے اللہ کے رسول!(بارش نہ ہونے کی وجہ سے )تمام مال و متاع تباہ ہو گیا اور اہل و عیال بھوکے ہیں،اللہ تعالیٰ سے ہمارے لیے(بارش کی)دعا فرمائیں۔آپ ﷺ نے ہاتھ اٹھائے اور دعا فرمائی۔چاروں طرف سے پہاڑوں کے مانند بادل امڈ آ ئے ،آپ اپنے منبر سے نیچے بھی نہ اُتر پائے تھے کہ میں نے بارش کی بوندیں آپ کی داڑھی مبارک پر پڑتے دیکھیں۔دوسرے جمعہ کو وہی یا کوئی دوسرا اعرابی کھڑا ہوا اور عرض کی:اے اللہ کے رسول !(بارش کی کثرت سے )ہمارے گھر منہدم ہو گئے ہیں۔اور مال و متاع (پانی میں) غرق ہو گیا ہے،آپ اللہ تعالیٰ سے ہمارے لیے (بارش تھمنے) کی دعا فرمائیں،رسول اللہ ﷺ نے دست مبارک اٹھائے اور یہ دعا فرمائی:اللھم حوالینا ولا علینا(اے اللہ !ہمارے اردگرد نازل فرما،ہم پر نہ برسا)پھر آپ نے جوں ہی ادھر ادھر اطراف میں اشارہ فرمایا ،بادلوں میں شگاف پڑ گیا اور وہ فورا چھٹ گئے۔"(صحیح بخاری،الجمعۃ،باب الاستسقاء فی الخطبہ یوم الجمعہ)
(2) بہت سے لوگوں نے انبیاء علیہم السلام کی نشانیوں کو جنہیں معجزات کہا جاتا ہے خود دیکھا ہے یا معتبر ذرائع سے ان کے بارے میں سنا ہے۔ان رسووں کے بھیجنے والے اللہ تعالیٰ کی ذات کے وجود پر زبردست دلیل کی حیثیت رکھتے ہیں۔معجزے انسانی فہم سے بالا تر ہیں۔اللہ تعالیٰ نے انہیں اپنے رسولوں کی تائید و نصرت کے لیے جاری فرمایا تھا۔
معجزات کی چند مثالیں درج ذیل ہیں:
1. پہلی مثال حضرت موسی علیہ السلام کے اس معجزے کی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں سمندر پر لاٹھی مارنے کا حکم فرمایا،جونہی موسی علیہ السلام نے فرمان الہی کی تعمیل کی ،سمندر میں بارہ خشک راستے بن گئے ،اور ان راستوں کے درمیان پانی پہاڑوں کے مانند کھڑا ہو گیا۔اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
فَأَوْحَيْنَآ إِلَىٰ مُوسَىٰٓ أَنِ ٱضْرِب بِّعَصَاكَ ٱلْبَحْرَ ۖ فَٱنفَلَقَ فَكَانَ كُلُّ فِرْقٍۢ كَٱلطَّوْدِ ٱلْعَظِيمِ ﴿63﴾
2. دوسری مثال حضرت عیسی علیہ السلام کے مردوں کو زندہ کرنے اور اللہ تعالیٰ کے حکم سے انہیں قبروں سے باہر نکالنے والے معجزے کی ہے،قرآن مجید میں حضرت عیسی علیہ السلام کی بابت منقول ہے:ترجمہ: پھر ہم نےموسیٰ کو وحی کی کہ اپنی لاٹھی کو سمندر پر مار پھر پھٹ گیا پھر ہر ٹکڑا بڑے ٹیلے کی طرح ہو گیا (سورۃ الشعراء،آیت 63)
وَأُحْيِي الْمَوْتَىٰ بِإِذْنِ اللَّهِ
ترجمہ:"اور میں زندہ کرتا ہوں مُردوں کو اللہ تعالیٰ کے حکم سے۔"(سورۃ آل عمران،آیت 49)
اور ایک مقام پر یوں ارشاد ہوا ہے:
وَإِذْ تُخْرِجُ ٱلْمَوْتَىٰ بِإِذْنِى
3. تیسری مثال حضرت محمد ﷺکے معجزہ شق القمر(چاندکے دو ٹکڑے ہو جانے)کی ہے۔جن قریش مکہ نے آپ سے معجزے کا مطالبہ کیا تو آپ نے چاند کی طرف اشارہ فرمایا۔وہ دو حصوں میں پھٹ گیا اور لوگوں نے اس کا سر عام مشاہدہ کیا۔اسی کے بارے میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:ترجمہ:اور جب تم مُردوں کو نکال کر کھڑا کر لیتے تھے میرے حکم سے۔"(سورۃ المائدہ،آیت 110)
ٱقْتَرَبَتِ ٱلسَّاعَةُ وَٱنشَقَّ ٱلْقَمَرُ ﴿1١﴾وَإِن يَرَوْا۟ ءَايَةًۭ يُعْرِضُوا۟ وَيَقُولُوا۟ سِحْرٌۭ مُّسْتَمِرٌّۭ ﴿2﴾
ان تمام معجزات و علامات کا تعلق محسوسات ،یعنی سننے اور دیکھنے سے ہے۔اللہ تعالیٰ نے انہیں اپنے رسولوں کی تائید و نصرت کے لیے جاری فرمایا تھا،یہ تمام معجزات اللہ تعالیٰ کی ہستی پر دلالت کرتے ہیں۔ترجمہ: قیامت قریب آ پہنچی اور چاند شق ہوگیا اور اگر (کافر) کوئی نشانی دیکھتے ہیں تو منہ پھیر لیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ ایک ہمیشہ کا جادو ہے (سورۃ القمر،آیت1-2)
اسلام کے بنیادی عقائد از شیخ صالح العثیمین