کلیم حیدر
ناظم خاص
- شمولیت
- فروری 14، 2011
- پیغامات
- 9,747
- ری ایکشن اسکور
- 26,381
- پوائنٹ
- 995
اللہ تعالیٰ کا نازل کردہ قرآن اور سرمایہ دارانہ نظام کا کالا قانون
قرآن اور قانون دو مختلف ضابطۂ حیات اور متضاد تہذیبیں ہیں۔ ان کا طرز معیشت ان کا طرز معاشرت ان کا نظام حکومت اور مالیاتی نظام ایک دوسرے سے مختلف اور جدا جدا ہے قرآن و حدیث جس چیز کو حرام قرار دیتے ہیں کالا قانون اس برائی کو تحفظ فراہم کرتا ہے۔
اس طرح طبقاتی نظام معرضِ وجود میں آتا ہے امیر امیر تر ہوتے جاتے ہیں اور غریب غریب کی لکیر سے نیچے چلے جاتے ہیں۔مثال کے طور پر قرآن و حدیث نے سود اور ٹیکسوں کو حرام قرار دیا ہے تو کالے قانون نے سود اور ٹیکسوں کو تحفظ فراہم کیا ہے کیونکہ یہ اسلام کے برعکس خلاف فطرت نظام ہے۔ اسلام کی بنیاد قرآن و حدیث کے سنہری اصول ہیں اور اسلام کے برعکس سرمایہ دارانہ نظام کی بنیاد خود ساختہ قوانین ہیں، سرمایہ دار اور جاگیر دار مل کر اپنے مفادات کے تحفظ کے لئے قانون سازی کرتے ہیں اور عوام پر مختلف نوعیت کے ٹیکس عائد کرتے ہیں ان ٹیکسوں کے ذریعے دولت کو کھینچ کر خزانے میں لے جاتے ہیں اور خزانے پر سرمایہ دار اور جاگیر دار حکمرانوں کا قبضہ ہوتا ہے۔ وہ خزانے سے تنخواہیں لیتے ہیں بھاری مراعات لیتے ہیں، قرضے لے کر معاف کرواتے ہیں اور ترقیاتی کام کرواتے وقت کمیشن کھاتے ہیں
1. اس وقت اسلام کے مد مقابل سرمایہ دارانہ نظام ہے بلکہ مسلمان ممالک خود اس باطل معاشی نظام میں مبتلا ہیں سرمایہ دارانہ نظام کی مناسبت سے اسلام کا معاشی، سیاسی اور عسکری پہلو اجاگر کرنے کی ضرورت ہے جو نظام فطرت کے مطابق ہو گا عوام اسے قبول کریں گے اور خلافِ فطرت نظام مسترد ہو جائے گا۔
2. سرمایہ دارانہ نظام یہ ہے کہ غریب عوام سے ٹیکس لے کر امیر حکمرانوں کو دیئے جائیں وہ خرچ کرنے میں با اختیار ہوں گے۔ اسلام نے ٹیکسوں کو حرام قرار دیا ہے کیونکہ یہ خلافِ فطرت فعل ہے جب سو فی صد ٹیکس ختم ہوں گے تو سو فی صد مہنگائی ختم ہو گی پورا ملک ٹیکس فری ہونے سے بے پناہ سرمایہ کاری ہو گی معیشت کو فروغ ملے گا بے روزگاری ختم ہو گی پھر امیروں سے عشر زکوٰۃ لے کر غریبوں میں تقسیم کی جائے گی اس طرح مسلم معاشرے میں دولت کی گردش ہوتی ہے اور معاشرے کے بے سہارا لوگوں کی مالی معاونت ہوتی ہے۔
1. رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: (لَا یَدْخُلُ الْجَنَّةَ صَاحِبُ مَكَسٍ يَعْنِيْ الْعَشَّارُ) (دارمی ص: ۲۰۹، مسند احمد ج: ۴، ص:۱۰)
ترجمہ: ’’نہیں داخل ہو گا جنت میں ٹیکس وصول کرنے والا یعنی تجارتی عشر لینے والا۔‘‘ (المستدرک ج:۱، ص:۴۰۴)
2. رسول اللہ ﷺ نے مزید ارشاد فرمایا: (اِنَّ صَاحِبَ الْمَکَسِ فِیْ النَّارِ) (مسند احمد ج:۴، ص: ۱۰۹۔ الترغیب والترہیب ص: ۵۶۸)
ترجمہ: ’’بے شک ٹیکس وصول کرنے والا جہنم میں ہو گا۔‘‘
3. رسول اللہ ﷺ نے مزید ارشاد فرمایا: (یَا مَعْشَرَ الْعَرْبِ اِحْمَدُ وَاللہَ الَّذِیْ رَفَعَ عَنْکُمْ الْعَشُوْرَ) (مسند احمد ج:۱، ص:۱۹۰)
ترجمہ: ’’اے عرب کے گروہ اللہ کی حمد و ثناء بیان کرو جس نے اُٹھا لیا ہے تم سے عشور کو۔‘‘ (مجمع الزوائد ج۳، ص:۱۸۷، مصنف ابن ابی شیبہ ج:۳، ص:۱۹۷)
اگر اسلام نے سود اور ٹیکسوں کو حرام قرار دیا ہے تو سود اور ٹیکسوں کے بغیر اسلامی رفاہی سلطنت کو چلانے کا طریقہ بھی بتلایا ہے۔
علامہ اقبالؒ نے بڑے خوبصورت انداز میں اس ’خاص ترکیب‘ کی جانب اشارہ کیا تھا اسے سمجھنے کی ضرورت ہے۔
اپنی ملت پر قیاس اقوام مغرب سے نہ کر
خاص ہے ترکیب میں قوم رسول ہاشمی
1. مسلم ممالک میں خلفشار اور انتشار کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ قرآن پاک اور کالے قانون کے مابین الجھے ہوئے ہیں لہٰذا مسلم امہ کو دو متضاد ضابطہ حیات میں سے کسی ایک نظام کو اختیار کرنا ہو گا۔ ’’قرآن و حدیث کے سنہری اصول یا سرمایہ دارانہ نظام کے کالے قوانین۔‘‘ خاص ہے ترکیب میں قوم رسول ہاشمی
اگر دو بیڑیوں میں پاؤں رکھیں گے تو ذلت و رسوائی سے دو چار ہوں گے دو بیڑیوں میں پاؤں رکھنے والے کامیاب نہیں ہوتے۔