• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اللہ تعالیٰ کی الوہیت پر ایمان

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,859
ری ایکشن اسکور
41,096
پوائنٹ
1,155
بسم اللہ الرحمن الرحیم​
اللہ تعالیٰ کی الوہیت پر ایمان

صرف اللہ تعالیٰ ہی تن تنہا حقیقی معبود ہے،کوئی اس کا شریک نہیں،اور "الہ" سے مراد وہ ہستی ہے جس کی محبت اور تعظیم کے ساتھ عبادت یا پرستش کی جائے۔اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
وَإِلَٰهُكُمْ إِلَٰهٌۭ وَٰحِدٌۭ ۖ لَّآ إِلَٰهَ إِلَّا هُوَ ٱلرَّحْمَٰنُ ٱلرَّحِيمُ﴿163﴾
ترجمہ: اور تمہارا معبود ایک ہی معبود ہے جس کے سوا کوئی معبود نہیں بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے (سورۃ البقرۃ،آیت 163)
ارشاد ہوتا ہے:
شَهِدَ اللَّهُ أَنَّهُ لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ وَالْمَلَائِكَةُ وَأُولُو الْعِلْمِ قَائِمًا بِالْقِسْطِ ۚ لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ
ترجمہ: اللہ تعالیٰ اور فرشتے اور اہل علم اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور وہ انصاف کو قائم رکھنے والا ہے اس غالب حکمت والے کے سوا کوئی معبود نہیں (سورۃ آل عمران،آیت 18)
پس اللہ تعالیٰ کے ساتھ جس کو بھی معبود سمجھ کر پوجا جائے اس کا الہ ہونا غلط اور باطل ہے۔اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
ذَٰلِكَ بِأَنَّ ٱللَّهَ يُولِجُ ٱلَّيْلَ فِى ٱلنَّهَارِ وَيُولِجُ ٱلنَّهَارَ فِى ٱلَّيْلِ وَأَنَّ ٱللَّهَ سَمِيعٌۢ بَصِيرٌۭ ﴿62﴾
ترجمہ: وہ اس لیے کہ الله رات کو دن میں اور دن کو رات میں داخل کیا کرتا ہے اور بے شک الله سننے والا دیکھنے والا ہے (سورۃ الحج،آیت 62)
اگر کوئی شخص کسی کو "الہ" یا "معبود" کہنے لگے تو اس سے اس کو "حق الوہیت" حاصل نہیں ہو جاتا۔"لات" اور "عزی" کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
إِنْ هِىَ إِلَّآ أَسْمَآءٌۭ سَمَّيْتُمُوهَآ أَنتُمْ وَءَابَآؤُكُم مَّآ أَنزَلَ ٱللَّهُ بِهَا مِن سُلْطَٰنٍ
ترجمہ: وہ تو صرف نام ہی نام ہیں جو تم نے اور تمہارے باپ دادا نے گھڑ لئے ہیں۔ اللہ نے تو ان کی کوئی سند نازل نہیں کی (سورۃ النجم،آیت 23)
حضرت یوسف علیہ السلام نے جیل میں اپنے دو ساتھیوں سے فرمایا تھا:
يَٰصَىٰحِبَىِ ٱلسِّجْنِ ءَأَرْبَابٌۭ مُّتَفَرِّقُونَ خَيْرٌ أَمِ ٱللَّهُ ٱلْوَٰحِدُ ٱلْقَهَّارُ ﴿39﴾ مَا تَعْبُدُونَ مِن دُونِهِۦ إِلَّآ أَسْمَآءًۭ سَمَّيْتُمُوهَآ أَنتُمْ وَءَابَآؤُكُم مَّآ أَنزَلَ ٱللَّهُ بِهَا مِن سُلْطَٰنٍ ۚ
ترجمہ: اے قید خانہ کے رفیقو کیا کئی جدا جدا معبود بہتر ہیں یا اکیلا الله جو زبردست ہے تم اس کے سوا کچھ نہیں پوجتے مگر چند ناموں کو جو تم نے اور تمہارے باپ داداؤں نے مقرر کر لیے ہیں الله نے ان کے متعلق کوئی سند نہیں اتاری (سورۃ یوسف،آیت 39-40)
اسی لیے تمام پیغمبر علیھم السلام اپنی اپنی قوم سے یہی کہتے رہے:
ٱعْبُدُوا۟ ٱللَّهَ مَا لَكُم مِّنْ إِلَٰهٍ غَيْرُهُۥ ۖ
ترجمہ: اے میری قوم الله کی بندگی کرو اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں (سورۃ المومنون،آیت 23)
لیکن مشرکین نے اس حقیقت سے انکار کیا اور اللہ کے علاوہ کچھ دوسرے الہ (معبود) بنا کر اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے ساتھ ان کی بھی پرستش کرنے لگے۔وہ (بوقت ضرورت)ان سے مدد کے طالب ہوتے اور استغاثہ و فریاد کرتے تھے ۔مشرکین کی طرف سے انہیں معبود بنا لینے کا رد اللہ تعالیٰ نے دو عقلی دلیلوں سے فرمایا ہے:

پہلی دلیل
جن کو لوگوں نے الہ (معبود) بنا رکھا ہے ان میں "الوہیت" کی صفات نہیں پائی جاتیں بلکہ وہ خود مخلوق ہیں،کسی بھی چیز کو پیدا کرنا ان کے بس کی بات نہیں،وہ اپنی پرستش کرنے والوں کو نہ کوئی نفع پہنچا سکتے ہیں اور نہ ان کی کوئی تکلیف دور کر سکتے ہیں۔نہ وہ ان کی زندگی کے مالک ہیں نہ موت کے ،نہ آسمان کی کوئی چیز ان کی ملکیت میں ہے اور نہ وہ اس کے شریک ہیں۔اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
وَٱتَّخَذُوا۟ مِن دُونِهِۦ ءَالِهَةًۭ لَّا يَخْلُقُونَ شَيْا وَهُمْ يُخْلَقُونَ وَلَا يَمْلِكُونَ لِأَنفُسِهِمْ ضَرًّۭا وَلَا نَفْعًۭا وَلَا يَمْلِكُونَ مَوْتًۭا وَلَا حَيَوٰةًۭ وَلَا نُشُورًۭا ﴿3﴾
ترجمہ: اور انہوں نے الله کے سوا ایسے معبود بنا رکھے ہیں جو کچھ بھی پیدا نہیں کر سکتے حالانکہ وہ خود پیدا کیے گئے ہیں اور وہ اپنی ذات کے لیے نقصان اور نفع کے مالک نہیں اور موت اور زندگی اور دوبارہ اٹھنے کے بھی مالک نہیں (سورۃ الفرقان،آیت 3)
ایک اور جگہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
قُلِ ٱدْعُوا۟ ٱلَّذِينَ زَعَمْتُم مِّن دُونِ ٱللَّهِ ۖ لَا يَمْلِكُونَ مِثْقَالَ ذَرَّةٍۢ فِى ٱلسَّمَٰوَٰتِ وَلَا فِى ٱلْأَرْضِ وَمَا لَهُمْ فِيهِمَا مِن شِرْكٍۢ وَمَا لَهُۥ مِنْهُم مِّن ظَهِيرٍۢ ﴿22﴾وَلَا تَنفَعُ ٱلشَّفَٰعَةُ عِندَهُۥ إِلَّا لِمَنْ أَذِنَ لَهُۥ ۚ
ترجمہ: کہہ دوالله کے سوا جن کا تمہیں گھمنڈ ہے انہیں پکارو وہ نہ تو آسمان ہی میں ذرّہ بھر اختیار رکھتے ہیں اور نہ زمین میں اور نہ ان کا ان میں کچھ حصہ ہے اور نہ ان میں سے الله کا کوئی مددکار ہے اور اس کے ہاں سفارش نفع نہ دے گی مگر اسی کو جس کے لیے وہ اجازت دے (سورۃ سبا،آیت 22-23)
ایک اور مقام پر ارشاد ہے:
أَيُشْرِكُونَ مَا لَا يَخْلُقُ شَيْا وَهُمْ يُخْلَقُونَ ﴿191﴾وَلَا يَسْتَطِيعُونَ لَهُمْ نَصْرًۭا وَلَآ أَنفُسَهُمْ يَنصُرُونَ ﴿192﴾
ترجمہ: کیا ایسوں کو شریک بناتے ہیں جو کچھ بھھی نہیں بنا سکتے اور وہ خود بنائے ہوئے ہیں اور نہ وہ ان کی مدد کر سکتے ہیں اور نہ اپنی ہی مدد کر سکتے ہیں (سورۃ الاعراف،آیت 191-192)
جب ان معبودان باطلہ کی بے چارگیوں کا یہ حال ہے تو پھر ان کو حقیقی معبود ٹھہرانا بہت بڑا فریب اور پرلے درجے کی بے وقوفی ہے ۔

دوسری دلیل
ان مشرکین کو بھی اس بات کا یقین اور اعتراف تھا کہ بلاشبہ اللہ تعالیٰ ہی اکیلا رب اور خالق ہے ،اسی کے ہاتھ میں ہر چیز کا اختیار ہے،وہ پناہ دیتا ہے۔اس کے مقابلے میں کوئی کسی کو پناہ نہیں دے سکتا،غرضیکہ کوئی اس کا ہم پلہ نہیں۔اس چیز میں "ربوبیت کی یکتائی"کی طرح اس کی "الوہیت کی یکتائی" بھی شامل ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
يَٰٓأَيُّهَا ٱلنَّاسُ ٱعْبُدُوا۟ رَبَّكُمُ ٱلَّذِى خَلَقَكُمْ وَٱلَّذِينَ مِن قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ ﴿21﴾ٱلَّذِى جَعَلَ لَكُمُ ٱلْأَرْضَ فِرَٰشًۭا وَٱلسَّمَآءَ بِنَآءًۭ وَأَنزَلَ مِنَ ٱلسَّمَآءِ مَآءًۭ فَأَخْرَجَ بِهِۦ مِنَ ٱلثَّمَرَٰتِ رِزْقًۭا لَّكُمْ ۖ فَلَا تَجْعَلُوا۟ لِلَّهِ أَندَادًۭا وَأَنتُمْ تَعْلَمُونَ﴿22﴾
ترجمہ: اے لوگو اپنے رب کی عبادت کرو جس نے تمہیں پیدا کیا اور انہیں جو تم سے پہلے تھے تاکہ تم پرہیزگار ہو جاؤ جس نے تمہارے لیے زمین کو بچھونا اور آسمان کو چھت بنایا اور آسمان سے پانی اتارا پھر اس سے تمہارے کھانے کے لیے پھل نکالے سو کسی کو الله کا شریک نہ بناؤ حالانکہ تم جانتے بھی ہو (سورۃ البقرۃ،آیت 21-22)
اور ایک مقام پر یوں ارشاد ہوا:
وَلَئِن سَأَلْتَهُم مَّنْ خَلَقَهُمْ لَيَقُولُنَّ ٱللَّهُ ۖ فَأَنَّىٰ يُؤْفَكُونَ ﴿87﴾
ترجمہ: اور اگر آپ ان سے پوچھیں کہ انہیں کس نے پیدا کیا ہے تو ضرور کہیں گے الله نے پھر کہا ں بہکے جا رہے ہیں (سورۃ الزخرف،آیت 87)
اور ایک جگہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
قُلْ مَن يَرْزُقُكُم مِّنَ ٱلسَّمَآءِ وَٱلْأَرْضِ أَمَّن يَمْلِكُ ٱلسَّمْعَ وَٱلْأَبْصَٰرَ وَمَن يُخْرِجُ ٱلْحَىَّ مِنَ ٱلْمَيِّتِ وَيُخْرِجُ ٱلْمَيِّتَ مِنَ ٱلْحَىِّ وَمَن يُدَبِّرُ ٱلْأَمْرَ ۚ فَسَيَقُولُونَ ٱللَّهُ ۚ فَقُلْ أَفَلَا تَتَّقُونَ ﴿31﴾فَذَٰلِكُمُ ٱللَّهُ رَبُّكُمُ ٱلْحَقُّ ۖ فَمَاذَا بَعْدَ ٱلْحَقِّ إِلَّا ٱلضَّلَٰلُ ۖ فَأَنَّىٰ تُصْرَفُونَ ﴿32﴾
ترجمہ: کہو تمہیں آسمان اور زمین سے کون روزی دیتا ہے یا کانوں اور آنکھوں کا کون مالک ہے اور زندہ کو مردہ سے کون نکلتا ہے اور مردہ کو زندہ سے کون نکلتا ہے اور سب کاموں کا کون انتظام کرتا ہے سو کہیں گے کہ اللہ تو کہہ دو کہ پھر (اللہ)سے کیوں نہیں ڈرتے یہی الله تمہارا سچا رب ہے حق کے بعد گمراہی کے سوا اور ہے کیا سوتم کدھر پھرے جاتے ہو (سورۃ یونس،آیت 31-32)
اسلام کے بنیادی عقائد از شیخ صالح العثیمین​
 
Top